الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: عقائد اور اعمال میں بگاڑ کیسے پیدا ہوتا ہے.؟

جواب: انسان کا وجود جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے جسم اور روح دونوں کے الگ الگ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے ان کی فطری اور طبعی صلاحیتوں کے مطابق ہیں۔ انسانی جسم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور مٹی میں پستی و گھٹیا پن، ضلالت، گمراہی، حیوانیت و بہیمیت، شیطانیت اور سرکشی جیسی خاصیتیں پائی جاتی ہیں، اسی لیے نفسِ انسانی فطری طور پر برائیوں کی طرف رغبت دلاتا رہتا ہے۔ گویا گناہوں کی آلودگیاں اور حق سے انحراف نفسِ انسانی کی فطرت میں شامل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ.

(يوسف، 12: 53)

بےشک نفس تو برائیوں کا ہی حکم دیتا ہے۔

لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی ملکہ بھی و دیعت کر دیا ہے جس کے تقاضے بدی و نیکی کی تمیز، حق پرستی، صداقت و امانت اور نفس کی تہذیب و تطہیر سے پورے ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا.

(الشمس، 91: 8)

’’پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔ ‘‘

اور ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:

وَھَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ.

(البلد، 90: 10)

’’اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔ ‘‘

گویا انسان کے اندر برائی اور اچھائی، بدی و نیکی، خیرو شر دونوں طرح کے میلانات ازل سے ودیعت کر دیئے گئے۔

ان دونوں کے درمیان تضاد، تصادم اور ٹکراؤ کی کيفیت قائم رہتی ہے اور جب تک یہ کشمکش قائم رہے انسان کی زندگی عجیب قسم کے تضادات اور بگاڑ کا شکار رہتی ہے۔ اسی بگاڑ سے بے راہ روی، ظلم و استحصال، فسق و فجور جنم لیتے ہیں اور انسانی شخصیت اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے بے سکون و بے اطمینان رہتی ہے۔ یہی کیفیت انسان کے اعمال و عقائد میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ ایسی صورتحال کے تدارک کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ.

میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سنت۔

(مالك، الموطأ، کتاب: القدر، باب: النهي عن القول بالقدر، 2: 899، الرقم: 1594)

مذکورہ بالا حدیث مبارک میں کتاب اللہ یعنی قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ سے جڑے رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ دیگر روایات میں قرآن مجید اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت زید بن اَرقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا: کِتَابُ اللہِ فِيْهِ الْهُدَی وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِکِتَابِ اللہِ وَاسْتَمْسِکُوا بِهِ. فَحَثَّ عَلَی کِتَابِ اللہِ وَرَغَّبَ فِيْهِ. ثُمَّ قَالَ: وَ أَهْلُ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ ﷲَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ ﷲَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ ﷲَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.

میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت و نورہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پرعمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔ پھر آپ ﷺ نے کتاب اللہ (کے اَحکامات پر عمل کرنے پر) اُبھارا اور اس کی طرف ترغیب دلائی۔ اور پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہلِ بیت ہیں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ سے ڈراتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ سے ڈراتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ سے ڈراتا ہوں۔

(مسلم، الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة رضی الله عنهم، باب: من فضائل علي بن أبي طالب رضی الله عنه، 4: 1873، الرقم: 2408)

دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ، لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: كِتَابُ اللَّهِ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي. وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الحَوْضَ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا.

میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ تعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک بندھی ہوئی رسی کی طرح ہے؛ اور میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں۔ اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ یہ دونوں اکٹھے میرے پاس حوضِ کوثر پر آئیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو۔

(ترمذي، السنن، کتاب: المناقب، عن رسول اللہ ﷺ ، باب: مناقب أهل بيت النبي ﷺ ، 5: 663، الرقم: 3788)

ان روایات میں رسول اللہ ﷺ نے دو ٹوک الفاظ میں گمراہی کے تدارک کا لائحہ عمل بھی بتا دیا ہے۔ اس لیے جو مسلمان کتاب و سنت اور عترتِ رسول سے دور ہوجائے تو اس کے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔

سوال: ضروریات دین کا اثبات کن دلائل سے ہوتا ہے؟

جواب: ہمارے نزدیک ضروریاتِ دین ہی ضروریات اہلِ سنت بھی ہیں۔ نماز ‘روزہ ‘حج ‘زکوۃ کی فرضیت اور زنا، قتل، چوری اور شراب خوری کی ممانعت‘ رسول اکرم ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا اقرار وغیرہ جیسے احکام قطعیہ کو ضروریاتِ دین کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اولین ضرورت یہ ہے:

تصديق ما جاءبه النبی ﷺ

جو کچھ نبی علیہ السلام لائے ہیں اس کی دل سے تصدیق کرنا۔

ایمان بالغیب، اقامتِ صلوٰۃ، ایتائے زکوٰۃ، رسولوں، فرشتوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا الغرض رسولِ خدا ﷺ اور آپ کی لائی ہوئی کتاب سمیت آپ کی عنایت کردہ تمام تعلیمات کو بلاشک و شبہ دل سے تصدیق کرنا اور یقین رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے، اور یہی ضروریاتِ اہلِ سنت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے جو قرآن مجید نے بالفاظ ذیل بتلائی ہے:

فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

(النساء، 4: 65)

’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ ‘‘

تفسیر روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام شہاب الدین محمود آلوسی فرماتے ہیں:

فقد روی عن الصادق انه قال لو ان قوما عبدوالله تعالیٰ واقامواالصلوٰة وآتوا الزکوة وصاموارمضان وحجواالبيت ثم قالوالشئی صنعه رسول اللہ الاّصنع خلاف ماصنع او وجدوا فی انفسهم حرجاً لکانوا مشرکين.

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، نماز کی پابندی کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے مگر پھر کسی ایسے فعل کو جس کا ذکر حضور ﷺ سے ثابت ہو یوں کہے کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے خلاف کیوں نہ کیا؟ اور اس کے ماننے سے اپنے دل میں تنگی محسوس کرے تو یہ قوم مشرکین میں سے ہے۔

(آلوسی، روح المعانی، 5: 65)

آیت مذکورہ اور اس کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام احکام کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔

ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں ہیں اور تمام اقسام کا حکم بھی مختلف ہے۔ کفر کا حکم صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اورقطعی الدلالت بھی۔ اگر کوئی شخص قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ احکام کو تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور ان کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو وہ ضروریاتِ دین کا منکر ہونے کی وجہ سے اہلِ قبلہ میں شامل نہیں رہتا۔

لیکن اگر کوئی شخص حکم کو توواجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا تو فاسق اور گمراہ، مگر اہلِ اسلام میں شامل ہے۔

احکام کے قطعی الثبوت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ثبوت قرآن مجید یا احادیثِ متواترہ سے ہو، اور قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبارت قرآن مجید یا حدیث متواترہ میں اس حکم کے متعلق وارد ہوئی ہے، وہ اپنے مفہوم و مراد کو صاف صاف بیان کرتی ہو، اور اس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔

سوال: نمازوں کوجہراً اور سراً پڑھنے کی حکمت کیا ہے؟

جواب: پہلی بات یہ کہ یہ امور تعبدی ہیں یعنی جیسے شارع علیہ السلام نے ان کو ادا کرنے کا حکم دیا، ویسے ہی ان کو بغیر کسی تبدیلی اور شک وشبہ کے ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس کی حکمت ومصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ جہری اور سری نمازوں کو ادا کرنے کا حکم ہے، اس لئے بغیر کسی شک وشبہ کے ان پر عمل کیا جائے گا جیسے ہمیں حکم ملا ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس کی جو حکمت ومصلحت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا.

(بنی اسرائیل، 17: 110)

اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں۔

ہمیں درمیانی راستہ اپنانے کا حکم دیا گیا کیونکہ شروع میں جب مسلمان نماز پڑھتے تو ساری نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت کرتے تھے اور کفار کو یہ پسند نہ تھا، لہذا وہ مسلمانوں کے قریب آ کر شور وغل کرتے، سیٹیاں بجاتے اور مسلمانوں کو نماز ادا نہیں کرنے دیتے۔ وہ اللہ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہتے، گستاخی کرتے اور توہین کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ نہ تو اتنی اونچی آواز میں پڑھو کہ کفار سن کر بے ادبی وگستاخی کریں اور نہ اتنا آہستہ پڑھو کہ تم خود بھی نہ سن سکو۔ لہذا درمیانی آواز میں قرأت کر لیا کرو۔

فجر اور عشاء کے وقت کفار سوئے ہوتے تھے اور مغرب کے وقت کھانے پینے میں مشغول ہوتے تھے، اس لئے ان تین اوقات میں حکم دیا کہ جہرا ًنماز ادا کی جائے کیونکہ کفار ان اوقات میں کھانے پینے اور سونے میں مشغول ہوتے ہیں مسلمانوں کو تنگ نہیں کر سکتے، لہذا جہرا نماز کا حکم دیا گیا۔ ظہر اور عصر کے وقت کفار دن بھر گھومتے رہتے تھے۔ اس لئے ان نمازوں میں آہستہ آواز سے پڑھنے کا حکم دیا تاکہ کفار مسلمانوں کو تنگ نہ کر سکیں اور قرأت کی آواز سن شور وغل نہ کر سکیں۔