اللہ رب العزت نے اپنی قدرت کے مظاہر و نشانیاں ہر ہر عالم میں رکھی ہیں۔ آفاق میں بھی اللہ رب العزت کی قدرت کے مظاہر ہیں اور انسان کی ذات کے اندر بھی اللہ رب العزت کی قدرت کے مظاہر موجود ہیں۔ ان دونوں عالموں کے حوالے سے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
سَنُرِيْهِمْ اٰيٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِهِمْ.
’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے۔‘‘
(فصلت: 53)
عالم اصغر ايتنا فی انفسهم کے عنوان کے تحت ہے اور عالم اکبر آيتنا فی الآفاق کے عنوان کے تحت ہے۔ عالم اصغر سے مراد انسان کی ذات اور اس کے مختلف اعضاء، سر، دماغ، آنکھیں، ناک، کان، بطن، پھیپھڑے، گردے اور دل وغیرہ ہیں۔
جبکہ عالم اکبر میں وہ ساری کائنات ہے جو اللہ رب العزت نے تخلیق فرمائی ہے جس میں سورج، چاند، سیارے، ستارے، کہکشائیں، الغرض قدرت کے تمام مناظر عالم اکبر کا حصہ ہیں۔
اللہ رب العزت نے ان دونوں عوالم (عالم اصغر و عالم اکبر) میں بہت ساری قدریں مشترک رکھی ہیں۔ مثلاً انسان کے اندرونی اعضاء ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ Coordinate کرکے چلتے ہیں اگر کسی ایک شے کی Coordination ختم ہوجائے تو انسان کے اندر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح عالم اکبر میں موجود اشیاء بھی باہم متعلق ہیں۔ سورج، زمین کے ساتھ Coordinate کرتا ہے، زمین سورج کے ساتھ Coordinate کرتی ہے، سیارے اپنی کہکشاؤں میں Coordination کے ساتھ چلتے ہیں اگر خدانخواستہ یہ Coordination ختم ہوجائے تو کائنات کا نظام بھی درہم برہم ہوجائے۔
جس طرح عالم اصغر یعنی انسان کی حقیقت ’’روح‘‘ ہے جو نظر تو نہیں آتی مگر انسان کو زندہ و تابندہ اور حرکت میں رکھتی ہے۔ اسی طرح لازم آتا ہے کہ کل کائنات کی صورت میں موجود عالم اکبر کو زندہ اور حرکت میں رکھنے کے لئے بھی ایک روح موجود ہو۔ جس طرح انسان کے جسم کو زندہ اور حرکت میں رکھنے والی روح ظاہری آنکھ سے پنہاں ہوتی ہے اسی طرح اس کل کائنات کو بھی حرکت میں رکھنے والی ایک روح ہے جو عام ظاہری آنکھ سے پنہاں ہے۔
جسدِ آدم علیہ السلام میں پھونکی جانے والی روح
وہ روح کیا ہے جس کی وجہ سے ایک انسان کی زندگی بھی رواں دواں ہے اور کل کائنات کی زندگی کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ آیئے اس حقیقت کو قرآن مجید سے تلاش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
فَاِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِیْ.
’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں ‘‘۔
(الحجر: 29)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خالق اور مخلوق کی جنس ایک نہیں ہوسکتی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق اپنی روح مخلوق کے جسد میں پھونک دے کیونکہ خالق کی جنس اور ہے مخلوق کی جنس اور ہے۔ لہذا جب خالق کی روح کا مخلوق میں پھونک دیا جانا ممکن نہیں تو پھر یہاں پر کس روح کا تذکرہ کیا جارہا ہے؟
اللہ رب العزت نے اس آیت میں فرمایا ’’رُوْحِیْ‘‘ ’’میری روح‘‘، اس نسبت و اضافت کا مطلب یہ نہیں کہ مالک اور ملکیت دونوں کی جنس ایک ہوجائے۔ مالک اور ملکیت میں نسبت تو رہتی ہے مگر مالک اور ملکیت کی جنس ایک نہیں ہوسکتی۔جس طرح قَلَمِیْ ’’میرا قلم‘‘، سَیَارَتِیْ ’’میری گاڑی‘‘۔ یہاں قلم اور گاڑی کے ساتھ نسبت و اضافت تو موجود ہے مگر اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ مالک اور ملکیت کی جنس ایک ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت جب ارشاد فرمارہا ہے کہ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس روح کو نسبت تو مجھ سے ہے مگر یہ روح اصل میں مخلوق کی جنس سے ہے۔
اس روح کی حقیقت کیا ہے؟ وہ روح کیا ہے جسے جسدِ آدم میں پھونکا گیا؟ آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
قلت: يا رسول اﷲ! بأبی أنت و أمی! أخبرنی عن أوّل شئ خلقه اﷲ تعالی قبل الأشياء، قال: يا جابر! إن اﷲ تعالی قد خلق قبل الأشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک النور يدور بالقدرة حيث شاء اﷲ تعالی، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح ولا قلم، ولا جنة ولا نار، ولا ملک، ولا سماء ولا أرض، ولا شمس ولا قمر، ولا جني ولا انسي، فلما أراد اﷲ تعالی أن يخلق الخلق، قسم ذالک النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأوّل القلم، و من الثانی اللوح، ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل حملة العرش، و من الثانی الکرسی، و من الثالث باقی الملائکة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل السموت، ومن الثانی الأرضين، و من الثالث الجنة والنار…
’’میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نور الٰہی اس کا مادہ تھا بلکہ اس نے نور کے فیض سے) پیدا فرمایا، پھر وہ نور مشیتِ ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھا اور نہ انسان۔ جب اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا: پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ۔۔۔۔‘‘
(قسطلانی، المواهب اللدنيه، 1: 71، بروايت امام عبدالرزاق)
اللہ رب العزت تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے ہر شے کو تخلیق فرمانے کی وجہ خود بیان کرتا ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ
لولاه ما خلقتک و لا خلقت سماء و لا ارضا.
’’اگر میں اسے (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) پیدا نہ کرتا تو نہ تمہیں (آدم علیہ السلام) پیدا کرتا اور نہ زمین و آسمان کو پیدا کرتا۔‘‘
(قسطلانی، المواهب اللدنيه، 1: 9)
کیونکہ اس جسد کا کیا کرنا جس کی روح ہی تخلیق میں نہ آئی ہو۔ جب روح تخلیق میں آجائے تو پھر اس کو پھونکے جانے کے لئے جسد بھی بنایا جاتا ہے۔ پس آدم علیہ السلام کو بھی بنادیا گیا اور نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روح بناکر کائنات میں بھیجنے کے لئے کائنات بھی بنادی۔
پس اس روح سے مراد نور محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس سے آدم کا جسد یعنی عالم اصغر زندہ ہوگیا۔ اسی طرح عالم اکبر یعنی کل کائنات بھی ایک روح کی تلاش میں تھی تو اللہ رب العزت نے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو اس کائنات کی بھی روح بناکر اس کائنات کو زندگی عطا کی۔ جس طرح آدم کے اندر نور محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم روح بن کر اس کو زندہ رکھے ہوئے ہے، اسی طرح اس کل کائنات کی روح اور جان روح محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جن کے وسیلہ سے کائنات حرکت میں ہے۔
معجزہ معراج سے روحِ کائنات کی تعیین
آیئے! اس بات کی دلیل حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ معراج سے حاصل کرتے ہیں کہ معراج کی رات رب کائنات نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا اور اس کائنات کی حدوں سے نکال کر اپنے پاس لامکاں پر بلایا۔ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات کی روح تھے، جونہی روح اس کائنات کی حدوں سے باہر نکلی، ہر شے ساکت ہوگئی، جو جس حال میں تھا، اسی حالت پر قائم رہا۔ کنڈی ہلتی رہی۔۔۔ بستر گرم رہا۔۔۔ پانی بہتا رہا۔۔۔ سوچنے والوں نے سوچا کہ یہ کیا ماجرا ہوا؟ حقیقت یہ تھی کہ جسد کائنات کی روح جب رخصت ہوگئی تو کائنات کیسے حرکت میں رہتی۔۔۔؟ وقت کی گھڑیاں کیسے بڑھتی رہتیں۔۔۔؟ ساعتیں کیسے آگے چلتی رہتیں۔۔۔؟ اور پھر جب اللہ رب العزت نے اس کائنات کی روح تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوبارہ کائنات میں لوٹایا تو کائنات کا پہیہ پھر چلنے لگا۔۔۔ اوقات پھر رواں دواں ہوگئے۔۔ ساعتیں، گھڑیاں پھر آگے بڑھنے لگیں۔۔۔
انعقادِ قیامت و روزِ محشر سے روحِ کائنات کی تعیین
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام کائنات کی روح ہیں، اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پاک کو اٹھالے گا۔ کیوں؟ اس کا جواب اور راز بھی اسی بات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو جب فنا کرتا ہے تو اس کی روح نکال لی جاتی ہے اسی طرح جب اس کائنات کو قیامت کے دن فنا کرنا ہے تو اس کے سینے میں چونکہ محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ انور روح بن کر بستا ہے، لہذا جب خدا اس کائنات کے جسد کو فنا کرنا چاہے گا تو اس سے پہلے وہ اس کائنات کی روح کو اس کائنات سے نکال لے گا۔
احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اسی طرح روز محشر کے لئے تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے ان کی قبر انور سے اٹھایا جائے گا۔ اس کی ایک شرح تو یہ ہے کہ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میدان محشر میں سب سے پہلے پہنچیں گے تو گناہ گار امتیوں کو کچھ حوصلہ ہوجائے گا۔
دوسری شرح یہ ہے کہ خدا قیامت برپا کرنے کے لئے اس کائنات سے اس کائنات کی روح تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نکالے گا اور پھر محشر برپا کرنے سے پہلے تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے وہاں اس لئے لایا جائے گا کہ جسد اس وقت تک زندہ نہیں ہوسکتا جب تک اس کی روح موجود نہ ہو۔ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح اس کائنات کی روح ہیں، اسی طرح اُس عالم کی بھی روح ہیں، پس مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود وہاں موجود ہوگا تو روز محشر تمام عالم بھی زندہ ہوجائے گا۔
وہ روح جو خدا نے جسد آدم میں پھونکی تھی اور جس کو ’’روحی‘‘ ’’میری روح‘‘ فرمایا، یہ عقدہ اس شعر سے حل ہوجاتا ہے کہ
تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اللہ ہی کو معلوم ہے کیا جانئے کیا ہو
وہ نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کل کائنات میں زندگی کا راز ہے اور اس کو حرکت میں رکھے ہوئے ہے، نہ وہ خدا ہے اور نہ خدا سے جدا ہے مگر حقیقت میں یہی نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم روح و جان کائنات اور ہر شے میں بسنے والی روح ہے۔
پس جس فضا میں ہم سانس لیتے ہیں وہ بھی نور محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہے۔۔۔ جو دن رات رزق کھاتے ہیں یہ بھی نورمصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہے۔۔۔ یہ زمین جس پر اٹھتے بیٹھتے ہیں یہ بھی نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہے۔۔۔ جس سورج و چاند سے روشنی لیتے ہیں یہ بھی نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہے۔۔۔ سب کچھ میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے ہے۔۔۔ جو کچھ موجود ہے یہ خیرات مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ جو لوگ خیرات مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن و منکر ہیں ان کے بارے میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ
تیرا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں
ہے منکر عجب کھانے غرانے والے
وہ لوگ جو میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہیں وہی اس دنیا میں امن و امان کے بھی دشمن ہیں۔ یہ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق کے منکر ہیں۔ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات بھی کھاتے ہیں اور الٹا غراتے بھی ہیں۔ یہ کیسی ناشکری اور کیسا انکار ہے کہ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات اس کائنات کی فضا میں سانس بھی لیتے ہیں اور اپنی زندگی کو تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور تصرف و اختیارات کی تنقیص کے لئے استعمال کرتے ہوئے گستاخی و بے ادبی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔
اہل محبت ہی اہل ایمان ہیں
یاد رکھیں! کہ ماہ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانا اور اس ماہ کا بھرپور اہتمام کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ماہ ربیع الاول اصل میں اہل محبت اور اہل عشق کا مہینہ ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں واضح فرمادیا ہے کہ اہل ایمان، اہل محبت و عشق ہوا کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں‘‘۔
(البقرة: 165)
ایمان کا پیمانہ قرآن نے ہمیں عطا کردیا کہ اہل ایمان ہی محبت و عشق کرتے ہیں اور جس کا دل محبت و عشق سے محروم ہے اور عشق کی نمی نصیب نہیں، اللہ نے اسے اہل ایمان بنایا ہی نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر اہل ایمان ہی اہل محبت ہیں اور اہل محبت ہی اہل ایمان ہوا کرتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے شریعت اسلامیہ کے تحت ہمیں احکامات اور اوامر و نواہی کا ایک نصابِ شریعت عطا کیا ہے جس کی پاسداری کا حکم دیتے ہوئے ادائیگی کے طریقہ کار بھی سکھائے گئے ہیں۔ لیکن ایک نصابِ محبت بھی ہے، جس کا تعلق دلوں کی وادی سے ہے۔ اس نصابِ محبت کو احکامات اور حدود و قیود سے آزاد رکھا ہے یعنی اس کو محدود اور پابند نہیں کیا گیا کہ محبت و عشق کا اظہار کس طریق سے کرنا ہے اور کس طریق سے نہیں کرنا۔ جس طرح اللہ رب العزت نصابِ شریعت دے کر آزماتا ہے، اسی طرح نصابِ محبت دے کر بھی آزماتا ہے اس لئے کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ عشق و محبت کا دعویٰ کرنے والا اس وادی عشق میں کہاں تک سفر کرتا ہے اور محبوب کی کس کس ادا کو اپناتے ہوئے اسے منانے کی کوششیں کرتا اور اسکا قرب چاہتا ہے۔ اللہ رب العزت نصابِ محبت دے کر آزماتا ہے مگر طریقہ کار نہیں بتلاتا کہ نصابِ محبت کی پیروی اور اس پر عملدرآمد کو کسی طریقہ کار سے محدود کردیا ہویعنی کوئی شخص محبت کا کوئی بھی انداز لے کر آئے، سب جائز ہے۔
نصابِ شریعت و نصابِ محبت میں فرق
نصابِ شریعت اور نصابِ محبت کے فرق کو درج ذیل مثالوں سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے:
- حج بیت اللہ چاہے حج اکبر ہو یا حج اصغر، نصابِ شریعت کا باب ہے جبکہ روضہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت، ہر سانس کا مدینہ مدینہ کرنا اور دل کا تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تڑپنا نصابِ محبت کا باب ہے۔
- خلفائے راشدین کی اتباع، اطاعت اور احترام نصابِ شریعت کا باب ہے جبکہ اہل بیت اطہار کی محبت میں جینا مرنا نصابِ محبت کا باب ہے۔ کوئی سوال کرے کہ اطاعت امیر تو شریعت ہے لیکن اہل بیت کی محبت کو کیا کہیں گے؟ یاد رکھیں! اہل بیت کی محبت نصابِ محبت کا باب ہے، خدا نے تو اس کو محدود ہی نہیں کیا۔ احترام، اور اتباع و اطاعت کی حد تو ہوسکتی ہے مگر محبت کی حد نہیں ہوسکتی۔ اس لئے خدا نے اہل بیت اطہار کی محبت، نصابِ محبت میں رکھ دی ہے تاکہ کوئی اس کو محدود نہ کرتا پھرے۔
- اسی طرح اللہ رب العزت نے ماہ صیام کی حدود و قیود کو بیان فرمایا۔ گویا ہم جو روزہ رکھتے ہیں، یہ نصابِ شریعت کا باب ہے جبکہ ماہ ربیع الاول نصابِ محبت کا باب ہے۔ ماہ صیام عابدوں کی عید ہے جبکہ ماہ ربیع الاول عاشقوں کی عید ہے۔ عابدوں کی عید کا طریقہ بتادیا گیا مگر عاشقوں کو محدود و محصور نہیں کیا گیا بلکہ فرمادیا کہ
قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِکَ فَلْيَفْرَحُوْا.
’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں‘‘۔
(يونس: 58)
یعنی میرے محبوب کی آمد کی خوشی اُن کے آداب اور مقام کو ملحوظ رکھتے ہوئے جیسے چاہو مناؤ، میرے محبوب سے عشق کے اظہار میں کوئی قید نہیں ہے، اسی میں جیو، اسی میں مرو اور اسی محبت میں تڑپتے رہو۔
تیری طلعت ماہ ربیع میں ہے
کیسے وصفِ ماہِ صیام کریں
پس یہ مہینہ یہ عاشقوں کی عید ہے، اگر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہو تو ماہ ربیع الاول کو عاشقوں کے انداز سے گزارا کرو کہ صبح و شام ’’یامصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ پکارا کرو اور آنکھیں ان کے عشق میں تر رکھا کرو۔ عاشقوں کی اس عید کا کوئی طریقہ وضع نہیں کیا گیا، جو ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے جس بھی انداز سے محبوب کو منالے، وہی انداز مقبول ہے۔ چاہے نعتیں سن کر عید مناؤ۔۔۔ چاہے گھروں کو قمقموں سے سجا کر عید مناؤ۔۔۔ چاہے کھانے تقسیم اور دودھ کی سبیلیں لگاکر عید مناؤ۔۔۔ خدا نے قید نہیں لگائی کہ یہ طریقہ کرنا ہے اور یہ طریقہ نہیں کرنا، ہر طریقہ مقبول و محبوب بارگاہ الہٰہ ہے۔
تمام مخلوق محبت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا ہے
محبت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق کے دل میں رکھا ہے حتی کہ چرند، پرند، نباتات و جمادات بھی معرفت و محبت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنا ہیں۔ ایک انسان اشرف المخلوقات ہوکر بھی اگر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے خالی ہے تو دوسری طرف وہ دراز گوش (گدھا) اس انسان سے افضل ہے جس کے دل میں تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بستی ہے۔
غزوہ خیبر کی فتح کے بعد آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں ایک دراز گوش آیا اور آپ سے مخاطب ہوا۔ عرض کرنے لگا یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے آباؤ اجداد میں 60 دراز گوش ایسے ہوئے ہیں جن پر انبیاء کرام نے سواری کی ہے اور میں اپنی نسل کا آخری دراز گوش ہوں۔ حضور! آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انبیاء کرام میں آخری نبی ہیں، مجھے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔ میں ایک یہودی کی قید میں تھا، میں جان بوجھ کر ہمیشہ اسے گرا دیا کرتا تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ مجھ پر صرف تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سواری کریں۔ آقا علیہ السلام نے اسے قبول فرمالیا اور اس پر سواری فرمایا کرتے۔
اس نسبت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میسر آنے کے سبب وہ دراز گوش بھی عقل و شعور کا حامل ہوگیا۔ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو بلوانا چاہتے تو اس دراز گوش کو فرماتے کہ جاؤ اور فلاں صحابی کو بلاکر لاؤ۔ وہ دراز گوش جاتا، اپنے منہ سے دروازہ کھٹکھٹاتا، وہ صحابی باہر آتے تو ان کو منہ سے اشارہ کرتا کہ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بلاتے ہیں اور وہ صحابی تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوجایا کرتا تھا۔
اس دراز گوش کا دل تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اس قدر رچ بس چکا تھا کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی برداشت نہ کرسکتا۔ جب تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہری طور پر دنیا سے پردہ فرمایا تو صحابہ کرام کی بے تابی و بے قراری کے متعدد واقعات اپنی جگہ مگر اس دراز گوش کا عالم یہ تھا کہ وہ بھی تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی برداشت نہ کرسکتا تھا، دیوانہ وار مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا، بالآخر اس سے وہ جدائی برداشت نہ ہوئی اور ایک کنواں میں کود کر جان دے دی۔
اس موقع پر ایک ایسے واقعہ کا ذکر کرتا ہوں کہ جس نے مجھے ایمانی تقویت عطا کی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آسٹریلیا میں رہتے ہوئے میری ملاقات اتفاقاً ایک ایسے خاندان سے ہوئی جس نے ایک ایسا گھوڑا پالا ہوا ہے، جس کا کامل شجرہ ماں اور باپ دونوں طرف سے انہوں نے مرتب کررکھا ہے۔ وہ صحیح نسلاً طور پر اس گھوڑے کی اولاد ہے جس گھوڑے پر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 1400 سال قبل سواری فرمائی تھی۔ یہ دیکھ کر ایک بات میرے دل میں اسی لمحے پیدا ہوئی کہ وہ کفار اور مشرکین جو تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاذ اللہ بے اولاد ہونے کا طعنہ دیتے اور پھر وہ یزید بدبخت جو تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل پاک کو مٹانے نکلا تھا، وہ لوگ اور ان کے پیروکار مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل اور ذکر کو کیا ختم کریں گے، اللہ رب العزت نے تو 14 سو سال سے اس گھوڑے کی نسل ختم نہیں ہونے دی جس پر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری کیاکرتے تھے۔ کوئی کافر و مشرک، بدبخت چاہے کچھ بھی منصوبہ بناتا پھرے مگر اللہ رب العزت کے منصوبے سب سے اعلیٰ ہیں۔ لہذا اللہ رب العزت کی منشاء بھی دیکھا کرو کہ وہ اپنے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیا چاہتا ہے۔
ربیع الاول اہل محبت کا مہینہ ہے۔ عشاق اس ماہ ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی دیوانہ وار تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گن گاتے پھرتے ہیں۔۔۔ محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔۔۔ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے ڈنکے بجاتے پھرتے ہیں۔۔۔ خدا ہر سال ایک مہینہ عاشقوں کو دیتا ہے، اس لئے اہل عشق اس ماہ کے دن رات اور ایک ایک لمحہ تاجدار کائنات کی محبت، ان کے تذکار، حسین مکھڑے اور کنڈل والی زلفوں کی باتوں میں گزارا کرتے ہیں۔ پس اس ماہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انعامات کی باتیں کیا کرو۔۔۔ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکرام کی باتیں کیا کرو۔۔۔ خدا کی مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبتوں کی باتیں کیا کرو۔۔۔ اور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدا سے محبت کی باتیں کیا کرو۔
اس مہینے کو اس طرح منایا اور سجایا کرو جو اس مہینے کا حق ہے۔یہی میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ہے۔ یہی شیخ الاسلام اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کا پیغام ہے کہ تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جو وجہ تخلیق کائنات ہیں، جن کا نور روحِ کائنات ہے پس اس کائنات میں انہی کی خاطر جینے اور مرنے کا ڈھنگ سیکھ لو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اہل ایمان، اہل محبت و عشق بن سکیں، ہمارا نام تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقوں میں لکھا جاسکے۔ ہمارے پاس کچھ ایسا عمل نہیں جو رب کائنات کے بارگاہ میں پیش کرنے کے قابل ہو۔ ہم نہ عابد ہیں، نہ زاہد ہیں، کسی ایسی شے کا ساتھ نہیں ہے جس کو اپنا وسیلہ کہہ سکیں۔ بس ایک شے ہے اور وہ نسبت تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہی نسبت ہمارا وسیلہ، ہمارا طرز، ہمارا چلن اور ہمارا طریقہ ہے۔ اسی نسبت میں ہم جیتے اور مرتے ہیں۔ میلاد النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد اسی نسبت کو مضبوط و مستحکم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔