مرتّب : محمد یوسف منہاجین معاون : اظہر الطاف عباسی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.
(الفاتحه، 1 : 5)
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘۔
ہر طرف گمراہی کے سیلاب اور شیطانی قوتوں کے حملے دیکھ کر انسان کے قلب و باطن سے یہ آواز بلند ہوئی کہ باری تعالیٰ ہمیں سیدھا راستہ دکھا جو منزل تک پہنچادے۔ اس دعا میں تین الفاظ مذکور ہیں :
- اهدنا (ہمیں دکھادے)
- الصراط (راستہ)
- المستقيم (سیدھا، جو منزل تک پہنچائے)
لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِيْمَ.
(الاعراف، 7 : 16)
’’ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تاآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)‘‘۔
فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ.
(ص : 38 : 82)
’’سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا‘‘۔
سوال ہوا کہ تم ان سب کو کیسے گمراہ کرو گے؟ اس نے کہا کہ مجھے تیری قسم میں تیری سیدھی راہ (صراط مستقیم) پر تاک لگا کر بیٹھوں گا اور قرآن ہاتھ میں لے کر بیٹھوں گا چونکہ حملہ ان پر کرنا ہے جو صراط مستقیم اور ہدایت کی راہ پر چل رہے ہیں اور ان پر حملہ کرنے کے لئے قرآن ہی بہتر اور کارگر ہتھیار ہے۔ قرآن تھام کر اور اسلام کا حوالہ لے کر بیٹھوں گا تب ہی تو صراط مستقیم پر چلنے والے میری بات سنیں گے۔ پس میں انہیں گمراہ کردوں گا۔
شیطانی حملوں سے بچاؤ کا آسان طریقہ
ذہن میں سوال آیا کہ باری تعالیٰ ہم شیطان کے ان حملوں سے کیسے بچیں گے؟ باری تعالیٰ نے اس کا چیلنج سنا حکم ہوا : بدبخت!
اِنَّ عِبَادِیْ لَيْسَ لَکَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ.
(الحجر، 15 : 42)
’’ بے شک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا ‘‘۔
تجھ سے جتنا ہوسکے صراط مستقیم پر تاک میں بیٹھ۔ ۔ ۔ جتنے حملے تو کرسکے کر۔ ۔ ۔ جتنے منصوبے تو بناسکے بنا۔ ۔ ۔ مگر میری بات بھی سن لے کہ اِنَّ عِبَادِیْ جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا بس ہر گز نہیں چلے گا، ہاں جو زر کے بندے ہیں ان پر تیری قوت اثر انداز ہوتی رہے گی۔
شیطان ہدایت پر حملہ آور ہوا۔ ہدایت کو بچانا مقصود ہے، بچانا ہدایت یافتگان کو مقصود ہے مگر بچانے کے لئے رب کائنات نے فرمایا : اِنَّ عِبَادِیْ میرے بندوں پر تیرا بس نہیں چلے گا۔ اللہ نے اپنی ہدایت کی راہ بچانے کے لئے اپنے بندوں کو ڈھال بنادیا۔ فرمایا : جو میرے بندوں سے جڑ جائیں گے، وہ بچ جائیں گے اور جو میرے بندوں سے جدا رہیں گے اور اپنی طرف سے قرآن کی بات کرنا چاہیں گے، وہ پھنس جائیں گے۔ اس لئے کہ قرآن ہی نے تو اعلان کیا ہے کہ
يُضِلُّ بِه کَثِيْرًا وَّيَهْدِیْ بِه کَثِيْرًا.
(البقرة، 2 : 26)
’’(اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے ‘‘۔
قرآنی ہدایت کے مشخّص نمونے
بہت سے قرآن پڑھ کر ہدایت پارہے ہیں اور بہت سے اس قرآن کے نام پر گمراہ ہورہے ہیں لہذا جو ہدایت یافتہ رہنا چاہتے ہیں وہ کسی مشخّص ہدایت کو ڈھونڈیں۔ ۔ ۔ وہ ہدایت کے مشخّص نمونے ڈھونڈیں۔ ۔ ۔ جو قرآن کی راہ پر رہنا چاہتے ہیں وہ چلتے پھرتے قرآن ڈھونڈیں۔ قرآنی ہدایت کا مشخّص نمونہ ڈھونڈیں، ایسی شخصیتوں کو ڈھونڈیں جو قرآن میں ڈھل گئی ہیں اور قرآن جن میں ڈھل گیا ہے۔ ۔ ۔ ایسوں کو ڈھونڈیں جو قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن جن کے ساتھ ہے۔ ۔ ۔ جو قرآن میں اس طرح ڈھل گئے ہیں کہ وہ اور قرآن اب کبھی جدا نہیں ہوسکتے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا گیا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی ایسے کا نام ہی بتادیں؟ کسی ایسے کی نشاندہی کردیں کہ ہم ان کے ساتھ چل پڑیں، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
عَلِیٌّ مَعَ الْقُرْآن وَالْقُرْآنُ مَعَ عَلِیٍ لَا يَفْتَرِقَا حَتّٰی يَعْرِضَا عَلَی الْحُوْض.
(حاکم، المستدرک، ج : 3 ص : 34 رقم : 4628)
اگر چلتے پھرتے قرآن کو ڈھونڈنا ہے، قرآن کی ہدایت کے مشخّص نمونے ڈھونڈنے ہیں، ان لوگوں کو ڈھونڈنا ہے جو قرآن سے اور قرآن جن سے جڑ گیا ہے تو سن لو! علی رضی اللہ عنہ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے۔ یہ ایسے جڑ گئے ہیں کہ روز قیامت حوض کوثر پر آنے تک جدا نہیں ہوں گے۔
صراطِ مستقیم سے مراد
اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کے متلاشیان کے لئے ایک اصولی جواب دیا، فرمایا : کہ تم صراط مستقیم ڈھونڈتے ہو تو صراط مستقیم کی تعریف یہ ہے کہ
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْO
(الفاتحه، 1 : 6)
’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘۔
جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کی راہ کا نام صراط مستقیم ہے۔ ۔ ۔ قرآن کا نام اگر صراط مستقیم ہے تو ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن ہمارے پاس ہے۔ ۔ ۔ حدیث کا نام اگر صراط مستقیم ہے تو ہر کوئی کہتا ہے میرا مشرب حدیث پر ہے۔ ۔ ۔ یہ دعویٰ تو ہر کوئی کرتا ہے مگر صراط مستقیم کو یہ کہہ کر متعین و مشخّص کردیا کہ صراط مستقیم ان بندوں کی راہ ہے جن پر میں نے انعام کیا ہے۔ عرض کیا : باری تعالیٰ! جن پر تونے انعام کیا وہ کون ہیں۔ ۔ ۔؟ انعام یافتہ کون ہیں۔ ۔ ۔؟ اگر ان کی راہ پر چلنے سے صراط مستقیم کی حفاظت ہے تو ان راستوں اور ان دروازوں پر پہنچادے۔ فرمایا :
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاO
(النسآء، 4 : 69)
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo‘‘۔
جن انعام یافتہ بندوں کی معیت اور سنگت اپنانے کا حکم دیا جارہا ہے وہ چار طبقے ہیں :
1۔ انبیاء 2۔ صدیقین 3۔ شہداء 4۔ صالحین
جب انعام یافتہ یہ چار طبقے ہیں تو معلوم ہوا کہ اللہ کی بارگاہ کی سب سے بڑی نعمتیں بھی یہی چار ہیں۔ انبیاء کو جو نعمت ملی وہ نعمت نبوت ہوئی۔ ۔ ۔ صدیقین کو جو نعمت ملی وہ نعمت صدیقیت ہوئی۔ ۔ ۔ شہداء کو جو نعمت ملی وہ نعمت شہادت ہوئی۔ ۔ ۔ صالحین کو جو نعمت ملی وہ نعمت صالحیت ہوئی۔ گویا اس کارخانہ ہستی میں سب سے بڑی 4 نعمتیں نبوت، صدیقیت، شہادت اور صالحیت ہیں۔
ہر نعمت بطفیل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ چاروں نعمتیں ساری کائنات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے تقسیم ہوئیں۔ انبیاء کو نبوت ملی، اس لئے کہ تاجدار کائنات کا دامن نعمت نبوت سے بہرہ ور تھا۔ ۔ ۔ صدیقین کو صدیقیت ملی، اس لئے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا دامن نعمت صدق و صدیقیت سے بہرہ یاب تھا۔ ۔ ۔ صالحین کو صالحیت ملی، اس لئے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا دامن کمال صالحیت سے بہرہ یاب تھا۔ جب ہر طبقہ کو نعمتیں دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہداء کو نعمت شہادت کہاں سے ملی۔ ۔ ۔؟
شہداء کو نعمت شہادت ملی تو لازم ہے کہ وہ نعمت شہادت، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے ملے، اگر دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے تو پھر شہادت، نعمت ہے اور جو دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں وہ سرے سے نعمت ہے ہی نہیں۔ نعمت کو نعمت کا درجہ اس لئے ملا کہ وہ بصدقہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملی۔
عبادت طرزِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے
پس شہادت اگر دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملی تو لازم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید بھی ہوں اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید نہ ہوں تو شہادت نہ نعمت رہتی ہے اور نہ ہی عبادت رہتی ہے۔
کھانا کھانا بدن کی ضرورت ہے، یہ عبادت نہیں بلکہ بدن کی ضرورت ہے لیکن اگر کھانے کو اس طور سے کھائیں جیسے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھایا تو کھانا بھی عبادت ہے۔ ۔ ۔ سونا جسم کی ضرورت ہے مگر باوضو اور باطہارت اس طرز سے سوئیں جیسے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوئے تو سونا بھی عبادت ہے۔ ۔ ۔ اسی طرح کاروبار، روزگار اور تجارت معاشی ضرورت ہے مگر رزق حلال کے لئے روزگار اس طرز پر کمائیں جو طرز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھائی تو روزگار کمانا بھی عبادت ہے۔ پس ہر نیکی اس لئے بنی کہ وہ طرز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کی گئی۔ ۔ ۔ ہر عمل عبادت اس لئے بنا کہ وہ طرز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنایا گیا۔ ۔ ۔ جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرز سے دنیاوی عمل اپنالے وہ دنیاوی عمل عبادت بن جاتا ہے۔ جب عمل بنتا ہی عبادت تب ہے کہ طرز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہو تو شہادت عبادت نہیں بن سکتی اگر طرز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہ ہو اور طرز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تب ہو اگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوئے ہوں۔
اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن میں شہادت نہ ہو تو پھر شہداء نے باقی نعمتیں تو در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لی ہوں اور شہادت غیر کے در سے لی ہو تو یہ خدا کی غیرت کو گوارہ نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰهُ يُعْطِیْ.
(صحيح بخاری، کتاب العلم، ج : 1 ص : 39 رقم : 7)
’’تقسیم صرف میں کرتا ہوں اور اللہ مجھے عطا کرتا ہے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں کہ نظام قدرت یہ ہے کہ اس کی عطا میرے پاس آتی ہے اور تقسیم میری بارگاہ سے ہوتی ہے لہذا یہ ممکن نہیں اور یہ بھی اللہ کی غیرت کو گوارہ نہیں کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعمت شہادت سے محروم ہوں۔ قیامت کے دن ہر عمل، تقوی، نیکی، نعمت اور صاحبِ مقام جب بارگاہ خدا میں پیش ہوگا تو ہر ایک کی ساری نیکیاں نیچے ہوں گی، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر نیکی سب سے بلند ہوگی مگر جب شہید آئیں تو خدا کی غیرت کو یہ کب گوارا ہے کہ شہید ایک نعمت ایسی پیش کریں جو ہزاروں کے پاس ہو اور خدا کے محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ ہو، ہر گز گوارا نہیں تھا۔ پس لازم ہوا کہ شہادت بھی دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہو۔ اب جب یہ طے ہوا کہ شہادت دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہو تو تب نعمت بنتی ہے جبکہ دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ بھی ہے کہ
وَاﷲُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ.
(المائده، 5 : 67)
’’اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا ‘‘۔
اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دشمنوں کے ہاتھ کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا سبب کوئی شخص، کوئی دشمن نہیں بن سکتا۔ اس وعدے نے شہید ہونے سے روک دیا جبکہ نعمت نے شہید ہونے کا تقاضا کردیا، وعدہ الہٰی نے روک دیا کہ کسی دشمن کے وار سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ شہادت پر فائز نہ ہوں جبکہ نعمت شہادت کی تقسیم نے تقاضا کردیا کہ پھر یہ نعمت کسی اور دامن سے کہاں مانگنے جائیں گے یہ بھی دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہو۔ ان دونوں باتوں کا باہمی تعلق یہ ہے کہ ہر عمل کی دو صورتیں ہیں :
1۔ عمل کا جوہر 2۔ عمل کی صورت۔
نماز میں قیام، تلاوت، سجود، قعدہ اور تسبیح یہ ساری طرز نماز کی صورت تھی اور نماز کی اصل اور جوہر یہ ہے کہ
اَقِمِ الصَّلٰوهَ لِذِکْرِیْ.
(طه، 20 : 14)
’’میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو ‘‘۔
پس اللہ کی یاد، ذکر الہٰی نماز کا جوہر ہے اور واجبات، سنن اور مستحبات نماز کی صورت ہیں۔
شہادت کا جوہر
اب دیکھتے ہیں کہ شہادت کا جوہر کیا ہے؟ شہادت کا جوہر شہادت کی آرزو ہے، اگر آرزو نہ ہو، کوشش اور خواہش یہ ہو کہ آنکھ بچا کر بھاگ نکلوں، بچ نکلوں لیکن دشمن کی گولی سے مرجائیں تو اس صورت میں مرکر بھی شہید نہیں، تلوار سے مارے گئے مگر تلوار کھاکر بھی شہید نہیں، تلوار ہوگی مگر دیدار نہ ہوگا چونکہ شہید نہیں ہوئے، کوشش یہ رہی کہ بچ نکلوں، بھاگ جاؤں، اتفاق سے مارے گئے، بچنے کا موقع نہیں ملا۔ پس شہادت کے لئے لازم ہے کہ شہادت کی آرزو ہو اس کو جوہر شہادت کہتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر بھر یہ دعا کرتے تھے :
لَوَدِدْتُ اَنْ اُقْتَل فِیْ سَبِيْلِ اللّٰه ثُمَّ اُحٰی ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیٰ ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیٰ ثُمَّ اُقْتَلَ.
(صحيح بخاری، کتاب الجهاد، ج : 3 ص : 1030 رقم : 2644)
فرمایا : میں شدید آرزو اور تمنا کرتا رہتا ہوں کہ کاش میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں اس طرح یہ سلسلہ خدا کی راہ میں جان دینے کا چلتا رہے۔
اگر شہادت کی آرزو بھی ہو تو بندہ ایک ہی دفعہ کہتا ہے کہ باری تعالیٰ! میری آرزو ہے کہ مجھے اپنی راہ میں شہید کردے۔ مگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ باری تعالیٰ تیری راہ میں جان دوں، پھر تو جان دے پھر میں دوں، تو دیتا جائے اور میں تجھے دیتا جاؤں۔ یہ فقط آرزوئے شہادت نہیں بلکہ یہ تو کمال آرزوئے شہادت ہے، یہ انتہائے آرزو ہے۔ شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ ہے کہ جو خوبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہو وہ فقط ہو ہی نہیں بلکہ ہو بھی صحیح اور اس کمال پر ہو کہ کائنات میں کسی میں یہ خوبی اتنے بلند درجے کی نہ ہو لہذا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں آرزوئے شہادت اس کمال کی تھی۔ پس جب شہید ہونے کی آرزو تھی تو جوہر شہادت پاگیا۔
شہادت کی اقسام
شہادت کی صورت پر بات کریں تو اس کی دو قسمیں ہیں۔
- شہادت سری
- شہادت جہری
زہر سے شہید ہوجائے تو شہادت سری کی ایک مثال ہے اور اگر تلوار یا بندوق سے شہید ہوجائے تو شہادت جہری ہے۔ جوہرِ شہادت بشکل انتہائے آرزو وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھا مگر صورتِ شہادت درکار تھی اور جب صورت کی باری آتی تو اللہ کا وعدہ آڑے آجاتا :
وَاﷲُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ.
(المائده، 5 : 67)
’’اور اﷲ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا ‘‘۔
پس اس وعدہ الہٰیہ کی وجہ سے صورت گری وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ممکن نہ تھی اور لازم بھی تھا کہ شہادت ہو بھی سہی۔ چونکہ نعمت شہادت اسی دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے تقسیم ہونا ہے۔ اب صورت شہادت میں شہادت سری کی ابتداء بھی حیات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کردی گئی اور شہادت جہری کی ابتداء بھی حیات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کردی گئی۔
شہادتِ سرّی کی ابتداء
غزوۂ خیبر میں ایک یہودیہ زینب بنت الحارث زہر میں بھنا ہوا گوشت لاکر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بشیر بن براء رضی اللہ عنہ بھی ہیں، دونوں نے اس گوشت سے کچھ کھا لیا تو پھر گوشت سے آواز آئی : آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زہر آلود ہوں، مزید نہ کھایئے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الديات، ج : 4 ص : 173 رقم : 4510)
یہ آواز کھانے سے قبل پلیٹ سے آسکتی تھی، کھانے سے پہلے گوشت کو چپ کیوں رکھا؟ کھانے دیا جب تھوڑا لقمہ کھاچکے تو پھر گوشت کی وہ بوٹیاں بولیں کہ ہم زہر آلود ہیں، پہلے اس گوشت کو اذن گویائی اس لئے نہ دیا کہ زہر آلود گوشت کھلانا مقصود تھا اور فوراً بول اس لئے پڑیں کہ زہر آلود گوشت سے بچانا بھی تھا، کھلانا بھی تھا اور وَاللّٰهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس کے وعدہ الہٰیہ کے تحت بچانا بھی تھا۔ ساتھ کھانے میں شریک صحابی نے بھی گوشت کھایا، وہ وہیں وفات پاگئے، ان کی شہادت سے پتہ چلا کہ زہر اتنا طاقتور تھا کہ ایک بوٹی بھی انسان کی جان لینے کے لئے کافی تھی، ان کی شہادت اس ثبوت کے لئے ہوئی کہ پتہ چل جائے کہ شہادت کے لائق کافی زہر کھایا گیا مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اسلئے نہیں ہوئی کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ دشمن کے ہاتھ سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات نہ ہوگی۔ پس شہادت کا جوہر بھی پایا گیا اور غزوۂ خیبر میں شہادت سری کی ابتداء بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہوگئی۔
شہادتِ جہری کی ابتداء
شہادت کی دوسری قسم شہادت جہری ہے۔ شہادت جہری کے اجزاء یہ ہیں کہ دشمن حملہ کرے، زخم ہو، کوئی عضو کٹ جائے یا خون بہے اور موت واقع ہوجائے، اس کی ابتداء غزوہ احد کے دن ہوگئی، دشمنوں نے نیزے اور تیر سے حملہ کیا، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ غزوہ احد میں دشمن کا حملہ بھی ہوا، نیزے اور تیر یعنی آلات ضرب بھی لگے، دانت مبارک کا ایک کنارہ بھی شہید ہوا، خون بھی بہا، غشی بھی ہوئی، زمین پر بھی آگئے، سوائے آخری جز کے شہادت جہری کے سارے اجزاء پورے ہوگئے مگر شہادت نہ ہوئی لیکن شہادت کی افواہ پھیل گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے۔
(ابن کثير، البداية والنهاية، ج : 4 ص : 38)
یہ افواء جھوٹی اس لئے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وَاللّٰهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس دشمن کے ہاتھوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات نہ ہوگی۔
پس آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک میں شہادت کا جوہر بھی تھا، شہادت سری اور شہادت جہری کی ابتداء بھی تھی۔ مگر ان ابتداؤں کے بعد اب شہادت سری اور شہادت جہری کا ظہور تام باقی تھا۔ سری شہادت کے عمل کو بھی انتہاء تک پہنچنا تھا اور شہادت جہری کے عمل کو بھی انتہاء تک پہنچنا تھا، ابتداء ممکن تھی، مگر دونوں کی انتہاء بصورت وفات ممکن نہ تھی۔
نعمتِ شہادت کا ظہور اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعمت شہادت سے سرفراز کرنے کے لئے ضروری تھا کہ شہادت سری اور شہادت جہری کی تکمیل و انتہاء اور ظہور تام کے لئے دو الگ وجود تلاش کئے جائیں کہ وَاللّٰهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس کا وعدۂ الہٰیہ بھی پورا ہوجائے اور نعمت شہادت بھی میسر آجائے۔ دو وجود کار تھے اور چونکہ باب شہادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا اس لئے لازم تھا دو ایسے وجود ہوں جو اپنے ہوں، غیر نہ ہوں، کیونکہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کا ظہور تام ہونا ہے اس لئے یہ بھی ضروری تھا کہ دو وجود ایسے ہوں کہ ان میں جزئیت بھی ہو اور ان میں مشابہت بھی ہو۔ ۔ ۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جزء بھی ہوں، الگ بھی ہوں۔ ۔ ۔ عین بھی ہوں، دگر بھی ہوں۔ ۔ ۔ لخت بھی ہوں، جگر بھی ہوں۔ ۔ ۔ الگ بھی ہوں اور ایسے بھی ہوں کہ دیکھیں تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگیں۔ ۔ ۔ اور صاف ظاہر ہے پھر ان کے جو ماں باپ ہوں وہ بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے ہوں ان میں بھی جزئیت ہو، ان میں بھی مشابہت ہو، ان میں بھی اپنائیت ہو، ان میں بھی مظہریت ہو۔ شہادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور تام کے لئے دونوں جہتوں کے لئے دو وجود تلاش کئے گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہاا کے گھر شہزادہ ہوا ہے، ان کے گھر پہنچے۔ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ شیر خدا سے پوچھا علی کیا نام رکھا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ذوق طبع کے مطابق عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے نام ’’حرب‘‘ رکھا ہے، فرمایا : لا بل حسن، نہیں اس کا نام حسن ہوگا، پھر خبر ہوئی دوسرا شہزادہ ہوا ہے، پہنچے اور جاکر پوچھا : علی کیا نام رکھا ہے؟ عرض کیا : آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’حرب‘‘ نام رکھا ہے۔ فرمایا : لابل حسین، نہیں حسین ہوگا۔
(احمد بن حنبل، المسند، ج : 1 ص : 118)
ظاہر و باطن میں مشابہت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ حدیث آپ نے اور میں نے عمر بھر پڑھی اور سنی، ایک سوال میرے ذہن میں ہمیشہ آتا تھا کہ نام کیوں بدلے؟ اگر ان کا نام حسین رضی اللہ عنہ رکھ دیا تو ہم حسین حسین کرتے پھرتے ہیں، اگر حرب رکھا ہوتا تو ہم حرب حرب کرتے، ہمیں تو یار سے واسطہ تھا، نام سے تو نہ تھا، جو نام رکھتے اسی کو جپتے پھرتے۔ پھر نام کیوں بدلے اور بدل کے حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کیوں رکھا؟ کسی کتاب میں مجھے زندگی بھر اس کا جواب نہ ملا کہ بدلا کیوں اور بدل کر ایک ہی مادہ سے یہ دو نام حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کیوں رکھے؟
ایک طویل مدت کے بعد میری نظر اس گہرائی میں گئی اور میں نے عربی لغت کی کتب میں دیکھا کہ حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ دونوں لفظوں کا مادہ ’’حُسْنٰی‘‘ ہے۔ دونوں میں ح، س اور ن ہے، دونوں کی قدر مشترک حسنٰی ہے اور حسنٰی کا ایک معنی شہادت ہے۔ اہل لغت لکھتے ہیں حُسْنٰی، الشَهَاَدةٌ لِاَنَّهَا حَسَنَةُ الْعَوَاقِب کہ یہ حسین ترین انجام ہے، اس لئے حسنٰی شہادت کو کہتے ہیں۔
مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں کی شہادت دیکھ رہے تھے۔ دونوں نام بدل کر یہ نام رکھ دیئے۔ دو وجود درکار تھے، جو دو وجود آئے ان کا نام حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ رکھا اور دونوں اپنے ہونے چاہئے تھے، اپنے کرنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاا کو جوڑا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاا کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں جوڑا، خدا کی قسم! خدا نے جوڑا۔ جبرائیل امین علیہ السلام مسجد نبوی میں آئے، عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہاا کا نکاح پڑھا دیا ہے، مالائے اعلیٰ میں عقد ہوگیا ہے اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر کردیں، پوچھا : علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہاا کی تقریب نکاح میں شرکاء کتنے تھے؟ عرض کیا 40 ہزار ملائکہ تھے۔
(محب طبری، الرياض النضرة فی مناقب العشرة، ج : 3 ص : 146)
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاا کو نکاح کے ذریعے ایک تعلق میں سمویا گیا اور پھر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی۔
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِO بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِO فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِO يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُO
(الرحمان، 55 : 9 1 تا 22)
اسی نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیںo اُن دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے وہ (اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کرسکتےo پس تم دونوں اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گےo اُن دونوں (سمندروں) سے موتی (جس کی جھلک سبز ہوتی ہے) اور مَرجان (جِس کی رنگت سرخ ہوتی ہے) نکلتے ہیںo
مَرَجَ الْبَحْرَيْن دو سمندر ملائے گئے ایک بحر ولایت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرا بحر طہارت فاطمہ رضی اللہ عنہاا تھا۔بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ امر الہٰی کے نکاح کا پردہ درمیان میں ہے اور ان دو حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سمندروں کے ملنے سے يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ ایک موتی نکلا اور دوسرا مرجان نکلا۔ تھوڑا غور درکار ہے، موتی سیپ میں ہوتا ہے، سیپ کو جب سمندر سے نکالتے ہیں تو سمندر کی لہروں کے لگاتار لگنے سے یہ سبز نظر آتا ہے اور سچے سُچے موتی کی پہچان یہ ہے کہ دیکھو تو سبز جھلک نظر آئے، موتی کی رنگت سبز ہے اور مرجان کی رنگت سرخ ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ موتی بن کے نکلے اور حسین رضی اللہ عنہ مرجان بن کر نکلے، حسن رضی اللہ عنہ کو زہر ملی جو کہ سبز تھی، سبز شہادت موتی کی علامت حسن رضی اللہ عنہ بن کر آئی، کربلا میں شہادت، خونِ شہادت کی صورت میں حسین رضی اللہ عنہ کا مرجان بن گیا۔ مشابہت چاہئے تھی مشابہت کے لئے حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں کو ایسا بنایا گیا، ایسا تراشا گیا کہجس بھی خلات کا شاہکار ہو تم
اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا
ایسا تراشا گیا اور ایسا بنایا گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں :
اِنَّ الْحَسْنَ کَانَ اَشْبَهُ بِرَسُوْلِ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم مَا بَيْنَ الصَّدْرِ اِلَی الرَّاْسِ وَالْحُسَيْنُ کَانَ اَشْبَهُ بِرَسُوْلِ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم مَا کَانَ اَسْفَلَ مِنْ ذَالِک.
(جامع ترمذی، ابواب المناقب، ج : 5 ص : 660 رقم : 3779)
سینہ سے سر تک حسن رضی اللہ عنہ، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ تھا اور سینے سے قدموں تک حسین رضی اللہ عنہ، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ تھا مشابہت ایسی تھی کہ الگ الگ دیکھو تو حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ دکھائی دیں، اور ملاکے دیکھو تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آجائیں، یہ مشابہت ظاہر میں رکھی اور باطن میں رکھی۔ فرمایا :
مَنْ اَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْن فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ اَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ فَمَنْ اَبْغَضَنِی فَقَدْ اَبْغَضَ اللّٰه.
(سنن ابی ماجه، المقدمه، ج : 2 : 1، ص : 51، رقم : 143)
جس نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے حسنین ثقلین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
حُب حسنین رضی اللہ عنہماما حب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور بغض حسنین رضی اللہ عنہماما بغض مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ باطن میں بھی حسنین رضی اللہ عنہماما کی محبت کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بنا دیا۔ ۔ ۔ حسنین رضی اللہ عنہماما کی قربت کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت بنادیا۔ ۔ ۔ حسنین رضی اللہ عنہماما کی غلامی کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی بنادیا۔ ۔ ۔ حسنین رضی اللہ عنہما کی اطاعت کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بنادیا۔ ۔ ۔ حسنین رضی اللہ عنہما کی بغض و عداوت کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بغض و عداوت بنادیا۔ ۔ ۔ وجود جدا جدا ہیں اور حکم ایک ہے۔ جو حسنین رضی اللہ عنہما کا ہے وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے وہ حسنین رضی اللہ عنہما کا ہے۔ جو حسنین رضی اللہ عنہما کا نہیں وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہیں جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہیں وہ خدا کا نہیں۔ جزئیت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر و باطن دونوں مشابہت دیں اور پھر جزئیت بھی رکھی۔ فرمایا :
حُسَيْنُ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْه.
’’حسین (رض) مجھ سے اور میں حسین (رض) سے ہوں‘‘۔
(جامع ترمذی، ابواب المناقب، ج : 5 ص : 658 رقم : 3775)
یہاں جو بات توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بابا ہیں اور حسین رضی اللہ عنہ شہزادہ بیٹا ہے، بیٹا بابا سے ہوتا ہے، حسین منی، حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے، نواسہ، بابا سے ہوتا ہے، شاخ، درخت سے ہوتی ہے، پھل، شاخ سے ہوتا ہے، جز، کل سے ہوتا ہے، حسین رضی اللہ عنہ کا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہونا سمجھ میں آتا ہے مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین رضی اللہ عنہ سے کیسے ہوئے؟
اس کا ایک معنی تو یہ تھا جو اہل علم نے بیان کیا جس کو میں زیادہ نظم دے کر بتارہا ہوں کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصدر حسین ہے اور حسین رضی اللہ عنہ مظہر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ بتانا مقصود یہ تھا جو کچھ حسین رضی اللہ عنہ کا ہے اس کا ہر کمال مجھ سے ہے اور جو کچھ میرا ہے اس کا ظہور حسین رضی اللہ عنہ ہے۔ پیدائش سے لے کر کربلا تک حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا کی گود سے کربلا تک حسین رضی اللہ عنہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا مگر کربلا سے لے کر آج تک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حسین رضی اللہ عنہ سے ہے۔
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کربلا سے لے کر آج تک اور قیامت تک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین حسین رضی اللہ عنہ سے ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین رضی اللہ عنہ سے ہے اس لئے کہ
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین رضی اللہ عنہ
شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کی شہرت
پس جزئیت بھی عطا کی، مظہریت بھی عطا کی، دو شہزادے بنائے۔ ایک کو شہادت سری کے لئے منتخب کیا اور دوسرے کو شہادت جہری کے لئے منتخب کیا۔ اس لئے شہید تو بڑے ہوئے مگر شہرت کا وہ درجہ جو شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو ملا وہ کسی اور شہادت کو کائنات میں نہ مل سکا۔ دوسرے لوگوں کی شہادت شہید ہونے کے بعد شہرت پاتی ہے جبکہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی شہرت ماں اور نانا کی گود میں تھی۔
ایک دن آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں کو گود میں لئے بیٹھے تھے کہ جبرائیل امین آئے اور عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں میں سے ایک رکھ لیں اور ایک دے دیں۔ ایک کو دوسرے سے فدیہ کرلیں۔ حدیث پاک میں ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نگاہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دیکھا، ایک نگاہ شہزادہ حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا، چشمان مقدس سے آنسو رواں ہوگئے جبرائیل علیہ السلام کو تکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جبرائیل! اگر ابراہیم (حسین رضی اللہ عنہ) کو دیتا ہوں تو صرف میں رؤوں گا اور اگر (حسین رضی اللہ عنہ) کو دیتا ہوں تو میرے ساتھ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بھی روئے گی، اپنا رونا تو برداشت کرلوں گا مگر فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا رونا برداشت نہیں ہوگا، فرمایا! ابراہیم (رضی اللہ عنہ) کو دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابراہیم (حسین رضی اللہ عنہ) کو فدیہ کیا اور تیسرے دن آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آج تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے رونے کو دیکھا نہیں جاتا تو حسین رضی اللہ عنہ کے بدلے ابراہیم رضی اللہ عنہ دے دیا مگر کربلا کے دن کس کس کا رونا دیکھا ہوگا۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک مٹی دی اور فرمایا :
يا ام سلمه رضی الله عنها ! اذا تحولت هذه التربة دما فاعلمی ان ابنی قد قتل.
(المعجم الکبير، ج : 3، ص 108، رقم : 2819)
اے سلمہ رضی اللہ عنہا ! جبرائیل علیہ السلام نے ارض کربلا سے یہ مٹی لاکر دی ہے اور کہا ہے کہ جس سرزمین کربلا میں میرا بیٹا حسین (رضی اللہ عنہ) شہید ہوگا یہ مٹی وہاں کی ہے جس دن یہ مٹی خون سے بدل جائے تو جان لینا حسین (رضی اللہ عنہ) شہید ہوگیا۔
مکہ و مدینہ میں کسی کو معلوم نہیں کہ کربلا میں کیا بیت گیا۔ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ
اشعث اغبر بيده قارورة فيها دم فقلت ما هذا؟ قال دم الحسين واصحابه.
(مشکوة المصابيح، باب مناقب اهل بيت رضی الله عنهم )
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور اور ریش مبارک پر گرد ہے ہاتھ میں شیشی ہے اور اس میں خون ہے میں نے پوچھا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خون کیسا؟ فرمایا : میں مقتل حسین (رضی اللہ عنہ) سے آرہا ہوں۔ حسین (رضی اللہ عنہ) اور اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا، آج سارا دن میں اس خون شہادت کو جمع کرتا رہا ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ مکہ میں یہ شہادت دیتے ہیں، ادھر سرزمین مدینہ پر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیدار ہوتی ہیں، فرماتی ہیں میں نے بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا :
علی راسه ولحيته التراب فقلت مالک يارسول الله صلی الله عليه وآله وسلم قال شهدت قتل حسين انفا.
(جامع ترمذی، ابواب المناقب، ج : 5، ص : 657، رقم : 3771)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ حالت کیا ہے؟ فرمایا : میں نے ابھی ابھی حسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہما اٹھیں اور وہ شیشی دیکھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھی اور جس میں کربلا کی مٹی تھی، دیکھا تو وہ خون سے بدل گئی۔ فرماتی ہیں کہ میں جان گئی کہ حسین (رضی اللہ عنہ) شہید کردیئے گئے۔
’’خير من الف شهر‘‘ سے مراد
امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ میرے بابا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا اور صبح پریشان بیدار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری پریشانی کا سبب یہ ہے کہ میں بنو امیہ کے حکمرانوں کو اپنا منبر پامال کرتے دیکھ رہا ہوں۔
(جامع ترمذی، ابواب التفسير القرآن، ج : 5، ص : 666، رقم : 3350)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پریشان ہوئے، چہرہ مقدسہ پر ملال تھا اس ملال کو دور کرنے کے لئے اللہ پاک نے یہ سورۃ نازل کی۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِO لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍO
(الْقَدْر، 97 : 1 تا 3)
راوی حدیث جنہوں نے امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہتے ہیں اس حدیث کے بعد میں سوچنے لگا کہ ہزار مہینے کون سے ہیں؟ ترمذی شریف میں ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب وقت گزرا اور بنو امیہ کا دور حکومت ختم ہوا تو وہ پورا عرصہ 92 برس بنے اور یہ پورے ایک ہزار مہینوں کے برابر ہیں۔ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنج اور ملال دور کرنے کے لئے سورت اتاری، فرمایا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کو آپ نے اپنا منبر پامال کرتے دیکھا ہے ان کے ہزار مہینے سے تیری اہل بیت کی ایک رات بہتر ہے۔ گویا سورۃ القدر میں مذکور ہزار مہینے سے مراد بنو امیہ کے 92 سال ہیں۔ یہاں میں اپنی علمی ذمہ داری پر اجتہادی اطلاق کررہا ہوں کہ جب ہزار ماہ بنو امیہ کے ہوئے تو قرآن پاک میں مذکور ليلة القدر خير من الف شهر کہ ہزار مہینوں سے بہتر ایک رات ہے تو اس رات سے مراد میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ یہ شب عاشور ہے۔ وہ حسین رضی اللہ عنہ کی شب عاشورہ ہے، سکینہ رضی اللہ عنہا کی شب عاشورہ ہے وہ سیدنا زینب رضی اللہ عنہا کی شب عاشور ہے۔ تخت پر بیٹھنے والوں کے ایک ہزار ماہ ایک طرف اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادے اور شہزادیوں کی خاک کربلا پر گزاری گئی آخری ایک رات ایک طرف ہے۔
شب عاشور
شب عاشورہ میدان کربلا کی آخری رات بدبخت، لعنتی، جہنمی، یزید اور ابن زیاد کا لشکر حملے اور قتل حسین رضی اللہ عنہ کی تیاری میں ہے اور خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک فرد شب عاشورہ میں مناجات الہٰی اور عبادت میں ہے۔
شب عاشور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کبھی ایک خیمہ میں جاتیں اور کبھی دوسرے خیمہ میں، ایک فکر تھی کہ کل جب میرے حسین رضی اللہ عنہ کی باری آئے اور میدان لگ جائے تو کہیں خاندان کے جوان بے وفائی نہ کر جائیں، کبھی ایک گروہ کی وفا کا امتحان لیتیں جب وہ پکے اور پختہ نظر آتے تو دوسرے خاندانوں کے آئے ہوئے وفاداران کا امتحان لیتیں کہ میرے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کا وقت آئے تو کہیں یہ نہ پیچھے ہٹ جائیں، رات پھر ان کی وفاداریوں کا اُن سے عہد لیتی رہیں۔ جب تمام احباب نے وفا کا یقین دلا دیا کہ اپنی جانیں حسین رضی اللہ عنہ سے پہلے دے دیں گے تو پھر حوصلہ ہوگیا۔ رات کے وقت خیمے سے امام حسین رضی اللہ عنہ نکلے اور سامنے سے سیدنا زینب رضی اللہ عنہا آرہی ہیں، بھائی کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے مغموم چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں بہن زینب (رضی اللہ عنہا) ! مدینہ طیبہ سے لے کر آج تک تمہیں ہنستے نہیں دیکھا، آج کیوں مسکرا رہی ہے؟ عرض کرتی ہیں : بھائی حسین (رضی اللہ عنہ) ! دونوں خیموں سے وفادری کی بات سن کر آرہی ہوں۔
فرمایا : بہن تھوڑی دیر آنکھ لگالے اور سوجا، معلوم نہیں کل اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی ہلکی سی آنکھ لگی، خواب میں میدان کربلا کو دیکھتی ہیں، ہزارہا حوران بہشت انوار و تجلیات کے جھرمٹ میں میدان میں اتر آئی ہیں، ہر طرف نور اور روشنی بکھر گئی، اس جھرمٹ میں کوئی پردہ دار بی بی آگئیں اور وہ آکر سر زمین کربلا کی ایک جگہ پر جھاڑو دے رہی ہیں، کنکر اور پتھر چن رہی ہیں، سیدنا زینب رضی اللہ عنہا جاکر پوچھتی ہیں : بی بی کیا کررہی ہیں؟ فرماتی ہیں : بیٹی زینب (رضی اللہ عنہا) ! کل جب میرے حسین (رضی اللہ عنہ) کا لاشہ یہاں گرے گا تو کہیں اسکے لاشے کو کنکر نہ چبھ جائیں اس لئے ان کنکریوں اور سنگریزوں کو چن رہی ہوں۔ آپ ہیں کون؟ پردہ اٹھایا تو سیدنا کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تھیں۔
معصوم سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہا
رات گزر گئی، 10 محرم کے دن یکے بعد دیگرے سب شہید ہوگئے، آخر میں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ میدان میں جانے لگے، سب کو وداع کیا، اللہ کے حوالے کیا، گھوڑے، ذوالجناح پر بیٹھے، لگام کھینچی، پاؤں مارے، گھوڑا نیچے سر کرکے کھڑا ہے چلتا نہیں ہے، پھر لگام کھینچی پھر اور زور سے کھینچی، گھوڑا نیچے سر کرلیتا ہے اور چلتا نہیں ہے، تیسری بار پھر ایڑھی ماری، گھوڑے نے سر پھر نیچے کرلیا، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نیچے اتر آئے، جھک کر دیکھا تو شہزادی سکینہ رضی اللہ عنہا گھوڑے کی ٹانگوں سے لپٹ کر کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ ذوالجناح بابا کو نہ لے جا، اُدھر جو گیا ہے وہ پلٹ کے نہیں آیا، مجھے تو رات جب تک بابا سینے پہ نہ لٹائے، زبان نہ چوسائے سوتی نہیں ہوں، بابا کو لے گیا تو رات میں کہاں سوؤں گی؟ آپ رضی اللہ عنہ نے پیار کیا، دلاسہ دیا، شہزادی کو سیدنا زینب رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا اور پھر رخصت ہوگئے۔ فضا میں يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO فَادْخُلِي فِي عِبَادِيO وَادْخُلِي جَنَّتِيO کی صدائیں آنے لگ گئیں۔ ۔ ۔ خیمے جل گئے۔ ۔ ۔ خانوادہ لٹ گیا۔ ۔ ۔ رات کا اندھیرا چھا گیا۔ ۔ ۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہر طرف خیمے میں دوڑ کے دیکھتی ہیں، شہزادی سکینہ رضی اللہ عنہا نظر نہیں آتیں، ہر طرف جاکر دیکھتی ہیں، آواز دیتی ہیں مگر سیدہ سکینہ نظر نہیں آتی، پریشان ہوکر تلاش کے لئے باہر نکل آتی ہیں، دیکھتے دیکھتے جہاں شہیدان کربلا کے لاشے پڑے ہیں ان کے قریب جاپہنچیں، دیکھا کہ جسدِ حسین رضی اللہ عنہ کے اوپر کوئی چیز اونچی اونچی ہے، اندھیرا تھا، قریب گئیں تو دیکھا کہ سکینہ لیٹی ہوئی ہے، عرض کررہی ہیں کہ بابا! ابھی بھی پیاسی ہوں۔
حبشہ کی بیٹی کی حفاظت مگر۔ ۔ ۔
لٹا پٹا قافلہ دمشق پہنچ گیا، سر مبارک نیزوں پر اٹھائے ہوئے رکھ دیئے گئے۔ ۔ ۔ بدبخت یزید کا دربار لگا ہے۔ ۔ ۔ پوچھتا ہے کدھر ہیں حسین رضی اللہ عنہ کی بیبیاں اور بیٹیاں؟ ایک بوڑھی سی خاتون اٹھی، اس کی کمر جھکی ہوئی ہے، ضعیفہ، نحیف اور بوڑھی ہے، لکڑی کے عصا کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی، اس نے کہا بدبخت زبان سنبھال کر بات کر، یہ وارثان جنت ہیں، وارثان ارض و سماء ہیں، تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادیاں ہیں، بتول زہرہ رضی اللہ عنہا کی بیٹیاں ہیں، ادب سے بات کر۔ ۔ ۔ بدبخت یزید اپنے درباریوں سے پوچھتا ہے یہ کون ہے۔ ۔ ۔؟ آواز آتی ہے میرا نام فضہ (رضی اللہ عنہا) ہے، میں نے ان کو گود میں کھلایا تھا۔ ۔ ۔ یزید نے حکم دیا کہ اس کا سرقلم کردیا جائے۔ ۔ ۔ سپاہی سرقلم کرنے کے لئے تلوار لے کر اٹھا، بدبخت یزید لعین کے پیچھے حبشہ سے تعلق رکھنے والے 500 سپاہی تلواریں لے کر کھڑے تھے۔ فضہ (رضی اللہ عنہا)، گرج دار آواز میں بولیں : حبشہ کے غیرت مند سپاہیو! تمہاری حبشہ کی بہن فضہ کا سر یزیدی دربار کا بدبخت قلم کرنا چاہتا ہے، کیا تمہاری غیرت گوارہ کرلے گی؟ پانچ سو تلواریں حضرت فضہ رضی اللہ عنہا کی حفاظت کے لئے دربار میں نکل آئیں اور دربار یزیدی میں سکتہ طاری ہوگیا۔ اسی اثناء میں سیدنا زینب رضی اللہ عنہا اٹھیں اور سوئے گنبد خضری چہرہ کرکے کھڑی ہوگئیں اور بولیں : نانا! بابا! حبشہ کی بیٹی کی جان بچانے کے لئے 500 تلواریں لہر گئیں، بابا تیری بیٹی آج اس حال میں کھڑی ہے۔
مجھ میں آخری کلمات کی سکت نہیں، جو کچھ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں عرض کیا، مولیٰ اسی کو دعا اور آخری کلمات کے طور پر قبول فرمالے۔ آمین
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کی تنظیم سازی
بانی و سرپرست اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالیٰ نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے دستور کے آرٹیکل 2 کی جز v میں دیئے گئے مفوضہ اختیارات (سرپرست اعلیٰ مرکزی، براعظمی اور ملکی انتخابات اور ہئیت مقتدرہ کے فیصلہ جات کی توثیق کریں گے اور مخصوص حالات میں کسی بھی سطح پر نامزدگی کرسکیں گے) کی روشنی میں منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے بارے میں حسب ذیل فیصلہ جات فرمائے ہیں۔
- منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کو ایک خود مختار یونٹ قرار دیا گیا ہے۔
- محترم ناد علی حسن علی (بروڈہ گجرات) کو منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کا صدر نامزد کیا گیا ہے۔
- محترم سید حیات اللہ قادری (حیدر آباد دکن) کو منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کا سینئر نائب صدر نامزد کیا گیا ہے۔
اس فیصلہ اور نئی تنظیم سازی کے بعد انڈیا میں بھی منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے ذمہ داران باقاعدہ طور پر قائد محترم کی جملہ کتب، ماہنامہ منہاج القرآن و ماہنامہ دختران اسلام اور تحریک کے لٹریچر کی طباعت و اشاعت کا انتظام و انصرام کریں گے۔
ہم منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے جملہ ذمہ داران کو خصوصی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔