عظمت رفتہ کو واپس لانے اور مستقبل میں عالم انسانیت کی رہنمائی کا بار امانت اٹھانے کے لیے ملت اسلامیہ کو تیار ہونا ہے۔ اس تیاری کا اصل کام نوجوانان ملت کی سیرت سازی ہے۔ اس سازی کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ جذبۂ شبیری ہے۔ ملت کے نوجوان کو مقام شبیری سے آگاہ کرنا سب سے اہم اور ضروری کام ہے۔ ’’شبیریت‘‘ نام ہے راہ حق پر بے خوف و خطر چلنے اور فتح و شکست سے بے نیاز ہوکر تن من دھن کی بازی لگا دینے کا۔ چونکہ شبیریت حق پرستی کا دوسرا نام ہے، اس لیے ازل سے ابد تک مقام عزت اور فتح و کامرانی اسی کا مقدر رہا ہے۔ حق ہمیشہ غالب آتا ہے اس لیے شبیریت دائمی غلبے کا نام بھی ہے جس میں مغلوبیت کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے، لیکن باطل کا مقدر ہمیشہ شکست ہے۔ اس لیے باطل کا دوسرا نام یزیدیت ہے۔ اسوہ شبیری سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ باطل کو اگر عارضی فتح اور وقتی غلبہ حاصل ہو بھی جائے تو بھی وہ ایک دائمی اور رسوا کن شکست کی تمہید ہی ثابت ہوتا ہے۔
حسینیت کسی رسم و رواج کی تقلید کا نام نہیں بلکہ ’’حسینیت‘‘ تو ایک جذبہ عمل اور قوت محرکہ کا نام ہے جو باطل کے طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر رواں دواں رہتی ہے۔ اس قوت کے سامنے ہرقوت ہیچ ہے۔ اس کی راہ میں حائل ہر طاقت کا مقدر ذلت آمیز شکست کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
’’شبیریت‘‘ ایثار و قربانی اورہمت و عزیمت کی ایک داستان ہے جو سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت رنگین اور حیرت انگیز بھی ہے۔ شبیریت دراصل حضرت ابراہیم خلیل اﷲ کی اس ملت حنفیہ کی تکمیل ہے جو بقول شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’یکے از مقاصد اسلام‘‘ ہے۔ نار نمرود اور ذبح عظیم کے روح پرور واقعات کے بعد معرکہ کربلا اس سلسلہ عزیمت کا نقطہ عروج ہے۔ یہ داستان ایثار و قربانی اورہمت و عزیمت سیدنا اسماعیل علیہ السلام ذبیح اﷲ سے شروع ہوتی ہے اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ حضرت ذبیح اﷲ اور حضرت شبیر رضی اللہ عنہ کی سیرت و شخصیت میں گہری مماثلت ہے۔ بلاچوں و چرا سرکا نذرانہ پیش کرنا اور ہمت و عزیمت کے ساتھ بلاتردد جان کی بازی لگا دینے کو روح حیات سمجھنا سیرت اسماعیلی اور شخصیت حسینی دونوں کا یکساں پیغام ہے۔ اس لیے جو داستان حق پرستی اورجذب و شوق حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبیح اﷲ سے شروع ہوتی ہے، وہ شہید کربلا حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ پر تکمیل پذیر ہوتی ہے۔
مسلسل کوشش اور پرعزم جدوجہد کامیابی کا زینہ ہے۔ ہمت و عزیمت سے تو زمان و مکان کے فاصلے بھی سمٹ سکتے ہیں۔ انسانی بے بسی اور ناتوانی کا علاج قلب و روح کی گرم جوشی اور جذبہ ایمان ہے۔ باطل پر غلبہ پاناحق کی قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ جس طرح ویرانی کا علاج سیرابی ہے اور سیرابی کا وسیلہ پانی کی فراوانی ہے۔ اسی طرح آج کشت ایمان و عمل میں جو ویرانیاں دکھائی دے رہی ہیں ان کا علاج بھی اسوہ شبیری میں مضمر ہے جب تک یہ زمین خون شبیر کے فیض سے سیراب نہیں ہوگی اس میں منافقت اور فسق کی جھاڑیاں اگتی رہیں گی۔
سیرتِ امام عذالی مقام رضی اللہ عنہ
آیئے ایمان کو جلا بخشنے کے لیے سیرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر نظر ڈالتے ہیں :
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مقدس گھر اور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک گود میں پرورش اور تربیت پائی۔ ظاہر ہے یہ سعادت اور تربیت اور کسی کے مقدر میں نہ تھی۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ ان تربیت کرنے والوں کا اثر بھی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت سازی اور شخصی تعمیر میں نمایاں ہوا۔ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و شخصیت کے بارے میں کوئی ایسا اشارہ بھی نہیں ملتا جس سے یہ ظاہر ہوکہ سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ ہونے ، فاطمہ بنت تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا فرزند ارجمند ہونے کی وجہ سے آپ میں شہزادگی کے آثار ظاہرہوئے ہوں۔ اس کے برعکس حسین بن علی رضی اﷲ عنہما اپنے قول و عمل میں ہمیشہ سیرت و تربیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرکشش تصویر بنے رہے۔ آپ کی زندگی، اخلاق اورکردار اس قدر بے داغ ہے کہ یزید کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا تھا کہ ان کی ذات میں کوئی ایسا عیب نہیں جس کا وہ ذکر کرسکے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے خط کے جواب میں یزید کو اس کے مشیروں نے ایسا خط لکھنے کا مشورہ دیا تھا کہ انکی شخصیت کوگھٹایا جاسکے مگر یزید نے کہا تھا : وما عسيت ان اعيب حسينا واﷲ ما ادی للعيب فيه موضعا (الاستيعاب، ص 384)
’’بھلا میں حسین رضی اللہ عنہ میں کون سا عیب نکالوں گا۔ مجھے تو اس کی شخصیت میں کوئی داغ نظر ہی نہیں آتا‘‘۔
امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا اور والد کی طرح فصاحت و بلاغت اور خطابت میں بہت بلند مقام پر فائز تھے۔ آپ کے اندازگفتگو اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام پہلو جھلکتے نظرآتے تھے۔ یہ آپ کی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ عملی زندگی کے ہر میدان میں صداقت کے ساتھ شائستگی کے دامن کو مشکل سے مشکل حالات میں کبھی نہ چھوڑا۔
حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں، سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہی فضیلت کیا کم ہے کہ وہ نسب اور عمل دونوں لحاظ سے ایک طرف رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی پرتو تھے اور دوسری طرف آپ میں ’’زہرائیت‘‘ اور ’’حیدریت‘‘ بھی یک جا تھی۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دونوں نواسوں کو پکڑ لیتے اور یوں دعا فرمایا کرتے:
اللهم انی احبهما فاحبهما.
’’ اے اﷲ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی انہیں اپنی محبت سے نواز۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب)
حسین رضی اللہ عنہ کردار و گفتار میں سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عکس تھے۔ کتاب و سنت اور انصاف کی رسوائی کسی حال میں بھی انہیں گوارا نہ تھی۔ دنیا سے ان کا لگاؤ دنیا کی خاطر نہیں تھا بلکہ وہ صرف اہل دنیا کی خاطر دنیائے انسانیت کی بہتری اور تزئین گلستان جہاں کے آرزو مند تھے۔ انہوں نے اپنے عملی کردار سے یہ ثابت کردیا کہ قوت ایمانی ہر قسم کی مادی قوتوں اور سامان حرب و ضرب سے برتر ہے۔ مومن کا مقصد چونکہ حق کی شہادت اور اعلائے کلمتہ اﷲ ہے اس لیے وہ تیغ و تفنگ کا سہارا نہیں لیتا بلکہ وہ بے تیغ سپاہی کی طرح لڑتا ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت و کردار درحقیقت شرافت و نجابت اور ظاہر وباطن کی پاکیزگی کا نام تھا جس نے تذلیل و بے حیائی اور سنگ دلی کے برتاؤ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ وقت آنے پر باطل پرستی اور ظلم وتعدی کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے سرکٹوا کریہ ثابت کردیاکہ مومن حق پر کبھی آنچ نہیں آنے دیتا بلکہ وہ اپنے خون سے باطل کی نامرادی اور ناکامی صفحات تاریخ میں ثبت کرجاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس لازوال قربانی کو بہت خوبصورت طریق سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور شبیریت یا حسینیت، سے تعبیر کرتے ہیں۔ مومن کے لیے موت کا مرحلہ خوشی و مسرت کے تمام مراحل میں بہتر و برتر حیثیت رکھتا ہے۔ مگر یہی مومنانہ موت اگر شبیریت کے رنگ میں نصیب ہو تو پھر اس کی حیثیت کچھ اور ہی ہوجاتی ہے۔
گرچہ ہر مرگ است برمومن شکر
مرگ پور مرتضٰی چیزے دیگر!
اعلائے کلمۃ الحق اور کردارِ امام حسین رضی اللہ عنہ
یزیدی لشکر کے سپہ سالار ابن زیاد نے جب 7 محرم کواہل بیت اطہار کاپانی بند کردیا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے تین راستے تھے :
- ابن زیادہ کا حکم مانیں اور یزید کی خلافت تسلیم کریں۔
- یا یونہی بھوکے پیاسے اپنے ساتھیوں سمیت ختم ہوجائیں۔
- یا پھر میدان کار زار میں حق وباطل کا فیصلہ ہو۔
امام حسین رضی اللہ عنہ نے تیسرا راستہ اختیار فرمایا جس کے نتیجے میں دس محرم 61 ہجری کو تاریخِ انسانی کا درد ناک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ بہتر ساتھیوں سمیت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے جبکہ ابن سعد کے لشکر جرار کے اٹھاسی آدمی مارے گئے۔ دونوں طرف کے نقصانات اور لشکروں کی تعداد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی غیرجانبدار اور انصاف پسند ذہن یہ مانے بغیر نہیں رہے گا کہ حسینی مجاہدین نے کس جرات اور بہادری کے ساتھ میدان کارساز میں اپنے سپاہیانہ جوہر دکھائے ہوں گے۔
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بہت سے پہلو امت کے لیے قابل غور اور سبق آموز ہیں محض ہماری قوت ایمانی کا تقاضا ہی نہیں بلکہ دیانتدارانہ اور منصفانہ رائے بھی یہی ہے کہ سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک مظلوم حق پرست کی حیثیت سے اعلائے کلمتہ اﷲ کی خاطر شہادت عظمٰی کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس سلسلے میں چند باتیں سامنے آتی ہیں :
- قطع نظر ذاتی خصائص اور کردار کے یزید امت مسلمہ کا متفقہ خلیفہ نہیں تھا۔ سرزمین حجاز اورحرمین کے بزرگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کی بیعت سے انکار کیا تھا کیونکہ دیگر باتوں کے علاوہ اسلام میں خلافت، موروثی منصب نہیں تھا مگر یزید کے حصے میں یہ منصب موروثی حیثیت سے آیا تھا۔
- امام حسین رضی اللہ عنہ ازخود نہیں نکلے تھے۔ شریعت اور عدل کے تقاضوں کی خاطر امت کی اتنی بڑی تعداد کے شدید اصرار کے بعد کوفہ روانہ ہوئے تھے مگر کوفہ کے شیعوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے بے وفائی کی۔ انہیں حق پر جاننے اور ماننے کے باوجود باطل کی طاقت سے دب گئے۔
- امام حسین رضی اللہ عنہ کسی حال میں بھی امت مسلمہ میں خون خرابے کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ نہ وہ کسی قسم کی جنگی چال اور سیاسی تحریک کے حق میں تھے۔ چنانچہ جونہی کوفیوں کی بے وفائی اور غداری کا علم ہوا تو آپ دل برداشتہ ہوکر واپس ہونے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔
- مگر ایک بات انہیں کسی صورت میں بھی گوارا نہ تھی۔ وہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کے قائل تھے۔ ان کے سامنے زندہ رہنے کے لیے جو شرائط پیش کی گئی تھیں وہ انتہائی ذلت آمیز تھیں، انہیں کوئی مرد حربھی گوارا نہیں کرسکتا تھا چہ جائیکہ دوش رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہسوار حسین بن علی رضی اللہ عنہما اس قسم کی ذلت آمیز زندگی گوارا کرسکتے۔
- واپسی کے تمام راستے بند کرنے کے علاوہ اس مختصر سی جماعت میں شریک معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کے لیے پانی بند کردیا گیا، یہ کمینگی اور پست ذہنیت کی انتہا تھی۔ یہ بات ظلم اور اہانت کی حدود سے آگے نکل کر اوباش ظالموں کی عقل اور ضمیر دونوں کے دیوالیہ پن کی علامت کے سوا اور کچھ نہیں قرار پاتی۔
- اکثر دولڑنے والوں میں سے کسی ایک کے حق پر ہونے اور دوسرے کے غلطی پر ہونے کے متعلق فیصلہ مشکل ہوجایا کرتا ہے لیکن کچھ مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ حسینی مجاہدین کے مقابلے میں آنے والے لشکر جرار کی تعداد ایسے اوباشوں پر مشتمل تھی جو صرف دنیا کے لالچ میں اپنی عاقبت بیچ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ابن زیاد نے جن لوگوں کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں بھیجا تھا، شرافت اور اصول کی باتیں ان کے لیے بے معنی تھیں۔ ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا کہ مال و زر دینے والے ’’ان داتا‘‘ کو ہرصورت میں خوش کیا جائے۔ اس لیے یہاں یہ سوچنے کی بھی ضرورت نہیں کہ حق کس طرف تھا۔
یہ مانا کہ یزید کا براہ راست گناہ یہی تھا کہ وراثت میں خلافت کی گدی پانے کے بعد اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے ابن زیاد جیسے کمینے اور سفاک انسان کو کوفے کا گورنر بنایا، مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفے سے نکالنے یا مار دینے کا حکم دیا لیکن یزید کے عہد میں اور اس کے بعد بنی امیہ نے جو مجموعی سیاسی حکمت عملی اختیار کی، اس میں وہ نظریہ حیات اور اصول زندگی پس پشت ڈال دیئے گئے تھے جو بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی مقصد تھا۔ کتاب اﷲ، شریعت اور انصاف کا ساتھ چھوڑ دیا گیا، قومیت پرستی اور ہوس زر کے ساتھ موروثی شہنشاہیت کا دور دورہ شروع ہوا۔ یزید کی تخت نشینی کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کے دل میں یہی خدشات پیدا ہوئے تھے، اسی لیے انہوں نے اس کی بیعت سے انکار کیا تھا اور اسی کی خاطر انہوں نے راہ حق میں جان دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے وہ خدشات حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئے۔
ان حالات میں امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہی کچھ کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ ابن زیاد اور اس کے کارندوں نے وہی کچھ کیا جو کمینگی، اوباشی اور پستی کی انتہائی نیچی سطح پر رہنے اور سوچنے والے انسان کرسکتے ہیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے حصے میں وہی عزت و عظمت آئی جو ان کا حق تھا۔ یزید اور اسکے گماشتوں کے حصے میں وہی کچھ آیا جس کے وہ سزا وار تھے۔ یزید اور یزیدی مٹ گئے۔ حسین رضی اللہ عنہ اورحسینیت کو دوام نصیب ہوا مولانا محمد علی جوہر کی زبان میں
قتل حسین (رض) اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت ایک حق پرست مظلوم کی شخصیت ہے۔ ایک ایساحق پرست مظلوم جس نے ذلت کی زندگی کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا اور اپنے خون سے ظلم کو نیچا دکھا کر حق کا بول بالا کردیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
شاہ است حسین (رض) پادشاہ است حسین (رض)
دین است حسین (رض) دین پناہ است حسین (رض)
سر داد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین (رض)!
شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ ایک قوتِ محرکہ
اسلام کو بلندیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے آج مسلمانوں کے پاس خون حسین رضی اللہ عنہ کے سوا اورکوئی قوت محرکہ یا نسخہ کیمیا نہیں جو اس عظمت کو واپس لائے اور ان شاندار کارناموں کی یاد تازہ کر سکے۔ عراق و حجاز کی سرزمین رونق اور جوش سے محروم رہے گی جب تک اسے گرمئی خون حسین رضی اللہ عنہ جوش میں نہ لائے اقبال رحمۃ اللہ علیہ دعائیہ انداز میں کہتے ہیں :
ریگ عراق منتظر، کشت حجاز تشنہ کام
خون حسین (رض) بازدہ کوفہ و شام خویش را
اقبال کے نزدیک شبیریت ایک سوز زندگی کا نام ہے جو اہل حق کے لیے قوت بازو اور دنیا کے آزادی پسند انسانوں کے لیے پیغام حریت ہے۔
در نوائے زندگی سوز از حسین (رض)
اہل حق حریت آموز از حسین (رض)
واقعہ کربلا، جہاں اور بہت سے سبق ہیں وہاں یہی واقعہ ملت اسلامیہ میں جذبہ آزادی و حق گوئی کا ایک غیرفانی پیغام اور باطل کی شکست و نامرادی کے ساتھ ساتھ حق کی دائمی فتح کی علامت بھی ہے۔
غلبۂ حق کے عظیم نمونے
ہمارا یہ نظام زندگی دو قوتوں سے عبارت ہے۔ ایک شر کی قوت ہے جو ہمیشہ بدی اور فساد کے لیے آگے بڑھتی ہے اور فساد کی اس قوت کا تصادم ہمیشہ خیر اور تعمیر کی قوتوں سے ہوتا رہتا ہے۔ یہی تصادم زندگی میں تحریک و روانی لاتا ہے۔ اس تصادم کا عجیب پہلو یہ ہے کہ اس میں آخری غلبہ ہمیشہ نیکی اور تعمیر کی قوتوں کے حصے میں آتا ہے جبکہ بدی اور فساد کی باطل و شریر قوتوں کا مقدر دائمی شکست ہے لیکن اس تصادم کا عجیب ترپہلو یہ ہے کہ بدی و فساد کی باطل قوتوں کا وقتی غلبہ بالاخر ان کی ذلت آمیز شکست میں بدل جاتا ہے جبکہ نیکی اور تعمیر کی حق پرست قوتوں کی وقتی شکست بھی انکی دائمی فتح میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح گویا حقیقی فتح وکامرانی ہمیشہ نیکی اور حق کی ہوتی ہے جبکہ بدی اور باطل کو ہمیشہ خاسر اور نامراد ہونا پڑتا ہے۔
یہ حق کی قوت کبھی موسوی انداز میں نمودار ہوتی ہے اور کبھی اسے شبیریت کا لباس عطا ہوتا ہے۔ باطل کبھی فرعون کی شکل میں سراٹھاتا ہے اور کبھی اسے یزید کانام دیا جاتا ہے۔ چونکہ غلبہ اور کامرانی ہمیشہ حق کا مقدر ہے، اس لیے کبھی تو موسٰی کے مقابلے میں فرعون ، خاسر اور نامراد ہوکر بحیرہ قلزم میں غرق ہوتا ہے اور کبھی یزیدیت اپنے وقتی غلبے کے لباس میں سامنے آکر ہمیشہ کی لعنت و نامرادی میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ غلبہ حق کے یہ نمونے عالم انسانیت کے لیے دائمی سرچشمہ روحانیت کا کام دیتے رہتے ہیں۔ یہاں سے حق پرستوں کے لیے رہنمائی اورحوصلہ مندی کی روشن مثالیں میسر آتی رہتی ہیں۔
موسٰی و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آیدپدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
شبیریت کیا ہے؟
شبیریت دراصل ایک پختہ عزم اور ناقابل شکست ارادے کا نام ہے۔ ایسا عزم اور ایسا ارادہ جس کی قوت و مضبوطی ٹھوس پہاڑوں سے پائیدار، بلاخیز طوفانوں سے زیادہ تندو تیز اور باطل کو نیچا دکھانے کے لیے ہرقدم اور ہرصورت میں کامیاب و کامگار ہوتی ہے چونکہ شبیریت کا حقیقی مقصد دین وآئین حق کا دفاع اورحفاظت ہے، اس لیے مسلک شبیری سرجھکانا نہیں بلکہ سرکٹانا ہے۔ حق کی خاطر گرنے والے خون مظلومیت نے انسانیت کو عزیمت و بیداری عطا فرمائی اور شبیریت کی شمشیر نے باطل کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر رکھ دیا۔ مسلک شبیری نے قرآن کے فلسفہ جہاد کے اسرار و رموز بھی سمجھائے ہیں اور امت اسلامیہ کے لیے عزم وہمت کی شعلہ نوائی کا بھی سامان کیا ہے۔ دمشق و بغداد اورقرطبہ و غرناطہ کا جاہ وجلال تو اب محض داستان عبرت اور قصہ پارینہ بن چکا ہے لیکن شبیریت کا نعرہ حق نہ صرف زندہ و جاوداں ہے بلکہ ممولوں کو شاہینوں سے لڑانے اور کمزوروں کوقوت ایمانی کی باطل کوشکست دینے والی توانائی بھی مہیا کرتا رہتا ہے۔
رمز قرآن ازحسین (رض) آموختیم
زآتش او شعلہ ہا اندو ختیم
شوکت شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم ازیاد رفت
تاراو از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز!
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا مقصد غلبہ حق اور شہادت عظمٰی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ ان کے پیش نظر اقتدار کا حصول یا سلطنت پر قبضہ نہ تھا، اسی لیے انہوں نے اپنے ذاتی اقتدار کے لیے انسانیت کا خون ناحق بہانے سے اجتناب کیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ ظلم و جبر کے ہاتھوں حقوق انسانیت کا خون برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے پیش نظر فقط انسانوں کی دلی امنگوں اور اصول آدمیت کا احترام تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو راہ حق کا شہید قلیل تعداد اور بے سروسامانی کی حالت میں نہ نکلتا۔ اقبال اپنی اس دلچسپ دلیل کو یوں پیش کرتے ہیں۔
مدعایش سلطنت بودے اگر
خود نکردے باچنیں ساماں سفر
دشمناں چوں ریگ صحرا لاتعد
دوستاں اوبہ یزداں ہم عدد
اقبال کے نزدیک شبیریت ایک کاروان حق کا نام ہے جس کا مقصد آئین قرآن کے مطابق انسانی آزادی اور احترام آدمیت کا دفاع ہے۔ ظلم و استبداد کے اس کاروان حق کا اگر راستہ روکنا بھی چاہیں تو ناکامی و نامرادی کے سوا انہیں کچھ نصیب نہیں ہوگا۔ خلافت اسلامیہ جب منہاج نبوت سے ہٹ گئی اور حکمرانی نے آئین قرآن سے اپنا ناطہ توڑ لیا تو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبیریت کے نقش ثبت کرنے اور کاروان حق کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ میدان کربلا میں یزیدیت بزعم خود شبیریت کو شکست سے دوچار کرچکی تھی لیکن یزیدیت اس حقیقت کو نہ پا سکی کہ خون شبیر رضی اللہ عنہ نے تو ظلم و استبداد کی جڑ اکھاڑ کر حق پرستی و حق شناسی کا چمن آباد کردیا ہے۔ شبیریت تو حق کی خاطر خاک وخون میں غلطاں ہوکر ترویج کی بنیاد قرار پاچکی ہے۔
بہر حق درخاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است
شبیریت ایک حقیقت ابدی ہے۔ یہ حقیقت ابدی کسی حال میں بھی ذلت و ظلم گوارا نہیں کرسکتی۔ شبیریت کا مقصد صرف حق کی ترجمانی ہے، انسانیت کا احترام ہے اور ظلم و جبر کی قوتوں کی خونخواری و درندگی کے باوجود حسرت ناکامی سے دوچار کرنا ہے۔ یہ حقیقت ابدی باطل کی طرح رنگ نہیں بدلتی۔
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
اقبال شبیریت کوایک ایسا سرمایہ قرار دیتے ہیں جو ملت اسلامیہ کے لیے قابل فخر میراث ہے، ایک رہنمائی ہے ، ایک نمونہ ہے۔ شبیریت ایک ایسا سرمایہ فقر ہے جو نوجوانان ملت کو بے نیازی کی دولت عطا کرتا ہے جس کے سامنے زر و جواہر کے ڈھیر کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ یہی فقر شبیری نوجوانان ملت کے لیے نمونہ ہدایت بھی ہے اور فکر وعمل کی دائمی دعوت حق بھی۔
اک فقر ہے شبیری، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری