الحدیث : اعلائے دین اور شہید ربانی

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما احد يدخل الجنة يحب ان يرجع الی الدنيا وله ما علی الارض من شئی الا الشهيد يتمنی ان يرجع الی الدنيا فيقتل عشر مرات لما يری من الکرامة.

 (صحيح البخاری، کتاب الجهاد)

’’کوئی ایسا شخص نہیں جو جنت میں داخل ہو اور دنیا میں واپس لوٹنے کی تمنا کرے خواہ اسے دنیا کا سارا سازو سامان دے دیا جائے، ماسوائے شہید کے۔ وہ آرزو کرتا ہے کہ دنیا کی طرف لوٹے پھر دس دفعہ قتل کیا جائے کیونکہ وہ شہادت کا درجہ دیکھ چکا ہے‘‘۔

موت کا تصور بڑا بھیانک اور دہشت ناک ہے۔ اس کا خیال آتے ہی جسم میں جھرجھری سی آجاتی ہے اور اعصاب و اعضاء پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے مگر شہادت کے تصور میں یہ دہشت و ہولناکی نہیں بلکہ دل و دماغ، تصور و خیال اور روح پر ایک کیف سا چھا جاتا ہے جس میں سرور و مسرت کی نور آگیں کیفیت پنہاں ہوتی ہے۔ بڑے سے بڑا سنگ دل، گمراہ و بدکار اور موت کے تصور سے خائف و ترساں گناہگار بھی شہادت کے میدان میں سر کٹانے کے لئے مردانہ وار آگے آجاتا ہے۔ ہر مسلمان کو حیات نو ہی نہیں بخشتی بلکہ ’’مافات حیات‘‘ کی ساری لغزشوں اور فروگذاشتوں کو بھی نابود کردیتی ہے اور خوشنودی الہٰی کی نوید جانفزا بخش دیتی ہے۔

قرآن حکیم میں شہید کی حیات جاوید پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے :

وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَرَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ.

’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیا جاتا ہے‘‘۔ (آل عمران : 169)

ملک و ملکوت کے حقائق و اسرار سے آگاہ، دانا و بصیر، دانا و بصیر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جنت لافانی اور ابدی مسرتوں کا گہوارہ ہے، وہاں کوئی خواہش تشنہ تکمیل نہیں رہتی، جس کو بہشت بریں میں پہنچنے کی سعادت نصیب ہوگئی وہ آسائشوں اور راحتوں سے بہرہ ور ہونے کے باعث کبھی کسی چیز کی آرزو نہیں کرے گا۔

صرف اللہ کے راستے میں شہید ہوجانے والا ہی ایک ایسا شخص ہوگا جس کے دل میں یہ خواہش قائم و دائم رہے گی کہ وہ دوبارہ دنیا میں جائے اور اللہ کی راہ میں سر کٹا کر اس لذت سے بہرہ یاب ہو جو اسے پہلی بار نصیب ہوئی تھی۔

توقیر شہادت کی وجہ

دنیاوی حکومتوں کا یہ طریقہ کار ہے کہ جو دلیر سپاہی ملک و قوم کے لئے اپنی جان خطرات میں ڈال کر کوئی حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دے، اسے نقرئی اور طلائی تمغوں اور انعامات سے نوازا جاتا ہے، حسین و جمیل اور بارعب خطابات عطا کئے جاتے ہیں اور جو سپاہی اس کام میں اپنی جان کی بازی لگا دے اور ملک و قوم پر نثار ہو جائے اسے عہدہ و منصب کے مطابق سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کیا جاتا ہے۔ قبر پر خصوصی نشان لگائے جاتے ہیں جس سے بعد والوں کو اس کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اللہ کریم تو بڑا ہی قدر دان ہے، اس کی رحمت تو انسان کے قیاس و تخمین سے بڑھ کر انسان کو نوازتی ہے۔ یہ کب ممکن تھا کہ جو ایثار پسند سرفروش اس کی راہ میں سرکٹائے اسے عام مُردوں کی صف میں رکھا جائے چنانچہ ایسے مقتولوں کا نہ صرف نام بدل دیا بلکہ انہیں اسے مردہ کی بجائے شہید کہنے کا حکم دیا اور بتا دیا کہ ظاہر بین و مادی آنکھیں ہی انہیں مردہ حالت میں دیکھتی ہیں وگرنہ وہ ایک ایسی تابناک، لطیف اور لافانی حیات کے مالک ہوتے ہیں جو عام لوگوں کے شعور و ادراک میں نہیں آسکتی۔

تحفظ و ناموس دین کے سالارِ اعلیٰ

ابتدا سے آج تک کے اکابر کے سوانح و سرفروشانہ کارناموں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دین حق کی اسی خوبی و عظمت کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ سینہ سپر ہوکر نہایت جرات و پامردی سے طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور خون ناب کے آخری قطرات بہاکر بھی دین کی آبرو اور عظمت کی حفاظت کی اور اسی راہ میں جان دینے کو اپنے لئے باعث عزت و وجہ کامیابی سمجھا۔

اس قافلہ شوق و مستی کے رہبر کامل، اس کاروان عشق و وفا کے سالار اعلیٰ اور تحفظ و ناموس دین کے لئے سب کچھ لٹا دینے کا حوصلہ رکھنے والوں کے سرخیل و نقیب اعظم، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ دین کی حفاظت کے لئے یزیدیت کے مقابلے میں صف آراء ہوئے کیونکہ دینی قدروں کی پامالی کا آغاز ہوگیا تھا۔ ان قبیح بدعات اور ممنوعات کو رواج دینے کا سلسلہ چل نکلا تھا جن کا پھیلاؤ، دین کی عظمت کے منافی تھا۔ حضرت امام پاک رضی اللہ عنہ اپنی آنکھوں سے یہ بے حرمتی برداشت نہ کرسکے اور دین کی ناموس کے تحفظ و دفاع کے لئے ٹکر لینے پر تیار ہوگئے۔

حضرت امام پاک  رضی اللہ عنہ کا اقدام

ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، یہ دعویٰ بے جا و بے حقیقت نہیں کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کا اقدام محض دین مبین کے احیاء و تحفظ اور اسی کی شان و آبرو قائم کرنے کے لئے تھا کیونکہ آپ خدمت دین کی اہمیت اور فضیلت سے بخوبی آگاہ تھے اور اس کی تعلیمات کو مسخ ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

فاسق و ناپسندیدہ ہیئت مقتدرہ نے واقعی دین کے نکھرے ستھرے چہرے کو بگاڑنا شروع کردیا تھا اور اس کی بنیادی تعلیمات کے ڈھانچے پر یورش کردی تھی، اسے تمام شواہد و تحقیقات اور علمی موشگافیوں کے تکلف سے علیحدہ رہ کر، محض درایت و فراست اور اس وقت کے ماحول اور یزید کے حالات کے تجزیہ سے بھی بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے۔

کیونکہ یہ کوئی مستور حقیقت نہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے ماحول کے بالکل برعکس، یزید ایک ایسے ماحول میں پلا بڑھا اور جوان ہوا تھا جس میں عیش و عشرت کی آزادی تھی، دولت دنیا کے ساتھ شہرت و نمائش کے بھی سارے وسائل مہیا تھے، جنہوں نے اس کی خوخصلت کو بدل کر، ایسا سرکش فرعون بنادیا تھا جس کے لئے حصول اقتدار سے بڑھ کر کوئی مقصد نہیں ہوسکتا تھا۔ یہی اس کی فرعونیت تھی کہ اس کے عہد میں، مدینہ منورہ کے کوچہ و بازار میں کشت و خون ہوا۔ کعبہ معظمہ پر سنگباری کی گئی مگر اسے کوئی افسوس نہ ہوا۔ اسے صرف اقتدار پیارا تھا، چاہے ساری حرمتیں پامال ہوجائیں۔ ایسے بدکار، خدا فراموش اور انجام سے بے خبر سفاک انسان سے دینی اقدار کے پاس و لحاظ کی کیا توقع ہوسکتی تھی۔ چنانچہ اس نے دل کھول کر محرمات کو مباح کیا، احکام خداوندی کو پس پشت ڈالا اور ہر پاکیزہ قدر کو مٹایا۔

حضرت امام پاک رضی اللہ عنہ کا دل، دین کی اس بے حرمتی پر تڑپ اٹھا، اہل دل اور ارباب وفا کی شاندار روایات کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ بے قرار ہوکر میدان میں آگئے۔ یہ نہ دیکھا کہ باطل ساز و سامان سے لیس ہے بلکہ صرف اپنے فرض کو پیش نظر رکھا اور ڈٹ کر اس کے مقابل آگئے۔ جان دے دی لیکن دین کی عزت پر آنچ نہ آنے دی۔ بتا دیا کہ دین کے کچھ ضابطے، قوانین اور احکام و ارکان ہیں جن کی خاطر جان بھی دی جاسکتی ہے اور یہ ہر چیز سے عزیز اور پیارے ہیں۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دین کے لئے قربانی دے کر ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے۔ خلوص و ایثار سے شہادت کبریٰ کا منصب پایا اور بنائے دین کو مضبوط و مستحکم کردیا۔

سرداد نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین

تعزیت

گذشتہ ماہ محترم ضیاء نیر (FMRI) کے جواں سالہ بیٹے، محترم پروفیسر محمد اشرف چوہدری (ڈائریکٹر لائبریری اینڈ ایڈمنسٹریشن FMRi) کی ساس صاحبہ، محترم غلام مجتبیٰ طاہر (لیکچرار شریعہ کالج) کے سسر جان محترم حاجی عثمان، محترم محمد رئیس (مرکزی سٹاف ممبر) کی خوش دامن، محترم حاجی محمد رفیق (منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن سرائے عالمگیر)، محترم محمد علی بھاگت (اٹلی) کی ہمشیرہ، محترم حاجی محمد منشاء (صلالہ) کی ہمشیرہ، محترم ریاست علی (صلالہ) کی والدہ محترمہ، محترم محمد صدیق جان (ممبر مرکزی کیبنٹ ایم ایس ایم) کی دادی جان، محترم ماسٹر محمد نوید خرم (بھکر) کے والد محترم، محترم سمیع اللہ (بھکر) کے چچا جان، محترم محمد حنیف (شاہ رکن عالم ملتان) کے جواں سالہ بھائی محمد وسیم، محترم ظفر اقبال قادری (عاقل شاہ، تحصیل شاہ پور) کے سسر محمد رمضان، محترم محمد یعقوب صدیقی (کالرہ، تحصیل شاہ پور) کی ہمشیرہ، محترم حافظ محمد یوسف غوری (آسٹریا) کی والدہ محترمہ، محترم حاجی محمد حنیف (آسٹریلیا)، محترم محمد اسلام مغل (گوجرانوالہ) کی والدہ محترمہ، محترم ڈاکٹر ظفر علی ناز قریشی (اسلام آباد) کے برادر نسبتی خالد مراد، محترم ڈاکٹر سلیم ضیاء (وزیر آباد) کے تایا جان محترم فیض الرسول، محترم ظہور احمد (گکھڑ، وزیرآباد) کی والدہ اور ہمشیرہ، محترم ملک نذیر احمد اعوان (وزیرآباد)، محترم حاجی صادق حسین اور محترم پروفیسر محمد سلیم احمد چوہدری (جہلم) کے خالہ زاد بھائی محترم چوہدری ذاکر حسین (لندن) اور ماموں محترم حاجی محمد زمان، محترم گلزار احمد عوان ( پنڈدادنخان) کی زوجہ محترمہ، محترم محمد عامر قادری (صادق آباد رحیم یار خان) کی والدہ اور بھائی محمد سہیل مرزا، محترم محمد داؤد (دیڈر، راولپنڈی) کی والدہ محترمہ، محترم منصور اقبال منہاجین (سپین) کے والد محترم شیر زمان (سوہاوہ، جہلم) اور محترم حافظ کاش صدیق چشتی (یوتھ لیگ) کے والد محترم قضائے الہٰی سے انتقال فرماگئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کی بخشش و مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل اور اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین