دورِ جدید کی ترقی نے جہاں نت نئی ایجادات سے انسانی زندگی کو آسائشوں کا گہوارہ بنایا ہے، وہیں روحانی قدریں چھین کر ہر چیز کو مادی تناظر میں دیکھنے کا چلن عام کیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم چیزیہ ہے کہ دینِ اسلام کی روح عشقِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں کے جسم سے نکال کر امتِ مسلمہ کو عضوِ معطل بنانے کی سازشوں کا ایک طوفان برپا کیا گیا۔
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذر
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
عالمِ طاغوت نے اس مکروہ سازش کو دو اطراف سے استعمال کیا۔ ایک طرف مسلمانوں میں دین سے بیزاری کو فروغ دیا گیا جبکہ دوسری جانب اپنے نمائندوں کو مذہب کا لبادہ اوڑھا کر توحید کا غلغلہ بلند کرکے مقامِ رسالت پر رقیق حملے کرائے۔ طاغوت کے ان نمائندوں نے تعظیم رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرک قرار دینے کا مکروہ پروپیگنڈہ کیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے سازشوں کا طوفان شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ بیسیویں صدی کا آخری ربع شروع ہوا تو کفر و طاغوت کی یہ سازشیں اپنی انتہاؤں پر نظر آئیں۔ حالات کی تندی نے ہماری اقدار کو بکھیرنا شروع کر دیا۔ حقیقی اسلامی تعلیمات کے برعکس نام نہاد تصورِ جہاد کے سبب اسلامی جمہوریہ پاکستان عالمی سازشوں کا محور و مرکز بن کر رہ گیا۔ پاکستان بھر میں عشاقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سمٹ کر رہ گئے۔ دینی مدارس دین کی حقیقی فکر کی نمو سے محروم ہوگئے اور ہر طرف قحط الرجال دکھائی دینے لگا۔
ان کڑے حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے احیائے عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایسے احسن اقدامات فرمائے کہ محبت و عشق مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم منہاج القرآن کی پہچان ٹھہرے۔ شیخ الاسلام نے اس تحریک کا لائحہ عمل علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کو بنایا:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے
عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریکِ منہاج القرآن میں روحِ رواں کا درجہ رکھتا ہے۔ جس کے وسیلہ و سبب سے عالمگیر مصطفوی انقلاب کی جدوجہد جاری و ساری ہے اور اسی تناظر میں تحریک نے دنیا بھر میں علمی، فکری، روحانی اور اخلاقی انقلاب برپا کررکھا ہے۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا نامِ مبارک ہی عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعارہ ہے۔ شیخ الاسلام عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تحریک کو اذانِ بلالی رضی اللہ عنہ سے یوں تعبیر کرتے ہیں:
’’تحریکِ منہاج القرآن اس مقصد کے لئے بپا کی گئی ہے کہ وہ بھولی بسری یادیں جو ہمارے آباء کا سرمایہ ایمان تھیں، جو ہمارے اسلاف کے دین و ایمان کی جان اور صحابہ کرام و تابعین کی پہچان تھیں، جن کو ہم بھول چکے ہیں، ان یادوں کو پھر سے تازہ کیا جائے۔ عشق و محبت کی وہ لذتیں اور حلاوتیں پھر سے بحال ہو جائیں۔ امت اپنے مرکز و محور کی طرف پلٹ آئے۔ تحریکِ منہاج القرآن اذانِ بلالی کا نام ہے۔ مجھے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی وہ اذان یاد آرہی ہے جس نے پورے مدینہ میں کہرام مچا دیا تھا۔ تحریکِ منہاج القرآن چاہتی ہے کہ عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مملو اسی طرح کی اذانیں پھر سے فضاؤں میں گونجیں، جس سے بوڑھوں، بچوں اور جوانوں میں بجلی سی کوند جائے۔ اگر یہ تڑپ، یہ پکار، یہ درد و سوز، یہ آہیں اور رقتیں زندہ ہو گئیں تو ہم بہت جلد ایک قوم کی حیثیت سے زندہ ہو جائیں گے، پھر انشاء اللہ اپنی منزل کا حاصل کرنا آسان ہوگا۔ ‘‘
(شيخ الاسلام دکتور محمد طاهر القادري، ايمان کا محور و مرکز ذاتِ مصطفی صلیٰ الله عليه وآله وسلم، ص: 58)
محبوب کی تعریف و توصیف کرنا ہر محب کا اولین اور مرغوب ترین عمل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے تمام انبیائے علیھم السلام اور اہلِ حق بندوں نے حمد و مناجات کے نغمات بلند کیے ہیں۔ ایک طرف سب اہلِ حق اللہ رب العزت کی مدحت بیان کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب خود خالقِ کائنات ام الکتاب میں خاتم النبیین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بصورتِ نعت نہ صرف بیان کر رہا ہے بلکہ اپنے فرشتوں اور اہلِ ایمان کو بھی بصورت درود و سلام حکم دے رہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نعتِ رسولِ مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کرنا سنتِ خداوندی ٹھہرا۔ قابلِ غور بات ہے کہ جب بھی اہلِ دل اس سنتِ الٰہی پر عمل کرتے ہیں تو انہیںدیارِ عشق کی وہ کیف و مستی اور سرشاری ملتی ہے کہ وہ دور رہ کر بھی کوئے جاناں کا دیدار کر لیتے ہیں۔ اسی لیے اہلِ دل اور اہلِ نظر کے نزدیک نعت کہنا اور نعت سننا مرغوب و محبوب عمل ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مجددانہ اوصاف کی حامل ہمہ پہلو شخصیت ہیں۔ وہ فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر فائز ہیں۔ عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے رگ و پے میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے۔ نعت کی دلنشیں وادی ان کا پسندیدہ مقام ہے۔ نعت کی یہ کیفیت انہیں عالمِ بے خودی میں درِ جاناں پر لے جاتی ہے۔ اس کیفیت میں ان کے تخیل پر نعتیہ کلام ابر بن کر چھا جاتا ہے اور پھر عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رم جھم پھوار قرطاس پر موتیوں کی طرح جڑ جاتی ہے۔ اس کیفیت میں چہرہِ جاناں سے سب حجاب اٹھ جاتے ہیں اور وہ بے قرار ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں:
رُخ سے کاکل ہٹا دیا تونے
سب کو بے خود بنا دیا تونے
شب کو ملنے کی دے کے اک امید
سب کو شب بھر جگا دیا تونے
رُخِ زیبا کی اک جھلک سے حبیب
رات کو دن بنا دیا تونے
اپنے چہرے کے ایک درشن میں
مجھ کو کیا کیا دکھا دیا تونے
محبوب کے گن گانا ہی محب کا مرغوب مشغلہ ہوتاہے۔ سچے پیار کرنے والے اپنے محبوب کے نام کی مالا جپنے کو ہر ورد اور وظیفہ سے افضل گردانتے ہیں۔ شیخ الاسلام بھی اپنے ان جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں:
آؤ تسبیح صبح و شام کریں
یوں غمِ زندگی تمام کریں
چشمِ تر، سوزِ آرزو لے کر
ان کے جلوے کا انتظام کریں
کیا عجب ہے وہ مہرباں ہو کر
کوئی شب تیرے ہاں قیام کریں
آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہونے اور اُس زمانہ میں ہوتے ہوئے اپنے محبت کے انداز کا اظہار شیخ الاسلام یوں بیان فرماتے ہیں کہ
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
پھر کبھی تو تجھے ملا ہوتا
لڑتا پھرتا میں تیرے اعداء سے
تیری خاطر میں مر گیا ہوتا
تو کبھی تو مری خبر لیتا
تیرے کوچے میں گھر کیا ہوتا
ہوتا طاہر ترے فقیروں میں
تیری دہلیز پر پڑا ہوتا
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اردو نعتوں کے ساتھ ساتھ عربی میں بھی کئی نعتیہ قصائد تحریر کیے ہیں۔ ’’دلائل الخیرات‘‘ کی طرز پر شیخ الاسلام نے ’’دلائل البرکات فی التحیات والصلوۃ‘‘ کے عنوان سے عربی زبان میں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں طویل سلام پیش کیا۔ اس کتاب میں بہت سے صیغوں اور اسالیب کے ساتھ 40 منازل میں منقسم تقریباً اڑھائی ہزار درود پاک کے جواہر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ الاسلام نے درود پاک کے حوالے سے درج ذیل کتب بھی تحریر فرمائیں:
- صَلَاةُ الْاَکْوَان (درودِ کائنات)
- صَلَاةُ الْمِيْلَاد (درودِ میلاد)
- صَلَاةُ الْفَضَائِل (درودِ فضائل)
- صَلَاةُ الشَّمَائِل (درودِ شمائل)
- صَلَاةُ الْمِعْرَاج (درودِ معراج)
- صَلَاةُ السِّيَادَة (درودِ سیادت)
- اَحْسَنُ الْمَوْرِدِ فِی صَلٰوةِ الْمَوْلِدِ (اس میں میلاد پاک کی مناسبت سے درود پاک تحریر کئے گئے ہیں)
- صَلَوَاتُ سُوَرِ الْقُرْآنِ عَلٰی سَيِّدِ وَلَدِ عَدْنَانَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم
(اس میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کی مناسبت سے 63 درود تحریر کئے گئے ہیں، جن میں قرآن حکیم کی ایک سو چودہ سورتوں کے نام ذکر کئے گئے ہیں)
شیخ الاسلام کو عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اور مدحت ِ رسالت کا یہ سلسلہ وراثت میں ملا ہے۔ ان کے وا لدِ محترم حضرت ڈاکٹر فرید الدین ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انہوں نے کئی اصناف میں شاعری کی ہے۔ ان کے رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیے گئے سلام کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:
میرا ہر موئے بدن اک ساز ہو
’’یا رسول اللہ‘‘ کی آواز ہو
نفسِ امارہ کہے اِنّی سقیم
منہ کے بل گر جائے شیطان رجیم
مدحتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ سلسلہ پشت در پشت چلتا ہوا محترم ڈاکٹر حسین محی الدین القادری تک جاپہنچتا ہے۔ انہوں نے اپنے شعری مجمو عہ’’نقشِ اول‘‘ میں کئی نقشِ جاوداں مرتب کیے ہیں۔ عاشقِ صادق ہمہ وقت اپنے محبوب کے نغمات جپتا رہتا ہے۔ اس کے دل کی ہر دھڑکن محبوب کے ذکر ہی پر دھڑکتی ہے۔ محترم ڈاکٹر حسین محی الدین اپنے محبوب کے حضور شام و سحر کے اذکاراپنے اس طویل سلام میں ایسے ظاہر کرتے ہیں:
خوشبو، گلاب، نور، ہوا، چاندنی، صبا
آقا! حضور! آپ کے قدموں کی ہے عطا
بھیجوں سلام آپ پر سرکار صبح و شام
ہو جائے میری عمر اسی ذکر میں تمام
باغِ ثنا سے میں نے چنے ہیں یہ چند پھول
میرا سلام، سیدِ ابرار ہو قبول
بھیجوں سلام آپ پر سرکار صبح و شام
ہو جائے میری عمر اسی ذکر میں تمام
- منہاج القرآن کے گلستانِ نعت میں سب سے نامور نام محترم ریاض حسین چودھری کا ہے۔ ان کے اب تک 12 سے زائد نعتیہ مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں، جن میں سے 4 مجموعہ جات صدارتی ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ وہ اس دور کے نا بغہ روزگار سخن ور ہیں۔ ان کے منفرد اسلوب کے سبب انہیں وحید العصر نعت گو شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کے نعتیہ کلام کے چند شہ پارے ملاحظہ ہوں:
میں تو کیا سوچیں بھی میری دست بستہ ہیں ریاض
جب بھی سوچوں گا نبی کی نعت ہی سوچوں گا میں
عجیب ایک تماشہ سا ہے سرِ محشر
ریاض آپ کے قدموں کو چھوڑتا ہی نہیں
روزِ الست آنکھ جو کھولی شعور نے
قدرت نے ایک نور سا ہاتھوں میں رکھ دی
میں نے بڑے خلوص سے چوما اُسے ریاض
اور پھر قلم حضور کے ہاتھوں میں رکھ دی
- تحریکِ منہاج القرآن کی تابانیوں سے منور ہونے والے ایک اور نعت گو سخنور محترم ضیا نیئر (مرحوم) ہیں۔ ان کے نعتیہ مجموعہ جات ’’سفرِ نور‘‘ اور ’’ثنائے کریمین‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی یہ تابانیاں آج بھی دنیا بھر کے عشاقانِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب و نظر کو جگمگا رہی ہیں:
سب زمانوں کو ازل ہی سے جو مرغوب ہے تو
مشترک میرا، مرے مولا کا محبوب ہے تو
حسن و خوبی کے کمالات کی حد سے بھی وراء
خوب سے خوب، بہت خوب، بہت خوب ہے تو
پھر یوں ثنائے خواجہ سخنور رقم کریں
دل کے ورق پہ عرضِ ثنا گر رقم کریں
حکمت کا نور لے کے رسالت ماب سے
دانش کے تابناک جواہر رقم کریں
- منہاج القرآن کے گلستانِ نعت کے ایک اور گہر تابدار محترم شیخ عبدالعزیز دباغ بھی نعتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک راہرو ہیں۔ انہوں نے اپنے اس سفر اور برسوں کے مناجات و گزارشات کا ایک دلکش شاہکار ’’مطافِ نعت‘‘ کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ وہ عشقِ حبیبِ مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشاری کا اظہارعاجزانہ انداز سے یوں کرتے ہیں:
ہوں راہِ عشق پہ پہنچا ابھی ندامت تک
ہے نعت لائی مجھے بابِ استقامت تک
کبھی نہ ختم ہو یا رب مرا طوافِ قلم
مطافِ نعت میں چلتا رہوں قیامت تک
- تحریکِ منہاج القرآن میں نعت گوئی کا سلسلہ صرف پاک و ہند یا ایشیا تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ پوری دنیا میں مدحتِ حبیبِ الٰہی کے جذبے جگا رہی ہے۔ اسی رسول نما تحریک کے راہرو محترم نور احمد نور منہاجین ناروے کی سرزمین پر اوصافِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوت سے سیاہ قلوب کو جگمگا رہے ہیں۔ ان کے نوری دیوان ’’سلسلہ نور‘‘ کی چند ضیائیں آپ کی بصارتوں کے نام کرتے ہیں:
ان کے لب سے جھڑے معرفت کے وہ پھول
عرب کے سخنور دیکھتے رہ گئے
تجھ کو حق سے ملی وہ عجب روشنی
جس کو شمس و قمر دیکھتے رہ گئے
انقلابی شاعر انوار المصطفیٰ ہمدمی نے جہاں اپنے انقلابی ترانوں سے حالات کے کچلے لوگوں میں باطل نظام کے خلاف ایک نئی حدت پیدا کی ہے، وہیں انہوں نے اپنے نعتیہ کلام سے عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رنگ سے دلوں میں ایک نئی ترنگ بھی جگائی ہے۔ وہ مولود کی مقدس گھڑیوں پر رسولِ مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کا مژدہ جانفزا یوں سناتے ہیں:
جگ کا اجالا آگیا!
حق کا سنبھالا آگیا!
نازوں کا پالا آگیا!
رحمت میں ڈھالا آگیا!
رب کا حوالہ آگیا!
سوچوں سے بالا آگی
ہاں کملی والا آگیا!
- محترم سید الطاف حسین شاہ کا شمار تحریکِ منہاج القرآن کے ابتدائی رفقا میں ہوتا ہے۔ وہ بھی کہنہ مشق شاعر ہیں۔ ان کے ہاں بھی عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وارفتگیِ درِ مدینہ عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ عشاقانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آقا سے وفا کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
آؤ صمیمِ قلب سے حمدو ثناء کریں
آؤ کہ سب حضور سے عہد وفا کریں
نور نبی سے کرکے فروزاں بجھے چراغ
اک انقلاب ذہنِ بشر میں بپا کریں
میلاد کی خوشی میں چراغاں ہو کُوبکو
دھرتی کا کہکشاں سے بھی رتبہ سِوا کریں
- ماہنامہ مجلہ منہاج القرآن بھی نعت کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔ اس انقلابی مجلہ میں جہاں نامور نعت گو شعرا کا کلام قرطاس کی زینت دکھائی دیتا ہے وہیں نئے نعت گو شعرا کی حوصلہ افزائی اور تربیت کا بھی مؤثر اور مؤقر ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔
- عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احیاء کے لئے فروغ نعت کے سلسلہ میں تحریک منہاج القرآن کی طرف سے مستقبل قریب میں ایک انقلابی قدم اٹھایا جارہا ہے۔ نعت نگاری، نعت خوانی، نعت پر تحقیق اور اردو نعت کو نئی جہات سے متعارف کرانے کے لئے شیخ الاسلام کی ہدایات پر منہاج یونیورسٹی میں ’’نعت چیئر‘‘ کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل کسی بھی یونیورسٹی میں نعتیہ تحقیق کے لیے نعت چیئر کا اہتمام نہیں ہے۔ اس لحاظ سے بہت جلد منہاج یونیورسٹی لاہور میں ’’نعت چیئر ‘‘ کے انعقاد سے نعتیہ تحقیق و تنقید میں ایک عالمگیر انقلاب بر پا ہونے والا ہے۔
ثناء خوانی مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ تحریک کی پہچان
نعت گو شعرا کی عظمت و منزلت اپنی جگہ مگر ثنا خوانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ سیرتِ مطہرہ کے روشن دریچوں کی زیارت کریں تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کی نعت خوانی کیف و مستی اور سُرور کا ایک سیلِ بیکراں رواں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح محافلِ نعت سجانا اوائلِ اسلام ہی سے شمعِ رسالت کے پروانوں کی سنت دکھائی دیتی ہے۔ ثنا خوانی کا یہ سلسلہ تب سے آج تک اپنی شان و شوکت اور وقار سے رواں دواں ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری محافلِ نعت کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’ایمانی عشقی کیفیات کو بڑھانے کے لیے محافل کا منعقد ہونا، ان میں حسنِ لحن کے ساتھ قرآنِ مجید اور نعت شریف کا پڑھا جانا قلبی و باطنی کیفیات کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ نعت عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوت جگا کر اس کی روشنی سے دلوں کو جگمگاتی ہے۔ ‘‘
(خطاب ’’سلسله نعت اور قلبی کيفيات‘‘، نشانِ حسان ايوارد، لاهور، 31 اکتوبر 1998ء)
ثنا خوانی مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریکِ منہاج القرآن کی ایک پہچان ہے جس کو پروان چڑھانے میں شیخ الاسلام کا کلیدی کردار ہے۔ اس ہمہ گیر ذوقِ نعت ہی کا کرشمہ ہے کہ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ کے مصداق منہاج القرآن کے جہانِ نعت میں ان گنت مدحت نگار بھی پیدا ہوئے ہیں۔ جن احباب کو شیخ الاسلام کی موجودگی میں محافلِ نعت میں ان ثنا خوانانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کا شرف حاصل ہے انہیں بخوبی معلوم ہے کہ ثنا خوانی کے دوران شیخ الاسلام پر کیا کیا کیفیات وارد ہوتی ہیں اور پھر سامعین و حاضرین بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ثنا خواں کو نعت پڑھنے کے دوران فی البدیہ ایسی خوبصورت تضمینیں عنایت فرماتے ہیں کہ سامعین سرشار ہو جاتے ہیں۔
محافلِ نعت کا انعقاد اہلِ عشاق کے لیے نسخہ کیمیا سے کم نہیں۔ ان محافل کا مقصد ایسا تعلق و قربت پیدا کرناہے کہ جس سے زنگ آلود دل اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق سے ضیا بار ہو جائیں۔ نعت خوانی اور درود و سلام ایسے عوامل ہیں جو آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق کو بڑھا کرعشق کی آگ جلا کر قلب و جاں کو اللہ اور اس کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس پر فتن دور میں محافلِ نعت کا انعقاد ایک نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔
ان حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحریکِ منہاج القرآن نے نعت گوئی کے ساتھ ساتھ نعت خوانی میں بھی انقلاب برپا کیا ہے۔ تحریک کے اوائل ہی سے منظم انداز میں ہر جگہ نعت کے رنگ خوبصورت انداز میں بکھیرے گئے اور نعت کے فروغ کے لیے منہاج نعت کونسل کا قیام بلا شبہ ایک انقلاب آفرین عمل ہے۔ اس فورم نے نہ صرف مقامی، صوبائی اور ملکی سطح پر بلکہ دنیا بھر میں نعت کے فروغ میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ اگر ہم اس کی مثال تلاش کرنا چاہیں تو شاید ہمیں گذشتہ دو صدیوں میں بھی اس قسم کی کوئی مثال دکھائی نہ دے۔ نوجوانوں میں نعت کا ذوق پیدا کرنے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں منہاج القرآن اسلامک سینٹرز میں منہاج نعت اکیڈمیاں ہیں جو نعت خوانی کے فروغ میں شاندار کردار ادا کر رہی ہیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیرِ اہتمام تمام تعلیمی اداروں اور شریعہ کالجز میں طلبا و طالبات کی دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نعت کے فروغ کے لئے بھی انقلابی اقدامات کیے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں تحریکِ منہاج القرآن کے مراکز ہیں وہاں وہاں نعتِ رسولِ مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملداری دکھائی دے گی اور وہاں شام و سحر مدحتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمزمے جاری ہوتے نظر آئیں گے۔ ہر علاقے اور ہر ملک کی ایک الگ منہاج نعت کونسل ہے جو نوجوانانِ ملتِ اسلامیہ کو نعتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنے اور درود و سلام کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنانے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تحریکِ منہاج القرآن فروغ ِ نعت کی تحریک ہے، جس نے کائنات نعت کی وسعتوں کو وسیع سے وسیع تر کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن اور اس کی قیادت نے نعتِ رسولِ مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے نوجوانانِ ملت کے دلوں کو عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار کیا ہے۔ وہ لب جہاں گانے مچلتے اور جہاں سماعتوں میںموسیقی کی دھنیں گونجتی تھیں، تحریکِ منہاج القرآن نے اللہ کی عطا سے وہاں درودِ پاک اور نعتوں کا پہرہ بٹھا دیا ہے۔
تحریکِ منہاج القرآن نے نعت گو شعرا کو کائناتِ شعر و سخن میں متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ حضرت حسان رضی اللہ عنہبن ثابت کے کارواں کے پاسبان کثیر نعت خوان بھی متعارف کرائے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بہت طویل فہرست نظر آتی ہے۔ ان سعید ہستیوں میں قابلِ ذکر محترم محمد افضل نوشاہی، محترم شہزاد حنیف مدنی، محترم ظہیر احمد (منہاج نعت کونسل)، محترم بلالی برادران اور محترم شہزاد برادران قابلِ ذکر ہیں۔
تحریکِ منہاج القرآن عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کافیضان ہے۔ نعتِ رسولِ مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی الفتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مظہر ہے۔ اس نسبت سے منہاج القرآن اور نعت کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ نعت اگر نکہتِ جاودانی ہے تو منہاج القرآن کا گلستان اس مشکِ مدینہ سے مہک رہا ہے۔ ۔ ۔ مدحتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرنور ہے تو منہاج القرآن کا دیار بقعہ نور ہے۔ ۔ ۔ نعت اگر صراطِ عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تحریکِ منہاج القرآن اس کا ایک کاروانِ سعید ہے۔ ۔ ۔ دنیا بھر میں اسلام اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے شبانہ روز کاوشوں میں مصروف عمل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نما تحریک مسلمانوں کا گنبدِ خضریٰ سے ٹوٹا ہوا رشتہ دیگر علمی و فکری ذرائع کے ساتھ ساتھ نعت گوئی و نعت خوانی کے ذریعے بھی دوبارہ جوڑنے میں اپنا اہم اور تاریخی کردار ادا کررہی ہے۔