انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اسلام کی صورت میں بہترین ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اپنی کامل اور اکمل ترین شکل میں عطا فرمایا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس لگن اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض نبوت کی بجا آوری فرمائی اور انسانیت کو پستی سے نکال کر جس رفعت تک پہنچایا تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مثالی طرز حکمرانی نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست ’’مدینہ‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مثالی ریاست مدینہ کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہو تاکہ پیش آمدہ مشکل مسائل کو اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں حل کر سکیں۔ زیر نظر مضمون میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُن اقدامات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ریاستی سیکرٹریٹ کا قیام
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے فوری بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ مسجد جہاں ایک طرف مسلمانوں کے لئے جائے عبادت ٹھہری وہاں ریاست کے سیکرٹریٹ کے طور پر بھی اقدامات کا مرکز قرار پائی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام وفود اور سفیروں سے یہیں ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا۔ اس وقت مسجد مسلمانوں کا معاشرتی مرکز تھی۔ نماز پڑھانے والا اما م ہی اہل ایمان کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مال غنیمت مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
افسوس! آج ہماری مساجد اور ائمہ مساجد معاشرے کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
معاشی مسائل کا حل
ریاستی سیکرٹریٹ کے قیام کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی۔ مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی ریاست مدینہ میں ایک طرح کی ہنگامی حالت کا نفاذ تھا۔ انصار مدینہ کی معاشی حالت ایک جیسی نہ تھی بلکہ ان میں سے کچھ متوسط تھے اور کچھ مالدار تھے۔ اس صورت حال میں محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ مہاجرین اور انصار مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھنے کے سبب مہاجرین کے لیے قربانیاں دیں جس کے دو طرفہ فوائد حاصل ہوئے۔ ایک طرف مہاجرین کو ضروریات زندگی کا سامان میسر آگیا اور دوسری طرف انصار کے دو طبقوں میں جو معاشی فرق تھا، وہ ختم ہو گیا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا مگر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، بلکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا۔ جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواخات کا درس دے کر رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کر دی کہ معاشرے سے غربت و تنگ دستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے۔ مواخات کے طرز عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔ جن لوگوں میں مواخات قائم کی گئی تھی ان کے متعلق دل چسپ اور حیرت انگیز تفصیلات کتب سیرت میں موجود ہیں کہ کس طرح انصار نے اپنے مال و دولت میں مہاجرین کو شریک ٹھہرایا۔ منافقین نے مہاجرین و انصار کے درمیان منافرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر مواخات نے ان کی تمام چالیں ناکام بنادیں۔
خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی
مواخاۃ مدینہ کی شکل میں معاشی مسائل کے قابل عمل حل کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ریاست مدینہ کے تحفظ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس ضمن میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات فرمائے کہ اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملے اور مدینہ کے باہر کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملے کی جرات نہ کرسکیں۔ انہی اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے چند ماہ بعدہی ’’میثاق مدینہ‘‘ کی شکل میں ایک دستاویز مرتب فرمائی۔ اس دستاویز کو متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا۔ دستاویز کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ شہری مملکت قرار دیا گیا اور اس کے انتظام کا باقاعدہ دستور مرتب کیا گیا۔
اس معاہدے سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی شہری ریاست کو ایک مستحکم نظام عطاء کیا اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی بنیاد قائم کی۔ اس اقدام سے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بطور منتظم صلاحیتیں بھی عوام کے سامنے آئیں اور یہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبردست کام یابی تھی۔ اس دستاویز میں لفظ ’’دین‘‘ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کو پیش نظر رکھے بغیر دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو اچھی طرح نہیں سمجھاجا سکتا۔
بقول محمد حسین ہیکل اس تحریری معاہدہ کی رو سے حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی اور اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکاب جرم پر گرفت اور مواخذے نے دباؤ ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی اپنے رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی۔
غور فرمائیے کہ سیاسی اور مذہبی زندگی کو ارتقاء کا کتنا بلند مرتبہ حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست اور مدنیت (دونوں) پر دست استبداد مسلط تھا اور دنیا فساد و ظلم کا مرکز بنی ہوئی تھی۔
اسلامی ریاست کا تصور
یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوت اسلام موثر طریق سے دی جا سکے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں لیکن اب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم منتظم ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ایک اہم مقصد ’’مثالی اسلامی فلاحی معاشرے‘‘ کا قیام تھا اور اس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ
اے اللہ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی اور ریاست مدینہ کی شکل میں پہلی اسلامی فلاحی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ قرآن مجید نے اسلامی ریاست کا جو مقصد متعین کیا کہ
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَ ِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ.
(الحج: 41)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ کے مطابق آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ اور اس کے رہنے والوں نے اپنے فرائض کو سرانجام دیا۔ ریاست مدینہ کے قیام سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظم ریاست کی حیثیت سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔
داخلہ پالیسی
معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا اور ان کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے، استحکام بخشنے، امن کو فروغ دینے اور اخلاقی اقدار کو پیدا کرنے کے لیے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔
مواخات اور میثاق مدینہ کے علاوہ بھی قریبی قبائل سے معاہدے کیے۔ اس طرح مدینے کے گرد و نواح میں دوستوں کا اضافہ ہوا اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک یہ تدبیر بھی اختیار فرمائی کہ عرب میں جو شخص، خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو تو وہ ہجرت کر کے مدینہ یا مضافات میں آبسے تاکہ آبادی بڑھنے سے فوجی و سیاسی پوزیشن مضبوط ہو۔ اس طرز عمل کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان فوج کے لیے محفوظ رضا کاروں میں روز افزوں اضافہ ہوا اور دوسری طرف مدینہ کے قریب ہونے کی وجہ سے نو مسلموں کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہوتا گیا۔
خارجہ پالیسی
خارجہ پالیسی کے لیے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کم زور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔
اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول یہ ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پُر امن جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔
قانونی مساوات
ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھا کہ اس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاً کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں اور سانولوں کے لیے مطلقاََ جدا جدا ہیں۔
دوسری طرف ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں انصاف و عدل کے تقاضوں کے مطابق مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ ایک دفعہ جب محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔
ریاست مدینہ کا نظام تعلیم
اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چوں کہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی حضرت عبد اللہ بن سعید بن العاص اور حضرت عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔ دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہوگا۔
امورِسلطنت میں مشاورت کا عمل
ریاست مدینہ کی ایک اور شانداربنیادمشاورت تھی۔ آج صدیوں کے بعد جمہوریت کے نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہوا جبکہ ریاست مدینہ کے حکمران محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے اپنی رائے کی قربانی دے کر اور اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر کے ثابت کیا کہ جمہور کا فیصلہ قابل اقتداء ہوا کرتا ہے جبکہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام نے پنجے گاڑھ رکھے تھے اور حکمران سے اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ گویا اس وقت کے بادشاہوں کی تلوارآج کے سیکولرممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مانند تھی کہ جس نے اختلاف کیا اس کا وجود ہی دنیا سے ختم کردو اور جمہوریت، آزادی رائے، بے باک صحافت کاراگ الاپ کر دنیاکو خوب بے وقوف بناتے رہو۔ ریاست مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے خواہ وہ غلام ہوں، خواتین ہوں یا دیگر شہری سب کو اپنے مافی الضمیرکے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ فجرکی نماز کے بعد محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو پوچھنا چاہتا اسے ادب و احترام کی حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔
سرکاری افسروں کا انتخاب
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں چوںکہ یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لیے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ امراء کے انتخاب میں حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی کا ایک اہم جزء یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے، ان کی درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔
اِنَّ اﷲَ يَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰی اَهْلِهَا.
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں‘‘۔
(النساء: 58)
احتساب
اگرچہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصلاحات جاری کیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہ آتے انہیں سزائیں دیتے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے کیوںکہ حکمران کی حیثیت ایک داعی کی ہے۔ اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو تا ہے۔
اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی
جب آپ نے مدینہ منورہ کو ریاست بنایا تو آپ نے حکومتی اختیارات کو نچلی سطح تک یوں منتقل کیا کہ ہر دس افراد پر ایک نقیب مقرر کیا، دس نقیبوں پر ان کا سربراہ عریف بنایا اور پھر سو عرفاء پر مشتمل پارلیمنٹ بنائی۔ اس طرح عوام کو براہ راست پارلیمنٹ میں شراکت دے کر ان کی آواز ایوان تک پہچانے کا ذریعہ بنا دیا۔
پاکستان: اسلامی نظریاتی ریاست
ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیا د پر معرض وجود میں آئی۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب قائد اعظم سے پاکستان کی قانون سازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان کی قانون سازی آج سے چودہ سو سال قبل ہو چکی ہے۔ قائد کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے وجود میں آنے والی یہ نظریاتی ریاست اب ریاست مدینہ کی عملی تصویر ہوگی۔ لیکن افسوس آج اسلامی جمہوریہ پاکستان پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں، چور اچکوں اور بد معاشوں کا قبضہ ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست پاکستان کو بھی ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی مملکت بنایا جائے تاکہ قیام پاکستان کا مقصد پورا ہوسکے۔ مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر اس مملکت خداداد کو اسی طرز پر ڈھالنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے تو مفاد پرست طبقات ایک ہوکر اس منزل کے حصول میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری ریاست مدینہ اور محسن انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنائے قوانین کو پاکستان میں رائج کرنے کے لیے بھر پور جدو جہد کررہے ہیں مگر ساٹھ سال سے قابض ٹولہ جو اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو گالی گلوچ سے مخاطب کرتے تھے اور حصول اقتدار کے لیے ایک دوسرے کا قتل مقاتلہ جائز سمجھتے تھے جب انھیں اپنا اقتدار چلتا دکھائی دیا تو سب کے سب جھوٹے اقتدار کو بچانے کے لیے یک جاں و یک قالب ہو گئے۔
قائد انقلاب پاکستان کومدینہ منورہ کی ریاست کی طرز پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں اقتدار چند خاندانوں کے بجائے عوام کے پاس ہو۔ ۔ ۔ جہاں عوام کے فیصلے عوام کی مرضی سے ہوں۔ ۔ ۔ جہاں غریب کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ۔ ۔ جہاں عوام بھوک اور بیماری کے ڈر سے خود کشیاں نہ کرے۔ ۔ ۔ وہ ایسی ریاست چاہتے ہیں جہاں انصاف مظلوم کی دہلیز پر میسر ہو۔ ۔ ۔ عدل و انصاف کا ہر طرف بول بالا ہو۔ ۔ ۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم ہو۔ ۔ ۔ لوگوں کے لیے یکساں روز گار کے موقع ہوں۔ ۔ ۔ جہاں امن ہو اور چادر و چار دیواری کی حفاظت ہر ایک کے لئے ہو۔
قائد انقلاب تعلیم، صحت اور علاج معالجے کی سہولیات شہریوں کے لیے آسان کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ احتساب کے ذریعہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر عوام کی فلاح پر خرچ کرنا چاہتے ہیں اور ریاست مدینہ کو مد نظر رکھ کر ہر مذہب کے لوگوں کو پاکستان کے دوسرے شہریوں کے برابرحقوق دینا چاہتے ہیں اور اس ملک اور اس کے رہنے والوں کو حقیقی معنی میں تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں دینا چاہتے ہیں۔
قائد انقلاب یہ نظریہ اور فکر ریاست مدینہ سے ماخوذ ہے۔ پاکستان کا مفاد پرست مقتدر ٹولہ خوفزدہ ہے کہ اگر اس نظریہ و فکر کی ترویج کی گئی اور اس کا اطلاق ہوگیا تو اس سے نسل در نسل ان کے مفادات کو کاری ضرب لگ جائے گی۔ ماہ ربیع الاول کے ان مبارک ایام میں ہمیں حضور خاتم المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو پیش نظر رکھ کر سوچنا ہو گا کہ ہم نے ریاست مدینہ کے بعد پہلی اسلامی نظریاتی ریاست پاکستان کا تحفظ کس طرح ممکن بنانا ہے؟ یاد رہے کہ فلاح صرف اور صرف آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کی پیروی سے ہی ممکن ہے۔
آج ہم بنیادی انسانی ضروریات، دولت و وسائل کی منصفانہ تقسیم، تعلیم و صحت، عدل و انصاف، تعمیر و ترقی اور دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ سر بلند کر کے چلنے سے کیوں محروم ہیں۔۔۔ ؟ اسکا جواب ہمیں خود تلاش کرنا ہے اور اس تلاش کے لئے ہمیں اپنے اندر احساسِ زیاں پیدا کرنا ہوگا کہ ہم 68 سال گزرنے کے باوجود کیوں بھٹکتے پھررہے ہیں؟ غلامی میں فکری شعور بھی خوابیدہ ہوجاتا ہے، لہذا اس شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ اگر ہم چاہیں تو یہ ملک قائدِ اعظم کی خواہش کے مطابق پیغمبرِ گرامیء قدر صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاستِ مدینہ کی جھلک دنیا کو دکھا سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں شعور کی دھار سے غلامی کی زنجیر کو کاٹنا ہوگا اور پاکستان کو حقیقی معنی میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لئے قائدِ انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کہنا ہوگا۔