اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا اُمَّةً مُّسْلِمَةً لََّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَيْنَاج اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُo رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِکَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَيُزَکِّيْهِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ.
(البقرة، 2: 128-129)
’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج) کے قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت کی) نظر فرما، بے شک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔
درج بالا دو آیات سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی وہ دعا ہیں جو انہوں نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس وقت کیں جب وہ امر الٰہی پر خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران اس کی دیواریں بلند کرچکے تھے۔
حضور علیہ السلام کے میلاد اور عظمتِ نسب محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جاننے کے حوالے سے یہ دو آیاتِ کریمہ نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان آیات میں مذکور دعا میں تین امور نہایت توجہ طلب ہیں:
- حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ ملاکر دعا کرنا اس امر کا اظہار ہے کہ دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس نسل اور ذریت کا ذکر ہورہا ہے جو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ذریت سے چلے گی کیونکہ دعا کے الفاظ ہیں کہ ’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنی عبادت و اطاعت میں ہمہ وقت سرتسلیم خم کرنے والا بنا اور ہماری ذریت اور ہماری نسل میں ہر دور میں ایک امت مسلمہ قائم رکھ‘‘۔
دعا میں اُس نسلِ ابراہیم علیہ السلام کا ذکر نہیں ہے جو ذریتِ حضرت اسحاق علیہ السلام سے ہوگی۔ گویا اس دعا میں بنی اسرائیل کو شامل نہیں کیا بلکہ دعا کو بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کیا۔
- دوسرا توجہ طلب امر یہ ہے کہ نسل ابراہیم علیہ السلام اور ذریت اسماعیل علیہ السلام کی ساری نسل اور ذریت کو امت مسلمہ بنائے رکھنے کی دعا نہیں کی گئی بلکہ عرض کیا:
وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لََّکَ.
اگر ساری نسل کے مسلمان ہونے کی دعا ہوتی تو تین ہزار سال میں نسلِ اسماعیل سے کوئی فرد کبھی کافر و مشرک نہ ہوتا۔ یہ عرض نہیں کیا کہ میرے بیٹے اسماعیل سے جتنی اولاد ہو وہ سب امت مسلمہ ہو بلکہ عرض کیا:
وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ ہماری ذریت میں سے ایک طبقہ ہمیشہ امت مسلمہ کے طور پر زندہ رہے، توحید پر قائم، کفر و شرک سے محفوظ و مامون اور ایمان، اخلاص اور بندگی پر قائم رہے۔ مِنْ ذُرِّيَّتِنَآ میں ’’مِنْ‘‘ بعضیت کے لئے ہے کہ نسل اسماعیل میں سے کچھ لوگ ہر زمانے اور ہر صدی میں تسلسل کے ساتھ ایسے رہیں جنہیں امت مسلمہ کا ٹائیٹل دیا جا سکے اور وہ امت مسلمہ کہلائیں۔- تیسرا توجہ طلب امر یہ ہے کہ دوسری آیت میں مذکور دعا میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا گیا:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ.
میری اُس ذریت میں سے رسول آخر الزماں محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما۔ یعنی کسی اور نسل میں سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل میں جو طبقہ نسلاً بعد نسل امتِ مسلمہ میں سے ہو گا ان میں نبی آخر الزماں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوں۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نسل اسماعیل میں امت مسلمہ بھی مانگی۔۔۔ امت مسلمہ کا بلا انقطاع تسلسل بھی مانگا۔۔۔ اور تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بھی اسی ذریت و نسل سے مانگی۔
اس آیت کریمہ نے یہ بات واضح کر دی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور آپ علیہ السلام کی دعا کے نتیجے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے ایک امت/ گروہ/ طبقہ ہمیشہ عقیدہ توحید اور ایمان و اسلام پر قائم رہتے ہوئے کفر و شرک اور گمراہی سے محفوظ و مامون رہا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے کئی لوگ کافر و مشرک اور گمراہ بھی ہوئے مگر اسی نسل و ذریت میں سے (وَمِنْ ذُرِّيَتِنَا) ایک حصہ جسے نسبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آباء و اجداد بننا تھا، وہ طبقہ تسلسل کے ساتھ عقیدئہ توحید کے ساتھ امت مسلمہ کے طور پر قائم رہا۔
دعاءِ ابراہیمی کی قبولیت اور میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
قرآن مجید میں دیگر کئی مقامات پر بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مختلف دعاؤں کا ذکر ہے۔ یہ ساری دعواتِ ابراہیم دراصل میلادِ مصطفی علیہ السلام کیلئے آ رہی ہیں اور میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر نسب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامانِ طہارت و ایمان کا اہتمام ہے۔
- حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَo
’’اور (یاد کیجیے) جب ابراہیم (علیہ السلام ) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں‘‘۔
(ابراهيم، 14: 35)
- ایک اور مقام پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتجی ہیں:
رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo
’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لے‘‘۔
(ابراهيم، 14: 40)
یعنی ایک طبقہ بنی اسماعیل میں سے ہر دور میں ہمیشہ نماز کو قائم رکھنے والا رہے۔ کفر و شرک اور گمراہی کے اندھیروں میں میری نسل کا ایک طبقہ ایسا رہے جو تیری توحید اور ایمان کے چراغ جلاتا رہے، بتوں کی پرستش سے محفوظ رہے تا کہ ان پاک پشتوں اور پاک صلبوں سے نورِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرتا ہوا آئے اور وادی مکہ میں اُس کا ظہور ہو۔
یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں ہیں، جو میلاد ِمصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ کعبۃ اللہ کی تعمیر کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام اس پر مزدوری اللہ سے میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں طلب کر رہے ہیں کہ میری نسل، ذریت میں سے ایک اُمت ایمان اور توحید پر قائم رکھ اور پھر اُن میں میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہو۔ وہ ساری دعائیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مانگیں ان کا مرکزی نکتہ نظر میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر طہارتِ نسب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، تا کہ جس نسب سے نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گزرتے ہوئے آنا ہے اُس نسل کا ہر فرد پاک رہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان دعاؤں کو نسلِ اسماعیلی میں آمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طہارت نسبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ قبولیت عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اسی قبولیت کا ذکر کیا گیا۔
- ارشاد فرمایا گیا:
وَاِذِا بْتَلٰی اِبْرٰهيمَ رَبُّهُ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ط قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.
’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام ) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔‘‘
(البقرة، 2: 124)
جب اللہ رب العزت نے امامت کا وعدہ فرمایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: ’وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ‘ کیا یہ امامت، سرداری، راہنمائی، سروری اور رہبری میری ذریت نسل میں سے بھی بعض لوگوں کو نصیب ہو گی؟
اللہ رب العزت نے جواب دیا:
قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِ الظّٰلِمِيْنَo
ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔
گویا آپ کو بتا دیا گیا کہ آپ کی نسل و ذریت میں دو طرح کے لوگ ہوں گے:
- کفر و شرک اور ظلم میں مبتلا ہوجانے والے
- وہ طبقہ جو بلا انقطاع تسلسل کے ساتھ امت مسلمہ رہے گا اور ایمان، اسلام اور توحید پر قائم ہوگا۔
جو شرک و ظلم میں مبتلا ہونے والے ہوں گے انہیں یہ امامت کی ذمہ داری و منصب عطا نہیں ہوگا جبکہ ایمان، اسلام اور توحید پر قائم رہنے والوں کو میرا عہدِ نبوت ملے گا۔ اللہ رب العزت نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرما کر واضح کر دیا کہ اِن دونوں قسموں کے طبقات (کافر و مشرک اور مومن و موحد) میں سے امامت کا منصب آپ کی ذریت اور نسل میں ان سے گزرتا ہوا جائے گا جو ایمان، اسلام، طہارت اور توحید پر ہوں گے۔
- ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَجَعَلَهَا کَلِمَةً م بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهِ.
’’اور ابراہیم (علیہ السلام ) نے اس (کلمہِ توحید) کو اپنی نسل و ذریّت میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا ‘‘۔
(الزخرف: 28)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اَشهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اﷲَ ہے۔ یعنی شہادتِ توحید کا کلمہ ہے۔ اس کو امام عکرمہ، قتادہ، السدی الکبیر اور حضرت امام مجاہد تابعی نے روایت کیا۔
توحید کا کلمہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں بعض طبقات میں تسلسل کے ساتھ ہمیشہ قائم رہا۔
حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ
اَلْاخْلَاصُ وَالتَّوْحيدُ لَا يَزَالُ فِيْ ذُرِّ يَّتِهِ مَنْ يعبدالله ويوحده.
وہ طبقہ جو حضرت ابراہیم کی نسل میں ان کے وقت سے لیکر حضور علیہ السلام کی ولادت تک ہر دور میں بنی اسماعیل میں ایسا رہا جو ہمیشہ توحید اور اس کی عبادت پر برقرار رہا، اُس کو عَقِبِہِ کہتے ہیں۔
(تفسير ابن کثير، 4: 127)
قرآن مجید کی اس آیت کریمہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا وَمِنْ ذُرِّيَتِنَا اُمَّةً مُسلمةً لَّکَ کی تعبیر کا اعلان کردیا کہ لَا يَزَالُ فِيْ ذُرِّيَّتِهِ اُن کی نسل اور اُن کی ذریت میں کبھی بھی ایسا زمانہ نہیں آیا کہ اُس کا ایک طبقہ، ایک نسل توحید پر قائم نہ رہی ہو۔ جہاں اردگرد کفر و شرک پر قائم رہنے والے لوگ تھے وہاں ایک نسب، ایک گھرانہ، ایک طبقہ تسلسل کے ساتھ اخلاص، عبودیت، عقیدہ توحید اور اللہ کی عبادت پر قائم رہا۔
- یہ طبقہ کب تک اس طرح رہا؟ یہ بات بڑی قابل توجہ ہے۔ قرآن بتا رہا ہے کہ ولادتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تک یہ طبقہ قائم رہا۔ ارشاد فرمایا:
بَلْ مَتَّعْتُ هٰؤُلَآئِ وَاٰ بَآئَ هُمْ حَتّٰی جَآءَ هُمُ الْحَقُّ وَرَسُوْلٌ مُّبِيْنٌo
’’بلکہ میں نے انہیں اور اِن کے آباء و اجداد کو (اسی ابراہیم علیہ السلام کے تصدّق اور واسطہ سے اِس دنیا میں) فائدہ پہنچایا ہے یہاں تک کہ اِن کے پاس حق (یعنی قرآن) اور واضح و روشن بیان والا رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لے آیا‘‘۔
(الزخرف، 43: 29)
قرآن مجید نے بات حضور علیہ السلام کے میلاد تک پہنچا دی کہ وہ کلمہ توحید جس کی بقا کی دعا حضرت ابراہیمe نے کی تھی اور اللہ کے حضور التجا کی تھی کہ میری ذریت کے ایک طبقے میں کلمہ توحید برقرار رہے، ہم نے اسے برقرار رکھا اور هوُلَآءِ فرماکر اس زمانے کے لوگوں کو یعنی خاندان بنو ہاشم اور حضرت عبد المطلب کا وہ گھرانہ جس میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ آمنہ j جیسی ہستیاں تھیں اس دور کو بھی اس فیض میں شامل کردیا اور وَاٰبَآئَهُمْ فرماکر واضح کردیا کہ ان سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک ان کے آباء و اجداد میں صدیوں تک ہم نے اس کلمہ توحید اور ایمان کا فیض قائم رکھا۔ میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے اور نسبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طہارت کے فیض کے صدقہ سے ہم نے اس طبقے کو فیض بخشا جن کے نام نسبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شجرہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھ دیئے تھے۔
حَتّٰی جَآئَ هُمُ الْحَقُّ وَرَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ کے الفاظ واضح کررہے ہیں کہ کلمہ توحید کا یہ فیض اس وقت تک ان کے پاس رہا کہ اِن کے پاس حق (یعنی قرآن) اور واضح و روشن بیان والا رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لے آیا جن کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی اور جن کے ذریعےهٰؤُلَآءِ وَاٰ بَآئَهُمْ سب کو فیضِ توحید ملا۔لطیف نکتہ
اللہ رب العزت کے فرمان کَلِمَةً بَاقِيَةً فِی عَقِبِهِ (الزخرف:29) میں لفظ عَقِبِهِ ’’عَقِبَ‘‘ سے ہے۔ علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں بیان کرتے ہیں کہ اس کی ایک قرات عَقِبِهِ کے بجائے ’’عَاقِبِهِ‘‘ بھی ہے یعنی عَاقِبِهِ ايْ مَنْ عَقِبَهُ؟ وَمِنْهُ تَسمِيَة النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم لِاَنَّهُ اٰخر الأنبياء عليهم الصلاة والسلام.
(آلوسی، روح المعانی، 25: 77)
عقبہ سے مراد عاقب ہے۔ حضور علیہ السلام کے ناموں میں سے ایک نام عاقب بھی ہے۔ چونکہ آقا علیہ السلام سب سے آخری نبی ہیں۔
یعنی آخر الانبیاء سیدنا محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تک قائم رکھا اور یہ توحید کے نور کو پوری کائنات میں پھیلانے والا چشمہ بن گیا۔
اس نام کی تائید آقا علیہ السلام کے اس فرمان کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ لِي اَسْمَاءً. اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اﷲُ بِيَ الْکُفْرَ وَاَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي وَاَنَا الْعَاقِبُ.
’’میرے کتنے ہی نام ہیں، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں مَاحِيْ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کفر کو میرے ذریعے مٹائے گا اور میں حَاشِرُ ہوں کہ لوگوں کو میرے قدموں میں اکٹھا کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں یعنی سب سے آخری نبی ہوں‘‘۔
(بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، بَاب قَوْلُهُ تَعَالَی {مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ اَحْمَدُ} (رقم: 4614)
پس آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب میں بھی فردیت ہے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور حسب میں بھی فردیت ہے۔ فردیت سے مراد ایسی انفرادیت ہے جس میں کوئی شریک نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو بیٹے عطا کئے۔ سارے انبیاء جن کو بنی اسرائیل کہا وہ حضرت اسحاق علیہ السلام سے ہوئے۔ دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں جن کو لے کر آپ علیہ السلام مکہ آگئے۔ انہیں اپنے ساتھ تعمیر کعبہ اور دعائے میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شریک رکھا۔ حضور علیہ السلام سے قبل تین ساڑھے تین ہزار سال کا جو زمانہ بیتا اُس میں کوئی اور نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نسب میں نہیں آیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو صرف میلادِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے مختص کردیا اور اسحاق علیہ السلام کو جملہ انبیاء f کے لیے مختص کر دیا۔
قرآن مجید کی ان آیات کریمہ نے یہ بات ثابت کر دی کہ آقا علیہ السلام کی ولادت کی خاطر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کے پورے نسب کو شرک اور کفر کی آلودگیوں سے پاک کر دیا۔ اس لئے ولادتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس نسب، نسل، ذریت اور خاندان میں ہوئی جس خاندان کے آباء و اجداد اور اُمہات (مرد و عورت) کسی دور میں بھی کفر و شرک میں مبتلا نہ ہوئے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے لیے (ولادت کو عربی میں میلاد کہتے ہیں، میلاد، مولد، ولادت ایک ہی لفظ ہے) رب کائنات نے ہزار ہا سال تک آپ کے آباؤ اجداد کے نسب کے ایک ایک فرد کو خواہ وہ مرد تھا یا عورت، ان کی پشت اور ان کے بطن کو شرک و کفر کی آلودگیوں سے محفوظ رکھا، تاکہ جن پشتوں اور بطنوں میں ہزارہا سال تک حضور علیہ السلام کا نور گزرنا تھا ان میں کہیں بھی کفر و شرک کی آلودگی نہ ہو اور نسبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس کا طعن نہ آسکے۔ یہ اللہ رب العزت کی طرف سے ولادتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس کے لیے طہارتِ نسبِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہتمام تھا۔
بزبانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم طہارتِ نسب کا اظہار
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر اپنے نسب کی طہارت کی اس فردیت کو بیان فرمایا۔
- حضرت عباس ابن عبد المطلب حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور کوئی بات جو انہوں نے لوگوں سے سنی تھی (وہ خود اس پر بڑے رنجیدہ تھے) اس بات کی خبر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:
مَنْ اَنَا؟ فَقَالُوا: اَنْتَ رَسُولُ اﷲِ عَلَيْکَ السَّلَامُ. قَالَ: اَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.
’’میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس بہترین مخلوق کے دو حصے (عرب و عجم) کئے اور ان دونوں میں سے بہترین حصہ (عرب) میں مجھے رکھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے رکھا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں رکھا‘‘۔
(ترمذی، السنن، 5: 543، رقم: 3532)
اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے اپنی نبوت و رسالت اور احکام شریعت کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ صرف اپنی ذات، اپنی ولادت، اپنے نسب، اپنے گھرانے، اپنے آبا و اجداد اور اپنے قبیلہ کا تذکرہ کیا۔ یہ سارا بیان میلاد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہے۔
- حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ.
(مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، بَابُ فَضْلِ نَسَبِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم 4:1782، رقم: 2276)
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ کو فضیلت دی، اور کنانہ میں سے قریش کو فضیلت دی اور قریش میں سے بنوہاشم کو فضیلت دی اور بنوہاشم میں سے مجھ کو فضیلت دی‘‘۔
یہ بیان بھی میلاد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نسب کی طہارت پر ارشاد فرمایا:
خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن آدم إلی أن ولدنی ابی وأمی.
(طبرانی، الأوسط، 5: 80، رقم: 4728)
میرا تولد نکاح سے رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اپنے والدین کریمین تک جتنی پشتیں گزری ہیں، ہر پشت اور ہر نسل میں جو میرے آباء و امہات تھے ان کا سلسلہ تولد نکاح سے رہا ہے۔
سفاح یعنی میرے پورے سلسلہ نسب میں کہیں بھی بدکاری نہیں رہی اور یہ رشتہ نکاح کی طہارت آدم علیہ السلام سے لے کر میرے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور میری والدہ حضرت آمنہ کے رشتہ ازدواج تک قائم رہی۔ پورے نسب کو اللہ پاک نے نکاح کے مقدس تعلق میں پرویا ہے اور دور سفاح اور دور جاہلیت کی خرابی سے پاک رکھا ہے۔
قرآن مجید میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی شان فردیت (انفرادیت) کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِيْنَo
اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے۔
(الشعراء، 26: 219)
یعنی ہم آپ کو سجدہ گزاروں میں نسلاً بعد نسلٍ منتقل کرتے لائے ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
من صلب نبی إلی صلب نبی حتی أخرجه نبيا.
(ابن کثير، تفسير، 3: 353)
نبی سے نبی کی صلب تک (پاک سے پاک صلب تک) آپ کا پورا سلسلہ نسب رہا۔ حتیٰ کہ آپ کی شان نبوت کے ساتھ ولادت ہوئی۔
طبرانی نے اس قول کو یوں روایت کیا کہ
نبي إلی نبي حتی أخرجت نبيا.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 11: 362)
امام ہیثمی نے کہا کہ رجالھما رجال الصحیح۔ ان دونوں روایتوں کے جو رجال ہیں وہ صحیح ہیں۔
- حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
ما ولدنی من سفاح أهل الجاهلية شيئ. ما ولدني إلا نکاح کنکاح الإسلام.
میرے والدین سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک میرے پورے نسب میں کسی ایک جگہ بھی دور جاہلیت کی آلودگی نے نہیں چھوا۔ میرے والدین اسلام کے نکاح کے رشتے میں جڑتے رہے (اور اس میں کوئی ناجائز رشتہ ہزاروں سال کی تاریخ میں نہ ہوا۔)
(بغوی، تفسير، 2: 341)
طہارتِ نسب کیلئے حضرت آدم علیہ السلام کی وصیت
امام عبد اللہ عبدی محمد السنوی الرومی (قاضی القضاۃ حلب) اپنی کتاب ’مطالع النور السنی فی طہارۃ النسب العربی‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بیس مرتبہ تولد کے ذریعے آدم علیہ السلام کے ہاں چالیس بیٹے ہوئے۔ یعنی ہر بار دو بیٹے ہوتے تھے۔ اُن چالیس بیٹوں میں ایک بیٹے کا نام حضرت شیث علیہ السلام ہے جن کی نسل سے آقاe کی ولادت ہوئی۔ حضرت شیث e، آدم علیہ السلام کے بعد آقا علیہ السلام کے جد اول ہیں۔ ہر ولادت کے موقع پر دو بیٹے اکٹھے پیدا ہوتے مگر جب حضرت شیث علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو یہ اکیلے پیدا ہوئے، اُن کے ساتھ دوسرا بھائی نہیں تھا۔
امام عبد اللہ عبدی محمد السنوی الرومی لکھتے ہیں:
فَإنَّهُ وُلِدَ مُنْفَرِدًا کَرَامَتًا لِکَوْنِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صلیٰ الله عليه وآله وسلم لِنَسْلِهِ.
’’حضرت شیث علیہ السلام کا کرامتاً منفرد پیدا ہونا اس لئے تھا کہ ان کی نسل سے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لانا تھا‘‘۔
گویا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نسب کی انفرادیت عطا فرمانے کے لئے حضرت شیث علیہ السلام کو بھی انفرادیت عطا کی گئی۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے چالیس بیٹوں میں سے اپنا وصی، نائب، وارث اور خلیفہ حضرت شیث علیہ السلام کو بنایا۔ آپ نے ان کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
اے میرے بیٹے! تم دیکھتے ہو کہ میرے ماتھے میں ایک نور چمکتا ہے، وہ نور محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس نور نے تیری پشت کے ذریعے آگے منتقل ہو نا ہے اور اپنی ولادت تک نسب کا سفر طے کرنا ہے۔ لیٰذا تو پاکیزہ و طاہرہ خاتون کے ساتھ شادی کرنا، چونکہ اُن کے بطن سے نورِ مصطفی علیہ السلام نے آگے گزرنا ہے۔ جب تیری اولاد ہو تو ان کو وصیت کرتے جانا کہ میری نسل میں کوئی بیٹا کسی ایسی خاتون سے شادی نہ کرے جنہیں دور جاہلیت کی آلودگی نے مَس کیا ہو۔ چونکہ یہ پشتیں اور یہ بطن امانت کے لئے ہیں۔ ان پشتوں اور بطنوں میں سے نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے منتقل ہونا ہے۔
یہ وصیت و عہد اسی طرح تھا جس طرح اللہ رب العزت نے تمام انبیا علیہ السلام کی روحوں سے آقا علیہ السلام کے لئے عہد و میثاق لیا کہ میرے نبی آخرالزماں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آجائیں تو تم سب اپنا کلمہ چھوڑ کر میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمے کو پڑھنا، ان پر ایمان لے آنا اور ان کے دین کی مدد کرنا۔ بعد ازاں ہر نبی اپنے زمانے میں اپنی امت کو یہی وصیت و نصیحت کرتا رہا۔ اسی طرح ہر نبی اور نسلِ آدم کا ہر فرد جو حضور علیہ السلام کے آبا و اجداد میں تھا، وہ ہر زمانے میں اپنی اولاد کو وصیت کرتا رہا کہ ان کا ایک نسب ایسا رہے جو پاکیزہ پشت اور پاکیزہ رحم کے ساتھ ملے۔
یہ ذہن نشین رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کاجب وصال ہوا تو اُس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً نو سو برس تھی۔ وصال تک ان کی نسلیں ان کے بیٹوں، پوتوں، پوتیوں، پڑپوتیوں، پڑپوتوں، نواسوں اور نواسیوں کی جو نسلیں زمین پر آباد تھیں وہ چالیس ہزار افراد تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت شیث علیہ السلام کو نسب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد جد اول بننا ہے۔ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کی شادی روئے زمین کی سب سے خوبصورت اور مطہر خاتون سے ہوئی، ان کا نکاح اور خطبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر پڑھا اور ملائکہ ان کے گواہ ہوئے۔
حضرت شیث علیہ السلام اس بات کا اشارہ دینے کے لئے کہ میں نسب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جد اول ہوں، آپ اپنے باقی بھائیوں اور قبائل کے ساتھ نہ رہے بلکہ مکہ معظمہ آکر آباد ہوگئے اور ساری زندگی مکہ معظمہ میں گزاری، کیونکہ یہیں تاجدار کائنات کی ولادت ہونی تھی۔ حضرت شیث علیہ السلام کا وصال بھی مکہ میں ہوا اور جبل ابو قبیس میں دفن ہوئے جو کعبۃ اللہ کے بالکل سامنے ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت شیث علیہ السلام کو جو وصیت/ نصیحت کی، جلیل القدر تابعی حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ (جن سے صغائر صحابہ کرام بھی کسب فیض کرتے) نے نسب کی حفاظت کی اس روایت کو بیان کیا۔ امام ابن عساکر، امام زرقانی (المواھب اللدنیہ) نے اسے اپنی کتب میں درج کیا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام کو مقامِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آگہی دیتے ہوئے فرمایا:
أي بني! أنت خليفتي من بعدي. فخذها بعمارة التقوٰی والعروة الوثقٰی.
میرے بعد روئے زمین پر آپ میرا خلیفہ بننے والے ہیں۔ عُرْوَةِ الوُثْقٰی کی طرح تقویٰ اور میری نصیحت/ وصیت پکڑ لے۔
وکلما ذکرت اسم اﷲ تعالیٰ فاذکر إلیٰ جنبه اسم محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم.
جب بھی تو اللہ کا ذکر کرے، اللہ کے ذکر کے ساتھ ذکرِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور کرنا۔
فانی رأيت اسمهُ مکتوباً علی ساقِ العرش وانا بين الروح والطين.
جب اللہ رب العزت نے مجھ کو پیدا کیا تو میں نے عرش کے ستونوں پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا۔
ثم إني طفت السمٰوٰت فلم أر في السموات موضعا إلا رأيت.
مجھے پوری آسمانی کائنات کی سیر کروائی گئی، میں نے کوئی بھی عزت و بلندی مقام نہیں دیکھا جہاں اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ لکھا ہوا ہو۔
وإن ربي أسکنني الجنة فلم أر في الجنة قصرا ولا غرفة إلا رأيت اسم محمد مکتوبا عليه.
پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں سکونت بخشی، میں نے جنت کا ایک محل ایسا نہیں دیکھا، کوئی ایسا حجرہ نہیں دیکھا جس پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ لکھا ہو۔ (یعنی گویا جنت کا ہر ستون اور ہر درخت مصطفی علیہ السلام کی ملکیت میں ہے۔)
ولقد رأيت اسم محمد مکتوبا علی نحور الحور العين وعلی ورق قصب آجام الجنة وعلی ورق شجرة طوبی وعلی وروق سدرة المنتهی وعلی أطراف الحجب وبين أعين الملٰئکة.
میں نے فرشتوں کی آنکھوں پر اور اُن کے ماتھوں پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھا، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا دیکھا، الغرض جدھر نظر دوڑائی جو مقامِ بلندی و عزت دیکھا، ہر جگہ اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتوب تھا۔
اس لئے بیٹے شیث! ملائکہ بھی ہر وقت اسم محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں۔
(سيوطی، الدرالمنثور، 2: 746-747)
اس کی تائید قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ.
بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔
(الأحزاب، 33: 56)
یعنی ملائکہ عرش اور فوق العرش آپ کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں وصیت آدم علیہ السلام کی تائید، اس قرآنی حکم سے میسر آتی ہے کہ آقا علیہ السلام کی شان کس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے بلند فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کے میلاد کے صدقے سے پورے نسب کو منفرد شان عطا کی، جس میں کوئی بھی آقا علیہ السلام کے ساتھ شریک نہیں اور نہ ہی آپ کا کوئی بھی مماثل اور مثیل ہے۔
نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیشانی حضرت عبداللہ میں ظہور
آقا علیہ السلام کی شان، مقام، ولادت اور نسب ہر ایک کو شان فردیت حاصل ہے۔ یعنی کسی بھی حوالے سے کوئی حضور علیہ السلام کا مثل نہیں۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل عظام کو نبوت و رسالت ملی مگر ان تمام میں بھی آقا علیہ السلام کو ہر حوالے سے فردیت عطا فرمائی۔
آقا علیہ السلام کے پورے نسب پاک میں، آپ کے آباؤ امہات میں کبھی بھی کسی کو دور جاہلیت کی آلودگی نے مس نہیں کیا۔ اس باب میں ایک ایمان افروز واقعہ جسے امام ابو نعیم، امام ابن عساکر، امام حلبی اور کثیر آئمہ حدیث نے بیان کیا کہ:
حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ کی شادی کی غرض سے کسی ایسی خاتون کی تلاش میں نکلے جو مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ بننے کی اہل ہوں اور جن کی گود میں نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آ سکے۔ حضرت عبدالمطلب وہ بشارتیں سنتے رہتے تھے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا وقت بہت قریب آگیا ہے اور علامات ظاہر ہو رہی تھیں لہٰذا آپ اس خوش نصیبی سے اپنا دامن معمور کرنے کے لئے ایسے خاندان کی تلاش میں نکلے جہاں تقویٰ و طہارت موجود ہو۔ اس تلاش کے دوران آپ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کے ساتھ ایک دفعہ ایک بہت بڑی نامور کاہنہ کے قریب سے گزرے جو تورات اور سابقہ کتب انبیاء کی عالمہ تھی اور بہت خوبصورت تھی۔ اُسے اپنی خوبصورتی، اپنے علم اور اپنی شہرت پر بھی ناز تھا۔ اُس کاہنہ نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے چمکتے ہوئے چہرے میں نورِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی شکل دیکھی تو درخواست کی کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کچھ وقت میرے پاس قیام کر لیں۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُس خاتون نے کہا: اگر آپ میرے پاس ایک دن رات قیام کر لیں تو میں آپ کو ایک سو قیمتی اونٹ تحفے میں دوں گی۔ اُس کی خواہش تھی کہ میں ان سے تعلقات قائم کروں تا کہ اُس نور کی تجلی کو وہ مجھ سے حاصل کرلے۔ حضرت عبد اللہg نے انکار کر دیا اور فرمایا: یہ رشتہ حرام ہے، میں اس سے مر جانے کو ترجیح دوں گا مگر میں یہاں قیام نہیں کروں گا۔
یہ نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ آمنہ j کا مقدر تھا، لہذا اُن کا انتخاب ہو گیا۔ حج کے ایام کے دوران منیٰ کے مقام پر حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا نکاح ہوا۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت آمنہ j نے منیٰ میں قیام فرمایا اور آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اقدس حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے حج کے دوران قربانی کے ایام میں منیٰ کے مقام پر حضرت آمنہ کے بطن میں منتقل ہوا۔
سوال یہ ہے کہ حضرت عبداللہ کا گھر تو مکہ میں تھا، سیدھا لے کر مکہ میں آ جاتے اور اپنے گھر میں قیام ہوتا۔ قربانی کے دنوں میں منیٰ میں قیام فرمانے کی وجہ کیا تھی؟
اس کی جو وجہ میرے ذہن میں اللہ رب العزت نے ڈال دی وہ یہ ہے کہ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کعبہ کے وقت حضور علیہ السلام کے میلاد کے لئے کی گئی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ تھا۔ نیز یہی وہ مقام تھا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لئے لائے تھے۔ مگر رب کائنات نے جنت کا دنبہ بھیج کر اسماعیل علیہ السلام کو سلامت رکھا، کیونکہ انکی نسل سے تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنا تھا۔ حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ دونوں کو منیٰ میں ٹھہرانے کی اللہ رب العزت کی حکمت اور مشیت یہ تھی کہ وہ جگہ جہاں حضرت اسماعیل کو بقاء ملی وہی جگہ نور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال (منتقل) کے لئے منتخب فرمائی۔
جب نور مبارک حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پشت سے بطن آمنہ j کی طرف منتقل ہوا اور یہ امانت حضرت آمنہ j نے سنبھال لی تو اس کے بعد ایک دفعہ آپ اُسی کاہنہ خاتون کے پاس سے گزرے جس سے قریش کے لوگ علامات اور پرانی خبروں کے بارے پوچھتے تھے، حضور علیہ السلام کے تذکرے اس نے پرانی کتابوں میں پڑھ رکھے تھے۔ حضرت آمنہ سے حضرت عبداللہ کے نکاح کے بعد اب اس کاہنہ نے حضرت عبداللہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ امام ابن عساکر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اس کاہنہ سے پوچھا: پہلے تو مجھے تو سو اونٹ دینا چاہتی تھی مگر آج میری طرف تکتی بھی نہیں ہو۔ وجہ کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: آج اس لیے نہیں تکتی کہ
فارق النور وجه عبداﷲ انتقل إلی وجه آمنة.
وہ نور جو آپ کی پیشانی میں چمک رہا تھا، جس کی خاطر میں نے دعوت دی تھی کہ میرے زوج/ شوہر بن جاؤ اور آپ نے قبول نہیں کیا تھا، اب وہ نور آپ سے جدا ہو گیا اور قسمت و بخت والی آمنہ j اس نور کو لے گئی۔ اب مجھے آپ کی حاجت نہیں۔
(حلبي، السيرة الحلبية، 1: 76)
یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کا پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ بطون کی طرف منتقل ہونے کے الوہی التزام کی ایک جھلک ہے جس سے آپ کے نسب کی فردیت و شان کا اظہار ہوتا ہے۔
(جاری ہے)