اداریہ: میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ جشن اور احتساب کا دن

ماہِ میلادِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ ۔ ربیع الاول۔ ۔ ۔ ۔ محبتوں، مسرتوں اور سعادتوں کی متاعِ گراں بہالے کر اہلِ ایمان و یقین کے مضطرب جذبوں کو سیراب کرتا ہے۔ مشاق روحیں ہمیشہ بے چین جذبوں کے ساتھ اس مطلع صبح ِازل کی منتظر رہتی ہیں۔ اہلِ عشق و محبت اشکوں سے وضو کر کے حریمِ دیدہ ودل سجاتے ہیں۔ اس ماہِ مقدس کا ہر دن‘ ہر لمحہ اور ہرگھڑی کشتِ ایمان کیلئے بہارِجاوداں کی پیامی ہے۔ ۔ ۔ کائنات ِہست و بود کو تاریخ کے ان مقدس لمحات پر بجا طور پر ناز ہے جو اسی ربیع الاول کی ایک صبح ِ سعادت کے دامن میں سمٹ آئے تھے۔ ظہور ِقدسی کی وہ نورانی ساعتیں۔ ۔ ۔ جن میں عرب کا چاند وادئ مکہ میں چمکا اور پورے جہاں کو تا ابد روشن کر گیا‘ کارخانہ قدرت کا سرمایہ افتخار ہیں۔ وہ صبحِ درخشاں جب‘ فضائے عالم مسرتوں کے دلآویز نغموں سے گونج اٹھی، آج تک مطلع ِعالم میں بہاروں کو بانکپن لٹا رہی ہے۔ اس صبحِ انقلاب کی اثر آفرینی کا کیا کہنا جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ وہ تاریخ جس کا ورق ورق در ماندگی اور انسان دشمنی کی گواہی دے رہاتھا‘ وہ تاریخ جس کا دامن ظلم و بربریت سے تار تار تھا‘وہ تاریخ جس میں قیصرو کسریٰ کا استبداد لوگوں کا مقدر بن چکا تھا۔

ظہورِ قدسی کے ان مبارک لمحات نے تہذیبِ انسانی کو وقار سے نوازا‘ ثقافت کے چہرے کو تقدس کے زیور سے آراستہ کیا‘علم کو عرفان کی منزل تک پہنچایا‘عمل کو صالحیت و مقصدیت کا حصار عطا کیا، زندگی کی ویران راہوں پر سرورِ بندگی کے شجر ہائے ثمردار اگائے‘نفرتوں اورعداوتوں کے لامتناہی صحرا میں اخوت‘ محبت‘ مروت اور خلوص کے حیات بخش گلستاں آباد کئے‘ بے مقصدیت کی شاہراہ پر سسکتی‘ بلکتی اور بھٹکتی انسانیت کو عرفان و آگہی کی دولت سے نواز کر خالق تک رسائی کی حقیقی منزل سے ہمکنار کیا۔ اس صبحِ نور کے پاکیزہ اجالے کا کیا کہنا جس نے شمس و قمر کو روشنی اور ستاروں کو ضوفشانی عطا کی۔ بلاشبہ یہی وہ لمحات تھے جن کے انتظار میں گردشِ شام و سحر نے ماہ و سال کی لاکھوں کروٹیں بدلی تھیں۔ قدرت نے انسان کے شعور کو تمام ارتقائی منازل سے گزار کر بلوغت کے اس مقام پر پہنچا دیاتھا جب وہ ہدایت و رہنمائی کیلئے کسی جامع صفات ہستی کیلئے بے تاب ہوگیاتھا۔

یومِ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ ۔ دراصل پوری انسانیت کا یوم ِنجات ہے۔ کفر سے نجات‘ شرک سے نجات‘جہالت سے نجات اور جنگل کے قانون کی حکمرانی سے نجات۔ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لامتناہی مایوسی اور غلامی سے چھٹکارے کی نوید ہے جس میں یتیموں‘بے کسوںاور مفلسوں کو بھی زندگی گزارنے کے وہی حقوق ملے جو معاشرے کے دیگر صاحب ِ ثروت لوگوں کیساتھ ہی مختص تھے۔ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عظمت و شرف ِ انسانی کی پاسباں ہے جس نے بلال ویا سر جیسے سیاہ فام غلاموں کو عرب کے سرداروں پر سبقت دلائی۔ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ظلمتِ دہر میں روشنی کا وہ مینار ہ ہے جس سے قیامت تک بھٹکنے والے قافلوں کومنزل کا سر اغ ملتا رہے گا۔ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کیلئے خالق کے اس نظام کا اجراء ہے جس کی حکمرانی تمام نسلی‘ جغرافیائی‘ لسانی‘ اور طبقاتی بتوں کو پامال کر کے سب کو برابری کے حقوق عطا کرتی ہے بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق ِکائنات کا وہ آخری ’’ ورلڈ آرڈر‘‘ ہے جس کے بعد کسی نئے یا پرانے ورلڈ آرڈر کی ضرورت نہیں۔ اس لئے اے امتِ مسلمہ اور اے اس عظیم و جلیل پیغمبر صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا غلامو! آؤ سب اپنے آقا کے جشنِ میلاد میں شریک ہو جائیں۔ گھر گھر‘ گلی گلی‘ قریہ قریہ‘ شہر شہر‘ اور ملک ملک درودوسلام کے نغماتِ سرمدی کی دھوم مچادیں۔ دہر میں اسم ِ محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جتنا اجالا کروگے‘ قوتِ عشق سے اپنی پستیوں کو بلندیوں میں بدلتے جاؤ گے۔ تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و وفا تم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان کی آمد کے جشن میں اپنی ممکنہ توانائیاں صرف کردو۔ ۔ ۔ لیکن کیا یہ ایک دو روزہ جشن ِمیلاد میں جوش و خروش تمہارے ایمان و عمل کا معیار ہوگا ؟ ہر سال 12ربیع الاول کو محفلِ میلاد کا اہتمام‘ جلسے جلوس، جھنڈیوں، روشنیوں اور لنگر کا اہتمام کر کے کیا محبت ِرسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتحان میں ہم کامیاب ہو جائیں گے؟یہی نکتہ قابل ِغور ہے اوریہی مقام محتاجِ توجہ۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہر شخص کو بالعموم اور ان سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو چاہئے کہ ایک لمحے کیلئے ہم سب اپنے من میں جھانک کر دیکھیں۔ اگر ہم اپنی ذات سے کائنات تک نظر دوڑائیں تو حرص و ہوس‘ کبر و نخوت اور خونخواری کے بڑے بڑے بت بھی نظر آئیں گے اور ظلم و ستم اورقتل و غار تگری کے عالمی سلسلے بھی۔ کائنات کو امن عطا کرنے والے نبی رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت خود بے امنی کا شکار ہے۔ دنیا کو محبت کا درس سکھانے والی قوم کے افراد باہمی نفرتوں کا شکار ہیں‘ستاروں کو نشان ِراہ دکھانے والے خود بے جہت جھنڈ بن چکے ہیں‘ فطرت کی طاقتوں کو مسخر کرنے کا عہد لے کر آنے والی قوم خود بکھرے ہوئے ریوڑ کی مانند ہے۔

٭ ہمارا دور جس اضطراب اور بے یقینی کی گرفت میں ہے اس کا علاج انسانی علم کی بلندیوں اور مادی وسائل کی فراوانی میں نہیں بلکہ اس نسخہ کیمیاء قرآن حکیم میں موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے آخری اور مکمل پیغام کے طور پر اپنے آخری رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر پر اتارا۔ ربیع الاول۔۔۔۔۔۔۔ ہر سال ہمیں اسی پیغام کی عالمگیر یت اور اسی نسخہ کیمیاء کی اہمیت کی یاد بھی دلاتا ہے۔ یہی نسخہ ہماری کامیابی‘ کامرانی اور ہمہ جہت عالمی کردار کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ وہ کردار جس کی صداقت کا ڈنکا ساری دنیا میں پورے 15 سو سال بجتا رہا۔

یومِ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دراصل اس انقلاب کی صبحِ نو تھی جس نے انسانیت کے دامن سے درندگی کے بدنما دھبوں کو دھویا اور اسے رحمت و رافت کے سدابہار پھولوں سے بھر دیا۔ اس انقلاب نے عرب کے صحرا نوردوں کو خضرِراہ بنادیا۔ اونٹ اور بھیڑ بکریوں کے چرواہوں کو قیامت تک قافلہ علم و حکمت کی پیشوائی کا منصب عطا کیا۔ یہی انقلاب تھا۔۔۔۔۔ جس نے نوعِ انسانی کو حقیقی آبرو بخشی۔ جانوروں سے بد تر زندگی بسر کرنے والے غلاموں کو وہ جرات اور حوصلہ دیا کہ وہ اپنے آقاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہرجائز بات کرنے اور ان کے دست ِجفاکیش کو توڑ کر اپنا حق لینے کے قابل ہوگئے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت نے تمیزِ بندہ و آقا مٹا کر فسادِ آدمیت کی ہر مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

افسوس! آج ہم پر مسلط حکمرانوں نے ہمارے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کررکھا ہے۔ ہر مرتبہ جشنِ میلاد مناتے ہوئے اس عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ یہ وطن حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرفروشوں‘ جاں نثاروں اور غلاموں کا مسکن ہے۔ یہ زمین مصطفوی انقلاب کے ایمان پرور جذبوں کی امین ہے۔ اس کی اساس میں بھی ریاستِ مدینہ کے اساسی مقاصد ہیں۔ اس جشن کے موقع پر مواخاتِ مدینہ کا تقاضا ہے کہ ہم خود انحصاری کی منزل کو جلد پانے کیلئے ایثار و قربانی‘ دیانتداری اور باہمی پیار و محبت سے آگے بڑھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جشنِ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین