20 نومبر کو وطن واپسی کے بعد قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پہلے سے اعلان شدہ اپنے شیڈول کے مطابق 23 نومبر کو بھکر تشریف لے گئے۔ بھکر اور گرد و نواح سے ہزاروں افراد نے آپ کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے انقلابی جدوجہد میں آپ کا ساتھ دینے کے عزم کا بھرپور اظہار کیا۔ بھکر جاتے ہوئے راستے میں آنے والے مختلف علاقوں شاہ پور، حیات آباد، خوشاب، قائد آباد، دریا خان اور ملحقہ علاقوں میں آپ کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ہزاروں کارکنان کے ہمراہ قائد انقلاب جلسہ گاہ تشریف لائے۔ پاکستان عوامی تحریک کے اتحادی رہنما محترم علامہ راجہ ناصر عباس اور محترم صاحبزادہ حامد رضا نے بھی کارکنوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ جلسہ میں شرکت کی۔ جلسہ میں محترم علامہ راجہ ناصر عباس، محترم صاحبزادہ حامد رضا، محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم غلام مصطفی کھر، محترم نذر عباس کہاوڑ، محترم عامر فرید کوریجہ، محترم افضل سعیدی، محترم جے سالک اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ تحریک کی سپریم کونسل کے چیئرمین محترم ڈاکٹر حسن محی الدین بھی جلسہ میں خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ سیاسی، سماجی حلقوں نے جلسہ کو بھکر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیا۔ یہ جلسہ اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ پاکستان عوامی تحریک کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد PP-48 دریا خان بھکر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان عوامی تحریک کی ٹکٹ پر محترم نذر عباس کہاوڑ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں PAT کی اتحادی جماعتوں مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ شرکاء جلسہ کا جوش دیدنی تھا۔ جلسہ گاہ ’’گو نواز گو‘‘ اور ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ جمیل سٹیڈیم بھکر میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
پاکستان میں کمزوروں اور طاقتوروں کے درمیان فیصلہ کن جنگ کا آغاز ہوچکا، حکمران خزانہ لوٹتے اور قانون توڑتے ہیں، اب طاقتوروں سے حق چھیننے کا وقت آ گیا، ضمانت دیتا ہوں دو تہائی اکثریت دیں، دہشتگردی، فرقہ واریت ختم کر کے قوم کو تسبیح کے ایک دانے میں پرو دونگا۔ شیعہ سنی اور فرقہ واریت کی بات کرنے والے کو مسترد کر دیں، ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ انقلاب کے بعد سب سے زیادہ طاقتور اقلیتیں اور وہ طبقات ہونگے جو آج سب سے زیادہ کمزور ہیں، پاکستان عوامی تحریک کی انقلابی جدوجہد میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونے والوں میں سے 2 شہیدوں رفیع اللہ اور عبدالمجید کا تعلق بھکر سے ہے، ہم ان شہیدوں اور بھکر کے عوام کو سلام پیش کرتے ہیں۔
حکمرانوں نے بھکر کو پیرس بنانے کا اعلان کیا اور بھوک، پیاس بانٹی۔ آج طبی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ بچے جنوبی پنجاب میں مررہے ہیں، کسان سب سے بری حالت میں ہیں، تعلیم، صحت کی برائے نام سہولتیں بھی نہیں ہیں۔ بھکر میں ڈاکٹرز کی درجنوں اسامیاں خالی ہیں۔ ن لیگ کے دور میں جنوبی پنجاب کی بھوک اور پسماندگی میں اضافہ ہوا۔ کمزوروں کو اب سر اٹھا کر ظلم کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہمارے دھرنے نے سوئی قوم کو جگایا اور سر اٹھا کر چلنے کی ہمت دی، یہ جنگ اس ظلم کے نظام کے خاتمہ تک جاری رہے گی۔ ہماری تحریک غریبوں، مظلوموں کے دلوں سے خوف دور کرنے کیلئے ہے۔ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش کرنے کیلئے غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑرہا ہوں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا مسکن ٹوٹے ہوئے اور غمزدہ دل ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے بھکر کے عوام سے تھل میڈیکل یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا مگر آج تک اس طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ عوام ان جھوٹے حکمرانوں کو مسترد کر دیں، ڈسٹرکٹ ہسپتال بھکر میں بنیادی سہولتیں نہیں ہیں، یہاں کے لوگ 5 گھنٹے کا سفر طے کر کے ملتان نشتر ہسپتال جاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں اگر آپ کے پاس رنگ روڈ لاہور کیلئے 50 ارب ہیں، میٹرو بس لاہور کیلئے 30 ارب ہیں، میٹرو بس راولپنڈی کیلئے 40 ارب ہیں تو بھکر کے غریب عوام کو صاف پانی دینے کیلئے اور یہاں ہسپتالوں کو دوائیاں دینے کیلئے پیسے کیوں نہیں ہیں؟ ایک تھل ٹیکسٹائل مل تھی جس کی ایک شفٹ میں 5 ہزار ورکر کام کرتے تھے، وہ بند ہو گئی، ہزاروں خاندانوں کا روزگار ختم ہو گیا۔ وزیراعلیٰ بتائیں 7 سالوں میں بھکر میں کتنی انڈسٹری لگائی، کتنی بیروزگاری کم کی، کتنی مہنگائی کم کی، کتنی بے انصافی کم کی؟ لاہور اور بھکر کے عوام میں امتیاز کیوں؟ ہمارا انقلاب وسائل کی منصفانہ تقسیم اور پسماندہ علاقوں کی محرومیاں دور کرے گا، وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس وی وی آئی پیز کے سکواڈ کیلئے 44 ملین کی گاڑیاں خریدنے کے پیسے ہیں مگر بھکر کے عوام کو صاف پانی دینے کیلئے نہیں۔ظالمانہ نظام میں حکمران 5 کروڑ کی گھڑی باندھتے ہیں اور غریب کے پاس کھانے کیلئے روٹی نہیں، ضلع بھکر میں لاکھوں ایکڑ اراضی بااثر خاندانوں نے فرضی ناموں پر الاٹ کروالی، الاٹمنٹ سکینڈل کی اعلیٰ سطحی چھان بین کروا کر یہ زمینیں اس ضلع کے اصل رہائشیوں کو الاٹ ہونی چاہئیں۔ کمزوروں کو اب اٹھنا ہو گا، اس ظالمانہ نظام میں بیٹیاں گھر بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں، والدین کے پاس ہاتھ پیلے کرنے کیلئے پیسے نہیں ہوتے۔ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے پھر رہے ہیں، کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم دکھی انسانیت کا سہارا بنیں گے، ان کے چہرے کے رونق بنیں گے، انہیں زندگی اور ترقی کی دوڑ کاحصہ بنائینگے۔
٭ بھکر کے کامیاب جلسہ کے بعد قائد انقلاب نے اگلے دو دن بھی بھکر ہی میں گزارے۔ اس دوران پچھلے 4 ماہ کی پے درپے مصروفیات کے باعث آپ کی صحت بھی خراب ہوگئی۔ بلڈ پریشر بڑھنے اور دل کی تکلیف میں اضافہ ہونے کے باعث طبیعت انتہائی علیل تھی مگر پھر بھی مصطفوی مشن کی تکمیل اور مقصد انقلاب کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد کو ترک نہ کیا اور علالت کے باوجود 24 نومبر کو بھکر میں مختلف پروگرامز میں شرکت کی۔ ایک طرف بھکر میں منعقدہ اجتماعی شادیوں کی تقریب میں تشریف لے گئے۔۔۔ اور دوسری طرف علاقے کے عمائدین، زعماء اور مقامی قائدین سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔۔۔ شہداء کے گھر بھی اُن کے لواحقین سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔۔۔ اور PAT کے امیدوار محترم نذر عباس کہاوڑ کے ڈیرہ پر عوام سے خطاب بھی کیا۔۔۔ علاوہ ازیں بھکر ہی میں جامع مسجد اور مقبرہ نور سلطان القادری کی عمارت کا افتتاح بھی کیا۔
امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر بھی آپ کے ہمراہ رہے اور آپ کو آرام کا مشورہ دیتے رہے مگر اپنے آرام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمت، جرات اور صبر کے ساتھ آپ نے اپنی جدوجہد کے سفر کو جاری رکھا۔ بھکر میں منعقدہ مختلف مقامات پر متعدد اجلاسز، مقامی رہنماؤں اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ
ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں آرام کروں، 9 کروڑ عوام انتہائی غریب اور بے آرام ہیں، میں کیسے آرام کروں؟ ہر سانس قوم کیلئے اور ظلم کے نظام کو بدلنے کیلئے ہے۔ ایک ہی آرزو ہے، انقلاب کا سورج طلوع ہو اور غریب کے چہرے پر خوشحالی کا نور آئے۔ میں انقلاب اور غریب عوام کیلئے آیا ہوں۔ میں نے 70دن لوہے کی غار میں گزارے کہ قوم جاگ جائے۔ بھکر سے نظام کی تبدیلی کا آغاز ہو گیا ہے۔ جن کارکنوں نے انقلاب کی جدوجہد میں جان و مال کی قربانیاں دیں میں انہیں کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کر سکتا۔ قوم کو ان سے نجات دلانے کی جدوجہد ناگزیر ہو چکی۔ اگلے الیکشن میں ان شاء اللہ دونوں جماعتوں کا صفایا ہو جائے گا۔ ڈکٹیٹر‘ لٹیرے‘ وڈیرے حکمرانوں سے نجات کیلئے قوم اٹھ کھڑی ہو۔ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ حکمرانوں سے غرباء کا استحصال ہونے سے بچایا جائے۔ عوامی تحریک نے سیاست میں عملی قدم رکھنے کا فیصلہ ملک میں انقلاب برپا کرنے کیلئے کیا ہے۔ عوام اپنی طاقت کو استعمال کرنے کیلئے ملک پر مسلط حکمرانوں کے خلاف یکجا ہو جائے۔ ملک میں مثبت حکمرانی کیلئے تبدیلی ضروری ہے۔ ملک و قوم کی سلامتی اور بقاء کیلئے پوری قوم متحد ہو کر حکمرانوں کے خلاف کردار ادا کرے۔ جب تک وطن عزیز میں محب وطن لیڈر شپ اقتدار نہیں سنبھالے گی اس وقت تک غریبوں اور کسانوں کا استحصال ہوتا رہے گا۔ موجودہ حکمران اسلام آباد اور لاہور میں شاہی محلات بنانے کیلئے ملکی خزانے کو ہڑپ کر رہے ہیں۔ لوٹی ہوئی ملکی دولت کیلئے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا احتساب ضروری ہے۔ عوامی تحریک ملک میں ظالمانہ نظام کے خاتمہ کا عزم کر چکی ہے، انقلاب کے اس سفر میں بھکر کا کردار سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ میرے ایک سو دس کارکن اس وقت بھی جیل میں ہیں، پاکستان میں سب سے زیادہ کارکن بھکر سے قید ہوئے، بھکر نے ہماری جدوجہد میں بڑی قربانیاں دیں۔
اپنی تکلیف کے بارے میں بتاتے ہوئے قائد انقلاب نے فرمایا: مجھے دل کی تکلیف اور بلڈ پریشر بڑھ جانے کے باعث ڈاکٹروں نے آرام کا کہا ہے۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ صحت دے، میں سارے پروگرام نبھا کر جاؤنگا۔ مجھے آرام کی سخت ضرورت ہے۔ جب تک آرام نہیں ملے گا طبیعت ٹھیک نہیں ہو گی۔ 32سال سے قلب کے عارضہ میں مبتلا ہوں، بے آرامی، طویل سفر اور کام کے دباؤ کے باعث مرض میں اضافہ ہوا۔ 25دسمبر کو کراچی کے جلسے کے بعد وقفہ ہو گا اور اس دوران انجیو گرافی کروانے کیلئے امریکہ جاؤنگا اور اس وقفے کے دوران اپنا علاج کرواؤں گا۔
علالت کی خبر میڈیا پر جاری ہوتے ہی دنیا بھر سے قائد انقلاب کے جاننے والوں اور پی اے ٹی کے ورکرز کی طرف سے نہ صرف مرکز بلکہ TV چینلز پر بھی ہزاروں کی تعداد میں ای میلز اور فون کالز موصول ہونا شروع ہو گئیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے اتحادی رہنماؤں صاحبزادہ حامد رضا، راجہ ناصر عباس، غلام مصطفی کھر اور سردار آصف احمد علی اور دیگر قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے انکی خیریت دریافت کی اور جلد صحت یابی کیلئے دعا کی۔
٭ اسی علالت میں ہی 25 نومبر کو دلیوالہ (بھکر) میں عظیم الشان دھرنے میں بھی شرکت کی۔ یہ دھرنا بھی PAT کے سابقہ دھرنوں کی طرح انتہائی کامیاب رہا۔ بھکر کی عوام نے اس دھرنے میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے اس امر کا واضح اظہار کیا کہ اہلیان بھکر اس انقلاب کی جنگ میں قائد انقلاب کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دلیوالہ (بھکر) میں قائد انقلاب نے انقلاب دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میری جنگ کسی شخصیت کے خلاف نہیں بلکہ اس فرسودہ سیاسی نظام سے ہے۔ میں پاکستان میں مسلم و غیر مسلم، سنی و شیعہ کی جنگ نہیں لڑ رہا بلکہ میری جنگ ظالموں کے خلاف ہے۔ یہ جنگ کمزور و طاقتور کی جنگ ہے، جابرو مجبور کی جنگ ہے۔ جس نظام میں غریب کا بچہ قتل ہو اور اسے انصاف نہ ملے میں اس نظام پر کروڑ بار لعنت بھیجتا ہوں۔ میری دھرتی کے غریب، مزدور، محنت کش، کسان کے چہرے مایوس و اداس ہیں۔ ان کو کھانے کا نوالہ میسر نہ ہو اور حکمرانوں کے کتے کروڑوں روپے ماہانہ بجٹ کے ساتھ پلیں، میں ایسے جمہوری نظام کو نہیں مانتا۔ میری ذات کو اقتدار کا لالچ نہیں۔ میں اقتدار، دولت، دنیا کو پاؤں کی ٹھوکر پررکھتا ہوں۔ میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں، سرکار غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا نوکر ہوں۔ مجھے ان چیزوں کی کوئی حاجت نہیں۔ میں یہ تمام تکالیف بیماری کے باوجود اس لئے مارا مارا پھر رہا ہوں کہ اللہ کی عزت کی قسم! میرا کوئی اور لالچ نہیں صرف یہ کہ اس دھرتی کے غریب خوش ہوجائیں، انہیں خوش دیکھ کر میرے آقا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوجائیں گے۔ ان غریبوں کے گھروں میں چولہا جلے، ان کو روزگار ملے، خوراک ملے، علاج ملے تو میرا رب خوش ہوجائے گا۔ مجھے اس لالچ کے علاوہ کوئی لالچ نہیں۔ غریبو! اٹھو اس جنگ میں میرا ساتھ دو۔ اللہ رب العزت نے ارشا د فرمایا:
وَمَالَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِيْلِ اﷲِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا.
(النساء، 75)
’’اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (مظلوموں کی آزادی کے لیے) جنگ نہیں کرتے حالانکہ کمزور، مظلوم اور مقہور مرد، عورتیں اور بچے (ظلم و ستم سے تنگ آ کر اپنی آزادی کے لیے) پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے (و ڈیرے) لوگ ظالم ہیں ‘‘۔
موجودہ نظام قرآن اور اسلام کے خلاف بغاوت ہے۔ اس لئے کہ اسلامی تعلیمات میں دوسروں کے دکھ درد بانٹنے اور ان کو ضروریات و حاجات کی چیزیں بہم فراہم کرنا ہے۔ میں اس ملک کوخلافت راشدہ کا نظام دینا چاہتا ہوں۔