ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
حدیث صحیح کے مراتب کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ سات درجات میں حدیثِ صحیح کی تقسیم سے عام طور پر جو مراد لے لیا گیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ تقسیم کے اندر اصلاً اعتراض نہیں ہے مگر اُس تقسیم کا بالعموم اہلِ علم نے جو معنیٰ و مفہوم مراد لیا ہے، وہ قابلِ توجہ اور قابلِ غور ہے۔ صحیح بخاری کی صحیح مسلم پر ترجیح یا رُجحان البخاری علی مسلم اکثر احادیث پر ہے۔ یعنی اغلب احادیث کا معیار اس طرح ہے مگر یہ قاعدہ و کلیہ نہیں کہ صحیح مسلم کی ہر حدیث، صحیح بخاری میں روایت کی ہوئی حدیث سے ادنیٰ ہوگی، ایسا نہیں ہے۔ ہر حدیث جس کی صحیح بخاری میں تخریج ہوئی، وہ صحیح مسلم کے اندر تخریج ہونے والی منفرد حدیث سے اعلیٰ ہوگی، یہ اطلاق ہر ہر حدیث پر نہیں ہو گا۔ یہ اُصول، قاعدہ اور کلیہ فرداً فرداً نہیں ہے، یہ من جملہ ہے۔ غالب اور اکثر احادیث اس طرح ہیں، اس لیے کتاب کا درجہ اس طرح ہے کہ صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر ترجیح دی جاتی ہے مگر کتاب کے اندر درج ہونے والی ہر ہر حدیث کی اپنی ترجیح، اپنی قوت، اپنی اصحیت اور اپنا مرتبہ ہے اور اُس کا انحصار اُس کی سند پر ہو گا۔
اس مؤقف پر ذیل میں ائمہ و محدثین کی تصریحات بیان کی جارہی ہیں:
علامہ ابن حجر عسقلانی کی تحقیق
مذکورہ بالا تمام نقد و نظر پر حافظ ابن حجر عسقلانی کا قول پیش کرتا ہوں۔ النکت علیٰ کتاب ابن الصلاح میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ابن الصلاح کی اسی ترتیب پر گفتگو کرتے ہوئے ایک فصل قائم کی ہے اور اس میں تنبیہ وارد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وذلک أن کون ما اتفقا علی تخریجه أقوی مما انفرد به واحد منهما له.
متفق علیہ حدیث اعلیٰ ہے۔ اُس کے بعد اس حدیثِ صحیح کا مرتبہ ہے جس میں دونوں (امام بخاری و امام مسلم) میں سے کوئی ایک منفرد ہو جائے
امام عسقلانی نے متفق علیہ کے بعد صحیح بخاری و صحیح مسلم کی کسی حدیث کو ترجیح نہیں دی۔ اس عدمِ ترجیح کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
أن الإسناد الذي اتفقا علی تخریجه یکون متنه أقوی من الإسناد الذي انفرد به واحد منهما.
جس حدیث پر امام بخاری و مسلم دونوں متفق ہوگئے، وہ سند تو ہر لحاظ سے منفرد پر اقویٰ ہوگئی اور مزید یہ کہ جس سند پر اتفاق ہوگیا، اُس کا متن بھی منفرد اسناد کے ساتھ ثابت متن کے مقابلے میں اقویٰ تصور ہوگا۔ یعنی امام بخاری اور امام مسلم کو حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے مساوی رکھا ہے۔ آپ مزید فرماتے ہیں:
نعم، قد یکون في ذلک الجانب أیضاً قوة من جهة أخری وهو أن المتن الذي تتعدد طرقه أقویٰ من المتن الذي لیس له إلا طریق واحدة.
ایک حدیث صحیح بخاری میں آئے یا صحیح مسلم میں آئے دونوں کی صحت پر قطعیت ہے مگر اُن کے اقویٰ ہو نے کی ایک جہت اور بھی ہے۔ وہ اقویٰ جہت یہ ہے کہ ایک متن وہ ہے جو صرف ایک طریق سے آیا ہے اور ایک متن وہ ہے جو کئی طرق سے آیا ہے، تو متعدد طرق سے آنے والا متن واحد طریق سے آنے والے متن سے اقویٰ ہوجائے گا۔ پھر فرمایا:
فالذي یظھر من ھٰذا أن لا یحکم لأحد الجانبین بحکم کلي.
اس اصول کے تحت یہ بات ثابت اور ظاہر ہوگئی کہ جانبین (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) میں سے کسی ایک پر حکمِ کلی نہیں لگایا جائے گا کہ ِاس کا درجہ اعلیٰ ہے اور اُس کا درجہ ادنیٰ ہے۔
امام عسقلانی اسی موضوع پر ایک اور قاعدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لأن الحدیث الذي ینفرد به مسلم مثلاً إذا فرض مجیئه من طرق کثیرة حتی تبلغ التواتر أو الشهرة القویة.
فرض کریں کہ ایک حدیث جو صحیح مسلم کے ساتھ منفرد ہے اور طرقِ (اسانید) کثیرہ سے اُس کا آنا ثابت ہو جائے اور بیشک وہ طرق حدِ تواتر کو نہ پہنچیں مگر شہرتِ قویہ کو پہنچ گئے ہیں اور ائمہ نے بھی ان طرق کو صحیح مانا تو:
لا یقال فیه: إن ما انفرد البخاري بتخریجه إذا کان فرداً لیس له إلا مخرج واحد أقویٰ من ذٰلک.
اس حدیث کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ حدیث جو صرف صحیح بخاری میں آئی ہے، وہ صحیح مسلم کے متعدد طرق والی حدیث سے اقویٰ ہے۔
فلیحمل إطلاق ما تقدم من تقسیمه علی الأغلب الأکثر.
(عسقلانی، النکت، ص: 365۔366)
پس اس اطلاق سے یہ ثابت ہوا کہ صحیح بخاری کا درجہ صحیح مسلم کے مقابلے میں اغلبیت اور اکثریت پر محمول کیے جانے کی وجہ سے اونچا ہے، یعنی من جملہ صحیح بخاری کا صحیح مسلم پر درجہ اونچا ہے، ایک ایک حدیث پر فرداً فرداً اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
میں نے اپنی گفتگو میں أغلبیہ اور أکثریہ کا لفظ استعما ل کیا تھا، وہ اصطلاح امام عسقلانی کے ان ہی کلمات سے بنائی ہے۔
امام ابن الہمام کی تحقیق
امام ابن الہمام حافظ ابن حجر عسقلانی کے شاگرد ہیں۔ آپ کی تصنیف فتح القدیر ہے جو الھدایہ کی شرح ہے۔ آپ کا مزار قاہرہ میں ہے۔ میں کئی بار اُن کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوا ہوں۔ امام ابن الہمام حنفی فتح القدیر میں اس حوالے سے باب النوافل میں لکھتے ہیں:
من قال أصح الأحادیث ما في الصحیحین ثم ما انفرد به البخاري ثم ما انفرد به مسلم ثم ما اشتمل علیٰ شرطھما من غیرھما، ثم ما اشتمل علی شرط أحدھما، تحکم لا یجوز التقلید فیه.
جس نے یہ کہا کہ مرتبہ میں اعلیٰ حدیث وہ ہے جو صحیحین میں ہے اور پھر وہ جو صرف صحیح بخاری میں ہے اور پھر وہ جو صرف صحیح مسلم میں ہے پھر وہ جو ان دونوں کی شرائط پر ہے مگر انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی پھر وہ جو اِن دونوں میں سے کسی ایک کی شرائط پر ہے۔ ایسا کہنا تَحَکُّمْ ہے، اس قول کی تقلید جائز نہیں ہے۔
غور کریں کہ ائمہ و علماء کتنی باریک باریک چیزوں کا لحاظ رکھتے تھے، اس لیے کہ علم اور فن کا تقاضا ہی یہ ہوتا ہے۔ ایسے نہیں ہے کہ بس فتوے کے ہتھوڑے سے مختلف آراء اور موقف رکھنے والے کا سر اڑا دیا۔ آواز بلند کرنے اور گلا پھاڑ کر بولنے سے علمی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ یہ تحقیق، تدقیق اور تنقیع کے ساتھ ہو تا ہے۔ افسوس! ہمارے ہاں یہ کلچر ختم ہوگیا ہے۔
مدارِ صحت کتاب پر نہیں بلکہ اسناد پر ہوتا ہے
امام ابن الہمام اپنے مذکورہ موقف کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
إذا الأصحیة لیس إلا لاشتمال رواتھما علی الشروط التي اعتبراھا. فإذا فرض وجود تلک الشروط في رواة حدیث في غیر الکتابین.
(السیواسي، شرح فتح القدیر، 1/445)
اصحیت کتاب پر مبنی نہیں ہے بلکہ اُن شرائط پر مبنی ہوتی ہے جنہیں امام بخاری اور امام مسلم نے اپنایا ہے اور جو شرائطِ صحت مقرر کر دی گی ہیں، اگر وہ شرائط صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ کسی اور سند میں ثابت ہوجائیں تو وہ حدیث بھی صحیح ہوگی۔
مثلاً: اگر وہ شرائطِ صحت مصنف عبدالرزاق میں ثابت ہوجائیں یا مصنف ابن ابی شیبہ میں ثابت ہوجائیں تو کیا ہم اس کی صحت کو ماننے سے صرف اس لیے انکار کردیں گے کہ وہ حدیث صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں موجود نہیں ہے۔ نہیں، ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن شیبہ کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے۔ صحیح مسلم کے تقریباً ہر دو صفحہ کے بعد دو، تین احادیث ابن ابی شیبہ سے مروی ہیں، پوری صحیح مسلم میں کوئی دو تین ورق ایسے نہیں پلٹا سکتے جس پر امام مسلم نے امام ابن ابی شیبہ سے روایت نہ کیا ہو۔ جس امام سے امام مسلمؒ اور امام بخاریؒ خود روایت کر رہے ہیں تو کیا ان ائمہ کی مرتب کردہ کتب (مصنف عبدالرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ) کی روایات پر عدمِ صحت کا لیبل لگایا جاسکتا ہے۔۔۔؟ یہ الگ بات ہے کہ اُس وقت اتصالِ سند، ضبطِ طعن کی شرائط، ثقاہت، عدمِ شذوذ اور عدمِ علت کی یہ شرائط مقرر نہیں تھیں جو بعد والوں نے مقرر کیں مگر ایک چیز نمایا ں ہے کہ اُن ائمہ کا زمانہ امام بخاریؒ و امام مسلمؒ سے زیادہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ سے قریب تر تھا، اس وجہ سے اُن کو بعض شرائط میں سہولت اور نرمی تھی مگر یہ بات یقینی ہے کہ اُن کی روایت اور سند عالی تھی۔
مثلاً: امام مالکؒ کی سند اور امام ابو حنیفہؒ کی سند حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے قریب ہونے کے باعث اُن ائمہ یعنی امام عبدالرزاقؒ اور امام ابن ابی شیبہؒ سے بھی عالی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ نے 17 احادیث صرف ایک صحابی کے واسطے سے براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہیں، یہ شان کسی امامِ حدیث کو حاصل نہ تھی۔ امام ابوحنیفہؒ نے سیکڑوں احادیث دو واسطوں سے روایت کیں یعنی براہِ راست تابعی سے، تابعی نے صحابی سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔ یہ ثنائیات (راوی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان صرف دو راوی) نہ امام بخاریؒ کے پاس ہیں اور نہ امام مسلمؒ، امام ابو داؤدؒ، امام ترمذیؒ اور امام نسائیؒ کے پاس ہیں۔ حتی کہ امام مالکؒ کے پاس بھی بہت کم ثنائیات ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سب سے اعلیٰ درجے کی سند احادیات ہے جو آپ نے براہِ راست صحابی سے روایت کیں۔ چونکہ آپ صغار تابعین میں سے ہیں۔
دوسری طرف امام بخاریؒ کی سب سے عالی سند ثلاثی (تین واسطوں کے ساتھ) ہے۔ امام بخاریؒ کے پاس 22 ثلاثیات ہیں۔ اور اُن 22 ثلاثیات میں سے 20 احادیث وہ ہیں جو امام بخاریؒ نے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے تلامذہ سے روایت کی ہیں۔ گویا امام اعظمؒ کے تلامذہ امام بخاریؒ کے اساتذہ تھے۔
بتانا مقصود یہ ہے کہ جن کا درجہ قربِ زمانی کی وجہ سے بہت اعلیٰ تھا، وہ اس طرح کی بہت سی شرائط کے اطلاق سے مستغنی بھی تھے۔ جب بعد کے زمانے میں علوم مدون ہوئے اور اُصول و قواعد مرتب ہوئے تو جو شرائط مقرر کی گئیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان اصول و شرائط کا اطلاق اُس زمانے اور بعد کے زمانے کے لیے تو حجت ہے مگر جو ثقہ امام اُن سے پہلے ہو گزرے، وہ اُن شرائط کے پابند نہ تھے۔ اس لیے کہ قُربِ زمانی اور سندِ عالی اُن کو ان سے بے نیاز کرتی تھی۔
بعد کے ائمہ کی سند نازل ہوگئی اور زمانہ بعید ہوگیا۔ اس کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی صحت کے درجے میں بہت نیچے گر گئے۔ نہیں بلکہ جو شرائط امام بخاریؒ و امام مسلمؒ نے اپنائیں، اُن شرائط نے اُس علم کو مقید کر دیا اور وہ شرائط قواعد بن گئے اور ان قواعد کے اطلاق کی وجہ سے علمائے اُمت نے ان کا درجہ سب سے بلند کر دیا وگرنہ صحیح بخاری لکھے جانے سے قبل امام شافعیؒ کہتے تھے کہ أصحّ الکُتُب بعد کتاب الله تعالٰی ہو الموطأ للإمام المالک۔ قرآن کے بعد أصحّ الکُتُب موطأ امام مالکؒ ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اُس وقت صحیح بخاری موجود نہیں تھی۔ پھر جب صحیح بخاری آ گئی تو بعد میں أصحّ الکُتُب بعد کتاب الله الجامع الصحیح للبخاری ہو گئی ۔
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی حدیث کسی اور کتاب میں ہے اور اس کی سند صحیح ہے تو ہم کیوں اُسے تسلیم نہ کریں۔مثلاً: کوئی حدیث مسند احمد بن حنبل میں ہے (امام احمد بن حنبلؒ خود امام بخاریؒ کے شیخ ہیں)۔ مصنف عبد الرزاقؒ میں (امام بخاریؒ کے شیخ) ہے، مصنف ابن ابی شیبہؒ (امام مسلمؒ کے شیخ) میں ہے۔ امام مالکؒ (امام بخاریؒ کے دادا شیخ) کے ہاں ہے، تو انہیں کیوں قبول نہ کیا جائے گا؟ حالانکہ امام شافعیؒ کے شیخ امام مالکؒ ہیں، امام احمد بن حنبلؒ کے شیخ امام ابو یوسف القاضیؒ ہیں، امام شافعیؒ کے شیخ امام محمد بن حسن شیبانیؒ ہیں۔ گویا امام احمد بن حنبلؒ بھی امام اعظم ابو حنیفہؒ کے پوتے شاگرد ہیں اور امام شافعیؒ بھی امام اعظم ابو حنیفہؒ کے پوتے شاگرد ہیں۔ امام شافعیؒ نے 10 سال سے زائد امام محمد بن حسن شیبانیؒ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے اور امام احمد بن حنبلؒ نے امام ابو یوسف القاضیؒ سے اکتساب کیا اور یہ دونوں امام اعظم ابو حنیفہؒ کے اکابر تلامذہ میں سے ہیں۔
غور کریں کہ جن کے شیوخ اتنے اعلیٰ ہیں اور اُنہوں نے اپنے اعتماد اور اپنی توثیق کے ساتھ اُن رُواۃ کی سند لی ہے اور سند بھی صحیح، جید اور قوی ہے، کوئی راوی مطعون اور متکلم فیہ نہیں ہے، ہر راوی ثقہ ہے، اوثق ہے، حافظ ہے، متقن ہے، عادل و ضابط ہے اور ان میں کوئی علت اور شذوذ بھی نہیں، ساری شرائطِ صحت پوری بھی ہوں تو کیا وجہ ہے کہ یہ کہہ کر ترک کردیا جائے کہ چونکہ مصنف ابن عبد الرزاقؒ میں ہے، لہٰذا اُس کو نہیں مانیں گے، یا کم صحیح مانیں گے؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ امام بخاریؒ اپنی صحیح بخاری میں امام عبد الرزاقؒ سے روایت کریں تو جائز اور اگر امام عبد الرزاقؒ خود اپنی کتاب ’’مصنف‘‘ میں روایت کریں تو ناجائز؟ یہ ہم نے کون سا اُصول بنا لیا ہے؟ یہ علم کہاں سے آیا ہے؟ یہ قاعدہ کہاں سے آیا ہے؟ اور یہ کہاں کا معیار ہے؟
اسی طرح امام مسلمؒ، امام ابن ابی شیبہؒ سے سیکڑوں احادیث روایت کریں تو جائز، حدیث صحیح اور اعلیٰ رہے اور جب امام ابن ابی شیبہؒ خود اپنی کتاب مصنف میں روایت کریں تو وہ حدیث مرتبہ میں نیچے گر جائے؟ ایسی بات نہیں ہے۔ پس معلوم ہوا کہ مدارِ صحت نہ کتاب پر ہے اور نہ صاحبِ کتاب پر ہے بلکہ مدارِ صحت رجال، رواۃ اور کیفیتِ اسناد پر ہے۔ جس کا حال اچھا وہی اعلیٰ۔ سند بھی حال کے اعتبار سے اعلیٰ بنتی ہے۔ اگر سند اعلیٰ حال کی ہے اور شرائطِ صحت پر پوری اترتی ہے تو یہ اصول حدیث کی تاریخ میں قاعدہ ہی نہیں ہے کہ کسی خاص کتاب میں نہ ہونے کی بنیاد پر سند/حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔
صحیحین کا باقی کتب کے ساتھ یہ فرق ہے کہ جب کتابوں کی من جملہ اکثریت و اغلبیت کی بات کریں تو پھر پہلے صحیح بخاری کو حجت نصیب ہوگی اور پھر صحیح مسلم کو حجت نصیب ہوگی۔ مگر اس فرق کا مطلب یہ نہیں کہ باقیوں کو ترک کر دیں۔ اُن کو ترک نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ وہ ان کے شیوخ ہیں۔ کاش اعتراض کرنے والے اُس زمانہ میں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے امام بخاریؒ کو ایک شاگرد کے طور پر امام عبدالرزاقؒ کے سامنے گھٹنے ٹیک کے بیٹھے ہوئے دیکھتے، امام مسلمؒ کو امام ابن ابی شیبہؒ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے دیکھتے اور پھر کہتے کہ میں امام عبدالرزاقؒ اور امام ابن ابی شیبہؒ کی روایت نہیں لیتا بلکہ امام بخاریؒ و امام مسلمؒ کی روایت لیتا ہوں تو کیا امام بخاریؒ و امام مسلمؒ معترض کی اس بات کو تسلیم کرلیتے؟ نہیں، ہرگز نہیں بلکہ یہ ائمہ فرماتے کہ نالائق تو عبدالرزاقؒ اور ابن ابی شیبہؒ سے روایت نہیں لیتا، ہم سے لیتا ہے حالانکہ ہم ان ہی سے لے رہے ہیں۔
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ یہ اصول کہاں سے آیا کہ روایت اگر صحیح بخاری و صحیح مسلم میں آجائے تو قبول ہے اور اگر ان ائمہ کے شیوخ کی کتب میں آئیں تو نامقبول؟ یہ معیار نہیں ہے۔ کتاب کا معیار حالِ اسناد ہے۔ اصول یہ ہے کہ اگر اُس میں شرائطِ صحت پوری ہوتی ہیں بھلا جس بھی کتاب میں آجائے، اُس کا درجہ بلند ہوگا۔ محدثین نے کہا ہے:
فدار الأمر في الرواة علی اجتهاد العلماء فیھم وکذا فی الشروط.
(السیواسي، شرح فتح القدیر، 1/445)
رواۃ پر حکم لگانا، علماء و محدثین کا اجتہاد ہے
یاد رکھیں! اجتہاد مذہب نہیں ہوتا، اُس سے اختلاف کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ افسوس! ہمارے ہاں پاکستان، ہندوستان میں کسی کے اجتہاد سے اختلاف کرنے والا کافر قرار پاتا ہے۔ یہاں کسی کے اجتہاد، فتویٰ تحقیق نہ ماننے پر اسے کافر بنادیتے ہیں، ایک فتوے کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور پورا مسلک اور عقیدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ چودہ سو سال میں اہلِ علم کا یہ طریق کبھی بھی نہیں تھا۔ یہ تنگ نظری ہے۔ افسوس! علم رخصت ہوا، جہالت آ گئی اور وہ تعصبات کو لے آئی۔
امام ابن ہمامؒ نے یہی بات اپنی کتاب التحریر في أصول الفقہ کی فصلٌ في التعارض میں بھی بیان کی ہے۔
ابن قطلوبغا کی تحقیق
امام عسقلانیؒ کے ایک اور شاگرد امام زین قاسم بن قطلوبغاؒ نے شرح نخبۃ الفکر کے اوپر ایک حاشیہ لکھا ہے، اس میں وہ ایک اصول مقرر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لأن قوة الحدیث إنما ھي بالنظر إلی رجاله، لا بالنظر إلی کونه في کتاب کذا.
(شرح نخبة الفکر)
حدیث کی قوت کا فیصلہ کرنا کہ فلاں حدیث سند میں قوی ہے، فلاں غیر قوی ہے، اس کا فیصلہ سند کے رجال کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ اس بات کو دیکھ کر نہیں کیا جاتا کہ یہ حدیث کس کتاب میں ہے۔
ابن حنبلی کی تحقیق
یہی قاعدہ علامہ رضی الدین محمد بن ابراہیم الحلبی الحنفی المعروف ابن حنبلیؒ نے اپنی کتاب قفو الأثر في صفوة علوم الأثر میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں کئی علماء کے نام درج کیے ہیں جو اس حدیث صحیح کے مراتب کے باب میں اس عمومی مفہوم کو رد کرتے ہیں کہ صحیح بخاری کی ہر ہر حدیث اعلیٰ ہے اور صحیح مسلم کی ہر ہر حدیث مرتبے میں صحیح بخاری سے ادنیٰ ہے اور انہی ائمہ کی حدیث قبول کی جائے گی کسی اور کتاب کی قبول نہیں کی جائے گی۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ ہی نہیں ہے۔
امیر صنعانی کی تحقیق
امیر صنعانی (صاحب سبل السلام) نے اصول حدیث پر اپنی کتاب توضیح الأفکار میں بھی یہی بات کی ہے۔
ان ائمہ نے اپنی کتب کے آخر میں حضرت ابن حجر عسقلانیؒ کے دور تک ان علماء کے ناموں اور ان کے اقوال کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حدیث صحیح کے مراتب کے حوالے سے درست معنی بیان کیا ہے کہ اس کا ایک ایک فرد پر اطلاق نہیں کریں گے بلکہ من جملہ اطلاق درست ہے۔ اس ترتیب کا ’’من جملہ کے لحاظ سے‘‘ معنیٰ یہ ہے کہ جب احادیث میں تعارض آ جائے گا تو پھر الگ الگ سند کے ساتھ دیکھا جائے گا۔ اگر تعارض نہ ہو پھر یہ ترجیح قائم رہے گی۔ اگر دو احادیث میں تعارض آجائے اور ائمہ دونوں کی صحت کا دعویٰ کریں تو پھر اس کا مدار اسناد صحت کی شرائط پر ہو گا۔
اس ساری گفتگو اور حدیث صحیحہ کے مراتب پر مذکورہ بحث کا مقصد یہ بات سمجھانا تھا کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ احادیثِ صحیحہ صرف صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نہیں ہیں۔ اس امر پر 14 سو سال کی تاریخ میں کہیں کسی ایک عالم نے بھی اختلاف نہیں کیا کہ جو حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں نہیں ہے، وہ صحیح ہے یا نہیں۔ یہ سوال ہی نہیں اٹھا، اس لیے کہ یہ سوال ہی علم کی تاریخ کا نہیں بلکہ جہالت کا سوال ہے۔ چونکہ سب مانتے تھے کہ حدیث کی صحت کا مدار حدیث کی سند پر ہے، کتاب پر نہیں، لہٰذا یہ بحث ختم ہوگئی۔ اب بحث صرف اس بات پر ہے کہ ’’اصح‘‘ کون سی حدیث ہے؟
(جاری ہے)