شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسلام آباد دھرنے میں نماز عید الاضحی کی امامت کے فرائض سرانجام دیئے۔ ہزاروں لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز عید ادا کی۔ کمر میں تکلیف کے باعث چونکہ آپ اشارہ سے سجدہ کرتے ہیں اور رکوع و سجود کرسی پر بیٹھ کر ہی اشارتاً ادا کرتے ہیں۔ اس پر بعض احباب نے اس امامت پر اعتراض کیا کہ معذور امام کی اقتداء درست نہیں۔
قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جواب یہ ہے کہ شرعاً معذور امام کی اقتداء کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ معذور کھڑا نہ ہو سکے تو بیٹھ کر ادا کرے، رکوع و سجود میں تکلیف ہو تو سر کے اشارہ سے ادا کرے۔ الغرض، دین میں تنگی اور مشکل ہرگز نہیں، ہر عبادت میں معذور کو رعایت دی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.
(الحج: 78)
’’(اﷲ نے) تم پر دین میں کچھ تنگی نہیں رکھی‘‘۔
اور حدیث مبارک میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ.
(بخاري، الصحيح، 1: 23، رقم: 39)
’’دین آسان ہے‘‘۔
ناقص علم، قیامت کی نشانی
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا:
إِنَّ اﷲَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُه مِنْ الْعِبَادِ وَلٰـکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّي إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤسًا جُهالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا.
’’اللہ تعالیٰ علم کو بندوں سے کھینچ کر نہیں اٹھائے گا بلکہ علماء کی وفات سے علم ختم کرے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو علم کے بغیر ہی فتوے دیں گے۔ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو گمراہ کریں گے‘‘۔
(بخاري، الصحيح، 1: 50، رقم: 100)
عوام دینی مسائل میں علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ علماء میں سے جو منصب افتاء پر فائز ہیں انہیں سہل پسندی اور سطحی روش کی بجائے پوری محنت ودیانت سے ذمہ دارانہ رہنمائی کرنی چاہئے اگر یہ نہ ہو سکے تو جواب سے معذرت کر لینا بہتر ہے، اسی میں دنیوی عزت وبھرم اور اخروی نجات مضمر ہے۔ بعض نام نہاد علماء کے اخباری بیانات اور ناقص تحریرات سے بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس سے دین کی توہین اور علماء کی تحقیر ہوئی۔ ہم نے اصل مسئلہ اور اس کی ہر پہلو سے تحقیق وتنقیح کی ہے کسی کی طرفداری یا دل آزاری نہیں، نفس مسئلہ کی تحقیق مقصود ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری ہدایت فرمائے۔
معذور کے پیچھے تند رست کی نماز
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا حکم ہے۔ ارشاد فرمایا:
مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلَامُؤمِنَة اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُهُ اَمْرًا اَنْ يَّکُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَة مِنْ اَمْرِهِمْ وَمَنْ يَّعْصِ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰـلًا مُّبِيْنًا.
(الاحزاب: 36)
’’نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیا‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَفَی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ.
’’آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات سنا تا چلا جائے‘‘۔
(مسلم، الصحيح، 1: 10، رقم: 5 )
قرآن مجید اسی بات کا اظہار یوں فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ.
(الحجرات، 49: 6)
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ‘‘۔
ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے ورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مقابلہ میں کسی کی بات کسی مسلمان کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس حکم میں عالم ہو یا عامی، سبھی شامل ہیں۔ کسی کو کوئی استثنا نہیں۔ ہم تطویل سے بچتے ہوئے اختصار سے اپنے مدعا پر قطعی دلائل پیش کریں گے اور اہل علم وانصاف سے ضد وتعصب سے خالی ہوکر، خوف خدا اور یومِ سزا وجزاء کے یقین سے غور فرمانے کی استدعا کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہرایک نے اللہ کے حضور حاضر ہوکر جواب دینا ہے۔ اصل عزت وذلت یہاں کی نہیں، روز قیامت کی ہے۔
اصل مسئلہ (پہلا واقعہ)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَکِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْه فَجُحِشَ شِقُّه الْأيْمَنُ فَصَلَّی صَلَاة مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهوَ قَاعِدٌ فَصَلَّيْنَا وَرَائَه قُعُودًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤتَمَّ بِه فَإِذَا صَلَّی قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا فَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَه فَقُولُوا رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ وَإِذَا صَلَّی قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّی جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أجْمَعُونَ.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھوڑے پر سوار ہوئے۔ پھر اس سے گر گئے۔ آپ کا دایاں پہلو زخمی ہوگیا۔ آپ نے ایک نماز صحابہ کرام کو بیٹھ کر پڑھائی۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر
نماز ادا کی۔ سلام پھیر نے کے بعد فرمایا : امام کو فقط اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس
کی اقتداء کی جائے۔ سو جب کھڑے ہوکر نماز پڑھائے تو تم (بھی) کھڑے ہوکر نماز ادا کرو۔
جب رکوع کرے تو تم (بھی) رکوع کرو۔ جب اس سے سراٹھائے تم بھی اٹھاؤ، جب
’’سَمِعَ اﷲُ
لِمَنْ حَمِدَه‘‘
کہے تو کہو
’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد‘‘ جب بیٹھ کر نماز ادا کرے تو
تم سب بھی بیٹھ کر ادا کرو‘‘۔ ( بخاري، الصحيح، 1: 244، رقم: 657) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَاءَ بِلَالٌ
يُوذِنُه بِالصَّلَاة فَقَالَ مُرُوا أبَا بَکْرٍ أنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَقُلْتُ
يَا رَسُولَ اﷲِ إِنَّ أبَا بَکْرٍ
رَجُلٌ أسِيفٌ وَإِنَّه مَتَی مَا يَقُمْ مَقَامَکَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ
أَمَرْتَ عُمَرَ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَکْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَقُلْتُ لِحَفْصَة
قُولِي لَه إِنَّ أَبَا بَکْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّه مَتَی ما يَقُمْ مَقَامَکَ
لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ قَالَ إِنَّکُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ
يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَکْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاة
وَجَدَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي نَفْسِه خِفَّة فَقَامَ يُهادَی بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاه
تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ حَتَّی دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَکْرٍ
حِسَّه ذَهبَ أَبُو بَکْرٍ يَتَأَخَّرُ فَأَوْمَأَ إِلَيْه رَسُولُ اﷲِ صلی الله
عليه وآله وسلم فَجَاءَ
رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَکْرٍ فَکَانَ
أَبُو بَکْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَکَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي قَاعِدًا
يَقْتَدِي أَبُو بَکْرٍ بِصَلَاة
رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلَاة أَبِي بَکْرٍ
رَضِيَ اﷲُ عَنْه. ’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقاہت بڑھ گئی تو حضرت بلال(رضی اﷲ عنہ) نماز کا وقت ہونے کی
اطلاع دینے سرکار کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فرمایا: ابو بکر(رضی اﷲ عنہ) سے کہو کہ لوگوں
کو نماز پڑھائیں۔ میں عرض گزار ہوئی کہ یا رسول اللہ! حضرت ابوبکر (رضی اﷲ عنہ) نرم
دل آدمی ہیں۔ وہ جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو سنا نہ سکیں گے۔ اگر آپ
حضرت عمر(رضی اﷲ عنہ) کو حکم فرمائیں تو بہتر ہو گا۔ فرمایا: ابو بکر (رضی اﷲ عنہ) سے
کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے حضرت حفصہ(رضی اﷲ عنہا) سے کہا کہ آپ سے عرض
کریں کہ حضرت ابو بکر (رضی اﷲ عنہ) نرم دل آدمی ہیں جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو
لوگوں کو سنا نہ سکیں گے، لہٰذا آپ حضرت عمر(رضی اﷲ عنہ) کو حکم فرمائیں تو بہتر ہوگا۔
فرمایا کہ تم حضرت یوسف والی عورتوں کی طرح ہو، ابو بکر (رضی اﷲ عنہ) سے کہو کہ لوگوں
کو نماز پڑھائیں۔ جب وہ نماز پڑھانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ افاقہ محسوس کیا تو آپ
دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور آپ کے پاؤں مبارک زمین سے مس ہو
رہے تھے۔ یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہوئے۔ حضرت ابو بکر (رضی اﷲ عنہ) نے جب آپ کی آہٹ
سنی تو پیچھے ہٹنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا۔ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ کر حضرت ابو بکر(رضی
اﷲ عنہ) کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر(رضی اﷲ عنہ) کھڑے ہو کر اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت ابو بکر(رضی اﷲ عنہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی اقتدا میں اور
لوگ حضرت ابو بکر(رضی اﷲ عنہ) کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے‘‘۔ (بخاري، الصحيح، 1: 251، رقم: 681) ٭ امام بخاری کے شیخ الحمیدی کاارشاد ہے: قَالَ أَبُو عَبْد اﷲِ قَالَ الْحُمَيْدِيُّ قَوْلُه إِذَا صَلَّی جَالِسًا فَصَلُّوا
جُلُوسًا هوَ فِي مَرَضِه الْقَدِيمِ ثُمَّ صَلَّی بَعْدَ ذَلِکَ النَّبِيُّ صلی
الله عليه وآله وسلم جَالِسًا
وَالنَّاسُ خَلْفَه قِيَامًا لَمْ يَأمُرْهمْ بِالْقُعُودِ وَإِنَّمَا يُؤخَذُ
بِالْآخِرِ فَالْآخِرِ مِنْ فِعْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم. امام ابو عبداﷲ بخاری نے حُمَیدی کے حوالے سے فرمایا کہ یہ ارشاد گرامی کہ جب امام
بیٹھ کر پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرانی بیماری کی بات ہے۔ پھر اس کے
بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی اور پیچھے لوگوں نے کھڑے ہو کر ادا کی۔ آپ
سرکار نے انہیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا۔ لہٰذا آپ کا آخری فعل ہی لیا جائے گا‘‘۔ (بخاري، الصحيح، 1: 244، رقم: 657) ٭ امام بدرالدین العینی حنفی اور علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔ قد صرح الشافعي بأنّه صلی الله عليه وآله وسلم لم يصل بالنّاس في مرض موته في المسجد الّا مرة واحدة وهي
هذه التی صلی فيها قاعدا وکان أبوبکر فيها أوّلاً اماما ثم صار مأموماً يسمع الناس
التکبير. ’’امام شافعی رحمہ اﷲ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض وفات میں صرف
ایک مرتبہ نماز پڑھائی ہے اور وہ یہی نماز تھی جس کو آپ نے بیٹھ کر پڑھایا، ابوبکر
صدیق رضی اﷲ عنہ اس نماز میں پہلے امام پھر مقتدی بن گئے اور لوگوں کو تکبیر کی آواز
سناتے تھے‘‘۔ ثم اعلم أن جواز صلاة القائم خلف القاعد هو مذهب أبي حنيفة وأبي
يوسف والشافعي
ومالک في رواية والأوزاعي واحتجوا في ذٰلک بحديث عائشة المذکور. ’’پھر جان لیجئے کہ کھڑے کی نماز بیٹھنے والے کے پیچھے جائز ہونا، یہی مذہب ہے۔
امام ابو حنفیہ ، ابو یوسف، امام شافعی اور امام مالک رحمہم اﷲ کا اور ایک روایت کے
مطابق یہی مذہب ہے امام اوزاعی رحمہ اﷲ کا اور ان حضرات نے ام المومنین سیدہ عائشہ
صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی حدیث مذکور سے دلیل پکڑی ہے‘‘۔ (عيني، عمدة القاري (شرح صحيح بخاري)، 5: 216) ٭ امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف بن مری نووی، شارح صحیح مسلم اور علی بن سلطان محمد
القاری، شارح مشکوٰۃ المصابیح فرماتے ہیں: قال أبو حنيفة والشافعي وجمهور السلف رحمهم اﷲ تعالی لايجوز للقادر علی القيام
أن يصلي خلف القاعدا الا قائما واحتجوا بأن النبي صلی الله عليه وآله وسلم صلی في مرض وفاته بعد
هذا قاعدا
وأبو بکر رضي اﷲ عنه والناس خلفه قياما. ’’امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور جمہور ائمہ سلف صالحین رحمۃ
اللہ علیہم نے کہا ہے کہ جو
مقتدی کھڑا ہو سکتا ہے، وہ بیٹھے امام کے پیچھے صرف کھڑا ہو کر نماز ادا کر سکتا ہے۔
جمہور کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض وفات میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور باقی تمام صحابہ کرام نے آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز
پڑھی‘‘۔ (نووي، شرح صحيح مسلم، 4: 133) ٭ شیخ شبیر احمد عثمانی، شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند اپنی تصنیف فتح الملھم، شرح صحیح
مسلم میں لکھتے ہیں۔ کان أبو بکر يصلي وهو قائم بصلاة النبي صلی الله عليه وآله
وسلم والناس يصلون بصلاة أبي بکر والنبي صلی الله عليه وآله وسلم قاعد)). أبو بکر کان
يسمعهم التکبير وهذا يدل علی أن أبا بکر کان مبلغاً، فمعنی
الاقتداؤ هم بصوته ويويده انه صلی الله عليه وآله وسلم کان جالساً وکان أبو بکر قائماً، فکان بعض
أفعاله
يخفی علی بعض المأمومين فمن ثم کان أبو بکر کالامام في حقهم. ’’ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کھڑے ہو کر رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی نماز پر قائم تھے اور لوگ ابو بکر
رضی اﷲ عنہ کی نماز پر قائم تھے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ ابو بکر رضی اﷲ عنہ لوگوں
کو تکبیر سناتے تھے۔ یہ دلیل ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ آواز پہنچانے والے تھے
تو اس بات کا مطلب یہ کہ لوگ ابو بکر رضی اﷲ عنہ کی آواز کی اقتداء کرتے تھے۔ اس کی
تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور ابو بکر کھڑے تھے تو آپ کے کچھ
افعال بعض مقتدیوں پر پوشیدہ تھے اسی لئے ابو بکر ان کے حق میں امام کی طرح تھے‘‘۔ (شبير أحمد، فتح الملهم، 3: 238) ٭ علامہ کرمانی، امام جلال الدین عبد الرحمن سیوطی، الشیخ ابو مسعود رشید احمد گنگوھی
اور شیخ محمد انور شاہ کشمیری دیوبندی بھی مذکورہ بالا شارحین والا ہی مؤقف رکھتے
ہیں۔ اختصار کی خاطر ان صاحبان کی کتابوں کے صرف حوالہ جات ہی پیش کر دیے ہیں۔ ٭ علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں۔ لايفسد اقتداء قائم بقاعد وبأحدب. ’’کھڑا ہو کر نماز ادا کرنے والے کی نماز بیٹھنے والے اور کبڑے کے پیچھے فاسد (غلط)
نہیں‘‘۔ (ابن نجيم، البحرالرائق شرح کنزالاقائق، 1: 386) ٭ ابن ہمام فرماتے ہیں: الأصحّ أنه يجوز علی قول محمد وکذا الأظهر علٰی قولهما
الجواز. ’’صحیح تر یہ ہے کہ یہ اقتداء درست ہے، امام محمد اور امام ابو حنیفہ وابو یوسف
رحمہم کے نزدیک‘‘۔ (ابن همام، شرح فتح القدير، 1: 371) ٭ فتاویٰ ہندیہ میں ہے کہ يصح اقتداء القائم بالقاعد... يؤمّ الأحدب القائم کما يؤمّ
القاعد. ’’کھڑے کی اقتداء، بیٹھنے والے کے پیچھے درست ہے۔۔۔ کبڑا، سیدھا کھڑا ہونے والے
کی امامت ایسے کرسکتا ہے جیسے بیٹھا ہوا‘‘۔ (الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوٰی الهندية، 1:
85) ٭ علامہ مرغینانی، ابن ہمام، امام کاسانی، امام الحصکفی فرماتے ہیں کہ يصلّي القائم خلف القاعد وقال محمد رحمه اﷲ تعالیٰ لا يجوز وهو القياس لقوة حال
القائم ونحن ترکناه بالنص وهو مارويهأن النبي عليه اصلاة السلام صلی آخر صلاته قاعدا
والقوم خلفه قيامه ٍ ’’کھڑا، بیٹھے کے پیچھے نماز ادا کرسکتا ہے۔ امام محمد نے کہا یہ جائز نہیں ،
قیاس یہی ہے اس لیے کہ کھڑا ہونے والے کا حال قوی ہے اور ہم نے اسے اُس نص(دلیل شرعی)
کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے جو بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے آخری نماز بیٹھ
کر پڑھائی جبکہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے‘‘۔ (مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 58) ٭ امام سرخسی فرماتے ہیں: وهذا آخر فعل رسول في مرضه فيکون ناسخاً لما کان قبله ’’(وفات سے ایک دن پہلے ) یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیماری میں
آخری فعل
ہے۔ لہٰذا پہلی روایت کو منسوخ کرنیوالا ہے‘‘۔ (شمس الدين السرخسی، المبسوط، 1: 214) یہ ہے وہ مسئلہ جس کو پڑھے سمجھے بغیر محض حسد وبغض وعناد کی بنا پر، شیخ الاسلام
ڈاکٹر طاہرالقادری پر اعتراض وارد کردیا گیا۔ امید ہے منصف مزاج اہل ایمان کے لیے
یہ چند سطور باعث اطمینان ہونگی اور جھوٹے پروپیگنڈا کے تاروپود بکھر جائیں گے۔ اگر
اس تحریر میں کوئی بھول ہو گئی ہو تو ہم اﷲ سے توبہ اور متعلقہ حضرات سے معذرت کر لیں
گے۔ ہمیں اس میں کوئی عار نہیں۔(دوسرا واقعہ)
شارحین حدیث کی آراء
فقہائے امت کے اقوال