پت جھڑ کے موسم میں جب درخت سبز پیرھن کی بجائے زرد پوشاک اوڑھتے ہیں تو خزاں رسیدہ درختوں کی مرجھائی ہوئی شاخیں اُداسی کی تصویر بن جاتی ہیں، مگر جونہی بادِ بہاری کے سرمست اور خوشگوار جھونکے اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بہار کی واپسی کا اعلان کرتے ہیں تو مرجھائے ہوئے ماحول میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بلبلوں کے چہکنے، کلیوں کے چٹکنے اور پھولوں کے مہکنے کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔ خزاں رسیدہ درختوں کی خشک ٹہنیاں پھر سے سبز پتو ں کا پیرہن زیبِ تن کر لیتی ہیں، شاخوں پر کھلنے والے گلہائے رنگا رنگ دل ونگاہ کو تازگی اور انبساط سے آشنا کرتے ہیں۔
جب بھی ماہِ ربیع الاول اپنی تمام تر برکتوں، رحمتوں اور بہاروں کے ساتھ اہل ایمان کے درمیان جلوہ گرہوتا ہے تواُن کے دلوں میں بے پناہ خوشی اتر آتی ہے، اُن کے لبوں سے انتہائی ذوق وشوق اور سرشاری کے ساتھ توحید ورسالت کے نغمے پھوٹنے لگتے ہیں اور وہ ربِّ کریم کے اِس عظیم احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے اُس کی بارگاہ میں سر بسجود نظر آتے ہیں۔
رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل خزاں رسیدہ گلشن ہستی پژ مردگی اور افسردگی سے دوچارتھی، ہر طرف کفر، شرک اور معصیت کی ہولناک تاریکیاں چھائی ہوئی تھیں مگر دنیا میںرحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلوہ آفرینی سے قبل ہی بہار کی ہوائیں چلنے لگیں، جہانِ رنگ وبو میں رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوہ افروز ہونے سے ہی ہمیں توحید کا نور نصیب ہوا جو اِس شان سے چمکا کہ ایمان کا اجالا قریہ بہ قریہ اور کو بہ کو پھیلتا چلا گیا۔ خو ش نصیب نفوس کو اللہ تعالی کی بندگی اور رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا شرف حاصل ہوا، ایمان کی حلاوت اور دارین کی سعادت ملی۔ یوں تو ایمان کی دولت سیدنا آدم علیہ السلام سے لیکر سیدنا عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء کے امتیوں کو حاصل ہوئی مگر اللہ تعالی نے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کو جس شرف اور اعزاز کے ساتھ ایمان کا نور عطا فرمایا وہ سب سے جدا ہے۔ اگر ہم ایمان کی نعمت اور رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے نسبت کے حصول پر ربّ کریم کا شکر ادا نہ کریں اور اِس عظیم نعمت پر خوشی کا اظہار نہ کریں تو ہم سے بڑھ کر بد نصیب کون ہوگا؟
رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے نفرتوں اور عداوتوں کی بھڑکتی آگ کے الاؤ بجھا دیئے۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو باہم شیر وشکر کر دیا۔ ۔ ۔ انتقام کو محبت میں تبدیل کردیا۔ ۔ ۔ خون کی ندیاں بہانے والوں کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمت آفرین کلمات، نبوی اسلوبِ تربیت اور اپنے عمل کے ذریعے امن وآشتی کا سبق یوں ازبر کروایا کہ ایثار کے سانچے میں ڈھلے ہوئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض یافتگان عفو ودرگذر کے علمبردار، امن وآشتی کے سفیر، محبت کے پیکر اور رواداری کے معلم بن گئے۔
معرکہء یرموک ختم ہواتو حضرت حذیفہ عبدی رضی اللہ عنہ زخمیوں کے درمیان اپنے چچا زاد بھائی حارث بن ھشام رضی اللہ عنہ کی تلاش میں پانی لے کر نکلے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میرا خیال تھاکہ اگر اُس میں زندگی کی کچھ رمق ہوئی تو میں اس کا چہرہ دھوؤں گا اور اسے کچھ پانی پلاؤں گا۔ اچانک وہ مجھے انتہائی زخمی حالت میں دکھائی دیا، میں نے آگے بڑھ کر اُسے پوچھاـ: پانی پلاؤں؟ اُس نے اشارے سے مثبت جواب دیا۔ میں نے اُس کی طرف پانی کا پیالہ بڑھایا تو کسی اور زخمی کی آواز آئی:’’العطش‘‘ دیکھا تو وہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ تھے۔ راوی کہتے ہیں : میرے چچا زاد بھائی نے مجھے اشارہ کیا کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو پانی پلاؤں، میں ان کی طرف بڑھا اور انہیں پانی پلانے ہی لگا تو کسی اور پیاسے کی آواز آئی۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اشارے سے فرمایاــ: مجھے نہیں اُسے پانی پلاؤ۔ میں نے دیکھا تو وہ حضرت عیاش بن ربیعہ رضی اللہ عنہ تھے۔ میں پانی لیکر ان کے پاس پہنچا تو اُن کی روح پیاس لے کرربّ کی بارگاہ میں حاضر ہوچکی تھی۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی طرف آیا تو اُنکی روح بھی پرواز کر چکی تھی۔ اپنے چچا زاد بھائی حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کی طرف آیا تو وہ بھی پانی کی بجائے شہادت کا جام نوش کرچکے تھے۔ اِس طرح بارگاہ رسالتمآب سے فیضِ تربیت پانے والے اِن تینوں صحابہ رضی اللہ عنھم نے شدید پیاس کے باوجودزندگی کے آخری لمحات میں ایثار کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی جانیں جاں آفرین کو پیش کردیں اور رہتی دنیاکے لئے ہمارے تصور اور وہم وگمان سے بھی بڑھ کرایثار کا عملی نمونہ پیش کر دیا۔
عصر حاضر میں کچھ جذباتی، عاقبت نااندیش اور نگاہِ بصیرت سے محروم لوگوں کے سبب دنیا میں تحمل، برداشت اور رواداری کا درس دینے والے ہمارے سراپا رحمت دین پر ہی شدت پسندی کا الزام دھرا جا رہا ہے۔ ایسے میں عاشقان رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان، عمل اور اعلی اخلاق کے ذریعے دنیا کو بتائیں کہ رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو تحمل اوربرداشت کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
ليس الشديد بالصرعة وانما الشديد الذی يملک نفسه عند الغضب. (متفق عليه)
’’قوت والا وہ نہیں جو مدّمقابل کو پچھاڑ کر رکھ دے، بلکہ قوت والا وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ ‘‘
جب رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دس ہزار کا لشکر جرار لیکر سورئہ نصر کی تلاوت کرتے ہوئے شان محبوبی اور عجزونیاز کا حسین امتزاج لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی بیرونی حدود پر ایک حکمت عملی کے تحت پڑاؤ ڈالا۔ تب حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ابو سفیان کو (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے)مخاطب کرکے فرمایا:
’’اليومَ يومُ المَلحَمة.‘‘
’ ُُُُآج جنگ کا دن ہے۔ ‘‘
رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں روک کر فرمایاـ:
’’اليوم يوم المَرحَمة.‘‘
’’آج رواداری کا دن ہے۔ ‘‘
رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے اسلام کا پرچم لیکر اُن کے صاحبزادے حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما کو دیدیا۔ یوں مکی عہد میں قریش کے ہاتھوں بے پناہ تکالیف اٹھانے کے باوجود رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اُنہیں معاف فرما دیا بلکہ رہتی دنیا تک تحمل اور برداشت کا درس دے دیا۔
آپ رضی اللہ عنہ نے تاریخ عالم میں پہلی بار بغیر جنگ و جدل کے پرامن انقلاب کی بنیادیں استوار کیں۔ فتح مکہ کے موقع پررحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہء کرام کو حکم فرمایا کہ لشکر کو بکھیر دیا جائے اور ہر خیمے کے سامنے آگ روشن کی جائے، اس عسکری حکمت عملی کی بدولت کفارِ مکہ مسلمانوں کی ہیبت سے ڈر گئے اوریوں جنگ کی نوبت ہی نہ آئی، پھر جب رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی خون ریزی کے بغیر فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش سے پوچھا : ’’کیا سمجھتے ہو؟ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟ ‘‘سب نے بیک زبان آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ کریمی کا اعتراف کیا توآپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں فرمایا:’’ میں تمہیں وہی کہوں گا جو یوسف(علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ ‘‘ چشم فلک نے عربوں کا وحشیانہ انتقام تو دیکھ رکھا تھا لیکن آج رحمۃ للعالمین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عفو و درگزر کی اعلی ترین مثال بھی دیکھ لی۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر امن و آشتی اور صبروتحمل کی لازوال مثالیں قائم کیں۔ ابو سفیان رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے اسیر ہوکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے تو رحمت عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی تکریم کے لئے فرمایا:’’جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ گزیں ہوا اُس کے لئے امان ہے۔ ‘‘
طائف میں رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین ِ شریفین اور سر اقدس کو پتھروں سے جبکہ قلبِ اطہر کو طعن وتشنیع سے زخمی کیا گیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام ’’قرن الثعالب‘‘ پر پہنچے تو جبریل امین پہاڑوں پر مامور ایک فرشتے کو ساتھ لیکر حاضر ہو ئے اور یوں عرض گزار ہوئے:’’اللہ تعالی نے اہل طائف کا رد عمل ملاحظہ فرمایا ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہاڑوں پر مامور فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے جو چاہیں حکم فرمائیں۔ ‘‘ وہ فرشتہ رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوا: ’’ مجھے اللہ تعالی نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے جو چاہیں حکم فرمائیں۔ آپ کا کیا حکم ہے؟اگرآپ حکم دیں تو اِن ظالموں پر مکہ کے دو بڑے پہاڑ الٹ دوں؟‘‘ رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زخمی جسم اور آزردہ دلی کے باوجود فرمایا: ’’نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اہل طائف کی آئندہ نسلوں میں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جواللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں گے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ ‘‘
غزوئہ احد میں جب رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک زخمی ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خون آلود چہرے کو صاف کرتے ہوئے یوں دعا فرما رہے تھے:
’’اللهم اهد قومی فانهم لايعلمون.‘‘
’’ اے اللہ انہیں ہدایت عطا فرما، یہ جانتے نہیں۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں اپنی اور اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی وہ حلاوت بخشی ہے جو ہمارے لیے رحمت دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو آسان اور انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہے ورنہ محبت کے بغیر اتباع کو زیادہ دیر جاری رکھنا مشکل ہو جاتا۔ اگر بغیر محبت کے اتباع کو جاری رکھ بھی لیا جائے تو مطلوبہ ثمرات حاصل نہیں ہوتے۔ محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی اتباع لازم و ملزوم ہیں، جہاں سچی محبت ہو گی وہیں حقیقی اتباع بھی پائی جائے گی۔ علاوہ ازیں محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر صحیح اتباع ناممکن ہے۔
عصر حاضر کے مسلمان دنیا بھر میں مذہبی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زوال سے دوچار ہیں، اِس تناظر میں رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن اور صاحبِ قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کریں نیز آگہی کا یہ نور اپنے بچوں، بہن بھائیوں اور احباب میں اِس جذبے اور قوت کے ساتھ تقسیم کریں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں کے دلوں سے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے روشن چراغ گل نہ کر سکے۔
ہمیں بکھری ہوئی امت کی شیرازہ بندی کے لئے صحیح بنیادوں پر قرآن فہمی اور مطالعہ سیرت کا شعور بیدار کرنا چاہیے۔ امت میں وحدت ویگانگت پیدا کرنے اور شدت پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کی ضرورت ہمارے تصورات سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ چار دانگِ عالم میں علم و حکمت کی روشنی پھیلانے والے شہروں بغداد، قرطبہ اور دہلی میں طویل عرصہ تک قائم رہنے والی اسلامی حکومتیں اقتدار کے لئے مسلمانوں کی باہمی سیاسی اور مذہبی کشمکش اور ناچاقی کے باعث ہی زوال پذیر ہوئیں۔ آج کے مسلمان پھر سے مذہبی، سیاسی اور لسانی اختلافات میں الجھ کر اپنے لئے تباہی اور اسلام دشمنوں کے لئے راحت کا سامان کر رہے ہیں۔ آج ٹوٹ پھوٹ کی شکار امتِ مسلمہ کو اپنی شیرازہ بندی کے لیے جذباتی لہجوں کی نہیں سیرت طیبہ کی روشنی میں سنجیدہ اور شعوری کاوشوں کی ضرورت ہے۔ آج سیاسی اور مذہبی منافرت کے سبب خونِ مسلم کی حرمت کلمہ پڑھنے والے عاقبت نااندیش لوگوں کے ہاتھوں سے ہی پامال ہورہی ہے۔ رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلمہ گو مسلمانوں کی جان اور اُنکے مال کی حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’من قال لا إله إلا اللّٰه، وکفَر بما يُعبَد من دون اللّٰه حُرمَ مالُه ودمُه، وحسابُه علی اللّٰه عز وجل‘‘
’’جس نے (دل وزبان سے) لا الہ الا اللّٰہ کہہ دیا اُس کا مال اور خون حرمت والا ہو گیا۔ اور اس کا حساب (اجر) اللہ کے ذمہ کرم پر ہوگا۔ ‘‘
(رواه الامام مسلم)
ایک دوسری حدیث میںرحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو آخر زمانے کے ایسے افسوس ناک فتنوں پر مطلع فرمایا جنہیں آج ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں: ہمیں رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم زمانہء قیامت کے قریب ’’ هَرْجَ‘‘ کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔
قِيلَ: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَال: الْکَذِبُ وَالْقَتْل. قَالُوا: اَکْثَرَ مِمَّا نَقْتُلُ الْآنَ؟ قَال: إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِکُمْ الْکُفَّارَ، وَلَکِنَّهُ قَتْلُ بَعْضِکُمْ بَعْضًا، حَتَّی يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَه، وَيَقْتُلَ اَخَاه، وَيَقْتُلَ عَمَّهُ، وَيَقْتُلَ ابْنَ عَمِّهِ. قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّه! وَمَعَنَا عُقُولُنَا ؟ قالَ: لَا، إِلَّا اَنَّهُ يَنْزِعُ عُقُولَ هْلِ ذَاکَ الزَّمَانِ، حَتَّی يَحْسَبَ اَحَدُکُمْ اَنَّهُ عَلَی شَیْء ٍ وَلَيْسَ عَلَی شَيْئٍ.
’’آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’هَرْج‘‘َ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: جھوٹ اور قتل۔ صحابہء کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا قرب قیامت کے لوگ ہم سے بڑھ کر (سرکش کفار کو) قتل کریں گے؟ آپ نے فرمایا: (قربِ قیامت کے لوگوں کا)قتل کرنا(سرکش کفار کو) تمہارے قتل کرنے جیسا نہ ہو گا بلکہ یہ تمہارا ایک دوسرے کو قتل کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ انسان اپنے (بے گناہ) پڑوسی، اپنے بھائی، اپنے چچا اور اپنے چچا زاد کو قتل کرے گا۔ صحابہ (حیرت سے) عرض گزار ہوئے: سبحان اللہ ! کیا ہم عقل وشعور رکھتے ہوئے ایسا کریں گے؟ آپ نے فرمایا: اُس زمانے کے لوگوں سے(اُن کی جہالت اور دنیاوی ہوس کے باعث اُن کی) عقلیں چھین لی جائیں گی، یہاں تک کہ تم میں سے کوئی یہ گمان کرے گا کہ وہ کسی قدر حق پر ہے مگر وہ حق پر نہ ہوگا۔ ‘‘
(رواه الامام احمد فی المسند 409/ 32)
رحمتِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوںکہیں مال و دولت کی ہوس میں اور کہیں مذہبی منافرت کے نتیجے میں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے، بلکہ بعض اوقات ایسے مسلمانوں کوکفر کے الزام میں قتل کردیا جاتا ہے جو کفر کی آلائشوں سے پاک ہوتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالی نے بندئہ مومن کو حرمت وعزت سے نوازا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَاَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا.
’’جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی سزا جہنم ہے، وہ اُس میں عرصہء دراز تک رہے گا، اللہ اُس سے ناراض ہوگا، اُسے اپنی رحمت سے دور کردے گا۔ اوراللہ نے اُس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہوا ہے۔ ‘‘
(النساء: 93)
رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کل المسلم علی المسلم حرام، دمه وماله وعرضه.
’’مسلمان پر مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو کی پامالی حرام ہے۔ ‘‘
اس حدیث کے تناظر میںمسلمانوں پر اہل اسلام کے جان ومال اور عزت وآبروکی حفاظت لازم ہے، ماضی میں مسلمانوں نے اہل اسلام کی حفاظت کی عظیم مثالیں قائم کی ہیں، اِس حوالے سے ایک مشہور روایت ہے کہ جب عباسی خلیفہ ’’ معتصم باللہ‘‘ کو خبر ملی کہ ایک بے گناہ ہاشمی خاتون کو روم کے شہر عموریہ کے قید خانے میں ڈالا گیا ہے اور وہ قید خانے کی طرف جاتے ہوئے ’’وامعتصماہ‘‘ کہتے ہوئے معتصم باللہ کو مدد کے لئے پکار رہی تھی، تو معتصم باللہ نے عموریہ کے امیر کو خط لکھا کہ وہ خاتون کو رہا کردے ورنہ میں خود لشکر لیکر آؤں گا اور تمہیں تمہارے کیے کی سزا دوں گا۔ عموریہ کے امیر نے خاتون کو رہا کرنے سے انکار کیا تو معتصم باللہ خود لشکر لیکر عموریہ پہنچا اور اُس شہر کے طویل محاصرہ کے بعد اُس خاتون کو باعزت طریقے سے رہا کروایا۔
ایک اور مقام پر رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں بندئہ مومن کے قتلِ ناحق کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
لزوال الدنيا اهون علی اللّٰه مِن قتْل رجل مسلم.
(رواه الترمذی والنسائی)
’’اللہ تعالی کی بارگاہ میںدنیا کا برباد ہوجانا بندہ مومن کے (ناحق) قتل ناحق سے کمتر ہے‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:
رايت رسول اللّٰه صلیٰ الله عليه وآله وسلم يطوفُ بالکعبةِ، ويقولُ: ما اطيبکَ واطيبَ ريحُکَ! ما اعظمَکَ واعظمَ حرمتُک! والَّذي نفسُ مُحَمدٍ بيدهِ، لحرمةُ المؤمنِ اعظم عند اللّٰه حُرمة منک، مالُه ودمُه، وإن نظنُّ بهِ إلا خيرًا.
(رواه ابن ماجه)
’’میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ شریف کا طواف کرتے ہوئے (اُس سے)فرما رہے تھے :ایک کعبہ! تو کتنا پاکیزہ ہے؟ تیری خوشبو کیسی دلکش ہے ؟ تو کتنا عظیم ہے؟ اور تیری عظمت کتنی بلند ہے؟ اُس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہء قدرت میں محمد عربی (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے، اللہ کی بارگاہ میں بندہ مومن کی عزت وحرمت یقینا تیری حرمت سے بڑھ کر ہے۔ اُس کا جان ومال حرمت والا ہے اور بندئہ مومن کے بارے میں ہم اچھا گمان ہی رکھتے ہیں‘‘۔
ہم اسلامی دنیا میںجہاں عاقبت نااندیش مسلمانوں کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا بہتا ہوا خون دیکھتے ہیں وہیں کچھ نادانوں کودیکھتے ہیں کہ وہ مذہبی یا سیاسی اختلاف کی وجہ سے اِس خون ِناحق پر افسردہ ہونے کے بجائے نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ بے گناہ مقتولوں کو مجرم اور قتل کے حقدار سمجھتے ہیں، جبکہ سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کے نام نہاد مسلمان قاتلوں اور ظالموں کو ہیرو قرار دیتے ہوئے اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ بے گناہوں کے قتل پر خوشی منانے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ روزِ قیامت جہاں قاتلوں کو قتلِ ناحق کی سزا دی جائے گی وہیں مظلوموں کے قتل پر خوشی منانے والے بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور ان کے برابر سزا کے مستحق ہوں گے۔
اہل ایمان کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتلِ ناحق پر خوش ہونے والے کے بارے میں حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من قتَل مؤمنًا فاغتبط بقتله، لم يقبل اللّٰه منه صرفًا ولا عدلاً.
(اخرجه ابو داود، رقم: 4270)
’’جس نے کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کیا اور اُس کے قتل پر خوش ہوا تو قیامت کے دن اللہ تعالی اُس قاتل کی کوئی نیکی قبول نہیں فرمائے گا‘‘۔
آج کے معروضی حالات میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ مسلمان اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار ہو کر اُن غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے جو اپنے مذاہب کی نامکمل تعلیمات سے بیزار ہو کر سکون کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، مگر بدنصیبی سے مکالمہ بین المذاہب تو دور کی بات ہے یہاں تو مکالمہ بین المسالک کی سوچ بھی موجود نہیں ہے۔ بارہ ربیع الاول کا دن یوم تشکر ہے نیزاللہ تعالی اور اُس کے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تجدید عہد کا دن بھی ہے۔ انسانی اور اسلامی تاریخ کا یہ عظیم ترین دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں شدت پسندی کے پنجوں میں تڑپتی ہوئی اسلامی دنیا میں علم، آگہی اور امن و آشتی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ ماہ میلاد اور یوم میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم احوال زمانہ سے نابلد اور محدود سوچ کے حامل لوگوں کے سبب اسلام پر لگنے والے شدت پسندی کے الزامات کے ازالے کے لئے ہمیں جھنجوڑتا ہے کہ نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ انسانیت کیلئے رحمت دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امن، رواداری، تحمل، برداشت اورمحبت پر مشتمل تعلیمات کو فروغ دیا جائے۔ آج بھی اگر صحابہء کرام، تابعین اور تبع تابعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہایت ذمہ داری سے اور حکمت ودانش کے ساتھ ہم مقام مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم کو سربلند رکھیں گے تو ہم پر مسلط ہمہ جہتی زوال ختم ہوگا اور اسلام اور مسلمانانِ عالم ایک مرتبہ پھر اوجِ ثریا کی بلندیوں پر فائز ہوں گے۔