ہماری جدوجہد سے کمزور اور مایوس لوگوں کو ظالموں کے خلاف
ہمت اور جرات نصیب ہوئی
تنقید اور اعتراض کرنے والے عوامی پذیرائی دیکھ کر لاجواب ہو چکے
خیبرپختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں ایبٹ آباد کے عظیم الشان انقلاب اجتماع کے انعقاد پر میں ہزارہ، ایبٹ آباد اور ہری پور سے مانسہرہ تک پاکستان عوامی تحریک کی جملہ تنظیمات، کارکنان اور ان تمام شہروں کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہم نے اسلام آباد کے دھرنے کو جب ملک گیر دھرنے اور ملک گیر انقلاب تحریک میں بدلنا چاہا اور اسلام آباد کے دھرنے کو انقلاب کے لئے ملک کے شہر شہر، نگر نگر لے جانے کا فیصلہ کیا تو بعض لوگوں نے اسے غلط رنگ دیا اور اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ میں آج ناقدین کی تنقید اور معترضین کے اعتراضات کے موضوع پر کچھ ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔
عزیزان محترم! میرے وہ بھائی، بہنیں، بیٹے اور بیٹیاں جنہوں نے انقلاب مارچ اور انقلاب دھرنے میں شرکت کی اور وہ بیٹے اور بیٹیاں جو سوشل میڈیا پر پوری دنیا میں انقلاب کی جنگ لڑتے رہے اور لڑ رہے ہیں انہیں سب سے پہلے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ تنقید کرنے والوں کی تنقید پر ہرگز کوئی کان نہ دھریں، انہیں رد کردیں اور انقلاب کی منزل کی طرف سوشل میڈیا ہو یا زمین کی جنگ اپنے سفر کو جوش و خروش کے ساتھ جاری و ساری رکھیں۔ اس لئے کہ اسلام آباد کے دھرنے کو ہم نے ختم نہیں کیا بلکہ اس دھرنے کو ملک گیر دھرنے میں تبدیل کیا ہے۔ ہم نے ایک نئی حکمت عملی وضع کی ہے ۔ہم نے انقلاب کے لئے ایک نیا محاذ کھولا ہے۔ یہ کمانڈر کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ جنگ لڑنے کے لئے جس محاذ کا چاہے انتخاب کرے۔ اسلام آباد کی 60دن کی جنگ کے بعد اب ہم نے انقلاب کی تحریک اور دھرنے کے لئے سارے پاکستان کو انقلاب کا محاذ بنادیا ہے۔ ہماری جنگ ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ ہماری جنگ اب شروع ہوئی ہے۔ ابتداء ہوئی ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ آج کا یہ اجتماع، ایبٹ آباد کا انقلاب دھرنا ہے اور یہ ہماری نئی حکمت عملی کی کامیابی اور عوام میں اس کی پذیرائی کا پہلا ثبوت ہے کہ عوام الناس کی بہت بڑی تعداد آج یہاں موجود ہے اور سرزمین ایبٹ آباد نے آج تک اتنا بڑا عوامی اجتماع نہیں دیکھا۔
میرے انقلابی بہن، بھائیو، چند باتیں ذہن نشین کرلیں! جو لوگ آج تنقید کر رہے ہیں یہی لوگ دھرنا شروع کرتے وقت بھی ہم سے متفق نہیں تھے اور اس وقت بھی تنقید کرتے تھے۔ اب جب ہم نے اسے ملک گیر دھرنوں میں اور ملک گیر انقلاب کی تحریک میں بدلا ہے تو آج بھی یہ لوگ ہم سے متفق نہیں ہیں۔ ہمیں ان کے اتفاق اور اختلاف سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں فقط انقلاب سے سروکار ہے، ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ تنقید کرنے والے اس وقت بھی کہتے تھے کہ ہمیں قادری صاحب کے ایجنڈے اور ان کے منشور سے اتفاق ہے مگر ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہے۔ ہمارے طریقہ کار سے انہیں اس وقت بھی اختلاف تھا اور ہمارے طریقہ کار سے انہیں آج بھی اختلاف ہے۔ سو نہ وہ بدلے ہیں نہ ہم بدلے ہیں، دونوں اپنی اپنی سمت کو چلے جارہے ہیں۔ یہ اختلاف نئی چیز نہیں۔ پہلے کہتے تھے یہ دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہوا، جب یہ ثابت نہ کرسکے پھر لندن پلان گھڑ لیا، جب لندن پلان میں سے بھی کچھ نہ نکلا تو اب کہنے لگے کہ دھرنے کی نوعیت تبدیل کرکے اسے جو ملک گیر انقلاب کی صورت میں بدلا ہے، یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ مخالفین کا طرز عمل ہمیشہ سے منفی پروپیگنڈہ پر قائم رہا ہے۔ چند دن پہلے کہتے تھے کہ دھرنا بے اثر ہوگیا۔ دھرنے کو بے اثر کہنے والوں نے فیصل آباد میں لاکھوں افراد کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر اور 5 گھنٹے میرا عوامی استقبال دیکھا تو دنگ رہ گئے اور ان کی زبانیں بند ہوگئیں۔ پھر جب لاہورکا اجتماع ہوا اور مینار پاکستان کی وسعتیں انقلاب کے اجتماع کو سمونے سے قاصر رہ گئیں اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سڑکوں پر نکل آیا، تب بھی یہ دنگ رہ گئے۔ ان کامیاب عوامی اجتماعات نے ثابت کر دیا ہے کہ دھرنا کامیاب ہوا ہے۔ دھرنے نے کروڑوں لوگوں کے ذہنوں میں انقلاب بپا کردیا ہے۔ دھرنے نے پاکستان کو بدل دیا ہے، دھرنے نے سوئی ہوئی قوم کو جگادیا ہے۔ دھرنے نے مدہوش قوم کو اٹھادیا ہے، دھرنے نے مظلوم لوگوں کو ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات دے دی ہے اور دھرنے نے مایوس لوگوں کو ظالموں، جابروں سے ٹکرانے کی جسارت دے دی ہے۔ دھرنا کامیاب ہوا، اس لئے کہ اس نے پورے ملک کے عوام کو اپنے حقوق اور انقلاب سے آشنا کر دیا ہے۔
دھرنا کو ناکام کہنے والے اور اسلام آباد دھرنا کو ختم کرنے پر ڈیل کا الزام لگانے والے دیکھیں! اگر دھرنا ناکام ہوا ہوتا تو آج دو دن بعد ایبٹ آباد کی سرزمین پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا بے کنار انسانی سمندر نظر نہ آتا۔ اس سے پتہ چلا کہ دو دن پہلے کے فیصلے کو قوم قبول کرکے میرے ساتھ انقلاب کے لئے اگلے مرحلے پر چل پڑی ہے۔ لہذا تنقیدکرنے والے تھوڑا صبر کریں، پریشان نہ ہوں، آج کے جلسے نے ہمارے صحیح ہونے کا ثبوت دے دیا ہے، ہم کامیاب ہوئے ہیں، لاکھوں کا ٹھاٹھیں مارتا عوامی سمندر میری بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آئندہ آنے والے اجتماعات ان شاء اللہ اس سے بھی بڑے ہوں گے۔ یہ ہمارا سفر انقلاب ہے، ہم اس سفر میں شہر در شہر مرحلہ وار پڑاؤ کرتے جائیں گے ۔ دھرنا ختم نہیں ہوا بلکہ اب یہ دھرنا حکمرانوں کا مرنا بن جائے گا، یہ دھرنا فاسد نظام کا مرنا بنے گا۔ پہلے دھرنا فقط اسلام آباد میں تھا اب ملک کے شہر شہر میں ہوگا۔
کوئی کہتا ہے ڈاکٹر صاحب اب گھر چلے جائیں گے، نہیں سن لو! اب تمہاری نیندیں اجڑ جائیں گی، ڈاکٹر طاہرالقادری گھر نہیں جا رہا بلکہ شہر شہر جا رہا ہے، پوری قوم کو جگا رہا ہے، اس نظام کے دفن ہونے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ میں نے حکمت عملی تبدیل کی ہے، کمانڈر نے جنگ جاری رکھی ہے، محاذ بدلا ہے، ارادہ و مقصد نہیں بدلا، منزل نہیں بدلی، ہمت نہیں ہاری، چلتے جائیں گے، نئے سے نئے محاذ ان شاء اللہ کھولیں گے تاکہ یہ تاریک نظام گرجائے اور انقلاب اس دھرتی کا مقدر بن جائے۔
کون درست ہے اور کون غلط؟ اس فیصلے کا حق عوام کو ہوتا ہے، عوام اگر مسترد کردے تو پنڈال خالی ہوجاتے ہیں اور اگر پنڈال کم پڑجائیں اور سڑکوں تک لوگ پھیل جائیں تو فیصلہ درست قرار دیا جاتا ہے۔ لہذا فیصلے کا حق عوام کو ہے، کسی مخصوص طبقے اور بعض نام نہاد دانشوروں اور تبصرہ نگاروں کو حق نہیں ہے کہ وہ ہم پر فیصلہ صادر کریں۔ جو لفافوں پر پلتے ہیں، جو لفافوں سے بولتے ہیں، لفافوں کے ساتھ لکھتے ہیں اور لفافوں کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں ان کے فیصلے عوام قبول نہیں کیا کرتے بلکہ عوام اللہ کے دیئے ہوئے شعور کے ساتھ فیصلہ کیا کرتے ہیں۔
عزیزو! ہمارا عزم تھا اور ہے کہ ہم مقصد انقلاب سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور جو اس مقصد کو چھوڑ دے عوام اس کو تنہا چھوڑ دیں۔ اس کی قیادت کو چھوڑ دیں، ہم اس عزم پر قائم ہیں، ہم نے اپنا مقصد نہ چھوڑا ہے نہ چھوڑیں گے۔۔۔ ہم نے عوام کو تنہا نہ چھوڑا ہے نہ چھوڑیں گے۔۔۔ ہم واپس گھر کونہ لوٹے ہیں نہ لوٹیں گے۔۔۔ ہم نے نہ جدوجہد کو چھوڑا ہے نہ چھوڑیں گے۔۔۔ بلکہ اس کو کنارے تک پہنچاتے پہنچاتے اپنا تن من دھن لٹاتے جائیں گے۔ ظلم اور ظالم نظام کے خلاف ہماری جدوجہد اور جنگ جاری رہے گی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ناقدین جس کو دھرنا ختم ہونا قرار دے رہے ہیں ہم نے اس کو کیوں بدلا؟ ہم نے دھرنا ختم نہیں کیا بلکہ محاذ بدلا ہے، مرحلہ بدلا ہے اور اس کی شکل بدلی ہے۔ اس کو بدلنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک تدبیر کے ساتھ انقلاب مارچ کے لئے روانہ ہوئے، 70 دن ہم دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ ہماری تدبیر حکومت اور نظام کے فوری خاتمہ کے لئے تھی اور اس کے نتیجے میں نئے نظام کے قیام کے لئے تھی۔ اللہ رب العزت کو اس حکومت اور نظام کا فوری خاتمہ منظور نہ تھا۔ اللہ رب العزت فرعونوں، قارونوں، جابروں کو مہلت دیتا ہے لہذا اللہ کے ہاں ان حکمرانوں کی ابھی کچھ مہلت تھی اور یہ اس کی تقدیر ہے۔ جہاں تک ہماری قربانیوں، جدوجہد اور صبرو استقامت کا تعلق ہے اس میں نہ کوئی کمی رہی اور نہ پاکستان کی تاریخ اس کی مثال پیش کرسکتی ہے اور نہ دنیا کی اقوام کی تاریخ میں اتنا طویل ترین پرعزم عظیم دھرنا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مہلت دینے کا فیصلہ کیا، فوری طور پر یہ حکومت نہ گئی مگر اللہ رب العزت نے ہمیں اس کا نعم البدل عطا کردیا اور وہ یہ کہ کائنات کے رب نے ملک کے کروڑوں عواموں کے ذہن کو بدل ڈالا۔ لوگوں کی فکر میں انقلاب آ گیا، پوری قوم کو فکری انقلاب ملا جو 1947ء سے لے کر 1970ء تک نہیں ملا تھا۔ 71, 70ء میں ایک بار جب ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک چلی تو لوگوں کی سوچیں بدلی تھیں مگر اس کے بعد پھر 2014ء تک جمود آ گیا۔ ہماری جدوجہد سے اللہ رب العزت نے 43 سال کے بعد دوبارہ قوم کو ذہنی انقلاب عطا کیا۔ قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور قوم نے باطل نظام کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کرلیا۔ حکومت کے ظلم و ستم، جبرو تشدد اور قتل و غارت گری کے باوجود جب ہم 14 اگست کو نکلے تھے تو لوگوں کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں مگر عوام کروڑوں کی تعداد میں ہمارے ساتھ نہ تھے، انقلاب کے ساتھ صرف کارکن تھے، جب دو مہینے گزرے، کارکنان کی قربانیاں پھل لائیں اور آج کروڑوں لوگوں کی صرف ہمدردیاں نہیں بلکہ ان کے ذہن بھی ہمارے ساتھ ہوگئے ہیں۔عوام انقلاب کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں اور ثبوت ہزارہ کی زمین پر آج ایبٹ آباد کا اجتماع بتارہا ہے۔ لاہور و فیصل آباد کے اجتماع نے بتادیا اور اب ہر شہر جہاں جہاں انقلاب کا پڑاؤ ہوگا، اس بات کو ثابت کرتا چلا جائے گا۔
ہماری جدوجہد سے کمزور اور مایوس لوگوں کو ہمت اور جرات ملی۔ انقلاب کی آرزو زور پکڑ گئی ہے، سٹیٹس کو کے خلاف نفرت بھڑک اُٹھی ہے۔ وہ لاکھوں لوگ جو ذہنی طور پر بدل گئے تھے اور انقلاب کے ساتھ ہوگئے تھے مگر اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے گھروں سے نکل کر دھرنے میں نہیں پہنچ سکے مگر اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے ذہنی طور پر بدل گئے اور انہوں نے ہمارے انقلاب کی فکر کو قبول کیا۔ یہ پہلی بار ہوا کہ وزیراعظم جہاں گئے لوگوں نے سامنے کھڑے ہوکر ’’گو نواز گو‘‘ کہا۔
جب میں نے فیصل آباد، جھنگ، چنیوٹ اور لاہور میں لوگوں کا منظر اورجذبات دیکھے تو میں نے سوچا 70 دن کے دھرنے کی قربانی کے نتیجے میں قوم میں فکری انقلاب پیدا ہو چکا ہے۔ جو حال ان کا 14 اگست کو تھا وہ اب ان کا 19 اکتوبر کو نہیں ہے لہذا ہم نے تمام اتحادی جماعتوں کے مشورے کے ساتھ فیصلہ کیا کہ اب اس فکری انقلاب کو سمیٹنے کا وقت ہے، اسے آگے پھیلانے کا وقت ہے، اسے مضبوط تر کرنے کا وقت ہے۔
لہذا ضرورت محسوس ہوئی کہ اب اسلام آباد سے چل کر انقلاب کا یہ دھرنا، انقلاب کی یہ تحریک، انقلاب کا یہ پیغام پاکستان کے طول و عرض میں ہر شہر میں لے کر پہنچا جائے اور انقلاب کا ایک طوفان پورے ملک میں اٹھادیا جائے۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہ عظیم کامیابی جو 2 مہینے کے دھرنے نے دے دی اور کروڑوں لوگوں کے ذہنوں میں جو انقلاب کی تڑپ پیدا کردی ہے، سوچوں کے رخ بدل دیے۔ اس دھرنے کو اس کامیابی کے بعد انقلاب کے اگلے مرحلہ میں داخل کیا جائے۔ اس لئے کہ اگر میں ملک کے دور دراز علاقوں میں جلسے کے لئے جاؤں اور پھر واپس پلٹ کر اسلام آباد آؤں تو اس صورت میں ہفتہ، ہفتہ اور 15، 15 دن سفر کرتا رہتا، اس لئے کہ میرے پاس جہاز نہیں، میں گاڑیوں پر آتا جاتا ہوں۔ لہذا یہ کیسے ممکن تھا کہ میں پاکستان کے تمام صوبوں اور دور دراز علاقوں میں بار بار جاتا رہوں اور اسلام آباد میں میرے بغیر لوگ بیٹھے رہیں۔ دھرنے میں بیٹھے لوگوں نے کیا جرم کیا تھا کہ میرے بغیر وہ تنہا دھرنے میں رہتے اور میں تمام ڈویژنز اور سارے ملک میں سفر انقلاب میں خطاب کرتا۔ یہ اسلام آباد دھرنے میں بیٹھے لوگوں پر ظلم تھا، ہم نے سوچا یہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے دھرنے کو ایک جگہ سے اٹھا کر پورے ملک میں پھیلا دیں اور اسلام آباد کے دھرنے کو یوں انقلاب کی تحریک بنائیں کہ خواہ اس حکومت کو گرانا پڑے، خواہ الیکشن کو جیتنا پڑے، دونوں صورتوں میں ہم ہر شہر کی فتح حاصل کرلیں۔ یہ اس 70 دن کے دھرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ آج یہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ اگر یہ دھرنا نہ ہوا ہوتا تو آپ میں سے اکثریت اس طرح جوش و جذبہ کے ساتھ مجھے سننے اور انقلاب کے پیغام کو لینے نہ آتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا دھرنا مختصر مدت کا نہ تھا، ہمارے کارکن 24 گھنٹے رات دن وہاں بیٹھتے تھے۔ رات دن ہزاروں لوگوں کو اسلام آباد میں بٹھا کر میںجلسوں سے خطاب کے لئے نکل پڑتا، یہ ممکن نہ تھا لہذا ضروری ہوا کہ میں بھی چلوں اور میرے ساتھ دھرنے کے کارکن بھی چلیں اور پورے ملک کے قریہ قریہ میں پہنچ کر انقلاب کو ملک کی تقدیر بنا دیں۔
دھرنوں سے جو حاصل کرنا تھا وہ کرلیا۔ انتہا تک پہنچ جانے کے بعد دانشور لیڈروں اور کارکنوں کا کام یہ نہیں ہوتا کہ اسے جمود میں بدل دیں بلکہ پھر دوبارہ تحرک بنایا جاتا ہے۔ انبیاء کرام کی سنت بھی یہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 13 سال مکہ مکرمہ میں رہ کر جدوجہد کی اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ کیا کوئی مسلمان معاذ اللہ یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں ناکام ہوگئے تب مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ کوئی ایمان والا یہ نہیں کہہ سکتا۔مکہ میں رہ کر دعوت دینا بھی ایک حکمت عملی تھی اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنا بھی ایک حکمت عملی ہے۔ انقلاب میں کبھی حضر آتا ہے۔۔۔ کبھی سفر آتا ہے۔۔۔ کبھی قیام آتا ہے۔۔۔ کبھی ہجرت آتی ہے۔۔۔ کبھی یہاں پڑاؤ ہوتا ہے اور کبھی وہاں پڑاؤ ہوتا ہے۔۔۔ انقلاب سفر میں رہتا ہے، جامد ہوکر ایک جگہ نہیں رہتا۔ اسی طرح فوجیں جب محاذ پر لڑتی ہیں توکمانڈر ان چیف جب دیکھتا ہے کہ اس محاذ پر مزید پیش رفت ممکن نہیں تووہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب دوسرے محاذ پر حملہ کردیا جائے۔ اسی طرح وہ جب ضرورت محسوس کرتا ہے تو تیسرے محاذ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ انقلاب کو آگے بڑھانے کے لئے محاذ در محاذ آگے بڑھنے کی ضرورت تھی، سو ہم نے محاذ بدلا ہے، مرحلہ بدلا ہے مگر سفر انقلاب نہ روکا تھا نہ روکا ہے اور نہ کبھی رکے گا۔
تنقید کرنے والو سنو! یہ کیپٹن کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ اب بیٹنگ کرنی ہے یا باؤلنگ کرنی ہے۔ اسلام آباد میں تھے تو ہم بیٹنگ کررہے تھے ۔ اسلام آباد دھرنے کی صورت میں بیٹنگ کا ٹائم مکمل ہوا اب ہم باؤلنگ کے لئے نکلے ہیں۔ ہم نے میچ ہر صورت جیتنا ہے، خواہ کسی بھی حکمت عملی سے جیتیں۔ اس لئے کہ میں All Rounder شخص ہوں، میرا انقلاب All Rounder ہے۔ میں عوام کے دشمنوں کو کبھی ایک طرف سے گھونسا لگاؤں گا کبھی دوسری طرف سے گھونسا لگاؤں گا۔۔۔ کبھی Kick لگاؤں گا۔۔۔ کبھی باؤنسر ماروں گا۔۔۔ کبھی یارکر اور کبھی گگلی پھینکوں گا۔۔۔ میں نے لڑ کر ہر صورت جیتنا ہے، یہ میری اپنی حکمت عملی ہے۔
انقلاب اور پاکستان عوامی تحریک سورج کی مثل ہے ۔ جس طرح سورج کبھی فجر کے وقت پر ہوتا ہے، پھر چل کر ظہر کے وقت پر آتا ہے، رکا نہیں رہتا بلکہ اس کا سفر جاری رہتا ہے۔ پھر وہ غروب ہوتا ہے لیکن جب ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو نادان، تنقید کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ ڈوب گیا۔ نہیں، نہیں، بلکہ وہ اس وقت کسی اور عالم کو منور کر رہا ہوتا ہے۔ عوامی تحریک اور انقلاب کا سورج ڈوبا نہیں بلکہ اب وہ دوسری دنیا کو روشن کررہا ہے۔ کبھی سورج اِدھر دن کرتا ہے کبھی اُدھر دن کرتا ہے۔ سورج حقیقت میں ڈوبا نہیں کرتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ رات آگئی وہ سو جاتے ہیں، انہیں تب پتہ چلتا ہے جب پھر دن چڑھ جاتا ہے۔ عوامی تحریک اور انقلاب ایک ایسا سورج ہے جو کبھی غروب ہوگا اور کبھی طلوع ہوگا مگر یہ ڈوبے گا نہیں۔ یہ ہر جگہ روشنی پھیلاتا رہے گا اور قریہ قریہ روشن کرتا رہے گا۔ 70 دن اسلام آباد میں یہ سورج روشنی پھیلاتا رہا اور اسلام آباد سے پورے پاکستان تک روشنی پہنچاتا رہا۔ اب سورج نے سفر شروع کیا اور ملک کے قریہ قریہ کو روشن کرے گا اور جب کوئی سمجھے گا کہ ڈوب گیا، اس کے سر پر طلوع ہوجائے گا۔ یہ جان لو کہ میں ہار ماننے والا شخص نہیں ہوں، ہمارا نصیب فتح ہی فتح ہے۔ انقلاب جیتے گا۔۔۔انقلاب جیتے گا۔
انقلاب کی دوسری مثال چشمہ کے پانی کی طرح ہے۔ پہاڑوں کا چشمہ زمین کے نیچے نیچے چلتا ہے، اچانک وہ ایک زمین کونرم دیکھتا ہے تو یکدم وہاں سے پھوٹ پڑتا ہے اور زمینیں سیراب کرتا ہے۔ جب وہ نیچے چھپ کر چلتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ختم ہوچکا، نہیں بلکہ وہ اپنے سفر میں ہے، وہ جہاں چاہے گا چشمہ بن کر پھوٹے گا اور ساری زمین کو سیراب کردے گا۔ عوامی تحریک کا انقلاب مارچ کئی چشمہ پھوٹے گا اور پوری ملک کی عوام کو امن و سکون اور خوشحالی سے سیراب کردے گا۔
ایک پروپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ ڈیل ہوگئی، کوئی کہتا ہے دوبئی میں اربوں کا لین دین ہوگیا، اس پر میں حالیہ جلسوں میں بھی کئی بار کہہ چکا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ اگر کسی نے ڈیل کی ہو، پیسے لیے یا دیئے ہوں، اس سے بڑا جہنمی، لعنتی، بے ایمان اور شیطان کوئی نہیں، ہم ایسے عمل پر لعنت بھیجتے ہیں اور جو اس طرح کے بے ہودہ الزامات لگا رہا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ہے۔ تم تو کہتے ہو کہ اربوں روپوں کی ڈیل ہوگئی اور ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا خون معاذ اللہ بیچا گیا، سن لو! میں تاجدار کائنات کا غلام ہوں، ساری دنیا کی حکومتوں اور سلطنتوں کا سرمایہ جمع کرلیں، اللہ کے فضل سے وہ میرے جوتے کا سودا بھی نہیں کرسکتے، ضمیر تو بڑی بات ہے۔ ہم ڈیل کو مسترد کرتے ہیں اورکروڑ بار لعنت بھیجتے ہیں۔
کسی نے کہا کہ نواز شریف صاحب کی والدہ صاحبہ نے مجھے ٹیلیفون کیا۔ 80ء سے لے کر آج تک تقریباً34 سال گزر گئے، آج کے دن تک نہ انہوں نے مجھے فون کیا نہ ہی میں نے انہیں فون کیا۔ نہ دونوں بھائیوں نے مجھے فون کیا اور نہ ہمارا آپس میں رابطہ ہوا۔ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی کروڑوں بار لعنت ہو۔
اسلام آباد دھرنے کو اس طرح ملک گیر دھرنوں میں بدلنے کا یہ ہمارا اپنا آزادانہ فیصلہ ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ PAT اور PTI اکٹھے تھے اور ہم نے عمران خان صاحب اور PTI والوں کو اس بارے بتایا نہیں۔ یہ بات بھی غلط ہے۔ ہم 20 دن پہلے عمران خان صاحب اور ان کی قیادت کو بتاچکے تھے اور یہ ان کے علم میںتھا۔ PAT اور PTI میں کئی مذاکرات اور میٹنگز ہوچکی ہیں، ان کو مکمل طور پر نکتہ نظر سمجھادیا گیا تھا۔مگر ان کا اپنا فیصلہ ہے، وہ اس میں آزاد ہیں، ہم انکے فیصلے کا احترام کریں گے۔ یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے، ہم آزاد ہیں اور وہ ہمارے فیصلے کا احترام کریں گے۔ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہمارا تعلق جیسے پہلے تھا وہی آج بھی ہے اور بعد میں بھی رہے گا۔ سو اس پروپیگنڈا کو بھی میں رد کرتا ہوں۔
آزادانہ طریقے سے دھرنے کی نوعیت کو بدلنے کے ہمارے فیصلہ نے تیسری طاقت یعنی فوج کے ساتھ مل کر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے الزام اور پروپیگنڈا کو بھی ختم کر دیا۔ یہ پروپیگنڈا بھی رد ہوکر اپنی موت آپ مرگیا۔ ثابت ہوا کہ ہم نے دھرنا دینے کا بھی خود آزادانہ فیصلہ کیا تھا اور اگلے مرحلے میں داخل ہونے کا فیصلہ بھی خود آزادانہ کیا ہے۔ لہذا جو لوگ افواج پاکستان یا ایجنسیوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں انہیں چاہئے کہ پوری قوم سے معافی مانگیں، ہم کسی سے Dictation لینے والے نہیں ہیں۔ ہم صرف صاحب گنبد خضریٰ سے Dictation لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں تقریریں کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے جو اس طرح کے الزامات لگاتے تھے۔ اگر کوئی پیچھے ہوتا تو سات دن میں نواز شریف کی حکومت کا کام ہوگیا ہوتا۔ اگر کوئی ہمارے پیچھے ہوتا تو ہم اپنی مرضی سے دھرنے کو ملک میں اس طرح نہ پھیلاتے۔ ہمارا پہلا فیصلہ بھی آزادانہ تھا اور یہ بھی آزادانہ ہے۔
بعض لوگ یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ کچھ اصول طے ہوئے ہیں۔ نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مذاکرات میں جہاں ہم پہلے دن کھڑے تھے، آج بھی وہیں کھڑے ہیں اور جہاں حکومت پہلے دن کھڑی تھی، آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ آج کے دن تک کوئی چیز طے نہیں ہوسکی۔ ملک گیر جلسوں اور دھرنوں کا یہ فیصلہ ہم نے اپنی جرات کے ساتھ کیا ہے۔ ان شاء اللہ ہم انقلاب بھی لائیں گے اور انتخاب بھی لڑیں گے۔ انقلاب کے ذریعے ہم قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔ انتخاب سے پہلے احتساب کروانے پر ڈٹے رہیں گے۔ احتساب کے بعد اصلاحات پر ڈٹے رہیں گے اور اصلاحات کے بعد انتخابات کی طرف جائیں گے۔ یہ ہمارا انقلابی ایجنڈا قائم ہے، قائم رہے گا، ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
اگر اس احتساب کے بغیر قوم پر ناجائز طریقے سے انتخابات مسلط کردیئے گئے تو ہم موجودہ لیکشن کمیشن کے تحت الیکشن نہیں ہونے دیں گے چونکہ ہم نے خود بھی الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ لہذا ہم شفاف الیکشن کمیشن چاہیں گے، ہم دھاندلی کا الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کے تحت انتخابات قبول نہیں کریں گے۔ اس الیکشن کمیشن کا وجود ناجائز ہے۔یہ آرٹیکل 214، 213، 218 کی خلاف ورزی میں بنا تھا، جو الیکشن ہوئے تھے وہ غیرجانبدارانہ نہ تھے۔۔۔ منصفانہ نہ تھے۔۔۔ شفاف نہ تھے۔ ن لیگ کے سوا پاکستان کی ہر پارٹی مئی 2013ء کے الیکشن کو دھاندلی والا الیکشن قرار دے چکی ہے۔۔۔ پیپلز پارٹی نے کہا کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ PAT نے کہا کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ PTI نے کہا کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ JUI نے کہا کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ MQM نے کہا کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ ANP نے کہا کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ سندھ میں ن لیگ نے کہا کہ دھاندلی ہوئی۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر پارٹی یہ مان چکی ہے کہ الیکن کمیشن شفاف الیکشن نہیں کراسکتا، یہ اس کے اہل نہیں، اسے برقرار نہیں رہنا چاہئے لہذا اگلا الیکشن اس کے تحت ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ چاروں ریٹائرڈ جج جو الیکشن کمیشن کے ممبر ہیں، ان سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ اور درخواست کرتا ہوں کہ آپ کی نالائقی و نااہلیت کی وجہ سے ملک میں کہرام مچ گیا ہے۔ لہذا چاروں ممبر از خود مستعفی ہوجائیں وگرنہ ہم APC کال کرسکتے ہیں اور مشترکہ لائحہ عمل اپناتے ہوئے موجودہ الیکشن کمیشن کو ختم کرکے نیا اور شفاف بنانے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اگر بلدیاتی الیکشنوں سے پہلے حلقہ بندیاں ہونی ہیں تو ہم حلقہ بندیاں بھی اس الیکشن کمیشن کے تحت نہیں چاہتے کیونکہ اس میں بھی دھاندلیاں ہوں گی۔ ہم الیکشن کمیشن اور حکومت کا مک مکا بھی نہیں ہونے دیں گے۔ عوامی تحریک اب انقلاب کا سمندر بن چکی ہے۔ ہم اس ملک کو شفاف، دیانتدارانہ اور غیرجانبدارانہ الیکشن کمیشن اور انتخابات دینا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک کو کرپٹ اور لٹیرے سیاستدانوں سے پاک قیادت دینا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں مزدوروں کے نمائندے آئیں، کسانوں کے نمائندے آئیں، غریبوں کے نمائندے آئیں اور اچھے کردار کے لوگ آئیں۔
ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیاں جو ہزارہ کو صوبہ بنانے کے لئے وعدے کرتے رہے، اسی بنیاد پر الیکشن لڑے مگر ہزارہ کو صوبہ نہیں بنایا، میرا آپ سے وعدہ ہے کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاکستان عوامی تحریک کو انتخابات جتوا دو، سب سے پہلا صوبہ ہزارہ کو بنایا جائے گا۔ اس لئے کہ میں ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کے حق میں ہوں۔
ایبٹ آباد چائنہ کا Gateway ہے۔ چائنہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ سارا کچھ جو چائنہ آتا جاتا ہے وہ ساری بزنس ایک چھوٹے سے بازار اور سڑک سے گزرتی ہے۔ یہاں Dual carriageway Project چاہئے جو حسن ابدال سے لے کر مانسہرہ تک چائنہ کی تجارت کو پاکستان تک ملانے کے لئے ہو۔ میں اس Dual Carriageway کو بنانے کا اعلان کرتا ہوں اگر پاکستان عوامی تحریک کی حکومت آئی تو ہم قراقرم سے لے کر ہری پور، حسن ابدال تک Dual Carriage way بناکر اسے تجارت کا مرکز بنائیں گے اور ایبٹ آباد کو دنیا کی جنت میں بدلیں گے۔ ہزارہ میں کوئی بڑی انڈسٹری نہیں بنائی گئی، یہ علاقہ سیاحت کا مرکز بن سکتا ہے۔ ہزارہ، مانسہرہ، بالاکوٹ، ناران کاغان یہ سارا خطہ اللہ کی عزت کی قسم سوئٹرزر لینڈ سے زیادہ خوبصورت بن سکتا ہے، یہ معدنیات سے بھرا خطہ ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کی حکومت آئی تو ہم اس پورا صوبہ ہزارہ کو کاغان، ناران کی ویلی تک ان شاء اللہ سوئٹزرلینڈ کی طرح دنیا کی جنت بنادیں گے اور کاروبار کا مرکز بنادیں گے۔
ہر شخص پاکستان عوامی تحریک کا ممبر بنے، میری طرف سے آپ میں سے ہر شخص عوامی تحریک کا لیڈر ہے۔ اپنے اپنے قصبوں، گلیوں میں کمیٹیاں، تنظیمیں اور یونٹ بنائیں۔ ممبر سازی کریں اور بلدیاتی الیکشن کی تیاری کریں۔ ہر جوان بلدیاتی الیکشن میں کونسلر بنے، چیئرمین بنے،و ائس چیئرمین بنے۔ میں یونین کونسل، تحصیل، ضلع میں جوانو تمہاری حکومت دیکھنا چاہتا ہوں۔ اپنے ووٹ درج کراؤ اور اس علاقہ کو عوامی تحریک کا قلعہ بنا دو۔ گھر گھر پیغام پہنچادو۔
پاکستان عوامی تحریک کا منشور یہ ہے کہ ان شاء اللہ ہر بے گھر کو گھرملے گا۔۔۔ ہر ایک کو روٹی ملے گی۔۔۔ ہر ایک کو کپڑا ملے گا۔۔۔ ہر بے روزگار کو روزگار ملے گا، اگر روزگار نہیں تو بے روزگار الاؤنس ملے گا۔۔۔ اشیاء خوردو نوش آٹا، چاول، دودھ، گھی، دال، سبزی، کپڑا ہر غریب کو آدھی قیمت پر ملے گا، آدھی قیمت حکومت ادا کرے گی۔۔۔ غریبو! عوامی تحریک کی حکومت تمہاری ایسے پرورش کرے گی جیسے ماں اور باپ خلوص کے ساتھ بچے کی پرورش کرتے ہیں۔۔۔ جس کی آمدنی 15,000 سے کم ہے اس کو بجلی پانی اور سوئی گیس آدھی قیمت پر دے گی۔۔۔ میٹرک تک ہر بچہ کے لئے یکساں نظام تعلیم ہوگا اور کتابوں سمیت فری تعلیم ہوگی۔۔۔ ہر غریب کا علاج مفت ہوگا۔۔۔ جو مزارع اور کسان کاشتکاری کرتے ہیں مگر ان کے پاس اپنی زمین نہیں ہے، ہر کاشتکار گھرانے کو 5 ایکڑ سے لے کر 10 ایکڑ تک زراعت کے لئے زمین مفت دے دی جائے گی اور اسے اس کا مالک بنادیا جائے گا۔۔۔ عورتوں کے لئے گھریلو انڈسٹری لگائی جائیں گی تاکہ کوئی عورت محتاج نہ رہے اور ہر عورت خودکفیل ہوجائے۔۔۔ عورت کی عزت بحال ہو اور عورت کے خلاف ظالمانہ قوانین نہ ہوں۔۔۔ تنخواہوں کو Review کریں گے، بڑوں چھوٹوں کی تنخواہوں کا فرق ختم یا کم کردیں گے۔۔۔ اس ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ کردیں گے۔۔۔ انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے ان شاء اللہ۔۔۔ دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔۔۔ تکفیریت کا خاتمہ کریں گے، کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مسلمان مسالک کو کافر قرار دے کر ان کے گلے کاٹتا پھرے۔۔۔ پورا ملک بھائی بھائی بن کر رہے گا اور اس ریاست کا وہ نقشہ بنائیں گے جو رسول خدا، تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کی شکل میں عطا کیا تھا۔
ہم ان شاء اللہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ریاست مدینہ کے اصولوں کی پیروی کریں گے۔ ان شاء اللہ خلافت راشدہ کے اصولوں کی پیروی کریں گے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا میرے دور میں اگر بکری کا بچہ بھی دریائے دجلہ کے کنارے بھوک سے مرگیا تو اللہ مجھ سے پوچھے گا۔ ہم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا وہ نظام لائیں گے کہ انسان تو انسان بکری کا بچہ بھی بھوکا نہ مرے۔۔۔ ہم اس قوم کی بیٹیوں کو سیدنا کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا رنگ دینے کی کوشش کریں گے۔۔۔ ان کو سیدنا زینب رضی اللہ عنہا کی باندیاں بنائیں گے۔۔۔ جوانوں کو امام حسین علیہ السلام کی جرات دیں گے۔ یہی خواب علامہ اقبال کا تھا۔۔۔ یہی خواب قائداعظم کا تھا۔۔۔ ہم اسے پورا کریں گے۔ یہی جناح ازم ہے۔ یہاں نہ سوشل ازم ہوگا، نہ کمیونزم ہوگا، نہ کیپٹیل ازم ہوگا، نہ بھٹو ازم ہوگا، نہ ملا ازم ہوگا اور نہ ضیاء ازم ہوگا یہاں صرف جناح ازم ہوگا، اس میں ہی پاکستان کی بقاء ہے اور یہی اللہ کی مددو نصرت سے آپ سے میرا وعدہ ہے۔
آج سے اس انقلاب کے سفر پر چل پڑیں۔ خواتین اور مرد دونوں کی الگ الگ PAT کی تنظیمیں بنائیں۔ ہر ہر کوچہ، قصبہ، اور شہر میں تنظیمات قائم کریں۔ ہم انقلاب کی جنگ کامیابی تک لڑیں گے۔۔۔ تن من دھن لٹائیں گے۔۔۔ میرے قدم بہ قدم چلو اور لوگوں کو بتا دو کہ ہمارا دھرنا ختم نہیں ہوا بلکہ پورے ملک میں پھیل گیا ہے اور وہ دھرنا اب انقلاب کے ملک گیر سفر میں بدل گیا ہے اور منزل کے حصول تک یہ سفر جاری رہے گا۔ اللہ آپ سب کو سلامت رکھے۔