فتنۂ الحاد، اثرات اور تدارک

پروفیسر ڈاکٹر محمد ممتاز الحسن باروی

گزشتہ سے پیوستہ

عصرِ حاضر میں الحاد صرف نظریاتی افکار کا نام نہیں رہا بلکہ یہ ایک منظم فکری و تہذیبی تحریک کی صورت اختیار کرچکا ہے، جو دنیا بھر میں بالخصوص مسلم نوجوانوں کے اذہان کو متاثر کررہا ہے۔ سوشل میڈیا، لبرل تعلیمی نظام اور فکری آزاد خیالی نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جہاں مذہب کو ایک قدیم، غیر سائنسی اور غیر متعلقہ نظام کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ نتیجتاً نوجوان نسل ایک فکری خلا، روحانی بے چینی اور شناختی بحران کا شکار ہوکر الحاد یا دین بیزاری کی طرف مائل ہورہی ہے۔ اس مضمون کے گذشتہ حصہ (شائع شدہ ماہ نومبر2025ء) میں ہم الحادی رجحانات کے اسباب میں سے جدیدیت اور مغربی نظریات، لبرل ازم اور سیکولر خیالات، اساتذہ کا کردار، سوشل میڈیا و ڈیجیٹل مواد اور ثقافتی تبدیلیاں، ان کا تفصیلی مطالعہ کرچکے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں الحادی رجحانات کے فروغ کے مزید اسباب اور ان کے اثرات ذکر کیے جارہے ہیں:

6۔ تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی

الحادی رجحانات کے فروغ کا ایک سبب مذہب و عقیدہ پر کیے جانے والے اعتراضات اور تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی بھی ہے۔ جامعات میں تنقیدی سوچ کو ایک اہم جزو کے طور پر فروغ دیا جاتا ہے، جس کا مقصد طلبہ کو مختلف نظریات اور خیالات پر غوروفکر کرنے کی صلاحیت دینا ہے۔ یہ تنقیدی سوچ طلبہ کے ذہن کو جلا بخشتی ہے اور انہیں اپنی عقل و شعور کے ذریعے دنیا اور مختلف موضوعات کو سمجھنے کی اہلیت فراہم کرتی ہے۔ تاہم جب یہ تنقیدی سوچ مذہب کی تعلیمات پر لاگو کی جاتی ہے تو ضروری ہے کہ اس کا مقصد اسلام کے بنیادی عقائد اور تعلیمات کی حقیقت کو تلاش کرنا ہو، نہ کہ ان کو چیلنج کرنا یا سوالات کے ذریعے ان کی سچائی کو مشتبہ بنانا۔

اسلام میں سوالات اور تحقیق کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ لوگ سوچیں، غور کریں اور علم حاصل کریں۔ اس کا مقصد انسان کو عقل و فہم کے ذریعے دین کو سمجھنا اور اس کی سچائی کو پہچاننا ہے۔ اسلام میں تنقیدی سوچ کو اہمیت دی گئی ہے مگر یہ سوچ دین کی بنیادوں اور عقائد کی تردید یا انکار کی طرف نہیں بلکہ یہ دین کی حقیقت اور اس کے پیغامات کو بہتر طور پر سمجھنے کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔

(1) مذہب پر سوالات

جامعات میں طلبہ مذہبی تعلیمات پر سوالات اٹھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں بعض اوقات مذہبی اصولوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوالات ایک فطری عمل ہیں کیونکہ نوجوان طلبہ اپنی عقل اور نئے خیالات کی بنیاد پر کسی بھی موضوع پر سوالات کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تاہم مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ سوالات بغیر کسی مناسب رہنمائی یا جوابات کے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

ó لہذا ضروری ہے کہ جب طلبہ مذہب کے مخصوص اصولوں، عقائد یا احکام کے بارے میں سوالات کرتے ہیں تو اس کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق گہرائی سے، عقلی اور منطقی انداز میں سمجھایا جائے لیکن اکثر اساتذہ اور فکری رہنما اس نوعیت کی رہنمائی فراہم نہیں کرتے کیونکہ ان کے پاس مذہبی دلائل کو صحیح طریقے سے پیش کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی یا وہ خود ان تعلیمات سے لاعلم یا شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر طلبہ کو ان سوالات کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملتا اور ان کے اذہان میں مذہب کے بارے میں مزید سوالات اور تحفظات جنم لیتے ہیں۔

(2) مناسب رہنمائی کی کمی

جب مذہبی سوالات کے جوابات کے لیے مناسب رہنمائی فراہم نہیں کی جاتی تو طلبہ خود ہی ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اکثر الحادی یا سیکولر نظریات کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ان کے سامنے اکثر مغربی خیالات اور لبرل تصورات آتے ہیں جو ان کے مذہبی عقائد کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں طلبہ میں مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ جاتے ہیں اور وہ مذہب کو محض ایک روایتی رسم سمجھنے لگتے ہیں جو ان کی ذاتی آزادی اور عقل کے مطابق نہیں ہے۔

ó یاد رکھیں! تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کا مقصد صرف سوالات کرنا نہیں بلکہ ان سوالات کا معقول، دانشمندانہ اور ایمان کی گہرائی سے جواب دینا بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو مذہبی عقائد پر سوالات کرنے کی آزادی دیں، مگر ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے انہیں صحیح رہنمائی بھی فراہم کریں۔ اس کے لیے اساتذہ کی تربیت اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں ان کا پختہ علم ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے طلبہ کے سوالات کا جواب دے سکیں اور ان کی فکری رہنمائی کرسکیں۔

الحادی رجحانات کے اثرات

الحادی رجحانات کے اثرات فکری، مذہبی، اخلاقی اور سماجی تبدیلیوں کی صورت میں ظاہرہوتے ہیں۔ الحادی سوچ کا گہرا اثر طلبہ کی ذہن سازی اور ان کی فکری رہنمائی پر ہوتاہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کے عقائد اور نظریات میں تبدیلی آتی ہے بلکہ ان کے عملی رویوں اورمذہبی عقائد پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب ایک طالب علم کی سوچ مذہب اور ایمان سے منحرف ہوجاتی ہے تو وہ اپنے عمل اور زندگی کے مقصد کو بھی دوبارہ پرکھتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی روحانیت، اخلاقیات اور سماجی ذمہ داریوں سے دور ہوسکتا ہے۔

الحادی نظریات کی پذیرائی کےنتیجے میں نوجوان نسل کی اکثریت دنیاوی کامیابیوں اور مادی مفادات کی طرف مائل ہوجاتی ہے، جس کا اثر ان کے اخلاقی اقدار، مذہب اور سماجی تعلقات پر پڑتا ہے۔ ذیل میں الحادی رجحانات کے چند اثرات بیان کیے جارہے ہیں:

1۔ مذہبی عقائد پر عدمِ تیقّن

الحادی رجحانات کے اثرات نے طلبہ کے مذہبی عقائد پر یقین پر نمایاں کمی پیدا کی ہے۔ یہ رجحانات مذہب کی حقیقت اور اس کے اصولوں پر سوالات اٹھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں طلبہ کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ جب طلبہ ان سوالات کا جواب نہیں پاتے یا ان کے پاس مذہب کے حوالے سے کوئی قابل اطمینان رہنمائی نہیں ہوتی تو وہ مذہب کو ایک روایت ثقافت یا سماجی رسم کے طور پر دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے ان کے ایمان میں کمزوری آتی ہے اور وہ مذہب کے بارے میں ایک انکار کی سوچ اپنانا شروع کردیتے ہیں۔

(1) ترک عبادات

الحادی نظریات کی وجہ سے طلبہ کی اکثریت مخصوص مذہبی عبادات کو ترک کرنا شروع کردیتی ہے، جیسے نماز، روزہ اور دیگر روحانی عبادات۔ ان کے ذہن میں یہ خیال پروان چڑھتا ہے کہ عبادات کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ روحانی سکون فراہم کرتی ہیں۔ ان کی توجہ مذہب سے ہٹ کر دنیاوی کامیابیوں، مادی ترقی اور انفرادی آزادی کی طرف مرکوز ہوجاتی ہے۔ یہ رجحان ایک گہری تبدیلی کی علامت ہے، جس میں مذہب کی روحانیت کی اہمیت ختم ہوکر مادیت کو فوقیت دی جاتی ہے۔

(2) دنیاوی کامیابیاں اور مادی ترقی کی اہمیت

الحادی رجحانات طلبہ میں مادی کامیابیوں اور دنیاوی ترقی کو زیادہ اہمیت دینے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں طلبہ اپنے مقصد کو صرف مالی فائدے، معاشرتی مقام، یا انفرادی آزادی کے حصول کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ رجحانات ان کے دل و دماغ میں مادی دنیا کے پیچھے دوڑنے کی سوچ کو تقویت دیتے ہیں، جس کا اثر ان کی مذہبی سوچ پر پڑتا ہے۔ وہ مذہب کو ایک غیر ضروری اور روایتی چیز سمجھنے لگتے ہیں، جس کا ان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔

(3) فرد پرستانہ سوچ اور لادینی نظریات

الحادی رجحانات فرد کی آزادی اور ذاتی کامیابیوں پر زور دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ ایک فرد پرستانہ (Individualistic) سوچ کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس سوچ کی بنیاد پر وہ مذہب کو ایک اجتماعی اور روحانی حقیقت کے طور پر دیکھنے کی بجائے اسے محض ایک ذاتی معاملہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس سے ان کے رویے میں بھی تبدیلی آتی ہے اور وہ اپنے عمل کو صرف ذاتی مفادات اور آزادی کے تناظر میں دیکھتے ہیں نہ کہ مذہبی ہدایات اور روحانی اصولوں کے مطابق۔

2۔ سماجی رویوں میں تبدیلی

یونیورسٹیز میں الحادی رجحانات نے طلبہ کے ذہنوں میں آزاد خیالی کے تصورات کو فروغ دیا ہے۔ یہ طلبہ کو مذہبی اصولوں اور روایات سے آزاد کرکے انفرادی آزادی اور خودمختاری کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں مذہب سے زیادہ ذاتی خوشی اور دنیاوی کامیابیوں کی اہمیت بڑھنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ کے رویے میں زیادہ کھلی سوچ نظر آتی ہے جو کہ ان کی روزمرہ زندگی، تعلقات اور سماجی تعاملات پر اثر انداز ہوتی ہے۔

(1) مذہبی روایات سے انحراف

الحادی رجحانات کے زیر اثر طلبہ مذہبی روایات اور اقدار سے دور ہوتے ہیں۔ وہ ان روایات کو محض ایک ثقافتی ورثہ سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور انہیں اپنے سماجی رویوں میں ترجیح نہیں دیتے۔ اس سے نوجوانوں میں مذہبی اجتماعات، عبادات اور مذہب سے جڑی دیگر سرگرمیوں کے حوالے سے بے اعتنائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ ان روایات کو محض ایک پرانی روایت کے طور پر دیکھنا شروع کرتے ہیں، جس کا ان کی زندگی میں کوئی عملی اثر نہیں ہوتا۔

(2) معاشرتی ہم آہنگی اور مذہبی یکجہتی پر اثرات

سیکولر اور لبرل سوچ کی طرف طلبہ کا مائل ہونا معاشرتی ہم آہنگی اور مذہبی یکجہتی کو چیلنج کرتا ہے۔ جب طلبہ کے درمیان مذہبی اختلافات بڑھتے ہیں اور مذہب کی اہمیت کم ہوتی ہے تو یہ گروہی تفریق اور تنازعات کا سبب بن سکتی ہے۔ معاشرتی سطح پر بھی مختلف عقائد رکھنے والے افراد کے درمیان رابطے کمزور ہوجاتے ہیں، جس سے پورے معاشرے میں تناؤ اور تقسیم کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ نتیجتاً مذہبی اور ثقافتی یکجہتی کے بجائے ایک انفرادی سوچ کا غلبہ ہوتا ہے جو کہ سماج کے توازن اور ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

(3) فرد پرستی اور خود غرضی کی بڑھتی ہوئی سوچ

الحادی رجحانات کے اثرات سے طلبہ کی زندگی میں فرد پرستی اور خود غرضی بڑھتی ہے۔ جب وہ مذہبی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد ذاتی خوشی اور کامیابی بن جاتا ہے تو یہ رویہ ان کی معاشرتی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کے سماجی تعلقات میں خود غرضی اور ذاتی مفادات کی اہمیت بڑھتی ہے، جس کی وجہ سے اجتماعی ہم آہنگی اور اجتماعی فلاح کا تصور کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں افراد اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے دوسروں کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں، جس سے سماج میں ایک فردپرستانہ رویہ پروان چڑھتا ہے۔

3۔ اخلاقیات پر اثرات

الحادی رجحانات کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے طلبہ کے اخلاقی اصولوں کو متاثر کیا ہے۔ جب مذہب کے اصولوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اخلاقی رہنمائی کی کمی ہوتی ہے تو طلبہ اپنی زندگی کے فیصلے محض ذاتی مفادات اور مادی کامیابیوں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ یہ صورتحال طلبہ کو کسی بھی اخلاقی فریم ورک سے آزاد کردیتی ہے، جس سے ان کے فیصلے خود غرضانہ اور منفعت پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں اچھائی اور برائی کی تفریق کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے رویوں میں معاشرتی اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔

(1) ذاتی مفادات کی بالادستی

الحادی نظریات کے زیر اثر طلبہ کی زندگی میں مفادات اور دنیاوی کامیابیاں اہمیت حاصل کرلیتی ہیں۔ ان کے فیصلے اب مادی کامیابیوں، مفاد پرستی، خود غرضی، ذاتی خواہشات اور فرد کی آزادی پر مبنی ہوتے ہیں نہ کہ کسی اعلیٰ اخلاقی معیار یا مذہبی ہدایات کی بنیاد پر۔ یہ رویہ ان کے اخلاقی معیارات کو متاثر کرتا ہے اور ان کے اندر انسانیت کی خدمت، دوسروں کے حقوق کا احترام اور ایثار جیسے اخلاقی اقدار کی کمی پیدا کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے دوسروں کی فلاح کو نظر انداز کردیتے ہیں جو کہ معاشرتی اخلاقی معیارات کی خلاف ورزی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی اخلاقی اقدار متاثر ہوتی ہیں اور وہ دوسروں کے حقوق، احساسات اور ضرورتوں کو کم اہمیت دینے لگتے ہیں۔ اس تبدیلی کا اثر ان کے روزمرہ کے رویوں اور سماجی ذمہ داریوں پر بھی پڑتا ہے۔

(2) معاشرتی اخلاقی نظام پر اثرات

یونیورسٹیز میں الحادی نظریات کی پذیرائی اور اخلاقی رہنمائی کے فقدان سے معاشرتی اخلاقی نظام میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ جب اخلاقی اصولوں کی کوئی واضح بنیاد نہیں رہتی تو طلبہ میں اجتماعی ذمہ داری، دوسروں کے ساتھ انصاف اور اخلاقی فیصلوں کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف فرد کی زندگی بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو متاثر کرتی ہے کیونکہ افراد کے اخلاقی معیار میں کمی آتی ہے۔ اس سے معاشرتی روابط میں تناؤ، عدم اعتماد اور دوسروں کے حقوق کے احترام کی کمی پیدا ہوتی ہے جو کہ ایک صحت مند سماج کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

4۔ تحقیقی موضوعات میں تبدیلی

یونیورسٹیز میں الحادی رجحانات نے تحقیقی موضوعات کے انتخاب میں بھی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ جب مذہب کے اصول اور اس کی اہمیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں تو طلبہ مذہبی موضوعات اور مسائل کی تحقیق سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ سائنسی اور مادی موضوعات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ نتیجتاً مذہبی موضوعات مثلاً: مذہبی فلسفہ، دین کی حقیقت اور دین کے اصولوں پر تحقیق کی کمی ہوگئی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف طلبہ کی ذہنی حالت کو متاثر کرتی ہے بلکہ پورے معاشرتی اور علمی منظر نامہ پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(1) سائنسی اور مادی موضوعات کا غلبہ

یونیورسٹیز میں الحادی نظریات کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کے سبب سائنسی اور مادی موضوعات کا غلبہ بڑھتا جارہا ہے۔ طلبہ کی اکثریت اب دنیاوی مسائل مثلاً: معاشی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی اور سیاست جیسے موضوعات پر تحقیق کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ان موضوعات کو زیادہ اہمیت دینے کی وجہ سے مذہبی موضوعات میں تحقیق کرنے والے طلبہ کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ سائنسی اور مادی نظریات پر زیادہ توجہ دینے سے طلبہ کو اُن معاملات پر گہری تفکر کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی جو کہ ان کے مذہبی اور اخلاقی اعتقادات کو چیلنج کریں۔

(2) مذہبی علوم میں تحقیق کی کمی

مذہبی موضوعات پر تحقیق کی کمی کے ساتھ ساتھ، مذہبی علوم جیسے فقہ، تفسیر، حدیث اور اسلامی فلسفہ میں تحقیق کا فقدان بھی بڑھ رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں مذہبی اصولوں کی اہمیت اور ان پر مبنی علمی تحقیقات کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جس سے نہ صرف مذہبی تعلیمات کا علم کم ہورہا ہے بلکہ اس سے متعلقہ مسائل پر تحقیقی کام کی کمی واقع ہورہی ہے۔ نتیجتاً دینی اداروں اور مدارس کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی اس شعبے میں تحقیقی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔

5۔ روحانی سکون کا فقدان

یونیورسٹیز میں الحادی نظریات کے بڑھتے ہوئے اثرات نے طلبہ کو روحانی سکون سے محروم کردیا ہے کیونکہ یہ نظریات مذہب اور روحانیت کے بنیادی پہلوؤں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ جب طلبہ اپنے مذہبی عقائد پر شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور انہیں مذہب کی روحانیت سے دور کردیا جاتا ہے تو وہ ذہنی سکون کی تلاش میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

(1) ذہنی دباؤ اور بے سکونی کا اضافہ

جب انسان کے اندر روحانی سکون نہیں ہوتا اور اس کے عقائد کو مسلسل چیلنج کیا جاتا ہے تو اس کا اثر اس کی ذہنی حالت پر پڑتا ہے۔ طلبہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں لیکن انہیں اللہ پر ایمان اور اس کی مدد کا سہارا نہیں ملتا۔ اس سے طلبہ میں ذہنی دباؤ اور بے سکونی کی حالت بڑھ جاتی ہے۔ وہ اندر سے بے اطمینانی محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں یہ سوالات ہوتے ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور ان کے مسائل کا حل کہاں ہے؟

(2) دلی سکون کی تلاش میں مشکلات

جامعات میں الحادی نظریات کے اثرات سے طلبہ دلی سکون کی تلاش میں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب کسی فرد کے اندر ایمان اور روحانیت کی طاقت نہ ہو تو وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے صرف مادی اور دنیاوی طریقوں پر انحصار کرتا ہے۔ یہ رویہ فرد کی روحانی جڑوں کو کمزور کرتا ہے اور نتیجتاً وہ حقیقی سکون اور اطمینان حاصل نہیں کرپاتا۔ طلبہ کے لیے یہ صورتحال اور بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے کیونکہ وہ دنیاوی کامیابیوں اور وسائل کے باوجود اندرونی سکون محسوس نہیں کرتے۔

(3) خدا پر ایمان اور اس کی مدد کے احساس کا فقدان

روحانی سکون کا ایک بڑا جزو اللہ پر ایمان اور اس کی مدد کا یقین ہے۔ جب طلبہ کو الحادی نظریات کی طرف مائل کیا جاتا ہے تو ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے، نتیجتاً وہ خدا کی ہدایت اور مدد پر اعتماد نہیں کر پاتے۔ مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے ان کے لیے یہ سوچنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور وہ ان کی مدد کرسکتا ہے۔ اس سے ان کا اندرونی سکون متاثر ہوتا ہے اور وہ دنیاوی طریقوں سے حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے کبھی کبھار وہ مزید پریشانی اور بے سکونی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

6۔ معاشرتی تقسیم

یونیورسٹیز میں الحادی نظریات کے بڑھتے اثرات نے مذہبی اور غیر مذہبی طلبہ کے درمیان نظریاتی فرق کو مزید گہرا کردیا ہے۔ مذہبی طلبہ اپنے روایتی عقائد اور مذہب کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں جبکہ غیر مذہبی طلبہ سائنسی اور دنیاوی نظریات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے دونوں گروپس کے درمیان مختلف سوچیں اور نظریات ابھر کر سامنے آتے ہیں جس سے ایک گہری تقسیم پیدا ہورہی ہے۔ اس قسم کی تقسیم کے نتیجے میں ایک طرف مذہبی طلبہ اپنے عقائد کی بنیاد پر اپنے نظریات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف غیر مذہبی طلبہ انہیں مادی دنیا کے حوالے سےقائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

الحادی نظریات کے اثرات نے بعض اوقات مذہبی اور غیر مذہبی طلبہ کے درمیان فرقہ واریت اور منافرت کی فضا پیدا کردی ہے۔ مذہبی طلبہ اپنے عقائد کی بنیاد پر غیر مذہبی نظریات کو چیلنج کرتے ہیں جبکہ غیر مذہبی طلبہ مذہب کو ایک عقیدہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک پرانی سوچ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس سے دونوں گروپس میں ایک دوسرے کے حوالے سے منفی جذبات ابھرتے ہیں اور اس قسم کی منافرت کا نتیجہ بعض اوقات کلاس روم اور کیمپس میں جھگڑوں کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔

خلاصۂ کلام

الحادی رجحانات کے فروغ کے عوامل اور ان کے اثرات کے اس تفصیلی مطالعہ سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ الحاد صرف اعتقادی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اخلاقی، نفسیاتی اور معاشرتی پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس کے اثرات میں فرد کی اخلاقی اقدار کا زوال، روحانی اضطراب، معاشرتی تفرقہ اور معاشی و تمدنی ابتری شامل ہے۔ الحاد کے سدِّباب کے لیے محض وعظ و نصیحت کافی نہیں بلکہ ایک منظم فکری، تعلیمی اور دعوتی حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی فکر کی عقلی بنیادوں، وحی کی جامعیت اور دین کے روحانی و اخلاقی نظام کو عصرِ جدید کے فکری اسلوب میں پیش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے دینی اداروں، دانشوروں اور اہلِ علم کو علمی سطح پر الحادی فکر کا علمی و استدلالی جواب دینا ہوگا تاکہ مسلمان نوجوان ایک بار پھر ایمان، علم اور روحانیت کے متوازن راستے کی طرف لوٹ سکیں۔