بطور مسلمان ہر مرد، عورت، بوڑھے اور جوان کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ زیارت حرمین سے آنکھیں ٹھنڈی کرے۔ بعض لوگ زندگی بھر بچیوں کے جہیز کی طرح تھوڑا تھوڑا خرچ بچا کر سفر حجاز کا سامان کرتے ہیں۔ کعبۃ اللہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شوق دراصل اہل ایمان کے دلوں میں اضطراب کی کیفیت بڑھاتا رہتا ہے اور اہل عشق و محبت تو سر کے بل کوئے محبوب جانے کے لئے ہر لمحہ بے چین رہتے ہیں۔ قبل ازیں یہ قافلہ ہائے شوق اپنے طور پر سوئے حرم روانہ ہوتے تھے لیکن اب یہ معاملات حکومتی نظم میں جکڑے جاچکے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل دوسروں کی ضرورت دیکھ کر کاروبار کیا جاتا تھا لیکن مادیت کی سرپٹ دوڑ میں آج کل کاروباری معاملات میں بھی برق رفتاری آچکی ہے۔ اب ضرورت پوری کرکے نہیں بلکہ ضرورت کو مجبوری بناکر حسب منشاء منافع حاصل کرنے کا فن ’’بزنس‘‘ کہلاتا ہے۔ اس مجبوری میں اگر عقیدت اور مذہبی جذبہ بھی شامل ہوجائے تو ایسے لوگوں کو چاروں شانے چت لٹا کر دولت کے انبار جمع کرنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال چند سالوں سے پاکستانی حجاج کو درپیش ہے۔ پوری دنیا سے حج کے لئے آنے والے لاکھوں حجاج میں بیشتر ایسے ہوتے ہیں جو بھارت کی طرح غیر مسلم ریاستوں کے شہری ہوتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ حکومتیں اپنے شہریوں کو حج کی سہولت کم لاگت میں فراہم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بیشتر اسلامی ممالک سے آنے والے حجاج کرام اپنے اپنے ممالک کی انتظامیہ کے غیر اطمینان بخش رویئے پر شکایت ضرورت کرتے ہیں لیکن اتنی بُری حالت اور کسی ملک کے حاجیوں کی نہیں ہوتی جتنی پاکستانی حجاج کی ہوتی ہے۔ اس سال تو یہ پریشانی خاصی بڑھ گئی ہے اور میڈیا سمیت حجاج کرام سے ذاتی طور پر رابطوں کے ذریعے جو معلومات جمع ہوئی ہیں وہ صرف پریشان کن نہیں واقعتا شرمناک بھی ہیں۔
سال رواں میں حکومت نے حج اخراجات کے ضمن میں جس قدر زیادہ رقم وصول کی وہ بھی واضح زیادتی اور کرپشن کی منہ بولتی تصویر تھی۔ اس کے باوجود حجاج کرام بادل ناخواستہ یہ اخراجات ادا کرکے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور مشکلات کے باوجود اللہ کے گھر میں صبر و تحمل کے ساتھ مناسک حج ادا کرتے رہے۔ لیکن بدنامی اورجگ ہنسائی اتنی ہوگئی ہے کہ الامان والحفیظ! وزارت حج پر اتنی انگلیاں اٹھ رہی تھیں کہ ایک سعودی شہزادے کو بھی چیف جسٹس کے نام خط لکھ کر مداخلت کرنا پڑی۔ یہ خط اب تحقیق کے بعد درست ثابت ہوچکا ہے اور ایک عدد سابق حج ڈائریکٹر کو بھی پاکستانی تحقیقاتی ایجنسی نے گرفتار کرلیا ہے۔
مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے درخواستیں دینے والے پاکستانی خواتین و حضرات کی عقیدتوں کو اپنے مزعومہ مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے والوں کا انجام عبرت ناک ہونا چاہئے۔ حج ڈائریکٹر اکیلا اس شرمناک کرپشن کا ذمہ دار نہیں ہوگا بلکہ ان کے ساتھ حکومتی مشنری سمیت متعلقہ وزارت کے دیگر چھوٹے بڑے کارندے بھی شامل ہوں گے۔ حرمین شریفین سے عقیدت اور محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اگر ان مقدس روحانی مقامات کی زیارت اور فریضہ حج جیسی اساسی عبادت بجا لانے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جارہا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دوسرے شعبوں میں ہماری بیورو کریسی اور سیاسی وزیر مشیر کیا کچھ نہیں کرتے ہوں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف رہائشی کرایوں کی مد میں حکومت نے اربوں روپے حجاج سے لوٹے ہیں۔ 3500 ریال کرائے کی جگہ ہزار، 1200 ریال میں ناقص عمارتیں حاصل کی گئیں جہاں سے حرم شریف میں آنے جانے کی دقت کے ساتھ ساتھ رہائش گاہ میں بنیادی ضرورتوں کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ پاکستان سے عام طور پر بوڑھے، مرد، عورتیں زیادہ جاتی ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر پینشن کی رقم سے حج کرتے ہیں۔ لہذا اس بڑھاپے میں انہیں وطن سے دور عقیدت کی آڑ میں لوٹنا یقینا بہت بڑا ظلم ہے۔ ان رہائشی اخراجات کے علاوہ PIA اور سعودی ائیر لائن بھی اس موقع پر حجاج سے بلا جواز اضافی رقم وصول کرتی ہیں جو اپنی جگہ ایک بڑا المیہ ہے جو ہر سال دھرایا جاتا ہے۔
خوشحال اور معاشی ترقی میں آگے بڑھتی ہوئی عالمی برادری کی قطار میں پاکستان وہ واحد ایٹمی اسلامی ملک ہے جو کرپشن کے عالمی مقابلے میں ہر سال ’’ترقی‘‘ کی منزلیں طے کرتا ہے۔ خدا جانے اس حکومتی ٹولے کی ہٹ دھرمی، ڈھٹائی اور بے حسی کا انجام کیا ہوگا۔ اللہ کے مہمانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کا اپنا انجام تو یقینا برا ہوگا۔ ۔ ۔ مگر انہوں نے حجاج کرام کے ساتھ جو ’’حسن سلوک‘‘ کیا ہے اس کا حساب ضرور ہونا چاہئے۔
جان لیوا مہنگائی
یوں تو پاکستانی قوم ہر روز کسی نئے چیلنج اورانوکھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں مگر حالیہ ایام میں انہیں جس پریشانی نے گرفت میں لے رکھا ہے وہ اشیائے خوردنی میں بے پناہ اضافہ اور جان لیوا مہنگائی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی بدانتظامی، معاشی بدحالی کا موجب تو تھی ہی اب اس بدحالی کے ساتھ بدامنی، بے روزگاری اور کرپشن کا اضافہ بھی ہوچکا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور اللہ پاک نے اسے دنیا کی ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی بدانتظامی اور دہشت گردی نہ ہو تو اس ملک میں ترقی کی منزلیں طے کرنے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ عوام اس وقت گرانی کے ہاتھوں اسقدر مجبور ہیں کہ وہ زندگی کے ہاتھوں بیزار ہوچکے ہیں۔ آئے روز خودکشیاں اور ڈاکے کی وارداتوں میں اسی لئے اضافہ ہورہا ہے۔
اس زرعی ملک میں فصلیں بھی معمول کے مطابق اگ رہی ہیں اور آبادی بھی معمول کی رفتار سے بڑھ رہی ہے لیکن اس ایک سال میں چینی جیسی بنیادی ضرورت میں جس طرح اضافہ ہوا ہے لگتا ہے اچانک ملک میں چینی خوروں کے نئے قافلے داخل ہوچکے ہیں حالانکہ ذخیرہ اندوزی کا یہ سب کھیل ان وفاقی حکومتی کارندوں کا ہے جن کی اپنی شوگر فیکٹریاں موجودہیں۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافہ اور بجلی گیس میں من مانے اضافے بھی عوام کو ڈپریشن میں مبتلا کررہے ہیں۔ حکومت وقت جس طرح یہ مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی ہے قبل ازیں اسکی مثال نہیں ملتی۔ عوام کے لئے اس جان کنی کے عالم میں بھی حکومتی اقدامات عوام دوست نہیں بلکہ ہر روز ایک نئی کرپشن کہانی سامنے آتی ہے، جس سے عوام کا غصہ دوبھر ہورہا ہے، اس کا انجام یقینا اچھا نہیں ہوگا۔