حمد باری تعالیٰ جل جلالہ
تہجد کے ہر اک لمحے کو تابندہ سحر کردے
شعورِ بندگی دے کر اِسے میرا ہنر کردے
زرِ حُبِّ محمد (ص) کے خزانے کر عطا لاکھوں
دیارِ دیدہ و دل کا مجھے بھی تاجور کر دے
غبارِ شہرِ طیبہ میں رہیں آنکھیں قیامت تک
مرے اشکوں کو یارب! سجدہ ریزی کے گہر کردے
چھلک پڑتی ہے اکثر آخرِ شب یادِ طیبہ میں
حوالے آبِ رحمت کے مری یہ چشمِ تر کردے
کبھی تاریک جنگل میں بھی سورج کی کرن اترے
زمیں پر عرصہ شب کو خدایا! مختصر کردے
گھِرے رہتے ہیں افکارِ پریشاں میں ترے بندے
خلافِ عدل ہر اک فیصلے کو بے اثر کردے
حصارِ نرگسیت میں ہے بینائی کا سرمایہ
تو اپنے فضل و رحمت سے مجھے بھی دیدہ ور کر دے
سناتی ہی رہے شام و سحر سرکار (ص) کو نعتیں
ہوائے شہرِ مدحت کو کسی کا نامہ بر کردے
جہانِ رنگ و بو میں تُو بفیضِ نعتِ پیغمبر(ص)
ریاض بے نوا کی گفتگو کو معتبر کر دے
{محترم ریاض حسین چودھری کے 10 ویں نعتیہ مجموعہ ’’آبروئے ما‘‘ سے انتخاب}
نعت بحضور سرورِ کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
دعائے آخرِ شب بن کے چمکی لو غلامی کی
شبِ وجدان میں اتری تجلی آشنائی کی
مجھے خوشبو کا جھونکا لے گیا سرکار (ص) کے در پر
سلامِ شوق کے پھولوں نے میری رہنمائی کی
ندامت میں وہاں آنکھوں کے قلزم لے کے پہنچا تھا
شفیعِ محتشم (ص) نے لاج رکھ لی اپنے عاصی کی
یہاں دن رات مولیٰ خوں کی ہولی کھیلی جاتی ہے
رہے آقا اماں میں سالمیت میری دھرتی کی
جو رہبر ہے، لٹیرا ہے! دہائی! یارسول اللہ!
سزا دی جاتی ہے انساں کو اس کی بے گناہی کی
بھنور میں پھنس گئی امت کی ناؤ یارسول اللہ!
کرم آقا (ص)! کوئی صورت بنے مشکل کشائی کی
مجھے پورا یقیں ہے صبحِ نو آخر طلوع ہوگی
ہمارے سر پہ چھاؤں ہے تجلی والی کملی کی
مری آنکھوں سے دریا پھوٹ نکلا جب ندامت کا
ہوئی برسات نازل مجھ پہ لطفِ مصطفائی کی
عزیز اکثر چھپا لیتا ہے چہرہ شرمسار اپنا
جہاں بھی ہو، اِسے عادت ہے اب مردم گریزی کی
{محترم شیخ عبدالعزیز دباغ کے نعتیہ مجموعہ ’’مطافِ نعت‘‘ سے انتخاب}