شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَ زِیَادَةٌ ؕ وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌ ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ.

(یونس، 10: 26)

’’ایسے لوگوں کے لیے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ بھی ہے، اور نہ ان کے چہروں پر (غبار اور) سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت و رسوائی، یہی اہلِ جنت ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے واضح فرما یا ہے کہ جو لوگ احسان یعنی نیکی کے اعلیٰ درجہ، تقویٰ، صدق، اخلاص، پاکیزگی اور بندگی کے راستے کو اختیار کریں گے، انھیں ’’الحسنیٰ‘‘ یعنی ایک نہایت خوبصورت اجر عطا کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا: ’’ وَزِیَادَۃٌ ‘‘ ، یعنی اس سے بھی بڑھ کر وہ انعام دیا جائے گا جو انسانی تصور سے ماورآء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ’’ وَزِیَادَۃٌ ‘‘ کا مفہوم ظاہر نہیں فرمایا بلکہ اسے پوشیدہ رکھا۔ اس ’’ وَزِیَادَۃٌ ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ یقیناً یہ ایک ایسی نعمت ہے جو کسی انسان کے وہم و گمان میں نہیں آسکتی اور انسان کی سوچ بھی اس تک نہیں پہنچ سکتی۔

زیرِ نظر تحریر میں ہم اسی ’’زَیَادَۃً‘‘ کے لفظ میں پنہاں نعمت کو جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا ہے کہ جس کا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےوعدہ فرمایا ہے۔۔۔؟

ہم میں سے اکثر لوگ تجارت (Trade)، کاروبار اور مختلف اشیاء کی خرید و فروخت کرتے ہیں اور نفع کماتے ہیں مگر اس دنیاوی تجارت کے علاوہ ایک تجارت اور بھی ہے جس کا نفع اس دنیاوی تجارت سے کئی بڑھ کر ہے۔ فرض کیجیےہم جن اشیاء کی خریدو فروخت کرتے ہیں تو ان پر عام طور پر دس فیصد منافع لیتے ہیں، یعنی سو کا مال ایک سو دس میں فروخت کرتے ہیں لیکن ایک ایسی تجارت بھی ہے جس میں خریدار کے بارے میں ایک خبر یہ ہے کہ وہ سو روپے کی چیز ہزار میں لینے کو تیار ہے۔ اسی خریدار کے بارے میں دوسری خبر یہ ہے کہ وہ اس چیز کو ایک لاکھ میں بھی خریدنے کو تیار ہے اور اسی خریدار کے بارے میں تیسری خبر یہ ہے کہ وہ اس چیز پر دو لاکھ تک دینے کو بھی تیار ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بارش رُک گئی تھی، قحط سالی نے لوگوں کو گھیر لیا۔ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: آسمان سے بارش نہیں ہو رہی، زمین کچھ اگا نہیں رہی، لوگ سخت پریشانی اور تنگی میں مبتلا ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگ واپس جاؤ، شام ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا۔ لوگ ابھی تھوڑی ہی دیر گئے تھے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام شام سے واپس آئے۔ وہ سو اونٹوں کا قافلہ لائے تھے جن پر غلہ اور خوراک لدی ہوئی تھی۔ مدینہ کے تاجر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر جمع ہوگئے اور دستک دینے لگے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور فرمایا: تم لوگوں کو کیا ضرورت ہے؟ لوگوں نے عرض کیا:

الزمان قد قحط، السماء لا تمطر، والأرض لا تنبت، والناس في شدة شديدة، وقد بلغنا أن عندك طعاما، فبعناه حتى نوسع على فقراء المسلمين.

قحط نے ہمیں گھیر لیا ہے، آسمان بارش نہیں دے رہا، زمین کچھ نہیں اگا رہی اور لوگ سخت تنگی میں ہیں۔ ہمیں خبر ملی ہے کہ آپ کے پاس کھانے پینے کا سامان آیا ہے، براہِ کرم وہ ہمیں فروخت کر دیجئے تاکہ ہم مسلمانوں کے فقراء پر وسعت کر سکیں۔

جس شخص کی زندگی کا مقصد صرف دنیاوی مال و دولت کا حصول ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اس کا نفع اُسے دنیا میں جلد مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی تجارت کا حساب جلد ہی دنیا میں پورا کردیتے ہیں مگر آخرت میں سوائے دوزخ کے اس کے لیے کچھ نہ ہوگا

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بہت خوشی سے، آؤ اور خرید لو۔ پھر تاجر اندر داخل ہوئے اور دیکھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے صحن میں غلہ اور سامان موجود ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

يا معاشر التجار كم تربحوني على شرائي من الشام؟

”اے تاجرو! بتاؤ، میں نے یہ مال شام سے جس قیمت پر خریدا ہے، اس پر تم مجھے کتنا نفع دو گے؟ “انہوں نے کہا:

للعشرة اثنا عشرة ”ہم آپ کو دس کے بدلے بارہ دیں گے۔ “

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس سے زیادہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہم دس کے بدلے چودہ دیتے ہیں۔۔۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس سے بھی زیادہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہم دس کے بدلے پندرہ دیتے ہیں۔۔۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس سے بھی زیادہ دیا گیا ہے۔ تاجروں نے کہا:

يا أبا عمرو: ما بقى في المدينة تجار غيرنا، فمن ذا الذي زادك؟

”اے ابو عمرو! (یہ آپؓ کی کنیت تھی) مدینہ میں ہمارے سوا کوئی تاجر باقی نہیں، آخر وہ کون ہے جس نے آپ کو اس سے زیادہ دیا۔۔۔؟ “ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

زادني الله عز وجل بكل درهم عشرة، أعندكم زيادة؟

مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر درہم کے بدلے دس گنا اجر دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ کیا تم اس سے بڑھا سکتے ہو۔۔۔؟

انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

فإني أشهد الله أني قد جعلت هذا الطعام صدقة على فقراء المسلمين۔

میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے یہ سارا مال مسلمانوں کے فقراء پر صدقہ کر دیا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُسی رات میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ آپ ﷺ ایک سفید و سیاہ رنگ کے خوبصورت گھوڑے پر سوار تھے، آپ کے بدنِ مبارک پر نور سے بنی ہوئی چادر تھی، پاؤں میں نور کے نعلین تھے، اور ہاتھ میں نور کا عصا تھا۔ آپ ﷺ جلدی میں جا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا:

يا رسول الله، لقد اشتد شوقي إليك وإلى كلامك، فأين تبادر إذن؟

”یارسول اللہ ﷺ ! آپ کی زیارت اور کلام کے شوق نے شدت اختیار کر لی تھی، آپ کہاں جا رہے ہیں؟ “

آپ ﷺ نے فرمایا:

يا ابن عباس، إن عثمان بن عفان تصدق بصدقة وإن الله عز وجل قد قبلها منه، وزوجه بها عروسا في الجنة، وقد دعينا إلى عرسه۔

”اے ابن عباس! عثمان بن عفان نے ایسا صدقہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما لیا ہے، اور اس کے بدلے جنت میں اس کا نکاح ایک حورِ عین سے کر دیا ہے، اور ہمیں اُس کے نکاح کے جشن میں مدعو کیا گیا ہے۔ “

(کتاب الشریعۃ، أبو بكر محمد بن الحسين الآجري، كتاب ذكر فضائل أمير المؤمنين عثمان بن عفان، باب ذكر إكرام النبي ﷺ لعثمان رضي الله عنه وفضله عنده، ج: 4، ص: 2014، رقم الحدیث: 1486)

آج ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟ کیا ہم نے کبھی دنیاوی تجارت کرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی تجارت بھی کی ہے جس میں خریدار اللہ رب العزت کی ذات ہو جو ہم سے ہمارامال و متاع دس گنا نفع دے کر خرید لے۔۔۔؟

دنیا اور آخرت کو مقصود بنانے والوں کے نفع کا موازنہ

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا

(الاسراء، 17: 18)

جو کوئی صرف دنیا کی خوشحالی (کی صورت میں اپنی محنت کا جلدی بدلہ) چاہتا ہے تو ہم اسی دنیا میں جسے چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں جلدی دے دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے دوزخ بنا دی ہے جس میں وہ ملامت سنتا ہوا (رب کی رحمت سے) دھتکارا ہوا داخل ہوگا۔

یعنی جو شخص تجارت کرتا ہے، محنت کرتا ہے، اپنی توانائیاں، وقت، ذہن اور صلاحیتیں صرف کرتا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد صرف یہ ہو کہ مال، دولت، پیسہ، جائیداد، کوٹھیاں، بینک بیلنس، شہرت اور نام حاصل ہو جائے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کا نفع اسی دنیا میں جلد مل جائے تو اللہ رب العزت اسی دنیا میں اسے جلدی اجرت و نفع دے دیتے ہیں اوراس کی تجارت کا حساب دنیا ہی میں پورا کر دیتے ہیں مگر آخرت میں اسے کچھ نہیں ملے گا اور اس کا انجام دوزخ ہو گا۔

اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰی لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا

(الاسراء، 17: 19)

اور جو شخص آخرت کا خواہش مند ہوا اور اس نے اس کے لیے اس کے لائق کوشش کی اور وہ مومن (بھی) ہے تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش مقبولیت پائے گی۔

یعنی جس نے آخرت کا ارادہ کر لیا اور یہ طے کر لیا کہ حقیقی سودا آخرت کا ہے اور اسی کو ترجیح دینی ہے تو وہ اپنی محنت، مزدوری، تجارت اور کاروبار کو ترک نہیں کرے گا بلکہ اسے جاری رکھے گا، مگر اسے مقصدِ حیات نہیں بنائے گا۔ اس لئے کہ دنیا میں محنت و کاروبار کرنا، یہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت بھی ہے اور واجب بھی ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے یہی طریقہ بتایا ہے کہ دنیا کے لیے محنت کی جائے، مگر اسے مقصدِ حیات نہ بنایا جائے۔ یعنی انسان اس پر مر مٹ نہ جائے، اپنی تمام راحتیں، خواہشات اور زندگی کا محور صرف دنیا ہی کو نہ بنائے کہ جینا بھی اسی کے لیے ہو اور مرنا بھی اسی کے لیےہو۔

پس جس نے آخرت کو مقصود بنا لیا، وہ تجارت، کاروبار اور معاش بھی چلائے گا، محنت مزدوری بھی کرے گا مگر مقصد آخرت ہوگا، دنیا نہیں۔ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے؛ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا میں ’’سعی‘‘ کو دو بار بیان کیا تاکہ یہ واضح ہو کہ جس نے آخرت کی جدوجہد کو ہر شے پر مقدم رکھا اور آخرت کے لیے وہی محنت کی جو آخرت کے لائق تھی، اس کے لیے وہی کوشش کی جو درکار تھی اور پھر؛وَهُوَ مُؤْمِنٌ وہ مومن بھی ہے، یعنی اس نے اپنے ایمان کو سلامت رکھا اور اپنے ایمان کو متزلزل نہیں ہونے دیا۔۔۔ ماحول اور معاشرے کے اثرات کو ایمان پر غالب نہیں آنے دیا۔۔۔ نوجوان اسکول، کالج اور یونیورسٹی بھی گئے، تعلیم بھی حاصل کی، مگر ایسی چیز نہیں اپنائی جو ایمان کو غیر مستحکم کر دے۔۔۔ دوست بھی بنائے، کاروبار بھی کیا، سماج میں اٹھنا بیٹھنا بھی رکھا، مگر ایمان کی جڑ کو کمزور نہیں ہونے دیا۔۔۔ ایمان کو ٹہنی نہیں بلکہ درخت کے مضبوط تنے کی طرح قائم رکھا۔۔۔ ایمان کو مقدم رکھا تاکہ آخرکار اعلیٰ درجہ نصیب ہو۔ فرمایا: فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا ایسے لوگوں کی محنت اللہ کے حضور قبول ہو جاتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے مقبول بندے ہیں اور ان ہی کی کوششیں میرے ہاں مقبول ہیں۔

قرآنِ مجید کی ان آیات (سورۃ الاسراء، 17: 18۔19) میں دونوں طرزِ زندگی؛ دنیا اور آخرت، انھیں ایک دوسرے کے مقابل رکھا گیاہے۔ جبکہ اول الذکر آیتِ کریمہ (یونس: 26) میں اس سے بھی بڑھ ایک بلند درجہ بیان ہوا ہے، کیونکہ وہاں صرف اُجرت نہیں بلکہ اس سے آگے کا انعام بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نہ صرف خوبصورت اجر دوں گا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دوں گا۔

ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خوبصورت اجر کیا ہو سکتا ہے؟ کیا اس خوبصورت اجر اور اس سے بھی بڑھ کر انعام سے مراد؛ بخشش، مغفرت، قبر کی رات میں بشارت، آقا علیہ السلام کی پہچان و معرفت، قبر کا جنت میں بدل جانا، جنت کی خوشبوئیں، قیامت کے دن آقا علیہ السلام کے جھنڈے لواء الحمد تلے پناہ مل جانا، شفاعت نصیب ہونا، حساب کتاب میں کامیابی، پلِ صراط سے گزر جانا، جنت میں داخلہ، حور و قصور، محلات، نہریں، دریا، باغات ہیں۔۔۔؟ کیا اس انعام سے مراد جنت ہے کہ جہاں جو چاہیں گے، ملے گا، جو خواہش کریں گے، پوری ہوگی۔ جہاں نہ موت ہوگی، نہ غم، نہ بیماری، نہ تھکاوٹ۔ ہمیشہ کی تازگی، ہمیشہ کی راحت، ہمیشہ کا سکون۔ جدھر نگاہ اٹھے، نظر کو ٹھنڈک اور دل کو اطمینان ملے گا۔

ان نعمتوں کو دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ کیا یہ وہ اجر ہے جو زیادہ ملنا تھا؟ کیا اس سے آگے کچھ نہیں۔۔۔؟ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔ اس لئے کہ یہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ کے فرمان؛ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی کے مصداق’’ الحسنی ٰ‘‘ میں شامل ہے۔ مگر اس کے بعد فرمایا: ’’ وَزِیَادَۃٌ ‘‘  یعنی اس سے بھی زیادہ میرے پاس ہے۔ وہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے لفظ’’ وَزِیَادَۃ ٌ‘‘ کو نکرہ استعمال فرمایا، تاکہ یہ ظاہر ہو کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں۔ وہ انعام اتنا زیادہ ہے کہ انسان کے تصور اور خیال سے بھی ماورآء ہے۔ یہی وہ تجارت ہے جس کی طرف توجہ مبذول کروانا مقصود ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کا خریدار ہے

ہمارے علم میں ہے کہ کوئی بھی تجارت بغیر لین دین کے مکمل نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس دینے کے لئے کچھ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا خریدار ہے۔ ہمارا سودا جتنا قیمتی ہو گا، اس کے بدلے میں اتنا ہی قیمتی ہمیں ملے گا۔ اس تجارت میں ہم نے جو بیچنا اور فروخت کرنا ہے، وہ دنیاوی مال و متاع نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے جس سودے کی قیمتِ خرید ’’وَزِیَادَۃٌ‘‘ کے الفاظ کی صورت میں سنائی ہے، وہ مالِ تجارت، سودا اور شے ہمارا دل ہے۔ اگر’’وَزِیَادَۃٌ‘‘ کے پیغام میں پنہاں دولت حاصل کرنی ہے تو اللہ کے ساتھ یہ تجارت کرنی ہے کہ ہمیں اپنا دل اللہ کو بیچنا ہو گا۔ اگر ہم اپنا دل اللہ کو بیچ دیں تو اس کے بدلے میں وہ ہمیں ’’وَزِیَادَۃٌ‘‘ کے اندر مخفی انعام و اکرام سے نوازے گا۔

ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’وَزِیَادَۃٌ‘‘ کی حد کیا ہے۔۔۔؟ یعنی ہمارے سودے اور مال کی قیمت کیا لگے گی۔۔۔؟ اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم نے اپنا مال یعنی دل کس حال میں اللہ کے حضور پیش کیا ہے۔۔۔؟ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ جب ہم گاڑی بیچتے ہیں تو اسے صاف ستھرا، چمکدار اور درست حالت میں بیچتے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی گاڑی تو کوئی نہیں خریدتا۔ ہم اس کی باڈی، سیٹیں، رنگ و روغن، سب کچھ درست کر کے خریدار کو دکھاتے ہیں۔ جب انسانوں کو گاڑی بیچنے سے پہلے ہم اتنا اہتمام کرتے ہیں تو اندازہ کریں کہ اللہ کو دل بیچنے سے قبل کتنا اہتمام کرنا ہو گا۔ ہمیں اسے بھی سنوار کر، پاکیزہ بنا کر اور خوبصورت کر کے اس کے حضور پیش کرنا ہو گا۔

یہ سنوارنا اور خوبصورت بنانا دراصل ظاہر و باطن دونوں حوالوں سے ہے۔ جیسے گاڑی کا خریدار پہلے اس کا ظاہر دیکھتا ہے، رنگ، باڈی، ماڈل دیکھتا ہے اور اس بات پر خصوصی توجہ دیتا ہے کہ گاڑی میں کہیں ڈینٹ تو نہیں، باڈی پر خراشیں تو نہیں پڑی ہوئیں؟ پھر جب وہ مطمئن ہو جاتا ہے تو اب اس کے باطن کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ گاڑی کا باطن اس کا انجن ہے۔ اب وہ انجن کھولتا ہے، اس کے اندرونی نظام کو دیکھتا ہے، چھوٹی چھوٹی باریک چیزوں کو چیک کرتا ہے، اس کی آواز، اور گاڑی کے دھواں چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کی طرف نظر کرتاہے۔ جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ گاڑی کا ظاہر بھی عمدہ ہے اور باطن بھی درست ہے، تب وہ سودا مکمل کرتا ہے۔

اسی طرح جب بندہ اللہ سے تجارت میں اپنا دل اپنے مال اور سودے کی صورت میں اللہ کے حضور پیش کرے تو اس کا ظاہر بھی خوبصورت ہو۔ کردار، گفتار، اعمال درست ہوں۔ اسی طرح اس کا باطن بھی روشن، مخلص اور اللہ کے عشق سے معمور ہو۔ جب ظاہر و باطن دونوں پاکیزہ ہوں، تب اللہ تعالیٰ اس دل کا خریدار بنتے ہوئے اسے قبول فرما لیتا ہے۔

ظاہر و باطن دونوں کی پاکیزگی مطلوب ہے

جب ہم اللہ کے ساتھ تجارت کرنے جا رہے ہیں اور اسے اپنا دل بیچنے لگے ہیں اور اللہ رب العزت نے اس کے بدلے ہمیں ’’وَزِیَادَۃٌ‘‘ کے مصداق بہت بڑی قیمت دینی ہے، بہت بڑا اجر عطا کرنا ہے تو یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی جانچ بھی کریں گے کہ مجھے جو مال (دل) بیچا جا رہا ہے، اس کا ظاہر و باطن کیا ہے۔۔۔؟ وہ پہلے ہمارے ظاہری اعمال کو دیکھے گا، پھر دل اور باطن کے حال کو بھی دیکھے گا۔۔۔ وہ ہماری نیت کو بھی پرکھے گا اور ہماری طہارت اور اخلاق کو بھی جانچے گا۔۔۔ وہ شریعت پر ہمارا عمل بھی دیکھے گا اور ہمارے باطنی اوصاف اور صفات کا جائزہ بھی لے گا۔

پس ہمیں اپنے مال کو اللہ کی بارگاہ میں فروخت کرنے سے پہلے اپنے ظاہر و باطن کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ ہمیں اپنی زبان پر غور کرنا ہوگا۔ جس کی زبان پر گالی ہے، اللہ اس کا دل کیوں خریدے گا۔۔۔؟ جس کی زبان پر غیبت اور چغلی ہے، اللہ اس کا دل کیوں خریدے گا۔۔۔؟ جو چھوٹی چھوٹی بات پر بھڑک اٹھتا ہے، دوسرے پر تہمت لگاتا ہے، جھگڑا کرتا ہے، مبالغہ آرائی کرتا ہے اور فسادات کرتا ہے تو اللہ اس کے دل کا خریدار کیوں بنے گا۔۔۔؟ جس کے اندر حسد، بغض، عداوت، نفرت ہے اور جو بد دیانتی و خیانت کرتا ہے، اس کا دل اللہ تعالیٰ کیوں قبول کرے گا۔۔۔؟ یاد رکھیں! جس سودے اور مال کے اندر نقص اور خرابی ہو، اسے خریدا نہیں جا تا۔

اگر گاڑی کے انجن (یعنی گاڑی کے باطن) میں خرابی ہو، تو گاڑی رک جاتی ہے یا جھٹکے لینے لگتی ہے اور آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے کے قابل نہیں رہتی۔ اسی طرح، دل اور باطن کی خرابی ہو تو ظاہری اعمال پر بھی ان کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اگر جسم پر اللہ کی نافرمانی، زبان پر غیبت یا بدگوئی، آنکھوں میں بدی، کانوں میں برائی، ہاتھ میں حرام چیزیں یا اخلاق برے ہیں تو یہ سب علامات دل کے بگڑنے کی نشانی ہیں۔ یہ حالات جسم کے نہیں بلکہ قلب اور باطن کے بگاڑ کے سبب ہیں۔ جب دل تاریک، غلیظ، پتھر یا لوہے کی طرح مردہ ہو چکا ہو تو مردہ دل کے یہ اثرات جسم، زبان، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں سے ظاہر ہوتے ہیں۔

اگر کسی کے دل میں حلیمی، ٹھنڈک اور نرمی آگئی تو اس کی زبان، آنکھیں اور اعمال بھی نرم، خوش اخلاق اور پیارے ہوتے ہیں۔ اب اس کی زبان پر گالی، شکایت، غیبت یا مبالغہ آرائی نہیں رہتی اور وہ کسی پر تہمت و الزام نہیں لگاتا۔ اندر بہار کا موسم آجائے تو باہر کی تپش اثر انداز نہیں ہوتی۔ لہٰذا ظاہر کا متقی و مطہر ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ دل سنور گیا ہے۔

اس حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ محض ظاہر کا صاف ہونا بھی کافی نہیں۔ اس لئے کہ لباس جسم کے اوپر ہوتا ہے۔ کبھی ایسا ہوا کہ گندا اور پسینے سے بھرا جسم ہو مگر اس پر شاندار اور خوشبو والا لباس پہنا جائے۔۔۔؟ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر نہا دھو کر جسم صاف کر لیا جائے مگر لباس گندا پہنا جائے، تو یہ بھی درست نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ ظاہر اور باطن دونوں کی طہارت ناگزیر ہے۔

ہم نہا دھو کر جسم کو صاف اور اجلا کر کے باہر نکلیں تو اچھا لباس پہننا دل کو خوشی دیتا ہے لیکن اگر لباس گندا ہو، تو صاف جسم پر اسے پہننا پسند نہیں کرتے۔ جس طرح کا رشتہ جسم اور لباس کا ہے، اسی طرح زندگی میں ظاہر و باطن کا رشتہ بھی ہے۔ اگر دل گندا ہو تو جسم کی طہارت کچھ کام نہیں آتی اور اگر صرف باہر کی چیزیں اچھی ہوں تو وہ دل کی برائی دور نہیں کر سکتیں۔ دل کی گندگی دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ باہر اچھائی ہو۔ لہذا نیکی کریں، نیکی بولیں، نیکی دیکھیں، نیکی سنیں، حلال رزق کھائیں اور لقمۂ حرام سے پرہیز کریں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَكَلَ لُقْمَةً مِنْ حَرَامٍ، لَمْ تُقَبَّلْ مِنْهُ صَلاتُهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.

جو شخص حرام کی لقمہ کھائے، اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی۔

(الدیلمی، مسند الفردوس، ج: 3، ص: 591، الرقم الحدیث: 5853)

یعنی ایک لقمۂ حرام کا اثر چالیس دن تک نماز، روزے اور دیگر عبادات پر ہوتا ہے اور وہ قبول نہیں ہوتیں۔ اگر زندگی کا معمول ہی رزق ِحرام کھانا ہو تو چاہے سو برس کی زندگی گزاریں اور عبادات کے انبار لگا دیں، کچھ بھی قبول نہیں ہو گا۔ کیونکہ لقمۂ حرام کھایا جا رہا ہے، چاہے وہ دھوکہ دہی، جھوٹ، بغیر محنت کے اور مانگ کر کھایا جا رہا ہو یا دین کے نام پر لوگوں کی عقیدت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کھایا جا رہا ہو، سب ناجائز اور حرام ہے۔

آج کل ہمارے ہاں نام نہاد پیر اور شیخ دین کے نام پر لوگوں سے مال بٹورتے ہیں۔ انھیں اپنے مریدین کی اصلاح سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمہ وقت مریدین کی تعداد بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں تاکہ اُن کی آمدنی کے ذرائع میں اضافہ ہوتا رہے۔ ایسی آمدنی بھی حرام ہے۔ نیویارک میں ایک بار خطاب کے بعد مجھ سے کسی نے سوال کیا کہ پیرِ کامل کی پہچان کیا ہے؟ میں نے کہا کہ کامل پیر کی پہچان یہ ہے کہ وہ مریدوں کی تلاش میں نہ ہو۔ جو پیر مریدوں کی تلاش میں ملک در ملک، شہر در شہر، گلی گلی، کوچہ کوچہ مارا مارا پھرے، وہ کامل نہیں۔ ایسے لوگ اپنے مریدوں کے لیے خلیفے، نمائندے اور مڈل مین رکھتے ہیں جو اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ’’پیر صاحب آئیں گے، بڑے ولی اللہ ہیں، ان کی کرامتیں ہیں، دعا کروا لیں، بیعت کر لیں۔ ‘‘ جو مرید بنانے کے لیے یوں مارا مارا پھرے، وہ اللہ کو کہاں پائے گا۔۔۔؟ وہ تو خود مریدوں کا مرید ہے۔ مرید کا مطلب ہے ارادہ کرنے والا۔ جو پیر مریدوں کا ارادہ رکھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مرید بنیں، اس نے اللہ کو کہاں پانا ہے۔۔۔؟ پس کامل پیر وہ ہے جسے مریدوں کی تلاش نہ ہو، جسے دنیا کی حرص نہ ہو، جو آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور جس کا ظاہر و باطن دونوں پاکیزہ ہوں۔

برے خیالات سے حفاظت کا طریقہ

یاد رکھیں! باطن کے اثرات ہمارے ظاہری اعضاء اور ظاہر کے اثرات ہمارے باطن پر مترتب ہوتے ہیں۔ باطن کو پاک کریں گے تو اس کی پاکیزگی اور طہارت ہمارے حواسِ خمسہ کو بھی پاک کرے گی اور ظاہری اعضاء بھی قابو میں رہیں گے۔ اس لیے کہ جو کچھ ہم سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، بولتے ہیں یا حرکت کرتے ہیں، سب کا اثر ہمارے باطن اور دماغ تک پہنچتا ہے۔ جب ہمارے بیرونی اعضا اور حواس کے اثرات اندر داخل ہوتے ہیں تو خیالات بھی پاک ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر اللہ کے ساتھ اس تجارت میں آگے بڑھنا ہے تو ظاہر و باطن کو پاک کریں۔

لوگ اکثر مجھ سے وظائف پوچھتے ہیں کہ برے خیالات سے بچاؤ کے لئے کوئی وظیفہ بتا دیں۔ یاد رکھیں! اس کا وظیفہ یہ ہے کہ جہاں سے برے خیالات داخل ہوتے ہیں، وہ دروازے بند کر دو۔ اگر گھر کے دروازے بند ہوں تو چور داخل نہیں ہوتا۔ جب آنکھ، زبان، کان، منہ، ہاتھ، پاؤں کی صورت میں موجود دروازے ہر برائی، گناہ، غیبت، چغلی اور برائی کے لیے کھلے ہوں گے تو برے خیالات کا دماغ میں آنا آسان ہوجائے گا۔ جب ان دروازوں سے اچھے اثرات دماغ میں جائیں گے تو دماغ کی فضا پاکیزہ ہوگی، اچھے خیالات پیدا ہوں گے اور پھر یہ پاکیزہ خیالات دل پر اثر ڈالیں گے۔

اگر ہم اللہ کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں اور اسے اپنا مال (دل) اسے بیچنا چاہتے ہیں تو اسے اس قابل بنانا ہو گا کہ خریدار (اللہ) اسے خرید لے کیونکہ جس کا دل اللہ خرید لیتا ہے، پھر وہ دل ہمہ وقت اللہ کی نظر اور توجہ خاص میں رہتا ہے۔

کیا اللہ غلاظتوں سے بھرے ہوئے دل کی طرف نظر کرے گا؟ اسے خریدے گا؟ کیا وہ بری خواہشات سے بھرا ہوا دل خریدے گا؟ کیا وہ برے خیالات کے ہجوم میں ڈوبا ہوا دل خریدے گا؟ نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ اس لئے اگر دل اللہ کو بیچنا ہے تو دل کو اتنا اجلا کریں، اتنا خوبصورت اور روشن کریں، جیسے ہم اپنے گھر کو صاف کرتے ہیں۔

کیا ہم اپنے رہنے کے لیے گندا گھر قبول کریں گے۔۔۔؟ ایسا گھر جس میں غلاظت کے ڈھیر ہوں، بدبو آرہی ہو، ٹوٹا پھوٹا ہو اور صفائی نہ ہو تو کیا ہم اسے قبول کرتے ہیں۔۔۔؟ گھر تو دور کی بات اگر کسی واش روم میں گندگی ہو تو ہم اسے استعمال نہیں کرتے۔ پس جب ہم اپنے رہنے کے لیے ستھرا گھر چاہتے ہیں تو اللہ بھی اپنی تجلیات و انوار کے نزول کے لئے پاک دل چاہتاہے۔ جب ہم اپنا دل اللہ کو بیچیں گے تو وہ بھی اپنے رہنے کے لیے صاف ستھرا دل چاہتا ہے۔ یاد رکھیں! اللہ کو نہ زمین اپنے اندر سمو سکتی ہے، نہ سات آسمان۔ اللہ کو ساری کائناتِ ارضی و سماوی اپنے اندر سمو نہیں سکتی مگر اللہ مردِ مومن اور مردِ عاشق کے دل میں سما جاتا ہے۔ جس کے دل میں اللہ کے عشق کی آگ جل اٹھے، اللہ کی محبت پیدا ہو جائے، دل ستھرا ہو جائے، اللہ کی محبت کا نور آجائے اور جو دل اللہ کے ساتھ جڑ جائے، وہی دل اللہ کو پسند آتا ہے۔

جس خوش نصیب کے دل کو اللہ نے پسند فرمالیا اور اُسے خرید لیا تو اس کے بدلے میں اللہ اسے اپنی ملاقات عطا کرے گا۔ اللہ کی ملاقات کا ہونا وہ ’’وَ زیَادَۃ‘‘ ہے، جس کا آیت کریمہ میں وعدہ کیا گیا ہے۔ پس دل کو اس قابل بنائیں کہ اللہ اسے خرید لےاور دل اس قابل تب بنتا ہے جب ظاہر و باطن بھی اس قابل بنے۔ اسی صورت وہ اپنی ملاقات بھی دے گا اور ملاقات کے بعد اپنا دیدار بھی عطا کرے گا۔ یاد رکھیں! یہ ملاقات اور دیدار بغیر محنت کے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے ظاہر و باطن کو پاکیزہ کرنا ناگزیر ہے۔

اللہ سے ملاقات کب اور کہاں ہوگی؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ملاقات کہاں اور کس وقت ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ملاقات کی جگہ مصلیٰ (جائے نماز) ہے۔ یہ ملاقات کی مقررہ جگہ ہے اور ملاقات کا وقت رات کا اندھیرا ہے۔ اس ملاقات کی تیاری کے لیے دن میں پانچ وقت اس کے دروازے پر دستک دینا ہوگی۔ دن میں پانچ وقت مشق کرنا ہوگی، اس کے دروازے پر آنا ہوگا اور مصلیٰ پر کھڑے ہو کر اسے پکارنا ہوگا۔ نماز جلدی جلدی اس طرح نہ پڑھیں کہ کہیں جانا ہے۔ ایسا نہیں کرنا جیسا ہم کرتے اور کہتے ہیں کہ ’’ بھائی! ایک منٹ انتظار کر، میں نماز بھگتا آؤں۔ ‘‘ ایسے نہیں! یہ محبوب کی ملاقات کا وقت ہے۔ جب محبوب سے ملاقات ہو تو جلدی نہیں کرتے، دل لگا کر ملاقات کرتے ہیں۔ پس جب نماز پڑھیں تو دل کے ذوق وشوق سے، آنکھیں ہلکی ہلکی بند رکھ کر، مناجات کے ساتھ اور اس سے ہم کلامی کے لطف میں پڑھیں۔ جب روز پانچ وقت اس کے دروازے پر محبت و شوق کے ساتھ آئیں گے تو یہی مشق رات کے اندھیرے میں ملاقات کے دروازے تک پہنچائے گی اور پھر رات کو ملاقات کا دروازہ کھلے گا۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں کوہِ طور پر بلایا اور ارشاد فرمایا:

وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَـلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّاَتْمَمْنٰـہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقٰتُ رَبِّـہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً.

اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ہم نے اسے (مزید) دس (راتیں) ملاکر پورا کیا، سو ان کے رب کی (مقرر کردہ) میعاد چالیس راتوں میں پوری ہوگئی۔

کوہ طور پر چالیس راتوں کا یہ قیام اور انتظار دراصل لمحۂ ملاقات کی تیاری تھی۔ جب چالیس راتیں مکمل ہوئیں، تو موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:

رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ ؕ قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ.

(الاعراف، 7: 143)

’’عرض کرنے لگا: اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں، ارشاد ہوا: تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکو گے مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے۔ ‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات و زیارت کی اس درخواست پر اللہ نے فرمایا اے موسیٰ! تجلی تو دیکھ سکتے ہیں، مگر دیدار نہیں۔ معلوم ہوا کہ دیدار و ملاقات کا یہ سودا بہت قیمتی ہے۔ اگر موسیٰ علیہ السلام کو ملاقات کے لیے چالیس دن انتظار کروایا گیا، تو ہمیں چالیس سال بھی اگر انتظار کروا دیا جائےتو یہ مہنگا سودا نہیں، اس لیے کہ بالآخر ملاقات تو ہو جائے گی۔ جب ہم پاکیزگی کی راہ پر آئیں، آقا ﷺ کی سیرت طیبہ میں فنا ہوں، اللہ کے اخلاق اور محمدی اخلاق اپنا لیں، زبان، نگاہ، کان، پیٹ ہر چیز پاک ہو جائے اور اخلاقِ حسنہ کے رنگ میں رنگ جائیں، عبادت ذوق و شوق سے ہو، جبین اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے لگے، ہر روز پانچ وقت اس کے دروازے پر کھڑے ہوں، رات کی ملاقات کے لمحے کا انتظار کریں اور یہ عمل استقامت سے جاری رکھیں تو اگر ہمیں چالیس برس بھی انتظار کرایا جائے مگر ملاقات عطا کر دی جائے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔

پس ہمیں چاہیے کہ اس قابل بنیں کہ پاکیزگی کی راہ اختیار کریں، ایمان مضبوط کریں، اعمالِ صالحہ اپنائیں، اخلاقِ حسنہ اختیار کریں، سیرت و کردار کو مزین کریں، سیرت ِنبوی کے مطابق نیک اور صالح بنیں، دنیا کمائیں مگر حسنِ آخرت کو مقدم رکھیں اور ترجیح یہ بنائیں کہ پہلے آخرت، پھر دنیا، تو یقینا یہ لمحۂ ملاقات و دیدار ہمیں بھی نصیب ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)۔