آج جب ہم اپنے اردگرد پھیلی ہوئی معاشرتی بے حسی اور اخلاقی پستی کا جائزہ لیتے ہیں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ معاشرہ جو کبھی اسلامی اقدار کا گہوارہ تھا، آج مادیت پرستی، خود غرضی اور بے راہ روی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ رشوت خوری، ملاوٹ، جھوٹ، فریب اور حق تلفی جیسے قبیح افعال ہمارے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ ہم نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو دنیاوی مفادات کے حصول تک محدود کر لیا ہے اور اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ایک دن ہمیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ ہمارے گھروں میں جھگڑے، گلیوں میں ناانصافی، بازاروں میں دھوکہ دہی اور دفاتر میں بدعنوانی عام ہے۔ ہم ایک دوسرے کو اعتماد کے بجائے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے حقوق کا تو مطالبہ کرتے ہیں لیکن اپنے فرائض کو یکسر بھلا دیتے ہیں۔ ہم نے صبر و تحمل، برداشت اور رواداری جیسی عظیم اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ کیا یہی وہ معاشرہ ہے جس کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا؟ کیا یہی وہ طرزِ عمل ہے جس کی تعلیم ہمیں ہمارے دین نے دی ہے؟
یہ ایک المیہ ہے کہ ہم ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے بھی غیر اسلامی رسوم و رواج اور طور طریقوں کی تقلید میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی ثقافت اور اپنی اقدار کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کی اندھی تقلید شروع کر دی ہے۔ ہماری نوجوان نسل اپنی تاریخ اور اپنے ورثے سے ناواقف ہوتی جا رہی ہے۔ انہیں اپنے اسلاف کے کارناموں اور اسلامی تعلیمات کی عظمت کا کوئی علم نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ ہمیں اپنی طرزِ زندگی پر ایک گہری نظر ڈالنی ہو گی اور یہ جائزہ لینا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کس طرف جانا ہے۔ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا:
پہلے مرحلہ میں ہمیں اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیں سچ بولنے، وعدہ وفا کرنے، امانت داری کا مظاہرہ کرنے اور دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔ ہمیں غیبت، حسد، بغض اور کینہ جیسی رذائل سے خود کو بچانا ہو گا۔ ہمیں اپنے اندر عاجزی، انکساری اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔
دوسرے مرحلہ میں ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔ ہمیں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنی ہو گی۔ ہمیں یتیموں کی کفالت اور بیواؤں کی سرپرستی کرنی ہو گی۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہو گا اور اپنے معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
تیسرے مرحلہ میں ہمیں اپنی تعلیم و تربیت کے نظام کو بہتر بنانا ہو گا۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو جدید علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات سے بھی روشناس کرانا ہو گا۔ ہمیں انہیں اپنی تاریخ اور اپنی ثقافت سے جوڑنا ہو گا اور ان کے اندر حب الوطنی اور ملی غیرت کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔
چوتھے مرحلہ میں ہمیں آدابِ اختلاف کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔ آج جتنے بھی جھگڑے ہیں وہ آدابِ اختلاف کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہیں۔ اختلاف اس وقت رحمت بن جاتا ہے جب اس کے آداب ملحوظ رکھے جائیں۔ اہل علم کا یہ شیوہ ہے کہ وہ اپنا نقطہ نظر ایک سلیقے اور قرینے کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ہمیشہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ اُمت کو متحدکرنا، علمی کلچرکا احیاء کرنا اور سوسائٹی میں امن اور محبت کی فضا پیدا کرنا یہ علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ جب اختلاف دشمنی بن جاتا ہے توپھر سوسائٹی میں انتشار اور تفریق جنم لیتی ہے۔ علم کا سفر آخری سانس تک جاری رہتا ہے، ایک سچا عالم وہی ہے جو ہر روز سیکھے اور تربیت کے مرحلے سے خود بھی گزرے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس کارخیر کا حصہ بنائے۔ علم میں سب سے بڑی معرفت عاجزی اور احتیاط اختیار کرنا ہے۔ صحابہ کرام اور سلف صالحین نے مختلف امور پر علمی اختلاف کے باوجود وحدت، تہذیب، وسیع القلبی اور باہمی احترام کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔
یہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے، لیکن یہ ناممکن نہیں ہے۔ اگر ہم سب مل کر خلوصِ نیت سے کوشش کریں تو ہم یقیناً اپنے معاشرے کو ایک بار پھر امن و سکون، عدل و انصاف اور اخوت و بھائی چارے کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
ان تمام مراحل پر مبنی اس جدوجہد میں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی مخلص اور باکردار شخصیات سے بھی نوازا ہے جو احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاحِ احوال کے مصطفوی مشن پر کاربند ہیں۔ ان میں سرفہرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی اور ان کی قائم کردہ عالمگیر تحریک منہاج القرآن ہے۔ یہ تحریک جس انداز میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کر رہی ہے، نوجوان نسل کو عشقِ رسول ﷺ سے سرشار کر رہی ہے اور معاشرے کے مختلف طبقات کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔ اس لیے کہ حقیقی قائد وہ ہے جو خدمت، کردار اور علم کے ذریعے اپنی شناخت قائم کرتا ہے۔ قیادت کا اصل معیار بلند اخلاق، سچے کردار، انسانیت کی خدمت اور علم سے وابستگی ہے۔ نوجوان آج بے شمار چیلنجز کاسامنا کر رہے ہیں، حقیقی قائد نوجوانوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کےلئے دینی، اخلاقی اور علمی رہنمائی عطا کرتا ہے۔ جس معاشرے میں کردار اور علم کو بنیاد بنایا جائے وہاں ترقی اور امن خود دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی خطابات اور بصیرت افروز تحریروں نے لاکھوں لوگوں کے قلوب میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی ہے۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں: ’’دین کی حقیقی روح علم و تحقیق ہے، اہل علم امت کی فکری عمارت کے ستون ہے، دعوت دین دینا فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہے، امت کا ہر شخص داعی ہے، جس کے پاس دین کا جتنا علم ہے اس پر فرض ہے کہ وہ اس علم کو دوسروں تک پہنچائے۔ دعوت دین شریعت مطہرہ کا عظیم فریضہ اور انبیاء ؑکی وراثت ہے۔ موجودہ دور میں اُمت مسلمہ کو فکری راہ نمائی، محققانہ تحقیق اور علمی بصیرت کی شدید ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری سب سے زیادہ اہل علم، محققین اور دینی سکالرز پر عائد ہوتی ہے۔ دعوت دین کا مقصد فرقہ وارانہ بحثیں چھیڑنا یا اختلافات بڑھانا نہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا، اخلاق محمدیؐ اپنانے کی ترغیب دینا اور شریعت کے پاکیزہ اصولوں سے روشناس کروانا ہے۔ دعوت دین وہ علم ہے جو دلوں میں نور بھرتا ہے۔ نفرتوں کو محبتوں میں بدلتا ہے اور معاشرے کو امن و عدل کی طرف لے جاتا ہے۔ محققین اور سکالرز کا کردار اُمت کے مستقبل کا تعین کرتا ہے، اگر علمی دیانت، تحمل، تحقیق اور اعتدال کی روش اختیار کریں گے تو معاشرہ سدھرے گا، علم کے بغیر دعوت ادھوری ہے اور دعوت کے بغیر علم ادھورا ہے، دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ نوجوان اپنی صلاحیتیں دین کی خدمت، اصلاح معاشرہ اور اُمت کی فکری تربیت کے لئے وقف کریں، اخلاص، اعتدال، اخلاق اور حکمت کے ساتھ دین کی دعوت کو آگے بڑھائیں کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو انسانیت کو خیر اور سلامتی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ ‘‘
منہاج القرآن کے تعلیمی، فلاحی اور دعوتی منصوبے معاشرے کی اصلاح میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ تحریک جس اخلاص اور تندہی کے ساتھ مصطفوی مشن کو آگے بڑھا رہی ہے، وہ ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس عطا فرمائے اور ہمیں اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی توفیق بخشے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ