سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی استقامت

ڈاکٹر زہیر احمد صدیقی

اسلام کی تاریخ میں بارہا ایسے لمحات آئے ہیں جب ایک تنِ تنہا شخصیت کی بصیرت، جرأت اور استقامت پوری امت کے لیے نئی زندگی کا پیام بن کر اُبھری۔ عہدِ نبوی ﷺ کے اختتام کا سانحہ یقینا امت کے لیے غیر معمولی صدمہ تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے جدائی کے تصور نے جہاں دلوں کو بوجھل کیا، تو وہیں ایک فطری اضطراب نے جنم لیا کہ اب اہلِ ایمان کی اجتماعی وحدت کس بنیاد پر قائم رہے گی؟ ایسے نازک اور کٹھن مرحلے پر حفاظتِ دین اور وحدتِ امت؛ دو ایسے بنیادی تقاضے تھے جن پر امتِ مسلمہ کا آئندہ سفر موقوف تھا۔

اسی فیصلہ کن گھڑی میں جو قیادت آگے بڑھی، وہ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات با برکت تھی۔ وہ شخصیت جس نے صحبتِ مصطفیٰ ﷺ میں ایمان کی ایسی حرارت پائی تھی کہ جس کے سامنے کمزوری، تذبذب یا پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔۔۔ وہ عظیم ہستی جن کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ’’خير هذه الأمة بعد نبيها‘‘ یعنی امت میں نبی اکرم ﷺ کے بعد سب سے بہترین انسان‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے۔۔۔ جن کی روحانی لطافت اور قلبی گداز کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اہلِ معرفت میں آپ کا لقب ’’أوّاه‘‘ مشہور ہوا۔ حضرت ابراہیم نخعی کے بقول: ’’كان يسمّى الأوّاهَ لِمُراقَبَتِه‘‘ ، یعنی آپ کو اللہ کی ہمہ وقت نگرانی میں ہونے کے شعور اور گہری روحانی کیفیت کے سبب آہ و زاری کرنے والا کہا جاتا تھا۔

یہی اعلی کردار، اونچا اخلاق، گہری بصیرت، عمدہ سیرت، خشیت اور باطنی بیداری وہ سرمایہ تھا جس نے آپ کو بحرانوں کے طوفان میں بھی تزلزل سے محفوظ رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جس حکمتِ عملی کے ساتھ فتنۂ ارتداد کو فرو کیا، منکرینِ زکوٰۃ کی سرکشی کو ختم کیا، جھوٹے مدعیانِ نبوت کا باب بند کیا اور قرآنِ مجید کی جمع و تدوین کا تاریخی فیصلہ فرمایا، یہ سب محض انتظامی اقدامات نہ تھے؛ یہ وہ سنگِ میل تھے جنہوں نے تحفظِ دین اور وحدتِ امت کی بنیادوں کو ایک مرتبہ پھر مضبوط و مستحکم کر دیا۔

آج کا مسلمان بھی فکری یلغار، اخلاقی انتشار، تشکیک کے طوفان، سیاسی بے سمتی اور تہذیبی بے یقینی کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت، آپ کی خلافت کے فیصلے، اور آپ کے استقامت آفریں نمونے پہلے سے بڑھ کر معنویت اختیار کر جاتے ہیں۔

زیرِ نظر سطور میں ہم انہی چند پہلوؤں پر اپنے قارئین کے لیے رہنمائی پیش کریں گے، جن میں ہمارے آج کے زخموں کا مداوا اور ہمارے مستقبل کی سمت متعین کرنے کی صلاحیت پوشیدہ ہے۔

1۔ عہدِ نبویؐ کے بعد کا بحران: ایک تاریخی پسِ منظر

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات میں ایسے بے شمار پہلو پوشیدہ ہیں، جو ہر بدلتے ہوئے دور میں امت کو رشد و ہدایت عطا کرتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کے وصال کے فوری بعد امت یکایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہو گئی جہاں تین بڑے بحران بیک وقت سر اٹھا رہے تھے:

1۔ پہلا بحران سیاسی خلاء اور قیادت کا تھا، کیوں کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار و مہاجرین کے مابین ہونے والی مشاورت نے واضح کردیا کہ امت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ قیادت کے تعین میں معمولی لغزش بھی جنگی، معاشرتی اور مذہبی انتشار کو جنم دے سکتی تھی۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بروقت بصیرت نے اس خلاء کو وحدت کے اصول پر پُر کیا اور امت کو سیاسی انتشار سے محفوظ رکھا۔

2۔ دوسرا بحران فتنۂ ارتدادتھا۔ اہلِ تاریخ کے مطابق جزیرۂ عرب کے بہت سے قبائل مختلف درجات میں مرکز سے دوری، ارتداد یا بغاوت کی طرف مائل ہو چکے تھے۔ کہیں زکوٰۃ کے انکار کی شکل میں، کہیں جھوٹے مدعیانِ نبوت کی پیروی میں اور کہیں قبائلی خود مختاری کے نام پر۔ یہ خطرہ محض چند بغاوتوں کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ پورے نظامِ دین کے خلاف ایک منظم طوفان بن چکا تھا۔

3۔ تیسرا بحران دین کی اساس پر حملہ تھا اور وہ اس طرح کہ یہ بحران محض سیاسی نوعیت کا نہ تھا؛ بلکہ اس نے نماز، زکوٰۃ، نبوت کے تقدس، وحدتِ امت اور ریاستِ مدینہ کی مرکزیت سمیت دین کی بنیادی ساخت کو متزلزل کرنے کی کوشش کی۔ اس مقام پر معمولی نرمی، فیصلوں میں تذبذب اسلامی معاشرے کی بنیادوں کو ہلا سکتی تھی، مگر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اسی مقام پر وہ استقامت دکھائی جس نے دین کی عمارت کو دوبارہ مضبوط کردیا۔

2۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی قیادت کا اصولی خاکہ

سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی قیادت چند ایسے اصولوں پر استوار تھی جنہوں نے نہ صرف ارتداد کے ہولناک طوفان کو روکا بلکہ اسلامی ریاست کے فکری، اخلاقی اور سیاسی توازن کو ازسرِنو بحال کیا:

1۔ آپ رضی اللہ عنہ کے مزاجِ قیادت کا پہلا وصف یہ تھا کہ دین کے معاملے میں غیر متزلزل سختی اور اخلاق میں بے مثال نرمی یکجا ہو گئی تھی۔ امام بیہقی دلائل النبوۃ میں اور دیگر کئی اہل علم بشمول امام ذہبی تاریخ اسلام اور علامہ ابن تیمیہ منہاج السنۃ النبویۃ میں روایت نقل فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارتداد کے مرتکبین کے خلاف فوری اقدام سے تردد ظاہر کیا تو صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا:

أجبار في الجاهلية خوار في الإسلام.

جاہلیت میں سخت تھے، کیا اسلام میں کمزور ہو جاؤ گے؟

یہ ایک فقرہ نہیں بلکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت کی پوری روح ہے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے سامنے نہ تردد، نہ تذبذب، نہ سیاسی پس و پیش۔

2۔ اسی اصول کا دوسرا رخ یہ تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک دین کے احکام میں جزئی و کلی کا کوئی الگ مقام نہ تھا۔ زکوٰۃ کا انکار ہو یا نبوت کے تقدس پر حملہ، آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک دونوں دین کے بنیادی ڈھانچے پر وار تھے۔

امام رازی اپنی تفسیر (ج: 15، ص: 186) میں لکھتے ہیں:

وكان ابن مسعود يقول: رحم الله أبا بكر ما أفقهه في الدين.

یعنی: حضرت عباد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے: اللہ ابو بکر پر رحمتیں نازل فرمائے، انہیں دین کا کتنا فہم حاصل تھا۔ پھر فرمایا:

أراد به ما ذكره أبو بكر في حق مانعي الزكاة، وهو قوله: والله لا أفرق بين شيئين جمع الله بينهما

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مانعین زکوٰۃ کے بارے میں بیان کردہ وہ واضح اور دو ٹوک تنبیہ تھی جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بخدا جن دو چیزوں (نماز اور زکوٰۃ) کو اللہ تعالی نے جمع فرمایا ہے، میں ان میں تفریق نہیں کروں گا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان آج بھی قیادتِ اسلامی کا بنیادی اصول سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے امت سیکھتی ہے کہ جب دین کی وحدت مجروح ہونے لگے تو ریاست، معاشرہ اور اخلاقی نظام یکساں طور پر ٹوٹنے لگتے ہیں۔

3۔ تیسرا اہم اصول ریاست کی بالادستی اور اس کے بیانیے کا تحفظ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک اسلام، قرآن اور ریاستِ نبوی کے اصول محض تین جدا اکائیاں نہیں تھے بلکہ ایک نظری وحدت تھے۔ لہٰذا جب ارتداد کی تحریکیں اٹھیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں محض سیاسی بغاوت نہیں سمجھا بلکہ ریاستِ مدینہ کی مرکزیت پر حملہ قرار دیا، اور اسی شعور کے ساتھ ایسے فیصلے کیے جو جذباتیت نہیں بلکہ بالغ نظری اور حکمت کی مثال بن گئے۔

یہ تینوں اصول آج کے مسلمان معاشروں کے لیے بھی راستہ دکھاتے ہیں۔ موجودہ دور کی فکری یلغار، مذہبی انتشار، گروہی تعصبات اور ریاستی کمزوریوں کے مقابل ہمیں بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسا مزاج بنانے کی ضرورت ہے جہاں دین کے اصولوں پر غیر متزلزل استقامت، اجتماعی وحدت کو مقدم رکھنا اور ریاستی نظم و قانون کو دین کی اساس کے طور پر مضبوط کرنا اولیں ترجیح ہو۔ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کے بحرانوں کو جس وژن اور صلابت سے سنبھالا، وہ آج کے فکری و اجتماعی چیلنجز کے لیے روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔

3۔ امت کو وحدت میں پرو دینے کے عملی مظاہر

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اصولی موقف اور قیادتی بصیرت کی حقیقی شان اس وقت نمایاں ہوئی جب یہ اصول عملی میدان میں ایک ایک کرکے جلوہ گر ہونے لگے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف فتنۂ ارتداد کے ہنگامہ خیز دور میں دین کی مرکزیت اور ریاست کی بالادستی کا تحفظ کیا، بلکہ ایسے فیصلے کیے جنہوں نے بکھرتی ہوئی امت کو دوبارہ وحدت کی لڑی میں پرو دیا۔ یہ وہ لمحات تھے جب عرب کے قبائل اپنی وفاداریاں توڑ رہے تھے، مذہبی التباسات جنم لے رہے تھے اور اسلام کی بنیادیں خطرے میں دکھائی دیتی تھیں؛ مگر سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی غیر معمولی استقامت کے ساتھ وہ عملی اقدامات کیے جنہوں نے نہ صرف بحران کو تھاما، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی دین کے تحفظ کی ابدی مثالیں قائم کر دیں۔ ان اقدامات کے نمایاں مظاہر میں منکرینِ زکوٰۃ کی سرکوبی، جھوٹے مدعیانِ نبوت کا خاتمہ اور قرآنِ مجید کی جمع و تدوین شامل ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ امت کی وحدت، ریاست کے استحکام اور دین کے تحفظ کا سنگِ میل ثابت ہوا:

(1) منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف فیصلہ: تحفظِ دین کی پہلی دیوار

فتنۂ ارتداد کا سب سے نمایاں اور خطرناک رخ انکارِ زکوٰۃ تھا۔ متعدد قبائل نے اپنے تئیں ایک عجیب مفاہمت تراشی: نماز قائم رکھیں گے مگر زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ امام بیہقی دلائل النبوۃ (ج: 2، ص: 477) میں ذکر فرمایا:

فلما توفي رسول الله، وارتدت العرب، فقال بعضهم: نصلي ولا نزكي، وقال بعضهم: لا نصلي ولا نزكي.

جب اللہ کے رسول ﷺ اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے تو دو دراز کے نئے اسلام میں آنے والے قبائل میں کچھ کہنے لگے کہ ہم نماز تو پڑھیں گے، مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے، کچھ کہنے لگے ہم تو نہ نماز پڑھیں گے نہ ہی زکوٰۃ دیں گے۔ یہ مطالبہ بظاہر ایک معمولی سیاسی رعایت دکھائی دیتا تھا، لیکن حقیقت میں یہ دین کے تین بنیادی ستونوں پر وار تھا:

اول: دین کے ایک فرضِ قطعی کی نفی

دوم: مدینہ کی مرکزیت اور نبوی ریاست کی اتھارٹی کو کمزور کرنا

سوم: اسلامی معاشرت کے اجتماعی نظم کو متزلزل کر دینا

بعض جلیل القدر صحابہ، جن میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ رسولِ اکرم ﷺ کے وصال کے غم میں ڈوبی امت کو اس وقت قتال میں نہیں الجھانا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا، میں نے کہا:

يا خليفة رسول الله، تألف الناس، وارفق بهم

اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ، لوگوں کی دلجوئی کیجئے اور ان سے نرمی برتیے۔ مگر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں یہ معاملہ جذباتی نرمی کا نہیں، دین کی اساس اور ریاست کے وجود کا مسئلہ تھا۔

چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے وہ فیصلہ کن جملہ فرمایا جو اسلامی ریاست کی قیادت کا دائمی معیار بن گیا، صحاح ستہ کہ معروف حدیث ہے جس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

واللَّه! لأقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله ﷺ لقاتلتهم على منعها.

اللہ کی قسم! جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا، میں اس سے جنگ کروں گا۔ کیوں کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، اور بخدا، اگر وہ ایک رسی بھی روکیں جو رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے قتال کروں گا۔

یہ فیصلہ کیوں بنیاد ساز تھا؟ اس لیے کہ زکوٰۃ محض مالی معاملہ نہیں بلکہ اسلامی معاشرت میں عدل، مساوات، مرکزیت اور اجتماعی نظم کی نئی روح تھی۔ اگر اس مرحلے پر کمزوری دکھائی جاتی تو ریاستِ مدینہ کا قائم کردہ مرکزی نظم بکھر جاتا اور اسلام مختلف قبائلی، قومی اور علاقائی مذہبوں میں تقسیم ہو جاتا۔ اسی لیے اہلِ علم نے بالاتفاق اسے اسلامی تاریخ کا سب سے اہم ریاستی فیصلہ قرار دیا ہے، جس نے امت کی وحدت کو پہلی اور مضبوط ترین دیوار فراہم کی۔

آج کے مسلمان معاشروں میں بھی کئی فکری اور عملی تحریکیں اسی طرح دین کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کسی کو اخلاق اہم، مگر عبادات غیر ضروری لگتی ہیں۔۔۔ کوئی ریاستی نظم کو کم تر سمجھتا ہے۔۔۔ کوئی شریعت کے اجتماعی تقاضوں کو محض ’’اختیاری‘‘ قرار دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ یہ سبق دیتا ہے کہ دین ایک مربوط وحدت ہے، اس کے کسی رکن کو کمزور کرنے سے پوری عمارت متزلزل ہو جاتی ہے۔

زکوٰۃ کے انکار کے مقابل آپ رضی اللہ عنہ کی استقامت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ معاشرتی عدل، ریاستی نظم، دینی مرکزیت اور اجتماعی وحدت تبھی قائم رہ سکتی ہے جب ہم دین کو مکمل پیکج کے طور پر قبول کریں۔ یہ فیصلہ ہر دور میں یہ اعلان کرتا ہے کہ دین کی بنیادوں پر لچک امت کے وجود پر ضرب بنتی ہے اور اصولوں پر ثابت قدمی ہی تحفظِ دین اور وحدتِ امت کی پہلی شرط ہے۔

(2) جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف جنگ: وحدتِ امت کا معرکہ

مسیلمہ کذّاب، طلیحہ اسدی، سجاح اور اسود عنسی، یہ سب فتنۂ ارتداد کے اُس رخ کی علامت تھے جو براہِ راست عقیدۂ ختمِ نبوت پر حملہ آور تھا۔ امام ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباری (ج: 12، ص: 276) میں مرتدین کے درجے بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:

كان أهل الردة ثلاثة أصناف، صنف عادوا إلى عبادة الأوثان، وصنف تبعوا مسيلمة والأسود العنسي، وكان كل منهما ادعى النبوة قبل موت النبي ﷺ

مرتدین تین قسموں میں تقسیم ہوئے: ایک گروہ واپس بت پرستی کی طرف لوٹ گیا۔ دوسرا گروہ مسیلمہ اور اسود عنسی کے پیچھے چلا، اور دونوں نے نبی ﷺ کی وفات سے پہلے نبوت کا دعوی کیا۔

نیز فرمایا: ’’فصدق مسيلمة أهل اليمامة وجماعة غيرهم، وصدق الأسود أهل صنعاء وجماعة غيرهم، فقتل الأسود قبل موت النبي صلى الله عليه وسلم بقليل، وبقي بعض من آمن به، فقاتلهم عمال النبي صلى الله عليه وسلم في خلافة أبي بكر، وأما مسيلمة فجهز إليه أبو بكر الجيش وعليهم خالد بن الوليد فقتلوه. ‘‘

مسیلمہ کے دعوے کو اہل یمامہ اور کچھ دیگر لوگوں نے قبول کیا، جبکہ اسود عنسی کو اہل صنعاء اور دیگر نے مانا۔ اسود عنسی کو نبی ﷺ کی وفات سے کچھ ہی پہلے قتل کر دیا گیا، البتہ کچھ لوگ جو اس پر ایمان لائے تھے، باقی رہ گئے، جن کے خلاف نبی ﷺ کے مقرر کردہ گورنروں نے بعد میں خلافتِ ابو بکر رضی اللہ عنہ میں کارروائی کی۔ مسیلمہ کے مقابلے کے لیے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک فوج تیار کی، جس کی قیادت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کی، اور مسیلمہ کو قتل کر دیا گیا۔

اگر نبوت کا دروازہ کھل جاتا یا اس کے حرمت و تقدس پر معمولی سا بھی شک پیدا ہوجاتا، تو پورا دینی ڈھانچا تین پہلوؤں سے ٹوٹ جاتا:

ایک تو یہ کہ قرآن کا منصوص عقیدہ مشتبہ ہوجاتا۔ دوسرا یہ کہ شریعت کے احکام آپس میں متضاد ہو جاتے۔ مستزاد یہ کہ ہر قبیلہ اپنی خود ساختہ شریعت اور الگ مذہبی اختیار کا دعوے دار بن جاتا۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ امت ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی اور مذہبی انتشار کا شکار ہوجاتی۔

انہی وجوہ سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ سے نمٹنے کے لیے نہ کوئی تاخیر کی اور نہ کسی قبائلی دباؤ کو اہمیت دی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور دیگر جرنیلوں کو مختلف محاذوں پر بھیجا۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ یمامہ میں وہ فیصلہ کن معرکہ پیش آیا جس نے اس فتنہ کی کمر توڑ دی۔ اس جنگ میں سیکڑوں قاری صحابہ شہید ہوئے، اور یہی سانحہ بعد ازاں قرآن مجید کی جمع و تدوین کے عظیم فیصلے کا براہِ راست محرک بنا۔

اس واقعے میں آج کی امت کے لیے دو بڑے پیغامات ہیں:

1۔ اول یہ کہ عقیدے کے بنیادی اصولوں پر کسی قسم کی مفاہمت یا ابہام، کتنی ہی مصلحت آمیز کیوں نہ لگے، بالآخر اجتماعی بکھراؤ کا سبب بنتا ہے۔

2۔ دوم یہ کہ وقتی نقصان، خواہ وہ جنگ، قربانی یا وسائل کا ہو، اگر دین کے تحفظ، اجتماعیت اور وحدت امت کو برقرار رکھنےکے لیے ہو تو وہ امت کے مستقبل کو مضبوط کرتا ہے۔

آج کے فکری انتشار، جھوٹے روحانی دعوؤں اور مذہبی اتھارٹی کے غیر شرعی مراکز کے مقابل کھڑا ہونا، اسی صدیقی جرأت و بصیرت کا عملی تقاضا ہے۔

(3) قرآن کی جمع و تدوین: تحفظِ دین کی سب سے بڑی بنیاد

جنگِ یمامہ میں جب حفاظِ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو امت کے سامنے ایک بنیادی خدشہ اُبھرا کہ اگر یہ سلسلہ کسی اور محاذ پر دہرایا گیا تو قرآنِ کریم کی آیات تک رسائی میں مشکل پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی پس منظر میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ قرآن کو ایک مصحف میں جمع کر دیا جائے۔ ابتدا میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تردد ظاہر کیا اور فرمایا:

كيف أفعل شيئًا لم يفعله رسول الله؟

یعنی وہ کام کیسے کروں جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں نہیں فرمایا؟

لیکن جب معاملہ حفاظتِ دین اور بقاے قرآن کی ضرورتِ قطعیہ بن گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت بصیرت کے ساتھ اس تجویز کو قبول کرلیا۔ امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف (ج: 6، ص: 148) میں حدیث نمبر 30229 کے تحت مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں:

إنّ أعظم أجرًا في المصاحف أبو بكر الصديق، كان أوّل من جمع القرآن بين اللّوحين.

یعنی مصاحف کی تیاری میں سب سے زیادہ اجر کے مستحق ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، کیونکہ قرآن کو دو جلدوں کے درمیان جمع کرنے کی ابتدا انہوں نے ہی کی۔

یہ فیصلہ امت کے لیے تین دائمی فوائد کا سبب بنا:

پہلا: قرآن، جو دین کا اوّلین اور بنیادی ماخذ ہے، ناقابلِ تصور مضبوطی کے ساتھ محفوظ ہوگیا۔

دوسرا: قرآن کے متن اور قراءت کے حوالے سے امت کے درمیان اختلاف کی ہر شکل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔

تیسرا: اسلامی شریعت کی اصل بنیاد یعنی متنِ قرآن غیر متغیر، قطعی اور ہر زمانے کے لیے یکساں قابلِ رسائی قرار پایا اور حقیقت یہ ہے کہ اس ایک فیصلہ نے امت کے علمی، فقہی، اعتقادی اور تہذیبی تسلسل کو مستقل استحکام بخشا۔

تاہم اس تاریخی فیصلے سے آج کی امت یہ سبق حاصل کرتی ہے کہ دین کی حفاظت صرف جذبات یا محض تقاریر سے نہیں ہوتی، بلکہ منظم ادارتی فیصلوں، اجتماعی دانش اور بروقت اقدامات سے ہوتی ہے۔ قرآن کو معیارِ وحدت بنانا، اس کے متن اور فہم میں غیر ذمہ دارانہ تاویلات سے بچنا اور علمی تحقیقات کو قرآنی اصولوں سے جوڑ دینا، یہ سب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکمت کا تسلسل ہیں۔

آج جب فکری انتشار اور من مانی تعبیرات کا سیلاب جاری ہے تو امت کے تحفظ کی اصل کنجی اسی اصول میں ہے کہ قرآن کو قطعی اتھارٹی مان کر اسے اجتماعی شعور کے مرکز میں رکھا جائے۔

4۔ امت کی وحدت: خلافتِ صدیقی کا سب سے بڑا معجزہ

ہم ذکر کر چکے کہ فتنۂ ارتداد محض ایک مذہبی انحراف نہیں تھا؛ یہ سیاسی بغاوت، قبائلی خودمختاری کے دعوے، جھوٹی نبوت کے فتنوں، زکوٰۃ کے انکار کی معاشی بغاوت اور قرآن کے تحفظ کو لاحق خطرات، ان تمام عوامل کا مجموعہ تھا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان مختلف النوع چیلنجز کا جس حکمت اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا، اس کے نتیجے میں امت تین بڑے بحرانوں سے ایک ساتھ محفوظ ہوگئی۔ زکوٰۃ کے انکار کے فتنے کو کچل کر دین کے اجتماعی نظم کی مرکزیت بحال ہوئی، جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف فیصلہ کن اقدام نے عقیدۂ ختمِ نبوت کو غیر متزلزل کر دیا اور قرآن کی جمع و تدوین نے دین کی علمی بنیاد کو ابدی استحکام بخش دیا۔

یہ تینوں فیصلے دراصل ایک ہی مقصد کی خدمت کر رہے تھے اور وہ مقصد امت کے شیرازے کو بکھرنے سے بچانا اور ریاستِ مدینہ کے مرکزی اقتدار کو بحال رکھنا تھا۔ انہی اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف داخلی انتشار ختم ہوا بلکہ اسلامی ریاست ایک مرتب، متحد اور مضبوط وحدت کی صورت میں ابھری۔ یہی داخلی استحکام آگے چل کر بیرونی فتوحات کا دروازہ بنا۔ چنانچہ اہل علم کے یہاں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں عراق، شام، ایران اور مصر کی عظیم فتوحات دراصل اس وحدت کا پھل تھیں جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی کمال ذہانت وبصیرت اور معاملہ فہمی کے نتیجے میں قائم فرمائی۔

5۔ آج کے فکری اور تہذیبی چیلنجز:

خلافتِ صدیقی کی رہنمائی

آج کے مسلمان بھی متعدد فکری اور تہذیبی طوفانوں کا سامنا کر رہے ہیں، جیسے سوشل میڈیا کے ذریعے تشکیک، سیکولر طرزِ فکر کی نفوذ، دینی جہالت اور مسخ شدہ تعبیرات۔ اس منظرنامہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی سیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دین کے بنیادی ستونوں میں قطعیّت، اصولوں میں قوت اور حقائق میں وضاحت لازمی ہیں۔ آج کے مسلمانوں کو بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اختیار کردہ اس اصول کے مطابق اپنے عقائد اور نظریات کی حفاظت کرنی ہوگی۔

امت کی داخلی تقسیم بھی ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔ فرقہ واریت، مسلکی تنازعات اور سیاسی انتشار نے اجتماعی قوت کو کمزور کر دیا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عطا کردہ رہنمائی اس معاملے میں واضح ہے کہ قیادت کی مرکزیت، اصولوں پر یکسانیت، فروع میں وسعت اور گنجائش، اور اجتماعی نظم کی پابندی ہی وحدتِ امت کی ضمانت ہیں۔

نوجوانوں کا فکری بحران ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ الحاد، لامذہبیت اور بے معنویت آج کے زمانے میں جدید فتنۂ ارتداد کی شکلیں ہیں۔ اس کے حل کے لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اصول ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ علم کی ازسرِنو بنیاد، قرآن و سنت کی مرکزیت، مضبوط فکری قیادت اور ادارہ جاتی دینی تعلیم کا احیاء لازمی ہے تاکہ نئی نسل مضبوط اور مستحکم ہو۔

اسی طرح، ریاست، قانون اور قیادت کے بارے میں بے یقینی بھی امت کے اتحاد کے لیے خطرہ ہے۔ جب مسلمان گروہی شناخت، جذبات اور سیاسی وابستگیوں میں بٹے ہوں تو اجتماعی قوت کمزور ہوجاتی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اصول یہاں بھی رہنمائی کرتے ہیں کہ قانون کی بالادستی، مرکزیتِ قیادت، اور اصولی نظام کے بغیر امت متحد نہیں رہ سکتی۔

آج کے زمانے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی ہمیں یہ اصول مہیا کرتی ہے کہ ہم مشکل ترین حالات میں تذبذب نہیں بلکہ واضح مؤقف کی طرف بڑھیں۔ دین کے کسی رکن، ستون یا عقیدے میں چھوٹی سے چھوٹی لچک بھی عظیم فساد کا باعث بن سکتی ہے، اس کا سد باب کریں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت یہ بتاتی ہے کہ امت کو بحران سے نکالنے کے لیے ان جیسے اوصاف کی حامل ان کے نقش قدم پر چلنے والی کسی فیصلہ کن قیادت کی ضرورت ہے۔ جو اس بات کو سمجھے کہ امت کی وحدت، دین کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں۔ جو حکمت اور تدبر کے زیور سے آراستہ ہو اور سمجھتی ہو کہ علمی و فکری نظام مضبوط کیے بغیر نئی نسل کو محفوظ نہیں رکھا جا سکتا اور مرکزیت کے بغیر کوئی امت زندہ نہیں رہ سکتی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بصیرت، غیرت، قوتِ ایمانی اور استقامت کا فیض عطا فرمائے۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ