جدید ترقی اور روحانی تنزلی، اسباب و تدارک

ڈاکٹر محمد اظہر عباسی

اللہ رب العزت نے اپنی حکمتِ بالغہ سے اس کائنات کے لیے ایسے ضوابط اور اصول وضع کر رکھے ہیں جن سے کائنات کا ذرہ بھی سرِمو انحراف نہیں کر سکتا۔ ان کا ئناتی ضابطوں کو قرآن کریم نے سنت اللہ اور فطرۃ اللہ کا نام دیا ہے اور بار بار یہ بتایا ہے کہ اللہ کی سنتوں (عادتوں اور طریقوں) میں نہ کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور نہ رد و بدل ہوتا ہے۔ یہ ضابطے نہ منسوخ ہوتے ہیں نہ ملتوی۔ یہ ضابطے روز ازل سے اسی طرح کار فرما ہیں جس طرح آج ہمیں کارفرما نظر آرہے ہیں۔ یہ کائناتی ضابطے نہ صرف افراد سے لے کر اقوام، ممالک، تہذیبوں اور سلطنتوں تک کے حالات بیان کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر کائنات کی تخلیق، مقصدِ تخلیق اور اس کے مختلف نظاموں اور سیاروں میں بھی جاری و ساری ہیں۔

اقوام کی ترقی اور بقا کن اصولوں کے تحت ہوتی ہے۔۔۔؟ ممالک کا عروج وزوال کیسے ہوتا ہے۔۔۔؟ تہذیبیں کیسے بنتی اور بگڑتی ہیں۔۔۔؟ سلطنتیں اور حکمران خاندان کب اور کیسے نشیب و فراز کا شکار ہوتا ہے۔۔۔؟ ان سب سوالوں کا جواب اللہ رب العزت کی اسی سنت میں پنہاں ہے اور تاریخ در اصل اس سنت اللہ کے مطالعہ کا نام ہے۔ افرا د، اقوام اور اُمتوں کے عروج وزوال کی یہ ساری داستان جہاں تاریخ کے صفحات پر بکھری ہوئی ہے جن کا تنقیدی مطالعہ کر کے سنت اللہ کے اصول دریافت کئے جاسکتے ہیں، وہاں قرآن مجید میں بھی ایسے اشارے جا بجا موجود ہیں جن کو سامنے رکھ کر عروج و زوالِ امم کے اسباب و علل مرتب کئے جا سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں امم سابقہ کے واقعات بیان کرنے اور انبیاء کرامf کی زندگیوں کی جھلک دکھانے میں یہی مقصد کار فرما معلوم ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے عروج کا ذکر ان الفاظ سے کیا ہے: وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (البقرۃ، 2: 47)

میں نے تمہیں اپنے دور میں جہانوں پر فضیلت عطا کی تھی، تمہیں نبوت و رسالت دی تھی، حکومت و سلطنت سے نوزا تھا اور وحی و کتاب سے سرفراز کیا تھا۔

جبکہ بنی اسرائیل کے زوال کا اس طرح ذکر کیا ہے:

لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ.

(المائدہ: 78)

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں داؤد اور عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کی زبان پر (سے) لعنت کی جا چکی (ہے)۔

قرآن کریم نے جہاں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان میں بنی اسرائیل کے کافروں کو ملعون قرار دیے جانے کا ذکر کیا ہے، وہاں اس کے اسباب بھی بیان کیے ہیں۔ ان اسباب میں سے ایک یہ ہے:

كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ.

(المائدہ، 5: 79)

وہ گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے مگر ایک دوسرے کو گناہ سے منع نہیں کرتے تھے۔

گویا معاشرے میں گناہوں سے روک ٹوک کا ماحول ختم ہو جانا اور ایک دوسرے کے گناہوں کو خاموشی کے ساتھ برداشت کر لینا، اقوام کے زوال کا سبب ہےجس سے اقوام فضیلت و درجات سے لعنت و غضب کے ماحول کی طرف سفر کرنے لگتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دینے لگتی ہیں۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے بھی ایک حدیث مبارک میں یہ ارشاد فرمایا ہے:

جب کسی معاشرہ میں ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا ذوق ختم ہو جائے اور لوگ ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین چھوڑ دیں اور برائی سے روکنا ترک کر دیں تو معاشرہ کے سب لوگ مجموعی طور پر عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں۔

عصرِ حاضر کا اصل مسئلہ: عدمِ توازن

آج کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ دولت یا وسائل کی کمی نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی محرومی زندگی میں امن، چین اور سکون کا ناپید ہونا ہے۔ وہ سکون جس کے بارے میں اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:

اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ.

(الرعد، 13: 28)

یاد رکھو! دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔

وہ سکون جو موسیقی، نشہ، گناہ، فیشن اور دولت جمع کرنے میں تلاش کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں مادی کامیابی کے نمائندگان جیسے بل گیٹس، سٹیو جابز، جیک ماسب بھی اعتراف کرتے ہیں کہ روح کا سکون مادّی ترقی سے نہیں ملتا۔ تاجدار کائنات نبی مجتبی ﷺ نے فرمایا:

لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ.

دولت مال کی کثرت نہیں، دل کی امیری ہے۔

ترقی یافتہ دور کا انسان جدت کی ان راہوں تک پہنچ چکا ہے جہا ں وہ ایٹم کو توڑ رہا ہے مگر روحانی تنزلی کی اس گھاٹی کا مسافر ہے جہاں انسانی رشتوں کو جوڑنے میں ناکام ہے۔ مادی ترقی یافتہ دور میں بینک بیلنس، شہرت، طاقت، نمود و نمائش اور جاہ و منصب کو کامیابی کا معیارسمجھا جاتا ہے جبکہ قرآن کہتا ہے:

وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ.

(آلِ عمران، 3: 185)

’’اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ‘‘

دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ یہ وہ دھوکا ہے جس نےدلوں سے حیا چھین لی۔۔۔ ذہنوں سے تقویٰ نکال دیا۔۔۔ کردار سے اخلاق ختم ہوگیا۔۔۔ سوچ سے آخرت مٹا دی گئی اور یوں جدت پسند انسان ترقی کی راہ چلتے چلتے روحانی موت مر جاتا ہے۔ پھر معاشرے میں انسان تو ہوتے ہیں مگر انسانیت نہیں ہوتی۔ گوشت کے زندہ جسموں میں مردہ روحیں رہنا شروع کر دیتی ہیں۔

الله تعالیٰ نے دنیا میں جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں، عام طور پر ان میں افراط وتفریط انسان کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے لیے مفید ترین چیزیں بھی اگر حدِ اعتدال سے بڑھ جائیں یا حد ِ ضرورت سے کم ہوجائیں تو انسان کے لیے رحمت کے بجائے زحمت اورانعام ِ خداوندی کے بجائے عذاب ِ آسمانی بن جاتی ہیں۔ مثلاً: ہوا ا نسانی زندگی کے لیے جزو لا ینفک ہے لیکن جب آندھیاں چلتی ہیں تو یہی حیات بخش ہوا کتنی ہی انسانی آبادیوں کو تاخت وتاراج کرکے رکھ دیتی ہیں۔ پانی زندگی وحیات کا سرچشمہ ہےلیکن جب دریاؤں کی متلاطم موجیں اپنے دائرے سے باہر آجاتی ہیں تو کس طرح سبزہ زارکھیتوں اور شاد وآباد بستیوں کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جاتی ہیں۔ قدرت کی اکثر نعمتوں کا یہی حال ہے۔ اس لیے الله تعالیٰ نے اس کائنات کا نظام توازن و اعتدال پر رکھا ہے۔ سورج اور زمین کے درمیان ایک متوازن فاصلہ رکھا ہے۔ یہ فاصلہ بڑھ جائے تو زمین برف سے ڈھک جائے گی اور اگر فاصلہ کم ہوجائے تو زمین پرناقابل ِ برداشت گرمی ہوگی۔ قدرت کا پورا نظام اعتدال پر قائم ہے اور یہ ترازو رب کائنات نے خود اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔

سائنس، علم، ایجادات، ٹیکنالوجی درحقیقت انسان کے لیے اللہ رب العزت کے خزانۂ علم کی خیرات ہے جس سے انسان زندگی کے معمولات میں سہولت و آسانی پیدا کرتا ہے مگر ہم اُس میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہوگئے اور توازن کھو بیٹھے۔ جدید سائنس، ٹیکنالوجی کی بدولت جو ترقی ہمارے لیے ایک طرف بہت فائدہ مند ثابت ہورہی ہے، دوسری طرف ہم اس کے نقصانات سے بھی دو چار ہیں۔ اس نے ہمیں بہت ساری مختلف فکروں اور مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کے لگاتار استعمال نے معاشرے میں بڑی خرابیاں پیدا کردی ہیں۔ انسان اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو رہا ہے۔ وہ اب اخلاقیات، محبت، شفقت، ادب، احترام، انسانیت، شرافت وغیرہ سب کو بھول کر صرف مشین بن کر رہ گیا ہے۔۔۔ وہ اخلاقیات کو بھلا کر بداخلاق ہو چکا ہے۔۔۔ محبت نے نفرت کی شکل اختیار کرلی ہے۔۔۔ شفقت بے دلی میں۔۔۔ ادب و احترام بدتمیزی میں۔۔۔ انسانیت ظلم و ستم میں۔۔۔ اور شرافت غنڈہ گردی میں بدل گئی ہے۔۔۔ رحمدلی کی جگہ اب نفرت نے لے لی ہے۔

زندگی میں عملی توازن کیونکر ممکن ہے؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی میں عملی طور پر یہ توازن کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ، عام فہم اور آسان ہے۔ اس کے لیے کسی فلسفیانہ تمہید کی ضرورت نہیں بلکہ درج ذیل اقدامات کرنا ہوں گے:

1۔ ہر لمحہ ایمان کی تجدید کرنا ہوگی کیونکہ دل ایمان کی تجلی کے بغیر مردہ ہے۔

2۔ عبادات میں خشوع و خضو ع قائم کرنا ہو گا اور تما م عبادتوں کی پابندی کرنا ہو گی کیونکہ قلبی تعلق کے ساتھ عبادات میں مداومت گویا سکون قلب کا دروازہ ہے۔

3۔ قرآن کریم سے اپنا تعلق قائم کرنا ہوگا کہ کتاب الہی ہر دور میں رہنمائی اور ہر مرض کی دواہے۔

4۔ صاحب قرآن ﷺ سے قلبی حبی، روحانی تعلق مضبوط کرنا ہو گا، درود و سلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا نا ہو گا کہ ہر پریشانی دکھ درد تکلیف کا مداوا اس ورد میں رکھا ہے۔

5۔ اسلام حلال کمائی کا حکم دیتا ہے۔ سود کو حرام کرتا ہے، تجارت کو برکت کا ذریعہ قرار دیتا ہے، محنت کی قدر کرتا ہے، دولت کے بہاؤ کو متوازن رکھتا ہے، فقراء و مساکین کے حقوق دیتا ہےاور زکوٰۃ کی بنیاد رکھتا ہے۔ اسلام میں معاشی توازن سے مراد کسب و تصرف میں توازن و اعتدال ہے، جس کی طرف حضورِ اقدس ﷺ کے اس ارشادِ گرامی سے رہنمائی ملتی ہے۔

اَلْاِقْتِصَادُ فِيْ النَّفَقَۃِ نِصْفُ الْمَعِیْشَۃِ

(مشکوٰۃ)

’’خرچ میں میانہ روی آدھی معیشت ہے۔ ‘‘

اسی طرح سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَا عَالَ مَنْ اقْتَصَدَ.

(مسند احمد بن حنبل)

میانہ روی و توازن سے چلنے والا کبھی محتاج و تنگدست نہیں ہوتا۔

انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کا دائرہ اتنا ہی رکھے جتنے اس کے مالی وسائل ہیں۔ مالی وسائل کی بہتات کی صورت میں وہ ضرورت پوری کرنے میں سہولت اور آسائش کے درجے سے آگے نہ بڑھے۔ کسب ِ حلال میں افراط سے اجتناب کرے اور تمام خدائی و اخلاقی پابندیوں کا پاس رکھے۔ کسی حلال روزگار سے نہ کترائے۔

6۔ آج ہماری ایک بڑی تعداد معاشرے پر اس لیے معاشی بوجھ ہے کہ انہوں نے زندگی گزارنے کا ایک معیار طے کر لیا ہے۔ اگر اس معیار کی نوکری اور معاشی وسائل انہیں دستیاب نہ ہوں تو وہ عضوِ معطل ہی بنے رہتے ہیں حالانکہ وہ معمولی تجارت، کھیتی باڑی اور عام ذرائعِ روزگار اختیار کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ دورِ نبویؐ اور دورِ صحابہؓ میں نوجوان جانور پالتے، تجارت اور کھیتی باڑی کرتے، جنگل سے لکڑیاں لا کر بیچتے اور خواتین چرخہ کاتتیں۔ یہی طرز بعد کی خلافتوں میں رہا۔ اسراف و تبذیر کی روش اسلامی معاشرے میں عیب اور چھچھورپن کی علامت تھی اور اسے خود سر اُمراء اور بادشاہوں کا وطیرہ سمجھا جاتا۔ اگر آج بھی مسلم معاشرہ ’’معاشی توازن ‘‘ کے اس گراں قدر وصف سے کام لیتا ہے تومعاشرے میں عوامی سطح پر اسراف و تبذیر اور ان کے مہلکات پر کسی قدر قابو پایا جاسکتا ہے اور غربت و معاشی ناہمواری کا بھی تدارک ہوسکتا ہے۔

قلبی اطمینان و سکون کے حصول کے اصول

معاشرتی طور پر چند اصول ایسے ہیں جن کے عمدہ نتائج کو جدید سائنس بھی تسلیم کر چکی ہے حالانکہ یہ تمام اصول ہمارے دین متین کے متعین کردہ ہیں جو اس نے انسانی ہدایت کے لیے آج کے جدید ترقی یافتہ دور سے 1450 سال قبل انسانی معاشرے کو عطاکیے۔ ان اصولوں پر چل ہر دور کے انسان نے انسانیت کا سر فخر سے اونچا کیا۔ ہم اجمالی طور پر ان اصولوں کو سمجھتے ہیں:

(1) کثرت نہیں برکت

حقیقی خوشی چیزوں کی بہتات اور فراوانی سے نہیں مل سکتی۔ اس لئے کثرت نہیں برکت پر یقین رکھیں۔ زیادہ کی لالچ اور ہوس نے فرد اور اقوام کی زندگی سے سکون اور خوشی چھین لی ہے۔ دھیان برکت پر ہوتو برکت دینے والے سے بھی رابطہ بحال رہتا ہے۔ کثرت ِ رزق کو اپنے زورِ بازو کا کرشمہ جانا جاتا ہے اور خدا کے امتحان سے الگ گذرنا پڑتا ہے۔ انسان کو کبھی دے کر آزمایا جاتا ہے تو کبھی واپس لے کر آزمائش کی جاتی ہے۔ سرخرو وہی رہتے ہیں جنہیں برکتوں سے مالامال کر دیا جاتا ہے۔

کثرت اور بہتات سے نوجوان نسلوں میں بے معنویت اور بے مقصدیت بڑھتی ہے۔ جو بالاخر جنون اور افسردگی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ بہت سارا اکٹھا کرنے کی خواہش میں اکثر اخلاقیات اور اعلیٰ اصولوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔ زبان تو شاید خدا کا نام لے لے مگر دل صرف اور صرف مال کے ترانے گاتا ہے۔ کہنے کو عبادت خدا کی جاتی ہے مگر حقیقت میں دولت کی پوجا کی جارہی ہوتی ہے۔ بہت زیادہ بھی کم لگتا ہے اور کثیرسے بھی گذارا نہیں ہوتا۔ گنتی بہت زیادہ ہونے لگتی ہے مگر برکت اُٹھا لی جاتی ہے۔ ایک کروڑ کی کمائی ہونے لگے اور دو کروڑ کی بیماری گھر میں آن ڈیرے ڈالے تو یہ سودا بھلا کیسے نفع کا ہو سکتا ہے؟ اس لئے زندگی میں جب بھی دعا کریں تو کثرت کی بجائے برکت مانگیں تاکہ سکون اور اطمینان سے زندگی کا سفر پورا ہو سکے۔

یاد رکھیں! ’’کثرت‘‘ آزمائش ہے جبکہ ’’برکت‘‘ نعمت ہے۔۔۔ ’’کثرت‘‘ بھی نصیب ہے لیکن ’’برکت‘‘ خوش نصیبی ہے۔۔۔ ’’کثرت‘‘ ضروریات پوری ہونے کا انسانی اندازہ ہے جبکہ ’’برکت‘‘ اللہ کی طرف سے گارنٹی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ضروریات یقینا پوری ہوگی۔۔۔ ’’کثرت‘‘ کی خواہش بے چینی اور بے سکونی لاتی ہے جبکہ ’’برکت‘‘ کی خواہش صبر و قناعت پیداکرتی ہے۔ ’’کثرت‘‘ کا طلبگار ناشکرا بنتا ہے جبکہ ’’برکت‘‘ کا طلبگار شکرگزار بنتا ہے۔۔۔ ’’کثرت‘‘ والے روزِ محشر حساب کتاب میں پھنسیں گے جبکہ ’’برکت‘‘ والے حساب کتاب کی سختی سے محفوظ رہیں گے۔

حضرت ابن حاطب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

وہ کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے، یہ اس زیادہ مال سے بہتر ہے جس کی تو طاقت نہ رکھے۔ (مسند ابو یعلی)

اسلامی معاشرتی اصول یہ بتاتے ہیں کہ کثرت کے پیچھے بھاگنے سے دل کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی.

(القصص، 28: 60)

یعنی جو اللہ کے پاس ہے بہتر بھی ہے اور باقی بھی ہے۔

دنیا کی کثرت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہےجبکہ برکت دل میں سکون، رزق میں کفایت اور زندگی میں اطمینان پیدا کرتی ہے۔ برکت ایک روحانی کیفیت ہےجوکم مال میں خوشی، کم وقت میں فائدہ، کم محنت میں ثمرات اور مختصر زندگی میں عظیم کام پیدا کرتی ہے۔ جدید سائنس یہ تسلیم کرتی ہے:

More does not equal happiness

معاشرتی طور پرجہاں برکت ہوتی ہے، وہاں حسد نہیں ہوتا، حرص نہیں ہوتی اور مقابلہ بازی نہیں ہوتی بلکہ دل ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔

(2) تھوڑے پر راضی ہونا

کتاب لاریب میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ.

(الحدید: 23)

جو چلا گیا اس پر غم نہ کرو، جو ملا ہے اس پر اِترا نہ جاؤ۔

یہ آیت قلبی سکون کی بنیاد ہے۔ کم پر راضی ہونے سےدل مضبوط ہوتا ہے، حسد ختم ہوتا ہے اور دل میں اللہ کے فیصلے پر اطمینان آتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ

(سنن ترمذی)

جو اللہ کی تقسیم پر راضی ہو جائے وہ سب سے بڑا غنی ہے۔

قرآن و حدیث کا یہ اصول سماجی حسد روک دیتا ہے، طبقاتی نفرت ختم کرتا ہے اور احترام اور قبولیت پیدا کرتا ہے۔ زندگی کے سفر میں سامان کم سے کم لیکن تجربے زیادہ سے زیادہ جمع کریں۔ لوگوں سے بات چیت میں اشیاء اور چیزیں نہیں بلکہ تجربے اور احساسات کام آتے ہیں۔

صرف اپنی ضرورت کو مدِ نظر رکھیں۔ زندگی میں مقدار نہیں بلکہ معیار پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ کتنا کافی ہو گا؟ اس کا فیصلہ صرف ہمیں ہی کرنا ہے۔ 90 دن میں اگر کچھ استعمال نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے خدا حافظ کہیں تاکہ خدا کی رحمت سے کچھ نیا اس کی جگہ لے سکے۔ زندگی اُس وقت ہی تو خوبصورت بنتی ہے کہ جب تھوڑا کافی لگنے اور ہونے لگے۔ زائد سے نجات پالیں اور اشد ضرورت پر پوری توجہ مرکوز کر دیں، زندگی بہت آسان ہو جائے گی۔

اپنی چیزوں اور سوچوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں اور جو کچھ بھی فضول لگے اُس سے فوری چھٹکارا پائیں۔ سکون اور حقیقی خوشی فرد کے رویوں اور کردار سے جھلکنے لگتی ہے۔ خوف مرنے لگتے ہیں اور فرد پُراعتماد ہو کر زندگی کے ہر لمحے میں سے خوشی کشید کرنے لگتا ہے۔

(3) سادگی اختیار کرنا

اسلام نے زندگی کے ہر پہلو میں سادگی کی تعلیم دی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت سراپا سادگی تھی۔ آپ ﷺ کا لباس، کھانا، گھر اور طرزِ زندگی ہر چیز میں سادگی اور تکلف سے دوری نظر آتی ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ما قل وكفى خير مما كثر وألهى

(مشکوٰۃ شریف)

جو کم ہو اور کافی ہو، وہ بہتر ہے اُس سے جو زیادہ ہو مگر غفلت میں ڈال دے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام ظاہری نمائش، دکھاوے اور مصنوعی زندگی سے بچنے کا حکم دیتا ہے، کیونکہ یہ دل کو غافل اور نفس کو مغرور کرتی ہے۔ اسلام میں سادگی محض ایک ذاتی خوبی نہیں بلکہ ایمان کا حصہ ہے۔ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ صحابہ کرامl نے ایک روز آپ ﷺ کے پاس دنیا کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو:

إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ

(سنن ابی داؤد)

بےشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے، بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید ترقی میں ماہرین نفسیات اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں جو اسلام نے 14 سو سال پہلے دیا۔ آج کی دنیا میں "Minimalism" یعنی سادہ اور کم چیزوں والی زندگی ایک باقاعدہ تحریک بن چکی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ چیزیں، زیادہ آسائشیں اور زیادہ خواہشات انسان کو سکون نہیں دیتیں، بلکہ ذہنی دباؤ، پریشانی، احساسِ کمتری اور مصنوعی مقابلے میں مبتلا کرتی ہیں۔ اس کے برعکس، وہ لوگ جو کم چیزوں میں خوش رہتے ہیں، سادہ زندگی اختیار کرتے ہیں، اور خود کو غیر ضروری چیزوں کے بوجھ سے آزاد رکھتے ہیں، وہ زیادہ پرسکون، مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔ سادگی ہی خوبصورتی ہے، اس لئے سادگی کو بطور اندازِ زندگی اپنا لیں۔ اللہ نے ہمیں مکمل اور منفرد پیدا کیا ہے، اس لئے وُہی بنیں اور دکھائی دیں جو ہم ہیں۔ یعنی ویسے ہی لگیں اور دکھیں جیسے ہم ہیں یعنی سادہ کھائیں، سادہ پہنیں اور سادہ جیئں، زندگی بہت آسان اور پر سکون ہو جائے گی۔

خلاصۂ کلام

جدید ترقی مگر روحانی تنزلی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چراغِ راہ جلانا بھی جہادِ عظیم ہے۔ اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں ہر ہر سطح پر اعتدال و توازن کا دامن تھامنا ہوگا۔ معاشی سطح ہو یا معاشرتی دائرہ حیات توازن کی بحالی ناگزیر ہے۔ جس طرح چاقو کوئی بری چیز نہیں، کلہاڑی کوئی خطرناک چیز نہیں لیکن جب ہم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں لانے کی بجائے ان سے غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں، تب ان میں منفی رخ پیدا ہوجاتا ہے۔ جو چاقو سبزی، پھل وغیرہ کاٹنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور کلہاڑی لکڑی کاٹنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے لیکن اسے بطورِ ہتھیار کسی کی گردن کاٹیں، کسی بے گناہ کی جان سے کھیلیں یا کسی کا خون بہائیں تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس کا غلط استعمال کرنے والا ہی اصل قصوروار ہے۔

اسی طرح جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں۔ جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کے حصول کے لیےاستعمال کرتے ہیں، تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور مضر اثرات معاشرے میں ناسور بن کر پھیل جاتے ہیں۔ لہٰذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی زندگی میں توازن پید کریں اور معاشی و معاشرتی ہر دو سطح پر غیر حقیقی اصولوں، تصورات اوراعتقادات سے نجات حاصل کریں۔