حمد باری تعالیٰ جل جلالہ
رحمت تری پہ میرا بھی حق ہے، مرے خدا
گندم مرے بھی سوکھے ہوئے کھیت میں اگا
آسودگی کے لمحوں کو اذنِ سفر ملے
صدقہ مجھے بھی سیدِ عالم کا کر عطا
ہاتھوں میں دے کدال مگر ربِ کائنات
اٹھے ترے کرم کی افق سے ابھی گھٹا
دامانِ آرزو میں سجا موتیوں کے ہار
محرومیوں کے نقش در و بام سے مٹا
قاصد کی راہ دیکھتا رہتا ہوں رات دن
بھولا نہیں کبھی مجھے طیبہ کا راستا
یارب! گھرا ہوا ہوں مصائب کے درمیاں
تو ہی کڑے دنوں میں بھی دیتا ہے حوصلہ
چاروں طرف مہیب چٹانیں ہیں بھوک کی
ناکامیوں کا دور تک پھیلا ہے سلسلہ
اشکوں سے ہے بھرا ہوا کشکولِ آرزو
سکے کرم کے عرشِ معلی سے بھی گرا
مٹی کے ہی کھلونے ہوں بچوں کے ہاتھ میں
سوئے ہوئے نصیب غریبوں کے بھی جگا
رہ رہ کے دیکھتا ہوں ترے آسمان کو
کشتی کے اردگرد ہیں گردابِ ابتلا
جھوٹے خدا کھڑے ہیں جھروکوں میں آج بھی
زنجیرِ عدل قصر انا کی کبھی گرا
ہیں کربلائے عصر کے گردو غبار میں
آسودگی کے دن میرے بچوں کو بھی دکھا
یارب! ہے امتحان کے قابل کہاں، ریاض
اس کو تُو اپنے فضل و کرم کا دے آسرا
(ریاض حسین چودھری)
نعت بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نعت سے اُن کی ہے ثنا مقصود
ذکرِ محبوب کبریا مقصود
شرق تا غرب سارے عالم میں
ہے خدا اور مصطفی (ص) مقصود
اُن کا حلقہ بگوش ہو جاؤں
ہے وہی یار آشنا مقصود
والہ و شہدا ہر زمانہ ہے
سب کا ہے ایک مدعا مقصود
باغِ رضواں سے کچھ نہیں ہے غرض
خلدِ طیبہ مرا ہوا مقصود
مجھ کو اک گوشۂ بقیع ملے
اور اس کے سوا ہے کیا مقصود
جاہ و منصب نہیں ہے میری طلب
بس ہے اُن کا کرم مرا مقصود
بعد خوشنودئی خدائے کریم
کملی والے کی ہے رضا مقصود
اُن کے در سے لگی ہے لو نیّر
ہے وہی شاہِ دوسرا مقصود
(ضیاء نیّر)