قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری امریکہ و برطانیہ کے 22 روزہ تنظیمی دورہ کے بعد 20 نومبر کو صبح سات بجے وطن واپس پہنچے۔ علامہ اقبال ائر پورٹ لاہور پر محترم ڈاکٹر حسن محی الدین، محترم ڈاکٹر رحیق عباسی اور محترم خرم نواز گنڈا پور کی قیادت میں ہزاروں کارکنوں نے اپنے محبوب قائد کا والہانہ استقبال کیا۔ ایئر پورٹ لاؤنج اور اس کے گرد و نواح کا تمام علاقہ علی الصبح عوام کا جم غفیر اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ حکومتی حلقوں، ایئرپورٹ انتظامیہ سمیت کسی کو بھی قائد انقلاب کے اس قدر والہانہ استقبال کی توقع نہ تھی۔ کارکنان تحریک اور عوام الناس نے اپنے محبوب قائد کا استقبال کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کردیا کہ وہ قائد انقلاب کے سنگ اپنی انقلابی جدوجہد کو ہر صورت جاری رکھیں گے۔ ایئر پورٹ کا علاقہ ’’گو نواز گو‘‘، ’’گو نظام گو‘‘ اور ’’ویلکم ویلکم طاہرالقادری‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔
شیڈول کے مطابق قائد انقلاب ہزاروں لوگوں کی معیت میں ایئر پورٹ سے حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری کے لئے روانہ ہوئے۔ ایئر پورٹ سے لے کر مزار حضرت داتا گنج بخش پہنچنے تک تمام راستہ میں مختلف جگہوں پر عوام نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے قائد انقلاب کا استقبال کیا۔ کسی جگہ پر غبارے اور کبوتر ہوا میں چھوڑے جارہے ہیں، کسی جگہ پنجاب کے کلچر گھوڑا ناچ کے ذریعے کارکنان اپنی خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ عوام کی بھرپور شرکت اور تاریخی استقبال کے تمام مناظر میڈیا پر براہ راست نشر ہورہے تھے۔ ایئر پورٹ سے حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار تک صرف 20 کلومیٹر کا سفر 5گھنٹوں سے زائد وقت میں طے ہوا۔ جلوس کی شکل میں قائد انقلاب نے محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے ہمراہ مزار حضرت داتا گنج بخش پر پھولوں کی چادر چڑھائی، فاتحہ خوانی کی اور ملکی و قومی سلامتی و استحکام کے لئے خصوصی دعا کی۔ بعد ازاں یہ جلوس ماڈل ٹاؤن منہاج القرآن سیکرٹریٹ کی طرف روانہ ہوا۔ اپنی رہائش گاہ پہنچنے کے بعد قائد انقلاب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
23 جون کو جب پاکستان آیا تھا تو کارکنوں کا خون بہتا دیکھا، اب انصاف کا خون ہورہا ہے، شہداء کے ورثاء کی تائید سے محروم جے آئی ٹی اور ریویو کمیشن عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے، حکمرانوں سے کہا تھا خیبرپختونخوا سے کسی کو بھی سربراہ بنا لیں مگر حکومت اپنی ہر کمٹمنٹ سے بھاگی اور طے شدہ اصولوں سے بھی منحرف ہو گئے۔ پنجاب پولیس قاتل ہے، قاتلوں کی تفتیش کیسے مان لیں۔
حاضر سروس جج کی رپورٹ کے اوپر ریویو کمیشن قائم کرنا سپریم کورٹ پر حملہ کی طرز کا سانحہ ہے۔ فیصلہ دینے والے جج کے فیصلے پر ریویو کیلئے بھی اسی سے رجوع کیا جاتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں پنجاب کے حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ جوڈیشل کمیشن نے 12 گھنٹے کی براہ راست کوریج دیکھ کر پنجاب حکومت کوسانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہرایا، مزید کن ثبوتوں کی ضرورت ہے؟ 40دن کے اندر جوڈیشل رپورٹ کو پبلک کرنا قانونی تقاضہ ہے مگر حکمرانوں نے سٹے آرڈر لے کر رپورٹ کو چھُپا رکھا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری جس نے قتل کے احکامات جاری کیے، اس کے سلطانی گواہ بننے کے خوف سے اسے جنیوا میں ڈبلیو ٹی او کے مشن میں سفیر بنایا جارہا ہے، ابھی وہ سٹاف کالج میں ٹریننگ لے رہا ہے اور اسکی ٹریننگ کی تکمیل تک یہ تقرری التواء میں رکھی گئی ہے۔ توقیر شاہ کو او ایس ڈی بنانے کی خبر بھی جھوٹ تھی، وہ حکمرانوں کے ہر اندرونی بیرونی دورے میں ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ وزارت کامرس نے تجارتی سفیر کیلئے 7 نام بھیجے مگر حکمرانوں نے 8واں نام توقیر شاہ کا شامل کر دیا، جسے انہی کی حکومت کے وفاقی وزیر خرم دستگیر نے مسترد کر دیا مگر یہ دونوں بھائی اسے سفیر بنانے پر بضد ہیں۔
ریویو کمیشن کے ذریعے قانون بدلا جارہا ہے۔ آئندہ کوئی جوڈیشل کمیشن رپورٹ دے گا تو حکمران فیملی فرینڈ، ریٹارئرڈ ججز اور بیوروکریٹس کے ذریعے اسے تبدیل کر دینگے۔ ہم انصاف کا یہ خون نہیں ہونے دینگے اور نہ ہی حکومت کو شہداء کے خون سے دھوکا کرنے دینگے۔ ہر ضلع میں کارکنوں پر سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایک میں ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔اسلام آباد دھرنا ختم کرنے پر مجھ پر ڈیل اور طرح طرح کے الزامات لگائے گئے، کیا یہ ڈیل کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف میرے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے بلکہ اشتہاری بھی قرار دے دیا گیا۔ میری واپسی حکومت اور ڈیل کا الزام لگانے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
گولیاں کس نے چلائیں، قاتل کون ہے، سب جانتے ہیں۔ لہذا قاتلوں کی جے آئی ٹی قبول نہیں۔ حاضر سروس جج کی رپورٹ پر ریٹائرڈ جج پر مشتمل ریویو کمیشن بنانا عدالت کی توہین ہے، قتل کے نامزد ملزمان وزیراعظم، وزیراعلیٰ کو گرفتار کیا جائیگا تو جعلی مقدمات میں ہم بھی گرفتاری پیش کردینگے۔ جس نے گرفتار کرنا ہے کر لے میں کوئی چھپا ہوا نہیں، حکومت نے مذاکرات کے دوران ہمارے جتنے مطالبات کو تسلیم کیا ان سب سے منحرف ہو گئی۔ عدالتی رپورٹ حکمرانوں کے حق میں ہوتی تو کیا پھر بھی ریویو کمیشن بنتا؟
20 کروڑ پاکستانیوں کے حقوق کی جنگ لڑرہا ہوں، میری وطن واپسی سے ڈیل کی باتیں کرنے والوں پر منہ پر تالے لگ گئے۔ سانحہ کے شہداء کے ورثاء بیانات قلمبند کرانے کے لئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ جے آئی ٹی میں عسکری ایجنسیوں کے نمائندوں کی شمولیت کا مطالبہ غیر آئینی نہیں بلکہ آئین کی 18 ویں ترمیم میں سول اور ملٹری ایجنسیوں پر مشتمل JIT کی تشکیل کا ذکر موجود ہے۔ خیبر تا کراچی اور کشمیر تا کوئٹہ جلسے اور دھرنے ہونگے، انقلابی جدوجہد سے بادشاہت اور سٹیٹس کو کا خاتمہ کر دینگے۔ اسلام آباد کے دھرنے کو ملک گیر تحریک میں تبدیل کر دیا گیا ہے اب میرا ٹھکانہ مستقل طور پر پاکستان میں ہو گا، بیرونی ممالک مختصر وقت کیلئے دورے کرتا رہوں گا۔دھرنے کو ناکام کہنے والے میری آمد کے موقع پر لاہور کی سڑکوں پر موجود ان ہزاروں لوگوں کی موجودگی کو کیا کہیں گے۔ ان لوگوں کی موجودگی ہماری انقلابی جدوجہد پر عوامی اعتمادکا اظہار ہے۔