سوال: منہ بولے بیٹے کے نکاح کے وقت ایجاب و قبول کے دوران حقیقی والد کے بجائے پرورش کرنے والے کا نام بطور والد لکھا اور بولا جائے تو کیا یہ نکاح منعقد ہوجائے گا یا نہیں؟
جواب: حقیقی والد کی جگہ کسی اور شخص کا نام بطور والد لکھنا، بولنا اور اُسے شہرت دینا قرآن مجید کے واضح حکم کے خلاف اور حرام ہے:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.
’’تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہوگا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(الاحزاب، 33: 5)
لہٰذا منہ بولے بیٹے کے اصل والد کی جگہ پرورش کرنے والا اپنا نام بطور والد نہیں لکھوا سکتا۔ نیز یہ نکاح بھی منعقد نہیں ہوا، گواہوں کی موجودگی میں نکاح دوبارہ کر لیں۔ اور تمام دستاویزات میں اپنی ولدیت درست کروائیں۔ بے شک یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اور اس کے ذمہ وار آپ خود ہیں۔
سوال: خلع کا اطلاق عدالتی فیصلہ کی تاریخ سے ہوگا یا عدالت میں کیس کرتے وقت کی تاریخ کو مدنظر رکھا جائے گا؟
جواب: خلع سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔ اس حوالے سے محدّثین نے متعدد روایات نقل کی ہیں۔ مگر اختصار کی خاطر صرف ایک حدیث مبارکہ بطور دلیل پیش کی جا رہی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما اَنَّ النَّبِيَ ٍصلیٰ الله عليه وآله وسلم: جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيْقَةً بَائِنَةً.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلع کو طلاق بائن قرار دیا۔‘‘
- ابو يعلی، المعجم، 1: 196، رقم: 230
- بيهقي، السنن الکبری، 7: 316، رقم: 14642
لہٰذا خلع کی عدت طلاق کی طرح ہی ہوتی ہے۔ جس دن عدالتی فیصلہ ہو، اُسی دن سے عدت شروع ہوتی ہے یعنی خلع کا اطلاق عدالتی فیصلہ کے بعد ہوتا ہے خواہ لڑکی عرصہ دراز سے اپنے والدین کے گھر بیٹھی ہو۔ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد عورت اپنی عدت مکمل کرے گی اور پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔
اگر حائضہ ہو تو عدت تین حیض ہوتی ہے۔ اگر عورت کو بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو عدت تین (3) مہینے ہوتی ہے۔ اور حاملہ عورت کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ اگر لڑکی حائضہ تھی اور عدالتی فیصلہ کے بعد، دو (2) ماہ کے اندر، تین حیض بھی مکمل ہو چکے تھے تو یہ نکاح منعقد ہو گیا ہے۔
اس کے برعکس اگر عدالتی فیصلہ آنے کے بعد عدت پوری نہیں ہوئی تھی تو پھر یہ نکاح منعقد نہیں ہوا ۔ اس صورت میں عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے ورنہ بطور میاں بیوی رہنا حرام ہوگا۔ اور جو پہلے ہوا، حرام ہوا۔
سوال: کیا مطلقہ (جس سے کوئی بچہ نہیں ہے) کو بھی نان و نفقہ دیا جائے گا؟
جواب: طلاق رجعی، بائن یا مغلظہ کی صورت میں عدت مکمل ہونے تک نان ونفقہ سابق شوہر کے ذمہ ہوتا ہے۔ بچہ نہ ہونے کی صورت میں عدت کے بعد عورت کہیں اور شادی کرے یا نہ کرے سابق شوہر اُس کے نان ونفقہ کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔
سوال: ہم آج تک نہار منہ پانی پینے کے فوائد سنتے آئے ہیں مگر معجم طبرانی میں ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ شَرِبَ الْمَاءَ عَلَی الرِيْقِ اِنْتَقَصَتْ قُوَّتُهُ.
’’جس نے نہار منہ پانی پیا اس کی طاقت کم ہو گئی۔‘‘
(طبراني، المعجم الاوسط، 5: 52، رقم: 4646)
نہار منہ پانی پینے کی احادیث نبویہ کی روشنی میں کیا حقیقت ہے؟ وضاحت فرمادیں تاکہ التباس دور ہوجائے؟ (اطلس خان مروت۔ڈیرہ اسماعیل خان)
جواب: اس روایت کی سند میں زید بن اسلم اور اس کا بیٹا عبد الرحمن دونوں ہی بہت کمزور راوی ہیں۔ جن کی طرف، امام طبرانی رحمہ اﷲ نے روایت کے بعد خود بھی اشارہ کیا ہے۔ اسی روایت کے بارے میں، امام ہیثمیرحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
فيه محمد بن مخلد الرعيني وهو ضعيف.
’’اس روایت میں محمد بن مخلد الرعینی کمزور ہے۔‘‘
(هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 5: 87)
لہٰذا ضعیف روایت سے ہم نہار منہ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہیں کر سکتے جبکہ اس سے قوی اسناد والی روایات میں وضو کے بعد بچا ہوا پانی پینا ثابت ہے اور ان احادیث میں نمازِ تہجد اور نمازِ فجر کے لئے وضو کرتے وقت بچے ہوئے پانی کو نہ پینے کی کسی قید کا ذکر یا ممانعت موجود نہیں حالانکہ اس وقت انسان نہار منہ ہوتا ہے۔
عبد الملک بن میسرہ کا بیان ہے کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا، وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت کرتے تھے کہ:
اَنَّهُ صَلَّی الظُّهْرَ ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الْکُوفَةِ، حَتَّی حَضَرَتْ صَلَةُ الْعَصْرِ، ثُمَّ اُتِيَ بِمَاءٍ، فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَکَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَکْرَهُونَ الشُّرْبَ قِيَامًا، وَإِنَّ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ.
’’انہوں (حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم)نے نمازِ ظہر پڑھی، پھر لوگوں کی حاجت روائی کرنے کے لئے کوفہ کی جامع مسجد کے سامنے والے صحن میں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ نمازِ عصر کا وقت ہوگیا۔ پھر آپ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے نوش فرمایا اور اپنے منہ ہاتھ دھوئے۔ شعبہ راوی نے سر اور پیروں کا بھی ذکر کیا ہے پھر آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے کھڑے بچا ہوا پانی نوش فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ جانتے ہیں حالانکہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا جیسے میں نے کیا ہے۔‘‘
(بخاری، الصحيح، 5: 2130، رقم: 5293)
سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لاکر حاضر خدمت کیا۔ آپ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں پہنچوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا۔ بعد ازاں آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔ بعد ازاں بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا۔ بعد ازاں آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد آپ نے دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ صاف فرمایا پھر ایسے ہی بائیں کو۔ اس کے بعد آپ نے کھڑے ہوکر پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے وہی برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا حاضر خدمت کیا۔
(حدیث مبارکہ کا موضوع سے متعلقہ حصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے)
فَشَرِبَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ قَائِمًا فَعَجِبْتُ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ لَا تَعْجَبْ فَإِنِّي رَاَيْتُ اَبَاکَ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَصْنَعُ مِثْلَ مَا رَاَيْتَنِي صَنَعْتُ يَقُولُ لِوُضُوئِهِ هَذَا وَشُرْبِ فَضْلِ وَضُوئِهِ قَائِمًا.
’’آپ نے کھڑے کھڑے اس میں سے پانی پی لیا میں متعجب ہوا پھر جب مجھے دیکھا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: حیران نہ ہوں کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان a کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا، حضورا اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیتے تھے۔‘‘
(نسائي، السنن، 1: 84، رقم: 100)
مذکورہ بالا روایات نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان احادیث مبارکہ سے وضو کے بعد بچا ہوا پانی پینا ثابت ہے لیکن کہیں بھی یہ قید نہیں لگائی گئی کہ نماز تہجد اور فجر کے لئے وضو کرتے وقت بچا ہوا پانی نہ پیا جائے جبکہ اس وقت انسان نہار منہ ہوتا ہے۔
لہٰذا ترجیح قوی الاسناد احادیث مبارکہ کو دی جائے گی۔ جس سے نہار منہ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔
سوال: اگر کوئی شخص زندگی میں اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنے مال ودولت اور جائیداد سے کچھ حصہ دیدے تو کیا والد کی وفات کے بعد ترکہ میں سے بھی اُس بیٹے یا بیٹی کو حصہ ملے گا؟
جواب: زندگی میں جو مال بھی دیا اُس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے کہ وراثت تو بنتی ہی وفات کے بعد ہے۔ لہٰذا کسی شخص کے وقتِ وفات جتنے بھی ورثاء زندہ ہونگے، اُن کو اُس کے ترکہ سے حصہ ملے گا۔ زندگی میں جو بھی دے گا اُس کو ہبہ تصور کیا جائے گا۔