انسانی وقار کا بحران اور اسلام کا اخلاقی نظام

ڈاکٹر محمد تاج الدین کالامی

انسانی تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی بحران اور تہذیبی کشمکش کا سامنا رہا ہے مگر عصرِ حاضر کا سب سے بڑا بحران، جس کا اثر ہر سماجی، اقتصادی اورروحانی شعبے پر محسوس ہوتا ہے، وہ ہے "وقارِ انسانی کا بحران"ہے۔ مادّی ترقی کی برق رفتار منازل طے کرنے کے باوجود انسان کی حرمت پامال ہوتی چلی جا رہی ہے۔ انسان کبھی سرمایہ، کبھی تجربہ کی مشین، کبھی سوشل میڈیا کا ڈیٹا اور کبھی عالمی سیاست کی شطرنج کی ایک بے بس مہرہ بنادیا جاتا ہے۔ اس بحران نے نہ صرف انسانی اخلاقی شناخت اور روحانی حیثیت کو متاثر کیا ہے بلکہ اجتماعی احترام، انسانی وقار اور سماجی ہم آہنگی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

وقارِ انسانی ایک بنیادی اخلاقی و قانونی تصور ہے جس پر انسانی حقوق کی بنیاد قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی، اسے علم، شعور اور حسنِ صورت سے نوازا۔ انسان کی عزّت و وقار کے بارے قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ.

(الإسراء، 17: 70)

اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔

اسلام میں ہر انسان عزت و احترام کا مستحق ہے، چاہے اس کا مذہب، رنگ یا نسل کوئی بھی ہو۔ انسانی عزت و وقار کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کے اندر اپنی روح پھونکی۔ قرآن میں ارشاد ہے:

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ.

(الحجر، 15: 29)

پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔

انسانی عظمت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ اللہ نے اسے زمین پر اپنا نائب بنایا، جس سے انسانی وقار کے تصور کی الہیٰ بنیاد مزید مستحکم ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.

(البقرة، 2: 30)

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی وقار رب کائنات کے منشاء کے مطابق اُس کا نائب بن کر اس کے احکامات کے تعمیل میں ہے۔

اسلام میں انسانی جان کی حرمت اتنی اہم ہے کہ ایک فرد کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا۔ ربِّ کریم کا فرمان ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا.

(المائدة، 5: 32)

جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارک میں انسان کی بے حرمتی کے بارے رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ

(سنن نسائی، کتاب تحریم الدم، باب قتال المسلم، رقم الحدیث: 4105)

کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔

اسلامی نظریے کے مطابق انسان کا وقار دو قسم کا ہو سکتا ہے:

1۔ ذاتی پیدائشی وقار (inherent dignity)

2۔ حاصل شدہ وقار (acquired dignity) یعنی وہ وقار جو انسان اپنی کاوش، اخلاق، تقویٰ یا عمل سے حاصل کرتا ہے۔

اسلام میں گورا یا کالا، طاقتور یا کمزور حتی کہ مسلمان یا غیر مسلم کا امتیار بھی نہیں بلکہ ہر انسان بلا امتیاز مذہب، جنس اور رنگ ونسل معزز ہے اور سب کا بنیادی وقار محترم ہے۔ جدید انسانی حقوق کے تناظر میں بھی ’’Human dignity‘‘ اسی تصور کی عکاسی کرتا ہے کہ ہر انسان کو صرف انسانیت کی بنا پر عزّت اور احترام ملنا چاہیے۔

1۔ عصرِ حاضر میں انسانی وقار کے بحران کے مختلف پہلو

جدید دنیا میں ٹیکنالوجی، معیشت اور میڈیا نے انسان کو مادّی قدر کا پیمانہ بنا دیا ہے۔ انسان کو اس کی پیداوار اور افادیت سے پرکھا جاتا ہے، نہ کہ اس کی انسانیت سے۔ نتیجتاً عزت و شرافت پسِ منظر میں چلی گئی ہے۔ معاشی کشمکش اور طبقاتی تفاوت نے کمزور انسانوں کو وقار سے محروم کر دیا ہے۔ نتیجتاً مزدور، یتیم، بیوہ اور غریب افراد اپنی محنت اور انسانی حیثیت کے باوجود کمتر سمجھے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں احترامِ انسانیت، عفو، عدل اور شفقت جیسے اوصاف کمزور پڑ گئے ہیں۔

زیر نظر مضمون میں ہم اس بات کا تجزیاتی مطالعہ کریں گے کہ عصر ِ حاضرمیں انسانی وقار کا بحران کن پہلوؤں میں پیدا ہواہے اور پھر اس تناظر میں اسلامی اخلاقی نظام کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا:

(1) معاشی و سماجی ناہمواری اور انسانی وقار کی پامالی

عصرِ ی اقتصادی نظریات نے طبقاتی فرق، غربت، بے روزگاری اور معاشرتی پسماندگی کو جنم دیا ہے۔ مادیت کی وجہ سے انسانی وقار ناپنے کا معیار مادی، تجارتی اور سوشل میڈیا کی بنیاد پر ہو گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو منفعت کی مشین بنا دیا ہے۔ دولت اور طاقت معیارِ عزت بن گئے ہیں۔

قرآن و سنت کی روشنی میں یہ تصور باطل ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے غلاموں، یتیموں اور مزدوروں کے وقار کو بلند کیا۔ حضور ﷺ نے جاہلی معاشرے میں محروم طبقات، غلاموں، یتیموں اور مزدوروں کے حقوق اجاگر فرما کر انہیں بلند مقام عطا کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’مزدور کی اُجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ ‘‘

حضرت بلال رضی اللہ عنہ غلام تھے، مگر آزادی کے بعد صحابہ انہیں ’’سیدنا‘‘ کہہ کر پکارا کرتے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے اہلِ بیت میں شامل فرمایا۔

(2) خودغرضی وبے اعتنائی اور انسانی وقار کی توہین

سرمایہ پرستی اور جدید مارکیٹنگ نے انسانی جذبات اور ضروریات کو مصنوعی خواہشات میں بدل دیا، جس سے انسان خود پروڈکٹ بن گیا۔ خودغرضی، خودساختہ شہرت اور دوسروں کے حقوق سے بے توجہی وبے اعتنائی نے انسانی وقار کو کمزور کیا۔ ہمدردی اور تعاون مفقود ہیں۔ نتیجتاً معاشرتی تعلقات کمزور اور باہمی احترام ختم ہو گیا ہے جس سے انسانی وقار کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے۔

اس وقت صرف حقوق کا دعویٰ کافی نہیں رہا، بلکہ اخلاقی شعور، انسانی ہمدردی، سماجی انصاف اور اسلامی اخلاقی نظام کا اطلاق ضروری ہے۔ اسلامی اخلاق کا تصور یہ ہے کہ انسان صرف اپنی ذات تک محدود نہیں بلکہ معاشرے، خاندان، اُمت اور انسانیت کا حصہ ہے۔

(3) سوشل میڈیا اور انسانی وقار کی بے حرمتی

سوشل میڈیا نے عزتِ انسانی کو مذاق بنا دیا ہے۔ طعن وتشنیع، بہتان طرازی اور طنز و تحقیر کو ’’اظہارِ رائے‘‘ سمجھا جانے لگا ہے۔ اشتہارات، تفریحی صنعت اورسوشل میڈیا نے انسانی وقار کی بنیاد افادیت اور جسمانی جمالیات پر رکھ دی۔ اشتہاراتی اور تفریحی صنعت نے جسمانی جمالیات، تجارتی تشہیر، معاشرتی مقابلہ بازی کو فروغ دیا ہے۔ نتیجتاً انسان کے وقار کی بنیاد اس کی قیمت اور افادیت پر مبنی ہو گئی ہے، نہ کہ اس کی انسانیت پر۔ انسان ایک ’’ڈیجیٹل غلام‘‘ بن کر اللہ رب العزت کی نافرمانی پر اتر آیا ہے۔ قرآن نے خبردار کیا تھا:

إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَىٰ.

(العلق، 96: 6)

(مگر) حقیقت یہ ہے کہ (نافرمان) انسان سر کشی کرتا ہے۔

فحش تبصرے، طنز، سیاسی تمسخر اورمذہبی اشتعال انگیزی انسانی وقار کے بحران کو بڑھا رہے ہیں۔ عصرِ حاضر میں افواہ، بہتان اورنفرت انگیزی نے ’’زبان‘‘ کو ہتھیار بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی زبان میں زہر ہے جس سے دلوں میں فاصلے ہوتے ہیں، رشتہ داروں، خاندانوں اور دوست احباب کے درمیان طویل ناراضگیاں، آئے روز کا معمول بن چکی ہیں۔ قرآن نے خبردار فرمایا:

وَلَا تَنَابَزُواْ بِٱلۡأَلۡقَٰبِۖ بِئۡسَ ٱلِٱسۡمُ ٱلۡفُسُوقُ بَعۡدَ ٱلۡإِيمَان.

(الحجرات، 49: 11)

اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے۔

غورکریں یہ آیت جدید ’’Verbal Abuse‘‘ کے خلاف کس قدر مضبوط اصول پیش کر رہی ہے۔ اسلامی اخلاق کے مطابق، انسان کی عزّت وہ نہیں جو معاشی یا جسمانی پیمانوں سے ماپی جائے، بلکہ وہ ہے جو خداوندِ کریم نے اسے عطا کی ہے۔

(4) خاندانی نظام کی تباہی اور انسانی وقار کی بے توقیری

مغربی تہذیب نے خاندان کی بنیادیں ہلا دیں ہیں۔ ماں باپ کا مقام پامال ہو کر رہ گیا ہے۔ بچوں کا مستقبل سکرین کے سپرد کردیا گیا ہے۔ ازدواجی استحکام ناپید ہے۔ نتیجتاً انسان کا جذباتی و سماجی وقار ٹوٹ چکا ہے۔ جدید دنیا میں انسان ترقی یافتہ تو ہے مگر تعلقات و اخلاقیات سے یکسر محروم ہے۔ باہمی رنجش، بائیکاٹ اورضد وانا نے گھروں کو اجاڑ دیا ہے۔ حسد، بغض اورباہمی چپقلش نے انسانی وقار، روحانی سکون اور خاندانی تعلقات کو کمزور کر دیا ہے۔

(5)قطع تعلقی: وقارِ آدمیت کی توہین آمیز صورت

اسلامی اخلاقی نظام میں قطعِ تعلقی کوئی معمولی اخلاقی خامی نہیں، بلکہ شرعی طور پر ناجائز عمل ہے۔ جو شخص کسی سے قطع تعلقی کرتا ہے، وہ گویا اُس کے وجود کو غیر اہم قرار دیتا ہے۔ کسی فرد کو نظرانداز کرنا، اس سے دانستہ بے رخی برتنا یا اس کے وجود کو غیر اہم سمجھنا انسانی وقار کی توہین ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا:

لاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ: فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ.

(بخارى، كتاب الأدب، باب الهجرة: 5727)

کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ میل ملاقات چھوڑے رہے، ا س طرح جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے۔ اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔

تین دن سے زیادہ بُعد رکھنا دلوں میں نفرت پیدا کرتا اور فاصلے بڑھاتا ہے اورمحبت و مساوات کے اخلاقی ڈھانچے کو مجروح کرتا ہے۔ سلام میں پہل کرنا دراصل عاجزی کا اظہار ہے اورعاجزی ہی وقار کا بلند ترین درجہ ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ خاندانی تعلقات جڑے رہیں، ناراضگی کی صورت میں پہل کرنا اخلاقی بلندی ہے۔

(6) ریاستی سطح پر انسانی وقار کی بے وقعتی

ریاستی جبر، طاقت کے ناجائز استعمال، معاشی استحصال اورمجبور ومقہور طبقات، خصوصاً مزدوروں، عورتوں، اقلیتوں اور پناہ گزینوں پر ظلم، انسانی وقار کے بحران کی نمایاں صورتیں ہیں۔ جنگوں، سیاست اورمیڈیا میں عام شہریوں کی تذلیل اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ انسانی وقار کی پامالی کی یہ صورتیں جدید دنیا میں زیادہ نمایاں ہوئی ہیں، جہاں طاقتور اپنے مفاد کے لیے کمزوروں کو نظر انداز اور استحصال کا شکار کرتے ہیں۔

اسلامی اخلاقی نظام میں ہر مسلمان کی جان، مال اور عزت و وقار کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا۔ کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ پھر فرمایا:

كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ.

(صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم ظلم المسلم۔۔۔: 2564)

ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔

یہ حدیث آج بھی انسانی وقار کے تحفظ کا جامع ضابطہ فراہم کرتی ہے۔

2۔ انسانی وقار کی بحالی کے لیے اسلامی اخلاقی نظام کے اقدامات

اسلامی معاشرت میں وقارِ انسانی کسی مذہب، نسل یا طبقے تک محدود نہیں، بلکہ ہر انسان کی احترام پر مشتمل ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے قول و فعل میں خیر غالب ہو اور وہ دوسروں کے لیے راحت و امن کا ذریعہ بنے۔

(1) زبان اور ہاتھ سے دوسروں کی حفاظت

انسانی وقار کی بحالی کے لیے اسلامی اخلاقی نظام کا پہلا اقدام دوسروں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے تکلیف نہ پہنچانا ہے۔ زبان اور ہاتھ سے محفوظ رکھنا انسانیت کا عملی تقاضا ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا:

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ.

(صحیح البخاری: 10 و مسلم: 64)

کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔

ایک اور حدیث میں فرمایا گیا:

وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ.

(مسند احمد بن حنبل، 2: 379، رقم الحدیث: 8918)

مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال کے بارے میں امن محسوس کریں۔

یہی اصول عصرِ حاضر میں انسانی وقار کے بحران کا علاج ہے۔ جب زبان خیر بانٹے اور ہاتھ ظلم سے رک جائے تو معاشرہ ایمان کا مظہر بن جاتا ہے اورانسان اپنی اصل عظمت کو پا لیتا ہے۔ اگر ایک مسلمان اپنی زبان سے دوسروں کی عزت ووقار کو پامال کرے، یا اس کا ہاتھ ظلم کا ذریعہ بنے تو اس کے اعمالِ صالحہ محض ظاہری حرکات و سکنات ہیں جو نور و روح ِ ایمانی سے خالی ہو تے ہیں۔

انسانی وقار کی پامالی زیادہ تر زبان اور عمل سے ہوتی ہے۔ غیبت، بہتان، تحقیر، طنز اور ظلم انسان کی عزت کو مجروح کر دیتے ہیں لیکن یاد رکھیں ہمارا ہر قول لکھا جار رہا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَّا يَلۡفِظُ مِن قَوۡلٍ إِلَّا لَدَيۡهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ.

(ق، 50: 18)

وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لیے) تیار رہتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ.

(سنن الترمذی: 2616)

لوگوں کو (جہنم کی) آگ میں چہروں یا نتھنوں کے بل گھسیٹنےوالی چیز ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصلوں کے سوا اور کیا ہے؟

یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی وقار کا تحفظ زبان کی درستگی سے شروع ہوتا ہے۔ جب زبان خیر بولتی ہے تو معاشرہ امن پاتا ہے اورجب زبان زہر اگلتی ہے تو وقارِ انسانیت مجروح ہوتا ہے۔

(2)حاسدانہ جذبات سے اجتناب

اسلامی وقار کی بحالی کے لیے اسلامی اخلاقی نظام کا دوسرااہم ترین اقدام حاسدانہ جذبات کی بیخ کنی ہے۔ حسد نہ صرف دوسرے انسان کی عزت پر حملہ ہے بلکہ اللہ کے عدل پر عدمِ اعتماد بھی ہے، جو انسانی وقار کی سب سے بڑی توہین ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

أَمۡ يَحۡسُدُونَ ٱلنَّاسَ عَلَىٰ مَآ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦ.

(النساء، 4: 54)

کیا یہ لوگوں (سے ان نعمتوں) پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حسد دراصل اللہ کے فیصلے سے ناخوشی ہے۔ احادیثِ نبویہ میں حسد و بغض کی سخت مذمت کی گئی ہے کہ حسد ایمان کو جلا دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ ‘‘

(ابو داود، حدیث 4903)

انسان جب دوسرے کی نعمت دیکھ کر جلتا ہے، تو دراصل اپنی نیکیوں کو راکھ کر دیتا ہے۔ یہ عمل وقارِ انسانی کے خلاف ہے، کیونکہ وقار کا جوہر رضا، قناعت اور خیر خواہی ہے اور حسد ان تینوں کو مٹا دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’آپس میں بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی بن جاؤ۔ ‘‘ (بخاری و مسلم)

یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ اسلام کا معاشرہ محبت اور بھائی چارے پر قائم ہوتا ہے۔ حسد، بغض اور قطع تعلقی انسانی وقار کو کمزور کرتے ہیں، جبکہ عفو و محبت انسان کے وقار کو بلند کرتی ہے۔

(3)عفو ودرگزر کے روّیہ کا فروغ

انسانی تصورِ وقار کو قائم رکھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان اپنی عزت تب محفوظ رکھتا ہے جب وہ دوسروں کی عزت کا احترام کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ.

(صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب إستحباب العفو والتواضع: 2588)

صدقہ کے ذریعے مال کم نہیں ہوتا اور عفوودرگزر کرنے سے اللہ تعالی آدمی کی عزت میں ہی اضافہ فرماتا ہے اور جو آدمی اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرما دیتا ہے۔

معلوم ہوا کہ جو شخص دوسروں کو معاف کرتا ہے، وہ خود اپنی عزت اور وقار میں اضافہ کرتا ہے۔

(4)دلجوئی اورعیب پوشی کا خیال کرنا

غمزدوں کی دلجوئی کرنا اور لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالنا بھی اسلامی اخلاقی نظام کی وہ تعلیم ہے جو انسانی وقار کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلامی اخلاقیات میں دلجوئی اورپردہ پوشی کو انسانی وقار کے تحفظ کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لاَ تُؤْذُوا المُسْلِمِينَ، وَلاَ تُعَيِّرُوهُمْ، وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنْ يَتْبَعْ عَوْرَةَ أَخِيهِ المُسْلِمِ، يَتْبَعِ اللهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ يَتْبَعِاللهُ عَوْرَتَهُ، يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ.

(سنن الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في تعظيم المؤمن: 2032)

مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عارمت دلاؤ اوران کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا وذلیل کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرہو۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کی نظرمیں مومن (کامل) کی حرمت کعبۃ اللہ سے زیادہ عظیم ہے۔

یہ اعلانِ دراصل انسانی dignity (وقار) کی بنیاد ہے۔ کعبۃ اللہ جس کی تعمیر حضرت ابراہیم و اسماعیلd نے کی، جس کی حرمت پر قرآن میں تاکید ہے، اُس سے بھی بڑھ کر ایک مومن کی عزت و جان، اس کی آبرو اور احساسات کا احترام قرار دیا گیا۔

اسی طرح حضور علیہ السلام نے فرمایا:

وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.

جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا۔

(صحىح مسلم: 2699)

ان تعلیمات سے واضح ہوتا ہے کہ مومن کی عزت، احساسات اور اس کے رازوں کا تحفظ انسانی وقار کی اصل روح ہے۔

(5) اسلامی اخوت سے وقارِ انسانی کی بحالی

عصرِ حاضر میں انسانی وقار کی بحالی اسلامی اخلاقی نظام، اخلاقی شعور، ہمدردی، تعاون اورروحانی اخوت سے ہی ممکن ہے۔ قرآن نے فرمایا:

إِنَّمَا ٱلۡمُؤۡمِنُونَ إِخۡوَةٌ فَأَصۡلِحُواْ بَيۡنَ أَخَوَيۡكُمۡۚ.

(الحجرات، 49: 11)

بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو۔

قطع تعلقی سے دلوں میں رنجش پیدا ہوتی ہے، جس سے محبت، تعاون اورانسانی احترام کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسلام نے ایسے رویے کو ایمان کے منافی قرار دیا ہے۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے محرومی کا باعث بھی بنتا ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا:

تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ يَوْمِ خَمِيسٍ وَاثْنَيْنِ، فَيَغْفِرُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، لِكُلِّ امْرِئٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا امْرَأً كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا.

(صحىح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب النهى عن الشحناء والتهاجر: 2565)

ہر پیر اور جمعرات کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی مغفرت کر دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، اس شخص کے سوا کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت اور کینہ ہو، تو (ان کے بارے میں) کہا جاتا ہے: ان دونوں کو رہنے دو یہاں تک کہ یہ آپس میں صلح کر لیں، ان دونوں کو رہنے دو یہاں تک کہ یہ دونوں(عداوت چھوڑ کر) آپس میں صلح کر لیں۔

قطع تعلقی کو معمول سمجھنا انسانی وقار کی نفی ہے۔ آج کا انسان انفرادیت، خود پسندی اورسماجی تنہائی میں مبتلا ہے۔ معاشرتی تعلقات، سیاسی گروہ بندی اورمذہبی تقسیم نے دلوں میں نفرت پیدا کر دی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی انا کے حصار میں قید ہو کر دوسروں کی عزت و وقار بھول چکا ہے۔

3۔ انسانی وقار کی بحالی اور احترامِ انسانیت کے جذبات کے فروغ میں منہاج القرآن کا کردار

شیخُ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پوری علمی و فکری تحریک کا محور وقارِ انسانی کی بحالی، احترامِ آدمیت اورامنِ عالم کا قیام ہے۔ اُن کے نزدیک انسان کی اصل شناخت اس کے رنگ، نسل، مذہب یا مقام سے نہیں بلکہ اس کی اخلاقی عظمت، روحانی پاکیزگی اورخالقِ حقیقی سے نسبت سے ہے۔ وہ بارہا اس حقیقت کو واضح کرچکے ہیں کہ اسلام نے انسان کو جس عزت و حرمت سے نوازا ہے، وہ کسی اور نظامِ فکر میں میسر نہیں۔

شیخُ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فتنہ و فساد، تشدد، نفرت اور تفرقہ انگیزی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ جو شخص انسانی حرمت کو پامال کرتا ہے، وہ دراصل خالقِ انسان کی حرمت کا منکر ہے۔ اسی لیے وہ ہر سطح پر امن، رواداری، بقائے باہمی اور انسانی یکجہتی کی دعوت دیتے ہیں۔ اُن کی تعلیمات کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ دینی فکر کو سیاسی یا فرقہ وارانہ مفادات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ اسلام کا اصل پیغام، یعنی ’’سلامتی، محبت اور وقارِ انسانی‘‘ ، خالص اور غیر مشروط صورت میں دنیا کے سامنے آئے۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ انسانی وقار کی بنیاد صرف حقوق کے مطالبے پر نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر ہے۔ جب ہر فرد دوسرے کے احترام، عزت اورخیرخواہی کو اپنا فرض سمجھے گا تو اجتماعی سطح پر وقارِ انسانی کا وہ نظام قائم ہوگا جو اسلام کی اصل منشاء ہے۔

خلاصۂ کلام

اسلامی اخلاقی نظام انسان کے وقار کے تحفظ کا ابدی ضابطہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تعلیماتِ نبوی ﷺ کے مطابق ایمان وہ نہیں جو زبانی دعوے تک محدود ہو، بلکہ وہ ہے جس سے انسانیت امن اور تحفظ محسوس کرے۔ جب زبان خیر کا ذریعہ بنے اور ہاتھ رحمت کا مظہر، تب ہی انسان حقیقی مسلمان کہلاتا ہے۔ یہی ایمان انسان کو اس کے کھوئے ہوئے وقار سے دوبارہ آشنا کرتا ہے۔

اسلام میں اخلاق محض سماجی آداب نہیں بلکہ ایمان کا مظہر ہیں۔ عصرِ حاضر کے بگڑے ہوئے منظرنامہ میں انسانی وقار کی ازسرِنو تعمیر اسلامی اخلاقی نظام سے ہی ممکن ہے۔ جب انسان انفرادیت، خود پسندی اور نفرت کے حصار میں قید ہے تو اسلامی اخلاقی نظام ہی وہ واحد راستہ ہے جو اسے انسانیت اوروقار کی حقیقی بلندی عطا کر سکتا ہے۔