انقلابی جدوجہد
70 دن کی انقلابی جدوجہد ملک کے نامور و غیر جانبدار کالم نگار، دانشور اور تجزیہ
کار حضرات کی نظر میں
محترم قارئین! گزشتہ صفحات پر آپ انقلاب مارچ اور دھرنا کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال، کارکنان تحریک اور شرکاء دھرنا کی صبرو استقامت، قربانیوں اور قائد انقلاب کی بصیرت، خلوص اور استقامت کے حوالے سے رپورٹ ملاحظ فرماچکے۔ آیئے اب دیکھتے ہیں کہ قومی اخبارات سے وابستہ صحافی، دانشور، تجزیہ کار اور کالم نگار احباب ہماری اس انقلابی جدوجہد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان احباب کے یہ تجزیئے اور قائد انقلاب کے موقف کی تائید اس بات کی علامت ہے کہ اس انقلابی جدوجہد نے معاشرے کے ہر طبقہ فکر اور ہر شعبہ سے وابستہ افراد پر گہرے مثبت اثرات مترتب کئے ہیں۔ زیر نظر صفحات پر قومی اخبارات کے نامور حضرات کے جدوجہد کے آغاز سے لے کر اب تک کے کالمز سے مختلف اقتباسات تاریخ وار پیش کئے جارہے ہیں۔ اس سے آپ کو ہر روز کی بدلتی صورتحال کا بھی اندازہ ہوتا چلا جائے گا کہ کارکنان تحریک کن حالات سے گزرتے ہوئے قربانیاں پیش کرتے رہے۔
02 اگست 2014، روزنامہ جنگ (حسن نثار)
چودہ اگست 2014ء کو کس کس کے چودہ طبق روشن ہوں گے اور کس کس کی بتی بجھ جائے گی؟ اس کا اندازہ تو تب ہی ہوگا جب اسلام آباد میں جعلی جمہوریت اور اصلی ایجنڈے میں جوڑ پڑے گا۔ عمران خان ہو یا ڈاکٹر طاہرالقادری۔۔۔ اصل میں ایجنڈا ایک ہی ہے، فرق ہے تو فقط طریق کار کا کہ چاہتے دونوں ہی ’’تبدیلی‘‘ ہیں۔ عمران نظام کے اندر رہ کر اسے بدلنے پر بضد ہے جبکہ طاہرالقادری باہر سے اس نظام کے شیطانی قلعہ کو نیست و نابود کرنے کا خواہشمند۔ جہاں تک تعلق ہے لاوارث عوام کا تو ان کی دلچسپی کا محور اس آدم خور عوام دشمن نظام کی تباہی ہے۔ کوئی اندر سے اسے تباہ کردے یا باہر سے، عوام کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں منحوس موروثی جن جپھے سے نجات چاہئے۔ لعنت اس نظام پر جو دولت اور طاقت کو عوام تک جانے ہی نہیں دیتا۔ تمام تر ’’اختیارات‘‘ اور ’’مالیات‘‘ دو ہاتھوں میں کہ نہ یہ لوکل باڈیز کی طرف آئیں نہ ملکی طاقت و دولت نیچے عوام تک پہنچے۔ ابلیسیت مکمل اختیار، اقتدار اور اس کا ارتکاز چاہتی ہے۔ دولت اور طاقت کے ملکی خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے یہ لوگ ایک ایک پائی پر ذاتی کنٹرول کے جنون میں مبتلا ہیں تو دوسری طرف ایک چپراسی کی بھرتی اور تبدیلی پر بھی ذاتی گرفت چاہتے ہیں جیسے یہ ملک نہیں ان میں سے کسی کے باپ کی جاگیر یا کوئی راجواڑہ ہو۔ یہ عوام کے ساتھ کچھ بھی شیئر کرنے کو تیار نہیں لیکن اب جمہوریت کے نام پر یہ جمہور دشمن واردات دور تک جاتی دکھائی نہیں دیتی۔ عوام اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں پاکستان چاہئے یا چند خاندان؟ خزانہ ان کی ذاتی ملکیت اور گورنمنٹ فنکشنریز ان کے ذاتی ملازم۔ کئی کئی وزارتوں پر بیٹھے جیسے ان پورٹ فولیوز کے انڈوں میں سے چوزے نکال رہے ہوں۔ ایسی بدترین سول آمریت کو جمہوریت کہہ کر اس کا دفاع کوئی احمق کرسکتا ہے یا اس وطن دشمن نظام کا کوئی بینی فشری اور طفیلیا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کی طرف سے پھینکی گئی ہڈیاں چبا رہا ہو یا چھیچھڑوں کی چیونگم سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ جہاں مالی اختیار اور انتظامی اقتدار گراس روٹ لیول تک نہ پہنچنے پائے وہاں جمہوریت کا ذکر ہزیان بکنے اور کسی بے جان لاشے کو ’’زندہ‘‘ ثابت کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
پاکستان کے تباہ حال عوام کو اس جہنم نما کھولے سے نکالنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہی نہیں کہ۔۔۔
اول: عبوری حکومت ہو۔
دوم: یہ حکومت بے رحم، برق رفتار احتساب کو یقینی بنائے۔
سوم:
احتساب کے ساتھ ساتھ جینوئن انتخابی اصلاحات کی جائیں۔
چہارم: پھر الیکشن کا ڈول ڈالا
جائے۔
جب تک کتا کنویں سے نہیں نکالا جاتا، بالٹیاں بوکے نکالنا بے سود یعنی پھر وہی بات کہ خنزیر کا گوشت کروڑوں بار بھی مشین میں ڈالو گے تو ہر بار قیمہ خنزیر کا ہی نکلے گا۔ اس شیطانی چکر کو ٹوٹنا ہوگا۔ اس ناپاک واردات کو خاک میں ملانا ہوگا کہ صرف نام ’’پاکستان‘‘ رکھنے سے پاکیزگی نصیب نہ ہوگی۔ عوام اور ملک کو مسلسل فیل کرنے والا نظام ڈی ریل نہ ہو تو دائرے کا یہ سفر اور سانپ سیڑھی کا یہ کھیل یونہی چلتا رہے گا۔
اگر کسی کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی ٹوپی، داڑھی یا سینکڑوں کتابوں میں سے کوئی کتاب یا اس کا موضوع پسند نہیں مثلا جو کتاب دہشت گردی پر ہے تو شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ قول یاد کرو کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے، اس پر توجہ دو کہ کیا کہہ رہا ہے؟ کوئی باشعور، باضمیر، عوام دوست اور محب وطن شخص اس ایجنڈا سے انکار نہیں کرسکتا۔ کون ہے جو احتساب کی خواہش نہیں رکھتا؟ تو کیا چور آپس میں احتساب کریں گے؟ نہیں یہ کام کوئی نیوٹرل پارٹی ہی کرسکتی ہے۔
رہ گیا پنکچر پلید انتخابی نظام اور ’’طاقت بذریعہ دولت، دولت بذریعہ طاقت‘‘ کی بازی گری اور ٹھگی تو یہ شاید اب مزید قائم نہ رہ سکے۔ آج نہیں تو کل۔۔۔ یہ چودہ اگست نہ سہی تو کوئی اور سال، مہینہ اور تاریخ کوئی اور عمران خان، کوئی اور ڈاکٹر طاہرالقادری لیکن انسانی تاریخ کا یہ طے شدہ فیصلہ ہے کہ عوام کبھی مرتے نہیں۔۔۔ خاندان کبھی بچتے نہیں اور اس سے بھی کہیں زیادہ ہولناک حقیقت یہ کہ ایسے معاملات میں جتنی تاخیر ہوتی چلی جاتی ہے، احتساب اتنا ہی یادگار اور خونخوار ہوتا چلا جاتا ہے۔
5 اگست 2014، روزنامہ ایکسپریس (تنویر قیصر شاہد)
سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابوں کے مصنف، سیرت نگار اور یورپ و شمالی امریکہ میں دہشت گردی اور خونخوار دہشت گردوں کے خلاف پہلی بار باقاعدہ فتویٰ مرتب اور پیش کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان بھر کے میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا نمایاں نجی ٹی وی نہیں ہے جس نے ان کا انٹرویو نشر نہ کیا ہو۔ ان کے مصاحبوں کے مندرجات سے اتفاق یا عدم اتفاق کرنا سننے والوں کا بنیادی حق ہے لیکن اتنا ضرور ثابت ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت اور ان کے افکار، خواہ وہ جیسے بھی ہیں کو نظر انداز کرنااور ان سے اغماض برتنا ہمارا میڈیا افورڈ نہیں کرسکتا۔ ان کا کہا اور لکھا گیا کتاب ہے۔ کئی جوانب سے مخالف اور مخاصمت کے باوصف یہ واقعہ ہے کہ قادری صاحب کے مکالمے اور مکاشفے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پاکستان میں مروجہ جمہوریت اور اس کی کمزرویوں کو جس طرح عیاں اور بے نہاں کررہے ہیں، مقتدر سیاستدان ان کی مخالفت کرتو رہے ہیں لیکن کوئی شافی جواب سامنے نہیں آرہا۔ یوں بہت سے کھسیانی بلیاں کھمبا نوچتی نظر آرہی ہیں۔ اسی جمہوریت، جس پر گذشتہ تین عشروں سے صرف دو خاندانوں کی مقتدرانہ اجارہ داری چلی آرہی ہے، نے عوام کو دیا کیا ہے؟ علامہ قادری صاحب یہ سوال بار بار پوچھ رہے ہیں لیکن اس کا اطمینان بخش جواب دیا جارہا ہے نہ ان کے دلائل کے سامنے کوئی بند باندھتا نظر آ رہا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب جنہیں ان کے مخالفین مشتعل اور بے توقیر کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں، اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے بار بار اعلان کررہے ہیں کہ اگر لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور کذب و ریا کی یہی جمہوریت پنپتی اور فروغ پاتی رہی تو باز آئے ہم ایسی جمہوریت سے۔ انہی کمزوریوں کی بنیاد پر وہ ہمیں یہ اعلان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ جو آئین ککڑی چوروں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے انہیں طاقتور اور دولتمند سیاستدان بننے میں معاونت فراہم کررہا ہو، ہمیں ایسا آئین منظور نہیں۔ اور وہ پولیٹیکل سسٹم اور انتخابی نظام بھی قابل قبول نہیں جو کرپٹ افراد کو آسانی کے ساتھ دھن، دولت، برادری ازم اور لٹھ بازی کی طاقت سے اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچادے۔ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب جو پاکستان عوامی تحریک (PAT) کے رہبر و رہنما بھی ہیں اور عالمی تحریک منہاج القرآن کے روح رواں بھی، وطن عزیز کی بہتری اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام (جنہیں اکثر طاقتور سیاستدان اپنے گھڑے کی مچھلی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے) کو ان کے اصل حقوق دینے کی بات کر رہے ہیں تو اس میں برائی اور جمہوریت دشمنی کا عنصر کہاں سے نکل آتا ہے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب، جنہوں نے دین کی خدمت میں لاریب بے مثل کام کیا ہے، اگر اپنے عوام کو آئین کی اصل روح سے آشنا کرانے اور ان کے لئے جمہوری حقوق شناسی کی تگ و دو کررہے ہیں تو اسے تنقید اور تنقیص کا ہدف کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کی بدقسمتی اور کمزوری یہ ہے کہ ان کے پاس گلو بٹ ہیں نہ بھاری تعداد میں لٹھ بازوں کا لشکر ہے۔ کیا یہ المیہ انہیں کہ جمہوریت کے نام پر بالعموم انہی دو عناصر کو بروئے کار لاکر اقتدار اور اختیارات حاصل کئے جاسکتے ہیں؟ کیا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے؟ پاکستان کی خاموش اکثریت اس کا جواب ’’ناں‘‘ میں دیتی ہے لیکن یہ خاموش اکثریت ناتواں بھی ہے اور بے زباں بھی۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دلیل و برہان کی طاقت سے ان بے زبانوں کو زبان دینے نکلے ہیں تو سٹیٹس کو کی حامی قوتیں چاروں اطراف سے ان پر حملہ آور ہونے لگی ہیں۔ لٹھ بازوں کا گروہ ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لئے باہر نکل آیا ہے۔ مستقبل کا احوال تو صرف خدا کی بلند اور بابرکت ذات ہی جانتی ہے لیکن نظر آرہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا قافلہ اب رکنے اور تھمنے والا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے جانثاروں کی درجن سے زائد جانیں پیش کردی ہیں۔ ممکن ہے اس نقصان میں مزید اضافہ ہو لیکن انہوں نے جس سیلاب کو آواز دی ہے اس کے سامنے سٹیٹس کو کے قلعے کا پھاٹک زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ یہ پھاٹک ٹوٹے گا تو قائداعظم کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
6 اگست 2014، روزنامہ دنیا (منیر احمد بلوچ)
اگر 17 جون کو منہاج القرآن مرکز میں بے گناہ عورتوں اور مردوں کا وحشیانہ قتل عام نہ ہوا ہوتا تو ممکن ہے کہ چودہ اگست یا اس سے پہلے کسی قسم کے لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آتی اور اگرایسا ہوبھی جاتا تو شاید اسے وہ عوامی پذیرائی نہ ملتی جو ابھی سے دیکھنے میں آرہی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ اتفاقاً ہوا ہے تو وہ اپنی جگہ پر غلط ہے۔ ہر کوئی یہی محسوس کررہا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہی کیا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو اس قدر خوف زدہ کردیا جائے کہ وہ پاکستان واپسی کا ارادہ ہمیشہ کے لئے نہیں تو کچھ عرصہ کے لئے ضرور ملتوی کردیں لیکن ایسا سوچنے والوں کے سب اندازے غلط ہوگئے اور وہ ایک سنگین غلطی کربیٹھے۔ انسانی جانوں کے خون سے کھیلی جانے والی اس ہولی نے ہر انسان دوست دل کو تڑپا کر رکھ دیا۔ ہر گھر اداس ہوچکا تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ منہاج القرآن کی ایک معصوم بیٹی کی پکار پر جس کی ماں تنزیلہ اور پھوپھی شازیہ گولیوں سے بھون کر وحشت و بربریت کا نشانہ بنادی گئیں، ان کے لئے نہ جانے کتنے نوجوان اور بیٹیاں باہر نکل پڑیں، کسی کو ابھی اس کا اندازہ نہیں ہے۔
کیا اس ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے؟ یہ خون ناحق چھپے گا کیسے۔۔۔ جسے یہ دنیا چھپا رہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کا شور اگر کسی کو سنائی نہیں دے رہا تو وہ حکمران ہی ہیں۔
کیا مرکز منہاج القرآن کے دروازے پر تنزیلہ بی بی اور شازیہ بی بی کا بہایا جانے والا خون ناحق اسی طرح بہایا جاتا رہے گا؟ کیا یہ خون ناحق انصاف کی ہر آنکھ سے اسی طرح اوجھل رہے گا؟ اگر ایسا ہوا تو کل کو کشمیر کی بیٹیوں کے لئے اٹھائی جانے والی آواز بھی کسی کو سنائی نہیں دے گی۔
9 اگست 2014، روزنامہ جنگ (حسن نثار)
عوام کے تحفظ کا مسئلہ ہو تو پورا پورا ٹھنڈ پروگرام کہ عوام تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ 20 کروڑ میں سے پانچ سات کروڑ کم بھی ہوجائیں تو بھلا کیا فرق پڑتا ہے کہ راج پاٹ کے لئے تو پندرہ کروڑ بھی بہت ہیں اور ویسے بھی عوام کی تعداد اگر کم ہوجائے تو ایک فائدہ یہ ہے کہ ’’فی کس آمدنی‘‘ بڑھ جائے گی لیکن۔۔۔ جب شاہی خاندان کے اپنے تحفظ کا مسئلہ ہو تو صوبہ بھر کی پولیس اور ملک بھر کے کنٹینرز بھی کم ہیں۔ جاتی عمرے سے ماڈل ٹاؤن تک لوہے کی دوہری دیواریں کھڑی کردینے کے بعد بھی یہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ تعجب ہوتا ہے۔ دوسری طرف غور کریں کہ پاکستان کی ہر جونک، ہر مگر مچھ اس سڑاند مارتے سسٹم اور جن جپھا جمہوریت کو بچانے کے لئے ان کے ساتھ کھڑا ہے کہ اگر دھڑن تختہ ہوگیا تو ان کے ہاتھ سے بھی پاکستان نام کی وہ مرغی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائے گی جو ان کے لئے سونے کے نہیں پلاٹینم کے انڈے دیتی ہے۔ عوام کے لئے رستے بند دیکھ کر مجھے وہ شعر یاد آرہا ہے:
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
کیا یہ شاہ ایران سے زیادہ مضبوط ہیں یا عیدی امین سے زیادہ طاقتور، یہ حسنی مبارک سے زیادہ بھاری مینڈیٹ رکھتے ہیں یا معمر قذافی سے زیادہ قہر و غضب سے لیس ہیں؟ حقیقت یہ کہ جاتی عمرہ گروپ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہارچکا ہے۔ ان کے اعصاب جواب دے رہے ہیں اور نفسیاتی محاذ پر یہ بری طرح شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ یہ سیاسی موت سے بچ بھی گئے تو اس بری طرح مفلوج ہوجائیں گے جس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مفلوج تو مردہ سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ ایسا کوبرا کس کام کا جو عملاً کیچوا بن چکا ہو۔
اگر ’’حالات‘‘ نے طاہرالقادری کے عاشقوں اور عمران خان کے جنونیوں کو ’’جائنٹ ونچر‘‘ پر مجبور کردیا تو عبرت کی ایسی داستان لکھی جائے گی کہ لوگ ایران کے بادشاہ سے لے کر مصر کے حسنی مبارک تک سب کچھ بھول جائیں گے۔
ابھی کل تک طاہرالقادری اور منہاج القرآن، سب کچھ یہیں تھا لیکن ’’بدنیتی‘‘ کو نہ ’’ٹیکس‘‘ یاد آیا نہ وہ مبینہ منی لانڈرنگ جس کی تلاش میں حکومتی گھوڑے دوڑائے گئے اور غیر ملکی حکومتوں نے انہیں بتایا کہ طاہرالقادری کے ہاتھ اتنے ہی صاف ہیں جتنے اوروں کے غلیظ۔ کمال ہے کہ جب تک ان کی دم پر پاؤں نہ آیا انہیں کسی ٹیکس اور منی لانڈرنگ کا خیال تک نہ آیا کہ پاکستان کے ساتھ جو مرضی ہوتا رہے، چند خاندان ہر قیمت پر محفوظ رہیں لیکن انسانی تاریخ میں ایسا ہوا۔۔۔ نہ ہوگا۔
طاہرالقادری پر مقدموں کی یلغار ہے ٹیکس چوری سے غداری تک کے الزام اس بات کا اہتمام ہیں کہ عوام اس درویش کی طرف مزید متوجہ ہوں جو سردھڑ کی بازی لگاچکا۔ ’’گر جیت گئے تو جیت گئے ہارے بھی تو بازی مات نہیں‘‘۔
10 اگست 2014، روزنامہ جنگ (حسن نثار)
چشم بد دور۔۔۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لے کر صوبائی دارالحکومت لاہور تک گڈ گورننس بھنگڑے، دھمالیں اور لُڈیاں ڈالتی پھر رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے صرف ایک کنٹینر نے اسے ’’کنٹینر بابا‘‘ بنادیا تو کنٹینروں کا اتوار بازار لگا دینے والوں کو ’’کنٹینر برادران‘‘ کیوں نہ کہا جائے؟ طاہرالقادری نے تو پھر کرایہ ادا کیا یا کنٹینر خریدا ہوگا جبکہ کنٹینر برادران نے تو سینکڑوں کنٹینر مع سامان زبردستی اغوا کرلئے تاکہ گڈ گورننس کی ایک نئی اور انوکھی تاریخ رقم کرسکیں۔
یہ عجیب لوگ ہیں جو خود مارچ کریں تو درست کوئی اور کرے تو بغاوت، طاہرالقادری کی تقریروں کو بغاوت قرار دینے والے جب صدر مملکت کے گلے میں رسی ڈال کر اسے سڑکوں پر گھسیٹنے کی خوشخبریاں سنارہے تھے تو کس تہذیب کا پرچار کر رہے تھے۔
10 اگست 2014، روزنامہ ایکسپریس (اصغر عبداللہ)
جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں، ماڈل ٹاؤن لاہور، جہاں ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ واقع ہے، کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک اور پنجاب پولیس کے درمیان لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں وقفہ وقفہ سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ باقاعدہ شروع نہیں ہوا کہ حکومت کے اپنے احکامات کے نتیجہ میں صوبے کا کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ ماڈل ٹاؤن جس کی شناخت کسی زمانے میں شریف خاندان کی رہائش گاہیں اور ان کی تعمیر کردہ اتفاق مسجد تھی، 17 جون 2014ء کے سانحہ کے بعد آج اس کی پہچان ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایک سادہ سا مکان اور ان کا تعلیمی ادارہ منہاج القرآن ہے۔ گذشتہ اتوار کو جب دوپہر ایک بجے کے لگ بھگ میں اور برادرم سلمان عابد ادارہ منہاج القرآن کے مقابل پارک میں پہنچے تو موسم بہت مرطوب ہورہا تھا۔ عوامی تحریک کی جنرل کونسل کے ہزاروں ارکان پسینے سے شرابور کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے، لیکن مجال ہے کہ کسی کے چہرے پر تکلیف یا بیزاری کا شائبہ بھی ہو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری، چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہٰی کی رفاقت میں سٹیج پر آئے تو جنرل کونسل کے ارکان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں جہاں 10 اگست کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لئے قرآن خوانی کا اعلان کیا، وہاں یہ ذمے داری بھی قبول کی کہ قرآن خوانی کا یہ اجتماع پرامن ہوگا۔ اپنے کارکنوں کو یہ ہدایت بھی جاری کہ کہ دوران سفر میں وہ اپنے ہاتھ میں قرآن، تسبیح اور جائے نماز بھی رکھیں گے اور درود شریف کا ورد کرتے ہوئے آئیں گے۔ اس یقین دہانی کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اس پرامن اجتماع کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرتی لیکن معلوم نہیں کیوں حکومت نے اس کے برعکس راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد ملکی حالات تلاطم کا شکار ہوچکے ہیں اور آئندہ چند روز میں کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
13 اگست 2014، روزنامہ جنگ (محمد سعید اظہر)
’’انقلاب مارچ‘‘ کے داعی ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستانیوں کو جس 10 نکاتی بنیادی منشور پر عمل درآمد کا یقین دلایا، قومی سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی ایسے عوامی منشور کی اولین محرک اور مدعی ہے۔ ’’ن‘‘ لیگ سمیت کوئی دوسری جماعت نہ ایسا دعویٰ کرسکتی ہے نہ ایسا دعویٰ سچائی پر مبنی ہوگا۔ وہ جزواً عوامی خدمت کے ایسے کام سرانجام دیتی رہیں مگر انہوں نے اس عوامی نظام کو پاکستان کا مقدر بنانے کی کوشش نہیں کی۔
یہ 10 نکات کیا کوئی ایسا جرم ہیں جس کی سزا کے طور پر گزشتہ ہفتہ دس دن سے صوبہ پنجاب کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اس عوامی منشور کے پھریرے لہراتے اسلام آباد کا رخ کرتے، حکومت انہیں جانے دیتی، اس سے حکومت کا گرنا کیسے لازم ہوگیا؟ ذرائع آمدرو رفت مسدود کرنے، پٹرول بند کرنے، اشیائے خورد و نوش تک کو مظاہرین کی ترسیل بند کرنے سے آخر شرمندگی اور بدنامی کے علاوہ کیا ہاتھ آیا؟ کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 یا 15مقتولین کی پونے دو ماہ یا دو ماہ کے دورانئے میں ایف آئی آر درج نہ ہونے کا ملبہ کافی نہیں تھا؟ کیا لاہور سمیت پورے پنجاب کو ’’کنٹینر پابند‘‘ دنیا میں تبدیل کردینا انتظامی دانش مندی کے ادنیٰ سے معیار پر بھی پورا اترتا ہے؟
کیا ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنا عوامی منشور نافذ کردیا ہے، جس کے بعد وفاقی اور پنجاب حکومت اس قدر سنگین حواس باختگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا منشور اپنی جگہ، اصل یہ ہے کہ ’’ن‘‘ لیگ کے اس ایک برس نے اقتصادی، سماجی اور امن و امان کے لحاظ سے گذشتہ 60 برسوں کی اذیتیں بھلادی ہیں شیخ رشید کی لال حویلی پر ن لیگی کارکنوں کا دھاوا کس قلعے کو فتح کرنے کی علامت قرار پاسکتا ہے؟ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں خندقیں کھود کر پانی چھوڑنے جیسے اقدامات خوف کا اعلان ہیں یا نہیں؟ پاکستان عوامی تحریک اور پولیس کے تین اہلکاروں کی شہادت کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا حکمرانی کی فراست سے بے بہرہ حب الوطنی قابل قبول ہوسکتی ہے؟ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ’’انقلاب مارچ‘‘ یا 10 اگست کو یوم شہداء سانحہ ماڈل ٹاؤن، اعتدال کے ساتھ Deal نہیں کیا جاسکتا تھا؟ تقریباً 26 برس سے برسر اقتدار ’’ن‘‘ لیگ کو وفاق اور صوبائی سطحات پر ریاستی فورسز کو اس قدر وسیع پیمانے پر اتنی جارحیت کے ساتھ آمادہ پکار کرنا، اس کے پاؤں تلے سے زمین سرکنے کا اعلان ہے یا نہیں؟
پارلیمنٹ میں موجود قومی سیاسی جماعتوں سے لے کر عام شہریوں تک نے ’’انقلاب مارچ‘‘ اور ’’لانگ مارچ‘‘ کے معاملے میں وفاقی اور صوبائی حکومت (پنجاب) کے طرز عمل اور طریق کار سے اختلاف ہی نہیں کیا، مذمت بھی کی۔
13 اگست 2014، روزنامہ نئی بات (حافظ شفیق الرحمن)
گلی گلی ہر شہری اب ببانگ دہل یہ کہہ رہا ہے کہ شریف برادران نے بالعموم پنجاب اور بالخصوص لاہور کے ہر گھر کو سب جیل بنادیا ہے اور خود وزیراعلیٰ پنجاب اس سب جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور وزیراعظم پاکستان سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ 7 اگست سے تادم تحریر انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے اشتراک و اتحاد سے سراسیمہ، ہراساں اور خوفزدہ حکمرانوں نے ماڈل ٹاؤن، فیصل ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، جوہر ٹاؤن اور ٹاؤن شپ کے لاکھوں شہریوں پر مشتمل بستیوں کو منی غزہ بناکر رکھ دیا ہے۔
کراچی میں تو مافیاز نے لیکن لاہور میں صوبائی حکومت نے جگہ جگہ نوگو ایریاز بنا رکھے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت لاہور کے داخلی و خارجی راستوں، سڑکوں، گلیوں اور شاہراہوں کو قطار اندر قطار کنٹینرز رکھ کر بند کردیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ آزاد پاکستان کا لاہور نہیں مقبوضہ کشمیر کا سری نگر ہے جہاں جابر حکمرانوں نے صدائے حق دبانے کے لئے کرفیو کا نفاذ کررکھا ہے۔ ہر سو کنٹینرز دکھائی دیتے ہیں۔ ہر کنٹینر شریف شاہی کی بیڈ گورننس کا تابوت ہے۔ لاہور اسلام آباد میں کنٹینرز کی دیوار برلن کھڑی کر دی گئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی دارالحکومت یہ دونوں شہر جو شہنشاہان جاتی امرہ کی راج دھانیاں ہیں۔۔۔ اب شہر کم اور کنٹینروں کا جنگل زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں شہروں کے شہری اپنے گھروں میں محصور اور مقید ہیں۔ ہر گھر کے دریچے پر صلیبیں آویزاں ہیں۔۔۔ گلوبٹ گسٹاپو فورس پولیس کی وردیوں میں کئی شہروں میں دندناتی پھر رہی ہے۔۔۔ شہری سوچ رہے ہیں کہ جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔ ان پابہ جولاں اور زنجیر بکف شہریوں سے بھی بزدل حکمران ڈرے ہوئے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہیں فری ہینڈ دیا گیا تو ہمارے اقتدار و اختیار، طبل و علم، جاہ و حشم، تخت و تاج، مال و منال، اہل و عیال اور درباریوں حواریوں کی خیر نہیں۔۔۔ اس ڈر اور خوف نے انہیں اور ان کے کفش بردار اور دامن بردار مصاحبین کو اعصابی، ذہنی اور نفسیاتی سطح پر عدم توازن کا شکار بنادیا ہے۔ انقلاب اور آزادی مارچ کی ہیبت سے ان کے سینوں میں ان کے دل یوں کانپ رہے ہیں جیسے گہرے کنویں میں ڈول کی رسیاں تھرتھراتی ہیں۔ بادشاہ سلامت کو آزادی اور انقلاب مارچ کے متوقع عوامی سیل بے پناہ نے اس حد تک خائف کردیا ہے کہ جاتی امرہ کا شاہی محل انہوں نے مکمل طور پر پولیس، ایلیٹ فورس اور رینجرز کے ساونت سورماؤں کی حفاظتی تحویل میں دے رکھا ہے۔ ایسے میں ظل سبحانی بھول گئے کہ احتجاج تو شہریوں کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ شہریوں کے آئینی اور جمہوری حقوق پر شب خون مارنے والی حکومت ہر گز ہرگز جمہوری نہیں ہوسکتی۔ اگر ایسی حکومت گرجائے تو جمہوریت نہیں بلکہ خاندانی موروثی سیاست کا مکروہ نظام ڈی ریل ہوگا اور اگر ایسا ہوگیا تو کچلے، مسلے، ڈسے ستائے، پسماندہ اور محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام سجدہ تشکر بجا لائیں گے۔
رکشوں، موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، بسوں، ویگنوں حتی کہ ایمبولینسوں کو بھی سڑکوں پر نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جارہی۔ کنٹینرز قدم قدم، پیدل چلنے والے شہریوں کے لئے بھی زنجیر پا بن چکے ہیں۔ ان کنٹینرز میں اربوں روپے کی اشیائے خوردو نوش اور ادویات گل سڑ اور ایکسپائر ہورہی ہیں۔ شہریوں اور تاجروں کے اربوں، کھربوں کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے۔
ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے معنوی فرزند نواز شریف کو حریت کی تاریخ کے اوراق پلٹنے چاہئیں۔ ہر تابندہ ورق انہیں یہ بتائے گا کہ شعب ابی طالب سے وادی طائف تک۔۔۔ وادی طائف سے بدرو حنین تک۔۔۔ بدروحنین سے کربلا تک۔۔۔ کربلا سے صابرہ اور شیتلا کے کیمپوں تک۔۔۔ صابرہ اور شیتلا کے کیمپوں سے وادی غزہ تک۔۔۔ وادی غزی سے ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ تک۔۔۔ جس بھی غازی، انقلابی اور حق پرست نے جبر، ظلم اور استبدادی قوتوں کی بیخ کنی اور سرکوبی کا اعلان کرتے ہوئے ان کی حاکمیت کو ماننے سے انکار کردیا۔۔ انہیں ہر باوردی اور بے وردی نیرو نے باغی، واجب القتل اور گردن زدنی قرار دیا۔ آج اگر ڈاکٹر طاہرالقادری کو باغی، واجب القتل اور گردن زدنی قرار دیا جارہا ہے تو اس پر حیرت کیسی۔۔۔ لیکن۔۔۔ تاریخ کے یہی اوراق بتاتے ہیں کہ جب ظالم حکمرانوں کے اقتدار کا تاج اور لاؤ لشکر گمنامیوں اور بدنامیوں کے دریائے نیل میں غرق ہوتا ہے تو آنے والی نسلیں انہی باغیوں کو انقلاب اور تغیر کی صبح روشن کے منور حوالے اور تبدیلی کے درخشاں استعارے کی حیثیت سے ان کی محراب عظمت میں سر تسلیم اور گردن نیاز خم کرتی ہیں۔ درست ہے کہ بعض فقیہان صحافت لغت ہائے رنگ رنگ کے قارون ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ جب بھی ملک میں جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہت قائم ہوتی ہے تو یہ درباری وقائع نگار انعام و اکرام حاصل کرنے کے لئے بادشاہ سلامت کے محافظ اعظم بن جاتے ہیں۔۔ وہ ان دنوں آتش زیرپا ہیں۔
13 اگست 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
حکومت کی اتھارٹی کا زوال اور اس سے پیدا ہونے والا خلا دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ حکمرانوں کا آخری دفاعی مورچہ پنجاب پولیس تھی لیکن اس وقت اس دفاعی لائن کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ پانچ دریاؤں کی اس سرزمین پر اس سے زیادہ زبوں حال فورس کبھی دکھائی نہیں دی تھی۔ اس کا حال اس وقت یہ ہے جو پنجابی کے لافانی شاعر نے بیان کیا تھا۔۔۔ ’’ککھ جنہاں تھیں بھارے ہو‘‘۔ پنجاب پولیس کی اس حالت کی ذمہ داری کسی حد تک پنجاب کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔۔۔ ماڈل ٹاؤن میں چودہ افراد کا قتل جبکہ درجنوں افراد کا فائرنگ سے زخمی ہوجانا کسی بھی پولیس فورس پر یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوتا۔ اس کے علاوہ پولیس کو پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی سخت مزاحمت اور دلیری نے بھی خائف کررکھا ہے۔ پنجاب پولیس اس صورت حال کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھی اور نہ ہی اسے اس طرح کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اب اگر پنجاب حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ پولیس فورس چودہ اگست کو علامہ قادری اور عمران خان کے مارچ کو روک لے گی تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ میں نے ماڈل ٹاؤن کی سڑکوں پر لگائے گئے کنٹینرز کو بھی دیکھا ہے اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو بھی۔ پنجاب حکومت نے طاہرالقادری اور ان کے پیروکاروں کو محاصرے میں نہیں لیا، انہوں نے دراصل اپنے گرد حصار قائم کیا ہے۔ اس طرح دفاعی قدموں پر جاکر انقلابی مارچ نہیں روکے جاسکتے۔ دراصل اس وقت حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، پویس فورس کچھ نہیں کرسکتی۔ اگر پولیس وحشیانہ تشدد کرتی ہے تو کیا خادم اعلیٰ پنجاب میں پھوٹنے والے ہنگاموں کی تاب لاسکیں گے؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ ابھی بھی بہت سے لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ منہاج القرآن کی اصل صورت حال کیا ہے۔ علامہ قادری کوئی پیر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے کارکن روایتی مرید ہیں۔ وہ سخت جان سیاسی کارکن ہیں اور ان میں سے زیادہ تر تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کا تعلق معاشرے کے درمیانے طبقے سے ہے۔ اس پسے ہوئے مظلوم طبقے کے لئے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے تصور میں بہت کشش ہے کیونکہ وہ اسے اپنی مشکلات کا حل سمجھتے ہیں۔ یوم شہداء پر پولیس نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ تک آنے والے تمام راستے بند کردیئے تھے، اس کے باوجود آرمی، عورتیں، نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور بچے مختلف راستے اختیار کرتے، پولیس کو چکما دیتے، بھوکے پیاسے پیدل چلتے ہوئے وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے عزم کے سامنے پاکستان کے پراڈو اور مرسڈیز پر سفر کرنے والے استحقاق یافتہ سیاسی طبقے کی کیا حیثیت ہے؟ جب علامہ قادری اسلام اور قرآن کے حوالے دیتے ہوئے ایک منصفانہ معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ وہ اس کے حصول کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ کرنے والے نہیں۔
ممی ڈیڈی میڈیا حقوق نسواں اور مساوات کی بات کرتا رہتا ہے لیکن اگر اس مساوات اور خواتین کی جدوجہد کی عملی شکل دیکھنی ہو تو وہ پاکستان عوامی تحریک کے پنڈال میں نظر آتی ہے۔ یہاں زیادہ تر لڑکیوں کے سر پر دوپٹہ ہے جبکہ کچھ نے نقاب بھی پہنا ہوا ہے لیکن ان کی آنکھوں سے ہویدا عزم کی چمک دیکھنے کے لئے بہت بڑا دیدہ ور ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ صرف سیاسی تعصب کی عینک اتارنا ہوگی۔ پاکستان کی کوئی سیاسی طاقت، کوئی تنظیم، کوئی جماعت ’’دختران ملت‘‘ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے بذات خود انہیں قریب سے دیکھا ہے کہ جب وہ مصطفوی انقلاب کے لئے مکہ بلند کرکے نعرے لگاتی ہیں تو ان کے ہمالیہ آسا عزم کے سامنے ان کے اردگرد رکھے ہوئے کنٹینر خس و خاشاک دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔ یقینا پاکستان کے سامنے ایک مستقبل ہے، ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں خدشات دل سے دور کرنے ہوں تو کچھ لمحے پاکستان عوامی تحریک کے پنڈال میں گزار آئیں۔
پاکستان کا مستقبل پراڈو پر سفر کرنے والے طبقے نہیں، اس پسے ہوئے مظلوم طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ اس دریا کو کنٹینر نامی تنکوں سے کیا ڈر ہے؟ اس نے نہنکوں کے نشین تہہ و بالا کرنے ہیں۔۔۔ اور اب وہ دن زیادہ دور نہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کا ایک اور قابل تحسین پہلو یہ ہے کہ اس کے اتحادی، جس میں سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین شامل ہیں، معتدل مزاج اور لبرل اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ بلھے شاہ، غلام فرید، شاہ حسین اور حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا اسلام ہے اور یہ طالبان اور تکفیری عقیدے کی نفی کرتا ہے۔ اس سے پہلے، اسے ملک میں اکثریت ہونے کے باوجود سیاسی قوت حاصل نہ تھی لیکن علامہ قادری نے اسے قوت بھی عطا کی ہے اور زبان بھی۔ طالبان کے خلاف جنگ صرف فوجی کارروائی تک محدود نہیں ہوگی کیونکہ طالبان صرف ایک فوجی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک نظریئے کا بھی نام ہے۔ ان کے خلاف فوج توپوں اور بندوقوں سے کارروائی کرسکتی ہے لیکن ان کے نظریئے کو مٹانے کے کسی نظریئے کی ضرورت ہے۔ اگر عسکری ادارے اس بات کو سمجھ رہے ہیں تو یقین کرلیں کہ پاکستان کو عراق یا شام بننے سے روکنے کا واحد راستہ فوجی طاقت اور وہ لبرل اسلام ہے جس کا پرچار علامہ قادری کرتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کی سرزمین سے کوئی تکفیری فتنہ سر اٹھا ہی نہیں سکتا۔ موجودہ حکمرانوں کا پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا کردار یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے بنائی جانے والی پالیسیوں، نااہلی اور کوتاہ بینی کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کردی ہے۔ دیگر قوموں کی زندگی میں یہ لمحات کئی صدیوں کے بعد آتے ہیں لیکن خوشا، ہمارے ہاں چھے دہائیوں کے بعد بھی تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے۔ اس پیش رفت کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں۔ اس تمام معاملے میں فیصلہ کن کردار انسانی عزم نے ادا کرنا ہے۔
14 اگست 2014۔ روزنامہ جنگ (مظہر برلاس)
اسلام آباد کو کنٹینروں کا شہر بنادیا گیا ہے۔ پورا شہر کنٹینروں کے حصار میں ہے۔ جگہ جگہ کنٹینروں سے رستے بند کردیئے گئے ہیں۔ ہر طرف خار دار تاریں بکھیر دی گئی ہیں۔ خندقیں ایسے کھودی گئی ہیں جیسے کوئی بہت بڑا دشمن حملہ آور ہونے والا ہو! ان خندقوں سے پرانے زمانے یاد آگئے ہیں جب بادشاہ حملوں سے بچنے کے لئے خندقیں کھدوایا کرتے تھے۔ اب نئے بادشاہوں نے پرانا نسخہ آزمانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس فیصلے سے میرا خوبصورت ترین اسلام آباد قیدی بن گیا ہے۔ جہاں رکاوٹیں، ناکے، خار دار تاریں کنٹینر اور خندقیں ہیں۔ ایک ویرانی ہے۔ محصورین اسلام آباد کو نہ تازہ پھل میسر ہیں نہ تازہ سبزیاں، بارہ اگست کی رات پولیس نے زبردستی دکانیں بند کروادی تھیں، اسلام آباد کے کچھ علاقوں میں بارہ کی شام موبائل فون سروس بند کردی گئی تھی۔ سنا ہے چودہ کو پورا شہر جام کردیا جائے گا۔ آزادی کے دن غلامی کی قید کا نظارہ ہوگا۔ سیاستدانوں کی بادشاہت نے ہمیں کہاں پہنچا دیا ہے کہ ہم پاکستان کے دارالحکومت میں قیدی بنے ہوئے ہیں۔ مجھے تازہ صورتحال پر اپنی ایک پرانی غزل کے اشعار یاد آرہے ہیں کہ
بستی میں یہ کس نے درد بکھیرے تھے
روشن دن تھا، چاروں سمت اندھیرے تھے
یا پھر شہر میں دھول تھی کچے رستوں کی
یا پھر شہر میں سارے سانپ سپیرے تھے
آج چودہ اگست ہے۔ چودہ اگست سے پہلے لاہور میں میلہ لگا رہا۔ لاہور پچھلے کئی دنوں سے سیاسی طور پر آباد ہے۔ سیاست لاہور میں چمک رہی ہے۔ تمام نامور سیاستدان لاہور میں جمع ہیں۔ آج لاہور ہی سے مارچ کا آغاز ہوگا۔ اس مارچ کو روکنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ تادم تحریر جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق عمران خان اور طاہرالقادری بھرپور انداز میں مارچ کا آغاز کریں گے۔ چوہدری برادران، شیخ رشید، حافظ حامد رضا، علامہ امین شہیدی سمیت دیگر قائدین ان کے ساتھ ہوں گے۔ طاہرالقادری کے جانثار پچھلے کئی روز سے محصور ہیں مگر ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔
18 اگست 2014۔ روزنامہ جنگ (مظہر برلاس)
میرا پہلا خط آپ نے چودہ اگست کے روز پڑھا تھا اس روز لاہور سے دو مارچ اسلام آباد روانہ ہونا تھے۔ ایک کا نام آزادی مارچ اور دوسرے کا نام انقلابی مارچ تھا۔ یہ دونوں مارچ سفر کی تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے قریباً چالیس گھنٹوں میں اسلام آباد پہنچے۔ اسلام آباد میں بڑی خندقیں کھودی گئی تھیں ہر طرف کنٹینرز لگائے گئے مگر جب عوامی سیلاب آیا تو خندقیں اورکنٹینرز آنے والوں کے قدموں کو دیکھتے رہے۔ دونوں مارچوں کا حصہ بننے والوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ دونوں نے دھرنا دے رکھا ہے ایک کا اسٹیج سرینا چوک جبکہ دوسرے کا آبپارہ میں ہے۔ پی ٹی آئی کشمیر روڈ پر اور پی اے ٹی خیابان سہروردی پر اپنا اپنا میلہ سجائے ہوئے ہیں۔ دونوں مارچوں کا استقبال بادلوں اور بارشوں نے کیا۔ پندرہ اور سولہ اگست کی درمیانی رات اسلام آباد میں بادل اور مقررین خوب برسے۔ تیز ترین بارش شرکاء کا حوصلہ پست کرنے میں ناکام رہی۔
لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورتحال نے عجب رخ اختیار کر رکھا ہے۔ کل پتہ نہیں کیا ہوجائے۔ صورت حال انتہائی خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ مشکل کے ان لمحات میں کچھ چراغ بجھ جائیں گے مگر روشنیوں کا سفر شروع ہوجائے گا۔ پاکستان کے کرپٹ ترین سیاستدان ہوشیار ہوجائیں کہ ان کے خلاف کریک ڈاؤن ہونے والا ہے۔ اگلے سیاسی منظر نامے میں چور اور ڈاکو نہیں ہوں گے۔ کرپٹ مافیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔
18 اگست 2014، روزنامہ ایکسپریس (زمرد نقوی)
حالات کا معمولی سا بگاڑ سب کچھ ختم کرسکتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ خاص طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں کو جاتا ہے جب ان کو ماڈل ٹاؤن میں قید کرکے کھانا اور پانی بند کردیا گیا لیکن اس کے باوجود آفرین ہے کہ ان لوگوں نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ بھوک پیاس گرمی ہر طرح کی سختی کو صبرو ہمت سے برداشت کرتے رہے۔ اس تمام تر آزمائش کا پاکستان عوامی تحریک کی خواتین نے جس طرح خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا وہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے۔ اب یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ان خواتین ورکرز کا مقابلہ شاید ہی کوئی دوسری جماعت کرسکے۔ یہ خواتین نہ صرف منظم تھیں بلکہ ان کا سیاسی شعور بھی بلند تھا۔ یہ ان خواتین کی طرح نہیں تھی جنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر جلسہ گاہ لایا جاتا ہے۔ لیکن یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ یہ خواتین و مرد جب بھوک پیاس برداشت کررہے تھے تو کسی بھی حکومتی ادارے نے ان کی مدد نہیں کی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ پاکستانی شہری نہیں کسی دشمن ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالانکہ جنیوا کنونشن کے تحت دشمن قیدی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ جبکہ ہم تو مسلمان ہیں، ہماری ذمہ داریاں تو اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ حالات اتنے بدترین تھے کہ پاکستان عوامی تحریک کا ایک عہدیدار انتقال کرگیا، کنٹینر ناکہ بندی کی وجہ سے اسے بروقت ہسپتال نہ پہنچایا جاسکا۔ عوامی تحریک ہو یا تحریک انصاف دونوں کے کارکنوں نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا بلکہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی پرامن رہے جبکہ ان دونوں جماعتوں کے خلاف دہشت گردی کا الزام عائد کیا جاتا رہا لیکن عوام نے خود دیکھا ہے کہ حقیقی معنوں میں دہشت گردی کا کس نے ارتکاب کیا ہے۔ یہ 2013ء کا ڈاکٹر طاہرالقادری کا انتہائی پرامن لانگ مارچ ہی تھا جس میں لاہور سے لے کر اسلام آباد تک ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا اور پنجاب حکومت نے بھی اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی کیونکہ مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی تھی کہ زرداری حکومت کا جلد از جلد دھڑن تختہ ہو جائے۔
پچھلے لانگ مارچ میں ڈاکٹر طاہرالقادری پر ان کے مخالفین نے شدید تنقید کی کہ وہ خود تو کنٹینر میں آرام فرماتے رہے اور ان کے کارکن دسمبر کی سخت سردی میں کھلے آسمان تلے سکڑتے رہے۔ ان ناقدین سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ان کے کارکنوں نے بھی اپنے قائد کی اس بات کا برا منایا ہے۔ جب کسی ایک کارکن نے بھی اس بات کا برا نہیں منایا بلکہ وہ اسے اپنے قائد کی صحت و سلامتی کے لئے انتہائی ضروری سمجھتے تھے تو پھر آپ کون ہوتے ہیں تنقید کرنے والے۔ کیا یہ کارکن پسٹل پوائنٹ پر یا سرکاری خرچے پر لائے گئے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو انہیں جلسہ گاہ چھوڑنے سے کون روک سکتا تھا۔ ہر جماعت کے کارکنوں کے لئے اپنے لیڈر و قائد کی صحت و سلامتی سب سے مقدم ہوتی ہے کیونکہ اگر لیڈر کو کچھ ہو جائے تو جماعت تحریک کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اب حالیہ لانگ مارچ کو دیکھیں کہ یہ سخت ترین گرمی جس میں چالیس گھنٹے کے سفر نے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی طبیعت ناساز کردی تو عمران خان آرام کرنے اپنی رہائش گاہ چلے گئے تو اعتراض کس بات کا۔ کیا مخالفین اس بات کے منتظر تھے کہ ان دونوں کی صحت کو ایسا نقصان پہنچ جاتا کہ دونوں ہسپتال پہنچ جاتے اور دھرنے سے حکومت کی جان چھوٹ جاتی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں۔ وہ دنیا کے چند بڑے لیڈروں میں سے ہیں۔ انہیں انگریزی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ وہ ایک ایسے مقرر ہیں جو کئی گھنٹوں بلاتکان تقریر کرسکتے ہیں۔ مجمع پر جادو کردیتے ہیں۔ مسلم دنیا میں اسلام پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالم اسلام میں ان سے بڑا سکالر شاید ہی کوئی اور ہو۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت کے چاہنے والے خوفزدہ ہیں کہ کہیں اس ڈریکولا جمہوریت کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ خاطر جمع رکھیں یہ پیٹ بھروں کا مسئلہ ہے۔۔۔ دس کروڑ بھوکوں کا نہیں جو رات کو بھوکے سوتے ہیں، پاؤں سے ننگے، تن پر کپڑے نہیں، بھوک نے انہیں جانوروں کی سطح پر پہنچادیا ہے۔ دونوں ہی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔
یہ سب لوگ غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی پاکستان میں اکثریت ہے اور یہ سب وہ لوگ ہیں جو بڑی شدت سے تبدیلی کے منتظر ہیں۔ ان کا تعلق چاروں صوبوں سے ہے۔ یہ لوگ فوج پر یہ تنقید بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ پڑھتے ہوئے اپنے ذہن میں رکھیں کہ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ لوگوں کے یہ وہ جذبات ہیں جو ٹیلیفون کے ذریعے مجھ تک پہنچتے ہیں، مہنگائی اور مہنگی بجلی نے عوام کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی مہنگی بجلی کبھی نہ تھی۔ اس صورت حال میں اگر غیر جمہوری تبدیلی آجائے تو لوگ مٹھائی نہ بانٹیں تو کیا کریں؟ یوٹیلٹی بلز نصف ہوجائیں گے۔ عوام ڈاکٹر طاہرالقادری کی اس نوید پر کان نہ دھریں تو کیا کریں۔
20 اگست 2014، روزنامہ ایکسپریس (اصغر عبداللہ)
14 اگست کی صبح کو ماڈل ٹاؤن لاہور پہنچا تو اس کے اردگرد پولیس کا حصار دیکھ کر یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری یہ حصار توڑنے میں کامیاب ہوں گے لیکن وہ اس قدر پرسکون نظر آتے تھے جیسے ماڈل ٹاؤن کے اردگرد پولیس کا کوئی حصار اول تو موجود ہی نہیں اور اگر موجود ہے تو ان کے نزدیک بالکل بے وقعت ہے۔ میں نے دو ایک شرکا سے پوچھا کہ آپ کیسے باہر جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب قائد کا حکم ہوگا تو کوئی ہمارا راستہ نہیں روک سکے گا۔ حقیقتاً ہوا بھی یہی جیسے ہی ڈاکٹر طاہرالقادری نے باہر آکے اعلان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر میں کاروان انقلاب، اسلام آباد کے لئے روانہ ہوجائے گا تو ماڈل ٹاؤن کے باہر تعینات پولیس تتر بتر ہوگئی اور کچھ ہی دیر میں وہاں پولیس کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کاروان انقلاب کے کارکنوں نے کنٹینروں سمیت تمام رکاوٹیں ہٹا دیں اور قافلہ انقلاب اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہوگیا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری الیکشن 2013ء سے پہلے کینیڈا سے جہاں وہ اپنی تفسیر قرآن، عرفان القرآن کی تکمیل کے لئے مقیم تھے، پاکستان واپس پہنچے اور بظاہر ان کا ارادہ یہی تھا کہ وہ الیکشن 2013ء میں حصہ لیں گے۔ وطن واپسی کے بعد پہلے انہوں نے مینار پاکستان میں ایک عوامی جلسہ کیا، اس کے بعد لانگ مارچ کرکے اسلام آباد گئے، جہاں تین روز تک تاریخی دھرنا دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان جس کو الیکشن 2013ء کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے نہ صرف یہ کہ صاف شفاف الیکشن کرانے کا اہل نہیں، بلکہ اس کی تشکیل میں آئینی سقم بھی موجود ہے۔ بجائے اس کہ کہ اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن جنہوں نے ملی بھگت کرکے مذکورہ الیکشن کمیشن تشکیل دیا تھا، ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس سنجیدہ مطالبہ پر سنجیدگی سے غور کرتیں اور ان کے تحفظات کو دورکرنے کی کوشش کرتیں، انہوں نے ان کو تمسخر اور استہزا کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور کہا کہ آئینی طور پر اب الیکشن کمیشن کے ارکان میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر ڈاکٹر طاہرالقادری نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا اور وہ اس حد تک پر امید تھے کہ اس مقدمہ میں بطور ایک وکیل کے خود پیش ہوگئے۔ جن دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری اس مقدمہ کی تیاری کررہے تھے، وہ بے حد پرجوش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقدمہ بہت سادہ ہے اور صرف ایک روزہ سماعت میں ہی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے نہ صرف یہ کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا آئینی موقف سننے سے انکار کردیا بلکہ دہری شہرت کا طعنہ دے کر ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش بھی کی۔ سپریم کورٹ میں شنوائی نہ ہوسکی تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے احتجاجاً الیکشن 2013ء کا بائیکاٹ کردیا۔ ان کے نزدیک اب اس کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ انتخاب کے بجائے انقلاب کا راستہ اختیار کریں اور اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں پیش کریں۔ لہذا یہ کہنا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری سرے سے الیکشن کے خلاف ہیں خلاف حقیقت ہے۔
20 اگست 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
اس ملک کی قسمت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ منیر نیازی نے سچ کہا تھا۔۔۔ ’’منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے۔۔۔ کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آج نہیں تو کل فیصلے کی گھڑی آجائے گی۔ موجودہ جمود ہمیشہ کے لئے نہیں رہ سکتا۔ اب معجزوں کا وقت گزر چکا لیکن طلسمات کا نہیں۔ ہم بہت سفر طے کرکے اسی سرزمین تک آن پہنچے ہیں جہاں سے ہر بار بچ نکلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جب امید ہوتی ہے کہ ہم اس صحرا سے دور ایک ہری بھری وادی میں آچکے ہیں تو اچانک کوئی واقعہ ہمیں اس سراب سے نکال کر لق و دق صحرا میں کھڑا کر دیتا ہے۔
طاہرالقادری سوچ سمجھ کر بات آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ جس ’’قومی حکومت برائے جمہوری اصلاحات‘‘ کا خاکہ پیش کررہے ہیں وہ مقتدر حلقوں کے تصورات کے قریب تر ہے۔ اب حالات ایسا رخ اختیا رکرتے جارہے ہیں کہ بے اختیار زبان پر آتا ہے کہ اللہ خیر کرے، کیا ہماری ریاست ایک تجربہ گاہ ہی بنی رہے گی؟ کیا کبھی ہمارے سفر کی سمت درست ہوگی؟ چلیں طالع آزماؤں پر توتنقید کی جاتی ہے لیکن جو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں کیا وہ بھی ہمیشہ بصیرت سے محروم رہنے کی قسم اٹھا کر آتے ہیں؟ ابھی ان کی حکومت کے پاؤں جمتے نہیں اور طاقتور حلقوں سے محاذ آرائی میں الجھ جاتے ہیں۔ تالاب میں تیرنا بھی نہیں آتا مگر قلزم کودنے پر کمربستہ۔۔۔ پھر شکایت کے قسمت نے غرقاب کردیا۔ اس تیراکی کی سزا قوم کو ملتی ہے۔
25 اگست 2014، روزنامہ دنیا (میاں عامر محمود)
ماڈل ٹاؤن میں جس طرح منہاج القرآن کے مختلف شعبوں اور خود ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ میں عورتوں، بزرگوں، بچوں اور نوجوانوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں، اس کی مثال پاکستان کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ نہتے لوگوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا اور سب کو کمر سے اوپر گولیاں ماری گئیں جو قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جو دو خواتین اس سانحہ میں شہید ہوئیں، ان دونوں کے منہ پر گولیاں لگی تھیں اور ان میں سے ایک کے پیٹ میں بچہ بھی تھا۔ جب اس وحشیانہ کارروائی کی تفصیلات منظر عام پر آئیں تو نہ صرف پورا ملک بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق میں دلچسپی رکھنے والے عوام نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ شہداء کے ورثاء ایف آئی آر لکھوانے کے لئے دھکے کھاتے رہے لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے برعکس خود پولیس نے ایف آئی آر لکھ کر، وارثوں کے لئے پیروی کے دروازے بند کردیئے۔ اصولی طور پر مدعیان کے ہوتے ہوئے پولیس کو ایف آئی آر لکھنے کا حق نہیں ہوتا۔ ایسا صرف لاوارث مقتولوں کے معاملے میں ہوتا ہے کہ پولیس ورثاء کی جگہ خود مدعی بن کر ایف آئی آر لکھ لیتی ہے جبکہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں، یہ ورثا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا کہ انہیں اپنے مقتولوں کے قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر لکھوانے کے حق سے بھی آج تک محروم رکھا جا رہا ہے۔
لاہور سے جلوسوں کی صورت میں اسلام آباد جانے کا جو پروگرام بنایا گیا، اس میں جابجا رکاوٹیں کھڑی کرنے اور جلوسوں کو ناکام بنانے کے لئے، آمرانہ دور کے روایتی حربے استعمال کئے گئے۔ جگہ جگہ ناکہ بندیاں کی گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریوں کی شکایات منظر عام پر آئیں۔ حکمران پارٹی کے حامیوں نے راستے میں جلوسوں پر سنگ باری کی اور الٹا مقدمات بھی جلوس کے شرکاء کے خلاف قائم کئے گئے۔ حد یہ تھی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف بھی ایف آئی آر لکھ دی گئی۔ یہ ایک طرح کی مزید اشتعال انگیزی تھی۔ ایک طرف تو قادری صاحب کے حامی، اپنے مقتولوں کی ایف آئی آر درج کرانے میں ناکام ہورہے تھے اور دوسری طرف ایک دن کی تاخیر کئے بغیر، خود قادری صاحب کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے، کیس عدالت میں پیش بھی کردیا گیا۔ تمام تر منفی کوششوں کے باوجود، دونوں پارٹیاں اپنے جلوسوں کے ساتھ، اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں اور وہاں دھرنے شروع کردیئے۔ اسلام آباد کا پورا شہر سینکڑوں کنٹینروں کے ساتھ چاروں طرف سے بند کرکے رکھ دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں جڑواں شہر ایک دوسرے سے کٹ گئے اور اسلام آباد کے شہری محصور ہوکر رہ گئے۔ شہر کے اندر بھی جابجا کنٹینر کھڑے کرکے، راستے روکے گئے، جس کی وجہ سے دفاتر میں حاضری بھی نہ ہوسکی اور عملاً وفاقی حکومت مفلوج ہوکر رہ گئی۔
25 اگست 2014، روزنامہ جنگ (مظہر برلاس)
ریڈزون کے دوسرے اسٹیج سے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب پوری آب و تاب سے جاری رہتا ہے۔ انہوں نے خطابت میں سب کو مات دے دی ہے۔ ان کی تقریروں کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ان کی آواز کا سحر اس قدر طاقتور ہے کہ مخالفین کی صف میں بھی کھلبلی مچادیتا ہے۔ اس کا اظہار پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کیا۔ چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ اگر میں بھی پندرہ منٹ قادری صاحب کا خطاب سن لوں تو میرا دل بھی چاہتا ہے کہ جاکے نعرے لگانا شروع کر دوں۔
ایک زمانہ تھا جب میاں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بڑے شوق سے ڈاکٹر صاحب کے خطابات سنا کرتے تھے۔ عالم اسلام کے اس عظیم اسکالر کو خدا نے خطابت سے نواز رکھا ہے، علم کی روشنی بخش رکھی ہے، اس نے اہل بیت سے محبت کو قلب میں جذب کررکھا ہے۔ سینے میں سموئی ہوئی محبت اکثرو بیشتر زبان پر رہتی ہے۔ 1980ء سے 2004ء تک ڈاکٹر قادری نے بے شمار تبلیغی اور تنظیمی دورے کئے۔ مغربی ملکوں میں بہت سے لوگوں کو مسلمان کیا مگر آپ کو حیرت ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب کبھی ہوٹل میں نہیں رہے۔ سونے کے لئے ایک میٹرس، بے شک کسی چھوٹے سے کمرے میں لگادیا جائے۔ زندگی میں تعیش کو قریب نہیں آنے دیا۔ ممکن ہے انہوں نے خواہشات کو محلہ عیدگاہ جھنگ میں کچل دیا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کام اس وقت ہوگیا ہو جب وہ اسلامیہ سکول میں بزم ادب کے سیکرٹری تھے۔ میرا خیال ہے کہ خواہشات کا سانپ ڈاکٹر صاحب نے فٹ بال کے کسی گراؤنڈ میں مار دیا تھا۔ خیر قصہ مختصر علامہ طاہرالقادری خواہشات کے پجاری نہیں ہیں۔ پچھلے دس سالوں سے وہ صرف انٹرنیشنل کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ کانفرنسیں مذہب، سماج یا اقتصادیات پر مشتمل ہوتی ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ شب ڈاکٹر قادری نے رات دو بجے تقریر شروع کر دی۔ انہوں نے تاریخی اعتبار سے انبیاء کرام کے حوالے دے کر شرکاء کے حوصلے بڑھائے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس دلیل کا جواب نہیں ہے کہ دنیا میں جب کبھی بھی کسی نے مساوات کی بات کی یا سماجی انصاف کی بات کی تو معاشرے کا ظالم طبقہ اس کے خلاف ہوگیا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے انتہائی معزز خاندان میں سے ہونے کے باوجود ظالم طبقے کی مخالفت سے نہ بچ سکے حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے 53 برس اہل مکہ کے سامنے تھے۔ ان کی بے داغ زندگی ان کے سامنے تھی مگر جونہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مظلوم طبقات کے لئے آواز بلند کی تو اہل مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بن گئے۔ تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام زمانوں میں ایسا ہی ہوا، جب بھی کسی پیغمبر یا کسی رہنما نے مظلوموں کی بات کی تو اسے طاقتور طبقات کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
26 اگست 2014، روزنامہ نوائے وقت (ڈاکٹر علی اکبر الازہری)
تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنان نے دھرنے دے رکھے ہیں۔ بارہ دنوں سے بیٹھے ہوئے ان غیور اور صابر لوگوں نے ریاست پاکستان کا ایک شیشہ یا ایک گملہ نہیں توڑا۔ ہاں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ہر روز جو مطالبات پیش کر رہے ہیں، ان سے حکمران جماعت کی توہین ضرور ہوتی ہے۔ آصف زرداری سے لیکر ہر وہ شخص جو اس نظام سے فیض یافتہ ہے وہ ’’جمہوریت‘‘ کی فکر میں گلتا جا رہا ہے۔ اسے آئینی اور دستوری حکومت کے تحفظ کی فکر ہے مگر ان 18 کروڑ عوام کے مسائل کا ادراک نہیں جو جیتے جی مر چکے ہیں جن کی زندگی مہنگائی‘ بیروزگاری اور ظلم و جہالت کے پربتوں کے نیچے سسک رہی ہے۔ آج رات محمد افضل خان سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انکشافات اس حکومت اور اس کے درباریوں کیلئے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے واویلے کی تصدیق کر دی ہے۔ باریاں مقرر کرنے کی باتیں بھی اب حقیقت محسوس ہوتی ہیں کیونکہ جن جن جماعتوں کے مفادات اس نظام انتخاب سے وابستہ ہیں وہ سب کی سب حکومت کا کاندھا تھپتھپا رہی ہیں۔ پی پی پی، اے این پی، جے یو آئی، جمہوری وطن پارٹی الغرض جس کو بھی حصہ مل رہا ہے، وہ احتجاج کرنے والوں کو غلط اور ظالم و جابر حکومت کی تمام سرگرمیوں کو آئینی اور جمہوری قرار دے رہی ہیں۔ جائز مطالبات کرنے والوں کو متنازعہ بنانے کیلئے حکومت نے (ن) لیگ، جے یو آئی اور سپاہ صحابہ کے لوگوں کو احتجاج پر اکسانا شروع کر دیا ہے۔ خود ایک بدنام زمانہ حرکت ہے۔ مطالبات کا تعلق عوام سے نہیں بلکہ مقتدر حکومتی ایوان سے ہے۔ جو دھاندلی اور جھوٹ سے وجود میں آئی ہے جس کا اب اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے۔ یہ عدالتیں جو آزاد ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، ان انکشافات کے بعد یہ بھی جانبدار ظاہر ہو رہی ہیں۔ وہ چیف جسٹس جس کی بحالی کیلئے پوری قوم نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، اس نے بھی قوم کو بری طرح مایوس کیا اور الیکشن 2013ء میں انہوں نے (ن) لیگ کے ورکر کی طرح دھاندلی کا راستہ ہموار کیا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات میں کسی فرقے یا مسلک کی نمائندگی نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مجلس وحدت مسلمین اگر شیعہ مسلک سے وابستہ ہے تو ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی ہیں جن کے مشرب مختلف ہیں۔ پھر تو جے سالک کو دیکھ کر کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس انقلاب میں عیسائیت کی بو آ رہی ہے حالانکہ جے سالک ہو یا مجلس وحدت یا سنی اتحاد کونسل میں پاکستان کی عوام کی نمائندہ جماعتیں ہیں جو اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آگئی ہیں۔ اس لئے ایک سیدھے سادے اور صاف شفاف عوامی فلاحی مطالبے کو مسلکی رنگ دیکر ملک میں خون خرابے کا ماحول پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
27 اگست 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
پی ٹی آئی کے کارکن دن کو کہیں چلے جاتے ہیں لیکن شام ہوتے ہی پنڈال سجنے لگتا ہے، رونق بڑھ جاتی ہے اور جوش سے فضا رنگین ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف پی اے ٹی کے کارکن وہیں بیٹھے رہتے ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہوچکی ہے۔ تاہم وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہدایت کے مطابق نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی اپنی تقاریر میں مردو زن کی مساوات حتی کہ اقلیتوں کے حقوق کی بھی بات کرتے ہیں۔
پاکستان کے روایتی مذہبی طبقے جیسا کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے لئے یہ بات ناقابل برداشت ہے۔ ان کے تنگ نظر عقیدے سے اس فراخ دلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس میں کوئی جائے حیرت نہیں اگر انتہا پسند گروہ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے خلاف عزائم رکھتے ہیں۔
موجودہ بحران نے بہت سوں کو ایکسپوز کر دیا ہے۔۔۔ یقینا بحران کی کسوٹی پر ہی دانا اور نادان کی پہچان ہوتی ہے۔
محمود اچکزئی بھی حکومت کے حامی بن کر جمہوریت کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ان کا غصہ بھی ریلیوں پر رواں ہے۔ کسی زمانے میں وہ بھی آزادی کے مجاہد کہلاتے تھے۔۔۔ کم از کم ڈرائینگ روم کی حد تک۔ تاہم آج کل ایسا لگتا ہے کہ انہیں خود کلامی کی بہت زیادہ عادت پڑگئی ہے۔ جمہوریت کے علم برداروں کے لئے ایک پریشان کن چیز یہ ہے کہ مارچ کرنے والے انتہائی پرامن رہے ہیں۔ ان کی طرف سے کسی کھڑکی کا ایک شیشہ یا گملا تک نہیں ٹوٹا۔ انہوں نے کسی پرسنگ باری نہیں کی۔ پاکستان عوامی تحریک کا اجتماع کئی دنوں سے سورج کی گرمی اور موسلا دھار بارش برداشت کررہا ہے۔ تاہم وہ صبر کے مجسمے بن کر بھی مزاح کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اگر آپ ان کے دھرنے میں جائیں تو آپ کو ان کی مسکراہٹ اور زندہ دلی دکھائی دے گی۔ وہ پرعزم تو دکھائی دیں گے لیکن مشتعل ہرگز نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے پیروکاروں کو متحرک کریں گے۔ اب تک انہوں نے یہ نیکی کیوں نہیں کمائی؟ میں بھی ان کے پیروکاروں کو کچھ دن تک دھوپ اور بارش میں آسمان تلے بیٹھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ لوگوں کو متحرک کرنا کہنے کو آسان ہے لیکن ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ پی ایم ایل (ن) بھی دھرنے کی مخالفت میں ریلیاں نکالنے کی کوشش میں ہے۔ ان کی ریلیوں میں عورتیں یا بچے نہیں دکھائی دیئے۔ پی ایم ایل (ن) کی کچھ عہدیدار ہوں گی لیکن عوامی سطح پر خواتین اوربچوں کی نمائندگی ان کے جلسوں میں عنقا ہوتی ہے۔ خطابت کے جوش میں شہباز شریف آصف علی زرداری اور ان کی حکومت کو ’’علی بابا اور چالیس چور‘‘ کہا کرتے تھے۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ ’’مسٹر علی بابا‘‘ کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ تاہم یہ اس وقت کی بات ہے۔ آج یہ سب احباب مل کر جمہوریت کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ علی بابا اور پاکستان کے سب سے بڑے بنک نادہندگان جمہوریت کو بچانے کے لئے کمربستہ ہیں اور انہیں محمود خان اچکزئی اور مولانا ڈیزل کی بھی خدمات حاصل ہیں۔
اس مارچ اور دھرنے پر تنقید کرنے والوںکا کہنا ہے کہ دھرنے کی وجہ سے شاہراہ دستور پر گندگی پھیل گئی ہے۔ کیا اس گندگی سے اسلام آباد تباہی کے قریب پہنچ گیا ہے؟ کیا میگا پروجیکٹس نے اسے ادھیڑ کر نہیں رکھ دیا ہوا؟ پاکستان عوامی تحریک کے کارکن بہت منظم دکھائی دیتے ہیں۔ جب انہیں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے تو نہایت منظم طریقے سے قطار بنالیتے ہیں۔۔۔ اور یہ عام پاکستانی کا خاصہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی کے سامنے سڑک کے دوسری طرف عارضی ٹوائلٹ بھی قائم ہیں۔ اگرچہ اس مقام پر اس طرح قطار در قطار ٹوائلٹ قائم کرنے سے شاید مقام کی بے حرمتی کا تاثر ابھرے لیکن اسلام آباد کے قیام سے لے کر اب تک یہاں جو کچھ ہوچکا ہے، وہ بھی بہت قابل فخر نہیں ہے۔۔۔ ٹوائلٹ میں تو پھر بھی طہارت کا پہلو نکلتا ہے۔ ان دھرنوں کے حوالے سے میں ایک عجیب بات بتانا چاہتا ہوں۔ میں خود کو بہت اچھا مسلمان تصور نہیں کرتا۔۔۔ آپ میرا مطلب سمجھتے ہیں۔ لیکن جب پی ٹی آئی یا پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں جاتا ہوں تو مجھے آدمیوں اور عورتوں کی آنکھوں حتی کہ ان کے گانوں اور رقص میں ایک انوکھا ولولہ اور جوش محسوس ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ میرا ایمان بھی تازہ ہورہا ہے۔ پلیز اسے بڑھاپے کی علامت نہ قرار دیجئے گا۔
28 اگست 2014، روزنامہ جنگ (ارشاد احمد عارف)
فارسی میں کہتے ہیں ’’خوئے بد را بہانہ بسیار‘‘ ایک کے بعد دوسرا بہانہ کہ کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قبضہ برقرار رہے اور عوام کا کوئی مطالبہ، کسی عدالت کا فیصلہ اور جمہوری نظام کے کسی خیر خواہ کا کوئی مشورہ ماننا نہ پڑے مگر کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
چلو مان لیا ڈاکٹر طاہرالقادری کا الزام اور دعویٰ غلط ہے، بلا ثبوت اور بغیر دلیل مگر لاہور کے سیشن کورٹ کا فیصلہ؟ جسے عدالت عالیہ نے برقرار رکھا، جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جسے پنجاب حکومت نے دس بارہ روز تک دبائے رکھا اور کسی کو ہوا تک نہ لگنے دی اور جے آئی ٹی رپورٹ۔ کیا سب جھوٹ کا پلندہ ہے، حکومت کے خلاف سازش اور مخالفین کا پروپیگنڈا؟ ماضی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کم سنگین واقعات پر وزیروں اور سرکاری عہدیداروں کے استعفوں کی روایت موجود ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد میاں شہباز شریف نے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو کابینہ سے سبکدوش اور اپنے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو اپنے منصب سے الگ اسی اصول اور روایت کے تحت کیا مگر اب اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن نے (جس کا تقرر وزیراعلیٰ پنجاب نے خود کیا، جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ خود اس واقعہ میں ملوث پائے گئے تو استعفیٰ دینے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کریں گے) اس سانحہ میں میاں شہباز شریف سے لے کر رانا ثناء اللہ تک کو ملوث قرار دیا تو حیلہ جوئی اور بہانہ سازی سے کام لیا جا رہا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حالات نے جو کروٹ لی، پنجاب کے حکمرانوں کو قدم قدم پر ہزیمت کا جو سامنا کرنا پڑا اور اصولوں پر سمجھوتے کی نوبت آئی اس نے ارتکاز اختیار اور شخصیت پرستی کے رجحان کی مضرت رسانی کو آشکار کردیا۔ اگر پنجاب میں اوپر سے نیچے تک ہر حکم اور فیصلہ کلب روڈ، ماڈل ٹاؤن یا جاتی امراء سے صادر کرنے کی روایت پختہ نہ ہوتی، یہ تاثر شدت اور پختگی سے قائم نہ کیا جاتا کہ وزیراعلیٰ کے اشارہ آبرو کے بغیر صوبے میں کوئی پتا ہلتا ہے، نہ چڑیا پر مارتی ہے تو کسی کو وزیراعلیٰ کی طرف انگلی اٹھانے کی ضرورت تھی نہ ملوث کرنے کی جرات۔ ماڈل ٹاؤن میں قائم قانونی بیرئیرز ہٹانے کا فیصلہ ایل ڈی اے کے کسی اہلکار، ڈی سی او لاہور اور تھانہ فیصل ٹاؤن کے ایس ایچ او یا ماڈل ٹاؤن کے ایس پی او کو کرنا ہوتا تو یہ سانحہ رونما ہونے کا ذرہ بھر امکان نہ تھا۔ سرکاری افسر اور اہلکار اپنے آپ قتل عام کی جرات نہ کرتے اور مزاحمت پر واپس لوٹ آتے۔
29 اگست 2014، روزنامہ دنیا (نذیر ناجی)
منہاج القرآن میں جو 14 خواتین اور مردوں کو اندھا دھند گولیاں برساکر، شہید کردیا گیا تھا، ان کی ناجائز ہلاکتوں کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی انتھک کوششیں کی گئیں لیکن پولیس کے اہلکار ٹس سے مس نہ ہوئے۔ متعلقہ تھانے کا عملہ پر اسرار طور سے روپوش ہوگیا۔ میڈیا پر شور اٹھا۔ علامہ طاہرالقادری، جن کی جماعت کے لوگ شہید کئے گئے تھے، وہ مطالبے کرتے رہے لیکن عوام کے نرغے میں آئی ہوئی حکومت نے، اس ایف آئی آر پر بھی سودے بازی کرنے کی کوشش کی۔ وزیروں کی جوڑی ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے میڈیا کے سامنے، یہ موقف اختیارکیا کہ ’’ہم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو پیش کش کی کہ ہم آپ کی ایف آئی آر درج کرلیتے ہیں اور آپ اپنا دھرنا ختم کرلیں‘‘۔ بزعم خود منتخب حکومت کے یہ اراکین کیسی گھٹیا سودی بازی کر رہے تھے؟ یعنی وہ مظلوموں کے حقوق غصب کرکے، ان پر سودے بازی کر رہے تھے۔
ایسی سودا بازی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ ایف آئی آر لکھوانا ہر شہری کا قانونی حق ہے۔ اسی طرح احتجاجی مظاہرہ کرنے کا حق بھی، عوام کو قانون نے دیا ہے اور منتخب حکومت کے دو وزیر، یہ بنیادی حق دینے کے عوض، اپنے لئے رعایت مانگ رہے تھے یعنی وہ ایف آئی آر لکھوانے اور احتجاج کرنے کے اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر، وزیروں کے ممنون احسان ہوں۔ بدلے میں وہ ان کے غصب شدہ آئینی حق واگزار کرنے کو تیار تھے۔ بات یہیں تک رہتی تو بھی غنیمت تھا لیکن ادنیٰ سودے بازی کا یہ معاملہ، وزیراعظم ہاؤس تک گیا اور وہاں کے نمائندوں نے سیاسی احتجاج ختم کرنے کے عوض، ایف آئی آر کے اندراج کی ’’رعایت‘‘ دینے کی پیشکش کی۔ کسی ’’آئینی اور جمہوری‘‘ ملک میں منتخب حکومت کو ایسی سودے بازیاں کرتے ہوئے کسی نے دیکھا ہے؟ اللہ جانے یہ لوگ اپنے ذہن اور ضمیر کو کیسے مطمئن کرتے ہوں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے ایف آئی آر کا اندراج رکوانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی۔ پولیس کو اعلیٰ ترین عہدیداروں نے دہشت زدہ کر رکھا تھا کہ اگر اس نے ایف آئی آر درج کی تو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مقتولوں کے ورثا آہ و فغاں کرتے ہوئے تھک گئے۔ ان کے وکلاء تھانوں میں بیٹھ بیٹھ کے پریشان ہوگئے۔ کوئی ان کی ایف آئی آر لکھنے کو تیار نہیں تھا اور پولیس نے اپنے طور پر جو ایف آئی آر لکھی، اس میں مقتولوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ سنا ہے کہ پولیس کی طرف سے لکھی گئی، اس ایف آئی آر میں صرف پولیس ایکشن کے بارے میں لکھا گیا تھا، جس میں پولیس والوں کو چوٹیں لگیں اور وہی زخمی ہوئے۔ کسی ہلاکت کا ذکر تک نہ تھا۔ اس ناانصافی کے خلاف، مدعیان فریاد لے کر، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، راجہ اجمل خان کی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے ایک منصف کی طرح، ہر طرح کے خوف و خطر سے بے نیاز ہوکر، ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ 21 ملزموں کی فہرست میں ملک کے وزیراعظم، صوبے کے وزیراعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزیروں اور دیگر اہم شخصیتوں کے نام شامل تھے۔ پاکستان کے شاہی خاندان کے دو افراد کے نام ایف آئی آر میں درج کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن راجہ اجمل خان نے بے پناہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظلوموں کا ساتھ دیا حالانکہ انہوں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا تھا لیکن پاکستان میں ایسا کب ہوتا ہے؟ اس عدالتی حکم کے باوجود ایف آئی آر نہیں لکھی گئی۔ اس ظلم کے خلاف، مدعی اپنا کیس لے کر لاہور ہائی کورٹ میں گئے، وہاں یہ کیس مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ کی عدالت میں پیش ہوا۔ انہوں نے ایڈیشنل سیشن جج کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے، ایف آئی آر درج کرنے کے حکم پر عمل کرنے کے احکامات صادر کردیئے۔ حکومت نے مظلوموں کی ایف آئی آر کا اندراج روکنے کے لئے جسٹس علی باقر نجفی کا ایک رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا، اس نے نہ صرف ایف آئی آر درج کرنے کے حکم کی توثیق کی بلکہ اعلیٰ ترین حکام کے طرز عمل کو بے نقاب کرتے ہوئے، اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ان لوگوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مظلوموں کو داد رسی سے محروم رکھنے کی کوشش کی اور سفارش کی کہ ایف آئی آر بلا تاخیر درج کرنے کا حکم دیا جائے۔ حکومت یہ رپورٹ بھی دبا کر بیٹھ گئی۔ قریباً 3 ہفتے ہوگئے۔ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ رپورٹ کہاں گئی؟ دنیا نیوز چینل کے سٹار اینکر کامران شاہد نے، سارے میڈیا پر سبقت لے جاتے ہوئے، یہ رپورٹ اپنے ذرائع سے حاصل کرکے، ٹاک شو میں، اس کے اقتباسات پیش کر دیے۔ پروگرام میں پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے رپورٹ کے وجود سے انکار کردیا۔ کامران نے اصرار کرتے ہوئے، رپورٹ کے اقتباسات دہرائے تو رانا صاحب نے اس سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں تو یہ الفاظ موجود ہی نہیں اور اعتراض کیا کہ ’’یہ تو ایک خفیہ رپورٹ ہے۔ آپ نے کہاں سے حاصل کی؟ اور اسے میڈیا پر کیوں پیش کررہے ہیں‘‘؟ جس پر بہت تکرار ہوئی جسے دنیا بھر میں ناظرین نے دیکھا اور اسی ٹاک شو میں کامران شاہد کو ایک سینئر صحافی کے جارحانہ دلائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک طرف سابق وزیر اپنی سابقہ پوزیشن کے بل پر، کامران کو دبانے اور ڈرانے کی کوشش کررہے تھے اور دوسری طرف ایک سینئر میڈیا مین تابڑ توڑ دلائل دیتے ہوئے، کامران کے صحافتی کارنامے کو ان کی غلط بیانی ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ یہ جھڑپ میری عدم موجودگی میں ہوئی۔ میں اس پروگرام میں تاخیر سے پہنچا تھا لیکن اس بحث کی بازگشت سننے میں ضرور کامیاب ہوا اور کامران شاہد سے رپورٹ کے مندرجات جاننے کی کوشش کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ کمیشن کی معاون ہماری پرائم خفیہ ایجنسیوں کے دو نمائندوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر حقائق بیان کردیئے ہیں اور بتایا ہے کہ اعلیٰ ترین منصب پر فائز لوگوں نے بھی کمیشن کے سامنے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، کامران شاہد کے انکشافات سارے میڈیا پر نشر ہونے لگے۔ اگلے روز اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ، اس خفیہ رپورٹ کے انکشافات منظر عام پر آگئے جن پر حکومت پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی تھی۔ حکومت ہر قیمت پر ایف آئی آر کا اندراج روکنے پر تلی تھی۔ اس کے نمائندے، خفیہ طور سے مقتولوں کے اہل خاندان کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ پہلے انہیں 10، 10 لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی تھی کہ وہ ایف آئی آر نہ لکھوائیں لیکن وہ اپنی جماعت کے لیڈروں کی مدد سے مقدمہ درج کرانے کی جدوجہد کرتے رہے، جسے حکومت مسلسل ناکام بناتی رہی۔ آخر میں حکومتی نمائندوں نے مقتولوں کے خاندان سے کہا کہ وہ اسلامی قانون کے تحت دیت لے کر ملزموں کو معاف کردیں۔ سنا ہے کہ اس کے بدلے میں کروڑوں کی بھاری رقوم پیش کی گئیں۔ مقتولوں کے ورثا غریب لوگ ہیں۔ انہوں نے اتنی بڑی رقم خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی لیکن وہ اپنے ایمان پر قائم رہے اور اصرار کیا کہ ان کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ حکومت در پردہ ورثا کو دیت دے کر ان سے یہ لکھواناچاہتی ہے کہ ہم نے خون بہا وصول کرلیا ہے اور ہم برضا و رغبت اپنے عزیزوں کا خون معاف کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ایف آئی آر لکھنے میں حیلے بہانوں سے کام لے کر مدعیان کو دھکے کھلائے جارہے تھے اور پھر یہ معاملہ اتنی اعلیٰ سطح پر گیا کہ وزیراعظم کے نمائندوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کا حصہ بنا کر اس ایف آئی آر پر سودے بازی کی کوشش کی۔ یہ نمائندے بھی وہی حرکت کررہے تھے جو وفاقی وزرا نے کی یعنی ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظلوم شہریوں کو ڈرایا جارہا تھا کہ وہ ایف آئی آر لکھوانے اور احتجاج کرنے کے اپنے آئینی حق سے دستبرداری پر تیار ہوجائیں اور بدلے میں حکومت کی ضرورتیں پوری کردیں۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کا تحفظ کرنے کے لئے ہمارے نام نہاد پارلیمانی نمائندے اتفاق رائے سے قرار دادیں پاس کررہے ہیں۔ جو لوگ مظلوموں کو انصاف دلانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں انہیں جمہوریت دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر عوام کی جیبوں پر جو ڈاکے ڈالے جارہے ہیں، ان پر کوئی منہ نہ کھولے۔ توقع کی جاتی ہے کہ عوام ہر ظلم پر خاموش رہیں۔ ان کے پیروں کو گولیوں سے بھون کر ختم کردیا جائے تو آواز نہ اٹھائیں۔ تھانے میں شکایت لے کر نہ جائیں اور اگر زیادہ بے چین ہیں تو مقتولوں کی قیمت وصول کرلیں مگر ایک سر پھرے ٹی وی اینکر اور آزادی پسند میڈیا پرسن نے شاہی خاندان اور اس کے درباریوں کو قانون کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ مجھے تو ا س کی بھی توقع نہیں تھی۔ غنیمت ہے کہ قانون کا ہاتھ یہاں تک پہنچ گیا اس سے آگے کی مجھے تو کوئی امید نہیں۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مقتولوں کے مظلوم پسماندگان کو کچھ زیادہ انصاف عطا فرمادے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سیاست میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کریں وہ اپنی جگہ لیکن انہوں نے مظلوموں کو آواز اٹھانے اور اپنا حق مانگنے کے حوصلے ضرور دے دیئے ہیں۔
29 اگست 2014، روزنامہ دن (جنرل(ر) پرویز مشرف)
اس وقت ملک کے صدر، وزیراعظم اور وزراء اراکی اسمبلی اگرچہ منتخب ہوکر آئے ہیں اور عوام نے ہی ان کو منتخب کیا ہے لیکن عوام کے بارے میں ان کی سوچ کیا ہے وہ ہر کوئی بہت اچھی طرح سے جانتا ہے اور عوام میں اب تک مجھے ایک بندہ بھی نظر نہیں آیا جو ان کے خلاف نہ بول رہا ہولیکن ان کے منتخب کردہ نمائندے کلی طور پر ان سے بہت دور ہیں۔ طاہرالقادری صاحب نے جو کیا وہ ایک واضح مثال ہمارے سامنے موجود ہے ان کی ایک کال پر لاکھوں لوگ آگئے کیونکہ عوام موجودہ لیڈر شپ سے تنگ آ چکی ہے۔
طاہرالقادری صاحب کے دھرنے کو حقائق کی روشنی میں دیکھنا چاہئے پہلی بات تو یہ کہ بہت بڑا انقلاب مارچ ہے اور قابل دید ڈسپلن دیکھنے کو ملا ہے۔ میں نے آج تک اتنا منظم اور ڈسپلن سے بھرپور دھرنا پاکستان میں نہیں دیکھا۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ طاہرالقادری کسی غیر ملکی ایجنڈے سے اور پیسے کے سہارے پاکستان آئے ہیں۔ اس دھرنے سے قبل ان کی کارکردگی کو دیکھیں کہ ان کی تقاریر اور لیکچرزکو لوگوں کی بہت بڑی تعداد سننے کے لئے آئی ہے وہ اپنی مکمل تیاری اور ہوم ورک کے بعد پاکستان آئے تھے اور پھر ان کو دنیا بھر سے عطیات بہت زیادہ تعداد میں ملتے ہیں۔ عام لوگ ان کو ڈونیشن دیتے ہیں جو کہ کروڑوں میں ہیں۔ اس لئے میرا کوئی خیال نہیں کہ ان کی غیر ملکی مالی امداد ہوئی ہو یا انہیں کسی نے سپورٹ کیا۔
30 اگست 2014، روزنامہ جنگ (ارشاد احمد عارف)
یہ اعصاب کی جنگ تھی جو بالآخر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے جیت لی۔ ریڈزون کے کنٹینروں اور گرین بیلٹس پر شب و روز گزارنے والے قائدین اور ان کے پیروکار موسمی حالات، سیاسی دباؤ اور میڈیا کی بے رحمانہ تنقید سے متاثر ہوئے نہ ناکامی کے امکان نے انہیں بددل کیا جبکہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ گنگنانے والے حکمران ہمت ہار بیٹھے۔ جمہوریت روایات، پارلیمنٹ کی بالادستی اور سول حکومت کے اختیار کی مالا جپنے والوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے دست بستہ مدد کی درخواست کی اور فوج کو سیاست میںملوث کردیا۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟
میاں صاحب نے اپنے سیاسی حلیفوں اور نام نہاد جمہوریت کے ہیضے میں مبتلا دانشوروں کو بھی اندھیرے میں رکھا وہ بے چارے سول بالادستی کا علم تھام کر ’’منتخب حکومت‘‘ اور ’’عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ‘‘ کی حفاظت کے نعرے لگاتے اور صف بستہ فوجی مداخلت کی روک تھام کے منصوبے بناتے رہے مگر میاں صاحب نے صرف اپنے خاندان سے مشورہ کرکے جنرل راحیل شریف سے مدد اور مداخلت کی درخواست کردی۔ الزام ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان پر ملی بھگت کا لگتا رہا مگر جمعرات کی شام یہ راز کھلا کہ 1993ء اور 1999ء کی طرح فوج کی مداخلت کا راستہ منتخب وزیراعظم نے ہموار کیا۔ حلف یاد رہا نہ آرٹیکل 6 اور نہ اپنے حلیف جو گلا پھاڑ پھاڑ کر جنرل راحیل شریف کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کی تلقین کررہے تھے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیری حربے، باقر نجفی کمیشن رپورٹ کو کئی روز تک دبائے رکھنے اور آخری روز ایف آئی آر کے اندراج کے معاملے پر طاہرالقادری سے لین دین کی کوششیں دال میں کالا کی نشاندہی کرتی تھیں اور حکمرانوں کے اندرونی خوف کی علامت مگر آرمی چیف کے دباؤ پر ایف آئی آر کے اندراج میں جس طرح دو نمبری کی گئی اور میڈیا کے علاوہ فوجی قیادت کو جس طرح گمراہ کیا گیا وہ آرمی چیف کے لئے بھی یقینا حیران کن اور تکلیف دہ ہوگا۔ اس قدر فریب کاری و جعلسازی بھلا کوئی تصور کرسکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں تو یہی ایک وجہ بتاتی ہے کہ ایسے لوگ باقی قومی معاملات میں کس قدر فریب کاری کے مرتکب نہ ہوتے ہوں گے۔
اب اگر کسی دباؤ، انڈرسٹینڈنگ یا مصلحت کے تحت میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ اور میاں شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہتے بھی ہیں تو ان کی حیثیت لنگڑی بطخ کی ہوگی۔ اپنے ماتحتوں اور کولیگز پر اخلاقی برتری نہ ہونے کے سبب کاروبار ریاست چلانا مشکل اور ریاستی اداروں سے معاملہ فہمی امر محال۔ اعتبار اور اعتماد کون کرے گا اور معلق حکومت کی بیرونی دنیا، عالمی اداروں میں ساکھ کیا ہوگی؟ جس وزیراعظم کا حکم مانتے ہوئے بیورو کریٹس، سفارتکار، خودمختار اداروں کے سربراہان سوبار سوچیں اور پولیس افسران تحریری ہدایات طلب کریں وہ صرف پروٹوکول کے مزے تو لے سکتا ہے اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔ رعب و دبدبہ طاہرالقادری اور عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنے سے ختم کیا، اخلاقی ساکھ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ایف آئی آر کے اندراج میں جعلسازی کے سبب بری طرح مجروح اور باقی ماندہ کسر آرمی چیف کی منت سماجت اور مخالفین سے جان چھڑانے کی التجا نے پوری کردی۔ اس سے بہتر استعفیٰ ہے پسپائی کی آخری منزل مگر اس کے لئے بھی جرات رندانہ درکار ہے۔
30 اگست 2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
قادری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہزاروں مرد عورتیں بچے بچیاں کرائے پر لائے گئے کارکن نہیں بلکہ پختہ نظریاتی طاقت ہیں اور کارکن جب نظریاتی طاقت میں بدل جاتے ہیں تو ریاستی مشنری ان کی جان تو لے سکتی ہے ان کے نظریات نہیں لے سکتی۔
عمران خان پر ناچ گانے کی سیاست کرنے اور قادری صاحب پر دہری شہریت اور ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ انہیں پاکستان کے جمہوری نظام کو تباہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ پاکستانی اشرافیہ کا نصف حصہ دہری شہریت کا حامل ہوگا اور وہ دھڑلے سے پاکستان کی دولت کو بھی لوٹ رہا ہے اور اقتدار کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ پاکستان کے 20 کروڑ عوام 67 سالوں سے بھوک، افلاس، بیکاری، غربت، بیماری کے جہنم میں جل رہے ہیں اور خالص پاکستانی قیادت عوام کو اس جہنم میں جلتے دیکھ رہی ہے۔ انہیں اس جہنم سے نکالنے کے بجائے اپنی زندگی کو جنت بنارہی ہے۔ کیا ایسی افسوسناک صورتحال میں اگر دہری شہریت رکھنے والا قادری عوام کو اس جہنم سے نکالنے کے لئے پارلیمنٹ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے تو اسے ملکہ کا وفادار کہنا درست ہے؟
پاکستان کے عوام کو سب سے زیادہ حیرت اس واویلے پر ہے کہ دھرنوں کی وجہ سے جمہوریت آئین قانون پارلیمنٹ ملک و قوم کو سنگین خطرہ لاحق ہے اور اسی فرضی اور پرفریب خطرے کا نام لے کر حکمراں اور ان کے معزز اتحادی ہر قیمت پر جمہوریت کو بچانے کے لئے میدان میں آرہے ہیں۔ کیاحکمرانوں کے استعفے سے جمہوریت اور ملک خطرے میں پڑ جائے گا؟ کیا سانحہ ماڈل ٹاؤن میں حکمران مجرم ثابت ہوتے ہیں تو جمہوریت اور ملک خطرے میں پڑجاتے ہیں؟ کیا موجودہ حکومت چلی جاتی ہے تو آئین ختم ہوجاتا ہے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
دھرنے والوں پر کئی الزامات لگائے جارہے ہیں ہم ان سارے الزامات کو درست مان لیتے ہیں۔ لیکن کیا دھاندلی زدہ انتخابی نظام میں تبدیلی اور اسے اشرافیہ کی جاگیر سے نکالنا جمہوریت دشمنی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن کی تشکیل نو سے آئین کو خطرہ لاحق ہوجائے گا؟ کیا لٹیری کلاس کا کڑا احتساب آئین اور قانون کے خلاف ہے؟ کیا بلدیاتی نظام کے احیا سے سے ملکی سالمیت خطرے میں پڑجائے گی دھرنے والے یہ سارے مطالبات اب تک انتہائی پرامن طریقے سے کررہے ہیں۔ نہ اس حوالے سے یہ انتہا پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں نہ ان کے مطالبات انتہا پسندانہ ہیں وہ تو غریب کو روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج انصاف دلانا چاہتے ہیں۔ شاعر مشرق ایک اعتدال پسند انسان تھے لیکن وہ یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوئے۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیا اقبال تخریب کار تھے۔ انتہا پسند تھے؟ نہیں بلکہ کروڑوں غریب عوام کی بھوک پیاس غربت و افلاس کی انتہا نے اقبال سے یہ کہلوایا۔ دھرنے والے ابھی اس انتہا پر نہیں گئے ہیں لیکن جاسکتے ہیں۔
30 اگست 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
علامہ طاہرالقادری نے اپنی پاکستان آمد کا اعلان کیا کیا کہ حکومت بوکھلا گئی۔ ذرا تصور کریں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ایک شخص کی آمد کے اعلان سے لرز اٹھی۔ اس وقت پنجاب کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ قادری صاحب کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے لیکن جب سبق کی مشقت کی دھول چھٹی تو ماڈل ٹاؤن سانحہ اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ حکمرانوں کے گلے کا پھندا بن چکا تھا۔ دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود منہاج القرآن کی طرف سے ایف آئی آر نہ کاٹی گئی۔ خادم اعلیٰ اور رانا ثناء اللہ اس کی مختلف تاویلیں دیتے رہے۔ اس دوران خادم اعلیٰ اپنی انگلی پر زور طریقے سے ہلا ہلا کر دعویٰ کرتے رہے کہ اگر اس کیس میں ان کی طرف انگشت نمائی بھی ہوئی تو وہ مستعفی ہوجائیں گئے۔ تاہم اب جسٹس باقر جوڈیشل کمیشن نے ان کو مور دالزام ٹھہرایا ہے لیکن ابھی تک استعفیٰ نہیں آیا۔
حکومت کا پہلے تو ارادہ تھا کہ پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کے ساتھ سختی کی جائے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد پنجاب پولیس کا مورال گرچکا تھا اور وہ تحریری احکامات کے بغیر کسی کارروائی پر آمادہ نہ تھی۔ چارو ناچار، تشدد کا راستہ ترک کرنا پڑا۔۔۔ پھر کہنے لگے کہ وہ خون خرابہ نہیں چاہتے تھے۔ اس کے بعد حکومت نے امید لگالی کہ مارچ کے شرکاء تھک ہار کر واپس چلے جائیں گے لیکن آج پارلیمنٹ کے سامنے وہ پوری تندہی سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں اور وہ پسپائی اختیار کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ علامہ طاہرالقادری کے پیروکاروں نے تو استقامت اور نظم و ضبط کی مثال قائم کی ہے۔ دھوپ اور بارش میں بھی وہ استقامت سے اپنی جگہ پر موجود رہے۔ اس دوران حکومت ان سے مذاکرات کرتی رہی، سیاسی جماعتیں اپنے تئیں کوشش میں رہیں۔ گورنر سندھ اور گورنر پنجاب بھی اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن نتیجہ صفر۔ اس دوران قومی اسمبلی میں تقریریں ہوتی رہیں لیکن لوگ علامہ صاحب کا خطاب اور عمران خان کے ترانے سنتے رہے۔ اس دوران حکومت کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ وہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی ایف آئی آر ہی درج کرلیتی۔ اس کے بعد پھر وہ ہماری قومی زندگی کی اہم ترین رات آئی جب آرمی چیف کو ثالثی کے لئے کہا گیا۔ رات طاہرالقادری اور عمران خان کی چیف صاحب سے ملاقات ہوئی، تاہم دن نکلا تو قومی اسمبلی میں ہونے والی تقاریر نے معاملے کو پھر کنفیوژن میں ڈال دیا۔ اب حال یہ ہے کہ دھرنا تو بعد میں ختم ہوگا لوگ کہتے ہیں کہ پہلے جھوٹ سچ کا تو فیصلہ کرلیا جائے۔
30 اگست 2014، روزنامہ دن (طارق متین)
دھرنے کا شکریہ۔ کیا ہوا جو معیشت کو آٹھ سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ کیا ہوا جو کچھ شیروانیاں فرنٹ پیج پر نہیں آسکیں۔ کیا ہوا جو دوبین الاقوامی رہنماؤں نے اپنا دورہ ملتوی کرڈالا۔ کیا ہوا جو راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کو کچھ دن آمدو رفت میں مشکلات پیش آئیں۔ کیا ہوا جو اراکین اسمبلی ایوان صدر کے راستے اسمبلی میں دبے پاؤں آئے اور دبے پاؤں گئے۔ کیا ہوا جو اسلام آباد کے کچھ سرکاری دفاتر میں راشیوں کی دیہاڑیاں رک گئیں۔ کیا ہوا جو وہ بھی انصاف کا رستہ ڈھونڈنے لگے جو انصاف کا رستہ دکھاتے تھے۔ بہت سوں کو ان باتوں پر بڑا افسوس ہے۔ بہت سوں نے اپنی نیند گنوائی اپنی بیماری بڑھائی، اپنے معمولات درہم برہم کر ڈالے اور اپنے ٹی وی لاؤنج کی رونقیں بڑھا کر اپنے بجلی کے بل اور بڑھا ڈالے مگر میں کہتا ہوں دھرنے کا شکریہ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسے دھرنے اور ہوں ایسی ناکامیاں یا جزوی کامیابیاں اور ہوں اور مشکلات اور پیدا ہوں ایسے جھٹکے اور لگیں۔
میں کہتا ہوں دھرنے کا شکریہ کہ اس سے بہت کچھ صاف ہوگیا۔ دھرنے سے سب کواپنی اوقات معلوم ہوگئی۔ حکومت کو پتہ چل گیا اور سترہ جون کو پولیس نے سبق سیکھ لیا کہ زبانی احکامات پر عمل درآمدنہیں کرنا اور حکمرانوں کے کہنے پر جان لینے کا مطلب اپنی جان دینا ہوسکتا ہے۔ حکومت کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ ہر شخص گیدڑ بھبھکیاں نہیں دیتا بلکہ کچھ لوگ سر پھرے بھی ہوا کرتے ہیں۔ حکومت کو لگ پتہ گیا کہ چالیس ہزار کی نفری اس نے کھڑی تو کردی مگر ریڈزون میں داخل ہونے والوں کے سامنے وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
دھرنے کا شکریہ کہ جس کی بدولت چند لوگوں نے سب لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کو بے لباس کرکے اپنی تہذیب کا مظاہرہ کیا۔ اپنی ’’شائستگی‘‘ ثابت کرتے ہوئے یہ بتادیا کہ بعض لوگ مختلف حلقوں میں رہ کر بھی اور اعلیٰ ترین اداروں میں جاکر بھی گفتار کے غازی تک نہیں بن پاتے۔ اس لڑائی نے ہمیں یہ بھی بتادیا کہ وزیر وزارت سے جائے مگر ہیرا پھیری سے نہ جائے اور فائلیں اپنے ہرکاروں سے چوری کروائے، اس کا ٹی وی پر فخریہ اعتراف کرے مگر پوچھنے والا کوئی نہیں۔
تو ایسے دھرنے ہوتے رہنے چاہئیں کیونکہ ان سے کمزوریوں اور غلاظت کی نشاندہی ہوتی ہے، باقی رہی آٹھ نو سو ارب کے نقصان کی بات تو جس طرح سٹرسٹھ اڑسٹھ برس قوموں کی زندگی میں ایک لمحے کے برابر ہیں، اسی طرح یہ رقم ہاتھ کے میل کے برابر ہے۔
31 اگست 2014، روزنامہ ایکسپریس (موسیٰ رضا آفندی)
دھرنے والوں کی یہ عظیم کامیابی ہے جس نے نہ صرف تقریروں کے ذریعے پاکستان کے سارے لوگوں کو آئین اور آئینی دفعات کے بارے میں آگاہ کیا بلکہ اس نام نہاد جمہوریت کو بھی اپنی اصلی صورت دکھانے پر مجبور کردیا تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ بدبو بدبو ہوتی ہے اور خوشبو خوشبو۔ لوگوں پر یہ چیز بھی واضح ہوگئی حکمران طاقتیں اپنی سرشت میں کتنی ہوشیار ہوتی ہیں جو اپنے ہی الفاظ کو بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتیں۔
پاکستان کے دھرنا دینے والوں کی عظمت کو سلام جنہوں نے ملک اور عوام دونوں پر یہ بات واضح کردی ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل کا حل پاکستان کے آئین کی متعلقہ دفعات پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے کسی بیرونی یا دیگر نسخے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ آئینی دفعات ہیں جو آئین میں درج ہونے کے باوجود کبھی قابل توجہ نہیں ٹھہرائی گئیں۔ 1973ء کے بعد سے جتنے انتخابات بھی ہوئے وہ آئین میں درج ان دفعات کو ہمیشہ نظر انداز کرکے ہوئے، اس لئے دیکھا جائے تو وہ سارے انتخابات غیر آئینی اور دھاندلی زدہ تھے۔ حیرت ہے ان آئینی ماہرین اور نام نہاد قانون دانوں پر جنہیں اسی آئین کے بارے میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے سبق پڑھائے اور پہلی دفعہ انہیں نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ٹھیک ٹھیک طریقے سے سمجھادیا کہ یہ قوم مسیحاؤں کی شکل میں ان ٹھگوں کے ہاتھوں لٹتی رہی ہے۔
2 ستمبر 2014، روزنامہ دنیا (نذیر ناجی)
اسلام آباد میں 50 ہزار پولیس والوں کے سامنے، سرکاری ترجمانوں کے مطابق، صرف 20 ہزار مظاہرین تھے۔ وزراء کے مطابق قریب قریب یہی تعداد تھی۔ کوئی وزیر ایک طرف پانچ سات ہزار اور دوسری طرف دس بارہ ہزار بتاتا اور کوئی اس کے الٹ۔ مظاہرین 16 دن اپنی اپنی جگہ پر مستقل دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ کسی قسم کی بدامنی نہیں ہوئی۔ اور جب ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے مظاہروں کو حساس مقامات کے سامنے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو پولیس کی یہ بھاری بھر کم تعداد میدان میں اتاری گئی۔ اس رات مظاہرین کی جو دھنائی ہوئی، وہ اپنی مثال آپ تھی۔ عورتوں، بوڑھوں اور نو عمر نوجوانوں سمیت، سب کو بے رحمی سے پیٹا گیا۔ گیس کے شیل مارے گئے اور لاٹھیوں کا بے تحاشا استعمال ہوا۔ اس روز مظاہرین میں سے کسی کسی کے پاس ڈنڈا تھا۔ اکثریت خالی ہاتھ تھی۔ اس رات اور اس کی صبح کم و بیش ایک ہزار افراد اتنے شدید زخمی ہوئے کہ انہیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ ہسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ دو افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ لیڈروں نے الزام لگایا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے ان کی لاشیں غائب کردی ہیں اور سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں۔ اگلے روز دن اور شام کے وقت امن رہا۔ پولیس اور مظاہرین میں ہلکی پھلکی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ اس روز 3 افراد جاں بحق ہوئے اور زخمیوں کی تعداد 600 تھی۔ شام تک حالات بہتر رہے، لیکن آج صبح پھر سے جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ مظاہرین کی تعداد میں حیرت انگیز تیز رفتاری سے اضافہ ہونے لگا اور پھر پولیس کی دوڑیں لگنا شروع ہوگئیں۔ یاد رہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مظاہرین صرف دس بارہ ہزار تھے اور جس پولیس کی دوڑیں لگیں، اس کی تعداد چالیس پچاس ہزار کے درمیان تھی۔ اس صورتحال پر کیا کہا جاسکتا ہے؟ یا تو پولیس والوں کے حوصلے پست تھے اور مظاہرین زیادہ حوصلہ مند؟ یا وہ دلی طور پر حکومت کے ساتھ نہیں تھے اور بے دلی سے ڈیوٹی دے رہے تھے؟ یا سرکاری ذرائع نے مظاہرین کی تعداد کم بتائی؟ وہ اگر پولیس کے برابر نہیں تھے تو دو چار ہزار کم ہوں گے۔ تینوں صورتوں میں سرکاری بیانات ناقابل یقین نظر آتے ہیں۔
یہ احتجاجی تحریک اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ اسے اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کی حمایت یا تعاون حاصل نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، احتجاج کرنے والی جماعتوں کو تنقید ہی نہیں بلکہ نفرت کا نشانہ بناتے رہے اور سینہ تان کر کہتے رہے کہ حکومت سے پہلے میں مظاہرین کے سامنے آؤں گا۔ کیا بہادری ہے؟ نیب کے سامنے آتے نہیں، مظاہرین کے سامنے آئیں گے۔ یہ دنیا کی واحد اپوزیشن ہے جو احتجاج کرنے والے عوام کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے بڑھ کر حکومت کی وکالت کرتی ہے۔ یہ اور پارلیمانی اپوزیشن کی ساری جماعتیں، کبھی عوام کے مسائل پر بات نہیں کرتیں۔ اگر پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ کر عوامی مسائل کا سراغ لگانے کی کوشش کی جائے تو پتہ چلے گا کہ پاکستان میں بیروزگاری کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مہنگائی سے کسی کو تکلیف نہیں۔ لوڈشیڈنگ پر عوام خوش و خرم ہیں۔ امن و امان کی صورتحال تسلی بخش ہے۔ ہسپتالوں میں غریبوں کا بہترین علاج ہورہا ہے۔ ان کے بچوں کے لئے تعلیم کا انتظام تسلی بخش ہے اور انتہا یہ کہ پاکستان میں دور دور تک کرپشن کا نام و نشان نہیں۔ اگر پارلیمانی اپوزیشن کو ان سارے مسائل کا پتہ ہوتا تو وہ عوام کی مشکلات اور تکلیفوں سے واقف ہوتی اور پارلیمنٹ کے اندر حکومت کی خبر لیتے ہوئے اسے احساس دلاتی کہ عوام کیسی تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں اور حکومت کو ان کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپوزیشن بلا کی ’’دھنیا نوش‘‘ ہے۔ کرپشن کے خلاف اس لئے نہیں بولتی کہ اپوزیشن کے بے شمار ممتاز اراکین کو اندیشہ ہے کہ کرپشن کی فائلیں کھولی گئیں تو کہیں ان کا اعمال نامہ سامنے نہ آجائے۔ میڈیا عموماً شریف برادران کا زبردست حامی ہوتا ہے۔ توقع کے مطابق انتخابات میں دھاندلی کے خلاف حالیہ تحریک کے ساتھ بھی اس کا رویہ حسب توقع رہا۔ تحریک کے دوسرے ہفتے میں میڈیا والوں پر قدرت کچھ زیادہ ہی مہربان ہوگئی۔ بعض لوگوں کی ایسی لاٹری نکلی کہ کئی کروڑوی مل گئے اور کوئی کروڑ کماری بن گئے۔ اس کے بعد مظاہرین کا شرپسند قرار پانا تو بنتا ہی تھا۔ جس چینل پر کوئی مہمان حکومتی ہٹ دھرمی کا تذکرہ کرتا، کوئی نہ کوئی کروڑی مل پنجے جھاڑ کے، اسے پڑ جاتا اور وہ مہمان حیرت سے گنگ ہوجاتا کہ یہ صاحب کل تک تو میرے ہم خیال ہوا کرتے تھے، آج انہیں کیا ہوگیا؟
حکومت کا مطلب ہوتا ہے کہ ریاستی امور اور ادارے اس کے کنٹرول میں ہوں۔ اگر ایک ادارے یا محکمے میں حکومت کی رٹ ختم ہوجائے، تو اسے حکمرانی کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن یہاں تو وفاقی حکومت کے بیشتر دفاتر بند پڑے ہیں۔ کئی وزارتیں ایسی ہیں جن کا پورا پورا سٹاف دفتر نہیں آرہا۔ پولیس افسروں نے حکومتی احکامات ماننے سے صریحاً انکار کردیا ہے۔ ایک پولیس افسر خاتون نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ ساڑھے چار سو سے زیادہ پولیس ملازمین لاٹھی اور آنسو گیس چلانے کی ڈیوٹی دینے سے انکار کرکے چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ عوام کا موڈ بھی اسی طرح باغیانہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب کوئی حکومت اقتدار پر مسلط رہنے پر اصرار کرے، تو قوم واقعی آزمائش میں پڑ جاتی ہے۔ خصوصاً حکومت جب منتخب ہوکر آئی ہو۔ ایسی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ آمر کیا کرتے ہیں، جو طاقت سے اقتدار میں آئے ہوں۔ انہیں پروا نہیں ہوتی کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ وہ ہر حال میں قوم پر مسلط رہنے کے جتن کرتے ہیں۔ منتخب حکمران کے دور میں ایک بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر ہلاک ہوجائے تو وہ اسی وقت اقتدار سے الگ ہوجاتا ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں راولپنڈی کا صرف ایک طالب علم پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔ ایوب خان نے اسی دن اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں تو لاہور میں 14 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ 5 اسلام آباد میں بھی ہوچکی ہیں۔ اب یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا۔ ہر شہر اپنا حصہ ڈالتا رہے گا اور ایک دن عوام یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اے میری محبوب حکومت! کتنے بندے مارو گی؟ ابھی ابھی پی ٹی وی سنٹر اسلام آباد پر قبضہ چھوڑنے کی خبر کے ساتھ، پی ٹی وی کے ایک ترجمان کا بیان آیا کہ ’’مظاہرین 24کیمرے لے گئے ہیں‘‘۔ یہ مظاہرین یقینا جادو کے کرتب جانتے ہوں گے، جو ٹی وی کے 24 کیمرے جیبوں میں ڈال کے لے گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ تمام مظاہرین فوج اور کیمروں کے سامنے ٹی وی سنٹر سے باہر نکلے۔ ان میں سے کچھ کے ہاتھوں میں چھڑیاں تھیں۔ کیمرے جیسی کوئی چیز کسی نے نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اتنے کیمرے خود ٹی وی والے بھی غائب نہیں کرسکتے تھے۔ یہ کوئی پرانی ’’واردات‘‘ تھی، جسے قبضے کی آڑ میں جائز کرلیا گیا۔
2 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
گذشتہ روز پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیاہ دنوں میں سے ایک دن تھا۔ شاہراہ دستور سرخ خون سے ایک نئے پاکستان کا دستور لکھ چکی ہے۔ کیا یہ مسلمانوں کا مقدر ہے کہ کبھی کوئی سانحہ کربلا، فال آف ہسپانیہ، سانحہ فلسطین، سقوطِ ڈھاکہ، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اب پھر سانحہ اسلام آباد برپا کرکے شاید ہمیں بتایا جاتا ہے ’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘۔
اسلام آباد میں موجود سارے ہوٹلوں میں مقیم لوگوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ریاستی بربریت کے شکار زخمی سسک رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی اور مصدقہ ذرائع کیمطابق دو درجن شہدا کی لاشیں ابھی تک غائب ہیں۔ صرف تین شہداء کی لاشیں سامنے لائی گئی ہیں۔ میرے سمیت 20 کروڑ پاکستانی اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ جب حکومت نے پاکستانی آئین کے آرٹیکل 245کے تحت ریڈ زون کی عمارتوں کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیا تھا تو پھر کیا حکومت وقت کو فوج کی کریڈیبلٹی پر کوئی شک تھا کہ حکومت نے دھرنے کے شرکا پر ایکسپائرڈ آنسو گیس کے اتنے شیل برسائے کہ اسلام آباد کی سڑکیں ان شیلز اور ربڑ کی گولیوں کے خولوں سے بھر گئیں۔ اس وقت اسلام آباد میں 14000 پولیس کی نفری پنجاب سے، 3000 ریلوے سے، 5000 ہزار آزاد کشمیر سے اور ایف سی اور رینجرز کے 5000 نوجوان اس کے علاوہ ہیں جب کہ 11000 اسلام آباد کی نفری بھی ہر قسم کی بربریت کرنے کیلئے موجود ہے جبکہ ان گھمبیر حالات میں بھی ایک ہزار کے قریب پولیس کے جوانوں نے اپنی ہی عوام پرتشدد نہ کرنے کی بنا پر استعفے دے دئیے ہیں جبکہ وزارت داخلہ کے ایک سینئر آفیسر اور تین ایس ایس پی عہدے اور ایک ڈی ایس پی خاتون آفیسر نے ریاستی تشدد کا حصہ بننے سے انکار کر کے انقلاب کی بنیادوں میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ دراصل حکومت وقت نے اپنے فانی اقتدارکو دوام بخشنے کیلئے ریاستی مشینری کا بے دریغانہ استعمال کیا۔
2 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (ایم جے گوہر)
پورا میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ 14 اگست کو ’’تخت لاہور‘‘ سے شروع ہونے والا آزادی اور انقلاب مارچ اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے تک مکمل طور پر پرامن تھا، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد 17 روز تک ریڈزون میں پرامن طور پر احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے رہے اس عرصے میں پی ٹی آئی اور پی ٹی اے کے کارکنوں نے نہ کوئی گملا توڑا نہ کسی حساس عمارت کو نشانہ بنایا اور نہ ہی کسی سرکاری اہلکار سے الجھنے کی کوشش کی تاہم جب طاہرالقادری اور عمران خان نے حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث مذاکرات میں ناکامی اور ڈیڈ لاک پیدا ہونے کے بعد اپنے دھرنے کو وزیراعظم ہاؤس کے سامنے منتقل کرنے کا اعلان کیا اور دھرنے کے شرکا جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان سب ہی شامل تھے، بڑے پرامن طریقے سے وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنا شروع ہوئے تو راستے میں حفاظتی حصار بنائے کھڑی پولیس کی بھاری نفری نے حکومتی احکامات کی تعمیل میں احتجاجی مظاہرین پر یلغار کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے ریڈ زون کو ’’بلڈزون‘‘ بنادیا۔
میدان جنگ کا منظر پیش کرنے والے ریڈزون میں پولیس نے ریاستی جبرو تشدد کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے دھرنے کے شرکاء پر آنسو گیس کی ایسی بدترین و خوفناک شیلنگ کی گئی، ان پر لاٹھیاں اور گولیاں برسائی گئیں۔ نتیجتاً 300 سے زائد افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں بری طرح زخمی ہوکر اسپتالوں میں پہنچ گئے جن میں بیشتر کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ پولیس اسپتالوں میں جاکر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے زخمی کارکنوں کو زبردستی گرفتار کررہی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کے لئے کھانے، پانی کی فراہمی کے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔ تاہم عمران خان اور طاہرالقادری کے حوصلے قائم ہیں وہ اپنے اس مطالبے پر جمے ہوئے ہیں کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے مستعفی ہونے تک وہ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔
آپ دنیا کے مہذب و باشعور جمہوری معاشروں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ریاستی پالیسیوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آکر پرامن احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں اورریاستی مشینری ان کے احتجاج میں کوئی رخنہ نہیں ڈالتی یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس کے باہر امریکی صدر اور برطانیہ کے وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ پرامن احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں لیکن کہیں خونی سانحہ رونما نہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں آئین و قانون کی پاسداری اور جمہوری اقدار کی حفاظت کرنا حکمرانوں نے شاید سیکھا ہی نہیں یہ سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں آئین و قانون کی کتاب کا ایک ایک صفحہ از بر ہوتا ہے لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں اور میاں صاحب کی کہہ مکرنیاں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ بھاری مینڈیٹ کے زعم میں وہ تمام حدود عبور کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔
3 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
وحشیانہ طاقت کے استعمال سے پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے حتجاج کو کچل دینا حکومت کے پاس آخری آپشن تھا لیکن یہ بھی ناکام ہوچکا۔ ان کے کارکن، مرد اور عورتیں، پنجاب بھر سے منگوائی گئی پولیس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ مظاہرین پر کبھی کسی فوجی آمر نے بھی اس طرح طاقت کا کھلا استعمال نہیں کیا تھا۔ وکلا تحریک کے دوران جنرل مشرف کو کون سی گالی نہیں دی گئی، ان پر کون سا الزام نہیں لگایا گیا لیکن ان کی طرف سے اس تشدد کا عشر عشیر بھی نہیں کیا گیا جس کا مظاہرہ موجودہ حکومت نے کیا۔ اس کے باوجود ہم اسے جمہوریت اور اسے آمریت کہتے ہیں۔
اس وقت اس تاریخ ساز لمحے میں، پاکستان عوامی تحریک کے کارکن ہیرو بن کر میدان میںموجود ہیں۔ یہ لوگ کس چیز سے بنے ہوئے ہیں؟ نہ ان پر سورج کی گرمی کا اثر ہوتا ہے، نہ بارش کا اور نہ برسائی گئی بدترین آنسو گیس اور ہلاکت خیز ربڑ کی گولیوں کا۔ اسلام آباد کی تاریخ کے بدترین ریاستی تشدد کے باوجود یہ لوگ اپنے قدموں پر مضبوطی سے جمے رہے۔ کوئی چیز بھی ان کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ کرسکی۔ بھوکے پیاسے، نیند اور آرام سے بے نیاز، جان ہتھیلی پر رکھے اس قیامت خیز رات (جو تمام پاکستان نے آنکھوں میں گزار دی اور ان پر قیامت گزر گئی) یہ لوگ ریاستی جبر کے سامنے سینہ سپر رہے۔ اس وقت تک تین افرد ہلاک اور پانچ سو کے قریب زخمی ہوکر دارالحکومت کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ حکومت غصے سے دانت پیس رہی ہے کیونکہ اس نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی چلادیا لیکن حریف کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔
ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر قادری کی جمہوریت کی تشریح حکمران طبقے اور اشرافیہ کو پسند نہ آئے لیکن یہ کچلے اور پسے ہوئے مظلوم عوام کی خواہشات کی آئینہ دار ہے۔ طاہرالقادری کوئی فاشسٹ، انارکسٹ یا نظام کو ختم کرنے والی کوئی تباہ کن قوت نہیں بلکہ وہ آئین اور قانون کو سمجھنے اور اس کی پاسداری کرنے والے رہنما ہیں۔ وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو سماجی انصاف اور زندگی گزارنے کے بہتر مواقع فراہم کئے بغیر جمہوریت صرف کاغذی کارروائی ہے کیونکہ یہ عوام کی بجائے صرف مراعت یافتہ طبقے کے مفادات کا ہی تحفظ کرتی ہے۔ ان کی جمہوریت کی تشریح امراء کے دیوان خانوں کی گھٹی ہوئی فضا میں نہیں ہوتی، یہ مزدور اور دہقان کے پسینے کی خوشبو سے مہکتی ہے۔ علامہ صاحب سماجی اصلاحات کی بات کرتے ہیں۔ ان کی جمہوریت اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کے قریب تر ہے۔ وہ اقبال کے مارکسی تصور والے اشعار سے عوام کے دل گرماتے ہیں۔۔۔ ’’اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو۔۔۔ کاخ امراء کے درو دیوار ہلادو‘‘۔ ان کا پیش کردہ انقلابی منشور عوام کی خواہشات کا آئینہ دار ہے۔ وہ برداشت، رواداری اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات اور ببانگ دہل تکفیری عقیدے کی نفی کرتے ہیں اور آج سے پہلے ہمارا معاشرہ ان تصورات سے تہی دامن تھا۔
اس وقت پاکستان میں بائیں بازو کی تحریکیں تقریباً دم توڑ چکی ہیں۔ کبھی پی پی پی نے بائیں بازو کا سوانگ رچایا تھا لیکن اب یہ بھی ختم ہوچکا۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں اس کا پی ایم ایل (ن) سے امتیاز ختم ہوچکا ہے اور پی ایم ایل (ن) سرمایہ داروں، تاجروں اور صنعت کاروں کی جماعت ہے۔ اس وقت کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بری، پنجاب میں ترقی پسندی کے جذبات اور رجحانات کی نمائندگی طاہرالقادری ہی کررہے ہیں۔ صرف ان کی زبان پر ہی وہ باتیں جن کے بارے میں دوسرے لب کشائی کی جسارت بھی نہیں کرتے۔۔۔ بلکہ بہت سوں کو ان کا فہم بھی نہیں۔ ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کے قائدین کھڑے ہیں اور یہی اس وطن میں اسلام کی حقیقی اور اصلی نمائندگی ہے۔ بہت دیر سے یہ سیاسی منظر سے غائب تھے لیکن نواز حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے ان کو بھی زبان دے رہے ہیں۔ اس طرح ایسا لگتا ہے کہ ملک انگڑائی لے کرجاگ رہاہے۔ پاکستان کا مستقبل طلوع کی کشمکش میں ہے۔ اب اس چراغ کو سود و زیاں کی آندھیاں گل نہیں کرسکتیں۔ نواز شریف ماضی کے ہیرو تھے جن کو جنرل ضیا اور جنرل جیلانی نے پی پی پی کے خلاف میدان میں اتارا تھا۔ اب مدت ہوئی وہ زمانہ لدگیا ہے۔ اب فوج کے سامنے کچھ نئے مسائل ہیں، جیسا کہ طالبان کے خلاف جنگ اور اس جنگ میں موجود حکمرانوں کی قطعی ضرورت نہیں۔ آج نہیں تو کل ان کا کھیل ختم ہونے والا ہے۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ اس ڈرامے کا ڈراپ سین کیسے ہوتا ہے کیونکہ اس میں دلچسپی کی صرف یہی بات رہ گئی ہے۔ جہاں تک ریاستی جبر کے سامنے سینہ تان کر کھڑے پاکستان عوامی تحریک کے باہمت کارکنوں کا تعلق ہے توان کے لئے جوش ملیح آبادی کا ایک ہی شعر کافی ہے۔
کچھ اور یونہی الٹے رہو آستین کو
الٹی ہے آستیں تو پلٹ دو زمین کو
3 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (محمد سعید اظہر)
ریڈ زون سے ابھرتے سیاسی منظر نامے کی بنیاد عوام ہیں۔ علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کس انجام سے دو چار ہوتے ہیں، کم از کم ان لمحوں تک یقین کی حد تک کچھ بھی کہنا ممکن نہیں جو کہا جاسکتا ہے وہ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد، ان کے عوامی ورثے کی علامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے ایک شعلہ فشاں عوامی آلاؤ کے انتہائی ابھار کے ساتھ یاد دلادی ہے۔ کم از کم بی بی شہید کے بعد علامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے عوام کے حقوق، عزت، پامالی، بے کسی، بے بسی، ذلت، غربت، کتمان انصاف اور ان کے کیڑے مکوڑے ہونے کی اوقات کے خوابیدہ کرب کو پوری شدت سے جگا دیا۔
5 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (منصور آفاق)
چالیس سال سے جس کی راتیں بارگاہ ایزدی میں رکوع و سجود کرتے گزری ہیں اور دن قدوس ذوالجلال اور پیغمبر انسانیت چارہ سازِ بیکساں کی تعریف و تصوف میں دفتر کے دفتر تحریر کرتے ہوئے گزرے ہیں وہ ڈاکٹر طاہرالقادری اس وقت گولیوں کی بوچھاڑوں میں اور آنسو گیس کے سلگتے ہوئے سمندر میں کھڑے ہوکر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہے جارہے ہیں۔ میرے نزدیک وہ صاحب عرفان ہیں۔ صاحب عرفان کون ہوتا ہے۔ چیخوف نے کہا تھا انسان دراصل کسی شے کی تلاش میں ہوتا ہے اسی تلاش میں تمام کائنات کو چھان ڈالتا ہے۔ چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک کے دھڑکتے دلوں کو ٹٹولتا ہے اور ان سے مایوس ہوکر آدم و حوا کی نبضوں پر انگلیاں رکھ دیتا ہے مگر کہیں بھی اسے اس کی تلاش کا ثمر نہیں ملتا لیکن جب وہ اپنی تلاش اپنی ذات کے اندر شروع کرتا ہے تو اس کی تلاش فیروز مندیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی ذات کو پہچان لیا ہے۔ اسی لئے تو ریڈ زون کے کربلا میں رسم شبیری ادا کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ اس صورتحال میں بھی بہت سے دھڑکتے دلوں میں ان کا وجود کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ دوستو! دل کے دھڑکنے کا کیا ہے وہ تو بھیڑیئے کے سینے میں بھی دھڑکتا ہے۔ آیئے ذرا دیکھتے ہیں کہ وہ اہل دل کون ہیں۔ ان دھڑکتے دلوں میں سے کچھ صاحبان ایسے ہیں جو ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے ماننے والوں کو بدعتی اور مشرک سمجھتے ہیں۔ کچھ فرقہ پرستوں کو اس بات کی تکلیف بھی ہے کہ ایک مخالف مکتبہ فکر کے شیخ الاسلام کو عوامی مقبولیت حاصل ہوتی چلی جارہی ہے۔ کچھ فتوی بازوں کو اس لئے بھی اچھے نہیں لگتے کہ وہ کسی مسلمان کو کافر کہنے پر تیار نہیں۔ ان کے کچھ مخالف مرتے ہوئے طالبان کے ہمدرد ہیں۔ انہیں دہشت گردی کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری کی کتابوں کے کونے سنگینوں کی نوکوں کی طرح چبھتے ہیں۔ کچھ ناقدین ایسے بھی ہیں جو مذہب کو افیون سمجھتے ہیں۔ جاگیرداروں کو اس لئے ان سے وحشت ہے کہ ان کے نظام میں پانچ ایکڑ سے زیادہ زمین کوئی نہیں رکھ سکتا۔ سرمایہ داروں کے لئے بھی ناقابل برداشت ہوچکے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں غربت سے رہائی کا شوخ علم اٹھا رکھا ہے۔ کچھ انا کے زخم خوردہ ہیں، کچھ اہل جفا ہیں، کچھ اہل ستم اور کچھ وہ غلام جنہوں نے آقاؤں کا نمک حلال کرنا ہے۔ نمک حلالوں سے مجھے کوئی گلہ نہیں۔ مگر مختلف رنگوں کی عینکیں پہننے والے دوستو! ذرا سی دیر کے لئے عینک میز پر رکھ لیجئے۔ مجھے قسم ہے کھجور کے تناور درخت کی ڈاکٹر طاہرالقادری لمحہ موجود کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی قامت آوری کسی بیساکھی کی مرہون منت نہیں۔ جن کے لباس پر نسبت کا کوئی پیوند نہیں۔ مجھے قسم ہے لوح و قلم پر لکھی ہوئی قسمتوں کی کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں اپنے بل بوتے پر کیا۔ انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے۔ سو ان کا شمار زندوں میں ہوتا ہے۔ میرے خوبصورت خوبصورت مقبروں میں رہنے والو! دیکھو اپنے چاروں طرف دیکھو بڑی بڑی زندہ شخصیات پرنگاہ ڈالو۔ تمہیںہر شخص کے لباس میں نسبت کے پیوند دکھائی دیں گے۔ آصف زرداری ذوالفقار علی بھٹو کے داماد اور بے نظیر بھٹو کے شوہر ہیں۔ نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے پروردہ ہیں۔ جماعت اسلامی کے دو چار نام مولانا مودودی کی فعالیت اور علمیت کے مجاور ہیں۔ مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کے فرزند ارجمند ہیں۔ اسفند ولی خان، ولی خان کے بیٹے اور غفار خان کے پوتے ہیں۔ میں ان میں سے کسی کے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کا موازنہ کر ہی نہیں سکتا۔
بحیثیت ایک عالم دین بھی اس وقت دنیا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے قدوقامت کی کوئی ایک شخصیت موجود نہیں۔ برصغیر میں ایک مولانا ابوالکلام آزاد بے مثال انشا پرداز ہونے کے ساتھ جادو بیاں خطیب بھی تھے اور دوسرے ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں۔ اور کون ہے ایسا جس نے ایک ہزار سے زائد زندہ جاوید کتابیں تصنیف کی ہوں۔ جس کی گفتگو روح کے تاروں پر مضراب کا کام کرتی ہو۔
کل کوئی کہہ رہا تھا میڈیا ڈاکٹر طاہرالقادری کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے ان کا تو کسی اسمبلی میں ایک بھی نمائندہ موجود نہیں اور ماضی میں بھی ان کے علاوہ ان کی جماعت کا کوئی امیدوار کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ ان کے ساتھ صرف ان کے مریدین ہیں۔ اس شخص سے میری اتنی سی عرض ہے کہ کچھ دیر کے لئے تعصب کی عینک اتار لیجئے اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے اردگرد دیکھئے۔ وہاں آپ کو سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت، سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی سابق وفاقی وزیر شیخ رشید، سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی حتی کہ عمران خان بھی دکھائی دیں گے۔ کتنے اور ایم این اے چاہئیں آپ کو۔
مجھے پورا یقین ہے کہ آئندہ انتخابات میں ڈاکٹر طاہرالقادری ایک بہت بڑی عوامی طاقت بن کر ابھریں گے۔ اللہ نے چاہا تو موجودہ احتجاجی مہم سے وہ لوگ انتخابات سے باہر ہوجائیں گے جو دھن، دھونس اور دھاندلی سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ان شاء اللہ پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے لوگوں کو انتخابات میں آگے آنے کا موقع ملے گا۔ ان لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا جن کی جنگ اس وقت ڈاکٹر طاہرالقادری لڑ رہے ہیں اور وہ تمام غریب لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہوں گے جن کے حق میں 1970ء کے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی اور نے آواز نہیں اٹھائی۔ پھر جو انتخابی اتحاد کا منظر نامہ اس وقت نظر آرہا ہے اس میں تحریک انصاف، ق لیگ، پاکستان عوامی تحریک ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہی ہیں۔ ان کے ساتھ آٹھ دس اور چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی شامل ہوں گی۔ مجھے یقین ہے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی مل کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے بے تحاشا لوگ تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں اور پاکستان عوامی تحریک میں بھی شامل ہورہے ہیں۔ نون لیگ کے وہ ایم این اے جو ق لیگ سے آئے تھے وہ واپس اپنی پارٹی میں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ بس نواز شریف کے استعفیٰ کا انتظار ہے۔
6 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
قارئین! محمود اچکزئی،مولانا فضل الرحمن، آفتاب شیرپاؤ، خورشید شاہ کے موجودہ حکومت سے جو مفادات ہیں ان کو لگنے والی ضرب ضربِ عضب سے شدید تر ہے جبکہ میر حاصل بزنجو جو ساری عمر حصول مفادات میں ناکامی کے بعد اور اساس پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر جنگ کرتے رہے ہیں، آج انکے دل میں جمہوریت کا ٹھاٹھے مارتا سمندر موجزن ہیں جبکہ محمود اچکزئی کے افغانستان کے انٹیلی جنس محکمے کے نائب سربراہ رزاق سے تعلقات زبان زدِ عام پر ہیں۔ پاکستان کو ماضی میں کسی نہ کسی طریقے سے زک پہنچانے اور سازشیں کرنیوالے عناصر کا یکدم ضمیر جاگ اٹھا ہے اور وہ پاکستان اور جمہوریت کی محبت میں ہلکان ہو رہے ہیں۔ محترم قارئین آیئے آج اس مسئلے پہ تھوڑی سی قلم کشائی کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کا ضمیر ہمیشہ مفادات کا ریلہ گزر جانے کے بعد ہی کیوں جاگتا ہے؟ گذشتہ چند ہفتوں سے ملکی معاملات کسی بدمست ہاتھی کی طرح قابو سے باہر ہو رہے ہیں تو قومی اسمبلی جو مفاد پرستوں کا ایلیٹ کلب بن چکی ہے اور صرف پچھلے دو ہفتوں میں ضمیر جگانے والی فیکٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے جب میں ایسے ایسے چہروں کو جمہوریت، انصاف اور پاکستان کیلئے بے قرار دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی آنکھوں کی بصیرت اور کانوں میں پڑی سماعت پر یقین نہیں آتا کہ مخدوموں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مفاد پرستوں، نوابوں، قریشیوں، دولتانے، ٹوانے، لغاری، مزاری، خواجے، اور دیگر کے ضمیر یکدم جاگ اٹھے ہیں۔ سیاستدانوں کی اس کلب میں 1947ء سے اقتدار پر قابض لوگوں کے پوتے پوتیاں، سمدھیوں، برادرانِ نسبتی کی صورت میں وہی لوگ آج بھی موجود ہیں اور ان کا ضمیر منجمد ہو چکا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ ہمارے وزیروں، مشیروں اور اقتدار زدہ طبقے نے بھنگ پی کر ضمیروں کو خلش سے مجبور ہو کر سلاد یا ہے۔ آج چند سو مفاد پرست پاکستان کے وسائل پر قابض ہیں جنہوں نے ریاستی جبر کرکے عوامی سبز انقلاب کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے مگر اب 20کروڑ عوام کے ضمیر جاگ چکے ہیں اور منزل ہم سے کچھ ہی دوری پر ہے کیا کوئی آج سے 20سال قبل یہ سوچ سکتا تھا کہ اتنے لوگ شدید موسمی بارشوں میں بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر انقلاب کیلئے موجود ہوں گے۔ قدرتی آفات اور ریاستی جبر بھی ان متوالوں کے عزم کو ڈگمگا نہ سکا اور یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی نہیں عوام اور انقلاب کی جیت ہے۔
6 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (قیوم نظامی)
اسلام آباد میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے۔ یہ خواص کی پارلیمنٹ ہے عام آدمی اس پارلیمنٹ کا رکن بننے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس پارلیمنٹ کے ارکان کو منتخب کرنیوالے رائے دہندگان (جمہور) کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں پر عوامی پارلیمنٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ دھرنے میں شریک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد ہی ووٹ دیکر پارلیمنٹ کو آباد کرتے ہیں۔ جمہورگزشتہ بیس روز سے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں۔ بارش، گرمی، بھوک، پیاس کے مارے بچے، عورتیں، بزرگ اور جوان ضرور سوچتے ہونگے کہ انکے منتخب نمائندے جو پارلیمنٹ کے اندر آئین اور جمہوریت کی پاسداری کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کس قدر سنگ دل اور بے وفا ہیں کہ اپنے ووٹروں کے پاس آکر ان سے ہمدردی کا اظہار کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔ جمہوریت کے دعویداروں کا رویہ اور طرز عمل انتہائی افسوسناک ہے۔ غریب کارکنوں کو ’’دہشت گرد‘‘ ’’گھس بیٹھے‘‘ اور ’’باغی‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یہ وہی کارکن ہیں جو نومبر 2013ء میں بھی سخت سردی میں پانچ روز تک ریڈزون پر مقیم رہے تھے اور ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا تھا کیونکہ زرداری حکومت نے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی طاقت استعمال نہیں کی تھی جبکہ نواز حکومت نے ریاستی تشدد کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے ہیں۔ دنیا کا قانون ہے کہ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے۔ حکومت اگر عورتوں، بچوں اور جوانوں پر زہریلی گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کا بے دریغ استعمال نہ کرتی تو کارکن بھی مشتعل نہ ہوتے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ کسی جمہوری چہرے کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ریاستی تشدد کی مذمت کرتا۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں پر اعتراض کرنیوالے خود بھی ماضی میں دھرنے اور لانگ مارچ کرتے رہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی وزیراعظم کا ساتھ دیتے وقت توازن ہی کھو بیٹھے ہیں۔ ان کا جوش قابل فہم ہے ان کا ایک بھائی صوبہ بلوچستان کا گورنر اور کئی قریبی عزیز رکن اسمبلی ہیں۔ حکومت کا دفاع ان کی مجبوری ہے۔ وہ سینئر پارلیمنٹیرین ہیں، کاش وہ آئین کی عملداری کے بارے میں طاہرالقادری کے سوالات کے جوابات دیتے۔ پارلیمنٹ کے کسی ایک رکن نے یہ نہیں بتایا کہ آئین کے چالیس آرٹیکلز پر عمل نہ کرنے کا کیا جواز ہے۔ عوام کو مقامی حکومتوں سے کیوں محروم رکھا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں بلا جواز اور بے دریغ اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے آٹھ کروڑ شہری روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہیں۔ پارلیمنٹ میں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ کیوں نظر نہیں آتے۔ جعلی مینڈیٹ والی حکومت کا دفاع کیوں کیا جائے جبکہ اس کی کارکردگی کسی حوالے سے تسلی بخش نہ ہو۔
پارلیمنٹ کے اراکین تنازعہ کا حل پیش نہیں کر رہے اور نہ ہی انہوں نے جمہوری نظام کو شراکتی بنانے کیلئے تجاویز پیش کی ہیں۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے اشرافیہ کی جمہوریت کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔
6 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
اگر یہ کوئی سازش تھی اور یہ اس کا نتیجہ ہے تو سازش کرنے والوں کو کسی تربیتی کیمپ میں شمولیت اختیارکرکے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے سے ہم نے کیا حاصل کیا؟ رہنماؤں کے چہرے حسب سابق سرخ اور گو کہ ان کے اعتماد کو کچھ دھچکا ضرور لگا ہے لیکن وہ اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اگر اس تمام بکھیڑ کا مقصد انہیں کچھ دھچکا ہی پہنچانا تھا تو اس سے اجتناب ہی کیا جانا بہتر ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مرتبہ تو حکمرانوں کی نیند حرام ہوگئی تھی۔ گذشتہ تین ہفتے بہت ہنگامہ خیز تھے لیکن انجام کیا ہوا؟ کیا ملک کے حکمران طبقے نے جو ہمارے ناقابل معافی گناہوں کی پاداش میں ہم پر مسلط ہے، نے اس جھٹکے سے کوئی سبق سیکھا ہوگا؟ وزراء کے بیانات کو دیکھیں تو نہیں لگتا کہ یہ کچھ سیکھنے کے لئے بنے ہیں۔
طاہرالقادری کے بارے میں ادا کئے جانے والے تمام توہین آمیز بیانات کا سلسلہ تھم چکا۔ آپ انہیں جتنا بھی ناپسند کریں یا ان کے خیالات سے اختلاف کریں لیکن ایک بات طے ہے کہ آپ انہیں نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے ہزاروں جانثار پیروکار ان کی ایک آواز پر موسم کی سختی اور دیگر مصائب کو ہنس کر برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے نام نہاد دانشوریہ بات پسند نہیں کریں گے کہ علامہ صاحب اب پنجاب کی سیاست میں ایک قد آور شخصیت بن کر ابھریں گے۔ لیکن اگر وہ اپنے دیوان خانوں سے باہر نکل کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ پنجاب میں اصل اسٹریٹ پاور کس کے پاس ہے؟ تاہم اس بات کا دارومدار اس پر ہے کہ اب قادری صاحب اپنے پتے کیسے کھیلتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان میں ہی رہتے ہیں اور موجودہ اسلامی کولیشن ان کے ساتھ رہتا ہے تو وہ ایک اہم سیاسی کھلاڑی بن کر ابھریں گے، بشرطیکہ وہ ایک مرتبہ پھر کسی نہ کسی بہانے سے کینیڈا نہ چلے گئے۔ اس تمام پس منظر میں ایک اور سیاسی حقیقت ابھر کر سامنے آرہی ہے کہ پی ایم ایل (ن) یا پی پی پی کی نئی نسل کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ماضی کی علامت ہیں، اس لئے مستقبل کے سیاسی خدوخال میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ اگر موجودہ سیاسی اتحاد، جس میں طاہرالقادری، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین شامل ہیں، قائم رہا تو یہ ایک اہم سیاسی قوت ثابت ہوگا۔
7 ستمبر 2014، روزنامہ جناح (راجہ طاہر محمود)
بات کی جائے اگر اس موجودہ صورت حال کی تو ان دھرنوں کی وجہ سے اس جمہوریت کی قلعی کھل گئی ہے، ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ 65برس سے ہم جس جمہوریت کی رٹ لگارہے ہیں وہ جمہوریت نہیں بلکہ ذاتی فائدے کا دوسرا نام ہے۔ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی الزامات اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہیں کہ ہمیشہ اس ملک میں مینڈیٹ چرایا گیا ہمیشہ اس ملک میں ووٹ کی طاقت کو جعلی ووٹ سے داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ اس موضوع پر تقریبا تمام سیاسی جماعتیں بات کررہی ہیں اگر ان تمام باتوں کا سدباب ہوگیا تو یقین جانئے ہم حقیقی جمہوریت سے فائدہ اٹھاسکیں گے امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ انصاف کی فراہمی امیر اور غریب کے لئے برابر ہوگی۔ لوگوں کے مسائل جمہوری نظام کی مضبوطی کے توسط سے حل ہوسکیں گے۔ ملک حقیقی جمہوریت کے توسط سے ترقی کی منازل طے کرے گا لیکن؟ اگر اب کی بارہم نے جمہوریت کی وہ تشریح نہ کی جو ہونی چاہئے تو یقین جانئے کہ ہم کبھی جمہوریت کے اصلی مفہوم کو نہیں سمجھ سکیں گے اور ہمیشہ وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی غلامی کرتے رہیں گے۔
دنیا کے وہ ممالک جہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں، وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک لوہار کا بیٹا، ایک موچی کا بیٹا اور یہاں تک کے چائے فروخت کرنے والے کا بیٹا بھی ملک کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچ جاتا ہے مگر یہاں ہمارے ہاں اسمبلی میں پہنچنے کے لئے کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں اور ایک غریب جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہوتا ہے، وہ کہاں سے لائے گا اتنے روپے اس لئے یہاں جمہوریت بس نام کی جمہوریت ہے اور جس طرح کی جمہوریت پی ٹی آئی، پی اے ٹی اور دیگر جماعتیں لانے کے دعوے کررہی ہیں اگر ان میں حقیقت کا رنگ بھرگیا تو یقین جانئے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔
7 ستمبر 2014، روزنامہ جناح (افشاں قریشی)
بھادو میں جاری رم جھم سے حبس اور گرمی کا زور ٹوٹ گیا۔ اسلام آباد کا موسم دلفریب نظاروں کے ساتھ کافی حد تک خوشگوار ہوچکا ہے، مارگلہ کی پہاڑیوں پر رقص کرتے بادل کے ٹکڑے دیکھنے والے پر عجیب سا سحر طاری کررہے ہیں، ایسے میں کانوں میں رس گھولتی کوئل کی کوکو کی آواز سن کر یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ خدا حسین ہے اور حسن کو پسندکرتا ہے، اسی لئے تو اس کی رحمت کے ساتھ ساتھ قدرتی حسن بھی اپنے جوبن پر ہے لیکن دوسری جانب سیاسی موسم کی حدت و شدت بھی عروج پر ہے۔ محکمہ موسمیات کی طرح اگر سیاسی موسم کو بھی جانچنے کا کوئی آلہ ہوتا تو یقینا اس وقت درجہ حرارت پچاس ڈگری سے اوپر ہی ہوتا، اس کا اندازہ اے سی کی سہولت سے آراستہ اسمبلی میں بیٹھے مختلف جماعتوں کے اراکین کی حالت زار سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن کے چہروں کی اڑی رنگت، شکن زدہ ماتھوں پر پسینے کی بوندوں کی چمک اور آنکھوں میں خوف اور مکاری کی سرخی ان کے دل کا حال عیاں کررہی ہے، اگر کسی کو ان کے ماتھے کی شکنوں اور رنگ بدلتے چہروں سے ان کی دلی کیفیت کا اندازہ نہیں بھی ہوتا تو کم از کم مائیک میں ان کی چیختی آوازوں اور لفظوں کے چناؤ سے یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہوگا کہ دھرنوں کی حدت نے انہیں کس حد تک جھلسادیا ہے۔
کیا چھوٹی، کیا بڑی کسی بھی جماعت نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں نہ ہی کبھی بڑی جماعتوں پر اس حوالے سے کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالا، سب اپنے اپنے مفادات کی زنجیروں میں جکڑے رہے اور عوام بے چارے مسائل درمسائل کا شکار ہوتے چلے گئے لیکن اس حوالے سے مظلوم طبقے کا اپنا بھی قصور ہے کہ جو بنا سوچے سمجھے کبھی پھوپھا، ماموں، خالو اور کبھی گاؤں کے چوہدری یا خان کے دباؤ پر ووٹ کا غلط استعمال کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری اسمبلیوں میں وہ لوگ براجمان ہوتے چلے گئے کہ جن کو غریب عوام سے تو خیر کوئی سروکار نہ تھا البتہ انہوں نے اپنی خاندانی سیاست کو خوب پروان چڑھایا، عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل کر صرف اپنی تجوریاں بھریں اور اب کیا خوب دلچسپ صورتحال ہے کہ 14 اگست سے شروع ہونے والے آزادی مارچ، انقلاب مارچ اور اب دھرنوں کی بدولت تمام چھوٹی بڑی جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے ایک ہوگئیں۔ جمہوریت سے مراد تو عوام کی حکومت ہوتی ہے جس میں تمام فیصلے عوام کی مرضی و منشا کے مطابق طے پاتے ہیں، جمہوریت میں ملک ہی نہیں عوام بھی خوشحال ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ کیسی جمہوریت رائج رہی کہ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہوتا چلا گیا۔
ان دھرنوں کے چلنے والی تیز ہوا سے گرد میں چھپی وہ کتاب ضرور سامنے آگئی جسے آئین پاکستان کہتے ہیں۔ وہ کتاب جسے جاگیردارانہ نظام کے غلاف میں لپیٹ کر بوسیدہ الماری میں بند کردیا گیا تھا، میں نہیں جانتی دھرنوں کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا لیکن میرے سمیت کروڑوں لوگ یہ ضرور جان چکے ہیں کہ اسمبلیوں میں موجود جاگیردار طبقہ جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑے اپنے اپنے مفاد کے لئے اکٹھا ہوگیا۔ یہی طبقہ اگر عوام کے اصل مسائل حل کرنے کے لئے باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرتا تو شاید آج نہ کوئی ماں اپنے بچوں کو فروخت کرتی نظر آتی نہ کوئی غربت سے تنگ آکر زندگی کو بوجھ تصور کرنے لگتا۔ دھرنے کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم بھی ہوجائیں تو بھی ایک فائدہ تو ہوا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کے اصل چہرے توسامنے آگئے۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے کم از کم عوام کو یہ تو شعور دے دیا کہ آئین کیا ہوتا ہے اور اصل جمہوریت کس چیز کا نام ہے۔
7 ستمبر 2014، روزنامہ جناح (محمود شام)
ہم نے ہفتے کو تاریخ بنتے ہوئے دیکھی۔ ایوب خان کے خلاف شروع ہونے والی تحریکوں سے لے کر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی تک کی وکلاء تحریک کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ پاکستان بھر کے نادار، مظلوم، مجبور اپنے عظیم وطن کی تقدیر بدلنے آئے ہوئے ہیں۔ کئی دنوں سے میں کنٹینروں کے اس پار کا شہر دیکھ رہا ہوں۔ اب میں کنٹینر کے دوسری طرف آیا ہوں جہاں ایک نئی دنیا بسی ہوئی ہے، شہروں، دیہات اور قصبوں سے، پنجاب، سندھ، کراچی، خیبر پختونخوا، بلوچستان سے غریب، مفلس، بے کس اقتدار کی غلام گردشوں اور پرشکوہ محلات کے سامنے خیمہ زن ہیں۔
ان شاہراہوں پر ہم 1971ء سے آجارہے ہیں لیکن یہاں صرف، حکمرانوں، جاگیرداروں،سرداروں، سفارت کاروں اور ججوں کو گزرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن جن پاکستانیوں کی خون پسینے کی کمائی سے جن کے ٹیکسوں سے یہ عالی شان عمارتیں بنی ہیں، انہیں پہلی بار یہاں بڑے اعتماد سے کپڑے دھوتے، نہاتے، شلواریں سکھاتے پا رہا ہوں، خلق خدا کا راج شروع ہوگیا ہے۔ مارگلہ روڈ سے پاکستان سیکرٹریٹ کی طرف آئے ہیں۔ ہمارے دائیں راستہ ڈی چوک کو جاتا ہے بائیں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس تک کیبنٹ بلاک کے عین سامنے دھرنے کا پہلا حصہ ہے۔ جنریٹروں کی آواز گونج رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے پرچم لہرا رہے ہیں۔ یہاں بچپن بھی گزر رہا ہے، لڑکپن بھی اور بزرگی بھی، ایک طرف ہماری معزز ماؤں، بہنوں اور بیٹوں کے خیمے ہیں کہیں اخبار پڑھے جا رہے ہیں کہیں کتابیں۔ سہ پہر سے ذرا پہلے۔ ابھی تقریروں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ہے۔ سب تیاریاں کررہے ہیں۔ کراچی کے شفقت اور زاہل مل گئے۔ ڈاکٹر افتخار بخاری بھی نظر آرہے ہیں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک خیمے میں انقلاب مارچ سکول کراچی کا اہتمام ہورہا ہے۔ گنتی، اے بی سی، مستطیل، مربع اور مثلث کے چارٹ آویزاں کئے جارہے ہیں، چٹائیاں بچھائی جارہی ہیں، بچے آرہے ہیں، ہاتھوں میں غبارے، کھلونے اور کتابیں، بچوں کا وقت ضائع نہ ہو اس لئے کیمپوں میں سکول کھل رہے ہیں۔
کہیں چھوٹے خیمے ہیں کہیں بڑے ٹینٹ ہیں، موسلا دھار بارشوں سے زمین پر ابھی کیچڑ ہے۔ اگرچہ دھوپ سے کچھ راحت ملی ہے۔ آئس کریم والے بھی گھوم رہے ہیں، نمکو بک رہی ہے، ایک قطار میں خواتین کھڑی ہیں۔ دوپہر کا کھانا تقسیم ہورہا ہے۔ دوسری طرف مردوں کی قطار ہے یہاں بھی بڑے نظم سے کھانا بٹ رہا ہے یہ غریب نادار پاکستانی ایڈمنسٹریشن سیکھ رہے ہیں۔ انتظامیہ کا تجربہ ہورہا ہے۔
ان دھرنا بستیوں کی اپنی چیک پوسٹیں ہیں۔ جہاں عوامی تحریک کے کارکن ہی گاڑیاں روکتے ہیں، چیک کرتے ہیں اور آگے جانے دیتے ہیں۔۔ ایک حصہ پارکنگ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ پولیس کا نام ونشاں تک نہیں ہے۔ کنٹینروں کی دوسری طرف پنجاب اور آزاد کشمیر کی پولیس ہزاروں کی تعداد میں۔ موبائل فونوں چارجنگ کے مراکز بھی ہیں، ڈش انٹینا بھی ہیں، ٹیلی ویژن سیٹ لگے ہیں سب لمحہ با لمحہ دنیا کے اعداد امور سے باخبر ہو رہے ہیں۔
مرد ہوں یا خواتین، بزرگ ہو یا نوجوان، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، بچے ہوں یا بچیاں 30 دن سے گھر چھوڑ کر آئے ہوئے ہیں انتہائی مشکل حالات میں دن رات بسر کررہے ہیں لیکن ان کے چہروں پر تھکن نہیں ہے۔ آنکھوں میں بیزاری نہیں ہے، پیشانی چمک رہی ہے۔ ایک جذبہ ہے، ایک عزم ہے۔
یہ وہ کنٹینر ہے جہاں سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری عالمانہ خطاب بہت ہی عوامی اور پرجوش انداز میں کرتے ہیں، ان کے پیرو کار کارکن اور عام شہری بہت ہی غور سے خلوص سے سننے کو ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔ کراچی میں خواجہ اشرف سے بات ہوئی تھی۔ ان کے توسط سے ڈاکٹر رحیق عباسی، قاضی فیض الاسلام سے رابطہ ہوا۔ اب ہم یہ نئی تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ دھرنا نہیں تاریخ کے اوراق ہیں، جدوجہد کا یہ نیا طریق کار مزاحمت کی یہ نئی صورت، پاکستانی سیاست کے انداز بدل دے گی، عوام محلات تک پہنچ گئے ہیں۔ انہیں بادشاہوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنا آگیا ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے مجبوروں کو زبان دی تھی۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے انہیں اقتدار کے ایوانوں کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا ہے۔ بات آگے بڑھی ہے جمہور کے قافلے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کا دو دن ناغہ ہے۔ دھرنوں کا ناغہ نہیں ہے۔ جدوجہد میں ناغہ نہیں ہوتا۔ اس مختصر سے کنٹینر میں اتنے دن رات گزارنا کسی مقصد کے بغیر تو نہیں ہوسکتا۔ کسی کے اشارے پر بھی کون یہ مشقت برداشت کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے فلسفے، حکمت اور تصورات سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق لیکن وہ پاکستان کے ایک بہت بڑے حلقے کے تاثرات ہیں کہ نظام میں تبدیلیاں لاکر میرٹ کی حکمرانی قائم کی جائے، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔
ان کی مرصع مسجع اردو، لہجے کا اتار چڑھاؤ۔ استدلال میں روانی، پاکستانی سن رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں۔ قائد اور انکے کارکنوں کو مل کر دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ عزائم پختہ ہیں۔ ارادوں میں استقامت ہے۔ کل جب واقعی صبح آزادی طلوع ہوجائے گی الیکشن کمیشن طاقت ور اور بااختیار ہوگا۔ عوام کا درد رکھنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کی جگہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوں گے۔ پاکستان قائداعظم کا پاکستان بن رہا ہوگا لاکھوں اکابرین کی قربانیاں رنگ لارہی ہوں گی۔ سیاستدانوں اور فوجیوں کے درمیان مثالی تعلقات ہوں گے۔ سب صرف ملک کا مفاد سامنے رکھیں گے۔ اس جنت میں رہنے والی نسلیں یاد کریں گی کہ اس فصل گل کے بیج دھرنے والوں نے بوئے تھے۔ کتنا فخر ہوگا۔ اس وقت ان دھرنے والوں کی بیٹیوں، بیٹوں، پوتوں، پوتوں، نواسوں اور نواسیوں کو اپنے بزرگوں پر۔ وہ کس طرح وقار سے سربلند کرسکیں گے، انگریز کے ٹوڈی جس طرح پاکستان کے قیام کے بعد شرمندہ ہوئے تھے اس طرح آج جو لوگ کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جمہوریت اور آئین کے نام پر وہ انگریز کے ٹوڈیوں کی طرح شرمندہ ہوں گے۔
7 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (موسیٰ رضا آفندی)
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے شرکاء جو بفضل تعالیٰ سینٹ اور قومی اسمبلی کے معزز ارکان ہیں سیدھے راستے سے پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہوپارہے ہیں ا ن حالات میں وہ چور دروازوں سے اور گلی گلی گھوم پھر کر اپنی نشستوں پر براجمان ہوکر یکجائی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود دھواں دھار تقریریں کرنے کے شوق میں پتہ نہیں چل رہا کونسی جمہوریت کو بچانے کے لئے سرگرم ہیں یوں لگتا ہے جیسے ساس بہو اور دیورانیوں کی طرح طعنہ زنی کا طوفان برپا کرکے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی قسمیں کھارہے ہیں جنہیں دیکھ کر گھروں کے اندر بیٹھی خواتین تقاریر کا یہ انداز دیکھ کر جمہوریت کے مستقبل پر سوائے پہلے ہنسنے اور پھر رونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتیں۔
یہ کیسا اظہار اتحاد و یگانگت ہے جس کا ہر مقرر حکومت کے ساتھ رہنے کا عندیہ دے کر ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ وہ بھی 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی تصدیق کرتا ہے حکومت کے وزراء کی نااہلی تکبر اور رعونت کا گلہ کرتا ہے اور ملک کو اس صورتحال سے دوچار کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا ہے۔ پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس برائے نام جمہوریت کے کچے دھاگے سے بھی کمزور کسی چیز سے جڑے ہونے کی بے ثباتی کا برملا اظہار تھا۔ پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس نے اقتدار پر براجمان نمائندوں کی ملک کے عوام کے ساتھ لگاؤ کی قلعی اس بات نے کھول کے رکھ دی کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی چودہ انسانی جانوں سے سروکار نہ تھا اس کے برعکس سسٹم بچانے کے نام پر بار بار اعلان کرتے رہے کہ استعفیٰ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سارے عمل سے ہر وہ شخص جو اپنے تئیں کسی نہ کسی حوالے سے مقتدر ہونے کا زعم رکھتا ہے اس کی بے بسی کا اظہار ہوتا ہے اس کے باوجود یہ سب معزز اراکین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایوان کے اندر معزز اراکین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایوان کے اندر معززین کا اجتماع ہے اور پارلیمان کے باہر دھرنا دینے والے کوڑا کرکٹ کا ڈھیر، اندر بیٹھنے والے آئین کے پاسداران اور باہر والے دہشت گرد اور گھس بیٹھئے۔
ان باہر والوں نے دنیا بھر میں پاکستان کی ایک ایسی دلکش تصویر دکھائی جسے مہذب دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئی مذہب اسلام کی خوبصورت پرامن اور پاکیزہ ضوابط کی پابندی کا نمونہ پیش کیا۔ آہستہ آہستہ واضح ہورہا ہے کہ کون سی جمہوریت کو بچایا جارہا ہے کس نظام کو بچایا جارہا ہے کون لوگ کن لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں کس کا مفاد کس کے ساتھ وابستہ ہے، یہ سب کچھ پاکستان کے لوگوں کو اچھی طرح جاننے کا موقع مل رہا ہے یہ موقع انہیں تاریخ نے فراہم کیا ہے پاکستان کی تاریخ نے فراہم کیا ہے تاکہ وہ ہر کردار کو پہچان لیں، یہ پہچان انہیں فیصلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت عطا کرے گی پاکستان کے لوگ اپنی اس صلاحیت کو بخیر وخوبی مستقبل میں آزمائیں گے۔ میڈیا نے سارے کرداروں کو ان کی اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ اتنے واضح طریقے سے بے نقاب کیا کہ وہ اچھی طرح پہچان لئے گئے جو کردار اپنی ایک خاص انداز سے کرانا چاہتے تھے حالات اور واقعات نے ان کی پہچان ان کی خواہشات کے برعکس کرادی اور اس طرح سب کرداروں پر اپنی اپنی بے بسی واضح ہوگئی کیونکہ وہ جس مقاصد کے حصول اور جس قسم کی توجہ کے مستحق ہونے کے آرزو مند تھے وہ انہیں حاصل نہ ہوسکی اور بعض صورتوں میں جو کچھ بھی ہوا انکی آرزوؤں اور خواہشات کے بالکل برعکس ہوا جس سے سب کی بے بسی عیاں ہوگئی۔
دھرنے والوں کی بے بسی کا اپنا انداز ہے ان کی بے بسی ان کی امیدوں کے کبھی بکھر جانے اور کبھی مجتمع ہونے سے عیاں ہوتی رہی ہے انہیں کبھی منزل بالکل سامنے اور کبھی دور ہوتے ہوئے نظر آتی ہے اب تو انہیں اپنی منزل اس حد تک دور لگنے لگی ہے کہ انہوں نے خیمہ بستی قائم کرنے جھولے اور گیند بلے خریدنے چولہے اور کھانے پینے کے سامان کی مخیر حضرات سے فراہمی کی درخواست کردی ہے، آزادی اور انقلاب مارچ کے رہبروں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اکیلے بھی رہ گئے تو اپنی جگہ کھڑے رہیں گے۔ دونوں طرف پھیلتی ہوئی بے بسیاں نظر آرہی ہیں لیکن ان دونوں قسم کی بے بسیوں میں ایک واضح فرق ہے ایک طرف اقتدار کی بے بسی ہے جو تمام تر اختیارات کے باوجود حالات کے جبر کی کسی بھی صورت کو موڑ دینے سے مکمل طور پر عاری ہے۔ دوسری طرف ان کی بے بسی ہے جن کی امیدیں بھی بر نہیں آئیں، یہ بے بسی پارلیمانی طاقت و جبروت کے جمود کی بے بسی سے بالکل جدا ہے کیونکہ یہ حرکت اور حرارت کی بے بسی ہے جو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے چاروں طرف ٹکرا رہی ہے مسلسل سرگرداں ہے اور اس کے راستے کی رکاوٹیں دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہیں۔
اس کمزوری کا اظہار انقلابی دھرنے کی ایک درخواست کہ انہیں خیمے چاہئیں، چھتریاں چاہئیں جھولے چاہئیں کتابیں اور کاپیاں چاہئیں چولہے چاہئیں اور اگلے ہی دن یہ سب چیزیں اتنی تعداد میں اسلام آباد کے باسی مہیا کردیتے ہیں کہ کھڑے کھڑے ایک خیمہ بستی وجود میں آجاتی ہے۔ بارش میں خطاب سننے کے لئے چھتریوں کی انگنت تعداد سروں کے اوپر نظر آنے لگتی ہے، بچوں کی کلاسیں شروع ہوجاتی ہیں اور دھرنا دنوں میں نہیں گھنٹوں میں ایک باقاعدہ بستی میں بدل جاتا ہے۔ یہ بے بسی طاقت میں بدل جاتی ہے۔ بے بسوں کی طاقت یہ بے بسی جمہور کی اصلی طاقت اور قوت کا دھیرے دھیرے روپ دھار رہی ہے یہی بے بسی کی طاقت پاکستان کے عظیم مستقبل کی ضامن بن رہی ہے بے بسی کا طاقت میں بدلنے کا معجزہ پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں۔
7 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (اصغر عبداللہ)
شام ڈھل رہی تھی، جب میں ایک دوست کے ہمراہ شاہراہ دستور پر پہنچا۔ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شرکاء کو یہ تو معلوم تھا کہ آج آگے بڑھنا ہے، لیکن کس طرف کو آگے بڑھنا ہے، یہ معلوم نہ تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب شروع ہوا تو ان کے تیوروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ تہیہ طوفان کئے ہوئے ہیں اور پھر جیسے ہی انہوں نے اعلان کیا کہ آج یہ دھرنا پرامن طور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے مقابل سے وزیراعظم ہاؤس کے مقابل منتقل کردیا جائے گا تو انقلاب مارچ کے شرکاء کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا سے نکل کر قریب ہی عمران خان کے دھرنا میں آیا تو آزادی مارچ کے شرکا بھی پیش قدمی کے لئے تیار تھے۔ جس لمحہ عمران خان نے اعلان کیا کہ آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے یوں لگا جیسے وہاں موجود سب لوگ یہی چاہتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انقلاب مارچ کے شرکاء کے برعکس آزادی مارچ کے شرکاء کو پیش آمدہ خطرے کا مطلق احساس نہ تھا۔ دونوں دھرنوں میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ہراساں نہ تھے۔ میں نے دو افراد سے جو خاندان سمیت دھرنوں میں شریک تھے، اس کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے قائدین اس خطرناک صورت حال میں کئی دن سے ان کے درمیان موجود ہیں تو وہ بھی ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اخباری زندگی میں جماعت اسلامی سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات دیکھے لیکن جو جذبہ، جو ولولہ اور جو کمٹمنٹ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں دیکھی، کہیں اور نہیں دیکھی۔ ان کارکنوں کو اپنے گھر بار چھوڑے دو ہفتے گزرچکے تھے، اس کے باوجود ان کے چہروں پر کوئی ملال نہیں تھا۔ ایک ہی نعرہ ان کی زبان پر تھا کہ جب تک ان کے گھر سے نکلنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا وہ واپس نہیں جائیں گے۔ معلوم ہوا کہ حکومت کو یقین ہے کہ عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمراہ وزیر اعظم ہاؤس کی طرف پیشقدمی نہیں کریں گے۔ سو آج رات وہ دونوں دھرنوں سے الگ الگ نمٹ لے گی۔ لیکن حکومت کی یہ منصوبہ بندی اس وقت دھری کی دھری رہ گئی جب انقلاب مارچ کے بعد آزادی مارچ نے بھی وزیراعظم ہاؤس کی طرف پرامن طور پر بڑھنے کا اعلان کردیا۔ عمران خان کا قافلہ، ڈاکٹر طاہرالقادری کے قافلہ کے پیچھے روانہ ہوا، تو اول اول یوں معلوم ہوا جیسے پولیس نے دونوں مارچوں کو راستہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
عمران خان نے اپنے کنٹینر سے کہہ بھی دیا کہ پولیس پیچھے ہٹ گئی ہے۔ لیکن ابھی فضا میں اس اعلان کی گونج باقی تھی کہ اگلی سمت سے شور بلند ہوا اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کی فائرنگ نے قیامت کا سماں برپا کردیا۔ ستم یہ تھا کہ جب آگے سے پولیس نے مظاہرین پر حملہ کیا تو وہ پولیس جس نے پہلے راستہ چھوڑ دیا تھا اور پیچھے ہٹ گئی تھی وہ بھی اطراف سے مظاہرین پر ٹوٹ پڑی۔ یہ بڑے ہی دلدوز مناظر تھے۔ عورتیں اور بچے چیخ رہے تھے۔ کئی عورتیں اپنے بچوں کو پکارتی، ڈھونڈتی ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں۔ آنسو گیس کی شیلنگ اتنی زیادہ تھی اور اس کے دھوئیں میں کیمیکل اتنا تیز تھا کہ سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔ میں نے گیلا رومال آنکھوں پر پھیرا لیکن جلن بڑھتی ہی جارہی تھی۔ شاہراہ دستور اب کسی میدان جنگ کا نقشہ پیش کررہی تھی۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے کارکن، ان کے کنٹینروں کے گر دپروانوں کی طرح اکٹھے ہوگئے تھے۔ اندیشہ محسوس ہورہا تھا کہ اگر اس جذباتی فضا میں عمران خان اور طاہرالقادری کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو بہت خون خرابہ ہوگا۔ آنسو گیس کی شیلنگ میں ایک بار پھر شدت آگئی تھی۔ کچھ ہی دیر میں سٹریٹ لائٹس بھی بند ہوگئیں تو شاہراہ دستور کی اس رات کی ہولناکی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ نڈھال ہوکر میں اور میرا دوست سڑک سے اتر کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ شاعر انقلاب فیض احمد فیض کے نظم ’’ملاقات‘‘ یاد آگئی جو انہوں نے اس وقت لکھی تھی جب 1953ء میں ان کو ’’بغاوت‘‘ کے ’’جرم‘‘ میں منٹگمری جیل میں قید کردیا گیا۔
یہ رات اس درد کا شجر ہے۔۔۔۔۔جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں۔۔۔میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھِر کے کھوگئے ہیں۔۔۔ہزار مہتاب اس کے سائے
میں اپنا سب نور، روگئے ہیں
میں اس رات بھی یہ سوچ رہا تھا اور آج بھی سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کا ’’جرم‘‘ کیا ہے کہ ’’ناقابل معافی‘‘ قرار پایا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کا مطالبہ اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ آج سے 23 سال پہلے جب انہوں نے پاکستان عوامی تحریک قائم کی، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا اور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے پہلے مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کے سماجی مساوات کے تصور پر رکھی ہے۔
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ وہ آئین اور قانون کو نہیں مانتے یا الیکشن کے عمل کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ طویل عرصہ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں آئین اور قانون پڑھاتے رہے ہیں، ان کی پارٹی دو مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکی ہے اور 2002ء میں خود بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ 2013ء میں بھی ان کی پارٹی الیکشن میں حصہ لینا چاہتی تھی۔ لیکن جب الیکشن کمیشن پر ان کے آئینی اعتراضات کو سننے سے یکسر انکارکردیا گیا تو مجبوراً انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پارٹی بوجوہ کسی الیکشن کا بائیکاٹ کردیتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک غیر سیاسی گروہ بن گئی ہے۔ لندن میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور چودھری برادران کے درمیان جو دس نکاتی معاہدہ طے پایا تھا، یا انقلاب مارچ کے لئے نکلنے سے پہلے لاہور میں ان کے اور عمران خان کے درمیان جن چار نکات پر اتفاق ہوا تھا ان نکات میں سے کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں جو آئین کے دائرہ سے باہر ہو، یا اس سے متصادم ہو، بلکہ حقیقتاً یہ وہ مطالبات ہیں جن کا آئین پاکستان تقاضا کرتا ہے۔
نظر بظاہر یہ آتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کا ’’جرم‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیاں جن کے مفادات ’’سٹیٹس کو‘‘ سے وابستہ ہیں، ان کے خلاف متحد ہوچکی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ جماعت اسلامی جو خود کو اسلامی انقلابی پارٹی کہتی ہے وہ بھی پیپلز پارٹی کے شانہ بہ شانہ مصالحت کاری کے نام ن لیگ حکومت کو ریسکیو کررہی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کرکے جو ’’جرم عظیم‘‘ کیا ہے وہ واقعتا ’’ناقابل معافی‘‘ ہے۔ ان کی حالیہ جدوجہد کا نتیجہ جو بھی ہو پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں سٹیٹس کو کے خلاف ان کی یہ انقلابی جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ پس دیوار زندان شاعر نے کہا تھا۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
7 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (ڈاکٹر صفدر محمود)
اس حوالے سے لکھتے ہوئے مجھے ایک خوش آئند قسم کا احساس ہورہا ہے اور وہ یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور کی سطح بلند ہورہی ہے، ان دھرنوں، مارچوں اور دھکوں نے قوم میں نظام کی بے انصافیوں، لوٹ مار اور ظلم کے خلاف شعور کی لہر پیدا کی ہے جو آج تو محض ایک ’’دھکا‘‘ ہی لگتی ہے کیونکہ گزشتہ تین ہفتوں سے ہزاروں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں لیکن یہ کہنا کہ یہ ساری تگ و دو رائیگاں جائے گی یا بے ثمر ثابت ہوگی خام خیالی ہے کیونکہ اس احتجاج سے پیدا ہونے والی لہریں بہر حال اپنا رنگ دکھائیں گی اور رنگ لائیں گی۔
پڑھے لکھے سمجھ دار متحرک اور سیاسی لہروں پر سوار ہزاروں افراد اسلام آباد میں تین ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں، ان کا اعتماد اور قوت ارادی متزلزل نہیں ہوئی اور نہ ہی حکمرانوں کی خواہش کے مطابق وہ تھکے ہیں۔ وہ دھکے کھارہے ہیں، موسم کی سختیاں اور حالات کی سنگینی برداشت کررہے ہیں لیکن اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہزار ڈس انفارمیشن پھیلائی جائے سچ یہ ہے کہ ان کی استقامت ایک نئی تاریخ لکھ رہی ہے۔ اس جدوجہد اور استقامت سے جنم لینے والی شعور کی لہریں بہر صورت اپنے اثرات مرتب کریں گی۔
ہر حکومت اور ہر حکمران اقتدار کے تخت پر براجمان ہوکر تکبر، خوشامد، دربار داری، غرور اور خود پرستی کا شکار ہوکر سرد مہر ہوجاتا ہے۔ اس رویئے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب اس سے جائز مطالبات بھی کئے جائیں تو وہ انہیں تکبر سے ٹھکرادیتا ہے اور اس کے حواری اسے یہ لوریاں دینی شروع کردیتے ہیں کہ بولتے جو چند ہیں، سب شرپسند ہیں، کھینچ لے ان کی زبان۔۔۔
عمران خان کے مطالبات ہوں یا ڈاکٹر طاہرالقادری کے نوحے، اگر انہیں نظر انداز کرنے اور سرد مہری اور غرور کا نشانہ بنانے کی بجائے شروع ہی سے مان کر کوئی درمیانی اور قابل قبول راستے نکال لیا جاتا تو شاید بات اس انتہاء تک نہ جاتی جہاں آج پہنچ چکی ہے۔ سچ ہے کہ حکمران نہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں، نہ اپنی گذشتہ ناکامیوں کاتجزیہ کرتے ہیں اور نہ ہی بصیرت سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ خود بھی حالات کی غلام گردشوں کے غلام بنے رہتے ہیں اور عوام بھی دھکے کھاتے رہتے ہیں۔
7 ستمبر 2014، روزنامہ خبریں (رانا محبوب اختر)
آزادی اور انقلاب مارچ کے قائدین کی بہادری ہو یا حوصلہ، لفاظی یا خطابت، مصلحت یا بزدلی، سازشی تھیوری یا جرات رندانہ، یہ سب مضامین، پارلیمان، میڈیا اور تجزیہ کاروں کی جولانی طبع کا موضوع ہیں۔ ہمارے نئے تاریخ نگار، رپورٹرز اور کیمرے انہیں لمحہ بہ لمحہ محفوظ کررہے ہیں۔ مگر وہ بچے، عورتیں اور مرد جو گرمی، حبس اور بارش کے باوجود کئی دنوں سے اسلام آباد جیسے بے مروت شہر میں خیمہ زن ہیں۔ انہیں کسی نے دہشت گرد کہا، کسی نے دیوانہ، کسی نے غریب جان کر پھبتی کسی کہ اسلام آباد کی سیر کو آئے ہیں مگر آنسو گیس کے شیلوں اور ربڑ کی گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود یہ سودائی وہاں براجمان ہیں۔ جن کے میلے اور بوسیدہ کپڑے سورج کی روشنی کے لئے ترستے ہیں اور اگر انہیں کسی حفاظتی باڑ کی معراج، رفعت یا بلندی پر خدا کے سورج کی چند کرنیں نصیب ہوئیں تو ہمارے نظام انصاف کا دم گھٹنے لگا۔ یہ وہی جمہور ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے نمائندے پارلیمان میں اپنے ووٹروں کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ جنہوں نے خورشید شاہ، محمود اچکزئی اور جاوید ہاشمی کو ایوان میں بھیجا مگر ان میں سے کسی نے غریبوں، مزدوروں، خواتین اور کم وسیلہ لوگوں کے حق میں ایک بھی تقریر نہیں کی۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر وہ کبھی نہیں بولے۔ وہ اس ایوان کے حق میں بولتے ہیں جو ایوان کے ممبران کے استحقاق کا تحفظ کرتا ہے۔ مگر بجلی کے بل ادا نہ کرسکنے والے غریبوں کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ جو ایک پنکھا اور ایک بلب کا بل ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے کہ بجلی چوری اور کچھ دوسرے عوامل کی وجہ سے اسی مقدس پارلیمان کی میعاد کے پہلے سال ہی بجلی کی قیمت دگنی ہوگئی ہے۔ آزادی اور انقلاب کا خواب دیکھنے والے افتادگان خاک، ایک ہزار ہوں یا کئی ہزار، وہ سجدے میں رہتے ہوں یا رقص کرتے ہوں۔ ان کے میلے اور بوسیدہ کپڑوں کی قسم انہوں نے پاکستان میں رائج دھن پرست اشرافیہ یا Kleptocracy اور ڈاکو راج پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ یہ ملک اب پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ ایک روشن کل ان بلوائیوں کے سینے کے اندر سورج کی طرح پوشیدہ ہے۔ ان کے اندر مستقبل کی کرامات کا آتشدان روشن ہے۔ ان کے رقص کرتے ہاتھ ستاروں کی طرف اٹھتے ہیں تو نوجوان، بچے، بوڑھے اور خواتین افلاک سے نالوں کا جواب مانگتے ہیں اور ان کے پاؤں کی دھمک سے فقیہان حرم کانپ اٹھتے ہیں۔ اسلام آباد میں تارکول کی کالی اور سخت سڑکوں پر گولی اور لاٹھی کی چادر اوڑھ کر راتیں گزارنے والے روزانہ صبح نوزائیدہ بچوں کی طرح چیختے چلاتے طلوع ہوتے ہیں۔
یہ ’’باغی، بلوائی اور دہشت گرد‘‘ جو کئی دنوں سے خاک پر سوتے ہیں مادر وطن کی مٹی جن کا بستر ہے وہ جن کے میلے کپڑوں سے بدبودارنظام کی بو تو آتی ہے مگر شرم نہیں آتی۔ ان میں کسی فریادی کا کسی سوئس بینک میں اکاؤنٹ نہیں ہے۔ ان کی کوئی فیکٹری اور مل نہیں کہ وہ اس کا ٹیکس چراتے ہوں یہ وہ کم وسیلہ لوگ ہیں۔ جن میں ہر ایک کو پاکستان کا آئین روٹی، کپڑے، مکان، روزگار، امن و امان، انصاف برابر مواقع اور زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ مگر دھن پرست اشرافیہ کی پارلیمان جس پر اعتزاز احسن اور جناب فضل الرحمن بھی دھاندلی کے آوازے کستے ہیں۔ سانحہ لاہور کی بربریت کو بھی سبھی برا کہتے ہیں۔ وزیراعظم اس پارلیمان کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ ان بلوائیوں کے کندھوں پر چڑھے عمران خان اور ڈاکٹر قادری اسلام آباد پہنچے تو وزیراعظم بھی پارلیمان آپہنچے۔
اشرافیہ کے رچائے پارلیمان کے اندر اور باہر کے مہمل تھیٹر کو چھوڑیئے مگر کیا ہماری باغیرت اور بہادر، متحد اور عوام دوست جمہوری اور مہربان پارلیمان سپریم کورٹ کے عمارت کے باہر جنگلوں پر پھیلے، میلے اور بدبودار کپڑوں کے لئے روشنی اور تازہ ہوا مہیا کرنے کی قرار داد تو منظور کرسکتی ہے، جس سے پورے نظام کا دم گھٹ رہا ہے لیکن کیا یہ پارلیمان ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو انصاف دلانے کے لئے اسی طرح متحد ہوسکتی ہے جس طرح وہ اپنے وزیراعظم کو بچانے کے لئے متفق اور متحد ہے؟
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلزار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلزار کریں
بات چل نکلی ہے اور دھرنے کی کامیابی اور ناکامی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ دھرنے کے شرکاء کی ہمت اور حوصلے کو سلام کہ انہوں نے اقتدار کے ایوانوں پر لرزہ طاری کردیا ہے۔ رات کی سیاہی میں کچھ ستارے چمکے ہیں اور ایک روشن صبح یقینا آج یا کل افتادگان خاک کا مقدر ہے۔ اس کی دنیا میں دیر سہی مگر اندھیر نہیں ہے۔
دیر کی معذرت، سحر ہوں میں
مجھ کو رستے میں رات پڑتی ہے
8 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (زمرد نقوی)
کچھ سادہ لوح دانشور اپنے اپنے تعصبات کا اسیر ہوکر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کو ظالم قرار دے دہے ہیں کہ وہ خود تو اپنے کنٹینر میں محفوظ بیٹھے ہیں اور ان کے کارکن بدترین موسمی شدائد کو برداشت کررہے ہیں۔ جب یہ سب وہ لکھ اور بول رہے ہوتے ہیں تو بس سینہ کوبی کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔ کیا قادری اور عمران نے اپنے سیاسی ورکروں کے پاؤں میں زنجیریں باندھ رکھی ہیں۔ اگر وہ جانا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا انوکھا اجتماع دیکھا گیا ہے جو ہر قسم کے موسمی سختیوں بھوک پیاس اور جان کے خوف سے بے نیاز ہو۔ تاریخ میں ان کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔ جہاں تک لیڈروں کے کنٹینر میں ہونے کا تعلق ہے تو جب ان کے کارکنوں کو اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ نہ یہ کارکن گمراہ لوگ ہیں نہ یہ بکے ہوئے تو اس طرح کی بونگیاں مارنے سے بہتر یہ ہے کہ تھوڑی سی زحمت اٹھا کر پاکستانی سماج میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کا سائنسی تجزیہ کرلیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کی خاموش اکثریت کس کے ساتھ ہے اس کا اندازہ ان دونوں کی میڈیا کوریج سے لگالیں۔ میڈیاوہی دکھاتا ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں اور جب میڈیا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی گھنٹوں طویل تقاریر دکھاتا ہے تو عوام اپنے انتہائی ضروری کاموں کو چھوڑ کر ان کی تقاریر سنتے ہیں کیونکہ یہ انہیں اپنے دل کی آواز لگتی ہے۔ مجمع چاہے لاکھوں افراد پر مشتمل ہو ان میں چند سو یا چند ہزار افراد ہی ہوتے ہیں جو اپنی جان قربان کرکے تاریخ کا رخ بدل دیتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے کارکن بھی ایسے ہی ہیں۔۔۔ رہے نام اللہ کا
موجودہ بحران کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے۔ جیسے جیسے بحران طوالت پکڑے گا اس کی ہولناکی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ جب تک اس بحران کا آئینی حل نہیں نکلے گا یہ بحران ملٹی پلائی ہوتا رہے گا۔
8 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (اوریا مقبول جان)
بندگان الہٰی، درویشان خدا مست اور صاحبان بصیرت کی باتیں یاد آرہی ہیں۔ کتنے ہیں جو اس قوم کو جھنجھوڑتے، ڈراتے، وعید سناتے ہوئے اپنے رب کے پاس جاپہنچے لیکن نہ اس قوم کے رویوں میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی اس کی اکثریت نے اپنے اعمال پر نظر ڈالتے ہوئے اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی طلب کی۔ ہر کوئی اپنی انا کے بت میں قید رہا۔ کسی نے اپنے عقیدے، مسلک اور نظریے کا بت خانہ سجایا اور اس کی سرمستی میں بے حال ہوکر دوسروں کے خون کا پیاسا ہوگیا۔ کسی کو دولت کا خمار چڑھا تو اسے پرواہ تک نہ رہی کہ روز کتنے لوگ بھوک سے خودکشی کرتے تھے یا غربت و بیماری سے لقمہ اجل بن جاتے تھے۔ اقتدار کی طاقت میں بدمست لوگوں کے دلوں سے خوف خدا تو رخصت ہوا ہی تھا، خوف فساد خلق بھی جاتا رہا۔ گولیوں سے بھون دو، بستیاں اجاڑ دو، گھرانے برباد کردو اور پھر مسکراتے ہوئے اسے ریاست کی بالادستی کا نام دے دو۔ دھن، دھونس اور دھاندلی سے الیکشن جیتو اور اسے عوام کی رائے قرار دے دو۔ فوج کی طاقت سے آؤ تو انہی رہنماؤں کو ساتھ ملاکر اپنا چہرہ جمہوری بنانے کی کوشش کرو اور اگر جمہوری طور پر برسر اقتدار آؤ تو آمریت کی تمام صفات اپنانے کے باوجود خود کو متحمل مزاج اور نرم خو کہلواؤ۔ اس ملک پر مرمٹنے کی قسمیں کھاؤ اور اسی ملک کو لوٹ کر اپنی جنت دوسرے ملکوں میں بساؤ۔ رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے نام پر آنکھیں سرخ کرو، جتھے بناؤ، قتل کرو، بھتہ لو، اغوا برائے تاوان حاصل کرو۔
کفر کی بھی اخلاقیات ہوتی ہیں وہ ایک نظریے اور ارادے کی بنیاد قائم ہوتا ہے لیکن جس ملک میں منافقت کا راج ہوجائے وہاں سے نظریہ، انصاف، سچ اور عہد کی پاسبانی رخصت ہوجاتی ہے۔ جس معاشرے کے تمام طبقات منافقت کا لبادہ اوڑھ لیں وہاں ریا اور دکھاوے کو زہد و عبادت کہا جانے لگتا ہے، ایسے میں کسی فضل الرحمن کو کروڑوں لوگوں کے سامنے عورتوں کے بارے میں ذومعنی فحش فقرہ کہہ کر مسکراتے ہوئے جھجک نہیں آتی۔ ایسے معاشرے میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور جعل سازی سے مال بنانے کو اعلیٰ دماغ کاروباری صلاحیت کا نام دیا جاتا ہے۔ عہد اور وعدے کی حرمت ختم ہوجائے تو کسی آصف زرداری کو یہ فقرہ بولنے پر حیا نہیں آتی ہے کہ یہ عہد ہے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں انصاف جتھوں اور گروہوں میں بٹ جائے تو شیعہ کے نزدیک شیعہ، سنی کے مطابق سنی، وکیل، ڈاکٹر یا نرسوں کے گروہ سب اپنوں کو ہی جائز اور دوسروں کو بدترین مخلوق قرار دیں تو پھر ایسے معاشرے اس کائنات کے مالک کی ناراضگی کو آواز دے رہے ہوتے ہیں۔ نسیم انور بیگ مرحوم کہا کرتے تھے کہ کچھ کشتیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ڈوبنا ان کے نصیب میں نہیں ہوتا، وہ مستقل طوفان کے تھپیڑوں میں رہتی ہیں۔ ہماری کشتی بھی ایسی ہے۔ بقول غالب ’’مرتے ہیں آرزو پہ مرنے کی۔ موت آتی ہے پر نہیں آتی‘‘۔
کشتی میں سوار جب سب کے سب منافقت اوڑھ لیں اور پھر اسے ایک طرز زندگی اور سسٹم کا نام دینے لگ جائیں اور پھر جب بھی اسی کشتی میں چند آوازیں ان کے خلاف اٹھیں تو وہ سب کے سب اس سسٹم کو بچانے کے لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ مجھے اس فقرے پر حیرت نہیں ہوئی بلکہ میں سرے سے پاؤں تک کانپ اٹھا کہ جب پارلیمنٹ کی فضا سے یہ آواز گونجی کہ ’’دھاندلی تو بہت زیادہ ہوئی ہے لیکن ہم اس پارلیمنٹ کو بچانا چاہتے ہیں‘‘ لیکن پھر مجھے بالکل حیرت نہ ہوئی جب پتہ چلا کہ یہ الفاظ اعتزاز احسن نے کہے تھے۔
اپنی شعلہ بیانی اور دلیل کی دنیا میں رہتے ہوئے اس نے ایک ایسی دلیل دے دی ہے جسے مان لیا جائے تو اس دنیا میں ہر ظلم اور زیادتی کو سسٹم کے نام پر قبول کیا جاسکتا ہے۔ کیا وہ کل کسی عدالت میں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ایک لڑکی کو اغوا کرکے زبردستی سسٹم کے منظور شدہ رجسٹرڈ نکاح خواں سے نکاح پڑھوا گیا ہے، اس لئے لڑکی کے ماں باپ اب اغوا کرنے والے کو داماد قبول کرلیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔ جمہوریت کی اکثریت میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اگر چند ہزار لوگ اکٹھے ہوجائیں تو ہم ان کی بات کیوں مانیں۔ پورا شہر اگر اس لڑکی سے زیادتی کرنے والے کے ساتھ ہوجائے اور صرف اکیلے ماں باپ دہائی دیں تو کیا سچ کی قبر بنادی جائے۔ سچ بھی وہ کہ جسے آپ خود مانتے ہوں۔ مجھے سراج الحق صاحب پر حیرت نہیں ندامت ہوئی۔ اس لئے کہ میری ایک عمر وہاں گزری ہے کیا اللہ کے ہاں سراج الحق صاحب جواب دیں گے کہ ہم نے کراچی میں الیکشن کا دھاندلی کی بنیاد پر بائیکاٹ کرتے ہوئے سچ بولا تھا مگر آج اس سچ سے منہ پھیر لیا کہ ہم سسٹم اور جمہوریت بچانا چاہتے تھے۔ کیا اللہ ان کی یہ دلیل مان لے گا۔ کیا روز حشر اللہ سچ کے مقابلے میں جمہوریت کے حق میں فیصلہ کرے گا۔ درویشان خدامست کی باتیں یاد آرہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ گٹر دیکھتے جاؤ سب ایک ساتھ ابلیں گے۔ سب کے چہرے بے نقاب ہوں گے۔ یہ ملک اللہ کی غیرت کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ جس جس نے کھلواڑ کیا اس کی سزا تحریر ہوچکی۔ کوئی اپنی فتح پر پھولا نہ سمائے نہ پارلیمنٹ والے اور نہ دھرنے والے۔ یہ میرے آقا کی بشارتوں کی سرزمین ہے۔ یہاں جس نے کانٹے بوئے ہیں اسے اپنی آنکھوں سے چننے ہوں گے۔ کہتے ہیں فساد ہوگا، انارکی ہوگی۔ ایسے سسکتے ہوئے منافق معاشروں میں کیا امن کی فصل اگا کرتی ہے؟ ریا کے پردے چاک ہوں گے۔ جس نے مسلک، عقیدے، رنگ، نسل اور زبان پر خون بہانے کی دعوت دی وہ خود اس خون کی اذیت کا مزا چکھے گا۔ میں نے درخواست کی رحم کی دعا کیجئے۔ فرمانے لگے جب سزا شروع ہوجائے تو بولا نہیں کرتے اللہ جب سزا دیتا ہے تو اس میں سے یقینا خیر برآمد ہوتی ہے۔ لوگوں کو ایک بار پھر سنادو اللہ کی سزا کے کیا روپ ہیں۔ سورہ الانعام کی 65 ویں آیت کہہ دو، کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے۔ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمہیں مختلف گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑوائے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھادے۔ دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں واضح کررہے ہیں تاکہ یہ کچھ سمجھ سے کام لیں‘‘۔۔۔ بارشیں، طوفان، سیلاب، زلزلے اور آپس میں شدید خونریزی، یہ سزا کے موسم کی علامتیں ہیں۔ کہا۔۔۔ گٹر ابلیں گے، گندگی کھل کر سامنے آئے گی، بدبو اور تعفن سے تنگ آئی ہوئی خلق خدا ایک دن سب صاف کردے گی۔ دیکھتے جاؤ۔ سزا شروع ہوجائے تو بولا نہیں کرتے۔
9 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (سلمان عابد)
2013ء کے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ کا واحد انتخاب ہے جس میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتیں جن میں حکمران جماعت بھی شامل ہے، متفق ہیں کہ ان انتخابات میں انہیں ایک خاص منصوبہ بندی اور سازش کے تحت ہرایا گیا ہے۔ عمران خان، چوہدری برادران اور پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ انہیں پنجاب میں جان بوجھ کر ہرایا گیا جبکہ مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی کے بقول انہیں خیبر پختونخوا میں، اختر مینگل اور دیگر بلوچ قوم پرستوں کے بقول انہیں بلوچستان میں اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے بقول انہیں سندھ میں ہرایا گیا ہے۔ بلوچستان کے انتخابات پر سوالات جب اٹھائے جاتے ہیں تو دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وہاں تو انتخابات کا ہونا ہی معجزہ ہے، شفافیت کی بحث وہاں بے معنی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سب متفق ہیں کہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے، ان میں سے بیشتر فریق الزام لگاتے ہیں کہ ان انتخابات میں ریاستی اداروں کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرکے مرضی کے نتائج حاصل کئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود سب اس بات پر بھی متفق ہیں کہ انہوں نے یہ جعلی انتخابات یا دھاندلی جمہوری نظام کے تسلسل کے لئے برداشت کئے ہیں۔ یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر واقعی انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور ریاستی ادارے اس میں استعمال ہوئے تو پھر ان انتخابات کو بنیاد بناکر ہم کس طرح کے جمہوری نظام اور اس کے تسلسل کو بچانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جس کی بنیاد دھاندلی اور کرپشن پر مبنی ہو، وہ کیسے جمہوریت اور اس کے استحکام کا ضامن ہوسکتا ہے۔
لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری نے الیکشن کمیشن کی تشکیل پر سخت اعتراض اٹھائے تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ انتخابات کے بعد سب لوگ انتخابات کے نتائج پر ماتم کریں گے۔ ان کا یہ دعویٰ کافی حد تک درست بھی ثابت ہوا۔ اس وقت اسلام آباد میں جو 22 دنوں سے تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنا جاری ہے، اس کا ایک بنیادی نقطہ انتخابات میں دھاندلی اور اس کا سیاسی و انتظامی آڈٹ ہے۔
اب جس انداز سے ہمارا سارا انتخابی نظام مذاق بنا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کی واقعی غیر جانبدارانہ بنیادوں پر تحقیقات کریں اور جو بھی کردار ان کھیل میں اگر ملوث ہیں تو ان کو ضرور سامنے لاکر قرار واقعی سزا دی جائے۔ کیونکہ جعلی انتخابات کو بنیاد بناکر ہم کسی بھی طور پر مضبوط اور شفافیت پر مبنی جمہوری نظام کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو اس منطق سے بھی باہر نکلنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے جعلی انتخابات یا دھاندلی کو محض جمہوریت کی خاطر برداشت کیا۔ کیونکہ اس تضاد سے جمہوریت اور جمہوری قوتوں کا خود اپنا مقدمہ بھی خراب ہورہا ہے جو دھاندلی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو اخلاقی، سیاسی اور قانونی جواز فراہم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس عمل سے سیاسی قوتیں خود اپنا بھی مذاق بنارہی ہیں اور انتخابات سمیت جمہوریت کو بھی ان کے طرز عمل نے ایک تماشا کی صورت میں کھڑا کرکے اپنے مقدمہ کو اور زیادہ کمزور کردیا ہے۔
2 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (ارشاد احمد عارف)
یہ ڈی چوک پر دیئے جانے والے دو دھرنے نہیں۔ یہ دونوں تو ایک ہیں یک جان دو قالب۔ انہیں ایک ہی سمجھئے۔ دوسرا دھرنا ہمارے منتخب عوامی نمائندوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر دے رکھا ہے اپنے بچاؤ، دھاندلی زدہ انتخابات سے وجود میں آنے والی پارلیمان کی بقاء اور سٹیٹس کو کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے لئے۔
بس فرق صرف اس قدر ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری بظاہر جداجدا ہیں مگر اندر سے دونوں سٹیٹس کو کے دشمن اور موجودہ آدم خور، بدبودار استحصالی سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے خواہش مند جبکہ اندر بیٹھے جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے، پیر، ملا اور قبضہ گیر، بھتہ خور اوپر اوپر سے ایک دوسرے پر صدقے واری جارہے ہیں، میاں نواز شریف کی بلائیں لے رہے ہیں۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا غازی بگو کے ورد میں مصروف مگر دلوں میں وہی دیرینہ رنجشیں، بغض و عناد اور بدلہ چکانے کی خواہش۔ خورشید شاہ، اعتزاز احسن، رضا ربانی اور دیگر کی تقریریں اس باطنی کیفیت کا اظہار ہیں۔
ڈی چوک پر جمع ہجوم اور ملک بھر میں ان کی خواہشات، ارادوں اور مطالبات سے ہمدردی رکھنے والے خاک نشینوں، متوسط طبقے کے مردوزن اور اپنے حقوق سے آگاہ، مگر محروم نوجوانوں کے خوف سے یہ سب اکٹھے ہیں ایک دوسرے کی ڈھال اور اندر سے نڈھال
اپنے اپنے بیوفاؤں نے تمہیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا
پارلیمنٹ میں دھرنا دے کر بیٹھنے والوں کو اقتدار، اختیار اور وسائل کی سہولت تو روز اول سے حاصل ہے اور وہ اس کے بل بوتے پر کبھی عمران خان اور طاہرالقادری کے پیروکاروں، ہمدرد اور بہی خواہوں کو خانہ بدوش، دہشت گرد، گھس بیٹھئے اور گندگی پھیلانے والے قرار دیتے ہیں اور کبھی فوج و آئی ایس آئی کو آنکھیں دکھاتے ہیں مگر انہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی پر بھی ناز ہے جو افغانستان میں بری طرح سے پٹنے کے بعد دم رخصت پاکستان میں اپنے پسندیدہ مہرے برقرار رکھنے کی تگ و دو کررہی ہے اور این آر او زدہ جمہوریت کو اپنے مفادات کا بہترین محافظ تصور کرتی ہے امریکہ کی طرف سے موجود دھاندلی زدہ نظام کو برقرار رکھنے کے لئے چار بار اصرار، نواز حکومت پر اعتماد اور بار بار تبدیلی کی مخالفت کا اس کے سوا سبب کیا ہے۔
کوئی مانے نہ مانے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں
جہاں نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار
خانہ
جہان نو پیدا کرنے میں پرانی سیاست گری کی عیاریوں، مکاریوں، چالبازیوں، فریب کاریوں، ناقص کارگزاری اور خودپسندی و مفاد پرستی کا عمل دخل ہے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اے این پی، ایم کیو ایم، جمعیت علماء اسلام اور سندھ و بلوچستان کے قوم پرست ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر ایک ہی زبان بول رہے ہیں، ایک ہی خطرے سے نبرد آزما ہیں اور ایک ہی نعرہ لگارہے ہیں ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ دھاندلی، کرپشن، نااہلی اور تکبر پر سب کا اتفاق اور ملک و قوم کے لئے تباہ کن ان تمام امراض کو برقرار رکھنے پر سب کی رضا مندی۔
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقہیاں شہر میرے خلاف
9 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (ڈاکٹر علی اکبر الازہری)
لاہور سے 14 اگست کو روانہ ہونیوالے انقلاب اور آزادی مارچ کی اس حیران کن طوالت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ حکومتی وزراء اسے چند ہزار افراد کی ’’ریلی‘‘ قرار دیتے ہوئے کوئی وزن اور اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا دو دن لوگ سڑکوں پر بیٹھیں گے اور بالآخر تھک ہار کر خواجہ سعد رفیق کے بقول نعرے لگاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائینگے۔ خود مارچ اوردھرنوں کی انتظامیہ بھی اس قدر طوالت کا تصور نہیں کررہی تھی مگر دونوں طرف کی ’’مستقل مزاجی‘‘ نے یہ دن دکھائے ہیں کہ آج 26 واں دن ہے مذاکرات کے باوجود کوئی قابل عمل حل سامنے نہیں آیا۔ اب دھرنے کے شرکاء نے شاہراہ دستور اور ڈی چوک پر مستقل ٹھکانے بنالئے ہیں اور غیر معینہ مدت تک قیام کا تہیہ کرلیا ہے۔ لوگ ابتداً اس انقلابی منظر نامے کو بہت اشتیاق سے دیکھتے رہے مگر اب ناظرین کی نگاہیں بھی تھک چکی ہیں۔ اس تاریخی سرگرمی پر مخالف اور موافق تبصروں کا سلسلہ شروع ہے اور طویل عرصے تک جاری رہے گا مگر اس غیر معمولی دھرنے کے کچھ پہلو ایسے بہر صورت ہیں جنکے اثرات ہماری آئندہ قومی سیاست پر ضرور پڑیں گے۔ ذیل میں ہم ان ممکنہ اثرات کا بالترتیب ذکر کررہے ہیں۔
- مارچ کے قائدین خصوصاً ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے زور دار اور جذباتی خطابات نے ماحول کو خوب گرمادیا ہے۔ یہ گرمی اور جوش اگرچہ وسیع حلقوں میں سرایت نہیں کرسکا کیونکہ ہمارے ہاں مسلکی اور سیاسی فرقہ پرستی نے حق قبول کرنے کی صلاحیت تباہ کردی ہے۔ تاہم غریب تنگ دست اور حساس طبقات نے یہ بات پلے باندھ لی ہے کہ یہ نام نہاد ’’جمہوریت‘‘ عوامی مسائل کے حل کیلئے ہرگز کار گر ثابت نہیں ہوسکتی خواہ اسے 67 سال کے بجائے کئی سو سال بھی پنپنے کا موقع دیا جائے کیونکہ ان دھرنوں نے پاکستان کے بچے بچے کے سامنے حقیقی جمہوریت کا کردار بڑا واضح کردیا ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے امریکہ سمیت مغربی ممالک میں موجود جمہوریت سے درجنوں واقعات اور مثالیں پیش کرکے لوگوں کو حکمرانوں کی ذمہ داریاں باور کروائی ہیں۔
- دیکھنے اور پرکھنے والوں نے بے حسی کا وہ منظر بھی محفوظ کرلیا ہے جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مسلسل تین دن ’’جمہوریت‘‘ اور آئین کی حفاظت کے عہد کئے گئے مگر کسی نے اس جمہوریت اور آئین کے مقاصد اور اہداف پر روشنی نہیں ڈالی۔ خصوصاً وہ اہداف جن کا ذکر ہمارے دستور کے آغاز سے لے کر ابتدائی چالیس شقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ کسی سیاسی لیڈر یا ممبر پارلیمنٹ نے دھرنے میں شریک لوگوں کے مطالبات کو موضوع نہیں بنایا۔ اس شور شرابے کے باوجود کسی نے عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی قرار داد پیش نہیں کی۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ یہ آئین، دستور اور جمہوریت صرف اور صرف ایوان اقتدار کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ اس میں بیٹھنے والوں اور عوام سے ووٹ لیکر آنیوالوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ انہیں عوام کے مسائل سے متعلق کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟ اس کا دور دور تک کوئی تصور نہیں۔ الٹا محمود خان اچکزئی اور فضل الرحمن جیسے سینئر قائدین نے شرکاء مارچ کیلئے نفرت آمیز کلمات کا استعمال کیا، انہیں گھس بیٹھیے لشکری اور خانہ بدوش کا طعنہ دیا گیا۔ حالانکہ یہ سب لوگ پاکستان کے معزز شہری ہیں۔ یہ سڑکوں پر اپنی خوشی سے نہیں بلکہ اس نظام کی ناکامی کی وجہ سے آئے ہیں۔ وہ کوئی ناجائز مطالبات نہیں کررہے بلکہ اپنے بچوں کیلئے تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی میں حکومت کو اسکی ذمہ داریاں یادکروانے آئے ہیں۔
- پاکستان میں پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے غریب کسانوں ہاریوں اور مزدوروں کی بات کی تھی۔ عوام کا پسا ہوا وہ طبقہ روٹی، کپڑا اور مکان کی آس میں نعرے لگاتے لگاتے دنیا سے رخصت ہوچکا ہے اب ان کی اگلی نسل جوان ہوچکی ہے۔ انہوں نے بھی پاکستان کی جمہوری قوتوں کو حکومتوں میں آکر لوٹ مار کرتے اور رشوت لیکر ملازمتیں تقسیم کرتے دیکھا ہے۔ وطن عزیز کے اس طبقے میں اب محرومیوں اور مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ انکے کانوں نے دھرنے کے خطابات سے ایک نئی آس اور امید کی باتیں سنی ہیں۔ نئے پاکستان کی امید قائم ہوئی ہے اور عوامی مسائل کے حل کیلئے نئے نظام کی نوید سنائی دی ہے۔
- الیکشن میں دھاندلیوں کے کرداروں پر اتنا کیچڑ اچھل چکا ہے کہ اب شاید ہی کوئی ریٹرننگ افسر ہوگا جو ملک اور قوم کے ساتھ دوبارہ یہ کھیل کھیلنے کی جرات کریگا۔ اسی طرح امیدوار بھی محتاط ہونگے اور سیاسی جادوگر بھی ’’پنکچر‘‘ لگانے سے ہچکچائیں گے۔ خصوصاً ن لیگ کی شہرت تو بہت ہی خراب ہوچکی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ آئندہ یہ لوگ کسی جعلی ووٹ کا رسک نہیں لیں گے۔ مگر اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ انتخابی اصلاحات کا موثر نظام کب اور کیسے نافذ العمل ہورہا ہے۔
- لوگوں کو اب یہ سمجھ بھی آگئی ہے کہ انتخابات میں آمنے سامنے امیدوار ووٹ لیتے ہوئے ایک دوسرے کی مخالفت میں جس قدر دشمنی اور مخالفت سے کام لیتے ہیں یہ محض ’’سیاسی ڈرامہ‘‘ ہوتا ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن اور PP سے زیادہ ایک دوسرے کی کس نے مخالفت کی ہوگی؟ اسی طرح کے پی کے میں اے این پی اور جے یو آئی ایک دوسرے کے ازلی دشمن سمجھے جاتے ہیں مگر پارلیمنٹ میں سب نے بیک زبان ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کیلئے اپنا ووٹ نواز شریف کو ہی دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب لوگ آپس میں جتنی بھی دشمنی کریں اپنے مفاد کیلئے پارلیمنٹ میں ایک پیج پر ہوتے ہیں۔ انکا کوئی اصول اور نظریہ نہیں صرف اقتدار میں حصہ لینا ہے اور اپنی اپنی تجوریاں بھرنی ہیں۔ اب عوام ووٹ دیتے ہوئے ایسے سیاسی اداکاروں کا حساب بھی لیں گے۔ انہیں اپنی حب الوطنی، تقویٰ، پارسائی کے دعوے کرتے ہوئے اور دوسروں کی گندگیاں اچھالتے ہوئے اب پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر آپکے مخالف اتنے ہی خطرناک لوگ ہیں تو پارلیمنٹ میں جاکر ان پر اعتماد اور ان سے محبت کی پینگیں کیونکر بڑھائی جاتی ہیں۔
- تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اپنے مطالبات میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی رکھیں اور منظوری کی صورت میں بہر صورت ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیں اور بھرپور تیاری کیساتھ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں حصہ لے کر اپنے اپنے دعوؤں کے مطابق جمہوریت کی جڑیں مضبوط کریں۔ قوم انکے دھرنوں اور طویل جدوجہد کو فراموش نہیں کریگی بلکہ انہیں خدمت کا بھرپور موقع دینے کی کوشش کریگی۔ بشرطیکہ یہ دونوں سیاسی پارٹیاں اسی طرح عوام دوست اور غریب پرور ایجنڈا لیکر آگے بڑھتی رہیں۔ بعض حکومتی ایجنسیاں اور دیگر قوتیں انہیں مل کر آگے بڑھنے سے پہلے بھی روکتی رہیں اور اب بھی خدشات گنوائے جارہے ہیں خصوصاً عمران خان کو ڈاکٹر صاحب سے دور کرنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے مگر یاد رہے برکت اتفاق میں ہی ہے انتشار اور اختلاف میں تباہی ناکامی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
9 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
آجکل تو ہر پاکستانی بیرون ملک میں پریشان ہے اور پوچھتا ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ ایک ایسے ملک میں جہاں آئین و قانون، روایات اور اصولوں کی کوئی قدر نہ ہو، جہاں سسکتی انسانیت کا سڑکوں پر خون بہایا جائے، جہاں انصاف تو دور کی بات وقوعہ کی ایف آئی آر تک نہ کاٹی جائے، جہاں14لوگوں کو دن دیہاڑے سڑکوں پر گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے، جہاں 100لوگوں کو سیدھے فائر مار کر شدید زخمی کر دیا جائے اور پھر ان مقتولین اور زخمیوں کو انصاف دلانے کیلئے ایک درجن لوگ اور جان کی بازی ہار جائیں۔ جہاں لاکھوں لوگ پچھلے ایک ماہ سے ملک کے سب سے مقدم ادارہ پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھے ہوں اور موسمی شدت اور حدت کا مردانہ وار مقابلہ کریں۔ بارش اور شدید ژالہ باری بھی جن کے عزم کو متزلزل نہ کر سکی، پھر وہ لوگ بارشوں سے بھیگے کپڑے اتار کر دیوار پر لٹکا دیں سوکھنے کیلئے تو ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت ان بھوکے ننگے پریشان حال کیڑے مکوڑوں کیخلاف حکم جاری کر دیں کہ یہ اپنی بھیگی شلواریں ہماری شان و شوکت سے اور قیمتی پتھروں سے مزین دیواروں پر نہ لٹکائیں۔یہاں ایک لوئر مڈل کلاس کا ایک آدمی ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت کا انچارج بن کر اربوں روپوں کے اثاثے بناتا ہے۔ ایک آرمی چیف جب ریٹائرڈ ہوتا ہے تو وہ اور اس کے بزنس میں بھائیوں کے اثاثے کھربوں روپوں تک پہنچے ہیں۔ انکے بیٹے بیٹیاں ’’مونٹے کارلو‘‘ کے ہوٹلوں اور جوئے خانوں میں ایک ہی دن میں کروڑوں کا جواء کھیلتے ہیں۔ انکے ایک غیرملکی سفر کے اخراجات ایک اوسطً پاکستانی کی 65 سالہ کمائی اور پنشن سے بھی تجاوز کرتے نظر آتے ہیں۔ اس ملک کے تجارت پیشہ سیاست دانوں نے اپنے گرد موجود ان طبقات کے منہ کو کرپشن کا ’’لہو‘‘ لگا دیا ہے۔ ایسے لگتا ہے اب میرے وطن میں ہر شخص، ہر چیز قابل فروخت ہے ہر کسی کی ایک قیمت ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ اگر بغور دیکھیں تو 80ء کے بعد ہماری ثقافت، ہمارا کلچر، ہماری تہذیب، ہماری روایات یکسر تبدیل کر دی گئیں۔ جس ملک کا بانی حضرت قائداعظم سرکاری خزانے سے چائے کی ایک پیالی پینے کو اپنے اوپر حرام گردانتے تھے اس ملک کے بعد میں آنیوالے حکمران آج اربوں ڈالرز کے کیش اور اثاثوں کے مالک ہیں۔ آپ 70ء کے بعد کسی ایک حکمران کا نام لیں اور ذرا سا ’’گوگل‘‘ کریں تو حیران رہ جائینگے کہ تعلیم، ترقی، علم، سائنس، ایجادات، میڈیکل، زراعت، ٹیکنالوجی میں دنیا بھر میں آخری نمبر پر آنے والی قوم کے سربراہان کے غیرملکی بنکوں میں کھربوں ڈالرز پڑے ہیں۔ موجودہ حکمران بھائیوں کے لندن میں موجود ایک رہائش گاہ کی قیمت لندن کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کیمطابق 8 ارب روپے سے زیادہ ہے جبکہ ملک کے سابق صدر جو کبھی سینما میں ٹکٹیںبلیک کرتے تھے اور جن کے والد محترم ٹھیکے پر زمین داری کرتے تھے۔ آج وہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 70ارب ڈالرز یعنی ’’بل گیٹ‘‘ کے ہم پلہ ہیں۔ اسی لئے تو پارلیمنٹ کے فلور پھر کہا جاتا ہے کہ یہ ننگے، بھکاری، خانہ بدوش ان کی بستیاں پارلیمنٹ کے لان میں بسا کر ہم ایلیٹ کلب کا استحقاق مجروح کیا جارہا ہے۔ یہ قطعاً نہیں جانتے کہ ان خانہ بدوشوں میں 2300 پی ایچ ڈی خواتین شامل ہیں، قومی اور انٹرنیشنل اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ میں ذاتی طور پر درجنوں ایسے اصحاب کو جانتا ہوں جن کی یورپ، امریکہ، نارتھ امریکہ میں کروڑوں ڈالر جائیدادیںاور اثاثے ہیں، محل نما مکانات ہیں مگر وہ پورے کا پورا کنبہ لے کر ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سب کچھ چھوڑ کر اپنے 20 کروڑ بھائیوں کے اچھے مستقبل کی خاطر اس دھرنے اور مارچ کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے دنیا کے 90ممالک میں منہاج القرآن سنٹرز موجود ہیں جن کے ساتھ سٹاف کی رہائش گاہیں، دفاتر اور کھیل کے میدان بھی موجود ہیں مگر ڈاکٹر صاحب ہفتوں غسل کے بغیر شاہراہ دستور پر بیٹ ہاتھ میں پکڑ کر انقلابی ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ میں چونکہ شہید بی بی بے نظیر بھٹو کے لئے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں لیکچرز کے انتظامات کرتا اور آرگنائز کرتا تھا۔ امریکہ،کینیڈا، یورپ اور آسٹریلیا کی چند یونیورسٹیوں کی طرف سے مجھے آفر ملی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو انٹرفیتھ کے موضوع پر قائل کروں کہ وہ ماہانہ کم از کم فی یونیورسٹی دو، دو لیکچرز دے سکیں؟میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے بات کی تو انہوں نے کمال شفقت سے عالمی یونیورسٹیوں کی آفرز کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ مطلوب وڑائچ میرے ملک کے بیس کروڑ عوام کو میری ضرورت ہے، مجھے ان بیس کروڑ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا ہے۔قارئین! جب میں ایسے مصمم ارادے اور ٹائی ٹانک عزم والے اس ادھیڑ عمر شخص کو دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ شخص ضرور اس بیس کروڑ عوام کے لیے مسیحا ثابت ہوگا۔
9 ستمبر 2014، روزنامہ دنیا (علی دایان حسن۔ نیو یارک ٹائمز)
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد کی شاہراہوں پر جو غم و غصہ دکھائی دے رہا ہے وہ فوج کا پیدا کردہ نہیں۔ احتجاجی مظاہروں کے محرکات کچھ بھی ہوں۔۔۔ لیڈر یا پس منظر میں رہنے والے ان کے حامی مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ لوگوں کی شکایات مبنی بر حقیقت ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت گھٹنے ٹیک چکی ہے۔
تین ہفتے سے زیادہ دنوں سے ملک کے صاف ستھرے دارالحکومت کو ہزاروں مظاہرین روند رہے ہیں۔ تیز دھوپ، موسلا دھار بارش، اشیائے خوردو نوش کی قلت، حوائج ضروریہ کے لئے ٹائلٹس کی کمی اور گندگی کے ڈھیروں سے اٹھنے والا تعفن۔۔۔ یہ تمام تکلیف دہ چیزیں مظاہرین کو اسلام آباد کا ریڈ زون چھوڑنے پر مجبور نہیں کرسکتیں۔ دونوں رہنماؤں کی سربراہی میں جاری دھرنے دو ہفتے پرامن رہے۔ 31 اگست کو مظاہرین نے وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے جانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے انہیں روکنے کے لئے کریک ڈاؤن کیا اور اڑتالیس گھنٹے سیکورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔ اس دوران تین افراد جاں بحق اور کم از کم پانچ سو زخمی ہوئے، جن میں درجنوں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری یکسر پیچیدہ خصوصیات کی حامل شخصیت ہیں۔ ان کی جماعت، پاکستان عوامی تحریک نے گزشتہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور اب وہ ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے لئے انقلاب کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک شعلہ بیان مقرر ہیں۔ وہ اپنی جذباتی تقاریر میں سماجی عدم مساوات اور عوام کی محرومیوں کو خوب اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے حامیوں میں ٹارگٹ کلنگ کے شکار شیعہ مسلک اور طالبان مخالف اہل سنت مکتب کے لوگ نمایاں ہیں۔ ان کے دھرنے کے شرکاء کی اکثریت تعلیم یافتہ اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ 17 جون کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں ان کی مذہبی تنظیم منہاج القرآن کے ہیڈ کوارٹر پر پولیس نے کریک ڈاؤن کیا جس میں 14 افراد جاں بحق اور 80 سے زیادہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ اس سانحے سے ان کی حکومت مخالف تحریک میں زبردست زور پیدا ہوا۔
اس ہلاکت خیز حملے کے بعد حکومت نے جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دوسرے اعلیٰ حکام کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا تھا، جس سے عام لوگوں میں بھی اشتعال پیدا ہوا، اس لئے کہ مدعیان کی طرف سے پرچہ درج نہ کرنا عدل و انصاف کے تقاضوں کے یکسر منافی تھا۔ پولیس اور انتظامیہ کے جانبدارانہ رویے نے اس دعوے کا مذاق اڑایا کہ جمہوریت سے قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس روش نے فوج کے اقتدار پر قابض ہونے سے کہیں بڑھ کر جمہوری نظام کو بے جواز بناکر رکھ دیا۔
گزشتہ برس عام انتخابات کے بعد اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کی فتح کے بارے میں بے یقینی صورت حال اور فوجی مداخلت کے امکانات کے باوجود اقتدار مسلم لیگ (ن) کو منتقل کردیا لیکن آج احتجاجی مظاہرین آصف علی زرداری کی وزیراعظم میاں نواز شریف کو فراہم کی گئی حمایت کو جمہوریت کے ساتھ وابستگی کے بجائے سیاسی اشرافیہ کا اقتدار مضبوط کرنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اگر سیاسی اشرافیہ نظام حکومت کو بہتر بنانے کے لئے سیاسی عمل میں عام آدمی کو شریک ہونے کی حوصلہ افزائی کرتی، ریاستی اداروں کی تشکیل نو کی جاتی اور انہیں عوام کے سامنے جواب دہ بنایا جاتا تو آج اسے مورد الزام نہ ٹھہرایا جاتا لیکن نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے سیاستدانوں نے ریاست اور اس کی اتھارٹی کو کمزور کیا جس کے نتیجے میں شہریوں کی بے چینی اور اضطراب بڑھتا گیا۔
جمہوریت اور سویلین حکومت کی بالادستی کا راگ اس کی ناقص کارکردگی کا بدل نہیں بن سکتا۔ عوام کو عدل و انصاف اور حقوق انسانی سے محروم رکھنا، روز افزوں عدم مساوات، تحفظ کا فقدان اور ریاستی اداروں پر عدم اعتماد نے سویلین حکومتوں کی ساکھ بری طرح متاثر کی ہے۔ پاکستان میں انتخابی اور عدالتی اصلاحات، ضابطہ فوجداری میں انقلابی تبدیلی اور مقامی حکومتوں کا نظام بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
10 ستمبر 2014، روزنامہ خبریں (ناصف اعوان)
بعض لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں کے اس لئے خلاف ہیں کہ وہ موجودہ نظام سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ اسے جوں کا توں قائم رکھنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں معلوم نہیں کہ شاید اس نظام میں اتنی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیںکہ اب اسے تبدیل کئے بغیر چارہ نہیں مگر وہ بضد ہیں کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دھیرے دھیرے خودبخود بدلتا جائے گا۔ اسے ارتقائی عمل کہتے ہیں مگر یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اگر ہمارے حکمرانوں نے اسے آگے بڑھنے سے نہ روکا تو آج یقینا حالات مختلف ہوتے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری تبدیلی کے خواہشمند عوام کو ساتھ لے کر اسلام آباد کے ’’سرخ علاقے‘‘ میں براجمان نہ ہوتے اور کروڑوں عوام کی توجہ کا مرکز نہ بنتے مگر کسی حاکم نے یہ سوچا نہیں کہ وقت کے آگے حرص و ہوس کی دیواریں کھڑی کرنے سے عوام کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔
پچیس چھبیس روز ہوچکے ہیں کہ لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کے چہرے پر نقاہت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے، وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تازہ و توانا ہورہا ہے۔ وہ لوگ بھی جو اسے ایک ڈھونگ اور وقتی ابال قرار دے رہے تھے کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کہیں واقعتا کوئی بڑی تبدیلی نہ آجائے جس سے ان کے مفادات اور اقتدار کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ اگرچہ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اب ماورائے آئین کچھ نہیں ہوسکتا مگر جس عوام میں یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ اب اگر وہ خاموش رہتے ہیں اور احتجاج کرنے والوں کی آواز میں اپنی آواز شامل نہیں کرتے تو پھر یہ منظر بدلتے دیر نہیں لگے گی اور اگر یہ کہا جائے کہ ان چھبیس دنوں میں شعوری بیداری اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کے سامنے ایسے ایسے حقائق پیش کررہے ہیں کہ وہ حیران ہوئے جارہے ہیں جس سے وہ متاثر ہونا بھی شروع ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں یہ علم تو ہے کہ اگر ماضی کی حکومتیں چاہتیں تو ان کی زندگیوں کو پرآسائش بنایا جاسکتا تھا مگر انہوں نے دانستہ ان سے چشم پوشی اختیار کی اور ذاتی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہے لہذا دھرنا دینے والے دونوں سیاسی رہنما اپنے مقصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔ عوام کی سیاسی تربیت کا یہ نظارہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اب پورے ملک کے عوام اسے دیکھنے لگے ہیں بلکہ کچھ اس قدر تاثر لے رہے ہیں کہ باقاعدہ اس کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ بے شک حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ ایسی ’’دھرنیوں‘‘ کو خاطر میں نہیں لاتی۔ لہذا یہ ایک برس بھی یہاں موجود رہیں تو وہ اقتدار سے الگ نہیں ہوگی مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ اندر سے شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہے۔ ٹپ ٹپ گرنے والے پانی کی بوندوں کی طرح ہونے والی ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی تقریریں اسے ذہنی طور پر زچ کررہی ہیں اور عوام میں اعتماد پیدا ہوتا جارہا ہے کہ ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے اس کے راستے کی ہر رکاوٹ ختم ہوجاتی ہے۔ بے شک اپنا مقصد پالینے کے لئے مشکلات پیش آتی ہیں اور جانوں کا نذرانہ دینا پڑتا ہے مگر حقوق کے حصول کے لئے یہ لازمی ہوتا ہے۔ بہر حال یہ دھرنے پاکستانی عوام کو جھنجھوڑ رہے ہیں، ان میں جہاں جرات و ہمت پیدا ہورہی ہے تو وہاں انہیں یہ بھی احساس ہورہا ہے کہ اگر جدوجہد کا یہ سفر کچھ دیر اور جاری رہتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ انقلاب کو آگے سے کوئی نہیں روک سکتا لہذا کیوں نہ اظہار یکجہتی کرکے احتجاجیوں کا حوصلہ بڑھایا جائے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پرامن احتجاج کرنے والے اب اسلام آباد کی فضاؤں میں رہ کر مایوس و بددل نہیں ہورہے بلکہ انہیں ان سے ایک لگاؤ سا ہونے لگا ہے۔ یعنی وہ اس ماحول کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں اور عوام سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی کہ ان میں سے جو بیمار اور سرکاری ملازم ہیں وہ واپس چلے جائیں تو کسی ایک نے بھی ہاتھ بلند نہیں کیا۔ اس کے باوجود حکمرانوں سمیت بعض حلقے ان کا تمسخر اڑا رہے ہیں جبکہ وہ تہیہ کرچکے ہیں کہ انہیں اپنی منزل پر پہنچے بغیر یہاں سے نہیں جانا، وہ ڈٹ گئے ہیں۔ آنسو گیس اور لاٹھی گولی کے استعمال نے بھی ان کے حوصلے پست نہیں کئے اور یہ احتجاج کا انداز اب پورے ملک کے عوام میں رواج پانے جارہا ہے۔ جو کوئی انہیں روکے گا، ٹوکے گا وہ ناکام ہوگا کیونکہ عوام کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو اب یہ حوصلہ ملا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ان کی پشت پر موجود ہیں اور انہیں ایک سیاسی پلیٹ فارم میسر آگیا ہے، اب دما دم مست قلندر ہوتا رہے گا، لہذا حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ اب وہ روایتی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے حکمرانی نہیں کرسکتے کیونکہ تبدیلی آچکی ہے، جاگنے کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے۔ انقلاب ایوانوں کے باہر آکھڑا ہوا ہے۔ اب یہ غیر محسوس انداز میں اندر بھی داخل ہوگا۔ اگرچہ اسے دور بھگانے کی حکمت عملیاں اپنائی جارہی ہیں مگر جب نمود سحر کی روشنی میں یہ سب عیاں ہوگا تو انہیں عوامی طاقت کے آگے سرجھکانا پڑے گا۔ یہ حکمرانوں کی محض خوش فہمی ہے کہ انہوں نے اتحاد کرکے وقت کا پہیہ روک دیا ہے، بھلا بڑھتے قدموں کو آج تک کوئی روک سکتا ہے۔
10 ستمبر 2014، روزنامہ نئی بات (ڈاکٹر فرید احمد)
یاالہٰی یہ ماجرا کیا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جو ہمیشہ خطرے میں رہتی ہے اور یہ کیسے نااہل سیاستدان ہیں جو اپنی جمہوریت، وہ جمہوریت جو ان کا دن رات پانی بھرتی ہے کو بھی خطرے سے نہیں بچاسکتے۔ ساری دال کالی ہے یا دال میں کچھ کچھ کالا ہے۔ اب جبکہ بھوکے ننگے، مجبور و مقہور عوام سڑکوں پر ہیں اور گزشتہ کئی دنوں سے بے سروسامان عوام کے حقیقی ہیروز اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور صرف اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ اپنے لئے روٹی، لباس، دوا مانگ رہے ہیں۔ اس کے بدلے آنسو گیس کے ہزاروں شیلز کا زہریلا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں اتار چکے ہیں۔ شدید بارشوں کے باوجود ان کی اپنے حقوق کی جنگ اور جدوجہد جاری ہے۔ وہ اس میں کامیاب ہوں گے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ بہر حال لاہور میں ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر پولیس کی یلغار اور پھر پسپائی بتارہی ہے کہ یہ محض پولیس اہلکاروں کی پسپائی نہیں بلکہ اس حکومتی نظام کی پسپائی ہے۔
10 ستمبر 2014، روزنامہ نئی بات (نسیم شاہد)
دھرنوں کا نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے، یہ بات سامنے کی حقیقت بن چکی ہے کہ ہماری جمہوریت عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتری۔ اگر پورا اتری ہوتی تو اتنے بڑے بحران سے نہ گزرتی۔
کیوں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر موجود عوامی نمائندے ایک طرف ہیں اور عوام دوسری طرف ہیں۔ تاثر کیوں ختم نہیں ہورہا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان چاہے جو بھی کہیں جو اس نظام سے مستفید ہورہے ہیں زیادہ ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کو دور کریں۔
جب مقتدر طبقے اور عوام کی سوچ میں جمہوریت کے حوالے سے فرق پیدا ہوجائے تو جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ اس کا ثبوت موجودہ جمہوریت ہے۔ تمام اداروں کی موجودگی کے باوجود وہ اس حال میں ہے جیسے شاخ نازک پر بنا ہوا آشیانہ ہوتا ہے۔ صرف دو جماعتوں نے اسے للکارا ہے تو نظام تھر تھر کانپ رہا ہے اور پورا ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں کھڑے یہ دہائی دے رہے ہیں کہ نظام کو گرنے نہیں دیں گے، جمہوریت پر شب خون ان کی لاشوں پر گزر کر ہی مارا جاسکے گا۔ میں یہ باتیں برسوں سے سنتا آرہا ہوں، جمہوریت کو گرنے نہیں دیں گے، جمہوریت کے لئے جان دیں گے، جمہوریت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جمہوریت نہ رہی تو ملک نہیں رہے گا وغیرہ وغیرہ لیکن اس قسم کے دعوؤں اور دھرنوں کے باوجود ہم نے یہ دیکھا کہ ملک چار مرتبہ مارشل لاء کے عذاب سے گزرا جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ جمہوریت کا تعلق جمہور سے ہوتا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت بھی سامنے ہے کہ آمریت کے ادوار میں عوام کو زیادہ ریلیف ملا اور انہوں نے اپنی توقعات اس سے باندھ لیں۔
میں اس بات کو ماننے پر تیار نہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ رائیگاں جائے گا۔ بعض لوگ اس صورت حال کو بوتل کے جن سے تعبیر کررہے ہیں جواب واپس نہیں جائے گا۔ عوام کے اندر جمہوریت کے حوالے سے اپنے حقوق کا جو شعور بیدار ہوا ہے، اسے اہمیت دی جانی چاہئے اگر نہ دی گئی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ دب جائے گا، چنگاری بجھ جائے گی تو میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔ دھرنے آج نہیں تو کل ختم ہوجائیں گے۔ معاہدے ہوں گے، آئین و دیگر قوانین میں ترامیم ہوں گی۔ بظاہر صورت حال نارمل ہوجائے گی لیکن سطح آب پر آنے والے ٹھہراؤ کو اگر کامیابی سمجھ کر معاملات کو پھر پرانی ڈگر پر ڈال دیا گیا اور جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں وہی تساہل اختیار کیا جاتا رہا، جو حالات کو اس نہج پر لے آیا ہے تو پھر کسی نئے بحران کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ایسا بحران کہ جو شاید سنبھلنے اور نئے دعوے کرنے کا موقع بھی نہ دے۔
اس وقت ملک میں تبدیلی کی جو ہوا چلی ہے وہ حکمرانوں یا حکومت کی تبدیلی کے لئے نہیں بلکہ طرز حکمرانی کی تبدیلی کے لئے ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس تبدیلی کے آگے بند نہ باندھا جائے کیونکہ اسے اب روکنا بے سود ہے۔ کوئی بھی مصنوعی حربہ یا زمینی حقائق سے ماورا اقدام اس تبدیلی کو تو شاید نہ روک سکے البتہ ملک کو جمہوریت سے ضرور محروم کرسکتا ہے، اب وہ دن گئے کہ جب بادشاہت کو جمہوریت کا لبادہ پہنا کر مزے لوٹے جاتے تھے۔ اب جمہوریت کو جمہوریت کے طور پر ہی چلانا پڑے گا۔ خلق خدا جو کہہ رہی ہے اسے کھلے ذہن اور کھلے دل سے سننے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی سے انکار ممکن نہیں کیونکہ انکار کا وقت اب گزر چکا ہے۔
11 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (سلمان عابد)
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے حامیوں کو یہ یقین نہیں تھا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ان کی حکومت کے خلاف ایک بڑا سنگین بحران پیدا کرسکتے ہیں۔ اسلام آباد کے دھرنوں سے قبل حکومت اپنے آپ کو ایک مضبوط حکومت کے طور پر پیش کرتی تھی، اس کا خیال تھا کہ سیاسی طور پر دو تہائی اکثریت کے بعد اسے اگلے پانچ برسوں میں کسی بڑے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کچھ اسی قسم کی سوچ وزیراعظم نواز شریف حکومت کی 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے بعد بھی تھی، لیکن اس وقت کے حالات و واقعات اور سول ملٹری تعلقات میں تسلسل کے ساتھ بگاڑ کے باعث نواز شریف کی حکومت کو 1999ء میں فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ آج حکومت کو کسی فوجی بغاوت کا سامنا نہیں لیکن حکومت کے بحران ہیں کہ وہ ختم ہی نہیں ہورہے۔ یہ عجیب امتحان ہے کہ حکومت کو ایک بڑی اکثریت کے باوجود اقتدار کے ڈیڑھ برس بعد ہی ایک بڑی مزاحمت کا سامنا ہے۔
بنیادی طور پر حکومت کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ دھرنے کی سیاست کرنے والے ایک لمبے عرصہ کے لئے اسلام آباد کی حکومتی رٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں حکومتی ردعمل کچھ خاص نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ کچھ دنوں میں دھرنے والے تھک ہار کر واپسی کی راہ لیں گے اور حکومتی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن جس انداز سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں بیٹھ کر روزانہ کی بنیادوں پر حکومت اور بالخصوص وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کی سیاسی، اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سیاسی تابڑ توڑ حملے کئے اور جاری ہیں وہ واقعی حکومت کی مستقبل کی بقا کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ اگرچہ سیاسی پنڈتوں کے بقول حکومت اور بالخصوص وزیراعظم کو جو فوری بڑا خطرہ ان دھرنوں سے تھا، وہ وقتی طور پر ختم ہوگیا ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت کا اندازہ غلط نہ ہو لیکن اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حکومت اور وزیراعظم کی مشکلات ختم ہوگئی ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔
کیونکہ جس انداز سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکومت کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، اس سے حکومت کی مضبوطی کا تاثر کمزور ہوا ہے۔ وہ وزیراعظم جو ایک مضبوط وزیراعظم کے طور پر دھرنوں کی سیاست سے قبل تھے، اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔ کیونکہ اب وہ دفاعی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ ان کی حکومت عملی طور پر دوتہائی اکثریت پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی حمایت کی وجہ سے بچی ہوئی ہے۔ اب یہ تمام جماعتیں جو اقتدار کی سیاست کی اہم کھلاڑی ہیں، اپنی حمایت کی صورت میں حکومت سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے معاملات یا اقتدار کی شراکت کا طریقہ کار طے کریں گی۔ وزیراعظم کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ اب اگر وہ سیاسی طور پر اپنی حکومت برقرار رکھ سکیں گے تو انہیں ان سیاسی جماعتوں کی جائز و ناجائز حمایت اور خواہشات کا احترام کرنا ہوگا۔
ممکن ہے کہ دھرنا ابھی کچھ عرصہ اور جاری رہے لیکن اسے ایک دن ختم ہونا ہے۔ اگر دھرنے والے استعفوں کے بغیر بھی اسلام آباد سے واپس آگئے تو حکومتی مشکلات ختم نہیں ہونگی۔ یہ بحران وقتی طور پر ضرور ٹلے گا لیکن عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری واپس آکر خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے۔
یہ جو جماعتیں اس وقت حکومت کے ساتھ جمہوری نظام کو بچانے میں کھڑی ہیں، اگر حالات تبدیل نہیں ہوتے اور بحران اسی انداز میں جاری رہتا ہے تو وہ بھی اپنی سیاسی پوزیشن کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس لئے وزیراعظم سیاسی بحران اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ لاہور سانحہ کی وجہ سے مسلسل دباؤ کی سیاست کا شکار ہوں گے۔ وہ اس دباؤ سے کس حد تک اپنے آپ کو بچاسکیں گے، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ان کے سیاسی مخالفین اس دباؤ کی سیاست سے فائدہ اٹھا کر حکومت کو آسانی سے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔
11 ستمبر 2014، روزنامہ (آغا مسعود حسین)
ڈاکٹر طاہرالقادری اور جناب عمران خان کا عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف 14 اگست سے احتجاج جاری ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا، دھرنوں کی صورت میں یہ سب سے بڑا احتجاج ہے۔ جس کا پیغام سارے پاکستان میں پہنچ گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور جناب عمران خان کا پیغام بالکل واضح اور صاف ہے یعنی ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لئے انصاف اور قانون کی بالادستی اور اس کی ہر سطح پر عمل داری اور احتساب لازمی ہے۔ پاکستان کا آئین بھی یہی کہتا ہے بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت کا فروغ انصاف اور قانون کی بالادستی سے مربوط اور وابستہ رہا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کے کئی اسباب ہیں اور سب سے بڑاسبب یہ ہے کہ منتخب ہونے والی حکومتوں نے صرف اپنا اور اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کا خیال رکھا اور ان ہی کو زیادہ معاشی فوائد پہنچانے کی کوششیں کیں۔
آج عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس جذبے سے دھرے دیئے ہوئے ہیں، وہ دراصل جمہوریت کو اس کی اصل شکل میں رائج کرنے کی کوشش ہے۔
میاں نواز شریف نے دھرنے کی صورت میں پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتحال کے حل کے لئے قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ہے جس میں صرف فوج اور دھرنا دینے والوں کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ آج گھر گھر بحث ہورہی ہے کہ دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ وجود میں آنے والی جمہوریت جس سے صرف چند خاندانوں کو فائدہ پہنچتا ہو، کیا واقعی جمہوریت ہوتی ؟ اور کیا ایسی جمہوریت کے ذریعہ عوام کی سماجی، معاشی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟ یقینا نہیں چنانچہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری مل کر نہ صرف 2013ء کی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پرزور احتجاج کررہے ہیں بلکہ ایسی تبدیلی کے لئے کوشاں ہیں جس میں عوام کو ان کے آئینی جمہوری اور قانون حقوق میسر آسکیں۔ یہ درست ہے کہ ان احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے ملک کی اقتصادیات پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور یہ اثرات دیر تک جاری رہیں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینا پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے اور دھکیلنے کی ساری ذمہ داری مسلم لیگ ن کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
11 ستمبر 2014، روزنامہ دن (ریحان اظہر)
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوسرے دن بھی بہت دھواں دار تقریریں کی گئیں۔ اے این پی کے زاہد حسین کی باتوں میں ان کی پارٹی کی ایک نئی جماعت تحریک انصاف کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا پہلو نمایاں تھا۔ اس روز کی ہر تقریر کا لب لباب ’’محترم نواز شریف کو استعفیٰ دینے سے منع کرنا تھا‘‘۔ سینیٹر زاہد حسین نے کہا کہ نواز شریف کے غیر جمہوری رویوں کے باوجود ان کے استعفیٰ کے حق میں نہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں احتجاجی عوام کا خوب مذاق اڑایا، اسی طرح حاصل بزنجو کی تقریر سے صاف لگ رہا تھا کہ انہیں تقریر سے بہت پہلے بہت بڑی رقم ترقیاتی فنڈ کی مد میں مل چکی ہے انہوں نے غریب احتجاجیوں اور ان کے رہنماؤں کو آڑے ہاتھ لیا۔ اسی طرح آفتاب شیر پاؤ کو یہ فکر نہیں تھی کہ ان کے لئے اسمبلی میں پہنچنا ان احتجاجیوں نے کتنا مشکل بنادیا ہے۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ یہ باہر بیٹھے لوگ آئین کی توہین کرتے ہیں جبکہ انڈیا اور برطانیہ میں کوئی آئین کی کتابوں کو ہاتھ بھی نہیں لگاسکتا۔ موصوف کو یہ پتا نہیں کہ برطانیہ کا آئین لکھا ہوا نہیں۔ آئی ڈی پیز کے حوالے سے زاہد حسین اور شیر پاؤ نے خوب ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے خود اپنی پارٹی کی طرف سے آئی ڈی پیز کے لئے کیا کیا؟ دکھ کی بات یہ ہے کہ جب حاصل بزنجو نے غریب احتجاجیوں کے احتجاج کے دوران دن اور رات کے کھانے کا حوالہ دے کر مذاق اڑایا تو تقریباً پورے ہاؤس نے احتجاجیوں کا خوب مذاق اڑاتے ہوئے ڈیسک بجائے۔ آج سپریم کورٹ سمیت سب پارلیمنٹیرین اسمبلی اور شاہراہ دستور کے راستوں کے تنگ یا بند ہونے کا ذکر کرتے ہیں لیکن کوئی نہیں سوچتا اور کہتا کہ جب حکمران پورے ملک میں کنٹینرز لگاکر عوام کے راستے بند کرتے ہیں تو انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ عدالتی فیصلوں کے باوجود حکمران راستے نہیں کھولتے اور کئی مریض ایمبولینسز میں لیٹے لیٹے ہسپتال جانے کا راستہ نہ ملنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ حاکموں کو قطعی فکر نہیں ہوتی کیونکہ ان کی نظر میں غریب کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پولیس اور عدالتیں ان کے ماتحت ہیں اس لئے وہ اپنے مظالم پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آج ہم عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے رویوں پر کتنی ہی تنقید کیوں نہ کریں لیکن یہ بات سچ ہے کہ ان کے احتجاج کی وجہ سے پاکستانی قوم کو ایک نئی سوچ ملی ہے۔ آئین اور جمہوریت سے واقفیت حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا ہے، اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کا جذبہ ان کے دلوں میں پروان چڑھا ہے۔ حکمرانوں کو بھی احساس ہوا ہے کہ اب ان کی بادشاہت کے دن پورے ہوچکے اب انہیں بھی حکومت کا پہیہ چلانے کے لئے حقیقی جمہوری طریقے اپنانے ہوں گے، عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتے ہوئے ان کے حقوق کو تکریم دینا ہوگی، انہیں صاف اور محبت سے اپنا بنانا ہوگا۔ اب اس قوم کو پولیس کی گولیوں اور آنسو گیس سے نہیں ڈرایا جاسکتا۔ اگر کوئی پرامن احتجاج کرتا ہے تو اس کو ڈنڈے یا گولیاں مار کر ہٹانے کی بجائے اجازت دے کر اس کے مطالبات سننا ہوں گے اور جائز مطالبات کو ماننے میں ٹال مٹول کرنے کی بجائے جلد ماننا ہوگا۔ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے واضح کیا ہے کہ ان کا احتجاج سولہ روز پرامن رہا اور آئندہ بھی رہے گا۔ معاملات کو خراب کرنے والے ان کے کارکن نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے چھوڑے ہوئے گلو بٹ ہیں۔ پی ٹی وی کی بلڈنگ میں داخل ہونے والوں کی بھی دونوں احتجاجی لیڈران نے سختی سے مذمت کی اور کہا کہ یہ لوگ ان کے نہیں تھے۔ گو فوج کے جوانوں نے آدھے گھنٹے بعد ہی آکر پی ٹی وی کی بلڈنگ کو کلیئر کروالیا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اتنی اہم عمارت کے باہر اور اندر سیکیورٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی تھی اور کس کے حکم پر ساری پولیس کو صبح فجر کے وقت اس عمارت سے واپس بلالیا گیا تھا۔ ہم نے اسی رات ایک نجی ٹی وی پر دیکھا کہ ایک موٹا بڑی مونچھوں والا شخص بڑے فخر سے بتارہا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں تھا لیکن اس کو چھوڑ کر عوامی تحریک میں شامل ہوچکا ہے اور اسی نے لوگوں کو پی ٹی وی میں داخل کروایا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ پی ٹی وی کو جانے اور پھر وہاں سے نکلنے کے ہر راستے کو جانتا ہے کیونکہ جب وہ مسلم لیگ ن میں تھا اسے پی ٹی وی میں آنے جانے کی کھلی چھٹی تھی۔ اس شخص کا ڈیل ڈول اور مونچھیں بالکل گلو بٹ جیسی تھیں۔ اس نے پولیس پر حملوں کا ذکر کیا۔ اس شخص کا یہ بیان اور اس کی شخصیت بہت سے سوالات چھوڑ گئی؟ پی ٹی وی کے واقعے نے عمران اور قادری صاحب کی اس تحریک کو نقصان پہنچایا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سارے واقعے کی منصفانہ تحقیق ہونی چاہئے کیونکہ عمران اور قادری صاحب تو ہمیشہ اپنے حامیوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ حکمران اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات دائر کرنے میں تو ماہر ہیں اور اپنی ایف آئی آرز درج کروانے میں بڑی سرعت برتتے ہیں لیکن اپنی پوزیشن یا مخالفت میں کھڑے عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ اب تو اپنے مخالف لیڈروں کو دہشت گرد بھی قرار دیا جارہا ہے۔ یاد رکھیں ’’زیادہ ڈرانے سے ڈر کا خوف ختم ہوجاتا ہے‘‘ اور اب یہی کچھ پاکستانیوں کے ساتھ ہوا اور اب وہ نہ تو دہشت گردی کے مقدموں سے ڈرتے اور نہ ہی پولیس کی گولی یا لاٹھیوں سے۔ حکمرانوں کے غیر منصفانہ رویوں سے ملک میں انارکی پھیلتی چلی جارہی ہے کیونکہ یہاں پر ہر سہولت، ہر حفاظت تمام وسائل امرا، اشرافیہ اور حکمران طبقے کے لئے ہیں۔ عام عوام کے لئے بھوک، مفلسی، انصاف کی عدم فراہمی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ حکمرانوں نے اگر اب بھی حقیقی جمہوری رویوںکو نہ اپنایا تو کل موجودہ دھرنوں سے بڑے دھرنے ہوں گے اور انہیں عمران خان یا علامہ قادری نہیں عوام خود لیڈ کریں گے۔
12 ستمبر 2014، روزنامہ جناح (غلام نبی مدنی)
گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ بظاہر اجلاس کا مقصد جمہور (عوام) اور ان کے دیئے گئے مینڈیٹ کی حفاظت کرنا تھا لیکن اس اجلاس میں سوائے اپنی اپنی کرسی کی حفاظت اور شاہ کی خوشامد اور خاطر مدارت کے کچھ نہیں کیا گیا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ چار دن تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں ڈھائی کروڑ سے زائد خرچ کردیئے گئے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پارلیمانی لیڈروں کے اناپرستی، کردار کشی اور مفاد پرستی سے بھرپور اس اجلاس میں اوسطاً روزانہ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ خرچ کئے گئے اور اس اجلاس کا ایک منٹ عوام کو ساٹھ ہزار روپے میں پڑا۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ سیلاب میں دوبنے والے بیچارے مظلوم پاکستانیوں کو چھوڑ کر اقتدار کے تحفظ کی خاطر اس طرح کے بھاری اور مہنگے اجلاس بلانا جمہور (عوام) پر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ حالیہ دو اجلاسوں میں عوام کی خاطر ایک بھی فیصلہ نہیں کیا گیا حتی کہ بعض باریک بینوں کے مطابق عوام کا نام تک نہیں لیا گیا۔ یہی ایک اجلاس نہیں آپ پارلیمنٹ کا کوئی بھی گزشتہ اجلاس اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر اجلاس میں آپ کو یہ ظلم نظر آئے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک کسی بھی اجلاس میں عوام اور انکے مسائل کے حل کے لئے کوئی قانون سازی یا پالیسی بنائی ہی نہیں گئی۔
دیکھا جائے تو دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں عوام کے ساتھ اس طرح کے ظالمانہ رویے پارلیمنٹ جیسے اداروں میں شاذو نادر ہی ملتے ہیں۔ تعجب تو اس پر ہے کہ لاکھوں کروڑوں کمانے کے باوجود یہ پارلیمانی لیڈر غریب کی جیب سے کھاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ہونے والے اجلاسوں کے اخراجات کا انکار نہیں لیکن جب اجلاس ہی ذاتی مفادات کے لئے بلائے جائیں تو پھر کیوں کر ان اخراجات کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے؟ اور اگر اجلاس عوام کی خاطر بلائے بھی جائیں تو کیوں کر کروڑوں روپے پرتکلف کھانوں پر لٹادیئے جاتے ہیں۔ دوسروں کو ون ڈش کا پابند کرنے والے یہ قانون ساز کیوں پچاس پچاس ڈشوں سے مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر جمہور کے ساتھ اگر اس طرح کا دھوکہ فرانس یاکسی دوسری ملک میں کیا جاتا تو کب کا انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ مگر افسوس ہمارے ملک کے جمہور جمہور نہیں ہیں۔ ان میں وہ شعور اور حس نہیں جس نے من مانیاں کرنے والے منافق شاہوں کو تختہ دار پر لٹکادیا تھا۔ میرا یقین ہے کہ جب بھی ہمارے جمہور کو یہ احساس ہوگیا کہ یہ پارلیمانی لیڈر پارلیمنٹ میں مشترکہ اجلاس کے نام پر روزانہ جو ساٹھ لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں، ایک منٹ میں جو ساٹھ ہزار روپے لٹاتے ہیں، ایک ایک اجلاس میں جو ساڑھے سات لاکھ تک کا کھانا کھاتے ہیں، ایک ایک غیر ملکی دورے پر جو کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، یہ سب پیسے ان کے خون پسینے کی کمائی ہیں تو اس دن نہ صرف انقلاب آجائے گا بلکہ جمہوریت کے نام پر جمہور کو تختہ مشق بنانے والے بھی تختہ دار پر لٹک جائیں گے۔ کاش اس دن سے پہلے جمہوریت کا خوش نما لباس اوڑھ کر ایک منٹ کا ساٹھ ہزار لینے والے اور دینے والے سمجھ جائیں۔
12 ستمبر 2014، روزنامہ جناح (محمود شام)
اصل میں پاکستانیوں کے لئے یہ بالکل ایک نئی روایت قائم ہورہی ہے۔ پہلے لمبے جلوس نکلتے رہے، کئی کئی گھنٹے جلسے چلتے تھے لیکن مسلسل ایک ہی جگہ دھرنے کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ حکومت، میڈیا اور عام پاکستانیوں کے لئے یہ بالکل نیا منظر نامہ ہے۔ دھرنے کے شرکاء کی بھی ہمت ہے اور دھرنے کے دونوں قائدین عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کا بھی حوصلہ ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا موسلا دھار بارشوں، پولیس کی آنسو گیس شیلنگ، لاٹھی چارچ، تین کارکنوں کی شہادت اور پانچ سو کے قریب زخمی ہونے کے باوجود 29 ویں دن میں داخل ہوگیا ہے، ملک بھر سے آئے ہوئے یہ ہزاروں احتجاجی انقلابی اپنی اپنی جگہ خیموں میں موجود ہیں۔
گھروں میں آرام سے بیٹھے ہزاروں پاکستانی ان کے مستقبل کو روشن اور مستحکم بنانے کی خاطر دھرنے میں اپنا فرض انجام دیتے ہم وطنوں کو دیکھ رہے ہیں مگر اس کار خیر اور انقلابی عمل میں شریک نہیں ہورہے لیکن اس انقلاب کے ثمرات ان تک بھی پہنچیں گے۔ کوئی طوفان یہ نہیں دیکھتا ہے کہ کون اس کا راستہ روکتا ہے اور کون نہیں روکتا۔ اسی طرح انقلاب اور جمہوریت بھی نہیں دیکھتے کہ اس کے پھل کس تک پہنچ رہے ہیں کسی نے اس کے لئے جدوجہد میں حصہ لیا تھا یا نہیں وہ پھل سب کو کھانے کے لئے ملتے ہیں۔
آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہیں آپ کا جی چاہتا ہوگا کہ شاہراہ دستور پر پہنچیں، ڈی چوک میں آزادی کے لئے نعرہ بلند کرنے والوں میں شامل ہوں۔ تاریخ جب لکھی جارہی ہو اور آپ بھی ان قافلوں میں شامل ہوں تو آپ کو کتنا فخر محسوس ہوتا ہے اور آپ اپنے پیاروں، بیٹوں، بیٹیوں اور عزیزوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم بھی ان تاریخی لمحوں میں موجود تھے اب بھی ایسا ہی شاندار منظر نامہ ہے۔ تاریخ لکھی جارہی ہے۔
ساجد خان راولا کوٹ آزاد کشمیر سے پیغام دے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں بیٹھے عمران خان، طاہرالقادری اور ان کے کارکنوں کو سلام۔ طاہرالقادری صاحب اور انکے ساتھی ڈٹے رہیں ظلم کی رات ختم ہونے والی ہے، ایک پیغام ہے۔ دھرنے اس ملک کے روشن اور پرامن مستقبل کی علامت ہیں۔ میری آنکھیں دھرنے کے نتیجے میں ایک روشن پاکستان کو دیکھ رہی ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے مگر اس وقت اسلام آباد دھرنے میں موجود تنویر احمد کہتے ہیں دھرنوں نے ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ ایک طرف محب وطن عوام ہیں اور دوسری طرف خود غرض لٹیرے حکمران ہیں۔ جنہیں صرف کرپشن نے اکٹھا کررکھا ہے۔ ایک واضح مثال چوہدری نثار علی خان اور چوہدری اعتزاز احسن نے پیش کردی ہے۔ دھرنوں کی طوالت کی وجہ سے بہت سے چہروں سے نقاب اٹھ رہا ہے۔ آفتاب احمد خان ڈگری تحصیل احمد پور سیال جھنگ سے لکھتے ہیں ہم دس اگست سے دھرنے میں شامل ہیں اور ہم پاکستان عوامی تحریک کے رکن نہیں ہیں لیکن ہم اپنے حق کے لئے طاہرالقادری کی بصیرت پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہیں۔ ایک بیٹی ریحانہ یاسین قادری سرگودھا سے تعلق رکھتی ہیں، اس ملک میں حکمران انسانوں کو حیوان سمجھ رہے ہیں۔ ان کو یہاں پارلیمنٹ کی گندی سڑکوں کی فکر ہے۔ مگر غریب عوام کی فکر نہیں ہے جو ایک ماہ سے اپنے حق کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ یہ کون سے آئین پر عمل پیرا ہیں آپ ان ظالموں کے خلاف لکھتے رہیں۔ تلہ گنگ سے انقلاب مارچ میں شامل حلیمہ سعدیہ لکھتی ہیں آج ملک دوراہے پر کھڑا ہے دھرنے میں شرکت کرنے والوں کا شمار ملک بچانے والوں میں ہوتا ہے اور باہر بیٹھ کر ان کے خلاف بولنے اور حکومت زندہ باد کہنے والوں کی تعداد اس وقت کم رہ گئی ہے وہ ملک کو تباہ کرنے والے عوام فیصلہ کریں کہ وہ اپنا شمار کن میں کروانا چاہتے ہیں۔ انقلاب دھرنے میں شامل ایم عرفان سودیس راؤ خان والا قصور کہتے ہیں آپ کی تحریر سے حوصلے بلند ہوتے ہیں آپ انقلاب میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ عدنان اہم پوسل ضلع منڈی بہاؤالدین سے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے تو کمال کردیا آپ واقعی غریبوں کی جنگ لڑرہے ہیں۔ سردار عمر دراز خان لیہ سے دھرنے میں یکم اگست سے شامل ہیں اور اس وقت تک شامل رہنے کا عزم ظاہرکررہے ہیں جب تک ظالم موجود ہیں۔ قائدآباد سے عمران 8 اگست سے انقلاب مارچ میں شامل ہیں۔ 11 اگست سے 17 اگست تک کوٹ لکھپت جیل میں صعوبتیں برداشت کیں، رہائی کے بعد یہ ظالم و جابر حکمرانوں کے خاتمے کے لئے دھرنے میں پھر موجود ہیں اور ان کا عزم ہے کہ غریبوں، مظلوموں کو اقتدار منتقل ہونے تک یہیں رہیں گے چاہے شہادت ہی پیش کرنی پڑے۔ نام بتائے بغیر ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ بے شمار لوگ اپنی ملازمت کو داؤ پر لگاکر دھرنے میں موجود ہیں۔ ایم امتیاز بھی پاکستان عوامی تحریک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انقلاب کے لئے ہمیشہ جان، مال، گھر بار اور عزیزوں کی قربانی دینی پڑتی ہے، الحمدللہ ہم قربانیاں دے رہے ہیں، جلد ہی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
13 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
17جون سے چند یوم پیشتر قائد انقلاب ڈاکٹر طاہرالقادری جب انگلینڈ سے تشریف لائے تو دیگر ایشوز پر بات کے علاوہ پاکستان روانگی اور ممکنہ خدشات و خطرات پر کافی گفتگو ہوئی۔ یوں تو کئی دوسرے مسائل پر ہمارے تحفظات یکساں تھے مگر حکمرانِ وقت سے اس بات کی قطعاً توقع نہ تھی کہ وہ 17جون کے دن ظلم کے پہاڑ ڈھا کر انقلاب کی بنیادوں میں خون بھر دیں گے۔ اسی روز ڈاکٹر صاحب سے پھر مشاورت ہوئی تو پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے اس عظیم انسان نے مجھے یہ خوبصورت الفاظ کہے ’’مشکلات ہمیشہ بہترین لوگوں کے حصے میں آتی ہیں کیونکہ وہی اسے بہترین طریقے سے نبرد آزما ہونے اور سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘‘ آج 13ستمبر ہے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے قافلوں کو طلوع ہوئے پورے 30دن ہو گئے ہیں اور اس دوران شہدائے ماڈل ٹاؤن کا خون سفر کرتے ہوئے اسلام آباد میں ایوانِ اقتدار کی دہلیز پار کر چکا ہے۔
شاید کچھ لوگ جوش عقیدت میں میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر عمران خان کی محنت، لگن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا شعور اور ویژن اپنا اثر دکھا چکا ہے۔ گذشتہ 30دنوں سے جتنا ٹیلی ویڑن چینلز کو دیکھا گیا اور روزانہ دو سے تین دفعہ انقلابی قیادت کو لوگوں سے براہِ راست مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے کروڑوں گھرانوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے نظریات سوچ اور فکر کو وہ پذیرائی اور رسائی حاصل ہو چکی ہے، جو دنیا کی تاریخ میں بانیان انقلابات نے حاصل کرنے کے لیے سال ہا سال صرف کیے تھے۔ آج ہم لینن، مارکس، امام خمینی اور نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور نتائج کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ایک موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا خوب کہاکہ’’ قرضوں کے محل کا غلام ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جھونپڑی میں حاکم ہو‘‘ آج وطن عزیز کا ہر طبقہ کسان، طالب علم، مزدور، سروس مین اور لوئرمڈل کلاس سمیت وطن عزیز کے اہل ہنر اور کوالیفائیڈ طبقہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں چوروں کی انجمن کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔
آج قدرت نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم ایک مصمم ارادے کے ذریعے اپنا حق چھیننے والے ان جمہوری لٹیروں سے جان چھڑا لیں۔ آج 30روزہ جشن انقلاب اور جشن آزادی مناتے ہوئے ذرا سوچیئے گا کہ 18ارب روپے کے فلیٹ میں رہنے والے کچی بستیوں کے دوست کیونکر ہو سکتے ہیں؟ قارئین! آج ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے حاصل گفتگو یہ شعر سنایا:
نگاہِ فقر میں نشانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ کیسریٰ کیا ہے
13 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (خالد کاشمیری)
پاکستان کا سیاسی منظر کس افسوسناک حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ قرائن اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ رہروانِ سیاست نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ لگتا ہے انکی تاریخ پر نظر ہی نہیں۔ پارلیمنٹیرین خواجہ محمد صفدر، نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود اور انکے رفیقوں کی 1973ء میں پارلیمنٹ میں شنوائی نہ ہوئی تو انہوں نے سڑکوں پر آنے کو ترجیح دی۔ ان نہتے قائدین کو احتجاج کرنے پر اس وقت کے وفاقی و صوبائی وزراء نے کھلے لفظوں میں دھمکیاں دی تھیں کہ ان لوگوں کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ یہ یاد رکھیں گے بالآخر ان قائدین کو متشددانہ انداز میں گرفتار ہوکر پابند سلاسل ہونا پڑا۔ اب بھی ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پارلیمنٹیرین اسمبلیوں کی کارکردگی سے مایوس ہونے کے بعد حصول حقوق کی خاطر صوبائی دارالحکومت لاہور سے قریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر کا فاصلہ عظیم الشان جلوس کی شکل میں طے کرنے کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے کچھ ہی فاصلے پر احتجاج دھرنا ہوئے ہیں۔ انکی قیادت پاکستان کی نمایاں سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کر رہے ہیں جبکہ انکے قریب ہی پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر طاہرالقادری کی زیرقیادت ان ہزارہا مردوزن اور بچوں سے عبارت شرکاء دھرنا ہیں جو ملک کے مختلف حصوں سے آکر اس احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں۔ اس دھرنے میں ایک ڈیڑھ سال کے بچوں سمیت نوعمر بچے بچیاں، نوجوان لڑکے لڑکیاں اور ادھیڑ عمر مرد و زن بھی شامل ہیں۔
عمران خان اور علامہ طاہرالقادری آئین کی بالادستی اور جمہوریت پر مکمل یقین رکھنے کے عہد کو دہراتے رہتے ہیں۔ 1973ء کی اپوزیشن کی تقلید میں یہ دونوں جماعتیں ایک تاریخ ساز احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ اس راہ میں انہیں خواجہ محمد صفدر کے نورنظر خواجہ محمد آصف، خان عبدالولی خان کے لختِ جگر اسفند یار ولی خان، مولانا مفتی محمود کے فرزند دلبند مولانا فضل الرحمن اور بیگم خواجہ فرحت رفیق فرزند بلند اختر، خواجہ سعد رفیق کی طرف سے اسی قسم کے تیرو نشتر سے نوازا جا رہا ہے جو انکے آباء کو 1973ء میں اس دور کے وزراء سے تحفے میں ملے تھے۔ خان عبدالولی خان احتجاجی تحریک کے آغاز سے قبل درجن بھر شہداء کی میتوں کو لیکر راولپنڈی گئے تھے اور اب کے ڈاکٹر طاہرالقادری حکومت پنجاب کے ایما پر منہاج القرآن سیکرٹریٹ واقع ماڈل ٹاؤن میں پنجاب پولیس کی فائرنگ سے شہید ہونیوالے چودہ شہداء کی تجہیزوتکفین کے بعد اس وقت عازم اسلام آباد ہوئے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس خونچکاں حادثے کی ایف آئی آر ہفتوں بعد درج ہوئی۔ وہ بھی لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر۔ حکومت پنجاب پر 14 مردو خواتین کو شہید اور سو کے قریب افراد کو بے رحمانہ طریقے سے گولیوں سے زخمی کردینے کا داغ کب دھلے گا؟ کیسے دھلے گا؟ کون دھوئے گا؟ یہ ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب زبان زدعام ہے! مگر نہیں سمجھ رہے تو ایوان اقتدار کے مکین ہیں جنہیں ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘حاشیہ نشینوں نے پھول کلیوں میں الجھا رکھا ہے۔ وجوہ کچھ بھی ہوں مگر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے اسلام آباد میں تاریخ کے طویل ترین دھرنوں کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 41 برس قبل کے پارلیمنٹیرین نے پارلیمنٹ سے باہر سڑکوں پر جو احتجاجی تحریک شروع کی تھی، آگے چل کر ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے نام پر منتج ہوئی تھی جس نے تاجداروں کے غرور و نحوست کے محل زمیں بوس کرا دیئے تھے۔
12 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (ارشاد احمد عارف)
سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں سینٹر روبینہ خالد کا گلہ بجا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے خیمہ بستی آباد ہوگئی ہے اوپن باتھ روم قائم ہیں اور خوبصورت گرین ایریا کھوکھا شہر بن گیا ہے۔ سی ڈی اے کارروائی کیوں نہیں کرتا؟
اسلام آباد کوئی عام شہر نہیں۔ یہ اس مقدس و پوتر آسمانی مخلوق کا مسکن ہے جو پورے پاکستان کی ان داتا اور حکمران ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس اس کا ’’تکیہ‘‘ ہے اور سید خورشید شاہ، محمود خان اچکزئی، زاہد خان، روبینہ خالد اس کے تکیہ دار۔ نوجوان نسل سے معذرت کہ تکیہ اور تکیہ دار کے لفظ سے وہ کافی حد تک ناآشنا ہے۔ قبرستان کے نکڑ پر مست ملنگ لوگوں کی آرام گاہ سمجھ لیں جہاں یہ اکٹھے ہوکر موج مستی کرتے، دنیا جہاں کی فکر سے آزاد ہوکر عالم بالا کی خبر لاتے، ہر ایک کی خبر لیتے اور اونچے سروں میں بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کا راگ الاپتے ہیں۔
اسلام آباد خوبصورت شہر ہے کسی زمانے میں ہمارے بنگالی بھائیوں کو دارالحکومت کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی تھی۔ نازک مزاج اسلام آبادیوں نے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے ان بنگالیوں کو چلتا کیا تاکہ ایک فیصد مقامی آبادی کی نظر میں 99 فیصد قابض پردیسیوں کے عیش و آرام میں مخل نہ ہوسکیں۔ یہ پردیسی ملک کے مختلف حصوں سے جمع ہوئے، شہر کے رہائشی رقبے اور ملک کے وسائل و اختیارات پر قابض ہوئے اور اب نہیں چاہتے کہ کوئی دوسرا حسن و جمال کے پیکر اس شہر میں داخل ہوکر حق ملکیت جتلاسکے۔ یہ اپنے ماضی، اپنے آباؤ اجداد کے رہن سہن اور 18 کروڑ آبادی کی اکثریت کے بودوباش کو بھول چکے ہیں انہیں بندہ مزدور کے تلخ اوقات کا احساس ہے نہ عوام کے مسائل، مصائب اور مشکلات کی فکر۔
صرف عوامی نمائندوں ہی نہیں اسلام آباد کی معطر صبحوں، گل رنگ شاموں کے عادی نازک اندام و نازک مزاج اور گلاب چہرہ شہریوں کو بھی عارضی خیمہ بستی سے گھن آتی ہے اور اس بستی کے مکینوں کی شبانہ روز سرگرمیوں سے وحشت ہوتی ہے۔ محمود اچکزئی سے لے کر حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمن نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ان خانہ بدوشوں کے بارے میں جو کہا وہ اسلام آباد کی آب و ہوا کا اثر تھا ورنہ ان میں سے کون نہیں جانتا کہ خیمہ بستی کے مکین کچھ نیا نہیں کررہے۔ پاکستانیوں کی 95 فیصد آبادی کا طرز زندگی ایسا ہی ہے بلکہ اس سے کہیں بدتر۔
صرف دیہی علاقوں میں نہیں چھوٹے شہروں، قصبات اور لاہور، کراچی، ملتان، پشاور کے نواح میں لوگ اسی طرح رہتے ہیں۔ ایک کمرے میں پورا خاندان اور ساتھ ہی گائے بھینس بکری، گدھے گھوڑے کی کھرلی۔ گلی کوچوں میں گلے سڑے پھلوں، سبزیوں، چنے، قلفی کی ریڑھیاں، سگریٹ پان کے کھوکھے، اوپن باتھ روم اور دیواروں کے ساتھ لگ کر یا کسی جھاڑی کی اوٹ میں رفع حاجت کا اہتمام۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں، عوام کے خون پسینے پر پلنے والے ریاستی اداروں و عہدیداروں اور منتخب عوامی نمائندوں نے انہیں جدید شہری سہولتوں سے محروم رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور اپنا حق مانگنے والوں کو منتخب ریاست کا باغی، دہشت گرد، سسٹم کا دشمن گردانا جاتا ہے۔
کھمبوں سے غیر قانونی بجلی حاصل کرنا اور سرکاری پائپوں سے پانی لینا صرف غریبوں، کمزوروں اور خانہ بدوشوں کے لئے جرم ہے طاقتور اور باوسیلہ لوگ کراچی، پشاور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں یہ کام ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ چوری کی بجلی سے فرنس کی بھٹیاں اور فیکٹریاں چلتی ہیں۔ بڑے بڑے محلات روشن اور کنڈے سے پورے محلے کو بجلی سپلائی ہوتی ہے مگر مجال ہے پارلیمنٹ میں کسی نے شور مچایا ہو یا اسلام آباد کے قریب کھیتی باڑی کے لئے الاٹ ہونے والے فارم ہاؤسز کو پرتعیش محلات، شادی ہالوں، نائٹ کلبوں میں تبدیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لئے۔
یہ خیمہ بستی نو دولتیوں اور وسائل خوروں کے لئے عجوبہ ہوگی مگر 95 فیصد عوام کے لئے نہیں جو صدیوں سے اس کے عادی ہیں کیونکہ انکی محنت، مشقت اور ریاضت کا پھل کھانے والے جاگیرداروں، تمنداروں، سرمایہ داروں، تجارت پیشہ سیاستدانوں اور سول و فوجی حکمرانوں نے آج تک انہیں آسودہ و خوشحال دیکھنے کی خواہش کی نہ انہیں جدید شہری سہولتوں سے بہرہ ورکرنے کی شعوری کوشش جو اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں رہنے والوں کو دستیاب و میسر ہیں۔
یہ خیمہ بستی دو چار بڑے شہروں کے سوا باقی ماندہ پاکستان کی سو فیصد حقیقی اور سچی تصویر ہے اور ملک کے طول و عرض میں بسنے والی محروم بدقسمت رعایا کے شب و روز کی داستان۔ اقبال و قائداعظم نے ان کی تقدیر بدلنے کے لئے آزاد وطن کا خواب دیکھا مگر انکے جانشینوں نے نو آزاد ریاست کو طاقتوروں، آمروں، غاصبوں اور ظالموں کی تجربہ گاہ بنادیا۔ دنیا بدل گئی مگر یہ ظالم بدلے نہ ان کے طور طریقے اور نہ طرز حکمرانی۔
امرا، سیاستدانوں اور حکام کو سی ڈی اے پر غصہ ہے کہ وہ ان غریبوں، کمزوروں اور میلے کچیلے شہریوں کو زور زبردستی سے نکال باہر کرنے میں سستی کیوں دکھا رہا ہے۔ غریبوں کا دم بھرنے والے عوامی نمائندے ایک ماہ میں ان خانہ بدوشوں سے اکتا گئے ہیں اور حکومت، فوج، پولیس، انتظامیہ اور سی ڈی اے سے بار بار کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں مگر قابل داد ہیں یہ محروم، مظلوم، بے کس، بے بس اور غریب و بے آسرا عوام جو ابھی تک ظلم و زیادتی کے موجودہ نظام سے اکتائے ہیں نہ حکمرانوں اور اپنے منتخب نمائندوں کی مسلسل بے نیازی سے۔ اپنے اپنے ظرف اور حوصلے کی بات ہے۔
شمع تجھ پہ یہ رات بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
13 ستمبر 2014، روزنامہ جناح (محمود شام)
دھرنوں کو ایک ماہ ہوگیا ہے۔ آسمان کی آنکھ نے پاکستان میں اتنے لمبے دھرنے کہاں دیکھے ہوں گے۔ اب دھرنوں میں جو انتظامات ہیں ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مزید کئی ہفتوں تک یہیں قیام کریں گے۔ اب تو باقاعدہ تندور بھی لگ گئے ہیں، روٹی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ کپڑے پارلیمنٹ کے جنگلوں پر سوکھ رہے ہیں۔ مکان خیموں میں بن گئے ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا انتظام خلق خدا نے خود کرلیا ہے۔ ہفتے کے دن مہینہ پورا ہونے کے بعد جشن یکجہتی منانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ امکان ہے کہ آج کارکنان زیادہ تعداد میں آئیں گے۔ اس لئے دھاندلی کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت نے مزید دھاندلی شروع کردی ہے۔ کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن بڑی تعداد میں گرفتار کئے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے 16 ذاتی محافظ بھی حراست میں لے لئے گئے ہیں۔ دھرنے والوں کے حوصلے پھر بلند ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ گرفتاریاں، جیلیں، حوالات تو جمہوریت کے سفر کا لازمی حصہ ہیں۔ آزادی اور خوشحالی کی منزل تک یہی راستہ لے کر جاتا ہے۔
اب جب آزادی اور انقلاب کے لئے عوام ایک طویل جدوجہد میں مصروف ہیں تو جیلیں اور حوالات تو ایک لازمی حصہ ہیں۔ وہ جوان بھی ہنسی خوشی جیلوں میں جارہے ہیں ان کے والدین، اہل خانہ بھی پریشان نہیں ہیں وہ اسے اپنی تگ و دو اور کوششوں کا جزو لازم سمجھ رہے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں ہی خوشحالی کا موسم شروع ہوگا۔ آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
جمہوریت اور آئین کے نام پر سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے والے۔ عام لوگوں کی جان و مال سے کھیلنے والے، ملک کو زوال کی نئی نئی پستیوں میں لے جانے والے محض اس لئے اکٹھے ہورہے ہیں کہ مڈل کلاس جاگ گئی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا کہ آج ملک میں جو آزادی اور خوشحالی ہے۔ میرٹ کی حکمرانی ہے قانون سب کے لئے یکساں ہے۔ یہ سکرپٹ عمران خان اور طاہرالقادری صاحب نے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر اگست ستمبر کے مہینوں میں لکھا تھا۔ آج ملک میں مڈل کلاس کے ہاتھوں میں جو اختیارات ہیں، وسائل ہیں، اس حقیقی جمہوریت کی بنیاد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے بے خوف کارکنوں نے اگست، ستمبر 2014ء میں پارلیمنٹ کے سامنے کھلے آسمان تلے کئی ہفتے بیٹھ کر لکھی تھی۔
خیموں میں صبح حسین کے لئے دن رات گزارنے والے کتنے فخر سے آئندہ نسلوں کو بتایا کریں گے کہ آج پارلیمنٹ میں عملدرآمد ہورہا ہے۔ آج سرکاری نوکری صرف ریلیف کی بنیاد پر ملتی ہے۔ اب سیاسی پارٹیوں میں عہدے کارکنوں کو ان کی فرمانبرداری اور اہلیت کے باعث ملتے ہیں۔ کسی سیاسی جماعت پر اب کسی خاندان کا قبضہ نہیں ہے۔ پارٹی کی سربراہی موروثی بنیادوں پر نہیں ملتی ان قابل فخر روایات کا آغاز ہم نے 2014ء کی گرمیوں کیا تھا۔
میں خیموں میں اور ان کے سامنے نوجوانوں کی پیشانیوں پر ایک والہانہ چمک دیکھ رہا ہوں ان کی آنکھوں میں ارادوں کی جگمگاہٹ ہے، مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے گھروں سے بہت دور اس لئے بیٹھی ہیں کہ آنے والے دور میں مائیں، بہنیں، بیٹیاں عزت سے زندگی گزار سکیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک سڑک کے کنارے چٹائی پر ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے بیٹھنے اور سونے والی یہ محترم خواتین کیا اپنے گھروں میں اس طرح بے آرامی سے جیون گزارتی ہوں گی۔ آخر یہ یہاں کس لئے ہیں کیا یہ کوئی ٹینک ہے، میلہ ہے یا کارنیوال ہے۔ حکمران کیوں خوف زدہ ہیں۔ پارلیمنٹ میں برسوں سے باریاں لینے والے کیوں بے چین ہیں۔ اس لئے کہ مڈل کلاس بیدار ہوگئی ہے۔ یہ خاندان کے خاندان جو یہاں تالیاں بجارہے ہیں۔ نعرے بلند کررہے ہیں پرچم لہرارہے ہیں ان کے ماتھوں پر امید اور یقین جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہ پہلے تو ووٹ دینے کے لئے چند منٹ بھی نہیں آتے تھے۔ اب تو ایک ماہ سے یہاں پر براجمان ہیں کیا ان کی محنت کا پھل ان کو نہیں ملے گا۔ کیا ان کی جدوجہد بے نتیجہ رہے گی نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ دھاندلی والوں کو حکومت چھوڑنا ہوگی۔ لوٹ مار کرنے والوں کو خزانے سے دوچار جانا ہوگا۔
نظام بدلے گا۔ آئین میں عوامی مفاد میں ترمیم ہوسکتی ہے۔ علامہ طاہرالقادری نے اپنی تقریروں میں بہت وضاحت سے اس مثالی نظام کی تفصیلات پیش کی ہیں۔
14 ستمبر 2014، روزنامہ دنیا (کنور دلشاد)
موجودہ پارلیمنٹ ایک ایسے الیکشن کمیشن کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہے جس کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے مروجہ طریق کار کے مطابق نہیں ہوئی تھی۔ 24جنوری 2013ء کو جناب ایس ایم ظفر اور ان کی ٹیم نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی نمائندگی کرتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک، اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، چوہدری شجاعت اور دیگر اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے یہ اہم آئینی نکتہ اٹھایا تھا کہ موجودہ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213 سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ہی الیکشن کے 28سالہ تجربہ کی روشنی میں محترم ایس ایم ظفر کی توجہ ادھر مبذول کرائی تھی۔ جناب فاروق نائیک پاکستان کے قابل ترین ماہر قانون ہیں۔ انہوں نے ایس ایم ظفر کی باریک بینی پر غوروخوض کرنے کے لئے چند روز کی مہلت مانگی اور جو معاہدہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے علاوہ دیگر اتحادی جماعتوں کے مابین ہوا تھا، اس کی اہم شق یہی تھی کہ الیکشن کمیشن غیر آئینی ہے۔ اسی معاہدہ کے تحت ڈاکٹر طاہرالقادری اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کا اہم اجلاس لاہور میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے سیکرٹریٹ میں 27 جنوری 2013ء کو منعقد ہوا۔ جہاں خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الہٰی، مخدوم امین فہیم، ڈاکٹر فاروق ستار، بابرغوری اور سید مشاہد حسین کی موجودگی میں حکومتی وفد کے سربراہ خورشید شاہ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے دلائل سن کر تسلیم کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213 کے طریق کار کے مطابق نہیں ہوئی، تاہم وہ اس پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں، اس لئے کھلم کھلا اس کا اعتراف کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مشورہ دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کرکے اس غیر آئینی تشکیل کی طرف توجہ دلائیں۔ وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل عرفان قادر مخالفت نہیں کریں گے۔ دونوں اطراف کے رہنماؤں کی رضا مندی سے میں نے اس اہم میٹنگ میں غیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ لہذا ڈاکٹر طاہرالقادری نے غالباً 22 فروری 2013ء کو سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے بارے آرٹیکل (3)184 کی رو سے آئینی پٹیشن دائر کردی۔ بدقسمتی سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری قومی مفاد کے برعکس ان کی آئینی درخواست کو دوہری شہریت کی لپیٹ میں لے کر علامہ صاحب کی تضحیک کرتے رہے۔ حالانکہ دوہری شہریت کی حامل شخصیت معین قریشی کو بھی 22 جولائی 1993ء کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی آئینی پٹیشن پر فیصلہ نہیں دیا حالانکہ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے موقف کی تائید کی تھی۔
ان حالات میں 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آئینی ماہرین کی نظر میں سوالیہ نشان ہیں۔ اگر سپریم کورٹ بار کونسل ملک کو آئینی بحران سے نکالنے کے لئے محفوظ راستہ دینا چاہتی ہے تو الیکشن کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کرکے اس کی آئینی حیثیت پر رولنگ حاصل کرے۔ اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دے تو پھر قومی انتخابات کو غیر آئینی قرار دے کر از سر نو انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے صبر آزما احتجاجی دھرنوں سے ملک کے عوام جاگ گئے ہیں۔ عسکری قیادت نے بھی حکومت کو وارننگ دے دی ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔ میاں نواز شریف نااہل وزراء کے نرغے سے نکل کر حالات کا جائزہ لیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے احتجاج کو کچل دینا حکومت کے پاس آخری حربہ تھا لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکن پنجاب بھر سے منگوائی ہوئی چالیس ہزار پولیس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ مظاہرین پر کبھی کسی آمر جرنیل نے بھی اس طرح طاقت کا کھلا استعمال نہیں کیا تھا جو موجودہ حکومت نے کیا۔ اس وقت پاکستان عوامی تحریک کے کارکن فاتحانہ انداز میں میدان میں موجود ہیں۔ ان کا عزم دیکھتے ہوئے میاں نواز شریف اسی طرح اقتدار سے دستبردار ہوجائیں جس طرح فیلڈ مارشل ایوب خان صدارت سے مستعفی ہوگئے تھے۔
15 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (مظہر برلاس)
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مارچ کئے اور اب دھرنے دیئے ہوئے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ انہیں قیامت کے منظر بنانے میں خود حکومت کا کردار ہے، پہلے ماڈل ٹاؤن میں 17 جون کو لاشیں گرادی گئیں جیسے پتہ نہیں وہاں کتنی بڑی فوج تیار ہورہی تھی پھر ایف آئی آر میں لیت و لعل سے کام لیا گیا آزادی اور انقلابی مارچ کو روکنے کے لئے سات اگست کو کریک ڈاؤن کردیا گیا پورے پنجاب اور اسلام آباد کو اس طرح کنٹینروں سے بندکردیا گیا جیسے سکندر اعظم حملہ آور ہونے والا ہو، تمام سڑکوں، چوراہوں اور چھوٹے موٹے کچے راستوں کو بند کردیا گیا تھا یہ جس کا بھی مشورہ تھا اس کا دماغی ٹیسٹ کروانا چاہئے پھر ایک رات اسلام آباد میں دھرنے والوں پر دھاوا بول دیا گیا شب بھر شیلنگ ہوتی رہی، گولیاں برستی رہیں، پوچھنے والا کوئی نہیں تھا وہ جو سبزی مہنگی ہونے پر سو موٹو ایکشن لیتے تھے خاموش رہے۔
دھرنے والے تو آگے بڑھ چکے تھے، وزیراعظم ہاؤس کے دروازے، سیکرٹریٹ کے دروازے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے لان پر ان کا قبضہ تھا پھر وہ ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے واپس ڈی چوک آگئے جسے اب آزادی چوک یا آزادی اسکوائر کے نام سے یاد کیا جانے لگا ہے۔ اب جب وہ ڈی چوک واپس آچکے تھے تو اب کس مرض کی دوا ڈھونڈنے کے لئے پرانی فلم دہرائی گئی کیا ضرورت تھی کہ پورے ملک میں کریک ڈاؤن کردیا جاتا، کیا ضرورت تھی کہ شہر شہر گرفتاریاں کی جاتیں، کیا ضرورت تھی کہ پورے پنجاب کی سڑکوں کو بند کردیا گیا، سمجھ نہیں آرہی کہ پورے صوبے پنجاب کو قیدی بنانے کا کیا فائدہ ہے، ایک طرف لوگ سیلاب میں گھرے ہوئے ہیں سیلاب زدگان محفوظ علاقوں کو منتقل ہونا چاہ رہے ہیں ان کے لئے کیوں سڑکیں بند کردی گئی ہیں ایسی عزت پہ لعنت جو ذلت سے برآمد ہوتی ہو اور عزت پھر بھی نہ رہے آپ نے حکمرانوں کے دوروں کی فوٹیج تو دیکھی ہوگی اس میں ان کی ’’عزت افزائی‘‘ کے لئے لگائے گئے نعرے بھی سنے ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کی روایت کو برقرار نہیں رکھ سکی بلکہ آمرانہ ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے مثلاً اس بات کی کیا ضرورت تھی کہ بارہ تیرہ ستمبر کو پورے پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی، ڈبل سواری پر پابندی کیوں لگائی گئی اور کنٹینروں سے پورا صوبہ سیل کردیا گیا یہی صورتحال وفاقی دارالحکومت میں تھی، میرا شہر اسلام آباد کئی دنوں سے حکمرانوں نے قیدی بنارکھا ہے یہاں دو کنٹینروں کے جواب میں آٹھ سو کنٹینرز کھڑے کئے گئے ہیں۔ گویا کنٹینر بمقابلہ کنٹینر کی صورتحال یہ ہے کہ دو کنٹینر بمقابلہ آٹھ سو کنٹینر، نااہل سیاسی مشیروں نے میاں نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے ممکن ہے ان کے صحافتی مشیر بھی نکمے ہوں مثلاً گرفتاریوں کی کیا ضرورت تھی، ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ گرفتاریوں سے معاملات میں الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور الجھاؤ تو مسئلوں کا حل نہیں ہوتا۔ شہر شہر گرفتاریوں کی کیا ضرورت تھی اس سارے پھیلاؤ میں حکومت کا اپنا ہی کردار ہے۔
15 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (نفیس صدیقی)
سیاسی تحریکیں کامیاب ہوں یا ناکام، وہ اپنے اثرات ضرور چھوڑتی ہیں۔ یہ اثرات کبھی مثبت ہوتے ہیں اور کبھی منفی۔ ان دھرنوں کے اثرات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔ مثبت اثرات یہ ہیں کہ سیاسی قوتوں نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ جمہوری اداروں کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ پہلی مرتبہ اس ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لئے متحد نظر آئی ہیں یہ اور بات ہے کہ یہ اتحاد کچھ مخصوص مفادات کے لئے ہے۔ ان دھرنوں سے ملک کی سیاسی قیادت کو بھی یہ احساس ہوا ہے کہ اب روایتی سیاست کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو نہیں چلایا جاسکتا۔ اب شعوری کوشش کی جائے کہ سیاسی جماعتوں کو جمہوری انداز میں ازسر نو منظم کیا جائے اور سیاسی جماعتوں کے منشور پر عمل درآمد کیا جائے۔ اب یہ بھی احساس پیدا ہوگیا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں عوام سے کٹی ہوئی ہیں یا جن کی تنظیم نہیں ہوگی، وہ آئندہ عام انتخابات میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی۔ ان دھرنوں سے عوام میں بھی سیاسی شعور بیدار ہوا ہے اور ان کی تبدیلی سے متعلق امنگیں اور خواہشات اجاگر ہوکر آئی ہیں۔ دھرنوں کے دوران اگرچہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جمہوریت کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا گیا لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ کرپشن، لوٹ مار اور بیڈگورننس بھی ہے۔ جمہوریت کی حمایت بہت اچھی بات ہے مگر اس کے پیچھے ان لوگوں نے بھی یہ ہی کیا ہے یہ دراصل ان کو اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہے۔ ایسی صورت حال میں جمہوریت کو زیادہ دیر نہیں چلایا جاسکتا۔ سیاسی قیادت کو یہ بھی احساس ہوگیا ہے کہ احتساب کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک نے ملک کی موجودہ قیادت خاص طور پر وہ قیادت اور وہ پارٹیاں جو پچھلے 30 سال سے اس ملک میں جمہوریت کے نام پر کچھ مخصوص خاندانوں اور افراد کے لئے سیاست کررہی ہیں ان کی روایتی سیاست پوری طرح عوام کے سامنے آچکی ہے وہ اب غیر متعلق ہوتی جارہی ہے۔
16 ستمبر 2014، روزنامہ دنیا (آغا مسعود حسین)
ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں پر بعض عناصر کو اختلاف ہے۔ یہ اختلاف کرنا ان کا جمہوری حق ہے، لیکن جو عناصر اختلاف کررہے ہیں انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا مسلم لیگ ن کی جانب سے 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف طاہرالقادری اور عمران خان کا دھرنا غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے؟ پاکستان کے آئین کی بعض شقوں مثلاً18 اور 19 کے مطابق کسی ایک جگہ جمع ہوکر حکومت وقت کے خلاف احتجاج کرنا عین جمہوری ہے، نیز یہ گزشتہ سال کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف ایک ایسا احتجاج ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس احتجاج میں زیادہ تر نچلے اور متوسط طبقے کے خواتین و حضرات شریک ہیں جو گذشتہ 28 دنوں سے اس فرسودہ، سڑے ہوئے استحصالی نام نہاد جمہوری نظام کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں (جو دراصل عوام کی اکثریت کے مطالبات ہیں) موسم کی تمام تر بے رحمیوں کے باوجود نعرہ حق بلند کررہے ہیں۔ اگر دھرنے دینے والوں کے مطالبات منظور کرلئے جاتے ہیں تو پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہوسکتا ہے جس میں کڑے احتساب کے ساتھ قانون کی بالادستی اور عوام کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی جائے گی اور اس فلاحی ریاست کا قیام ممکن بنایا جائے گا جس کا پاکستان کے دستور 1973ء میں بڑی وضاحت سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 67 سال گزر جانے کے باوجود مختلف ادوار میں منتخب ہونے والی اسمبلیوں میں آئین کی روشنی میں عوام کو سہولتیں پہنچانے کے سلسلے میں کسی قسم کے واضح اقدامات نہیں کئے گئے۔ اس وقت پاکستان میں معیشت اور معاشرت کے حوالے سے جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے یہ ایک دن یا ایک سال کی پیداوار نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاست دانوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا چنانچہ آج ایک عام آدمی جمہوریت سے بیزار نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے گرد یہ تمام لوگ اس لئے جمع ہوچکے ہیں کہ وہ اس نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس میں صرف چند سو افراد کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہے جبکہ عوام کی اکثریت نوے فیصد بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہی چند سو افراد جن میں وڈیرے، جاگیردار، بیوروکریٹس اور سرمایہ دار شامل ہیں، پاکستان کے آئین کی روشنی میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ ان عناصر نے پاکستان کو اپنی طاقت، ناجائز دولت اور انتظامیہ میں اپنے گہرے اثرو رسوخ سے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے اور اس شکنجے کو توڑنے کے لئے بڑی سخت محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر قادری اور عمران خان جس پختہ جذبے، عزم اور یقین محکم کے ساتھ اس سٹیٹس کوکے خلاف جنگ کررہے ہیں وہ انتہائی قابل تعریف و تحسین ہے۔ پارلیمنٹ میں اس وقت جو عناصر حکومت کی حمایت کررہے ہیں وہ دراصل اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایسا کررہے ہیں۔ وہ اس دھن اور دولت کو بچانا چاہتے ہیں جو انہوں نے غیر قانونی طور پراپنے منصب سے فائدہ اٹھاکر حاصل کی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ بعض عناصر ڈاکٹر قادری اورعمران خان کے موجودہ طرز عمل سے ناراض و نالاں ہوں لیکن وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں یا کررہے ہیں وہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کے لئے ایک ایسے پاکستان کی تعمیر و تشکیل کی پاکیزہ خواہش سے مغلوب ہوکر، کررہے ہیں۔ وہ پاکستان جس میں ہر طبقہ آئین کی روشنی میں ایک باعزت زندگی بسر کرسکے گا۔
16 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
14 اگست کو لاہور سے نکلنے والے ہجوم میں ایک بڑی تعداد خواتین کی تھی۔ یہ خواتین آزادی و انقلاب مارچ کا حصہ تھیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، لاہور سے اسلام آباد پہنچنے کے بعد مردوں کے ساتھ ان ہزاروں خواتین کو بھی سخت موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ موسلا دھار بارش، سخت گرمی، نامساعد حالات میں یہ ہزاروں خواتین جن میں ایک بڑی تعداد نوجوان لڑکیوں کی بھی ہے انتہائی منظم انداز میں ایک ماہ سے اسلام آباد میں دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے سے انہیں ہٹانے کے لئے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اس سے جہاں کچھ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں وہیں لوگ شدید زخمی بھی ہوئے۔ اس خوفناک تشدد کی فضا میں جہاں آنسو گیس کے شیلوں کی بارش ہورہی تھی خواتین کی پریشانی کا سبب وہ بچیاں تھیں جو اس بھگدڑ میں بچھڑ گئی تھیں۔ مائیں اپنی بچھڑی ہوئی بچیوں کو ڈھونڈ رہی تھیں اور پنجاب پولیس ان پر بارش کی طرح آنسو گیس کے شیل برسارہی تھی۔ موسلا دھار بارش جھلسادینے والی دھوپ آنسو گیس کے گولوں کی بارش اور بھوک کی شدت کے باوجود مردوں کے ساتھ یہ ہزاروں خواتین اب تک ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ کون سا جذبہ ہے جس نے انہیں ان شدید مشکلات کے باوجود روکے رکھا؟ وہ نہ صرف ڈی چوک میں موجود ہیں بلکہ اپنی ثابت قدمی اپنی جرات اپنی استقامت کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھنگڑا بھی ڈال رہی ہیں۔ رقص بھی کررہی ہیں اور اپنے ہاتھوں سے وکٹری کا نشان بناکر پارلیمنٹ کے اندر پناہ لئے جمہوریت پسندوں کو بتارہی ہیں کہ فتح آخر کار حق اور انصاف کی ہوگی۔
حیرت ہے کہ جبہ و دستار سے آوازیں آرہی ہیں کہ یہ عورتیں ہماری اخلاقی زندگی کو تباہ کررہی ہیں۔ یہ ناچ رہی ہیں یہ گارہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان خواتین کی جرات اور بہادری کو خراج تحسین پیش کیا جاتا لیکن الٹا ان کے خلاف الزامات لگارہے ہیں۔
14 اگست سے شروع ہونے والی اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس تحریک نے ملک کے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اس میں ذرہ برابر ابہام موجود نہیں کہ 14 اگست سے شروع ہونے والی اس تحریک کو ملک کی خاموش اکثریت کی مکمل حمایت حاصل ہے لیکن وہ اس تحریک میں عملاً اس لئے شریک نہیں کہ انہیں باہر لانے کی کوئی منظم کوشش نہیں کی گئی، اس تحریک کو ملک کے تمام شہروں تک اسی طرح وسیع کرنے کی ضرورت تھی جس طرح 1968 اور 1977 میں کی گئی تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ کیا جاسکا جس کی وجہ یہ احتجاج ڈی چوک تک محدود رہا اور وہ نتائج حاصل نہیں کرپا رہا ہے جو حاصل ہونا چاہئے تھے۔
سرکار دربار کی طرف سے اپنے مڈل کلاس مجاہدین کے ساتھ مل کر یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ سب ایک ڈراما ہے اور تیسری قوت اس ڈرامے کی ڈائریکٹر ہے اگر تیسری قوت اس ڈرامے کی ڈائریکٹر ہوتی تو نہ اب تک یہ ڈراما جاری رہتا نہ حکمران بار بار تیسری قوت کی خدمت میں حاضر ہوکر دھرنوں سے نجات دلانے کی درخواستیں کرتے۔ اگر بہ فرض یہ کسی اور کا اسکرپٹ ہے بھی تو اس اسکرپٹ کی وجہ سے ملک میں 67 سال سے مسلط اشرافیہ کی چولیں ہل گئی ہیں۔ طبقاتی تضادات اور واضح ہوگئے ہیں اور اگر دھرنے والے اپنے اہم مطالبات منوالیتے ہیں تو حقیقی تبدیلیوں کے لئے راہ ہموار ہوسکتی ہیں۔ ڈی چوک اگرچہ تحریر اسکوائر بھی نہ بن سکا لیکن ڈی چوک میں بیٹھی ہوئی بہادر خواتین فرانس کے قلعہ بیستل کی فاتح خواتین سے کم جرات مند نہیں۔
16 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (سلمان عابد)
یہ سوال اہم ہے کہ کیا وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے جمہوری نظام میں ایک خوف کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارا جمہوری نظام نازک سی ٹہنیوں پر کھڑا ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو سیاسی دھرنے دیئے ہوئے ہیں، اس نے بھی موجودہ سیاسی اور جمہوری نظام کو اپنے سخت گیر موقف کے ساتھ چیلنج کیا ہوا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے بقول ان کی جدوجہد حقیقی جمہوریت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ وہ اس موجودہ جمہوریت کو حکمران اور بالادست طبقات کے درمیان طاقت کے کھیل کو گردانتے ہیں۔ یہاں لوگ کیونکہ جمہوری حکومتوں اور ان کے نظاموں سے نالاں ہیں، اس لئے جو بھی موجودہ جمہوریت، حکومت اور اس کے طرز عمل کو چیلنج کرتا ہے اس کو ایک پاپولر مقبولیت ضرور حاصل ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ جمہوری نظام میں بگاڑ اپنی جگہ، لیکن اصل بگاڑ حکومتوں کی حکمرانی کا ہوتا ہے۔ اس لئے جب کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ناکام ہوئی ہے تو اس سے ایک خاص مراد حکومتوں کی ناکامی کو سمجھنا ہوگا جو جمہوری حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنانے میں ناکام رہی ہے۔
اس موجودہ جمہوریت سے سب سے بڑا خطرہ معاشرے کے محروم، کمزور اور غریب طبقات کو ہے جو پہلے ہی سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور انصاف کی محرومیوں کا شکار ہے۔ اس طبقہ کے حق میں آواز تو اٹھائی جاتی ہے لیکن عملاً اس کے مفادات کو کوئی تحفظ نہیں دیا جاتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ معاشرے میں امیری اور غریبی میں جو فرق بڑھ رہا ہے اس سے کمزور طبقات میں بالادست طبقات کے خلاف نفرت یا بغاوت کا عمل سامنے آرہا ہے۔ لوگ اس نظام اور سٹیٹس کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، جس میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے سیاسی دھرنوں میں جو آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کو محض سیاسی تعصب کے باعث نظر انداز کرنے کی بجائے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لوگ اس نظام جس کو ہم جمہوری کہہ رہے ہیں، عملی طور پر بغاوت کرتے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں۔ اگر جمہوریت کا تعلق کمزور طبقات کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ نہیں جڑے گا، ہمارا جمہوری نظام اپنی سیاسی ساکھ اور اخلاقی برتری لوگوں میں نہیں قائم کرسکے گا۔
16 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (ڈاکٹر علی اکبر الازہری)
ہمارے ملک میں گذشتہ 67 سال سے عوامی اور عسکری حکمران آتے رہے اور ہر دو گروہوں نے عوام کی خدمت کم اور اپنے خاندانوں کی پرورش زیادہ کی۔ سندھ کا بھٹوخاندان ہو یا پنجاب کا شریف خاندان، KPK کے ولی خان ہوں یا بلوچستان کے محمود اچکزئی یہ سب اپنی اپنی جگہ بادشاہ سلامت ہیں۔ جمہوریت نے ان کے رویوں اور مزاجوں میں کچھ بھی تبدیل نہیں کیا۔ ان کی جماعتوں میں کوئی ان سے اختلاف نہیں کرسکتا اور جو جرات کرتا ہے اگلے دن وہ جماعت کا حصہ نہیں ہوتا۔ ان کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہے نہ مقام و مرتبہ۔ میں نے یہ تماشا اپنی آنکھوں سے کئی بار دیکھا ہے کہ ن لیگ کے نامی گرامی MPA اور MNA شہباز شریف کے سیکرٹری کے دروازے پر ترلے لے رہے ہوتے ہیں اور سیکرٹری صاحب ان لوگوں کو گھاس ہی نہیں ڈال رہے۔
یہ رویہ انہوں نے خود سے نہیں اپنایا بلکہ اپنے باس سے سیکھا ہے۔ اسی رویے کی طرف اعتزاز احسن نے اشارہ کرتے ہوئے جوائنٹ سیشن میں کہا تھا، ’’آفرین ہے عمران خان اور طاہرالقادری کو کہ ان کے دھرنوں کی وجہ سے نواز شریف پارلیمنٹ اجلاس میں آتے ہیں اور ممبران پارلیمنٹ سے ہاتھ بھی ملارہے ہیں۔
کہنے کو تو یہ حکومتیں انتخابات کے ذریعے بنتی ہیں مگر جب تین سال قبل ڈاکٹر طاہرالقادری نے انتخابی نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نظام انتخابات کے خلاف آواز اٹھائی تو ہر ایک سیاستدان نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا حتی کہ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس نے بھی تحقیر آمیز لہجے میں ان کے اس بنیادی عوامی مطالبے کو مسترد کردیا۔ اب میڈیا پر بچہ بچہ چلا رہا ہے کہ الیکشن 2013ء میں دھاندلیوں کا ریکارڈ ٹوٹا ہے اور اس ریکارڈ توڑ انتخابی کرپشن کا سہرا آرمی چیف اور عدلیہ کے چیف کے سر ہے۔ جہاں اتنے بڑے قومی اداروں کے سربراہان ہی غیر جمہوری اورجانبدارانہ رویوں کے حامل ہوجائیں تو اس ملک میں بیچاری جمہوریت پر کتنا ظلم نہیں ہورہا ہوگا۔ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے بعد ایک ماہ سے زائد مدت پر پھیلے ہوئے تاریخی دھرنوں نے کم از کم ایک قومی فریضہ تو یہ ادا کردیا ہے کہ انہوں نے جمہوریت اور عوامی حقوق کا معنی لوگوں کو سمجھادیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھنے والوں کا احترام صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ لے کر اس ہاؤس میں آتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کا تقدس بھی اسی لئے ہے کہ وہ ہمارے قومی آئین کے تحفظ کی علامت ہے۔ مگر ایسی پارلیمنٹ اور ایسے پارلیمنٹرین جن کے پروگرام میں عوام کے حقوق کا خیال تک نہ ہو محض اپنی شہرت، ناموری اور حوسِ اقتدار انہیں اس ایوان میں لے آئی ہو وہ اس جمہوریت کے پاسباں کیسے ہوسکتے ہیں جس کا تذکرہ 1973ء کے آئین میں کیا گیا ہے۔ جمہوری ریاست اورحکومت کا پہلا فریضہ تو عوام کی خدمت اور ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری ہے۔
17 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (منصور آفاق)
اگرچہ روشنی کے دھرنوں کی عمر تیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے مگر ابھی تک ’’چوری‘‘ اکڑ اکڑ کر زمین کی چھاتی پر چل رہی ہے۔ شیشے کے سیل شدہ صاف شفاف باکس میں دھاندلی برہنہ پڑی ہوئی ہے اور اس کے اردگرد کا دھرنا جاری ہے۔ امید کے ترانوں پر جیالوں کی دھمالیں شروع ہیں۔ سچائی کا ڈھول بج رہا ہے ایک طرف عمران خان چراغ صبح کی طرح جل رہے ہیں تو دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری کی زرتار شعاعیں ڈی چوک کو زندگی بخش روشنیوں سے منور کررہی ہیں۔ اسلام آباد کے آسمان نے اس سے پہلے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا۔ کنٹینروں کی دیواروں، ہتھکڑیوں کی جھنکاروں، جیلوں کی سیاہ بختیوں اور موسم کی تمام تر سختیوں کے باوجود لوگ ہیں کہ وہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی اتنے طویل دھرنے کی کوئی مثال موجود ہو۔
مذاکرات کی میز بار بار سجتی رہی ہے مگر میز کے اردگرد بیٹھے ہوئے چائے سے اٹھتی ہوئی بھاپ کے ساتھ اپنی دکان بڑھاتے رہے ہیں۔ البتہ دھرنے دینے والوں کا جنون مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف بھڑکتی ہوئی حکومتی چڑچڑاہٹ تھوڑی دیر کے لئے بجھتی ہے اور پھر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور گرفتاریوں کی صورت میں بھڑکنے لگتی ہے۔ حکومت مسلسل اسکرپٹ رائٹر کی تلاش میں ہے۔ کبھی افواج پاکستان کی طرف انگلی اٹھاتی ہے اور کبھی گرادیتی ہے۔ دھرنے والے بھی کسی امپائر کی موجودگی کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ سیاست کے داستان گو جاوید ہاشمی کی اشاروں بھری کہانیاں بھی کہانیاں ہی بن کر رہ گئی ہیں۔ نہ ’’گو نواز گو‘‘ کا شور تھم رہا ہے اور نہ ہی کسی فیصلہ کن قوت کی دخل اندازی کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔
بے شک دھرنا دینے والے ابھی تک اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے مگر صاحبان دھرنا نے (ن) لیگ کی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف، خادم اعلیٰ شہباز اور تمام اہم ترین وزیروں کے خلاف دفعہ نمبر تین سو دو کی دو ایف آئی آر درج ہوچکی ہیں۔ سترہ لوگوں کے قتل کی ایف آئی آر اور دونوں ایف آئی آر عدالت عالیہ کے حکم پر درج کی گئی ہیں۔ ہمارے علاقے میں جب بڑی بوڑھیاں کسی کو بددعا دیتی ہیں تو کہتی ہیں۔ ’’شالا ترائے سو ڈوں وچ ناں آوی‘‘ (یعنی اللہ کرے کہ تمہارے اوپر دفعہ نمبر تین سو دو کی ایف آئی آر درج ہو۔) جس دن سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی فلائٹ اسلام آباد کی بجائے لاہور ایئر پورٹ پر اتری ہے اس دن سے حکومت نے چین کا ایک سانس بھی نہیں لیا بلکہ ہر آنے والے دن حکومت اور زیادہ کمزور ہوئی اور اس وقت خستگی کا یہ عالم ہے کہ اس کچی دیوار کو ذرا سی بے موسمی بارش بھی کسی وقت گراسکتی ہے۔ حکومت کی شکستگی کی آخری حد یہ ہے کہ کل تک حکومت کی نظر میں آرمی چیف بائیس گریڈ کا ایک سرکاری افسر تھا مگر آج وہ حکومت اور حقیقی اپوزیشن کے درمیان رابطے کا ایک اہم ترین پل ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس بائیس گریڈ کے آفسر کے دفتر کے کئی چکر کاٹ چکے ہیں اور وزیراعظم نے اپنے اقتدار کا دورانیہ بڑھانے کے لئے دبے لفظوں میں اس سے مدد کی درخواست کی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے اپنے جلسوں میں گو نواز گو کے نعرے سنائی دینے لگے ہیں۔ دھرنوں کی اس سے بڑی اور کامیابی کیا ہوسکتی ہے۔
ان دھرنوں سے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو جس قدر فائدہ ہوا ہے۔ اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی تاریخ میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعد یہ وہ دو پارٹیاں سامنے آئی ہیں جنہیں پاکستان کی سیاست سے اب کوئی باہر نہیں نکال سکتا۔ یہ بھی ممکن ہے مستقبل قریب میں یہ دونوں ایک ہوجائیں۔ اس وقت ان دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ مستقبل قریب میں اگر غیر جانبدارانہ انتخابات ہوجائیں تو یہ پارٹیاں دوتہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوجائیں گی۔ اعتزاز احسن نے یونہی نہیں کہا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی باتیں لوگوں کے دلوں میں تیروں کی طرح اترتی جارہی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دنیا کی خطرناک تحریکیں عدم تشدد پر یقین رکھنے والے ان دھرنوں کی خطرناکی کا اندازہ ابھی تک حکومت کو نہیں ہورہا۔ یہ دھرنے عوام کے دل کی دھڑکن بنتے جارہے ہیں۔ یہ جو اپوزیشن جماعتیں نواز شریف کے پیچھے کھڑی ہیں انہیں نواز شریف سے کسی اچھائی کی توقع ہے۔ نہ ہی وہ نواز شریف کی حکومت کے لئے مرے جارہے ہیں یہ سب جماعتیں دراصل اپنی زندگی بچانے کے لئے نواز شریف کو سانسیں فراہم کررہی ہیں کیونکہ انہیں علم ہوچکا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا دور آچکا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ اگر یہ دونوں رہنما اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو پاکستانی سیاست میں ان کی جماعتیں ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائیں گی۔
18 ستمبر 2014، روزنامہ نئی بات (ایم آر ملک)
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی اور سماجی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے۔ کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ پرکھتے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ نظام کے خلاف جس طرح انقلابی بغاوت اور عوامی سرکشی کی بنیاد رکھی اس کی امید بہت کم تھی مگر یہ بغاوت، یہ عوامی سرکشی اس نہج پر آگئی کہ یہ دو نظریوں کی جنگ بن گئی۔ وہ ساری قوتیں جو ’’خاندانی سیاست بچاؤ‘‘ کی حامی تھیں عوام کے بنیادی حقوق کے استحصال پر جن کی سیاست کی سانسیں چل رہی تھیں ان کو اپنی ’’سیاست‘‘ کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو ایک جعلی فورم پر اکٹھی ہوگئیں اور ’’بادشاہ سلامت‘‘ کو بچانے کے لئے ان کا منافقانہ کردار ابھر کر سامنے آیا۔ حیف کہ 18 کروڑ عوام کے اذہان میں ایک مخصوص ذہنیت کی غلامی کا زہر بھرنے والے بکے ہوئے دانشور، تجزیہ نگار عوامی انقلاب کے امکانات کو اپنی تحریروں، تجزیوں میں مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ عوام دشمن، وطن فروش افراد ہیں جو اپنی تحریروں کے اندھے آئینے میں جابر حکمرانوں کو مسیحا دکھانے میں پیش پیش ہیں۔ ان منطقی فلسفہ اور سطحی سوچ کے حامل ’’وظیفہ خور‘‘ مفکرین کو اپنی بساط لپٹنے کی فکر ہے۔ یہ خوف لاحق ہے کہ اگر خاندانی جمہوریت کا خاتمہ ہوا تو ہم ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہوں گے۔
خاندانی حکمرانی کے مفادات کے تابع یہ نام نہاد حادثاتی فنکار، جھوٹے اختلافات اور نان ایشوز عوام پر مسلط کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ ضمیر بیچ کر حقائق مسخ کرنے والے ان قلم قوالوں کے چہرے سے شہر اقتدار میں لگی عوامی عدالت نے نقاب کھینچ لیا ہے۔ نام نہاد ’’مفادات بچاؤ‘‘ جمہوریت کی آڑ میں ان کا حقیقی عوام دشمن چہرہ ننگا ہوچکا ہے اور آج جب وطن عزیز کا شعور جاگا ہے تو زرد صحافت کا لباس زیب تن کئے ان کالی بھیڑوں نے ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ بننے کے لئے عوام پر حملے شروع کررکھے ہیں۔
ان چند کالی بھیڑوں کے کردار کو دیکھ کر اکثر دوست بھولپن میں مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر میڈیا کے یہ افراد اسی طرح جھوٹ بولتے رہے تو عوام کو سچائی کا ادراک کیسے ہوگا؟ عوامی انقلاب کی راہ کیسے متعین ہوگی؟ میں انہیں یہ کہہ کر مطمئن کرتا ہوں کہ 18 کروڑ باسیوں کی روزمرہ زندگی ہمیں یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اس سماج میں لوٹ مار کے نام پر ایکا کرنے والوں نے کتنا ظلم، ناانصافی، سفاکیت برپا کررکھی ہے۔ انقلابات، رد انقلابات کی قوتیں میڈیا کی چند کالی بھیڑوں کے کردار سے نہیں رکتیں۔ عوامی تحریکوں میں رکاوٹ استحصالی طبقہ کے وظیفہ خور دانشوروں کے کردار سے نہیں آتی اور نہ ہی انقلابی پارٹیوں کے وجود کو ان سے خطرہ ہوتا ہے بلکہ ایسے منافقانہ کرداروں کی منافقت سے سماج میں موجود تضادات پک کر لاوا بن جاتے ہیں۔ سرمائے کی زنجیروں کے غلام یہ نام نہاد دانشور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وطن عزیز کے حقیقی تضادات کو جھوٹ کے ذریعے چند ٹکوں کی چمک پر دبایا جاسکتا ہے تو انہیں جان لینا چاہئے کہ گندگی کو قالین کے نیچے چھپایا جائے تو وہ ایک وقت میں گینگرین بن جاتی ہے۔
وطن عزیز میں سرمایہ داری کے جس کھیل میں نام نہاد صحافی بطور کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں ان کو باور کرانا ضروری ہے کہ 18 کروڑ آنکھوں میں اب دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، بدعنوانی، تشدد، ناخواندگی، لاعلاجی، محنت کشوں کے خون پسینے اور آنسوؤں کو نچوڑ لینے والے استحصال، بجلی، پانی دوسری سہولیات سے محرومی اور سٹاک مارکیٹ کے جوئے کی ڈاکہ زنی تمہارے محافظ سرمایہ دارانہ خاندانی نظام کا بنیادی حصہ اور ضرورت رہی ہے۔ 68 برسوں سے خاندانی ملکیت کو راج کرنے والا یہ نظام اٹھارہ کروڑ افراد کے بنیادی نظریات پر دقیق اور زہریلے حملے کرتا رہا ہے۔ اب تمہارے میر جعفرانہ، میر صادقانہ کردار کو تاریخ اور 18 کروڑ عوام معاف نہیں کریں گے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی مستقل مزاجی، حب الوطنی کی للکار نے مخصوص مائنڈ سیٹ کو لرزہ براندام کردیا ہے کہ یہ دو نظریات کی جنگ ہے۔ ظالم اور مظلوم کی جنگ، منافقت اور سچائی کی جنگ، طاقتور اور کمزور کی جنگ جس نے چہرہ شناسی کرادی ہے کہ ایک طبقہ جو 68 برسوں سے قائداعظم کے پاکستان پر مسلط ہے کتنا پاپی اور کتنا بڑا مجرم ہے اور جس نظام کی بقا کے لئے جعلی اسمبلی میں وہ جنگ لڑ رہا ہے اس نظام کہنہ میں انسان گم ہورہا ہے۔ انسانیت شکست خوردہ اور حیوانیت نما آدمیت فتح مند رہی ہے مگر اب تو تقدیر نہیں صرف تسخیر کا عمل بقا پانے والا ہے۔
19 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
یہ عین ممکن ہے کہ عمران اور قادری کی تحریک کے پیچھے کسی تیسری یا چوتھی طاقت کی حمایت موجود ہو اور ممکن ہے کہ اس کے کچھ مقاصد بھی ہوں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عمران اور قادری کیا مطالبات کررہے ہیں؟ عمران خان اور قادری کے مطالبات اسٹیٹس کوکے خلاف ہیں مثلاً زرعی اصلاحات، بلدیاتی نظام کا احیاء انتخابی نظام میں ایسی تبدیلی کے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کی قانون ساز اداروں میں رسائی آسان ہو، دھاندلیوں کے مرکز الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل حکمران طبقات کی اربوں کھربوں کی لوٹ مار کا احتساب وغیرہ ایسے مطالبات ہیں جن کے تسلیم کئے جانے یا کرائے جانے سے 67 سالہ ظالمانہ سیٹ اپ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی پارلیمانی پارٹی یہ مطالبات منوانا تو دور کی بات کیا کربھی سکتی ہے؟ کیا روایتی انقلابی گروہ اس قدر طاقتور ہیں کہ یہ مطالبات منواسکیں؟ جب ان سوالوں کا جواب نفی میں آتا ہے تو پھر کون سا راستہ رہ جاتا ہے؟ اسی تصادم پر آکر معاشرے سیاست اور 20 کروڑ عوام کو Status Quo سے نکالنے کے لئے عمران اور قادری کی حمایت پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ مذکورہ بالا مطالبات کو منواسکیں۔ کیا ہم بکھرے ہوئے ذاتی اور جماعتی مفادات میں الجھے ہوئے لفٹ کے متحد ہونے میں عشروں انتظار کرسکتے ہیں؟ کیا ہم عشروں سے انہیں متحد کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں؟ یہ کوششیں کیوں ناکام ہورہی ہیں۔ آئندہ ان کوششوں کی کامیابی کے کوئی امکان ہیں؟
یہ ہے وہ مایوس کن صورت حال جس سے نکلنے کے لئے عمران اور قادری کی حمایت کے علاوہ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
طاہرالقادری ایک مذہبی تنظیم منہاج القرآن کے سربراہ ہیں پاکستان عوامی تحریک ان کا ضمنی آپشن ہے لیکن یہ دونوں حضرات بوجوہ Status Quo کو توڑنے پر آمادہ ہیں جو اس ملک کی سیاسی معاشرتی زندگی کے راستے میں ہمالیہ کی طرح کھڑا ہے اگر وقت اور حالات نے انہیں اس قابل بنادیا ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو کیا ہمیں ان کی مخالفت کرکے کرپٹ خاندانی جمہوریت کی حمایت کرکے اسے اور مستحکم بنانا چاہئے؟
ہمارا اور اس ملک کے 20 کروڑ انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اس ظالمانہ Status Quo کو توڑنا ہے جو عوام کے آگے بڑھنے کے راستے میں ہمالیہ کی طرح کھڑا ہے اگر عمران اور قادری اس ظالمانہ اور انتہائی مضبوط اسٹیٹس کو کو توڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو ان کی حمایت کرنا نظریاتی کجروی کہلاسکتی ہے؟
19 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (تنویر قیصر شاہد)
تقریباً پانچ ہفتوں سے عمران خان اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی اور ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے چودہ مقتول ساتھیوں کے لئے انصاف کے حصول میں وفاقی دارالحکومت میں حکمرانوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ساڑھے چھ عشروں پر محیط یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے منفرد اور طاقتور احتجاج ہے۔ اس نے اہل زر اور اہل اقتدار کے قلعے میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ دونوں قائدین کے دھرنوں سے قبل اس قلعے کو ناقابل تسخیر اور ناقابل شکست کہا جاتا تھا مگر کپتان، ڈاکٹر قادری اور ان کے پیروکاروں نے کمٹمنٹ، جگرداری اور عزم کا ایسا متحدہ اور مستحکم مظاہرہ کیا ہے کہ قلعہ اپنی بنیادوں تک لرز گیا ہے۔ چنانچہ کپتان، قادری اور ان کے خیر خواہ پوری قوم کی شاباشی کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اسلام آباد کی آتشناک گرمی، گلا گھونٹ دینے والے حبس اور مون سون کی بے رحم بارشوں اور طوفان خیز ہواؤں کا مقابلہ کیا ہے کہ ان کے سرپر چھت تھی نہ کوئی سائبان۔ عمران و قادری صاحبان کا شکریہ کہ ان کے اجتماعی احتجاجات نے قوم تک یہ پیغام کامیابی سے پہنچادیا ہے کہ پارلیمنٹ میں براجمان یہ افراد ان کے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن پھر اس طاقت کو اپنے ذاتی و مالی مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور ووٹر کے دکھوں اور مصائب کو دانستہ بھلادیا جاتا ہے۔ یہ پیغام اتنے واضح اور برہنہ الفاظ میں اس سے قبل کسی اپوزیشن جماعت یا لیڈر نے کبھی عوام تک پہنچانے کی جرات نہ کی تھی۔ یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی اور ہلہ شیری کے بغیر بھی انصاف سے انکاری حکمرانوں سے متھا لگایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی انقلابی تحریک نے بھی پاکستانی سماج اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ان کی کوششوں، اعلانات اور خطابات نے ثابت کیا ہے کہ اگر ان کی جماعت کا نام ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ ہے تو واقعی معنوں میں وہ عوام کے مسائل و مصائب ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ آئین کی اولین شق سے لے کر چالیسویں شق کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان بھر کے عوام کو بتایا اور باور کرایا ہے کہ گذشتہ کئی عشروں سے ان کے حکمران کس وحشت سے عوامی حقوق پامال کرتے اور اپنے مفادات سمیٹتے چلے آرہے ہیں اور یہ بھی کہ اگر جمہوری لبادے میں یہ استحصالی نظام اسی طرح جاری و ساری رہا تو ملک کا بھلا ہوگا نہ غربت و عسرت کے مارے عوام اس ظالمانہ شکنجے سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ قادری صاحب نے اپنے انقلاب مارچ کے توسط سے عوام الناس کو آئین بھی یاد کرادیاہے اور یہ بھی یقین دلایاہے کہ آگے بڑھ کر اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے حکمرانوں سے کیسے پنجہ لڑایا جاسکتا ہے۔ اس انقلابی تحریک جس کی کامل کامیابی کے امکانات ابھی خاصے دور ہیں، نے اپنی منظم طاقت سے اس امر کا لوہا بھی منوایا ہے کہ اگر حکمران اور مقتدر طبقہ بے کسوں کی زندگیاں چھین لیں تو ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کروایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے مگر جدوجہد کا ایک طویل راستہ بھی طے کرنا پڑتا ہے اور خون کے آنسو بہاتے ہوئے صبر کی سلیں بھی سینے پر رکھنا پڑتی ہیں۔ یہ پیغام اب گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ کیا یہ معمولی خدمت ہے؟ ان کی پارٹی میں زیادہ تر لوگ زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ڈاکٹر قادری صاحب نے اپنے علم اور خطابی حسن سے سب پر عیاں کردیا ہے کہ غریب اور زیریں متوسط طبقات بھی غاصبوں سے جنگ آزما ہوکر اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ قادری صاحب نے اپنے انقلاب مارچ کی بدولت دراصل ممولے کو شہباز سے بھڑ جانے کا درس دیا ہے۔ اگر ماڈل ٹاؤن لاہور کے مقتولین کی ایف آئی آر بروقت درج کرلی جاتی تو شاید اس ’’تصادم‘‘ سے بچا جاسکتا تھا لیکن تقدیر کے شاطر کی اپنی ہی چالیں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر قادری صاحب نے اپنے دھرنوں اور خطابات سے اپنا یہ پیغام احسن انداز میں دورو نزدیک پہنچادیا ہے کہ ان کی شخصیت اور ان کی تحریک رواداری کے مرکز و محور کے گرد گھومتی ہے۔ اسلام آباد میں ان کے دھرنے اور احتجاج میں اقلیتوں کے نمائندگان نے بھی دل سے شرکت کرکے اس پیغام پر لبیک کہنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ خود ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کے ہتھیار ڈالنے اور دہشت گردی سے تائب ہوکر ملک کی خدمت کرنے کے اعلان کی جس خوشدلی سے تعریف و توصیف کی ہے یہ ان کے روادار ہونے کا ایک اور بین ثبوت ہے۔ دہشت گردی سے ادھڑ اور اجڑ جانے والے ہمارے سماج میں یہ ایک نیا منظر نامہ ابھرا ہے۔ عمران و قادری کی ان کوششوں اور اس شاندار جدوجہد کو ہر سطح پر سراہا جانا چاہئے اور وہ لوگ جو گذشتہ پانچ ہفتوں سے صبرو استقامت کے ساتھ اپنے لیڈروں کا شب و روز ساتھ نبھارہے ہیں، ان کے استقلال کو بھی سلام۔
20 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
جب جب قوموں کو لیڈرز ملتے چلے گئے قوموں نے ترقی کی منازل بڑی تیزی سے حاصل کیں۔ اور اب پاکستان کے عوام کو حقیقی روٹی، کپڑا اور مکان وہ تمام ضروریات زندگی جو کسی بھی معاشرے کے افراد کو بنیادی طور پر ملنی چاہئیں دینے کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے علم بغاوت بلند کیا تو انکے چودہ رفقا کو شہید اور 100کو شدید مضروب کر دیا گیا مگر استحصالی طبقے سے جان چھڑانے کیلئے اب طاہرالقادری میدان میں اکیلے نہیں تھے، نوجوانوں کی نمائندگی کرنے والے عمران خان ان کے ہمقدم تھے اور آج 37دنوں کے بعد اس مارچ اور دھرنے کے ثمرات کِھلنے لگے ہیں۔
بھٹو نے قوم کو جس طرح دیکھنا چاہا علامہ طاہرالقادری نے اب اس قوم کو پالش کر دیا ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ دنوں ہمیں متعدد اور واضح اشارے دیکھنے کو ملے۔ سیاسی جرگے کی قیادت کرتے کرتے رحمان ملک اپنی سیاسی اوقات بھول بیٹھے تھے مگر سچ کہا گیاہے کہ عزت اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے(القرآن)رحمان ملک اور ن لیگی ایم این اے رمیش کمار کے ساتھ جو کچھ ہوا اور پھر مریم نوازشریف اور اس خادمہ کے ساتھ پی آئی اے کی فلائیٹ میں جو کچھ ہوا اور پھر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو سکھر سے جو جان بچا کر بھاگنا پڑا اور سیلاب متاثرین کے ہاتھوں شہبازشریف اور نوازشریف کی گو گو کے نعروں سے جو تواضع ہورہی ہے یہ نظارہ بھی چشم فلک نے دیکھا اور گذشتہ روز پارلیمنٹ کے فلور پر مسلم لیگ کے انفارمیشن سیکرٹری اور سینیٹر مشاہداللہ جو گورنمنٹ کے ایماء پر جیو کے سومنات کا سپہ سالار بنا بیٹھا ہے نے پاکستان کے قومی اداروں کے دشمن میڈیا گروپ کے ساتھ جو وابستگی ظاہر کی اور موصوف ’’دردِ جیو‘‘ میں جس طرح ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ یا تو حکمرانوں نے ماضی سے کچھ بھی نہیں سیکھا یا پھر بھارت کے ساتھ انکے ذاتی تجارتی مفادات اس قدر بھاری نوعیت کے ہیں کہ جن کے لیے نوازشریف گورنمنٹ کچھ بھی قیمت ادا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے۔ قوم اب جاگ چکی ہے اور طاہرالقادری اور قوم کی جیت ہے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جو عزت اور ذلت دینے والا ہے۔وی آئی پی اور وی وی آئی پی کلچر اب اپنی موت مرنے کے قریب ہے عوام کے مقدر کا موسم اب بدل رہا ہے۔ انشاء اللہ۔
20 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ۔ لندن(منصور آفاق)
لندن کے ایک شراب خانے کے ہال کی سمت میں ایک سٹیج بنا ہوا تھا جہاں مغنیہ گا رہی تھی۔ وہ جو کچھ گارہی تھی میں اسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگا جو کچھ سمجھ میں آیا وہ یہ تھا: ’’یہاں ہر چیز سیکنڈ ہینڈ یعنی استعمال شدہ ہے‘‘۔ ’’پیار، محبت، دوست، لمس، لیڈر شپ، عدالتیں، پولیس، کوئین‘‘ گیت پر توجہ زیادہ دیر مرکوز نہ رہ سکی کیونکہ وہ دوست جس کا تعلق نون لیگ سے تھا۔ شاید وہ کافی دیر سے پی رہا ہے اور اب اس کے منہ میں ایک جملہ پھنسے ہوئے ریکارڈ کی طرح بجنا شروع ہوگیا تھا۔ میرے پچاس ہزار پونڈ، میرے پچاس ہزار پونڈ، میرے پچاس ہزار پونڈ۔ پچاس ہزار پونڈ برطانیہ میں بھی خاصی رقم ہوتی ہے تقریباً اسی لاکھ روپے پاکستانی بنتے ہیں۔ سو مجبوراً مجھے پچاس ہزار پونڈ کے معاملہ پر غور کرنا پڑگیا۔ قصہ یہ تھا کہ بیچارے کے پچاس ہزار پونڈ ضائع ہوگئے تھے۔ دراصل اسے پارٹی لیڈر شپ کی طرف یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں تحقیق کرائے۔ بقول اس کے، اس مقصد کے لئے پارٹی کے کہنے پر ہی اس نے ایک کمپنی ہائر کی تھی۔ اس کمپنی سے پچاس ہزار پونڈ میں سودا طے ہوا تھا۔ باقاعدہ ایگریمنٹ ہوا تھا جس پر اس نے دستخط کئے تھے۔ قانونی سودے کے مطابق کمپنی نے انہیں پندرہ دن میں یہ معلومات فراہم کرنا تھی۔ پندرہ دن کے بعد کمپنی نے باقاعدہ رپورٹ دی کہ پاکستان کے ایک کنال کے مکان کے علاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری یا ان کے بیٹوں کے نام دنیا میں کہیں کوئی زمین، کوئی مکان کوئی عمارت کوئی بنک بیلنس نہیں ہے۔ باقی تمام چیزیں ان کے مختلف اداروں کے نام پر ہیں۔ زیادہ تر عمارات منہاج القرآن کے نام ہیں۔ اس کمپنی کو پانچ ہزار پونڈ ایڈوانس دیئے گئے تھے اور پینتالیس ہزار پونڈ بعد میں دینے تھے۔ وہ کمپنی ہفتہ بھر باقی رقم مانگتی رہی اور پھر مایوس ہوکر اس نے اپنے وکیل سے قانونی نوٹس بھجوادیا۔ دوسری طرف پارٹی باقی پینتالیس ہزار ادا کرنے پر بالکل تیار نہیں۔ پارٹی کا شاید یہ خیال تھا کہ کمپنی نے درست تحقیق نہیں کی ہے۔ اس صورت حال میں نون لیگ کے برطانوی نژاد رہنما کو مجبوراً یہ رقم جیب سے ادا کرنی پڑگئی تھی۔ کیونکہ برطانیہ میں یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کسی کے ساتھ معاہدہ کریں اور پھر رقم ادا نہ کریں۔ یہاں کی عدالتیں بہر حال انصاف کرتی ہیں اور اگر وہ رقم ادا نہ کرتا اور کمپنی عدالت میں چلی جاتی تو اس شخص کو اصل رقم کے ساتھ مقدمے کے اخراجات بھی ادا کرنے پڑتے۔
یہ وہ معاملہ تھا جو ریکارڈ کی طرح شراب خانے میں بج رہا تھا۔ وہ شخص کبھی گیت کے انترے کی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کو گالیاں نکالنے لگتا تھا اور کبھی استھائی کی طرح نواز شریف پر اٹک جاتا تھا۔ اس شرابی کے چند جملے دیکھئے اور لطف لیجئے۔۔۔ ’’یہ جس کا نام طاہرالقادری ہے یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے۔ دنیا میں اربوں روپے کی عمارتیں اس شخص کے پاس ہیں مگر سب منہاج القرآن کے نام ہیں اس سے اتنا نہیں ہوسکا کہ دو چار اپنے نام لگوالیتا۔ اس نے تو خیر ڈی چوک پر مرنا ہے۔ بچوں کے لئے کچھ تو چھوڑ جاتا اور یہ بابرہ شریف۔ اسے تو اب واقعی چلا جانا چاہئے۔ دیکھتے نہیں ارب نہیں کھرب پتی ہے اور میرے پچاس ہزار پونڈ نہیں بھیج رہا‘‘۔ میرے دوست نے کہا۔۔۔ ’’بابرہ شریف نہیں، نواز شریف‘‘۔۔۔ کہنے لگا۔۔۔ ’ہاں ہاں وہی‘‘۔۔۔ میرے دوست نے اسے مشورہ دیا۔۔۔ ’’چل الفرڈ چلتے ہیں۔ وہاں حسن نواز کے پلازے کے سامنے بیٹھ کر احتجاج کرتے ہیں۔ وہاں کھڑے ہوکر تم نے چار ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے لگائے تو حسن نواز اسی وقت پچاس ہزار پونڈ تمہیں لادے گا‘‘۔ شرابی کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا۔۔۔ ’’ناں بابا ناں!۔۔۔ تم چاہتے ہو کہ جو تھوڑی بہت امید ہے وہ بھی گٹر میں پھینک دوں۔ ناں بابا ناں‘‘۔ پیپلز پارٹی (سے تعلق رکھنے) والے نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔۔۔ ’’دیکھو!۔۔۔ ہم کارکن ہمیشہ سے اپنے لیڈروں کے لئے استعمال ہوتے چلے آرہے ہیں۔ پہلی بار استعمال ہونے کے بعد ہم ایک استعمال شدہ چیز بن جاتے ہیں۔ کوئی پھینک دیتا ہے۔ کوئی دوسری بار استعمال کے لئے رکھ لیتا ہے۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ انہوں نے تمہیں استعمال کیا ہے۔ یہ بڑے اعزاز کی بات ہے وگرنہ بادشاہوں کے حرم میں تو کئی کنیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں دوسری بار بادشاہ کا قرب کئی سالوں کے بعد نصیب ہوتا ہے۔
21 ستمبر 2014، روزنامہ دنیا (ارشاد احمد عارف)
گو نواز گو کا نعرہ اگرچہ 1999ء میں جی ڈی اے نے بھی لگایا۔ پیپلز پارٹی، نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی اور دیگر کئی جماعتیں اس اتحاد میں شامل تھیں مگر اس نعرے کو جو عوامی پذیرائی حالیہ دو تین ہفتوں کے دوران ملی، بایدوشاید۔ آزاد کشمیر، سرگودھا، چنیوٹ، ملتان اور دیگر مقامات پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے سامنے ان لوگوں نے نعرہ لگایا جنہیں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے استقبال اور خطاب سننے کے لئے لایا گیا تھا۔ سیلاب متاثرین، ضرورت مند اور حکمرانوں سے امداد کے طلبگار مگر حکومت کا موقف ہے کہ یہ مخالفین کی شرارت تھی۔ چند شرپسند بھیج کر انہوں نے من پسند نعرہ لگوایا اور ٹی وی چینلز پر کوریج کا اہتمام کیا لیکن پیر صابر شاہ کی پرجوش نعرے بازی اور سینکڑوں یا ہزاروں حاضرین کی طرف سے والہانہ انداز میں ہمنوائی؟ یہ زبان زدعام نعرے کی تاثیر ہے، عوامی جذبات کا بے ساختہ اظہار یا زبان خلق نقارہ خدا۔
بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ بجلی کے کئی گنا زیادہ بلوں، اشیائے ضروریہ کی بے تحاشہ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور بدامنی نے ہر شخص کو حکومت سے بیزار کردیا ہے۔ پندرہ ماہ کی ناقص کار گزاری اور عوامی مسائل و جذبات سے سنگدلانہ بے نیازی عوام کو کھلنے لگی ہے اور انہیں عمران خان و طاہرالقادری کے مطالبات کی طرح نعروں میں بھی کشش محسوس ہورہی ہے تبھی تو گو نواز گو کا نعرہ بلند ہوتے ہی وہ موقع محل دیکھے بغیر دھمال ڈالنے لگتے ہیں۔ یہ تک نہیں دیکھتے کہ سامنے کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہے یا مسلم لیگ کا کوئی دیرینہ متوالا! اوروفادار۔
عوام اپنی جگہ سچے ہیں، جس حکومت اور منتخب پارلیمنٹ کو ایک ماہ کا دھرنا، خواب غفلت سے جگانے میں ناکام رہا ہو، معیشت زبوں حالی کا شکار، چین سمیت کئی سربراہان ریاست کے دورے منسوخ اور نظام زندگی تلپٹ مگر کسی کے کانوں پر جوں نہ رینگے، عوام اس کے خلاف لگنے والے نعروں پر کان نہ دھریں تو کیا کریں۔
گستاخی معاف، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تین ہفتے جاری رہا، کسی رکن نے سیلاب اور بارشوں سے تباہ کاری، عوام کے دکھ درد، حکومت کی غلط ترجیحات کو موضوع بحث بنایا؟ شرکاء کے درمیان اپنے اپنے پارٹی سربراہ کی مدح سرائی، اپنے ناپسندیدہ وزیر، مشیر کی ہجو گوئی اور وزیراعظم کی چاپلوسی کے علاوہ بروزن بیت جمہوریت سے وابستگی کا مقابلہ خوب ہوا۔ اعتزاز احسن اور نثار علی خان کے درمیان یدھ رچا مگر پھر دونوں نے مصلحت کی چادر اوڑھ لی، ایک دوسرے کی مبینہ کرپشن، بے ضابطگی پر پردہ ڈال دیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریری مقابلے نے عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ کیا ہے۔۔۔ روزانہ عمران خان اور طاہرالقادری کی تقریریں ٹی وی پر سننے والوں کو یقین ہونے لگا ہے کہ موروثی سیاست کے علمبردار جاگیردار، سرمایہ دار، سیاسی تاجر، وڈیرے اور لٹیرے دھن دھونس دھاندلی کے اس نظام کو جاری رکھنے کے لئے متحد و منظم ہیں، سب ایک ہیں، سب ایک ہیں۔
مسلم لیگی کارکن اور ووٹر بھی اس ملک کے باسی ہیں۔ انہی مشکلات کا شکار، جن کا تذکرہ دھرنے میں صبح سے شام تک ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان کے مسائل، صحت، تعلیم اور روزگار کی عدم دستیابی اور قدم قدم پر ناانصافی، ظلم اور استحصال۔ مرنا آسان جینا مشکل اور عزت و وقار کے ساتھ چلنا تقریباً محال۔ پھر صابر شاہ کی زبان کیوں نہ پھسلے اور ان کے پیروکار اور مسلم لیگی کارکن دیوانہ وار نعرہ کیوں نہ لگائیں گو نواز گو۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔
21 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (عمران شاہد بھنڈر)
اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنوں کو ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ دھرنوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے سیاسی پنڈتوں کی جانب سے کئی دلائل دیئے گئے اور قیاس آرائیاں کی گئیں لیکن وقت کے ساتھ سب جھوٹی ثابت ہوئیں اور بالآخر دم توڑ گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ دھرنوں کو کسی نہ کسی نقطہ نظر کی وکالت کرتے ہوئے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی تھی یا کسی نہ کسی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے دھرنوں کی اپنی آزادانہ حیثیت کا انکار کیا جارہا تھا۔ مطلب یہ کہ پاکستان میں خوشحالی سرایت کرچکی ہے، اس لئے دھرنوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہر حال صورت حال بدستور قائم ہے۔ دھرنوں میں شامل عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائدین کی مستقل مزاجی اور اپنے بنیادی موقف پر قائم رہنے کے رجحان سے ان کی اپنے مقاصد اور اہداف کے ساتھ سنجیدگی کا پہلو بھی شک سے بالا ہوتا جارہا ہے۔ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لئے اختیار کئے گئے طریقہ کار، حکمت عملی اور تنظیم سازی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان اہداف اور مقاصد کی کامیابی تک دھرنوں کو جاری رکھنے کا عزم ایک قابل ستائش عمل ہے۔ دھرنوں میں شامل لوگوں اور بحیثیت مجموعی پاکستان کے عوام کے لئے مزید یہ بہتر صورت حال پید اہوتی جارہی ہے کہ حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان اعلیٰ و ادنیٰ اقدار کی بنا پر قائم کی گئی تفریق و امتیاز میں کمی کا آغاز ہوچکا ہے۔
عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی قیادت کی تقاریر سے نہ صرف قائدین بلکہ عوام کے عزائم کی پختگی بھی صاف نظر آرہی ہے۔ ان تحریکوں کی کامیابی یہ ہے کہ ان کو مزید طول دیا جائے۔ دھرنوں کی شکل میں جو واقعات اسلام آباد میں برپا ہوئے ہیں انہیں محض سطح تک نہیں بلکہ حقیقی واقعات میں تبدیل کردیا جائے۔ واقعات کو اثر انگیز بنایا جائے۔ مایوسیوں کا مرحلہ اب گزر چکا ہے۔ قیاس آرائیاں کرنے والے اپنی آرا تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے کہ طبقاتی شعور پر نظر رکھنے والے قائدین لوگوں کے شعور، خواہشات اور جذبات کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور پھر واقعات کا اندرونی میکانزم اہداف کا تعین کرنے لگتی ہے۔ عوامی تحریک میں شامل لوگوں کی اکثریت متوسط طبقات، ان کی نچلی پرتیں اور محنت کشوں کے ایک خاص حصے پر مشتمل ہے۔ طاہرالقادری کے تمام نعرے جہاں اس ظالمانہ نظام کے خلاف ہیں تو وہاں حکمران طبقات کے استحصال کو بھی نمایاں کرتے ہوئے پاکستان کے اسی فیصد لوگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود متوسط طبقات کی نچلی پرتیں اور محنت کشوں کی اکثریت ان کے دھرنوں میں شامل نہیں ہے۔ عوامی تحریک کی قیادت کو اس اہم نکتے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور اپنی تحریک کو ہر طرح کی آئیڈیالوجیکل آلائش سے ماورا رکھتے ہوئے محنت کشوں کی اکثریت کے ساتھ صرف انہی نکات یعنی افلاس و غربت کا خاتمہ، تشدد و دہشت کی شکست و ریخت، ظلم و ناانصافی کا قلع قمع کرنا، پراتحاد کرنے کی ضرورت ہے جو عوامی تحریک اور پاکستان کے محنت کشوں میں مشترک ہیں۔ عوامی تحریک کو ان مشترک بنیادوں پر ہر شعبہ حیات میں موجودہ لوگوں سے ربط استوار کرتے ہوئے مزاحمت میں شدت لانی ہوگی اسی صورت میں تحریک کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
21 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (موسیٰ رضا آفندی)
پارلیمنٹ کے اندر حکمرانوں کو بچانے کے لئے وہ تمام سیاسی جماعتیں ایک آواز ہوچکی ہیں جن کے بالواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سے مفادات انہی حکمرانوں کے ساتھ وابستہ ہیں یہ وہ نمائندے ہیں جو لوگوں کی بہتری کے نام پر جوکرتے ہیں اس بندوبست کو ان لوگوں نے جمہوری نظام کانام دے رکھا ہے جسے قائم رکھنے کے لئے انہوں نے اٹھارویں ترمیم کے لئے بڑی جانفشانی کے ساتھ ایک جدوجہد کی ہے تاکہ ان کا ترتیب دیا ہوا جمہوری نظام آئندہ نسل در نسل اسی انداز سے چلتا رہے اب چونکہ ہر طرف انہیں اندھیرا ہی اندھیرا نظر آنے لگا ہے اس لئے لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب سارے لوگ ایک ہی طرح کے وسوسوں الجھنوں پریشانیوں اور مخمصوں کا شکار ہوجائیں اور ایک ہی بات کی فکر کرنے لگیں کہ اب کیا ہوگا تو پھر کچھ نہ کچھ ہوکے رہتا ہے چاہے اچھا ہو یا برا۔ کچھ نہ کچھ ہوکے رہتا ہے اس وقت اس ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سب لوگ یعنی بوڑھے جوان بچے عورتیں اپاہج بھی اور پورے کے پورے بھی بیمار بھی تندرست بھی امیر بھی اور غریب بھی جاہل اور گنوار بھی ہنر مند بھی اور بے ہنر بھی موسیقار بھی اور اداکار معمار گلوکار لکھاری مزاح نگار ڈرامہ نویس سرکس کا فنکار اور اسٹیج کا جوکر میراثی بھی غرضیکہ کوئی بھی ایسا نہیں جو اس وقت آج کے مخصوص حالات میں یہ نہ سوچ رہا ہو کہ اب کیا ہوگا؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی ساری تاریخ میں لوگوں کی اس قدر بڑی واضح اور گھمبیر اکثریت نے یکساں طور پر پہلے کسی ایک وقت میں اس طرح سے یہ بات نہیں سوچی کہ اب کیا ہوگا؟ یہ بالکل پہلی بار ہوا ہے یہ واقعی پہلی بار اس طرح ہوا ہے کہ لوگوں کے آگے سے پردے ہٹادیئے گئے ہیں جن چیزوں کے مطلب وہ ہمیشہ سے ایک طرح سمجھتے تھے وہ مطلب اب بدل گئے ہیں چہرے بے نقاب ہوگئے ہیں حقیقتیں صاف صاف نظر آنے لگی ہیں ملمع سازی چھٹ چکی ہے اور لوگوں نے اب پہلی مرتبہ رزق برق لباس کے اندر چھپے ہوئے انتہائی بدصورت مکروہ اور قے آور بدبودار جسم دیکھ لئے ہیں ٹہنیوں پر کھلے گلابوں کے نیچے کانٹوں سے بھری لمبی لمبی شاخوں کو اب دیکھ لیا گیا ہے جنہیں چھونے کے خواہشمندوں نے خودکو اس قدر زخمی کردیا ہے کہ سارا چمن لہولہان ہوگیا ہے لوگوں کی اس بدلتی ہوئی شکل نے لوگوں کے اصلی اور ازلی دشمنوں کو اتنا خوف زدہ کردیا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ناقابل برداشت ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ جڑگئے ہیں۔ منیر نیازی نے اپنی ایک مختصر ترین پنجابی نظم بعنوان ’’شہر دے مکان‘‘ کے ایک مصرعے میں کہا تھا
’’اپنی ہی ڈرتوں جڑے ہوئے نے۔۔۔ایک دوجے دے نال۔۔۔۔شہر دے مکان‘‘
پاکستان کے لوگوں کے نمائندے یکجا ہوگئے ہیں حیران ہوگئے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں یہ معجزہ پہلی دفعہ رونما ہوا ہے کہ اب لوگوں کی بجائے حکمران یہ سوچنے لگے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ یہ وہ عظیم ترین کامیابی ہے جس کی پاکستان کو ضرورت تھی دنیا بھر میں پاکستان کو ایک چمکتا ہوا ستارہ بننے کے لئے یہ کامیابی ضروری تھی پاکستان کے لوگ اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوال کرنے کے قابل ہوئے ہیں اب پاکستان کے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا پاکستان زندہ باد پاکستان کے عظیم لوگ پائندہ باد۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین
22 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
عمران خان اور طاہرالقادری کی تحریک کے خلاف ہماری سیاسی اشرافیہ نے جو ہتھیار استعمال کیا وہ ہے ’’جمہوریت‘‘۔ دھرنوں کے شرکاء کی تعداد اور ان کے جوش و خروش میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا رہا سیاسی اشرافیہ کے ’’جمہوریت بچاؤ‘‘ نعروں میں اسی شدت سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔
جمہوریت کے ثمرات سے جھولیاں بھرنے والوں کو اس حقیقت کا اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ لوٹ مار جاری رکھنے کے لئے جمہوریت کا جاری رہنا ضروری ہے، سو دھرنوں کی طاقت نے انہیں جمہوریت کے چھن جانے کے ایسے خوف میں مبتلا کردیا کہ یہ سارے عاشقان جمہوریت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہوگئے اور ایک ہی لے، ایک ہی سر میں جمہوریت بچاؤ کا واویلا کررہے ہیں۔ جمہوریت کو لاحق خطرات سے بچنے کے لئے وہ مثالی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ اجلاس اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جمہوریت کے خطرے میں رہے گی۔ اس تاریخی اجلاس میں جن تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا گیا اس کا واحد موضوع اور ہدف ’’دھرنے‘‘ تھا، ہر مقرر کی کوشش یہی رہتی کہ عمران خان، قادری اور دھرنوں کے خلاف جتنی بدزبانی ہوسکے کریں اور اس حوالے سے جو مقرر جتنی زیادہ بہادری دکھانا اتنی ہی زیادہ داد پاتا رہا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے سب سے بڑے مورچے میں سب سے زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ مڈل کلاس کے ان ارکان نے کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انقلابی جدوجہد میں ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ بعض مڈل کلاس اکابرین کے جوش خطابت کا تو عالم یہ تھا کہ وہ جمہوریت دشمنوں کو پارلیمنٹ میں دفن کرنے کا اعلان کررہے تھے، اس مشترکہ اجلاس کا دوسرا اور بڑا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینا تھا کہ جمہوریت پسند سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم ہیں، اسٹیبلشمنٹ جمہوریت کی طرف نظر ڈالنے کی ہمت نہ کرے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہورہا تھا کہ دھرنوں میں ذرا سی شدت آتی تو سیاسی دیوتا دوڑے دوڑے آرمی چیف کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گڑ گڑا کر درخواست کرتے کہ حضور ڈی چوک کے باغیوں سے بچانے میں ہماری مدد کریں، خواہ وہ مدد ثالثی کے ذریعے ہو یا اخلاقی امداد کے ذریعے۔ مدد کی یہ درخواست ایک موقع پر اس قدر متنازعہ بن گئی کہ خود اتحادی ناراض ہوگئے لیکن چونکہ مسئلہ مشترکہ مفادات اور جمہوریت کو ہر قیمت پر بچانے کا تھا اس لئے ناراض ساتھیوں کو غصہ تھوکنا یا نگلنا پڑ گیا۔
عمران خان اور قادری سے ہماری کبھی خواب میں بھی ملاقات نہیں ہوئی، نہ ہم نے انہیں کبھی انقلابی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا لیکن اشرافیائی جمہوریت کے مظالم کے خلاف جب یہ حضرات لاہور سے ہزاروں انسانوں کے ہجوم کے ساتھ نکلے تو ہم نے اپنی اخلاقی نظریاتی اور طبقاتی ذمہ داری سمجھ کر ان کی حمایت کی اور کررہے ہیں کہ جمہوریت کے ظلم کی اس سیاہ رات میں روشنی کی کوئی کرن تو پھوٹے، اشرافیائی مظالم کے خلاف کوئی تو سڑکوں پر آئے۔
22 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (زمرد نقوی)
جہاں تک دھرنے والوں کی تعداد کا تعلق ہے کہتے ہیں دھرنا قوم کا ایک آئینی و قانونی حق ہے۔ اگر اسلام آباد راولپنڈی سے 800 کنٹینر ہٹالئے جائیں اور عوام کو بغیر کسی خوف و ڈر کے دھرنے تک آزادانہ پہنچنے دیا جائے تو دھرنے کی تعدادپر اعتراض کرنے والوں کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہ ملے گی۔ جب دھرنے تک پہنچنے کو پل صراط بنادیا جائے اور اس کی قیمت جان ہتھیلی پر رکھنا، جیل و حوالات ہو تو اتنی بڑی تعداد میں دھرنے میں شامل ہونے والوں کی جرات کو سلام ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔
اب کچھ تذکرہ پی ٹی وی میں داخل ہونے والوں کا بھی ہوجائے۔ حکومت نے کہا کہ اس عمل سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہوگیا۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں سے کہ سانحہ لاہور جس میں سو سے زائد شہید و زخمی ہوئے۔ اسلام آباد میں گولیاں چلیں، میڈیا والوں کو بے دردی سے پیٹا گیا تاکہ وہ سانحہ فوٹیج نہ بناسکیں تو کیا اس عمل سے پاکستان کا نام روشن ہوا دنیا میں۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو لوگ جدید ترین اسلحے سے مسلح ہوں ان سے نہ صرف مذاکرات کئے جاتے ہیں بلکہ مقدس و محترم بھی سمجھا جاتا ہے اور صرف لاٹھی سے ’’مسلح‘‘ افراد کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
یقینا ان لوگوں کو پی ٹی وی کی عمارت میں داخل نہیں ہونا چاہئے تھا تاہم حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوئے وہ لوگ پس ماندہ اور دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں صورت حال کی سنگینی کا اندازہ تھا نہ ہی انہیں یہ پتہ تھا کہ وہ جس عمارت میں داخل ہورہے ہیں، وہ حساس ہے۔ اگر وہ ہتھیاروں سے مسلح ہوتے تو شاید عمارت خالی ہی نہ کرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے آتے ہی مظاہرین وہاں سے چلے گئے حکومت کو اس واقعے کی تحقیقات کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہئے تاکہ سادہ لوح لوگوں کو مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ادھر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے واضح کیا کہ حکومت نے ریڈزون میں جن 5 عمارتوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری سونپی تھی اس میں پی ٹی وی کی عمارت شامل نہیں تھی۔ آخر کیوں حکومت نے پی ٹی وی کی سیکورٹی کی ذمہ داری دوسری عمارتوں کی طرح فوج کو نہیں سونپی۔ بہر حال اس واقعہ کے بعد حکومت کو دھرنے والوں کو بدنام کرنے کا موقعہ مل گیا۔ کیونکہ اس سے پہلے حکومت ہی اپنے کارناموں کی وجہ سے مسلسل بدنام ہورہی تھی۔ ایک اور پہلو بھی سوچنے والا ہے کہ نشریات بند کرنا ایک ٹیکنیکل کام ہے جو ایک ماہر انجینئر ہی کرسکتا ہے۔ یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس حوالے سے بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔
جن لوگوں کو حکومت شرپسند کہہ رہی ہے درحقیقت محروم طبقے کے لوگ ہیں جنہیں غربت بھوک بے روزگاری آخر کار انقلاب کے راستے پر ڈال دے گی۔ حکمران طبقوں کے تضادات شدید ہورہے ہیں جوحقیقی انقلاب کی منزل کو قریب لاکر رہیں گے۔ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہاں پریشانی ہے تو ان کے لئے جنہوں نے تمام وسائل پیداوار پر قبضہ کرکے بقول کروڑوں پاکستانیوں کو ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم کردیا ہے۔
22 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مسرت قیوم)
کروڑوں روپے مالیت کی ترتعیش ’’پراڈو‘‘ ٹائروں تک کیچڑ، سیلابی دلدل میں پھنسی ہوئی تھی بہت جتن کئے کہ نکال لیں مگر بے سود، آخر کار ایک ٹریکٹر آیا اور زدن سے طیارہ نما گاڑی کو کھینچ لے گیا لاکھوں روپے کی قیمت والا ٹریکٹر حاوی رہا۔۔۔ ثابت ہوا کہ اصل ویلیو روپے یا شخصیت کی نہیں بلکہ کردار، ہمت طاقت کی ہے یہ شاید بلکہ ’’دھرنوں‘‘ کا کمال ہے کہ اب ’’پیپلز پارٹی‘‘ بھی پائنچے اٹھائے گھٹنوں تک سیلابی پانی میں فوٹو کھنچوا رہی ہے عوامی مسائل کی بیچارگی نے جب اجتماعی احتجاج کا روپ بھرا تو بڑے بڑوں کی نیندیں اڑ گئیں محنت دیانت اور امانت ایسی صفات ہیں جو صرف ’’پاکستانی لیڈرز‘‘ کی تقریروں میں سننے کو ملتی ہیں عام آدمی کی زندگی ان الفاظ کے فیوض و برکات سے محروم ہے۔ ’’دھرنے‘‘ میں موجود لوگوں کے خیالات سن کر احساس ہوا کہ ’’عوام‘‘ کا سیاسی شعور بہت واضح اور بلند ہے جبکہ ’’ہماری اشرافیہ‘‘ بوسیدہ، گھن کھاتے طریقوں کو ہی اپنانے پر بضد ہے اس امر کے باوجود کہ یہ طریقے ماضی کے کسی بھی سول و خاکی حکمران کے دور حکومت کو استحکام بخشنے کی صلاحیت کی کمزوری ثابت کر چکے ہیں عوام کی اکثریت موجودہ طریقہ ہائے کار حکومت، ریاستی نظم و نسق اور موروثیت کے خلاف ایک آواز ہو چکی ہے یہ تجزیہ صرف دھرنوں کے شرکاء کے خیالات پر مبنی نہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو ’’ 38 دنوں‘‘ سے ٹی وی کے آگے بیٹھے ہیں سب نظام کی تبدیلی پر متفق ہو چکے ہیں۔
’’آزادی و انقلاب مارچ‘‘ کے اثرات اور عوامی جوش و خروش، استقلال، جنون نے ’’پولیس اور انتظامی اہلکاروں‘‘ کو بھی طاقت فراہم کی اخلاقی مدد پہنچائی کہ کئی مواقع پر تحریری احکامات اور کئی مواقع پر ناروا حکم ماننے سے انکار تاریخ کا حصہ بن گیا اگر عوام کی امیدیں بہت بڑھ گئی ہیں تو وہیں پر قوم میں اپنے حقوق اور ’’قیادت‘‘ کا اپنے فرائض بابت شعور بہت زیادہ بیدار دیکھا جا سکتا ہے سب سے بڑی تبدیلی کہ دہشت گردی، کی اطلاعات، پولیس کا کریک ڈاؤن کے خطرے کے باوجود مہینہ بھر سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لوگ موجود ہیں۔ کراچی کے عوام کا خون و دہشت کے ماحول میں باہر نکلنا بہادری کی بہت بڑی مثال ہے یہ اعصاب کی جنگ ہے کون جیتے گا؟ کون ہارے گا؟ شاید ’’پاکستان‘‘ ہار گیا کھربوں روپے کا نقصان دیکھ کر مگر یقینا پاکستان جیت گیا عوام کا موڈ طاقت دیکھ کر بوسیدہ نظام کی گرتی تہوں کو دیکھ کر۔ عوام اور ریاست کے مابین رشتہ تعلق کی نوعیت کو بدلنے کا نام ’’انقلاب‘‘ ہے۔ ’’ووٹ ڈالنے کے باوجود، عوامی منتخب کرنے کے باوجود گرمی میں بجلی نہ ملے، سردی میں گیس نہ ہو، پیٹ میں ڈالنے کے لئے روٹی نہ ملے، پیاس میں صاف پانی نہ ملے، کہیں جانے کے لئے پٹرول اور سڑکیں کھلی نہ ملیں، عدالتوں سے انصاف نہ ملے، ٹکٹ بھاری ٹیکس سمیت خریدنے کے باوجود طیارہ نہ اڑے تو بتائیے عوام کو کیا کرنا چاہئیے؟ پھر وہی کچھ کرنا ضروری ہو جاتا ہے جو ایک طیارے کو لیٹ کرنے کے نتیجے میں ’’مسافروں‘‘ نے کیا احتجاجی سیاست نے ’’وی آئی پی کلچر‘‘ کی تدفین کا عمل شروع کروا دیا ہے۔ انتظامیہ ’’گھر کی لونڈی‘‘ اور ادارے خواص کے خادمین کی حیثیت کھو رہے ہیں اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اس کلچر کے فروغ پرداخت میں خواص سے لیکر عوام تک ملوث ہیں ذمہ دار ہیں مگر اب تبدیلی کی ہوائیں چل پڑی ہیں جدوجہد کی ٹھنڈی ہوائیں تھوڑی دور ضرور ہیں مگر عوام اثرات محسوس کرنا شروع ہو گئے ہیں پروٹوکول کلچر میں درارڑ پڑنے والے شگاف اب سیلاب کا رخ اختیار کریں گے عوامی احساسات، جذبوں، رویوں نے بڑے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اب وہ وقت زیادہ فاصلے پر نہیں کہ کوئی بھی عوامی امنگوں کے برخلاف کوئی قدم اٹھا پائے۔
22 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (مظہر برلاس)
ان دھرنوں کے ملک پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ ارسلان افتخار کی تقرری غلط تھی۔
یہ بھی دھرنوں ہی کا کمال ہے کہ اسلام آباد میں دو دو گھروں پر غیر قانونی طور پر قابض اہلیان اقتدار کے نام سامنے آرہے ہیں۔ یعنی وہ افراد ہیں جنہوں نے منسٹرز کالونی میں بھی گھر لے رکھا ہے اور پارلیمنٹ لاجز پر بھی قبضہ جمارکھا ہے۔ ان پاکبازوں میں پیر سید خورشید شاہ المعروف ’’پارلامنٹ‘‘ کے علاوہ ممتاز مذہبی رہنما حضرت مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہیں۔ صابر بلوچ، اسحاق ڈار، احسن اقبال، رانا تنویر اور قادر بلوچ جیسے معصوم لوگ بھی شامل ہیں۔
بودی شاہ نے اپنی بات ختم کی تو میں نے عرض کیا کہ شاہ جی! حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ۔۔۔ ’’کوفہ ایک شہر کا نام ہی نہیں ایک مزاج ہے دنیا میں جہاں کہیں بھی لوگ ظلم کے خلاف خاموش رہتے ہیں، وہ کوفہ ہی ہے۔۔۔‘‘ جاتے جاتے قندیل کے دو اشعار ہیں سن لیجئے کہ
ہم خدا سے کبھی نہیں الجھے
اپنے جھگڑے تو ناخداؤں سے ہیں
آؤ قبضہ کریں سمندر پر
تم بھی پیاسے ہو، ہم بھی پیاسے ہیں
22 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (اوریا مقبول جان)
کیا یہ سب لوگ مایوس ہوجائیں گے؟ کیا انہیں موسم کی سختیاں، عوام کے بے حسی اور انتظامیہ کا تشدد بے دل کردے گا اور یہ ناامیدی کی چادر اوڑھے گھروں کو لوٹ جائیں گے؟ کیا وقت ان کے رہنماؤں کو تھکادے گا اور وہ جیسا تیسا معاہدہ کرکے اگلے سفر پر روانہ ہوجائیں گے؟ یہ لوگ جو گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے کھلے آسمان تلے مکین ہیں آپ ان کے رہنماؤں کے بارے میں جو مرضی کہیں اس مہم جوئی کو عالمی سازش کا حصہ قرار دیں، اس کے پیچھے مقتدر قوتوں کا ہاتھ بتائیں لیکن یہ لوگ اٹھارہ کروڑ عوام کا عطر ہیں۔ یہ وہ خوشبو ہیں جن سے قوموں کے وجود مہکا کرتے ہیں۔ یہ وہ سادہ دل اور پختہ یقین لوگ ہیں جو بے غرضی سے حالات بدلنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش انہیں بے چین کردیتی ہے۔ وہ جہاں روشنی کی کرن دیکھتے ہیں اس پر پروانوں کی طرح لپکتے ہیں۔ یہ پاکستان کی سات دہائیوں پر پھیلی مایوسی کی پیداوار ہیں۔ کیا یہ لوگ مایوس لوٹ جائیں گے؟ انہیں مایوس لوٹنا چاہئے؟ یہ اگر آج مایوس لوٹے تو ان کی امیدیں اسی بوسیدہ مکروہ اور انسانی تاریخ کے سب سے فریب زدہ نظام سے وابستہ رہیں گی۔ یہ سمجھتے رہیں گے کہ جمہوریت ہی دراصل ’’عوام کی حکمرانی‘‘ کا دوسرا نام ہے۔ انہیں اگر جمہوریت، پارلیمنٹ اور اس پر قابض لوگ ہی مایوس اور ناامید کرکے واپس لوٹائیں تو اس دن انہیں یقین آئے گاکہ سودی سرمایہ اور کاغذی کرنسی کی جعلی دولت کا جو نظام ان پر مسلط کیا گیا ہے وہ اگلے سو سال دھرنے دینے سے بھی تبدیل نہیں ہوسکتا۔ جس دن ان لوگوں کا واپسی کا سفر شروع ہوگا، اس دن واپس لوٹنے والا ہر شخص ایک ایسی مشعل بن جائے گا جو روشنی بکھیرے گا لیکن ساتھ ہی اس دل میں ہر اس نشیمن کو جلا کر راکھ کرنے کی خواہش بھی کروٹیں لے رہی ہوگی جو ان کی زندگیوں میں زہر گھولتا ہے۔ کیا یہ لوگ مایوس اور نامراد لوٹیں گے؟ میرے سوال پر درویش نے مسکرا کر کہا: انہیں، ان کے ہاتھ میں کلہاڑی دے دی جائے گی۔ سوال کیا: مایوسی کے عالم میں کلہاڑی، یہ غضب ہوجائے گا۔ کہنے لگے جو لوگ ان کو نامراد لوٹائیں گے ان کو اس کا اندازہ نہیں۔ ہر گز نہیں، وہ اپنی طاقت کے غروت میں ہیں۔ کیا نشہ تھا کہ ہر کوئی پارلیمنٹ میں اپنے آپ کو اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندہ ہی نہیں جائز حکمران سمجھ کر بات کررہا تھا۔ دو ہفتے ایوان میں طاقت کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ ایسے تھا جیسے کوئی طوفان پارلیمنٹ کو گھیرے ہوئے ہے۔ پارلیمنٹ سیلاب میں بہتے ہوئے اس تختے کی طرح تھی، جس میں خوف میں سہمے شیر اور بھیڑیئے بھی ساتھ کھڑے بکرے یا ہرن پر حملہ نہیں کرتے۔ سب دریا کے پار اترنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جان کے لالے ایسے پڑے کہ ان دو ہفتوں میں ہر کسی کا خوف اور خواہش سب کھل کر سامنے آگئے۔ اٹھارہ کروڑ لوگ منتظر تھے کہ کوئی ان کے بارے میں بھی بات کرے گا لیکن یہاں تو نشہ ہی اور تھا۔ نشے کا کمال یہ ہے کہ آدمی کا دلیل سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جمہوریت اور سسٹم کے تسلسل کی وکالت کرتے ہوئے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ احسن اقبال دنیا میں ترقی کی مثالیں دینے پر آئے تو اٹھارہ کروڑ عوام کو جاہل گردانتے ہوئے چین، سنگاپور اور کوریا کی مثالیں دے گئے۔ کیا یہ تینوں ملک جمہوریت کے منافقانہ نظام میں ترقی کے کمال تک پہنچے۔
آدمی کی زبان خوف کے عالم میں پھسلتی ہے یا پھر نشہ کے عالم میں۔ خوف تو یہ ہے کہ ہماری کشتی ڈوب نہ جائے اور نشہ یہ ہے کہ اس پارلیمنٹ کی کشتی پر سوار ہم سب متحد ہوگئے ہیں۔ ایسے میں زبانیں لڑکھڑاتی بھی ہیں اور مدعا بیان بھی ہوجاتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ہم منتخب تو جمہوری طور پر ہوں لیکن حکومت آمروں کی طرح کریں۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا یہ لوگ مایوس اور نامراد لوٹیں گے۔ ہرگز نہیں۔ یہ اس معاشرے کا عطر ہیں۔ یہ بے غرضی میں وہاں بیٹھے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ہاں یہ مایوس ضرور لوٹیں گے، اس نظام سے، اس جمہوریت سے جو سرمائے اور طاقت کی کوکھ میں پل کر جوان ہوتی ہے اور بددیانتی، ظلم اور اقربا پروری پر پھلتی پھولتی ہے۔ اللہ انہیں ضائع نہیں کرتا لیکن ان کا تمسخر اڑانے والوں، انہیں گمراہ کرنے والوں اور ان کو مایوس کرنے والوں کا انجام قریب کردیتا ہے۔ درویش نے کہا کلہاڑی ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ گٹر ابل چکے، ہر کسی کے اندر کا گند باہر آگیا۔ ہر کسی کا باطن ظاہر ہوگیا۔ کب مایوسی کی لہر شروع ہوتی ہے اور صفائی کا آغاز ہے، وقت تو صرف اللہ جانتا ہے۔ لیکن شاید اب کچھ نہ بچے، نہ نظام، نہ تسلسل اور نہ اقتدار، بس زندہ اور پائندہ رہے گا تو پیارا پاکستان۔ پرانی بوسیدہ عمارتوں کو گراکر نئے گھر تعمیر کرنے کے دن آرہے ہیں۔ خوشحال پاکستان کے دن لیکن بوسیدہ کرم خوردہ اور خطرناک عمارتیں کو گرانے تو دو۔
24 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
گذشتہ ہفتے میں نے اپنے کالم ’’حماقتوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‘‘ میں کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ علامہ قادری اور عمران خان اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرتے ہوئے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کردیں۔ اس کے علاوہ میں نے عمران خان کے فن تقریرپر بھی تنقید کی تھی تاہم گذشتہ چند دنوں سے میں مختلف افراد سے بات چیت کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میں صورت حال کو بھانپنے میں کچھ غلطی کر بیٹھا تھا کیونکہ یہ دونوں رہنما اس موجودہ نظام کے خلاف جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، یہ لوگوں کے دل کی صدا ہے، چاہے وہ دھرنے میں موجود ہوں یا نہ ہوں۔
اب آپ چاہے انہیں پسند کریں یا ناپسند کریں، ان کی تعریف کریں یا ان کا مذاق اڑائیں، آج پاکستانی عوامی کی بڑھتی ہوئی بے چینی کے آواز بن کر صرف عمران خان اور علامہ قادری ہی میدان میں موجود ہیں۔ جب وہ خطاب کرتے ہیں تو ان کے سامعین صرف وہ چند ہزار ہی نہیں جو ان کے سامنے دھرنے میں شریک ہوتے ہیں بلکہ لاکھوں افراد ٹیلی ویژن پر انہیں دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ جیسا کہ کچھ حلقوں میں تاثر پایا جاتا ہے واقعی خفیہ اداروں کا منصوبہ ہے تو کیا ہمیں ان اداروں کا مشکور نہیں ہونا چاہئے کہ وہ پہلی مرتبہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ اگرچہ کچھ مخصوص صحافی حضرات بوجوہ اس جمہوریت کے رطب اللسان ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے تبصرے عوامی جذبات اور موقف سے بہت دور ہوتے ہیں۔
ماضی میں پاکستانی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ٹرپل ون بریگیڈ کی بندوقیں ہوا کرتی تھیں لیکن نواز شریف کی متعارف کردہ جمہوریت میں خطرہ بندوق سے نہیں، ووٹوں کی گنتی سے ہے۔ اسے جوڈیشل سسٹم کی درست فعالیت سے بھی خطرہ ہے۔ چونکہ لاہور کے تمام حلقوں میں منظم دھاندلی کے ثبوت واضح ہورہے ہیں، اس لئے نواز شریف کی جمہوریت ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی اجازت نہ دینے پر اڑی ہوئی ہے۔ ماڈل ٹاؤن فائرنگ کے بعد یہ جمہوریت مصر ہے کہ عدل کے تقاضے پورے نہ ہونے پائیں۔ اس خونچکاں واقعے کی ابتدائی تحقیق کے لئے پنجاب حکومت نے یک رکنی بینچ مقرر کیا تھا اورجب لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس علی باقر نجفی نے نتائج سے بے پرواہ ہوکر سچائی کا دامن تھاما۔۔۔ اس ٹریبونل کی رپورٹ سامنے آچکی ہے۔۔۔ تو پنجاب حکومت کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اب وہ اس رپورٹ سے صرف نظر کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ یہ ہے ہماری جمہوریت۔
اب معاملہ یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ لین دین کرنا پڑے گا کیونکہ عمران اور علامہ صاحب اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ وہ ڈی چوک میں موجود ہیں اور پریشان، حواس باختہ اور گھبرائی بلکہ گھیرے میں آئی ہوئی حکومت انہیں اٹھانے کے لئے کچھ نہیں کرسکتی۔ حکومت کی شدید خواہش ہے کہ دھرنے کے شرکاء کو طاقت کے ا ندھے استعمال سے اٹھادیا جائے لیکن وہ جانتی ہے کہ مظاہرین کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں موجود پولیس اپنے آئینی فرائض سے ماوراء کوئی اقدام کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اگر کچھ اور نہیں تو بھی دھرنے اور ان میں ہونے والی تقاریر کی وجہ سے پولیس کا ضمیر جاگ چکا ہے۔۔۔ انقلابات ہیں زمانے کے۔ اب تک مظاہرین بھی چالیس روزہ دھرنے کی سختی گزار کر جنگ آزمودہ و سرد گرم چشیدہ ہوچکے ہیں۔ اس لئے انہیں اٹھانے کے لئے طاقت کا استعمال دستیاب آپشن نہیں۔ اب یہ نواز شریف حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس بحران کے حل کی کوئی راہ نکالے۔ اب تک مظاہرین کو تھک کر چور ہونا چاہئے تھا لیکن ان کی بجائے حکومت بے دست و پا دکھائی دیتی ہے۔
بہت سے سیاسی پنڈتوں نے اس احتجاج کا غلط اندازہ لگایا تھا تاہم ان میں سے کوئی بھی کھلے دل سے اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جتنی مرضی غلطیوں پر غلطیاں کرتا چلا جائے، اس طبقے سے عاجزی، شرمندگی اور خجالت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بہت دیر سے وہ کہے چلے جارہے تھے کہ عمران خان نے حماقت کی بنا پر خود کو ایک کونے میں دھکیل لیا ہے، اس لئے انہیں واپسی کا کوئی باعزت اور محفوظ راستہ دے دینا چاہئے۔ بہت دیر سے اس گروہ نے علامہ قادری کا مذاق اڑانے کا مشغلہ اپنایا ہوا تھا لیکن آج کل یہ شغل ان کی اپنی حماقتوں کی کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے۔ اب وہ ایسی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں لیکن افسوس، عوام کی یادداشت اتنی بھی کمزور نہیں۔۔۔ اور پھر سب کچھ ریکارڈ ہوچکا ہے۔
وہ لوگ جو جمہوریت کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے آرزو مند ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ اس ایڈیشنل سیشن جج صاحب کو خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے ماڈل ٹاؤن فائرنگ کا کیس درج کرنے کا حکم دیا۔ ان جج صاحب نے خود کو ان نام نہاد مبصرین، جو دن رات جمہوریت کے گن گاتے رہتے ہیں، سے کہیں زیادہ جمہوریت پسند ثابت کیا۔ اس کے علاوہ لاہور کے اس فیصلے کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں ماڈل ٹاؤن پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ جب تک ٹھوس ثبوت نہ ہوں، واقعے میں نامزد ملزموں کو گرفتار نہ کیا جائے۔ کیا وکلا برادری ہمیں بتاسکتی ہے کہ کبھی کسی پاکستانی ہائی کورٹ نے ایسا، یا اس سے ملتا جلتا کوئی فیصلہ صادر کیا ہو؟ عمران خان اور طاہرالقادری بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت نہیں، اس کے نام پر کھیلا جانے والا ایک ڈرامہ ہے۔ ملک میں جمہوریت تب ہوگی جب انتخابات چرائے نہیں جائیں گے اور جب ملک میں انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
جہاں تک علامہ قادری کا تعلق ہے وہ تو گھر کے بھیدی ہیں۔ ان کے ایک اشارے پر جانثار کارکنوں کی فوج کسی قسم کی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ جن لوگوں نے اب تک جمہوریت کے دستر خوان سے حلوہ ہی کھایا تھا، اب وہ لوہے کے چنے چبانے کے لئے خود کو بمشکل ہی تیار پاتے ہیں۔
24 ستمبر 2014، روزنامہ دنیا (محمد اظہارالحق)
چلئے مان لیا کہ یہ منصوبہ تھا بلکہ ایک قدم آگے سہی، سازش تھی، لندن میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی ملاقات ہوئی۔ سرگوشیاں کی گئیں،ایک دوسرے کی ہتھیلی پر ہتھیلی زور سے ماری گئی۔ دونوں نے اپنی اپنی آنکھ کا ایک ایک کونہ بھی میچا۔ یہ بھی مان لیا کہ یہ فساد تھا تخریب تھی، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ چند ہزار۔۔۔ بلکہ چند سو سر پھرے افراد جمع ہوکر حاکم وقت کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں اور آئین اور جمہوریت کی توہین کریں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں شامل سب لوگ ادارہ منہاج القرآن کے ملازم ہیں۔ انہیں دھرنے میں بیٹھنے کا معاوضہ ملتا ہے بلکہ کچھ تو زرعی زمینیں یعنی مربعے بھی الاٹ کئے گئے ہیں۔ ڈالروں کی بھرمار ہے۔ ساری رات ڈاکٹر طاہرالقادری کنٹینر میں ڈالر گنتے ہیں اور صبح تقسیم کرتے ہیں۔
یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مافوق الفطرت غیبی قوتیں دھرنے کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ کچھ سبزپوشوں کو تو رات کے اندھیرے میں بادلوں سے اترتے خود ان صحافیوں نے دیکھا ہے جو اس معرکے میں جمہوریت اور آئین کی خاطر تن من دھن لٹانے کو تیار ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے پڑھاکو قسم کے ارکان نے سکرپٹ بھی خود پڑھا ہے۔ بعض نے تو پڑھتے وقت کچھ خاص سطور ہائی لائٹ اور انڈر لائن بھی کی ہیں۔
یہ سب کچھ مان لیتے ہیں۔ سارے الزامات درست ہیں۔ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا پارلیمنٹ کے معزز ارکان ان جمہوریت دشمن فسادیوں کا بندوبست دوامی کرنے کے لئے کافی نہیں؟ آخر جناب اچکزئی کی موجودگی میں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ حاسدوں کو ان کا گورنر بھائی اور ایم این اے، ایم پی اے رشتہ دار نظر آجاتے ہیں لیکن اندھوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان کی چادر جسے وہ دیانت داری سے لپیٹتے ہیں، کتنی دبیز ہے۔ سب کچھ اس میں چھپ جاتا ہے۔ سید خورشید شاہ حلف اٹھانے کو تیار ہیں کہ بیٹے کی شادی پر انہوں نے کنڈا لگایا نہ آج تک انہوں نے کسی کی بھرتی، تقرری، تعیناتی، تبادلے اور بیرون ملک پوسٹنگ کے لئے سفارش کرکے دوسروں کا حق مارا۔ جناب امین فہیم لاکھوں کروڑوں روپے سالانہ ٹیکس دیتے ہیں اور ہر روز صبح سات بجے بیدار ہوکر وظائف و تسبیحات کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پر خاندانی اجارہ داری کا الزام یوں بھی تہمت سے زیادہ نہیں اس لئے کہ بلاول بھٹو فیملی کا نہیں، زرداری خاندان کا وارث ہے۔ جمہوری کلچر کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ پارٹی ایک اور خاندان کو سونپ دی جائے۔
رہے شریف خاندان کے محلات تو اللہ کے بندو! وہ تو رائے ونڈ میں ہیں ہی نہیں۔ وہ تو جاتی امرا میں ہیں اور جاتی امرا بھارت میں ہے۔ شریف خاندان اپنی کاروباری سرگرمیوں کو نہ صرف حکومت سے بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں سے بھی الگ رکھتے ہیں۔ سنا ہے شرق اوسط کے ایک ملک میں فیکٹری کے لئے غیر پاکستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انتہا کی یہ دیانتداری افسوس صد افسوس! ایک دنیا کو معلوم ہے صرف عمران خان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔
یہ بات فہم سے ماورا ہے کہ جب عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ عوام ہیں ہی نہیں اور یہ دونوں جعل سازی اور فریب کاری کے مرتکب ہورہے ہیں تو پھر اسپغول کی بھوسی ٹنوں کے حساب سے کیوں استعمال کی جارہی ہے۔ بقول ظفر اقبال
کوئی گڑ بڑ اگر نہیں ہے تو پھر
کیوں لئے پھر رہے ہو ساتھ کموڈ
26 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
ڈی چوک کے دھرنوں کو سطحی انداز میں دیکھنے اور ان پر تنقید کرنے والے علماء کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوسکاکہ ان دھرنوں کے مضمرات اور اثرات کس قدر گہرے ہیں۔ ان دھرنوں میں دھرنے کے قائدین اس مصنوعی اقسام میں لپٹی ہوئی کلاس کے خلاف جو ’’ناشائستہ زبان‘‘ استعمال کررہے ہیں اس پر VIP کلاس سے زیادہ مڈل کلاس مشتعل ہورہی ہے اور اپنا غصہ دھرنے والوں پر اتار رہی ہے۔ ان دھرنوں میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جو ہزاروں خواتین بیٹھی ہوئی ہیں ان کی اس دلیری اور استقامت کا اعتراف تو پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھنے والے کریں گے لیکن جمہوریت کے برگد سے لٹکے ہوئے بعض عناصر قومی اخلاق کی تباہی کا ان بہادر اور پاکباز خواتین پر الزام لگا کر انہیں بدنام کرنے کی گرچہ کوشش کررہے ہیں لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں کہ دھرنوں میں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے بیٹھی صبرو استقامت کی پیکر ان خواتین کی جرات اور ہمت گھر کی چہار دیواریوں میں صدیوں سے بند خواتین کے لئے کس قدر حوصلہ مندی اور ترغیب کی مثال بن رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے دھرنا دینے والوں کو دبانے اور پیچھے دھکیلنے میں حکمران اور ان کے ساتھی ریاستی مشنری قانون اور انصاف کے ہتھیار استعمال کرکے کامیاب ہوجائیں لیکن ان دھرنوں کے ہماری قومی زندگی پر جو مثبت بلکہ باغیانہ اثرات پڑ رہے ہیں شاید ان کے مضمرات کا اس کلاس کو اندازہ نہ ہو۔
ڈی چوک کے دھرنوں سے عوام کے ذہنوں میں جو بغاوت جنم لے رہی ہے اگرچہ اس کا نشانہ چند افراد بنتے نظر آرہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بغاوت اس پورے VIP سیٹ اپ کی چولیں ہلارہی ہے جو آج کل جمہوریت کی کمین گاہ میں چھپنے کی کوشش کررہا ہے اگرچہ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ ریاستی طاقت دھرنوں پر غالب آرہی ہے لیکن ان دھرنوں نے عوام کے ذہنوں، عوام کے جذبات میں جو آگ لگائی ہے، اس کی تپش کا اندازہ کرنا ہو تو ذرا عوام کی گندی اور بدبودار بستیوں عوام کی بسوں، بسوں کے اڈوں، عوام کی چٹائی مارکہ ہوٹلوں میں جاکر دیکھو کہ ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘؟ اگر اس پر یقین نہ ہو تو ریفرنڈم کرالو مڈٹرم انتخابات کرالو۔ پھر دیکھو کہ عوام نے تمہیں کس مقام پر کھڑا کردیا ہے۔
26 ستمبر 2014، روزنامہ دنیا (کنور دلشاد)
حکومت، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان مفاہمت کرانے کے لئے فرینڈلی اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی جرگہ نے تینوں فریقوں سے مسلسل رابطہ رکھا ہوا ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ نام نہاد مشاورت جاری رہے اور عوام میں یہ تاثر پھیلایا جائے کہ موجودہ بحران ختم ہونے کے قریب ہے اور خوش آئند بیانات جاری کرکے عوام کو احتجاجی دھرنوں میں شرکت سے روکا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جمیعت علمائے اسلام کے دونوں گروپس اور پاکستان مسلم لیگ (ن)، سب کی حکمت عملی یہی ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے احتجاجی دھرنوں میں عوام کی واضح اکثریت کے شامل ہونے کے عمل میں ابہام پیدا کیا جائے۔
جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا، عوام کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان کا کرپٹ مافیا خود کو بچانے کے لئے یکجا ہوگیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں متوسط طبقے کے نمائندے تو ہیں نہیں۔ لوئر مڈل کلاس اور غریب کلاس کے عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امیر طبقہ کی پارلیمنٹ ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جمہوریت کا نام استعمال کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر فوج پر تنقید کی جارہی ہے اور ملکی حالات کا ادراک رکھنے والے پارلیمنٹ میں آنہیں رہے۔ مشترکہ اجلاس میں کسی دن بھی حاضری 33 فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی۔ دعویٰ کرنے والے پچاس فیصد حاضری بھی ممکن نہیں بناسکے۔ حساب ہونے والا ہے۔ مشترکہ اجلاس کرپٹ مافیا کو نہیں بچاسکتے۔
قومی احتجاج کے تاریخی دھرنوں کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سے بھی ملاقات رہی اور ان کے عزم کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ وہاں پاکستان کے روشن چہرے ہیں۔ قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اس میں 6 ستمبر کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔ 6 ستمبر 1965ء کو قوم بھارتی جارحیت کے خلاف فرد واحد کی طرح اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ آج قوم کرپٹ، بددیانت، خائن، اقربا پرور اور مفاد پرست حکومت اور اپوزیشن کے خلاف جاگ اٹھی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے قوم کے ضمیر کو جگادیا ہے۔ آزمائش کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اب کرپٹ مافیا پر زمین تنگ ہوجائے گی۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کے نام نہاد رہنماؤں کے محلات کانپتے ہوئے نظر آئیں گے۔
بہت کچھ ہونے والا ہے۔ وقت قریب آن پہنچا ہے، جب سازشیوں کی زبانیں گنگ ہوجائیں گی اور جن صحافیوں نے غریب عوام کے مفاد کا سودا کیا ہے ان سے بھی حساب لیا جائے گا۔
27 ستمبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
حکومت اور اپوزیشن میں موجود صاحب اقتدار طبقہ کی آج کل جو چپقلش اپنے سیاسی حریفوں سے چل رہی ہے اس میں شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ’’گو نوازگو‘‘ ایک محبوب نعرہ بنتا جا رہاہے۔ عوامی تحریک ا ور تحریک انصاف اگر ابتدائی چند دنوں میں ہی مارچ اور دھرنے کے مقاصد حاصل کر لیتے تو شاید یہی سمجھا جاتا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور عسکری قیادت کی پشت پناہی سے ممکن ہوا ہے مگر 45دن تک علامہ طاہرالقادری کے جانثاروں اور پِسے ہوئے محروم طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کے عزم بلکہ شدید موسمی آفات و اثرات کو شکست دی۔ میری دھرنے میں موجود چند دوستوں سے جو یورپ اور دنیا بھر سے اس مارچ میں شریک ہوئے اور ابھی تک شامل ہیں سے بات ہوئی تو میں ان کا پختہ عزم، ولولہ، جوش اور جنون دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج کے اس مادی دور میں لاکھوں روپے ماہانہ کی ملازمتوں اور کروڑوں روپے کے بزنس کو کسی اور کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس جہاد میں شریک ہونے والے یہ لوگ شاید تہیہ کر چکے ہیں کہ اب کوئی سیاسی چور، ڈاکو اور لٹیرا ان کے خواب چرا کر مے فیئرلندن، پام بیچ دوبئی اور واشنگٹن لاس اینجلس میں اپنے محلات نہیں سجا سکے گا۔ ملک بھر میں موجود کروڑوں افراد کو اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی مصمم قیادت اب ان کے خوابوں کی نہ صرف رکھوالی کرے گی بلکہ انکو شرمندہء تعبیر بھی کرے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے جس مکینکل انداز میں اپنے کارکنان کی سیاسی و روحانی تربیت کی ہے اس سے پی اے ٹی اور منہاج القرآن کے کارکنان کسی بھی سیلاب کو روکنے اور پہاڑوں کو چیرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
27 ستمبر 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
لندن کو بدنام کیوں کرتے ہیں؟ جس طرح کے زیرک منصوبے اور چالبازیاں دیکھنے میں آرہی ہیں، ان کے سوتے سورج تلے اسی سرزمین سے پھوٹتے ہیں جسے مقامی زبان میں رائے ونڈ کہتے ہیں۔ پنجاب کی ذہین فطین انتظامیہ جس کے سربراہ خادم اعلیٰ ہیں اور جس کے من میں یہ روشن خیال سمایا کہ علامہ قادری کو سبق سکھانا چاہئے، لندن میں نہیں، لاہور میں اپنی موجودگی رکھتی ہے۔ علامہ صاحب کے ماڈل ٹاؤن کے ایک کنال کے گھر کے باہر لگائے جانے والے بیریئرز جن کو لگانے کی اجازت لاہور ہائی کورٹ سے حاصل کی گئی تھی کو ہٹانے کے لئے کیا جانے والا پر رعونت فیصلہ گریٹر کونسل لندن کا نہیں، پنجاب حکومت کا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والی فورس جو پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو سبق سکھانے آئی، لندن میٹروپولیٹن پولیس نہیں بلکہ ایسے کاموں کی مہارت اور تاریخ لکھنے والی پنجاب پولیس تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لندن میں دنیا کے عظیم ترین تھیٹر پائے جاتے ہیں لیکن وہ تمام مل کر بھی ہزہائی نس گلو بٹ جیسا ایک کردار بھی پیش نہیں کرسکتے۔۔۔ ایں سعادت بزور بازو (بشمول ڈنڈا) است۔ ڈنڈا لہراتے ہوئے گلو بٹ کے مناظر جو کیمرے کی آنکھ نے امر کردیئے، لندن اور اس کے مضافات کے ہرگز نہیں۔ چاہے لندن پولیس نے نشانے بازی کی جتنی بھی مہارت حاصل کررکھی ہو وہ خواب میں بھی لاہور پولیس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔۔۔ گن فائر سے دو خواتین سمیت چودہ افراد ہلاک اور نوے کے قریب زخمی۔ براہ راست فائرنگ کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں جن میں نوجوان آدمی بھی شامل تھے اور عورتیں بھی، پر بہیمانہ طریقے سے تشدد کرنا ہمارے ماحول کا ہی خاصا ہے، لندن کو اس سے معذور ہی سمجھیں۔
ماڈل ٹاؤن کیس دائر کرنے سے انکار لندن میں ہوا تھا؟ مانا کہ تاریخ انگریزوں کی چالبازیوں سے بھری پڑی ہے کیونکہ نو آبادیاتی نظام پر مبنی وسیع و عریض سلطنت ایسے ہی تو قائم نہیں ہوگئی تھی لیکن محال ہے کہ لندن میں ایسا پلان بنے کہ چودہ افراد کو سفاکی سے گولی ماردی جائے اور اس کا مقدمہ بھی درج نہ ہونے دیا جائے۔ کسی برطانوی شہری کو یہ بات بتائیں (قتل کا مقدمہ درج نہ ہونے والی) اور پھر اس کا جواب سن کر یاد رکھیں۔ یہاں دو ماہ تک صوبائی حکومت نے پوری کوشش کی کہ مقدمہ درج نہ ہو لیکن پھر ایک دلیر سیشن جج صاحب نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد بھی اس میں نامزد وزراء لاہور ہائی کورٹ میں چلے گئے جہاں ایک فاضل جج صاحب نے ایسا فیصلہ سنادیا کہ عدالتی تاریخ اس کی مثل پیش کرنے سے قاصر۔ انہوں نے پولیس کو ہدایت کی کہ اس وقت ملزموں کو گرفتار نہ کیا جائے جب تک ان کے خلاف ٹھوس ثبوت نہ مل جائیں۔ اگر اس کو سند بنالیا جائے تو پھر قتل کا ہر ملزم خوشی سے شادیانے بجاسکتا ہے۔
حکمران خاندان جو اس سرزمین کو دور دور تک اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے کو سمجھ نہیں آرہی کہ بنیادی مسئلہ ہے کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذہنی طور پر ابھی بھی ضیاء دور میں جی رہے ہیں جب اقتدار اور مالیات میں عقد ثانی ہوا کرتا تھا۔ بنک قرضہ جات حاصل کرے اور معاف کرانے جیسے معاشقوں کی بھی گنجائش موجود تھی اور سیاسی طاقت سے ہی کاروبار پر بہار آتی تھی اور گلوں میں رنگ بھرتے تھے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس دور میں ان معاملات میں رائے ونڈ کی ہمسری کا شاید ہی کوئی دعویدار ہو۔ 1990ء کی دہائی میں بنکوں کے کنسور شیم سے چار بلین روپے کے حاصل کردہ قرض سے آج تک ایک پائی واپس نہیں کی۔ یہ تو ان کے ہنر کی ایک ادنیٰ سی کہانی ہے، ورنہ اس الف لیلیٰ کے دفتر کے دفتر سیاہ ہیں۔ مہران گیٹ اسکینڈل جس میں آئی ایس آئی اور دیانت داری کے پیکر جنرل (ر) اسلم بیگ نے مہران بنک کے یونس حبیب سے رقم لے کر پی ایم ایل (ن) کے رہنماؤں جن میں ہمارے دوست جاوید ہاشمی بھی شامل تھے میں تقسیم کی۔ پاکستان کے شہری علاقوں کے رہنے والے تعلیم یافتہ افراد کو آج سے پہلے سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اسی طرح نوجوان، طلبہ اور پیش ور افراد بھی روایتی طرز سیاست سے بیزار تھے لیکن یہ لوگ اب عمران خان کی دو ٹوک باتوں اور علامہ قادری کی شعلہ بیانی کو سن رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے اندر جذبے تحریک پارہے ہیں۔ یاد رہے یہ پاکستانی لوگ ہیں اور ان میں بیشتر کبھی لندن نہیں گئے۔ اس لئے یہ کسی لندن پلان کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ یہ پاکستان میں برپا ہونے والی تبدیلی کے آثار ہیں۔ آپ اس کا نام جو مرضی پلان رکھ لیں، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو پرانے تخت الٹے جانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
28 ستمبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (سلمان عابد)
پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران اور دھرنوں کی سیاست کے تناظر میں بعض اہل دانش نے اس بڑی خوش فہمی کو اٹھایا ہے کہ پارلیمنٹ کی طاقت اور سب سیاسی قوتوں کے اتحاد نے جمہوری نظام کو ٹوٹنے سے بچالیا ہے۔ اس طبقہ کے بقول اگر اس موقع پرپارلیمنٹ متحد نہ ہوتی تو دھرنے کی سیاست کے پیروکار جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹنے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جو جمہوری نظام کو اس وقت خطرات لاحق ہیں، کیا وہ ختم ہوگئے ہیں۔ کیونکہ جمہوری نظام کو خطرات اس کی جمہوری حکمرانی سے وابستہ ہوتے ہیں، جو اس وقت بھی ہماری حکمرانی کو درپیش ہیں۔
ایک بات سمجھنی ہوگی کہ اس وقت جو ہمیں پارلیمنٹ متحد نظر آتی ہے وہ ایک خاص نتیجہ کا ردعمل ہے۔ یعنی دھرنا سیاست کے خلاف سب قوتیں پارلیمنٹ میں دھرنا ایجنڈے کے خلاف ہیں۔ یہ اچھی علامت ہوسکتی ہے کہ اگر واقعی ان قوتوں کا اتحاد جمہوریت کو بچانا ہوتا۔ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کا اتحاد عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف ہے۔ جیسے ہی دھرنے کی سیاست کا خاتمہ ہوگا ہماری پارلیمنٹ کے طور طریقوں میں وہی انداز غالب ہوگا جو دھرنے کی سیاست سے قبل تھا۔
29 ستمبر 2014، روزنامہ نئی بات (اوصاف شیخ)
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا احتجاج مسلسل جاری ہے۔ تحریک انصاف کا احتجاج انتخاب 2013ء میں دھاندلی کے خلاف شروع ہوا جبکہ پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کاروائی کے لئے احتجاج شروع کیا۔ 14 اگست کو دونوں جماعتوں کی احتجاجی ریلیوں کا سفر جو اسلام آباد کی جانب رواں ہوا اس نے ایک مشترکہ جدوجہد کا روپ دھار لیا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد اور پھر آبپارہ سے ڈی چوک اور ڈی چوک سے پارلیمنٹ ہاؤس تک جدوجہد نے دونوں جماعتوں اور دونوں رہنماؤں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات کا حکومت پر کوئی اثر کیا یا نہیں کیا، اس کا علم 32 دنوں میں عوام کو بھی اچھی طرح ہوگیا ہے لیکن ایک مثبت صورت حال واضح ہورہی ہے کہ ان دونوں کی تحریک، مطالبات، تقاریر بالخصوص ڈاکٹر طاہرالقادری کی معلومات افزا تقاریر، حکومتی بنچوں کی جانب سے تقاریر اور بیانات نے عوام کی آنکھیں بہت حد تک کھول دی ہیں۔
موجودہ تحریک کی بتیس دنوں کی جدوجہد سے کوئی یہ سمجھے کہ کوئی اثر نہیں ہوا تو یہ ان حلقوں کی غلط فہمی ہے۔ بہت سے حلقوں کی جانب سے جن میں میڈیا گروپ، مختلف ٹی وی چینلز کے اینکرز بہت سے تجزیہ نگار شامل ہیں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی احتجاجی تحریک کو ملک و قوم کے خلاف ایک سازش قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں حکومت اور حکومت کی حامی سبھی جماعتوں کی عوامی سطح پر مقبولیت میں زبردست کمی آرہی ہے۔یہ انتہائی مایوس کن صورت حال ہے کہ حکومت کی جانب سے عوامی مسائل حل نہ کرنے پر ان کی سرزنش اور احتجاج کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ یہ کام اپوزیشن جماعت اور اپوزیشن لیڈر کوکرنا ہوتا ہے لیکن یہاں بھی ایسا نہیں ہوا اور عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی احتجاجی تحریک کو ملک و قوم کے مفاد اور جمہوریت کو ڈی ٹریک کرنے کی سازش قرار دے دیا گیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والا ڈرامہ پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور اس ڈرامے کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ ایک بار تو قوم یہ سمجھی کہ اب حکومت گئی۔ لفظ تو جمہوریت کا استعمال کیا گیا لیکن دراصل سب کچھ حکومت کو بچانے کے لئے کیاجارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف عمران خان بلکہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی کامیاب ہیں آج اگر حکومت تبدیل ہو بھی جاتی ہے تو آنے والے کسی بھی سیاستدان یا کسی بھی سیاسی جماعت کے دور میں پاکستان کے مسائل حال نہیں ہوسکتے اسکے لئے نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے اور عمران اور طاہرالقادری نے تبدیلی کی جو پنیری بوئی ہے اس سے یقینا آنے والے دنوں میں ایک اچھی فصل بوئی جاسکے گی اور یقینا اس سے حاصل ہونے والی فصل اور پھل سے ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔ ایک مثبت تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی اور اس کا سہرا صرف اور صرف عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ساتھ ان کے ہزاروں ساتھیوں کے سر ہوگا۔ عوام کی سطح پر تبدیلی آرہی ہے جو واضح طور پر محسوس کی جارہی ہے جس کے آنے والے دنوں میں دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس احتجاج کے ذریعے نظام میں مثبت تبدیلی کی پنیری بوئی جاچکی ہے۔
یکم اکتوبر 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
دھرنوں نے کم از کم قوم کو یہ نعرہ تو دیا۔ آج برق رفتاری سے پھیلنے والا یہ نعرہ زبان زد خاص و عام ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نے اس کی چبھن نیویارک میں بھی محسوس کی جب خاصی بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے یو این اسمبلی میں ان کی بے جان تقریر کے بعد نعرے لگائے۔ اس کی وجہ سے شہزادہ ذی وقار حمزہ شہباز کی بھی خاصی سبکی ہوچکی۔ مابدولت الحمرا میں ٹورازم کانفرنس ے خطاب کرنے آئے تھی کہ ناگفتی تعاقب میں اورپھر بھاگتے ہی بنی۔ بہت سے روایتی سیاسی پنڈت ماضی سے باہر نکل کر ہوا کی چلنے والی موجودہ لہر میں سانس لینے کے لئے تیار نہیں۔ اب عمران اور قادری کی طرف سے چلائی گئی تحاریک صرف انتخابی دھاندلی یا شریف برادران کی سیاست سے بے دخلی تک ہی محدود نہیں کہ ان کے ذریعے پاکستان میں روا رکھی جانے والی شہنشاہ نما حکمرانوں کی نااہلی اور اس کی وجہ سے پاکستانیوں کی بے چینی صدا بن کر نعرہ زن ہے۔ عوام کا یہ موڈ دھرنوں سے متحرک نہیں ہوا، یہ جذبات پہلے ہی سینوں میں دفن تھے، اب انہیں زبان مل گئی ہے۔ سیاسی طور پر ساکن اور جذباتی طور پر غیر متحرک لیکن معاشرے کا ایک بڑا حصہ تشکیل دینے والے طبقوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع مل گیا۔
جہاں تک علامہ قادری کا تعلق ہے تو گفتار کے غازی طبقے جو خود کو سیاست پر اتھارٹی سمجھتے ہیں کے لئے ان کو برداشت کرنا بہت مشکل سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ صاحب اس وقت ملک بھر میں پھیلے ہوئے سامعین کو سیاسی اقدار کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک فطری مقرر ہیں اور سامعین کو گھنٹوں تک سحر زدہ کرسکتے ہیں لیکن اپنے روزانہ کے ٹی وی خطاب کے لئے تیار ہوکر آتے ہیں۔ ان کے پاس ضروری نوٹس اور حوالہ جات موجود ہوتے ہیں۔ شروع میں بہت سے سیاسی مبصرین ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن قادری صاحب بہت اولوالعزم نکلے اور انکے پیروکار ان سے بھی بڑھ کر۔۔ پنجاب پولیس کا بے جگری سے سامنا کرتے ہوئے وہ تاریخ رقم کرچکے ہیں۔ بے شک لکھاریوں کا ایک گروہ ابھی تک ’’سازش‘‘ کی بو سونگھنے پر تلا ہوا ہے تاکہ وہ دھرنے اور احتجاج کی راہوں کا کھوج لگاسکے لیکن ان کی قوت شامہ کو معاف کردینا چاہئے۔
2 اکتوبر 2014، روزنامہ دنیا (آغا مسعود حسین)
آج دھرنوں کی صورت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کی آواز بنتے جارہے ہیں، جنہیں گذشتہ کئی دہائیوں سے ہر سطح پر محروم رکھا گیا جبکہ دوسری طرف ایک چھوٹا سا طبقہ (نام نہاد اشرافیہ) قابض ہے اور قیمتی وسائل کو تصرف میں لاکر خلق خدا کو محرومیوں کی تاریکیوں میں دھکیل رہا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ عوام شعوری طور پر موجودہ استحصالی اور ظالم نظام کے خلاف بیزار ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں اور جلوسوں میں عوام کی بڑی تعداد شرکت کرکے حکومت وقت کو یہ باور کرارہی ہے کہ اب ان پر کئے جانے والے ظلم و زیادتی کا دور ختم ہونے والا ہے۔
ہر سطح پر آئین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیتے ہوئے عوام کی تمناؤں اورامنگوں کو پیروں تلے کچلا جارہا ہے تاکہ وہ اس ظالمانہ نظام کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں اور نہ ہی ان کے پرغرور رعب و دبدبے کو چیلنج کرسکیں۔ اسی لئے اس مکروہ سلسلے کو توڑنے کے لئے ایک طویل عرصے کے بعد عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی صورت میں آوازیں بلند ہوئی ہیں جس نے موجودہ عوام دشمن نظام کے درو دیوار کو ہلاکر رکھ دیا ہے جبکہ ناداں حکمران عوام کی اس اجتماعی سوچ کے معجزوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
3 اکتوبر 2014، روزنامہ جناح (افشاں قریشی)
اسلام آباد ریڈ زون پر جاری دھرنوں میں آئے روز انتخابی دھاندلی اور کرپشن کے حوالے سے ہونے والے انکشافات سے جہاں پوری قوم خصوصاً نئی نسل باشعور ہوئی، وہیں وہ شاعر حضرات بھی متحرک ہوگئے جو عام طور پر محبوبہ کی چال ڈھال، اڑتی زلفوں اور جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوبے رہتے ہیں، یعنی محبوب کے حسن کے قصیدوں کے ساتھ ساتھ اس کی اداؤں، وفاؤں اور بے رخی کے انداز کو بھی انتہائی خوبصورتی سے شاعری کے رنگ میں رنگتے ہیں اب چونکہ دھرنوں کا موسم عروج پر ہے تو شاعر حضرات باقی چار موسموں کے ساتھ ساتھ اس موسم کو بھی بھلا کیسے بھول سکتے تھے، ایسا موسم کہ جس میں سوئی عوام کو جگانے کے لئے آئین اور حقیقی جمہوریت کے سبق کو بارش کی صورت برسایا گیا، دھرنوں سے متاثر ہونے والے شاعر حضرات نے ساری صورت حال کو کس کس انداز سے اپنے شعروں میں ڈھالا، آئیں ذرا ہمارے ساتھ ساتھ آپ بھی لطف لیں۔
ایک شاعر اپنے محبوب کو کس طرح اپنی وفاؤں کا یقین دلارہا ہے، آیئے اس شعر کو پڑھتے ہیں۔
اسمبلی ٹوٹے یا مارشل لا لگ جائے
میرے دل کی پارلیمنٹ کے وزیراعظم تم ہو
ایک اور حضرت ہیں جو اپنے شعر میں دھمکی آمیز رویہ اپناتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہ ہماری محبت کو ترجیح نہیں دیتے
اب تو دینا ہی پڑے گا دھرنا یارو
کیا ہی بات ہے، مذکورہ شعر سے یہ انداز تو بخوبی ہورہا ہے کہ منہ سے چاہے کوئی اقرار نہ کرے لیکن دھرنے کا نفسیاتی دباؤ تو ہوتا ہے، اب ہمارے نام نہاد حکمران مانیں یا نہ مانیں دن کا چین اور راتوں کی نیند تو گنوا بیٹھے ہیں، خیر آگے چلتے ہیں جہاں ایک اور صاحب جمہوریت اور دھرنے کی اہمیت کو کیا ہی دلچسپ انداز سے اجاگر کررہے ہیں۔
عشق میں جمہوریت نہیں ورنہ
دھرنا دے کے ہم پالیتے تجھے
ویسے یہ اٹل حقیقت ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے سادہ لوح عوام جنہیں ہمیشہ لفظوں کے ہی ہیر پھیر میں الجھایا جاتا رہا، دھرنے دے کر انہیں آئین اور جمہوریت کا خوب سبق دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پیار، عشق اور محبت کی شاعری کو بھی آئین، جمہوریت اور دھرنوں کا تڑکا لگایا جارہا ہے۔ ایک اور اداس شاعر ہیں جو بڑے منفرد انداز سے اپنے دکھ کا اظہار کررہے ہیں۔
غم میرے دروازے پر
دھرنا دے کر بیٹھا ہے
لفظ دھرنا کی مقبولیت کا اندازہ تو یہاں سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب روزمرہ استعمال ہونے والے لفظوں میں بھی دھرنے کی ہی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مثلا ایک خاتون اپنے شوہر کو آفس فون کررہی تھی کہ گھر بھی آنا ہے یا دفتر میں ہی دھرنا دیے رہنا ہے، کہیں دوست، دوست کو کہہ رہا ہوتا ہے یار آبھی جاؤ تم تو دھرنا دے کر ہی بیٹھ گئے ہو حتی کہ اب تو بچے بھی دھرنا دھرنا کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، خیر بات ہورہی تھی شاعری کی تو ایک شاعر اپنی ناراضگی کا اظہار کچھ اس انداز سے کررہا ہے۔
جی تو چاہتا ہے ہم بھی لے چلیں لانگ مارچ
کہ ریاست دل پہ ان کے ستم بڑھتے جا رہے
ہیں
واہ جی واہ، کیا کہنے، کیا خوب انداز بیاں ہے، جب بات ہورہی ہو دھرنوں کی، جمہوریت اور آئین کی تو ایسے میں بھلا کنٹینرز کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے، اسی لئے تو ایک شاعر بڑے منفرد انداز سے اپنے محبوب سے شکایت کررہا ہے۔
بھول گئے ہو اب تو بالکل ہی ہمیں تم دوست
کیا ہماری یاد کے آگے بھی حکومت نے کنٹینر
لگادیئے
ویسے کنٹینر نے شاعری میں اپنی جگہ خود ہی بنالی، ظاہر ہے جب پورے شہر میں ہر طرف کنٹینرز ہی کنٹینرز نظر آئیں گے تو شاعر کی شاعری کا تو موضوع بنیں گے ہی نہ، اس حوالے سے ذرا یہ شعر بھی قارئین کے ذوق نظر کارتے ہیں۔
کنٹینر ہٹا اپنے دل سے اے ہمدم
دھرنا دینا ہے تیرے دل کے ریڈوزون پر
کیا کہنے، بہت خوب، دل کا ایریا بھی ریڈزون قرار دیا گیا، اسکا مطلب ہے کسی سیانے نے ٹھیک کہا تھا کہ جس جگہ تک غریب یا لسے بندے کی رسائی نہ ہو، وہ جگہ چاہے کوئی بھی ہو اس کے لئے ریڈزون ہی ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی برعکس ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے تو یہ شعور بھی دے دیا کہ کسی بھی علاقے کو ریڈزون قرار دینا اسلامی حکم تو نہیں، خیر بات ہورہی شعرو شاعری کی تو ذرا ایک اور شعر میں نئے لفظ کا خوبصورت استعمال دیکھیں۔
عجیب طوفان برپا ہے میری زندگی میں تیری یاد کا
نہ دل سے مذاکرات ہو رہے ہیں نہ تیری
یاد کا دھرنا ختم ہوتا ہے
4 اکتوبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (رحمت خان وردگ)
14 اگست 2014ء سے اب تک ڈی چوک اسلام آباد پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے طویل ترین، پرامن دھرنے جاری ہیں۔ ان طویل دھرنوں کے ثمرات عوام کے سامنے آنے لگے ہیں۔ پہلے یہ لوگ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 4مرتبہ کئی کئی روپے اضافے کے بعد 5 ویں مرتبہ چند پیسوں کی کمی کرنے کے بعد بلند بانگ دعوے کرتے تھے مگر اب مسلسل دوسری بار روپیوں میں کمی کی گئی ہے اور ظاہر ہے دھرنے جاری رہے تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر ان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوجائیگا۔ اسی طرح انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے گیس کی قیمتیں دوگنی کرنے، بجلی کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کے علاوہ کئی چیزوں سے سبسڈی واپس لینے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن یہ لوگ دھرنوں کے باعث آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے اب گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ نہیں کرپارہے۔اب بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے قبل بھی اچھی طرح اسکے نتائج کے بارے میں سوچیں گے۔ اسی طرح اب پروازوں کی روانگی میں تاخیر سے قبل بھی قومی ایئرلائن کے عملے کو سو بار سوچنا پڑے گا کہ اگر تاخیر کا اعلان کیا گیا تو عوامی ردعمل کیا ہوگا؟ ٹرینوں کی روانگی کے وقت بھی مسافروں کو تاخیر کی وجہ بتانی پڑے گی ورنہ ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ ہر ہر جگہ حق کی آواز بن کر بلند ہوگا۔
4 اکتوبر 2014، روزنامہ جناح (محمود شام)
پوری قوم کو اور بالخصوص سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو پی ٹی آئی، پی اے ٹی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ایسی قربانیاں دیں۔ اتنی جدوجہد کی۔ یہ انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے کہ 50 دن سے دو پارٹیوں کے کارکن مائیں، بہنیں، بیٹیں، بھائی، بزرگ، بچے کھلے آسمان تلے سڑکوں پر دن رات گزار رہے ہیں وہیں کھاتے ہیں، وہیں سوتے ہیں، یہ ہمارے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا حال اس بدحالی میں گزار رہے ہیں۔ حکمراں طبقے جو اوپر سے ان پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ مذاق اڑاتے ہیں۔ آوازے کستے ہیں، جملے پھینکتے ہیں لیکن اندر سے وہ بھی دونوں لیڈروں کی استقامت اور ان کے حامیوں کے حوصلے کی داد دیتے ہیں اتنا طویل دھرنا پاکستان تو کیا برصغیر کی تاریخ میں کبھی نہیں دیا گیا۔ اس کا ایک ظاہری نتیجہ یامقصد یا الٹی میٹم تو وزیراعظم کا استعفیٰ سمجھا جارہا تھا۔ ہم جیسے بہت سے بے حوصلہ بے صبر لوگ مایوس ہورہے تھے جوں جوں دن گزر رہے تھے کہ کیا ہوگیا ہے، کیا فائدہ ہوگا، استعفیٰ تو نہیں آرہا۔ لیکن اس وقت پورے ملک میں جو سیاسی شعور بیدار ہوا ہے قوم جس طرح جاگ رہی ہے۔ اپنے حقوق سے آگاہ ہورہی ہے اشرافیہ کو بڑی طاقتوں کو چیلنج کررہی ہے۔ بچے، بڑے، نوجوان جس اعتماد سے سرشار ہورہے ہیں اس طرح وزیراعظم کے استعفیٰ سے کہیں زیادہ بڑا ہدف حاصل ہورہا ہے۔ وزیراعظم کے استعفے کے بعد تو قوم مطمئن ہوکر بیٹھ جائے گی۔ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکن بھی سست پڑجائیں گے اور یہ نگر نگر شہر شہر بیداری کا سلسلہ رک جائے گا۔
98 فیصد اکثریت کو جگانے کا کام یہ پارٹیاں کررہی ہیں۔ پرانی سیاسی پارٹیاں تو لوگوں کو خواب آور گولیاں دے کر اپنی لوٹ مار جاری رکھتی ہیں۔ غریب جاگ رہے ہیں۔ مڈل کلاس متحرک ہورہی ہے اب تک جو نظام چل رہا ہے اس کے بانجھ پن سے سب بیزار ہیں۔ وہ اکثریت کے لئے کچھ نہیں دے پارہا۔ ڈرائنگ روموں، دفتروں، چوپالوں، ایئر پورٹ لاؤنجوں، بسوں، ٹرینوں، ہوائی جہازوں میں بھی باتیں ہورہی ہیں۔ فیس بک پر یہی شکوے ہیں اشرافیہ کے بڑے اچھے کارٹون بھی بنتے ہیں کیری کیچر بھی لطیفے بھی، تبدیلی ہر پاکستانی چاہتا ہے، کراچی کا تسکین دہلوی بھی، حیدر آباد کا اللہ دینو بھی، جیکب آباد کا بچل سائیں بھی، کوئٹے کا رحیم کاکڑ بھی، دالبندین کا عاطف بلوچ بھی، مردان کا سمندر خان بھی، لاہور کا گلریز بٹ بھی، ملتان کامخدوم انور بھی، پروفیسرز بھی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بھی، انجینئر بھی، علامہ بھی، خواتین بھی۔ عمران خان اور طاہرالقادری، اس خاموش اکثریت کے دل کی آواز ہیں۔ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، سفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی بھی کچھ سال پہلے تبدیلی کی بات کیا کرتے تھے۔ مگر اب ان کے اپنے حالات اچھے ہیں۔ اس لئے وہ معاملے کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں۔ تبدیلی سے ڈرتے ہیں لیکن وہ اگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں اپنے ہاریوں، ڈرائیوروں، نوکروں، باورچیوں، منشیوں اور عام خاک نشینوں کے گھروں میں جھانکیں تو انہیں خود بھی شرم آئے گی کہ یہ تو ابھی اٹھارہویں صدی میں رہتے ہیں۔
تاریخ کا پہیہ آگے کی طرف چلتا ہے۔ اسے روکا نہیں جاسکتا جن حکمرانوں طاقتوں اور جماعتوں نے اسے روکنا چاہا۔ وہ خود تاریخ کے کچرا دان میں گم ہوگئیں۔ لیکن پہیہ آگے بڑھتا رہا۔ ذرا غور کریں کہ جب سے ان کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ ان دہائیوں میں پاکستان کے پڑوسی، بھارت، بنگلہ دیش، چین، روس، افغانستان، ایران، ترکی کہاں پہنچ گئے اور پاکستان وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ حکمراں جو ان برسوں میں بار باری اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے عمران خان اور قادری نے پوری قوم کی طرف سے کفارہ ادا کردیا ہے۔ قوم کو بیدار کردیا ہے اب ملک آگے بڑھے گا ان شاء اللہ۔ ذہن بیدار ہورہے ہیں۔ آنکھیں کھل رہی ہیں۔
5 اکتوبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (موسیٰ رضا آفندی)
دھرنے والوں کے حق میں آواز اٹھانے والے لوگ ہیں جن کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ان کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ لوگ گذشتہ اڑسٹھ سالہ پاکستانی حالات کے مایوس کن اور کربناک نتائج سے شعوری اور جذباتی طور پر تنگ آگئے ہیں اور ان کے خلاف باقاعدہ اور منظم طور پر احتجاج کرنے اور آواز اٹھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ملک کا وہ طبقہ جو اپنی معاشی خوشحالی کے باعث سیاست سے ہمیشہ گریزاں رہا تھا وہ بھی میدان عمل میں کود پڑا ہے۔ جن لوگوں کو برگر فیملی کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا وہ گھنٹوں دھوپ اور گرمی میں ان غریبوں کے شانہ بشانہ جنہیں وہ حقارت سے دیکھنے کے عادی تھے بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ محض دھرنوں میں بیٹھ کر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے امریکہ کینیڈا آسٹریلیا اور یورپ کے دور دراز ملکوں سے پاکستانی خاندان کے خاندان سفر طے کرکے اپنے ملک آئے ہیں اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ان کے آرام دہ گھروں میں رہنے کی بجائے کھلے آسمان تلے دھرنے والوں کے ساتھ دن رات بسر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی عجیب و غریب بات ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں مل سکتی۔
ان سب لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان میں مسلسل اقتدار میں رہنے والے لوگ اپنی لوٹ کھسوٹ دھونس دھاندلی کے باعث بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے تحت ان دھرنوں کو ملک کی خوش بختی سمجھا جارہا ہے کیونکہ ان دھرنوں کے باعث ملک عزیز دو باقاعدہ کیمپوں میں تقسیم ہے، ظالم اور مظلوم کے کیمپ اپنی الگ الگ پہچان کے ساتھ سامنے آگئے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ان کے ساتھ مدتوں سے دھوکہ ہوتا رہا ہے اور وہ اب اس دھوکہ دہی کو نہ صرف سمجھ چکے ہیں بلکہ اس کے خلاف منظم جنگ کا آغاز اس یقین کے ساتھ کرچکے ہیں کہ آخری فتح انہی کی ہوگی۔
اس دھرنوں کے حق میں بولنے والوں کا دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ احتجاج کے اس انوکھے طریقے سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان کو لوگ اپنے اندر فرقہ واریت، رنگ، نسل، زبان اور علاقائیت کی تقسیم کے ہرگز قائل نہیں ہیں، یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی ہے کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا مذہب ہے جس کے سائے تلے تمام مذاہب کے لوگ پاکستان میں باہمی یگانگت اور برابری کی بنیاد پر مل جل کر امن و سکون کے ساتھ تیز رفتار ترقی کی راہوں پر چل سکتے ہیں اور دنیا میں اپنا وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جس کے حصول کے لئے یہ ملک حقیقت میں بنایا گیا تھا۔
ان دھرنوں نے یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ پاکستان کے لوگ حقیقت میں انتہائی منظم و متحد اور یقین کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان دھرنوں کے لیڈروں کے بارے میں کچھ بھی کہا جائے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان دونوں لیڈروں نے پاکستان کے لوگوں کو ایک ایسا راستہ دکھادیا ہے جس سے وہ آئندہ کسی کے دھوکے میںنہیں آئیں گے وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوں گے کسی کے آگے بلا سوچے سمجھے سرتسلیم ختم نہیں کریں گے وہ اب کسی کو اپنا حق غصب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے شعور کی اس پختگی کا اظہار اب پاکستانی قوم کرنے لگی ہے۔ دھرنے اسلام آباد سے نکل کر ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جلسوں کی صورت میں طوفان کی طرح پھیلنے لگے ہیں۔
اب چاہے کوئی اس منزل کو ایجنسیوں کا منصوبہ کہے، امریکہ، برطانیہ اور بھارت کی سازش کہے علاقے میں پراکسی وار کرانے والوں کو شاخسانہ سمجھے، علیحدگی پسندوں یا دہشت گردی کی کارروائی جانے، کچھ بھی کہہ لے حقیقت یہ ہے کہ لوگ بیدار ہوگئے ہیں لوگوں کو اپنا مستقبل انتہائی شاندار اور تابناک نظر آرہا ہے اور انہیں اپنی کامیابی پر پورا یقین ہے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین
5 اکتوبر 2014، روزنامہ جناح (محمود شام)
پہلے بہت مایوسی ہورہی تھی کہ عید بھی آگئی لیکن استعفیٰ نہیں آیا۔ کہیں یہ جدوجہد رائیگاں تو نہیں ہوگئی۔ لیکن اب جو ملک بھر سے اطلاعات آرہی ہیں کہ تبدیلی کی ہوائیں بہت تیز چل رہی ہیں۔ حکمران طبقے پریشان ہیں۔ گذشتہ 50 دن میں ساری بڑی پارٹیاں کئی سال پیچھے چلی گئی ہیں جو محنت کرتا ہے پھل اسی کو ملتا ہے۔ حکمراں جماعتیں (پی ایم ایل این۔ پی پی پی۔ بی این پی۔ جے یو آئی) سب پریشان ہیں کہ ٹی وی چینل روزانہ ان دونوں جماعتوں کو مفت میں اتنا وقت دے رہے ہیں اور آزادی اور انقلاب کا پیغام ہر روز خیبر سے گوادر تک کروڑوں پاکستانیوں تک پہنچ رہا ہے۔ لوگ باشعور ہوگئے ہیں۔
بہت سے دوست ایس ایم ایس کرتے ہیں نام اور شہر نہیں لکھتے۔ اس لئے ان کا ذکر کر نہیں پاتے۔ مجھے آپ کے ایس ایم ایس پاکر خوشی بھی ہوتی ہے اور حوصلہ بھی ملتا ہے۔ اگر آپ دھرنے میں بیٹھے ہیں تو میں میرے اہل خانہ اور دوست احباب سب آپ کے احسان مند ہیں کہ یہ جدوجہد آپ ہمارے لئے کررہے ہیں۔ جب مکمل تبدیلی آئے گی۔ ملک میں حالات بدلیں گے۔ میرٹ پر عہدے ملیں گے کرپٹ رشتے داروں کو بڑے عہدوں پر فائز نہیں رکھا جائے گا تو اس کا فائدہ سب کو ملے گا۔ سب ہی جمہوریت کا پھل چکھ سکیں گے۔ یہ تبدیلی صرف آپ کو فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ پورے پاکستان کے دن پھریں گے۔ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
آپ کے شہروں میں بھی نہ جانے کتنے دانشوروں، سیاسی کارکنوں نے قیدوبند کی صعوبتیں کاٹیں، ہر ضلع کی جیل گواہی دے گی۔ نہ جانے کیسے کیسے باعزت باوقار لوگ ہماری آج کے لئے قربانیاں دیتے رہے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنا چاہئے۔ آنے والی نسلیں آپ دھرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا کریں گی کہ آپ کی اگست، ستمبر، اکتوبر کی قربانیوں سے ان کے آنے والے سال بہتر ہوں گے۔
کل عیدالاضحی ہے ہم تو آرام سے اپنے گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید منارہے ہوں گے۔ قربانی کررہے ہوں گے۔ آپ اپنی استقامت کا مظاہرہ یہیں ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر کریں گے۔ پوری قوم آپ کو سلام کرتی ہے۔ آپ کا پیغام اب شہر شہر پہنچ رہا ہے۔
بیداری اور شعور جو حکمرانوں کو للکار رہا ہے وہ آپ کی 52 روزہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ انقلاب اسی لئے آتے ہیں کہ عوام جاگ جائیں۔ اس میں ٹی وی چینلوں کا بھی حصہ ہے اخبارات کا بھی، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا بھی، میں تو پہلے دن ے آپ کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھ رہا ہوں۔ جس کے نتیجے میں انقلاب آتے ہیں۔ یہ چمک ویت نام میں بھی تھی فلسطین میں بھی، مصر میں، یمن میں، تیونس میں، یہ پیشانیاں تمتمارہی ہیں۔ دھرنے میں جس عقیدت سے مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بزرگ ڈاکٹر طاہرالقادری کو دیکھتے ہیں۔ وہ ایک لافانی جذبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جس شوق اور جوش سے نوجوان عمران خان کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہوتے ہیں یہی وہ طاقت ہوتی ہے جو تاج اچھالتی ہے تخت ہلادیتی ہے عیدالاضحی پر ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو یاد رکھئے گا۔ ان کی قربانیاں ہی اس کامیاب جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ ان کے اہل خانہ کا درد ضرور بانٹئے گا۔ اس طرح ریڈزون میں جنہوں نے اپنی جانیں دیں۔ ان کو بھی ضرور سلام کہئے گا۔
9 اکتوبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (سلمان عابد)
عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی سیاسی میدان میں کود پڑے ہیں۔ ان کے بقول اب وہ صرف جلسے یا جلوس ہی نہیں کریں گے بلکہ انہوں نے اپنی جماعت کو آنے والی انتخابی سیاست کے لئے بھی پیش کردیا ہے۔ اس لئے حکومت اور بعض سیاسی جماعتوں کا جو خیال تھا کہ دھرنے کی ناکامی کے بعد عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھ خالی اور ناکامی ان کا مقدر ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ دھرنوں کی سیاست کی جلسوں میں تبدیلی نے حکومتی مشکلات میں نیا اضافہ کردیا ہے۔ اس مشکلات میں ایک نیا اضافہ ’’گونواز گو‘‘ کے سیاسی نعروں کا ہے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گونواز گو کے نعروں کی سیاسی پذیرائی نے ملک کی فضا میں حکمران طبقات کو ایک بڑے ردعمل کی سیاست میں مبتلا کردیا ہے۔ گو نواز گو کے سیاسی نعرے نے اوپر سے لے کر نیچے تک کے طبقات میں پذیرائی حاصل کی ہوئی ہے۔ ایک زمانے میں لوگ بڑے لوگوں کے ساتھ اپنے تحفظات، مایوسی اور نفرت کے باوجود ان کے سامنے ردعمل کے اظہار سے گریز کیا کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اس نعرے کا اظہار ہر طبقہ میں کیا جارہا ہے، سیاسی کارکنوں سے ہٹ کر سکولوں اور کالجوں کے بچے اور بچیاں بھی ان نعروں کے ساتھ اپنے شعور کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حکمران طبقہ اب عوامی اجتماعات میں جانے سے قبل منتظمین سے پوچھتا ہے کہ وہ وہاں عوامی ردعمل سے کیسے بچ سکیں گے۔
’’گو نواز گو‘‘ کے سیاسی نعرے محض تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی سیاست تک محدود نہیں رہے بلکہ پیپلز پارٹی کے ناراض جیالے اپنے جلسوں میں بھی اپنی قیادت کا استقبال گو نواز گو کے نعروں سے کرکے انہیں بھی سیاسی طور پر جھنجھوڑ رہے ہیں۔ کسان، مزدور، ٹیچرز سمیت جو بھی طبقات اپنے مسائل یا عوام بجلی کے بلوں میں اضافہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے کو بطور سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے حکومتی رٹ کو کمزور کررہے ہیں انہیں ایک بنیادی نقطہ سمجھنا ہوگا کہ لوگ جب گونواز گو کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کے پیچھے اس نظام سے مایوسی کا عمل لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ جو نظام، جمہوریت اور آئین کی سیاسی چھتری کے نیچے چلایا جارہا ہے وہ ان کے مفادات کے خلاف ہے۔ لوگوں میں اپنے مسائل کے بارے میں مایوسی پہلے بھی تھی لیکن اب اس کے اظہار کے لئے انہیں ایک اچھا نعرہ یا سیاسی شغل مل گیا ہے اس نعرے سے معاشرے کے محروم طبقات اپنے غصہ کا اظہار کرکے اندر کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گو نواز گو کے نعروں کے مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اس نعرے کی حمایت یا مخالفت میں ایک سیاسی لکیر بھی کھینچ دی ہے۔ لوگ سیاسی تھڑوں، چائے خانوں، سیاسی محفلوں، بازاروں، گھروں اور دفتروں میں اسی نعرے کو موضوع بحث بنا کر حمایت او رمخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں گو نواز گو کا نعرہ اپنی مقبولیت میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ دوسرے ملکوں میں رہنے والے پاکستانی بھی اپنے پیغامات کو سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس کے ساتھ پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لوگ ایس ایم ایس میں اس نعرے کو بنیاد بناکر پیغام رسانی کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں اس طرز کے نعروں کی ایک بڑی قبولیت محض چند بڑے شہروں تک محدود رہتی تھی لیکن گو نواز گو کے نعرے اب چھوٹے شہروں سمیت دیہاتوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
9 اکتوبر 2014، روزنامہ دنیا (سید ظفر ہاشمی)
عید کی خوشیوں میں ان دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے جذبات اس حوالے سے دیدنی تھے۔ ان کی بڑی تعداد کا موقف نہایت دلچسپ تھا کہ کیا یہ کبھی ممکن تھا کہ وہ اپنے قائد کے ہمراہ عید منا پائیں یہ موقع انہیں اس احتجاج نے دیا کہ ان کے قائدین ان میں رہ کر ان کے ہمراہ عید منائیں گے، اسی طرح ان سے عید ملنے کا موقع بھی ملے گا۔ یہی وہ جذبہ تھا کہ ان دھرنوں کے شرکاء نے سیاسی تحریکوں اور احتجاج کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کردی جب کہ کارکنوں کے اس بے مثال جذبے نے بھی اپنے قائدین کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ عید بھی سڑک پر منانے پر آمادہ ہوگئے اور پھر قوم نے عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کی امامت میں نمازیوں کی بہت بڑی تعداد شریک تھی جنہوں نے اس اجتماع کو یادگار بنادیا۔ اپنے ہمراہ نمازیوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر دونوں جماعتوں کے قائدین بھی مطمئن نظر آئے کیونکہ یہ اجتماع ان کے لئے نئی قوت کا باعث تھا کہ جب انہیں اپنے گھر واپس لوٹ جانا چاہئے تھے، وہ عزم مصمم کے ساتھ کارکنوں کے ساتھ کھڑے تھے کہ کسی کو گھر سے دوری کا احساس تک نہیں ہوا۔ نماز کے بعد قربانی بھی ہوئی اور بار بی کیو کی محفلیں بھی۔ عید کے تینوں دنوں میں صرف مردوں ہی نے اپنے قائدین کا ساتھ نہیں دیا بلکہ خواتین کی تعداد بھی کسی سے کم نہ تھی جو اپنی گھریلو مصروفیات چھوڑ کر یہاں آتی رہیں اور تحریک میں اپنا حصہ ڈالتی رہیں۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر کبھی ایسے اجتماع کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا جو اس احتجاج کے باعث اس ملک کے لوگوں کو دیکھنے کو ملا۔
11 اکتوبر 2014، روزنامہ جنگ (ایاز امیر)
’’پرانی سیاست گری خوار ہے‘‘۔ مضمون کا عنوان قدرے ڈرامائی دکھائی دیتا ہے یا نہیں؟ تاہم مجھے محسوس یہ ہورہا ہے کہ کسی قدر تذبذب اور کافی حد تک غیر محسوس طریقے سے تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہورہا ہے۔ ایک ملک جو بہت دیر سے کنفیوژن اور سراسیمگی، چنانچہ بے عملی، کا شکار تھا، اب آخر کار خواب سے بیدار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بہت سوں کے نزدیک یہ ایک توانا احساس ہے جس کا مشاہدہ دھرنوں میں کیا جاسکتا ہے۔ روایتی اقتدار زدہ طبقوں، جوجمہوریت کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کررہے ہیں، کے لئے یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے۔ ان کی مردہ اور بے جان سیاست کے بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔
آج پاکستانی سیاست ماضی کو دفنا کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی سیاست میں عوام کے لئے کچھ نہ تھا۔ اب چونکہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری ناانصافی، سماجی، سیاسی اور معاشی عدم مساوات اور استحصال کی بات کررہے ہیں تو لوگ ان کو سن رہے ہیں۔ عمران خان کے بڑے بڑے جلسوں میں یہی چیز لوگوں کوکھینچ کر لارہی ہے۔ اس دوران روایتی سیاسی جماعتوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ وہ لے دے کہ جمہوریت اور آئین کے تحفظ کی ہی راگنی الاپ رہے ہیں۔ چونکہ وہ سیاسی طور پر کھوکھلے ہوچکے ہیں، اس لئے اب ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں اور نہ ہی ان کی کہی ہوئی باتیں عوام پر کوئی تاثر چھوڑتی محسوس ہوتی ہیں۔ دراصل جمہوریت کو دھرنوں نے نقصان نہیں پہنچایا، انہوں نے روایتی سیاست کے قلعے کی دیواریں ہلادی ہیں۔ اس تمام احتجاج کا روح رواں وہ درمیانہ طبقہ ہے جو اس سے پہلے سیاست سے دور رہتا تھا کیونکہ یہ تعلیم یافتہ اور محنتی لوگ اس سیاسی نظام میں اپنا کوئی مستقبل نہیں دیکھتے تھے۔ سالوں یا مہینوں میں نہیں، چند ہفتوں کے احتجاج نے پرانے سکہ بند سیاسی مہرے بے وقعت کردیئے۔ اب لوگ ایسے ایسے سوالات اٹھارہے ہیں جن سے پہلے ان کی زبان اور سننے والوں کے کان ناآشنا تھے۔
اکتوبر 68ء سے لے کر مارچ 69ء تک ہونے والے ایوب مخالف احتجاج نے اس جمہوریت کو رستخیز کردیا جسے ایوب خان کنٹرول کررہے تھے۔ 1977ء میں چلنے والی بھٹو مخالف تحریک بھٹو کے اقتدار کو بہاکر لے گئی اور پھر اسلام کے نام پر ضیاء دور شروع ہوا۔ آج ہماری سیاسی تاریخ ایک اور صفحہ پلٹ رہی ہے اور اس کا سر نام عمران اور قادری ہیں۔ ان دونوں کو اس بات کا احساس تھا یا نہیں لیکن ان کی وجہ سے ایک نیا سیاسی شور ابھر کر پرانے نظام کو چیلنج کررہا ہے۔ میں نے کہا ہے کہ ان کو شاید احساس نہیں تھا کیونکہ جب انہوں نے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا تو انہیں ہرگز اندازہ نہ تھا کہ اگلے چھے ہفتوں یا دو مہینوں میں کیا ہوگا۔ ان کی اور قوم کی خوش قسمتی کہ جب وفاقی حکومت کی اتھارٹی تحلیل ہوچکی تھی تو بھی فوج نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور مداخلت نہ کی۔ اگر ایسا ہوجاتا تو ایک مرتبہ پھر یہ شریف برادران کے لئے اسی طرح آب حیات ثابت ہوتی جیسے 1999ء کے شب خون نے انہیں سیاسی شہید بناتے ہوئے جمہوریت کا چیمپئین بنادیا اور ان کی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ اس کے بعد جب عمران اور قادری کے لئے صورت حال بہت مایوس کن دکھائی دے رہی تھی اور ان کی عقل اور طریق کار پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے تھے، وہ اپنے قدموں پر جمے رہے حالانکہ شکست کے سائے ان پر منڈلا رہے تھے۔ تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر ہوا کا رخ پھیردیا۔ جب اس سفر کا آغاز کیا تھا تو عمران خان بہت فاتح ہیرو دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس وقت عوام کی تعداد اور تنظیم قادری صاحب کے پاس زیادہ متاثر کن تھی لیکن پھر اسلام آباد کے آسمان نے آہنی عزم کے دو پیکر دیکھے جن کے پائے استقامت میں چلچلاتا ہوا سورج اور برستی ہوئی بارش بھی لرزش پیدا نہ کرسکی۔ کوئی عام رہنما ہوتا تو وہ چند دن بعد میدان چھوڑ دیتا۔ ان کا مذاق اڑایا گیا، ان کی تضحیک کی گئی لیکن وہ کنٹینر سے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے رہے۔ آہستہ آہستہ سیاسی پنڈتوں کی میزیں الٹنے لگیں۔ بہر حال اس میں سیاسی پنڈتوں کا بھی کوئی قصور نہیں کیونکہ یہ افراد اپنی من پسند سنہری التباسات سے سجی (یا سجائی ہوئی؟) دنیا میں ہوتے ہیں، یہ لوگ اس جرات رندانہ کو کیا جانیں دوسری طرف عمران اور علامہ قادری کے ہاتھ عوام کی نبض پر تھے۔ ایسی تحریکوں میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایوب مخالف تحریک میں ایسے ہی سیاسی پنڈت عوام کی نبض شناسی سے قاصر رہے اور ایوب کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا اور نہ سمجھ سکے کہ بھٹو تاریخ نہیں، تاریخ رقم کررہا ہے۔ آج ایک مرتبہ پھر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔
اب اہم سوال یہ کہ اب کیا ہوگا؟ کیا حکومت کی عدم فعالیت ہمیشہ کے لئے رہ سکتی ہے یا پھر وسط مدتی انتخابات شریف برادران کو اقتدار کی اذیت سے نجات دلادیں گے؟ اہم بات یہ کہ اس وقت حکومت کے پاس اقتدار ہے، اتھارٹی نہیں۔ ملک میں ایک موڈ موجزن ہے اور اس میں سیاسی بے چینی کے باوجود عوام میں ناامیدی یا قنوطیت نہیں پائی جاتی۔ تاہم آج عوامی موڈ کی ترجمانی کرنے والے دھرنے اور احتجاجی جلسے ہماری سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب ہیں۔ آج پرانی سیاست گری خوار اور زمین میرو سلطان سے بیزار ہوچکی۔ عمران اور قادری نے سیاسی پیمانے بدل دیئے ہیں۔ آج ’’جمہوریت خطرے میں ہے‘‘ کی سدا بے اثر ہوچکی۔ چاہے شریف برادران اور زرداری آئین اور نظام کو بچانے کی جتنی بھی باتیں کرلیں، عوام ان کی تاویلات سننے کے موڈ میں نہیں۔ لوگ اب اس روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔
11 اکتوبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری کی تحریک نے پورے پاکستان میں ایک طبقاتی ہلچل مچادی ہے۔ عام آدمی خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اب یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ ان کے ساتھ 67 سالوں سے جو زیادتیاں ہورہی ہیں۔ جومعاشی ناانصافیاں ہورہی ہیں وہ تقدیر کا لکھا نہیں بلکہ برسراقتدار طبقات کا وہ ظلم ہے جس سے چھٹکارا پانا ان کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ یہ ایک ایسی فکری تبدیلی ہے جس کا کریڈٹ عمران خان اور طاہرالقادری کو ہی جاتا ہے۔ ہماری سیاسی ایلیٹ دھرنوں اور جلسوں کا مذاق اڑا کر ان پر طرح طرح کے الزامات لگاکر اس تحریک کی حقیقت اور اس کے مضمرات کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے لیکن وہ ان دھرنوں اور سیلابی جلسوں کے خطرناک مضمرات کا نہ صرف ادراک رکھتی ہے بلکہ اس کے سنگین نتائج سے سخت بدحواس بھی ہے اور اس بدحواسی میں ان خطرات سے بچنے کی جو کوششیں کررہی ہے، ان میں سے ایک جوابی جعلی جلسوں کی کوشش ہے۔
ملکی وسائل اور سہولتیں حکومت اور اس کے طبقاتی اتحادیوں کو جوابی پرہجوم جلسے منعقد کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں غالباً ان ہی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جوابی جلسے کرنے کی تیاریاں جارہی ہیں جن کا واحد مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام اس کرپٹ اشرافیہ کے ساتھ ہیں لیکن عوام ماضی میں بھی دیکھتے رہے ہیں اور اب بھی دیکھ رہے ہیں کہ وڈیرہ شاہی کے جبر اور دولت کے بے بہا استعمال سے جو جعلی اور دیہاڑی دار جلسے جلوس کئے جاتے ہیں نہ ان میں جوش و جذبہ ہوتا ہے نہ ان کے سامنے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی سہولت اور معقول اجرت کے ساتھ جو ’’سیلابی‘‘ جلسے منعقد کئے جاتے ہیں ان کی حیثیت جلوس جنازہ سے زیادہ نہیں ہوتی کہ جلوس جنازہ خواہ کتنے ہی میل لمبا ہو اس میں ماتمی فضا ہی برقرار رہتی ہے کسی مقصد کسی مثبت تبدیلی کی خواہش کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
ان جلسوں جلوسوں اور دھرنے والوں کے سامنے ایک اعلیٰ مقصد ہے اور وہ ہے اس ظلم و استحصال کے نظام کو بدلنا۔ کیا وڈیرہ شاہی جبر اور بے بہا دولت کے سہارے لاکھوں پتھر کے انسانوں میں وہ جوش و جذبہ پیدا کرسکتی ہے جو عمران خان کے جلسوں اور قادری کے دھرنوں کے شرکاء میں دیکھا جاسکتا ہے؟ کیا ان جعلی جلسوں کے ہاری نظام کو بدلنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟ جس نے 20 کروڑ عوام کو زندہ درگور کررکھا ہے؟ ہوسکتا ہے حکمران اتحاد ریاستی طاقت اور اپنے بے بہا وسائل کے ذریعے اس طوفان کو روکنے میں کامیاب ہوجائے اور وقتی طور پر بپھرے ہوئے عوام خاموش ہوجائیں یا تحریکوں کی قیادت کرنے والے پسپا ہوجائیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جہاں ظلم ہوگا وہاں مزاحمت ہوگی۔ اگر حکومتیں ظلم کو ختم کئے بغیر ناانصافیوں کو ختم کئے بغیر محض ریاستی طاقت اور آئینی اختیارات کے ذریعے عوام کو بے بس کرنا چاہیں گی تو یہ ایک ایسی ہی حماقت ہوگی جیسے پرندے ریت میں گردن چھپا کر شکاریوں سے بچنے کی حماقت کرتے ہیں۔
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تمام لٹیرے طبقات اپنی لوٹ مار کے نظام کو بچانے کے لئے متحد ہوگئے ہیں اور عوامی جلسوں عوامی نفرتوں کا جواب کرائے کے عوام سے دینا چاہتے ہیں لیکن یہ سادہ لوح لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ اصلی جلسوں کے ذریعے عوامی طاقت کے جو مظاہرے کئے جاتے ہیں وہ نقلی جلسوں کے ذریعے نہیں کئے جاسکتے نہ میڈیا پر بے جان جوابی حملوں سے ان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہماری اشرافیہ اس حقیقت کو سمجھ لے تو ہوسکتا ہے عوامی غیض و غضب سے بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے لیکن اگر اشرافیہ طاقت اور جعلی جلسوں کے ذریعے اپنے بچاؤ کی کوشش کرے گی تو پھر آگے لاوا ہی لاوا ہوگا جو سب کچھ جلا کر راکھ کردے گا۔
13 اکتوبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
ملک کے سیاسی حالات ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں موجودہ ناکام ترین جمہوری نظام کی تبدیلی ناگزیر نظر آرہی ہے اور اسے ہم عوام کی خوش قسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ سر پھرے لوگ جان ہتھیلی پر لے کر اس سڑے گلے ناکارہ استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کے عزم مصمم کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان ہی کی تاریخ کا نہیں بلکہ یہ دھرنا دنیا کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ 20,25 ہزار لوگ جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، دو ماہ سے اس شاہراہ دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں جس کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی طویل مدت سے یہ لوگ یہاں کیا محض تفریح کے لئے بیٹھے ہیں؟ ہماری سیاسی ایلیٹ اس دھرنے کی اہمیت کرنے کے لئے اس کا طرح طرح سے مذاق اڑا رہی ہے، اس کے خلاف طرح طرح کے الزام لگاکر عوام میں اسے بدنام کرنے، اس کی اہمیت کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔
خیال یہ تھا کہ عید کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء میں بے چینی اور انتشار پیدا ہوجائے گا اور شرکاء عید منانے اپنے گھروں پر جانے کے لئے اصرار کریں گے۔ یوں یہ تاریخ کی طویل ترین تحریک اپنی موت آپ مرجائے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ دھرنے کے شرکاء نے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر ہی عید منائی اور ان لوگوں کی نیک خواہشوں کو ناکام بنادیا جو دھرنے کی معنویت اور گہرے مضمرات سے سہمے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم اس دھرنے یا تحریک کی حمایت یا مخالفت پر نظر ڈالیں اس بات کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں کہ دھرنے والے جس گلے سڑے کرپٹ ترین نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں کیا وہ درست اور جائز ہے؟ اس سوال کے جواب پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اہل سیاست، اہل خرد، اہل دانش، اہل قلم اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھاری اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی نظر آتی ہے کہ 67 سال کے دوران کوئی حکومت ڈلیور نہیں کرسکی یعنی عوام کے مسائل حل نہیں کرسکی۔ اس بات کا رونا بھی سب ہی رو رہے ہیں کہ جمہوریت کی پوری تاریخ لوٹ مار سے عبارت ہے۔ اس بات پر بھی کسی کو اختلاف نہیں کہ جمہوریت کے نام پر چند خاندان سیاست اور اقتدار پر اپنے خونی پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ اس بات کو بھی اہل علم، اہل قلم تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت ہر کام میرٹ کے بجائے اپنی پسند ناپسند سے کررہی ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ہر آنے والی حکومت، ہر جانے والی حکومت سے زیادہ بدعنوان ثابت ہوتی رہی ہے۔ اس بات پر بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہورہا ہے، اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ عوام کا اربوں، کھربوں روپیہ غیر ملکی بینکوں میں موجود ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بدترین نظام کو ختم ہونا چاہئے یا نہیں؟ اگر ختم ہونا چاہئے تو پھر اسے باقی رکھنے کی ’’ماہرانہ‘‘ کوششیں کیوں کی جارہی ہیں، کیونکر حکمرانوں کو یہ مشورے دیئے جارہے ہیں کہ وہ فلاں اقدام کرے، فلاں اصلاح کرے، بلدیاتی الیکشن کا اعلان کردے تاکہ دھرنے والے اس الیکشن میں مصروف ہوجائیں اور ان کی توجہ دھرنوں، جلسوں سے ہٹ جائے۔ ہوسکتا ہے یہ مشورے دیانت پر مبنی ہوں لیکن لگتا یہی ہے کہ اس قسم کے مشوروں کا مطلب اس کرپٹ اور نااہل ترین حکومت کو سانس لینے کا موقع فراہم کرنا ہی ہوسکتا ہے۔ اگر اس حکومت میں وہ ساری برائیاں موجود ہیں جن کا سرسری ذکر ہم نے اوپر کیا ہے اور حکومت کو اصلاح کا مشورہ دینے والے بھی جب ان برائیوں کو تسلیم کررہے ہیں تو پھر اس حکومت کی خیر خواہی کا مطلب کیا؟
دنیا بھر میں جمہوریت کا مطلب رائے عامہ کی برتری مانا جاتا ہے۔ دھرنے والوں پر یہ اعتراض تھا کہ 20 کروڑ کی آبادی میں 20,25 ہزار عوام کا احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بالکل درست اعتراض ہے لیکن تحریک نے جلسے کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام اس ظالمانہ نظام کو ہر قیمت پر بدلنا چاہتے ہیں۔ ان جلسوں میں لاکھوں انسان اپنی ٹرانسپورٹ، اپنی مرضی سے اپنے بال بچوں کے ساتھ آئے۔ کیا جمہوریت اور نظام کی تبدیلی کی خواہش کا اس سے بڑا کوئی ثبوت ہوسکتا ہے؟ ہمارے انتخابی نظام کی تاریخ میں عموماً 50,40 فی صد لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں ان میں بھی آدھے سے زیادہ جعلی ووٹر اور ووٹ ہوتے ہیں اس انتخابات کو ہماری سیاسی ایلیٹ عوام کے مینڈیٹ کا نام دے کر 5 سال تک عوام کا خون چوسنے کو جمہوریت کا نام دیتی ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟
اگرچہ موجودہ بحران کا واحد حل یہی ہے کہ ملک میں مڈٹرم الیکشن ہوں۔ اصل مسئلہ محض مڈٹرم الیکشن کا ہی نہیں ہے بلکہ مڈٹرم الیکشن سے پہلے ان اصلاحات کا ہے جس کا مطالبہ عمران خان اور طاہرالقادری کررہے ہیں۔ یعنی زرعی اصلاحات، انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی ازسر نو تشکیل، بلدیاتی انتخابات اور کرپٹ رہنماؤں کا احتساب۔ ان اصلاحات کے بغیر مڈٹرم الیکشن بے معنی اور غیر منطقی ہیں۔ اگر اہل دانش، اہل قلم نظام کو بہتر بنانے کے لئے نظام کی تبدیلی کے بجائے حکومت کو چند اصلاحات کا مشورہ دیتے ہیں تو یہ عوام دوستی نہیں ہوسکتی۔
13 اکتوبر 2014، روزنامہ جنگ (قیوم نظامی)
اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان سے یہ کام ضرور لے لیا کہ اسلام آباد دھرنوں کی وجہ سے پاکستانی قوم جاگ اٹھی۔ انقلاب اور تبدیلی کی سوچ ہر گھر میں پہنچ گئی۔ جعلی جمہوریت اور غیر منصفانہ نظام بے نقاب ہوگئے۔ عوام میں مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس مثبت بیداری کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری، عمران خان اور دھرنوں میں شریک کارکنان دلی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مطابق دھوبی گھاٹ فیصل آباد کا جلسہ کامیاب اور یادگار تھا اس جلسے کی کامیابی کا سہرا شہیدان انقلاب، ڈاکٹر طاہرالقادری کی ولولہ انگیز قیادت اور دھرنے کے شرکاء کے سر ہے۔ مسلم لیگ (ق) اور مجلس وحدت المسلمین کے کارکنوں نے اس جلسے کی کامیابی کے لئے قابل ذکر حصہ ڈالا۔ عوامی تحریک نے دعویٰ کیا ہے کہ فیصل آباد میں تین لاکھ افراد شریک ہوئے۔ دھوبی گھاٹ جلسے کی نمایاں خوبی قابل رشک تعداد میں خواتین کی شرکت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین نے تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے حسب روایت عوام سے پرجوش خطاب کیا انہوں نے کہا کہ اگر عوام ان کو سپورٹ، نوٹ اور ووٹ دیں تو وہ انقلاب برپا کرکے ان کی تقدیر بدل دیں گے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری بڑی مہارت کے ساتھ عوام کے ان بنیادی مسائل کو اجاگر کررہے ہیں جن کو پاکستان کی دو بڑی جماعتوں نے بری طرح نظر انداز کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تاریخی خطاب میں اعلان کیا کہ وہ پنجاب کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیں گے۔ ہر صوبے میں سپریم کورٹ کا بنچ اور ہائی کورٹ قائم کریں گے تاکہ عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم ہوسکے۔ دیوانی مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے گا۔ بیرونی قرضے چھ ماہ کے اندر واپس کردیئے جائیں گے۔ بجلی کا بحران دو سال کے اندر ختم کردیا جائے گا۔ وی آئی پی کلچر ختم ہوگا اور دس نکاتی انقلابی ایجنڈے پر عمل کرکے عوام کو بنیادی حقوق دیئے جائیں گے تاکہ وہ امن سکون اور عزت سے زندگی گزار سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ قابلیت، صلاحیت اور اہلیت کے اعتبار سے ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے نمبرون لیڈر ہیں۔ اسلام آباد کے دھرنے عوام کو شرکت پر مائل نہ کرسکے البتہ عوام جلسوں میں بھرپور بلکہ غیر معمولی تعداد میں شریک ہورہے ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ عوام انقلاب کی بجائے انتخاب کے ذریعے تبدیلی لانے کے آرزو مند ہیں۔
14 اکتوبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (ڈاکٹر علی اکبر الازہری)
ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے آزادی اور انقلاب مارچ کے ذریعے تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ حکومت سمیت بہت سے لوگوں نے ان پر دل کھول کر تنقید کی دھرنوں کو غیر ملکی سازش قرار دیا مگر جو حقیقت ہے وہ سب پر عیاں ہے اور وہ ہے پاکستان کے عوام میں تبدیلی کی خواہش۔ اس نظام حکومت کی تبدیلی جس میں غریب غریب تر ہورہا ہے۔ جس میں دھن، دولت اور دھاندلی کے بغیر کوئی شریف شخص صوبائی اور قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس نظام حکومت کی تبدیلی جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں مگر انہیں رزق حلال کمانے کا موقع نہیں مل رہا۔ اقتدار چونکہ انکی مشترکہ میراث ہے اس لئے ملک کا قانون بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں رات کے پچھلے پہر پنجاب پولیس نے حملہ آور ہوکر 14 قیمتی جانوں کو تلف اور 85 لوگوں کو سیدھی گولیاں مار کر زخمی کردیا مگر اگلے دن ایف آئی آر قاتلوں کے بجائے مقتولین کے ورثاء کیخلاف کاٹی گئی۔ حکومت کے مقرر کردہ عدالتی ٹربیونل نے حکومت پنجاب کو ہی سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا مگر آج تک نہ کسی کیخلاف قانونی کاروائی ہوئی اور نہ قاتلوں کو سزا ملی۔ یہ حال تو ایک ملک گیر تحریک کے ساتھ کیا گیا۔ ہمارے ملک کے طول و ارض میں ہزاروں لاکھوں مظلوم و مقہور دن رات ظلم و جبر اور ناانصافی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انکی کوئی شنوائی اور داد رسی نہیں کی جاتی۔ PTI اور PAT کے 60روزہ تاریخی دھرنوں نے انہی حقائق کے پیش نظر لوگوں کے ذہن تبدیل کردیئے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے جلسوں میں عوام کے امڈتے ہوئے ہجوم پاکستانی قوم میں تبدیلی کی اسی خواہش کے غماز ہیں۔ شریف برادران اور انکے خیر خواہ اس بات پر پریشان ہیں کہ اب تبدیلی کی اس ہوا کا سامنا کیسے کیا جائے۔ اعتزاز احسن نے اسی لئے انہیں عوامی اجتماعات میں جانے سے گریز کا ’’ہمدردانہ‘‘ مشورہ دیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب UNO میں خطاب کیلئے امریکہ جائیں یا امدادی سامان تقسیم کرنے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں ہر جگہ ’’گو نواز گو‘‘ کی آوازیں ان کا تعاقب کررہی ہیں۔ یہ نعرہ اب سرکاری ملازموں سمیت کسانوں، مزدوروں اور سوسائٹی کے دیگر طبقات کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ کیونکہ لوگوں نے گذشتہ تیس سال سے ان لوگوں کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں بھیجا مگر اکا دکا سڑکوں اور پلوں کے علاوہ ایسا کوئی کام نہیں ہوا جس سے غریب کے گھر کا چولہا جل سکے یا ملک کو اندھیروں سے نجات مل سکے، غریب کے بچے کو تعلیم اور صحت کی نعمت میسر ہو۔ پاکستان کے عوام پر دھرنوں کے قائدین نے روائتی نظام کو چیلنج کرکے یہ غیر معمولی احسان کیا ہے کہ انہیں کھوٹے کھرے کی تمیز سکھادی ہے اور جمہوریت کی حقیقت سمجھادی ہے۔ جمہوری حکومت کی ذمہ داریوں سے آگاہی دی ہے اب کسی شخص یا ادارے میں ہمت نہیں ہوگی کہ وہ انتخابی دھاندلی کا ارتکاب کرسکے۔ حکومتی ایوانوں کیلئے تبدیلی کے تعاقب اور انکی سماعتوں کیلئے گو نظام گو کا نعرہ تلخ سہی مگر یہ تبدیلی کی بہت واضح علامت ہے اور پاکستان کے مستقبل پر اسکے مثبت نتائج ضرور مرتب ہونگے۔
15 اکتوبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (اسرار بخاری)
عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر ایک برتری ضرور حاصل ہے کہ وہ اپنے مجوزہ انقلاب کیلئے ایک واضح پروگرام رکھتے ہیں جبکہ عمران خان کا ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ بے سمت پروگرام ہے۔ عمران خان اقتدار میں آکر کیا کرینگے یہ شاید خود انہیں بھی علم نہیں ہے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا، قوم کی مدد سے مگرمچھوں کا مقابلہ کروں گا، نواز، زرداری اور فضل الرحمن مل کر بھی نہیں ہرا سکتے، نوازشریف پر میرا خوف طاری ہے، شادی کا فیصلہ کر لیا ہے، نیا پاکستان بنا کر شادی کروں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ دعوے، نعرے اور عزائم ہیں جو عمران خان کے نئے پاکستان کی بنیاد ہیں پھر جہاں گئے وہاں کی بات کر دی کے مصداق کراچی گئے تو سندھ کی تقسیم کی بات کر دی، ملتان گئے تو سرائیکی صوبہ کا وعدہ کر لیا اسکے برعکس ڈاکٹر طاہرالقادری کے انداز سیاست سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے انکی سیاست میں غیر ملکی مفادات اور عزائم کی تکمیل کے جتنے اندیشے پرکھے جائیں وہ اپنے انقلاب کیلئے ایک واضح پروگرام ضرور رکھتے ہیں۔ فیصل آباد کے جلسے میں بھی انہوںنے اپنے اس پروگرام کا اعادہ کیا۔
16 اکتوبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (سلمان عابد)
عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری جو انتخابی نظام میں خرابیوں کو بنیاد بناکر انتخابی سیاست سے عملاً لاتعلق ہوگئے تھے، ان کا دوبارہ انتخابی سیاست کا حصہ بننا ایک اچھا سیاسی فیصلہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے انتخابی نظام میں بے شمار ایسی خرابیاں اور موذی مرض ہیں جنہوں نے عملاً انتخابات کے نظام کو مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ ہم نے ماضی کے مقابلے میں کئی انتخابی اصلاحات بھی کیں لیکن جب حکمرانوں اور ریاست کے اداروں کی سیاسی نیتوں میں کھوٹ اور بدنیتی ہو تو اچھی اصلاحات بھی کمزور سیاسی کٹمنٹ، ذاتی مفادات پر مبنی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط اثر و نفوذ کے سامنے بے بس ہوتی ہیں۔ اس لئے انتخابی نظام میں خرابیوں پر مایوسی کی کیفیت محض ڈاکٹر طاہرالقادری تک محدود نہ تھی، سیاسی اشرافیہ اور بعض سیاسی جماعتیں اور ان میں شامل کچھ افراد انفرادی سطح پر انتخابی نظام کے طریقہ کار پر سخت تنقید اور مایوسی کا اظہا رکرتے رہے ہیں۔
لیکن انتخابی نظام میں خرابیوں سے نمٹنے کے لئے تین ہی حکمت عملیاں ہوتی ہیں۔ اول آپ اس انتخابی نظام سے لاتعلق ہوکر اس کی خرابیوں کی نشاندہی کرکے اپنے انتخابی لاتعلقی کے جواز کو پیش کریں۔ دوئم آپ یہ دلیل دیں کہ پہلے انتخابی نظام بہتر ہو اور پھر ہم انتخابی سیاست کا حصہ بنیں گے۔ سوئم اسی انتخابی نظام میں خرابیوں کے باوجود اس کا حصہ بن کر اس میں اصلاحات کے عمل کا حصہ بن کر ایسی دباؤ کی سیاست کریں جو بگاڑ میں اصلاح و احوال کا کام دے سکے۔ انتخابی نظام کو اچھا اور شفاف بنانا صرف الیکشن کمیشن یا سیاسی جماعتوں ہی کہ ذمہ داری نہیں بلکہ اس میں ریاست کے تمام اداروں، نگران حکومتیں اور سیاسی اشرافیہ کے گروپوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر آپ خود نظام کو بدلنے کے خواہاں ہیں اور اس کا راستہ بھی جمہوری اور آئینی سیاست کے اندر ہی رہ کر تلاش کرنے کے خواہش مند ہیں تو انتخابی سیاست ہی اس نظام کی بڑی بنیاد ہوگی۔ آج جو دنیا میں جمہوری سیاست ہے اس کی بنیاد ووٹ کی سیاست سے منسلک ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ان کی طرف سے ماضی میں انتخابی سیاست سے لاتعلقی کا فائدہ ان ہی سیاسی قوتوں نے اٹھایا جو اپنی ذاتی اقتدار پر مبنی سیاست کو بنیاد بناکر انتخابی نظام کو اپنی سیاسی ڈھال بناتے رہے ہیں۔ اس لئے اب جب دوبارہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پاکستان کی عملی سیاست میں قدم رکھا تو ان کے بیشتر ناقدین ان کو انتخابی سیاست سے لاتعلقی کی بنیاد پر سیاسی فریق تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔ حالانکہ عملی سیاست سے مراد محض انتخابی سیاست نہیں ہوتی۔ بعض اوقات آپ انتخابات سے باہر بیٹھ کر بھی سیاسی نظام کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں لیکن ایسی صورت میں اقتدار آپ کی منزل نہیں ہوتی بلکہ اقتدار کے حامیوں پر اپنی پالیسیوں کا دباؤ ڈالنا مقصود ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہو تو انتخابی سیاست کو ہی بنیاد بناکر جمہوری نظام میں بہتری کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری جب انقلاب کی بات کرتے تھے تو ان کے مخالفین یا ان کی سیاست پر تحفظات رکھنے والے یہ سوال ضرور اٹھاتے تھے کہ یہ انقلاب بغیر انتخابی سیاست میں حصہ لئے کیسے آئے گا۔ یہ منطق کہ پہلے سارا انتخابی نظام ٹھیک ہوپھر انتخابی سیاست کا حصہ بنا جائے، محض ایک خواہش ہوسکتی ہے، حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ ہمیں خرابیوں کے اندر ہی رہ کر ان خرابیوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں یہ رائے کہ وہ انتخابی سیاست پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے، غلط تصور ہے۔ ان کی تنقید موجودہ انتخابی نظام پر تھی اور ان کے بقول اس کی اصلاح کرکے ہی انتخابی سیاست کا حصہ بنا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے 2013ء کے انتخابات سے قبل جو انتخابی نظام اور الیکشن کمیشن کے معاملات پر جوبنیادی سوالات اٹھائے تھے اس وقت کے حالات پر ان کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن انتخابات کے بعد کے منظر نے ثابت کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تنقید انتخابات سے قبل جائز تھی لیکن ان کے اعتراضات کو کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی، اب جو فیصلہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انتخابی سیاست میں شرکت کا اعلان کرکے کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ یقینا اس فیصلہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا اپنا فہم بھی شامل ہوگا اور ان کو لگتا ہوگا کہ اب انتخابی سیاست کا حصہ بن کر اقتدار کے حصول کی سیاست کریں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی خوبی یہ ہے کہ اس وقت ملک کے بڑے حصہ پر ان کی تنظیم کا انتظامی ڈھانچہ موجود ہے۔ اس انتظامی ڈھانچہ کا مظاہرہ ہم لاہور میں ان کے ڈویژن کے تنظیمی اجلاس اور سیاسی جلسوں جلوسوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ اسی طرح ان کی تنظیمی صلاحیتوں اور ان کے کارکنوں کی تربیت کے موثر نظام اور انکی سیاسی و نظریاتی کمٹمنٹ کا مظاہرہ بھی قابل دید ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے پرجوش، ولولہ انگیز خطابت، قانونی اور آئینی نکات پر ان کی دسترس اور اپنی علمی صلاحیتوں کی باعث ایک طبقہ پر اپنا مضبوط اثرو نفوذ رکھتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ انتخابی سیاست میں کود تو پڑے ہیں لیکن اس انتخابی سیاست میں جہاں بہت سے مسائل موجود ہیں اس میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے ساتھی اس میں کیسے اپنا راستہ بناتے ہیں۔ انتخابی سیاست میں کوئی جادوئی عمل نہیں ہوتا بلکہ یہ عمل اپنے تسلسل کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کو انتخابی سیاست میں دوبارہ آمد پر یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ لوگ اس موجودہ سیاسی نظام سمیت انتخابی نظام سے نالاں ہیں۔ لوگ واقعی نظام کی تبدیلی کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے لئے یہ بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ عملی اور انتخابی سیاست میں نظام کی تبدیلی میں کیا بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔
18 اکتوبر 2014، روزنامہ دنیا (منصور)
دھرنے اور میڈیا نے مل کر ایسا کام کیا جو اس سے پہلے ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ وہ تمام حقوق، عام آدمی جن کے حصول کا کبھی سوچ بھی نہ سکتا تھا جن کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، اب اس نے ان کے بارے میں خواب دیکھنا شروع کردیئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے یہ خیالات اس کو پریشان نہیں کرتے تھے یا یہ سوچ نہیں آتی تھی لیکن میرے جیسا عام آدمی ان کا عادی ہوگیا تھا اور اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ تبدیلی نہیں آسکتی، بس ایسے ہی ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا کچھ نہی ہوسکتا لیکن گذشتہ چند ہفتوں میں دھرنوں اور میڈیا نے جس طرح معاملات کو اجاگر کیا، اس سے عام آدمی کو پھر سے یہ خواب نظر آنا شروع ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں بھی تبدیلی آسکتی ہے اور وہ اور اس کے بچے ایک ایسے ملک میں رہ سکتے ہیں، جہاں انصاف ہوگا اور کوئی طاقتور ان سے ان کا حق نہیں چھین سکے گا۔ اس سے پہلے اس قسم کے خواب ذوالفقار علی بھٹو نے دکھائے تھے لیکن جب بھٹو کو ایسے خواب دکھانے کی سزا دے دی گئی تو اس کے بعد خاموشی چھاگئی اور قوم جیسے کوما کی حالت میں چلی گئی۔ کافی عرصہ اس کومے کی حالت میں رہی مگر پھر دھرنوں اور میڈیا کے اچانک Shock نے جیسے قوم کو دوبارہ کومے کی حالت سے باہر نکالا اور عام آدمی دوبارہ خواب دیکھنے لگا۔
عوام یہ خواب بھی دیکھنے لگے ہیں کہ اگر بیرون ملک سفر کرنا مقصود ہو توان کو گھنٹوں کسی وی آئی پی کی آمد کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ یہ خواب دیکھنا شروع ہوگئے ہیں کہ کسی وی آئی پی کی سواری گزرے گی توان کے بچوں کو جو کسی وی آئی پی کی سواری کے راستے میں غلطی سے آجائیں گے بے دردی سے قتل نہیں کیا جائے گا۔
اب خواب دیکھا جانے لگا ہے کہ یہ غلیظ سسٹم اور ان کی بادشاہت ختم ہوسکتی ہے تاہم اب بھی عام آدمی کو ذرا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ حکمرانوں نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ عام آدمی کوما کی حالت سے باہر آنے لگا ہے اور یہ صورتحال ان کی بادشاہت کے لئے خطرناک ہوسکتی ہے۔ اسی لئے ان حکمرانوں، جو عرصے سے عام آدمی کا خون چوس چوس کر عفریت بن چکے ہیں، نے اکٹھے ہوکر جمہوریت جمہوریت کا شور مچانا شروع کردیا ہے۔ میری باری تیری باری کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ کیا جمہوریت اسی کو کہتے ہیں؟
18 اکتوبر 2014، روزنامہ ایکسپریس (اصغر عبداللہ)
عمران خان کے بعد اب طاہرالقادری اور چودھری برادران بھی احتجاجی جلسوں کا آغاز کرچکے ہیں۔ طاہرالقادری اور چودھری برادران کے بدترین مخالف رانا ثناء اللہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دھوبی گھاٹ میں طاہرالقادری اور چودھری برادران کا جلسہ یہاں عمران خان کے گذشتہ جلسہ سے بڑا جلسہ تھا۔
فیصل آباد کے بعد طاہرالقادری نے 19 اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں پہلے بھی دسمبر 2012ء میں وہ بہت کامیاب جلسہ کرچکے ہیں بلکہ اس جلسہ کی غیر معمولی کامیابی کے بعد ہی انہوں نے جنوری 2013ء میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور وہاں دھرنا دینے کا عزم کیا تھا۔ رواں سال 14 اگست کو جب طاہرالقادری لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے تھے تو ان کا نعرہ تھا، ’’پہلے انقلاب پھر انتخاب، اب ان کا نعرہ ہے پہلے انتخاب پھر انقلاب۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کے خلاف عمران خان اور طاہرالقادری اور چودھری برادران سب الیکشن پچ پر آچکے ہیں اور اب طاہرالقادری کو سنگل آؤٹ کرکے یہ نہیں کہا جاسکے گا کہ انقلاب کے نام پر وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لحاظ سے طاہرالقادری کا یہ انقلابی فیصلہ خوش آئند ہے۔
ظاہراً تحریک انصاف کی یہ سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ پاکستان عوامی تحریک سے الگ ہوکر چلنا ہے، یہ اندازہ اس وقت بھی ہوا جب گذشتہ سال طاہرالقادری نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا بلکہ تین روز تک پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا لیکن تحریک انصاف نے اس میں علامتی شرکت بھی گوارا نہیں کی تھی۔ بعینہ موجودہ مارچ اور دھرنا میں بھی تحریک انصاف نے اپنے آپ کو عوامی تحریک سے حتی الامکان الگ تھلگ رکھا ہے۔ صرف ان بحرانی دنوں میں عمران خان اور طاہرالقادری میں قربت نظر آئی جب 31 اگست کو پولیس آپریشن کے بعد عمرانی دھرنا بہت سکڑ گیا تھا اور اس مرحلہ پر اگر قادری دھرنا اس کو ریسکیو نہ کرتا تو اس کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل تھا۔
25 اکتوبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
زمینی حقائق یہ ہیں کہ مارچ اور دھرنے میں قربانیوں کی ایسی لازوال داستان چشم فلک پچھلے 67سالہ دور میں نہ دیکھی ہو گی۔ حکمرانوں نے بربریت کے عالمی ریکارڈ توڑے۔ جنگ عظیم دوم اور ویت نام کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بھارت سے 50ہزار زہریلے گیس شیلز درآمد کرکے سیاسی کارکنوں پر چلائے گئے جن کے اثرات دھرنے میں موجود لاکھوں لوگوں میں رفتہ رفتہ نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جبکہ دھرنے اور مارچ کے دوران نوجوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔1500سے زائد اس دوران میں شرکاء شدید زخمی ہوئے جن میں 500کے قریب کارکنان ہمیشہ کے لیے اپاہج بنا دیئے گئے ہیں جبکہ جون سے لے کر مڈ اکتوبر تک ہزاروں کارکنان کو گھروں اور ریلیوں سے اٹھا کر حکومتی صعوبت خانوں میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ 70دن تک 20ہزار سے لے کر 50ہزار شرکائے دھرنا کو روزانہ کی بنیاد پر تین وقت کا کھانا اور پانی، دودھ اور دیگر روزمرہ کی اشیائے صرف مہیا کی گئیں۔ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ دھرنے میں شریک بچوں اور نوجوانوں کے لیے عارضی سکولز قائم کیے گئے جب کہ مریضوں کے لیے دو ڈسپنسریاں اور متعدد موبائل ہیلتھ کیئر سینٹر بنائے گئے۔
قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ محترم عمران خان 7بجے شام بنی گالہ سے تشریف لاتے تھے اور صبح 2سے 3بجے واپس تشریف لے جاتے تھے یہی حال تحریک انصاف کے دھرنے میں شامل شرکاء کا بھی تھا جبکہ چشم فلک نے یہ دیکھا کہ ساون بھادوں کے شدید موسمی اثرات،آندھیاں،بارشیں اور شدید ژالہ باری اور سخت گرم مرطوب موسم بھی جانثارِ طاہرالقادری اور کارکنان وحدت المسلمین،سنی اتحاد کونسل، مسلم لیگ ق کے کارکنان کے عزم اور ارادے کو متزلزل نہ کر سکا۔
عمران خان صاحب کو 30اور 31اگست کی درمیانی شب یقینا یاد ہو گی جب انکے رفقاء اور کارکنان جلسے کے بعد وہاں سے جا چکے تھے اور اس دوران عوامی تحریک اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو چکی تھیں۔خود بقول عمران خان اس وقت انکے ساتھ صرف دو درجن ساتھی موجود تھے۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ دھرنے میں سے 5000شرکاء کو عمران خان کی حفاظت پر مامور کر دیا جائے او رپھر ایسا ہی ہوا۔
اب آتے ہیں نئی حکمت عملی کی طرف یقینا ہدف وہی ہے صرف کمانڈر نے اپنی حکمت عملی بدلی ہے۔ آج انقلاب کے ثمرات اور رخ تبدیل ہونے پر واویلہ کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں ایک حکمران اور ان سے متعلقہ مفادپرست طبقہ جو عوام میں اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے پر بغلیں بجا رہے ہیں اور تبدیلی کی حکمت عملی کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی طرف سے دی جانے والی مارچ، دھرنا اور جلسوں میں تو عملی طور پر شریک نہیں ہوئے ان کا سارا زور ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھ کر یا پھر سوشل میڈیا پر تبصرے پڑھ کر لگتا ہے۔ دراصل یہ دونوں طبقات اس بات سے گھبرا گئے ہیں کہ اگلے دو مہینوں میں پاکستان بھر کے 50چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے کرکے اور دھرنے دیکر انقلاب کو ہر شخص کی دہلیز پر پہنچا دیا جائیگا۔ آپ کراچی، سکھر، بھکر، لاہور کے عوام کو کتنا عرصہ ایک قصباتی شہر اسلام آباد میں بٹھا سکتے ہیں؟ دھرنے کو شہر شہر، گاؤں گاؤں پہنچانے کی حکمت عملی سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ انقلاب کی قیادت کو پاک فوج، آئی ایس آئی، امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل نہیں ہے اور جس دن پاکستان کے 20 کروڑ عوام کو شعور اور آگہی حاصل ہو گئی اس دن ہمیں نوازشریف سے استعفیٰ مانگنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ہم پاکستان میں پْرامن انقلاب کے داعی ہیں۔ خونیں اور جبری انقلاب سے آپ لوگوں پر اپنا فلسفہ مسلط کر سکتے ہیں مگر شعوری انقلاب کے لیے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا اور شعور دلانا بہت ضروری ہے۔ یقینا عوام محرم الحرام کے بعد ایک واضح تبدیلی دیکھیں گے۔حکمت عملی کی تبدیلی پر کرپشن زدہ طبقہ اور لوٹ مارکرنے والے وزراء کا بْرا وقت آنے والا ہے۔ میری مرحومہ والدہ کہا کرتیں تھیں کہ ’’چور کو مال کھاتے ہوئے نہ دیکھو بلکہ مار کھاتے ہوئے دیکھو۔‘‘
28 اکتوبر 2014، روزنامہ نوائے وقت (مطلوب وڑائچ)
بیرون ملک ہزاروں آسائشوں کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کے دل میں بھی وطن کی مٹی کی محبت کی امنگیں جوش مار رہی ہیں۔ وگرنہ پاکستان سمیت نوے ممالک میں منہاج القرآن سینٹرز پر مشتمل ایک بڑا سیٹ اپ ہونے کے باوجود وہ کونسی وجہ ہو سکتی ہے جو ڈاکٹر طاہرالقادری کو پاکستان آنے پر مجبور کرتی ہے؟
تین ماہ تک ایک چھوٹے سے کنٹینر میں اٹھنا، بیٹھنا، سونا اور ریاستی مظالم برداشت کرنا اپنے سامنے ساتھیوں کی لاشیں گِرتے دیکھنا زخمیوں کے بلبلاتے ہوئے روح فرسا مناظر دیکھنا یہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ پاک فوج اور مغربی طاقتوں کی حمایت نہ حاصل ہونے کے باوجود صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور ساتھیوں پر اعتماد کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی اپنے سے سینکڑوں گنا بڑے وسائل رکھنے والے خاندانوں، جاگیر داروں، سرمایہ داروں، چوروں اور لٹیروں سے ٹکرانا کوئی عام سی بات نہیں ہے۔
میں نے گذشتہ کالم میں لکھا تھاکہ راقم اور دیگر ساتھیوں کی مشاورت سے اسلام آباد دھرنے کو عوام کی دہلیز پر پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی جس کے خلاف اقتدار زدہ طبقہ اور مفاد پرست اتحادیوں کو ایک شاک سا لگا اور انہوں نے واویلا کرنا شروع کر دیا۔ قارئین! پرائمری کلاس کا بھی ایک سٹوڈنٹ حساب لگائے کہ ستر دنوں کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے ساتھی دھرنے میں جتنی دیر موجود رہے اگر عمران خان موجود ہ روش کے مطابق آئندہ نو ماہ اور بھی دھرنا دیں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میرا یہ کامل یقین ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری دونوں کو ملک کے طول و عرض میں جلسے اور علامتی دھرنے دے کر جو کامیابی آئندہ چند ہفتوں میں مل سکتی ہے وہ اسلام آباد جیسے قصباتی شہر میں بیٹھ کر حاصل نہیں ہو سکتی۔
عمران خان اور طاہرالقادری دونوں کی منزل ایک ہے مگر راستے اپنے اپنے طریقے سے چْننے کا اختیار ہونا چاہیے اور نوزائیدہ سیاسی قوت عوامی تحریک کو قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے ابھی وسیع پیمانے پر تنظیمی اور انتظامی معاملات ترتیب دینے ہوں گے، جس کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اعتماد میں لے کر سیاسی سرکل میں شامل کرنا ہو گا حکمران اور ناقدین خاطر جمع رکھیں یہ انقلاب اب ٹلنے والا نہیں۔ بقول حکیم الامت حضرت علامہ اقبال :
پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
قارئین! مجھے اور ڈاکٹر طاہرالقادری سمیت ہر دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کو وطن کی مٹی کا قرض ادا کرنا ہے جس سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا۔
28 اکتوبر2014، روزنامہ ایکسپریس (ظہیر اختر بیدری)
14اگست 2014ء سے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے جو تحریک شروع کی ہے وہ دو ماہ کے ڈی چوک پر دھرنوں کے بعد اب بڑے بڑے جلسوں کی شکل میں سارے ملک میں پھیل رہی ہے۔
19 اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور پر طاہرالقادری نے جو جلسہ کیا اس میں تاحد نظر انسان ہی انسان نظر آرہے تھے غالباً یہ جلسہ جلسوں کی سیریز کا سب سے بڑا جلسہ تھا ہمارے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے انسانوں کے سمندر پر مشتمل اس جلسے کو چند ہزار لوگوں کا جلسہ کہہ کر اپنے دل کو تو تسلی دے رہے ہیں لیکن اس دروغ گوئی سے کیا ان کے ضمیر کی تسلی ہوگی؟ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے جلسوں سے گھبرا کر اشرافیہ کی سیاسی جماعتوں نے بھی جوابی جلسوں کا آغاز کردیا ہے۔
تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اس بادشاہی جمہوریت کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہی ہے اور ولی عہدی جمہوریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔ بلدیاتی نظام کو ہمارا حکمران طبقہ اپنے مفادات اور اختیارات کے خلاف اور مداخلت سمجھتا ہے اس لئے وہ ہر ممکن طریقے سے اسے ٹالنے کی کوشش کررہا ہے اور تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک فوری بلدیاتی انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے۔ تیسرا مسئلہ عام انتخابات کا نامنصفانہ اور بددیانتانہ سرمایہ کاری کا نظام ہے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اس غیر منصفانہ اور جانبدارانہ نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہماری سیاست کا سب سے بڑا روگ جاگیردارانہ نظام ہے اور تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں آزادی کے ساتھ اربوں روپوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے کوئی پوچھنے والا نہیں حتی کہ عدالت عالیہ بھی لٹیروں کے سامنے بے بس ہورہی ہے۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کڑے اور غیر جانبدارانہ احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں جسے عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے۔
تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے پاس نہ کوئی داد ہے نہ گیدڑ سنگی جو عوام کو ان کے جلسوں میں گھسیٹ لارہی ہے۔ کیا کوئی سابق یا حالیہ حکمران جماعت اور ان کی اتحادی جماعتی یہ مطالبات کررہی ہیں یا کرسکتی ہیں؟ اس کا جواب نفی میں اس لئے ہے کہ یہ سارے حربے حکمرانوں کی حکمرانی کے لوازمات ہیں وہ کبھی اپنے طبقاتی مفادات کے خلاف بات کرسکتے ہیں نہ کوئی مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو وہ ایسے سیلابی جلسے نہیں کرسکتے یا پھر عوام کو ٹرینوں بسوں ویگنوں اور ہزاروں گاڑیوں میں لاکر ’’بڑے جلسے‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔