اعتدال اور میانہ روی کے نتائج واثرات

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

گزشتہ سے پیوستہ

اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا.

(البقرہ، 2: 143)

’’ اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (ﷺ ) تم پر گواہ ہو۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے لفظ ’’وسط‘‘ کو امتِ مسلمہ کی خوبی، خصلت اور وصف کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ وسط کا مطلب؛ اعتدال، خیر خواہی، توازن، میانہ روی اور عدل ہے۔ اللہ رب العزت اسی اعتدال پسندی، میانہ روی اور سوچ و فہم کے توازن کو ہماری پوری زندگی میں جھلکتا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ امتِ مسلمہ کا نظامِ حیات اسی اعتدال و توازن کا مظہر ہو۔ یعنی ہماری شخصیت متوازن ہو۔۔۔ ہماری سوچ متوازن ہو۔۔۔ ہمارا طرزِ عمل، طرزِ زندگی اور ہمارے سوچنے سمجھنے کا انداز متوازن ہو۔۔۔ ہمارا چلنا، پھرنا، رہنا سہنا، الغرض زندگی کا ہر پہلو وسطیہ کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔ یہاں تک کہ ہمارے لین دین اور مالی معاملات میں بھی وسطیہ کی خوبی جھلکتی نظر آنی چاہیے۔

قرآنِ مجید میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرنے والوں کی درج ذیل صفات اور خوبیاں بیان ہوئی ہیں:

1۔ پیکرِ عدل 2۔ پیکرِ استقامت

3۔ سراپا حکمت 4۔ پیکرِ خیرو بھلائی

ان میں سے پہلی دو صفات کو اس مضمون کے گذشتہ حصہ (شائع شدہ ماہ نومبر 2025ء) میں بیان کیا جاچکا ہے۔ اگلی دو صفات کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے:

(3)سراپا حکمت

اعتدال پسندی اور وسطیت کی راہ اپنانے والوں کی تیسری خوبی ’’حکمت ‘‘ ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو آج کے مصطفوی نوجوان میں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا.

(البقرہ، 2: 269)

’’ جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔ ‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ رب العزت نے اسی حکمت و دانائی سے نوازا ہے۔ اسی حکمت کی بدولت آپ نے اس مشن کو پروان چڑھایا۔ ان کی دانائی، بصیرت، استقامت اور اعتدال پر مبنی فکر نے انہیں کامیابی عطا کی۔ اب یہی ہمارا سفر ہے، یہی ہمارا ہتھیار، یہی ہمارا قلم، یہی ہماری پہچان ہے۔ جب ہماری زندگی کا توازن (life equilibrium) بگڑتا ہے، تو سمجھ لیں کہ ہمارا اعتدال اور میانہ روی یعنی ہماری وسطیت کمزور پڑ رہی ہے۔

(4) پیکرِ خیرو بھلائی

اعتدال و میانہ روی پر قائم رہنے والوں کی چوتھی خوبی ’’پیکرِ خیر ہونا‘‘ ہے۔ یعنی اعتدال والے ہمیشہ خیر کی بات کرتے ہیں۔ جو لوگ اعتدال کے حامل ہوتے ہیں، وہ دراصل رحمت کے امین ہوتے ہیں۔ جہاں خیر ہوگی وہاں رحمت ہوگی، اور جہاں رحمت ہوگی وہاں خیر ضرور ہوگی۔ اگر انھیں کوئی برا بھلا بھی کہتا رہے، تب بھی وہ اس کے دامن میں کچھ نہ کچھ ڈالتے رہتے ہیں کیونکہ خیر والے؛ دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ جو لوگ متوازن طبیعت کے مالک ہوں، روادار، عاجزی و انکساری والے اور میانہ رو ہوں، وہی دراصل پیکرِ رحمت، پیکرِ خیر، پیکرِ حکمت اور پیکرِ توازن ہوتے ہیں۔

اعتدال و توازن اور وسطیت کے اثرات

اعتدال و توازن اور وسطیت کو اختیارکرنے کے بعد اگر انسان میں درج ذیل اثرات پیدا ہو جائیں تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ میانہ روی اپنے مقامِ تکمیل تک پہنچ گئی ہے اور اگر یہ اثرات و نتائج موجود نہ ہوں تو وہ جان لے کہ میانہ روی ابھی گرداب میں ہے، منزل تک نہیں پہنچی۔ یہ ایک پیمانہ ہے، جسے ہمیں اپنے اوپر لاگو کرنا ہوگا:

(1)روح اور جسم کے تقاضوں میں توازن

یاد رکھیں! جب انسان میں اعتدال و توازن اور وسطیت آتی ہے تو یہ اس کی روح اور جسم کے درمیان بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ صرف ظاہری تقاضوں کے مابین توازن و اعتدال رکھتا ہے بلکہ وہ ظاہر و باطن، جسم و روح دونوں کے تقاضوں کو احسن طور پر پورا کرتا ہے۔ جب بندہ اپنی سوچ، فکر، نظریہ، میلان، رجحان، خواہشات اور معاملاتِ حیات میں توازن قائم کر لیتا ہے، تب وہ کامل اور متوازن شخصیت کا مالک بنتا ہے۔ یہ توازن تب پیدا ہوتا ہے جب روح اور جسم دونوں کو افراط و تفریط سے بچایا جائے۔ روح کو اس کی حد میں اور جسم کو اس کی حد میں قائم رکھا جائے۔ اگر روح جسم کی حد میں داخل ہو جائے، یا جسم روح کی حد پار کر جائے تو توازن بگڑ جاتا ہے۔ اپنی اپنی حدود میں رہنے سے منزل جلدی ملتی ہے، اور یہی توازن کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک خوبصورت مثال نمازِ جمعہ کے حکم میں دی ہے۔ ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.

(الجمعہ، 62: 9)

’’ اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ ‘‘

یہی اعتدال، اقتصاد اور وسطیت ہے کہ انسان کام بھی کرے، مگر اللہ کو نہ بھولے۔ اللہ نے پہلے عمل کی مشق کروائی، پھر دنیا میں رہنے کا اصول سکھایا کہ کاروبار کرو مگر اللہ کو یاد رکھو۔ پہلے فرمایا کہ جب اللہ کی طرف بلایا جائے تو کاروبارِ حیات معطل کرتے ہوئے، کشاں کشاں ذکرِ الہٰی کی طرف آؤ۔۔۔ اور پھر فرمایا کہ جب اللہ کی عبادت سے فارغ ہوجاؤ تو اپنے کام اور روزگار کی طرف لوٹ جاؤ۔۔۔ اور پھر تیسرا حکم دیا کہ جب اپنے کاروبارِ حیات کی طرف لوٹو تو اس میں اتنا نہ کھوجاؤ کہ اللہ کو بھلا بیٹھو بلکہ کام کے دوران بھی اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو۔

آج ہمارا شیرازہ اس وجہ سے بکھر گیا ہے کہ ہم دنیا میں جائیں تو دین بھول جاتے ہیں اور دین میں آئیں تو دنیا بھول جاتے ہیں۔ کوئی دیندار ہو کر افراط میں چلا جاتا ہے اور کوئی دنیا دار ہو کر تفریط میں گم ہو جاتا ہے۔ کبھی الحاد و دہریت کی طرف جھکاؤ۔۔۔ کبھی سیکولرزم کی انتہا۔۔۔ کبھی دین داری کی شدت۔۔۔ کوئی خوشحالی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور جب دنیا کا دکھ ملے تو ناشکری میں چلا جاتا ہے۔۔۔ صحبت اچھی مل جائے تو اللہ یاد آتا ہے اور جب صحبت بدلے تو اللہ بھول جاتا ہے۔ الغرض ہم کہیں نہ کہیں توازن کھو بیٹھتے ہیں۔

اللہ فرماتا ہے: جب میری خاطر رزق کماؤ تو مجھے یاد رکھو۔ میں ہی برکت دینے والا ہوں اور جب برکت ملے تو مجھے مت بھولو اور اس حال میں رزق کماؤ کہ اللہ بھی یاد رہے۔ رزق کماؤ اور دنیا والوں کے حقوق بھی ادا کرتے رہو، مگر ہر حال میں کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ یہی حقیقی میانہ روی اور اعتدال ہے۔

(2)دنیاوی معاملات اور روزگار میں توازن قائم رکھنا

انسانی شخصیت میں کامل اعتدال و توازن کا ایک اثر و نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر وہ بندہ دنیاوی معاملات میں بھی توازن قائم رکھتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ.

(القصص، 28: 77)

’’اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے۔ ‘‘

یعنی اللہ نے جو نعمتیں، رزق اور اسباب دیے ہیں، ان سے جنت کا گھر بنانے کی کوشش کر۔ نیکی کر، انفاق کر، غریبوں پر خرچ کر، کیونکہ تیرے مال میں ان کا حق رکھا گیا ہے مگر ساتھ ہی اللہ نے فرمایا کہ دنیا میں اپنا نصیب نہ بھولو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ دین کے غلبہ میں دنیا بھول جاؤ یا دنیا میں غرق ہو کر دین بھول جاؤ۔ دونوں کے درمیان توازن قائم رکھو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری فرماتے ہیں کہ’’دنیا میں رہو، مگر دنیا کو اپنے اندر نہ رہنے دو۔ ‘‘ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم توازن قائم نہیں کر پاتے، کیونکہ ہم نے خود کو اللہ کا بندہ نہیں بنایا۔ اگر ہم مطیع بن جائیں تو اللہ ہمیں غرق ہونے سے بچا لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً.

(البقرہ، 2: 201)

’’ اور انہی میں سے ایسے بھی ہیں جو عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔ ‘‘

گویا جو لوگ دنیا اور آخرت کی بھلائی کو برابری سے چاہتے ہیں، وہی دراصل متوازن اور معتدل ہوتے ہیں۔

(3)ہر حال میں میانہ روی و اعتدال

شخصیت میں کامل اعتدال و توازن ہونے کا تیسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ہر حال میں میانہ روی و اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ میانہ روی ہر حال میں ہونی چاہیے۔ چاہے دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا۔ روزگار کا ہو یا مسجد میں جانے کا یا مسجد سے واپس آ کر کاروبار میں مشغول ہونے کا۔ ہر جگہ میانہ روی اختیار کریں۔ حتیٰ کہ بندہ انسانیت یعنی غیر مسلموں کے ساتھ بھی اسی میانہ روی والے لہجے کو اپنائےکیونکہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.

(الممتحنہ، 60: 8)

’’ اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘

گویا جب تمہیں حکومت و اقتدار دے دیا جائے اور جب تمہاری نصرت کا دن ہو، تو ان کے ساتھ بھلائی، انصاف اور عدل کے ساتھ سلوک کرنا۔ آقا علیہ السلام نے فتح مکہ کے موقع پر تمام کفار کو معاف کردیا اور ان ہی الفاظ کو بیان فرمایا جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا:

لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.

(یوسف، 12: 92)

’’ آج کے دن تم پر کوئی ملامت (اور گرفت) نہیں ہے۔ ‘‘

معتدل شخص وہ ہوتا ہے جو ہر ایک سے ایک ہی انداز میں معاملہ نہیں کرتا بلکہ جس کا جتنا جرم ہے، اتنی ہی معاقبت کرتا ہے، اور جس کا جرم نہیں، اسے معاف کرنے والا دل رکھتا ہے۔

شریعت کے معاملے میں بھی اللہ رب العزت نے توازن و میانہ روی عطا کی ہے۔ فرمایا:

لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.

(البقرہ، 2: 286)

’’ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ ‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا.

(الطلاق: 7)

’’ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے۔ ‘‘

گویا جتنا بوجھ ڈالتا ہے اور جتنا عطا کرتا ہے اتنا ہی مکلف کرتا ہے، اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا:

يسروا ولا تعسروا وسكنوا ولا تنفروا.

”آسانی پیدا کرو، تنگی نہ پیدا کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو نفرت نہ دلاؤ۔ “

(صحيح البخاری، كتاب الأدب، باب قول النبى ﷺ : يسروا ولا تعسروا، رقم الحدیث: 6125)

جب بندہ اپنی سوچ، فکر، نظریہ، میلان، رجحان، خواہشات اور معاملاتِ حیات میں اعتدال قائم کر لیتا ہے، تب وہ کامل اور متوازن شخصیت کا مالک بنتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کو بھائی بھائی بنایا۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ان کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تو ام الدرداءj کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا اور پوچھا، کیا حال ہے؟ انھوں نے کہا:

اخوك ابو الدرداء ليس له حاجة في الدنيا

تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔

پھر ابودرداء تشریف لائے تو سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کھائیے، میں روزے سے ہوں۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بولے کہ میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا۔ جب تک آپ بھی نہ کھائیں۔ چنانچہ ابودرداء نے بھی کھایا۔ رات ہوئی تو ابودرداء رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگے۔ سلمان نے کہا کہ سو جایئے۔ پھر جب آخر رات ہوئی تو سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اب اٹھیں۔ پھر دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا:

إن لربك عليك حقا ولنفسك عليك حقا ولاهلك عليك حقا فاعط كل ذي حق حقه.

(صحيح البخاری، كتاب الأدب، باب صنع الطعام والتكلف للضيف، رقم الحدیث: 6139)

بلاشبہ تمہارے رب کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، پس سارے حق داروں کے حقوق ادا کرو۔

پھر یہ دونوں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

صَدَق سَلمان. سلمان نے سچ کہا ہے۔

ó حضور نبی اکرم ﷺ کو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی عبادت میں بے اعتدالی کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا:

الم اخبر انك تقوم الليل وتصوم النهار" قلت: بلى، قال: " فلا تفعل قم ونم وصم وافطر، فإن لجسدك عليك حقا، وإن لعينك عليك حقا، وإن لزورك عليك حقا، وإن لزوجك عليك حقا، وإنك عسى ان يطول بك عمر، وإن من حسبك ان تصوم من كل شهر ثلاثة ايام، فإن بكل حسنة عشر امثالها فذلك الدهر كله" قال: فشددت فشدد علي، فقلت: فإني اطيق غير ذلك، قال: " فصم من كل جمعة ثلاثة ايام" قال: فشددت فشدد علي، قلت: اطيق غير ذلك، قال: " فصم صوم نبي الله داود" قلت: وما صوم نبي الله داود؟ قال: " نصف الدهر"۔

(صحيح البخاری، كتاب الأدب، باب حق الضيف، رقم الحدیث: 6134)

کیا یہ میری خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے رہتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ جی ہاں یہ صحیح ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، عبادت بھی کرو اور سو بھی۔ روزے بھی رکھو اور بلا روزے بھی رہو، کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو گی، تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملتا ہے، اس طرح زندگی بھر کا روزہ ہو گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سختی چاہی تو آپ نے میرے اوپر سختی کر دی۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر ہر ہفتے تین روزہ رکھا کر، بیان کیا کہ میں نے اور سختی چاہی اور آپ نے میرے اوپر سختی کر دی۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام جیسا روزہ رکھ۔ میں نے پوچھا کہ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا روزہ کیسا تھا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ ایک دن افطار۔ گویا آدھی عمر کے روزے۔

ó دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ میں نے کہا ہے:

وَاللَّهِ لأَصومَنَّ النَّهَارَ، ولأَقُومنَّ اللَّيْلَ مَا عشْتُ، فَقَالَ رسُول اللَّه ﷺ : "أَنْتَ الَّذِي تَقُول ذلِكَ؟ فَقُلْت لَهُ: قَدْ قُلتُه بأَبِي أَنْتَ وأُمِّي يَا رسولَ اللَّه. قَالَ: فَإِنكَ لاَ تَسْتَطِيعُ ذلِكَ، فَصُمْ وأَفْطرْ، ونَمْ وَقُمْ، وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ الْحسنَةَ بعَشْرِ أَمْثَالهَا، وذلكَ مثْلُ صِيامٍ الدَّهْرِ قُلْت: فَإِنِّي أُطيق أفْضَلَ منْ ذلكَ قالَ: فَصمْ يَوْماً وَأَفْطرْ يَوْمَيْنِ، قُلْت: فَإِنِّي أُطُيق أفْضَلَ مِنْ ذلكَ، قَالَ: فَصُم يَوْماً وَأَفْطرْ يوْماً، فَذلكَ صِيَام دَاوود ﷺ ، وَهُو أَعْدَل الصِّيَامِ وَفي رواية: هوَ أَفْضَلُ الصِّيامِ فَقُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذلكَ، فَقَالَ رسولُ اللَّه ﷺ : لا أَفْضَلَ منْ ذلِكَ وَلأنْ أَكْونَ قَبلْتُ الثَّلاثَةَ الأَيَّامِ الَّتِي قالَ رسولُ اللَّه ﷺ أَحَبُّ إِليَّ منْ أَهْلِي وَمَالِي.

(صحیح البخاری، كتاب الصوم، باب صَوْمِ الدَّهْرِ، رقم الحدیث: 1976)

’’اللہ کی قسم! میں ضرور دن کو روزہ رکھوں گا، اور ضرور رات کو قیام کروں گا، جب تک زندہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کیا تم وہی ہو جو یہ کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: "جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں نے ایسا ہی کہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "بے شک تم اس (عمل) کی طاقت نہیں رکھتے۔ پس روزہ رکھو (کبھی) اور افطار بھی کرو، سوجاؤ اور (رات میں) قیام بھی کرو۔ اور ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو، کیونکہ ایک نیکی دس گنا ہوتی ہے، تو یہ (اجر کے اعتبار سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا: "بے شک میں اس سے بھی بہتر (زیادہ) کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ "آپ ﷺ نے فرمایا: "پھر ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو۔ "میں نے کہا: "میں اس سے بھی زیادہ کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ "آپ ﷺ نے فرمایا: "پھر ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو، یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے، اور یہ سب سے زیادہ معتدل روزہ ہے۔ "ایک روایت میں (الفاظ یہ ہیں) "یہ سب سے بہتر روزہ ہے۔ "میں نے عرض کیا: "میں اس سے بھی بہتر (زیادہ) کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ "تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اس سے بہتر کوئی (روزہ) نہیں۔ "اور (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: "اگر میں وہ تین دن قبول کر لیتا جن کی رسول اللہ ﷺ نے تلقین فرمائی تھی، تو یہ مجھے اپنے اہل و مال سے زیادہ محبوب ہوتا۔ ‘‘

آقا ﷺ نے زندگی کا ایک متوازن، معتدل اور حقیقی نقشہ عطا فرمایا۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) سے نبی اکرم ﷺ کے گھر میں تشریف لے جانے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:

إذا اوى إلى منزله جزا دخوله ثلاثة اجزاء: جزءا لله، وجزءا لاهله، وجزءا لنفسه۔ ثم جزا جزاه بينه وبين الناس، فيرد ذلك بالخاصة على العامة، ولا يدخر عنهم شيئا، وكان من سيرته في جزء الامة إيثار اهل الفضل بإذنه وقسمه على قدر فضلهم في الدين، فمنهم ذو الحاجة، ومنهم ذو الحاجتين، ومنهم ذو الحوائج، فيتشاغل بهم ويشغلهم فيما يصلحهم والامة۔

(شمائل ترمذی، ﷺ ، رقم الحدیث: 335)

نبی اکرم ﷺ جب اپنے گھر تشریف لے جاتے تو اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر لیتے: ایک حصہ اللہ تعالیٰ (کے ذکر و فکر) کے لیے، ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے، اور ایک حصہ اپنے کام کاج اور آرام کے لیے۔ پھر وہ حصہ جو اپنے لیے مخصوص فرماتے، اسے دو حصوں میں تقسیم کر لیتے: کچھ اپنے لیے اور کچھ دیگر لوگوں کے لیے۔ لوگوں کے حصہ میں خواص کو عوام پر ترجیح دیتے، اور ان سے کوئی چیز مخفی نہ رکھتے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اجازت کے ساتھ اہل فضل و علم کو ترجیح دیتے اور اس وقت کو بھی دینی فضل و عظمت کے لحاظ سے تقسیم فرما لیتے۔ بعض لوگ ایک ضرورت والے ہوتے، اور بعض لوگ دو ضرورتوں والے، اور بعض زیادہ ضرورتوں والے ہوتے۔ آپ ﷺ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مشغول رکھتے اور ان تمام امور میں مشغول رہتے جن میں ان لوگوں کی اور عام افرادِ امت کی اصلاح ہوتی۔

آپ ﷺ کا وقت اور کام کی یہ تقسیم (Division of Time and Work) ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں اعتدال و توازن کو اپنانے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔

آج اگر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زندگی کی طرف دیکھیں تو انھوں نے بھی اسی اعتدال و توازن کی سوچ اور عمل کو اپنایا۔ انھوں نے آج ہر جہت پر کام کیا ہے۔ اسلام کی ہر ضرورت کو پورا کیا ہے۔ شیخ الاسلام نے موجودہ دور کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا۔۔۔ ماضی سے بھی رہنمائی لی۔۔۔ اور مستقبل کے چیلنجز کو بھی فراموش نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے وقت کو ایک balanced approach کے ساتھ استعمال کیا۔

آپ 100 ممالک میں موجود منہاج القرآن کے نیٹ ورک پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ پوری دنیا میں کارکنان و تنظیمات سے بھی رابطہ میں رہتے ہیں۔۔۔ اہل خانہ کو بھی وقت دیتے ہیں۔۔۔ علمی، فکری اور تحقیقی سرگرمیوں میں بھی تعطل نہیں آنے دیتے۔۔۔ مشن کے ہر زاویے پر نظر رکھتے ہیں۔۔۔ تعلیم و تربیت بھی ساتھ جاری ہے۔۔۔ زخمی کارکن ہو تو اس کے لیے دعا بھی کرتے ہیں۔۔۔ غم و خوشی میں بھی رابطہ کرتے ہیں۔

یہ سب ایک متوازن اور جامع طرزِ فکروعمل (balanced approach) کا نتیجہ ہے، جس کے سبب اللہ رب العزت نے اس مشن کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ شیخ الاسلام آج اگر خود ایک Role model نہ بنے ہوتے تو یہ مصطفوی مشن اسی طرح رواں دواں نہ ہوتا۔ ان کا نمونۂ عمل حضور ﷺ کی ذات اقدس سے ہے اور آقا ﷺ کا نمونہ قرآن ہے اور قرآن اللہ رب العزت کی تعلیمات کا سرچشمہ ہے۔ جب ہم اسی Role model پر چلیں گے تو ہماری زندگیوں میں بھی توازن اور اعتدال پیدا ہوگا۔

آج کے نوجوان کا توازن بگڑ گیا ہے۔ ہم آج کا کام کل کرتے ہیں اور کل کا کام آج کرتے ہیں۔۔۔ جو پہلے کرنے والا ہے، وہ بعد میں کرتے ہیں اور جو بعد میں کرنے والا ہے، وہ پہلے کرتے ہیں۔۔۔ جن کا حق بعد میں ادا کرنا ہوتا ہے، اُن کا حق پہلے ادا کرتے ہیں اور جن کے حق کی ابھی ضرورت نہیں ہوتی، اُنہیں مقدم کر دیتے ہیں۔ یوں ہماری ترجیحات بدل گئیں اور فکر کا توازن بگڑتا چلا گیا۔ آج اگر ہم کامیاب بننا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ استقامت، توازن اور ایک متوازن نقطۂ نظر (balanced approach) کے ساتھ چلنا ہوگا۔ اپنی ترجیحات کی تقسیم (division) کریں، دوبارہ جائزہ (review) لیں اور اپنے کاموں کو درست ترتیب میں رکھیں۔ عدل کی تعریف یہ ہے:

وَضْعُ الشَّیْءِ فِی مَحَلِّهٖ

ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھ دینا عدل ہے۔

آج ہمارا شیرازہ اس وجہ سے بکھر گیا ہے کہ ہم دنیا میں جائیں تو دین بھول جاتے ہیں اور دین میں آئیں تو دنیا بھول جاتے ہیں۔ کوئی دیندار ہو کر افراط میں چلا جاتا ہے اور کوئی دنیا دار ہو کر تفریط میں گم ہو جاتا ہے

عدل؛ وسطیت اور اعتدال پسندی کی پہلی صفت ہے۔ اگر ہم عادل رہنما، لیڈر اور مصطفوی کارکن بننا چاہتے ہیں تو جس میدان کی ذمہ داری پہلے ہے، جس کی اہمیت زیادہ ہے، اسے پہلے ادا کریں۔ زندگی میں توازن رکھیں۔۔۔ گھر والوں کا حق بھی ادا کریں اور اپنے کاروبار پر توجہ بھی دیں۔ کبھی یہ نہ سمجھیں کہ ہم محتاج ہیں۔ محتاج وہ ہوتا ہے جس کا ساتھ اللہ چھوڑ دے اور اللہ تو انسان کے ننانوے مرتبہ گناہ کرنے کے باوجود اسے نہیں چھوڑتا۔ لہٰذا محتاجی اس کی ہوتی ہے جو محرومی کا شکار ہو جائے اور جو اعتدال پسندی کو ترک کر دے۔ جب تک کوئی شخص اعتدال پسند رہے گا، وہ محتاج نہیں ہو سکتا۔ لہذا اقتصادی (economically)، مالی (financially)، روحانی (spiritually)، علمی (theologically) اور فکری (intellectually) طور پر اعتدال و توازن والے رویے، مزاج اور تربیت کو اپنی طبیعت میں پیدا کریں۔