انبیائے کرام، مذہب اور سیاست دونوں کے مصلح بن کر آتے رہے اور انفرادی بگاڑ سے لے کر معاشرتی بگاڑ کو درست کرتے رہے۔ اس سلسلے کی آخری کڑی محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جو ایک خوبصورت نظام مذہب و سیاست لے کر تشریف لائے۔ خالق کائنات نے آپ کو انسان اور معاشرے کی دنیوی اور اخروی ضرورتوں کی تکمیل کا ابدی حتمی اور غیر متغیر دستور قرآن کی صورت میں عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس پر خود عمل نہ فرمایا ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاست کو بھی نئے اسلوب اور اصول دیئے اور ان پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو جس انقلاب سے نوازا وہ بیک وقت روحانی اور سیاسی انقلاب تھا۔ یعنی اس میں انسان کی باطنی اصلاح سے لے کر معاشرے اور ریاست کی اصلاح بھی مضمر ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاشرے میں غلاموں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق کی آواز بلند فرمائی جہاں ان طبقات سے بے رحمانہ سلوک روزمرہ کا معمول تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست قائم کرکے جن حالات میں ایک فلاحی مملکت کا تصور اجاگر کیا، اس وقت قیصر و کسریٰ کا استبداد سکہ رائج الوقت تھا۔ اسی طرح پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطلق العنان بادشاہت سے انسان کو نجات دلائی اور ایک شورائی نظام حکومت و ریاست کی بنیاد رکھی۔ حکمران کو عوام کے سامنے جواب دہی کا پابند بنایا جس کا تصور بھی اس سے قبل محال تھا۔ جس کی مثالیں خلفائے راشدین نے عملاً پیش کیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاست کو خدمت خلق میں تبدیل کردیا اور اس کے بہترین نمونے ابوبکر وعمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم نے پیش کئے چنانچہ اسلامی معاشرہ کئی صدیوں تک مساوات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمونہ پیش کرتا رہا۔
اسلامیان ہند نے برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لئے جو طویل اور صبر آزما جدوجہد کی اس کا مقصد بھی ریاست مدینہ کی طرح ایک آزاد، خودمختار اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لاکھوں لوگوں نے اس کے لئے جان و مال اور عزت آبرو کی قربانیاں دیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی باکردار عملی اور اقبال کی فکری قیادت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم اسلامی مملکت عطا فرمائی۔ شومئی قسمت کہ پاکستان کے بانی قائدین کی آنکھیں بند ہونے کی دیر تھی کہ طالع آزما حکمرانوں کا ایک طبقہ اس پر مسلط ہوگیا جس نے اس خداداد مملکت کو حرص و ہوس کا دستر خوان بنادیا۔ حالانکہ ہم نے بطور قوم، برصغیر میں اسلامی تشخص قائم کرنے کے لئے بے مثال قربانیاں دیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت سے گزرے، لاکھوں کلمہ گو معصوم لوگوں نے اپنے خون سے شہادتوں کی فصل بوکر پاکستان کا خطہ حاصل کیا مگر وہ نظریہ، وہ نعرہ، وہ جذبہ اور وہ خواب پس پشت ڈال دیئے گئے۔ شہیدوں کے خون سے غداری کے مرتکب ہوچکے ہیں حتی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئے ہوئے وعدے بھی بھلادیئے۔ پاکستان کو ہم نے خود توڑا اور بقیہ خطہ زمین کو اسلام کی دھرتی بنانے کی بجائے ہم نے استعماری طاقتوں کا میدان جنگ بنالیا۔ آج ہر صوبہ کئی کئی حصوں میں بٹنے کے لئے تو تیار ہے مگر قوم متحد نہیں ہوسکی۔ ملٹری رجیم اور شعبدہ باز سیاستدان نے عوام کو اپنے مسائل میں اس طرح الجھادیا ہے کہ حصول پاکستان کے مقاصد ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
ہمارے ہاں کہنے کو توجمہوریت ہے مگر بے اصولی، ہوس پرستی، لالچ اور خودغرضی کی انتہاء ہوگئی ہے۔ ہمارے سیاستدان عام آدمی کے اخلاقی معیار سے بھی گرچکے ہیں۔ سیاسی وابستگیاں اور وفاداریاں تبدیل کرلینا تو اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہماری قوم بالعموم معصوم اور ناسمجھ ہے۔ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے ان لوگوں کو ملکی سلامتی کی ذمہ داری پر براجمان کردیتے ہیں جو عام شخص کی دیانتداری اور اصول پسندی سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ کجا یہ کہ ہم شاندار قرآنی اور نبوی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھ کر قیادت کا انتخاب کریں تاکہ اس نظریاتی مملکت کے اعلیٰ مقاصد کا حصول ممکن ہوتا۔ ہم نے جمہوریت اور آمریت کا کھیل شروع کردیا۔ تعلیم، اہلیت اور شعور کے بغیر ہم محض انتخابات کے عمل کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ شعور مقصدیت کے بغیر کوئی کام بھی نتائج نہیں دے سکتا۔ لہذا ہم بھی مقاصد کے تعین کے بغیر جمہوری تماشے کا حصہ بنتے چلے آرہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مخصوص خاندان جماعتوں کا نام بدل بدل کر ملک لوٹنے کے لئے منتخب ہوکر قانون ساز اداروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ملک دن بدن کمزور ہوتا گیا مگر یہ کرپٹ قیادتیں ملک اور بیرون ملک اپنے اثاثے بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان حکمرانوں کی بزدلی عاقبت نااندیشی اور کرپشن کو دیکھتے ہوئے ملک دشمن استعماری قوتوں نے سازشوں کا جال بچھادیا اور وطن عزیز کا چپہ چپہ غیر ملکی ایجنسیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ فاٹا سے بلوچستان اور کراچی سے سوات تک ہر روز بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ خصوصاً ان حالات میں تو ہمیں عقل و خرد سے کام ضرور لینا چاہئے جب ملک کی سلامتی انہی جھوٹے کرپٹ اور بددیانت حکمرانوں کے ہاتھوں رسک پر ہے۔
پاکستان کی موجودہ مایوس کن سیاسی، معاشی اور متصادم مذہبی صورت حال کو دیکھتے ہوئے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ہمارے ہاں وہ کونسی رکاوٹیں ہیں جو اس ملک کی خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ ہیں؟ ہر قوم میں اچھے برے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ پاکستان کے خمیر میں جانثاری، قربانی اور دین پروری کی خصوصیات موجود ہیں مگر ان خوبیوں کے حامل افراد دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ دھڑے سیاسی بھی ہیں اور مذہبی بھی۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں محب وطن اور اہل اخلاص لوگ بھی ہیں لیکن ان جماعتوں کے مجموعی نتائج پاکستان کو اس لئے خوشحالی نہیں دے سکتے کہ مقتدر لوگوں کی اکثریت خود پسندی اور ہوس اقتدار اور حب جاہ سے لتھڑی ہوئی ہے۔ خدمت اور ترقی کے لئے اقتدار میں آنا اور بات ہے جبکہ لوٹ مار اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے کے لئے اقتدار سنبھالنا بالکل دوسری بات ہے۔ ان دونوں خواہشات کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔
پاکستان کی غریب عوام پر بیرونی قرضوں کا بوجھ کئی گنا ہوچکا ہے۔ قومی اداروں کو تباہ کردیا گیا ہے اور ملک تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس تباہی کے بڑے ذمہ دار اب پھر اگلی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ نئے سرے سے قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے نئے نعرے گھڑ رہے ہیں۔ تو کیا ہم اس مرتبہ پھر ان سیاسی بازی گروں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لئے تیار ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوال تھا جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گذشتہ کئی سالوں سے قوم کے سامنے رکھا ہوا ہے۔ ملکی سیاست میں حقیقی تبدیلی کے لئے موجودہ انتخابی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اسی جانب پیش رفت کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے پہلے مرحلے میں انتخابی اصلاحات کی طرف مقتدر طبقات بشمول عوام کی توجہ مبذول کروائی۔ اس بات کو ملک کے خاص و عام طبقے تک اچھی طرح پہنچانے کے لئے ملک گیر مہم کی ضرورت تھی۔ قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا 14 جنوری کا لانگ مارچ اس سلسلے میں ملکی تاریخ میں بہت بڑا مؤثرقدم ثابت ہوا ہے جس نے نہ صرف عوام میں شعور بیدار کیا بلکہ عام آدمی کو بھی آگاہ کیا کہ وہ کون سے آئینی معیارات اور تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنے کے بعد ہی کوئی شخص عوامی نمائندگی کرتے ہوئے قانون ساز ادارے کا نمائندہ بن سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں ہونے والا لانگ مارچ اور اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے پانچ روزہ دھرنا ملکی تاریخ ہی نہیں بلکہ حالیہ عالمی تاریخ کا نادر اور عدیم المثال واقعہ ہے۔ یہ ملک گیر سرگرمی جو بغیر کسی تشدد اور دہشت گردی کے بخیرو خوبی اپنے انجام کو پہنچی، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے سے پاکستانی قوم کا ایک منظم قوم ہونے کا image دنیا کے سامنے آیا، وہیں یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ اگر قوم کوصحیح رہنمائی فراہم کی جائے، انہیں حقائق سے آگاہ کیا جائے، انہیں اپنی اہمیت کا احساس دلایا جائے اور قانون و آئین میں موجود ان اقدامات سے آگاہ کیا جائے جو نظام کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے ضروری ہیں تو ہمارا ملک بتدریج ایسے انقلاب کی طرف بڑھ سکتا ہے جو ہمیں منزل سے آشنا کرنے کا باعث ہوگا۔
بدقسمتی سے عالمی سطح پر پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے ایک دہشت گرد ملک تصور کیا جاتا ہے جو دہشت گردی کی پرورش کے ساتھ ساتھ دہشت گردی برآمد بھی کرتا ہے۔ گویا عالمی سطح پر پاکستان کی شناخت بداَمن غیر منظم اور بے ہنگم معاشرے کے طور پر کی جاتی تھی۔ لیکن تحریک منہاج القرآن کے تحت ہونے والے اس تاریخی لانگ مارچ نے اس تصور کو جھٹلا دیا ہے۔ لانگ مارچ کے اِعلان کے وقت جلسہ عام کے موقع پر شیخ الاسلام نے فرمایا تھا کہ ہمارے لانگ مارچ میں کوئی گملا ٹوٹے گا نہ کوئی پتہ گرے گا کیونکہ یہی تحریک منہاج القرآن کی روایت اور ہماری شناخت ہے۔ ہم پُراَمن لوگ ہیں اور ہر طرح کے فتنہ و فساد اور بداَمنی اور دہشت گردی کی ہر سطح پر مذمت کرتے ہیں۔ پھر وقت نے گواہی دی کہ 13 جنوری تا 17 جنوری لاہور تا اسلام آباد 36 گھنٹے جاری رہنے والے لانگ مارچ اور اِسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مسلسل دھرنے میں ذرہ بھر بداَمنی یا انتشار دیکھنے میں نہیں آیا۔ لانگ مارچ اور دھرنے کے تمام شرکاء اس قدر پُراَمن اور مسلسل صبر و استقامت کے پیکر نظر آئے کہ بعض لوگوں نے یہ پروپیگنڈہ بھی پھیلایا کہ ڈاکٹر صاحب نے شرکاء پر کوئی جادو کیا ہوا ہے۔ یہ بات واقعی حیران کن تھی اور اہل عقل و خرد کے لئے تعجب انگیز بھی تھی کہ پاکستانی قوم جس کو جذباتی اور جھگڑالو لوگوں کا ہجوم سمجھا جاتا تھا، یہ معجزے بھی دکھا سکتا ہے؟
زندہ و بیدار اور پرامن پاکستانی قوم، پرامن احتجاج کی روایت کی بنیاد، امن پسند قیادت، تربیت یافتہ کارکنان، مثالی نظم و ضبط، استقامت، عزم صمیم، خواتین و بچوں کو انمٹ کردار، اتحاد و یکجہتی کے مناظر۔ الغرض کن کن خصائص اور اثرات کا احاطہ کیا جائے جو اس لانگ مارچ کے دوران سامنے آئے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے ترجمان شیخ الاسلام کے استقبال اور بعد ازاں لانگ مارچ کے تاریخی جلال و جمال کو دیکھ کر پریشان ہوگئے کیونکہ کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کے بس میں نہیں کہ وہ بہ آسانی اس کا توڑ کر سکیں۔ اس لئے انہوں نے ہڑبڑاہٹ میں الزامات کی دیرینہ مشق دہرانا شروع کر دی۔ کچھ معاصر تجزیہ نگار حسب عادت اپنا زور قلم حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے پر صرف کر رہے ہیں حالانکہ جادو سرچڑھ کر بول چکا ہے۔
اِسلام آباد لانگ مارچ کی کامیابی نے جہاں تحریک منہاج القرآن کے پیغام کو گھر گھر پہنچایا وہاں شیخ الاسلام کی قیادت و سیادت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ اس وقت ملک کی کشتی کو گرداب سے نکال کر ترقی کے سفر پر گام زن کرنے کی اہلیت و صلاحیت اگر کوئی رکھتا ہے تو وہ صرف ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی ملکی و غیر ملکی امداد کے بغیر، ہر طرح کے خطرات کے امکانات کے باوجود ہر طرح کے لالچ سے بے نیاز رہتے ہوئے انہوں نے ایک عظیم، تاریخی اور کام یاب لانگ مارچ کر کے دکھایا۔ اس مارچ سے یہ ثابت ہوا کہ عوام کے عزمِ مصمم کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا اور جب قیادت بھی جرات مند، نڈر، بے باک، صالح اور باکردار ہو تو کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی۔ مخلص قیادت کارکنوں کو جان لیوا خطرات سے بچاکر رکھتی ہے۔ یہ پرامن جدوجہد کا ایک مرحلہ تھا جو بخیرو خوبی طے ہوا۔ ان شاء اللہ ان مطالبات اور مذاکرات کے مثبت اثرات بھی عوام کو جلد ملنا شروع ہوجائیں گے۔
تحریک نے تنظیمی سطح پر وسیع مشاورت کے سلسلے کا آغاز کردیا ہے۔ ایک طرف آئینی و قانونی طریقوں سے عوام کے جمہوری حقوق کے حصول کی کاوشیں جاری رہیں گی اور دوسری طرف ملک بھر کے اہم شہروں میں عوامی مارچ اور اجتماعات منعقد کئے جائیں گے تاکہ وہ سفر جو لانگ مارچ سے شروع ہوا رکنے نہ پائے اور اس ملک میں مثبت اور فیصلہ کن تبدیلی آسکے۔ انتخابی اصلاحات کے بغیر آئندہ الیکشن پوری قوم کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہوں گے۔ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے تحریک کے کارکنان اپنے عظیم اور جرات مند قائد کی سرپرستی میں پرامن انقلاب کے لئے دن رات ایک کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ وابستگان تحریک خواتین و حضرات اپنے ارد گرد بستیوں میں پھیل جائیں، تحریک کی دعوت دیں، تحمل دانشمندی اور حوصلے سے اس شعور کو گھر گھر اور نگر نگر پہنچادیں اور اس سارے عمل کو وہ اپنے لئے اعزاز سمجھیں کہ اللہ پاک ان کے ذریعے ملک میں مثبت تبدیلی کا راستہ ہموار کررہا ہے۔ معاشروں میں تبدیلیاں ایسے ہی آیا کرتی ہیں۔ اب پوری دنیا میں تبدیلیوں کا موسم ہے۔ 18 کروڑ اہل وطن بھی اگر احساس و شعور سے کام لیں تو مشرق و مغرب میں ان کے کردار کا ڈنکا بج سکتا ہے۔ انہیں شاعر اسلام کا یہ پیغام ہر قدم پر اپنے پیش نظر رکھنا ہوگا۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ معاشرتی و سیاسی سطح پر بیداری شعور کے حوالے سے تحریک منہاج القرآن کے تحت ہونے والی یہ سرگرمیاں ہنگامی نوعیت کی نہیں تھیں بلکہ یہ گزشتہ 32 سال سے تحریکی و انقلابی جد و جہد کا تسلسل تھا۔ اِسی سلسلے میں آٹھ سال قبل ملک گیر سطح پر بیداریِ شعور کی باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ بیداریِ شعور کی اس تحریک کا مقصد عوام کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے آگاہ کرنا اور ان کے حل کے لیے جد و جہد پر آمادہ کرنا کہ کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی جب تک قوم تبدیلی کی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہو۔ لہذا تحریکِ منہاج القرآن اپنے قیام کے وقت سے ہی قوم کو مقصدیت سے رُوشناس کرانے کے لیے متعدد سطحوں پر سرگرمِ عمل رہی ہے۔ تحریکِ کے پلیٹ فارم پر مختلف فورمز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جن میں طلباء، علماء، خواتین و حضرات، اساتذہ، مبلغین اور ناظمین دعوت و تربیت کی متحرک ٹیمیں اندرون و بیرون ملک مصروف جدوجہد ہیں۔ سب سے بڑھ کر خود شیخ الاسلام مدظلہ کی تصنیف و تالیف اور چھ ہزار سے زائد موضوعات پر خطبات و دروس دنیا بھر میں بیداری شعور اور علم و معرفت کا ایک مضبوط ذخیرہ ہیں۔
62 واں قائد ڈے مبارک
تحریک منہاج القرآن کے وابستگان اور کارکنان اس سال اپنے محبوب قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کا 62واں یوم پیدائش منارہے ہیں۔ دنیا بھر کے مصطفوی کارکنان اس پرمسرت موقع پر خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ امسال قائد ڈے کے موقع پر ہمیں تجدید عہد کرنا ہے کہ پاکستان کے محفوظ اور باعزت مستقبل اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے ہم اس عظیم قائد کی قیادت میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ تحریک کے مخلص اور بے لوث کارکنان دیگر محاذوں کی طرح سیاسی محاذ پر بھی اپنے عظیم قائد کی زیرسرپرستی تبدیلی نظام کے لئے بھرپور کوششیں جاری رکھیں گے۔
لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا صلہ اور شہداء کی امانت ’’پاکستان‘‘ کی تعمیر و ترقی اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت تحریک کے ہر چھوٹے بڑے کارکن کی اولین ذمہ داری ہے۔ چنانچہ فرقہ پرستی، دہشت گردی اور نفسا نفسی کے اس ماحول میں تحریک منہاج القرآن کے سپاہی ملک کے طول و عرض میں ہر شعبہ ہائے زندگی کے اندر بیداریءِ شعور کے پیغمبرانہ مشن پر کاربند ہیں۔ موجودہ عالمی دبائو میں پرامن بقائے باہمی کے اصول پر کاربند تحریک منہاج القرآن اور اس سے وابستہ علماء، دانشور، داعیین، محققین اور مبلغین قرآن و حدیث کی حقیقی ترجمانی کررہے ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک اس عظیم مصطفوی مشن سے وابستہ کارکنان اس مرتبہ اسلام اور پاکستان کی سربلندی کا عزم کرتے ہوئے اپنے قائد سے عہد تجدید کریں گے۔ یہ عزم اس احساس اور شعور کے ساتھ دہرایا جائے گا کہ اس وقت تحریک، اسلام کی حقیقی تعلیمات کو پھیلانے میں مصروف کار ہے اور اس کے بانی سرپرست، عالم اسلام کی باصلاحیت قیادت اور نجات دہندہ ہیں۔
یہی ایک ایسی شخصیت ہے جس کی فکری اور عملی کاوشیں ملکی اور بین الاقوامی سطح اسلام کے حقیقی پیغام امن و محبت کی خوشبو پھیلارہی ہیں۔ جنہوں نے نفرتوں بھرے اس خونی منظر نامے کو پرامن معاشرے میں بدلنے کی ایک ایسی کوشش کی ہے جس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ عبدیت، اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رشتہ محبت و اطاعت، قرآن کی ابدی اور حتمی ہدایات کی طرف بنی نوع انسان کا تعلق، فروغ تعلیم اور بیداری شعور اس پیغمبرانہ دعوت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ آج کا چیلنج گذشتہ ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہمہ جہتی ہے، اس لئے جس مومنانہ فراست، حکمت و تدبر اور دور بینی کی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ الحمدللہ ہمارے قائد کو اللہ تعالیٰ نے یہ ساری خوبیاں عطا کررکھی ہیں۔
افریقہ سے لیکر مشرق بعید کے ممالک اور یورپ سے لیکر لاطینی امریکہ‘ اسٹریلیا ‘مشرقِ وسطی اور دنیائے انسانیت کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ نے اسلام کا آفاقی پرامن پیغام نہ پہنچا یا ہو۔یورپ کی چکاچوند اور مادیت زدہ ماحول میں بھی لاکھوں نوجوان ‘ مردوں ‘ عورتوں ‘ بوڑھوں اور بچوں کو آپ نے صاحبِ گنبدِ خضراء کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان کا جینا مرنا‘ شب و روز کی محنتوں اور مشقتوں کا حاصل اب مصطفوی تحریک ہے۔
آج باہمی انتشار، خود غرضی اور سیاسی جبرو بربریت کے ماحول میں شیخ الاسلام کی صورت میں اہل پاکستان کو اندھیری غار کے دوسرے کنارے پر امید کی روشنی دکھائی دے رہی ہے جو حقیقی معنوں میں پاکستان کی سیاست کا رخ ’’محمدی سیاست‘‘ کے قالب میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک طرف اسلام کے روشن چہرے پر پڑ جانے والی گرد کو صاف کرنے اور اپنے فکر و عمل اور خداداد علمی صلاحیت کے ذریعے پوری دنیا میں ہر پلیٹ فارم پر اسلام کے دفاع کے لئے فکری و نظریاتی اور علمی و عملی محاذوں پر مصروف جدوجہد ہے۔۔۔اور دوسری طرف ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ اور پاکستان کی سیاست میں مثبت رجحانات کو فروغ دینے اور انتخابی اصلاحات کے لئے ہر سطح پر کوشاں ہیں۔ قائدِ تحریک منہاج القرآن نے ہر طبقہ زندگی کو اپنے شعور و آگہی کے فیض سے نوازتے ہوئے ان پر اپنی شفقتیں نچھاور کیں۔ خواتین، علماء، نوجوان، اساتذہ، طلباء، تجارت پیشہ احباب اور صاحبان طریقت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور انہیں ایک بامقصد زندگی کی طرف دعوت دی۔ ان کی انہی کاوشوں کا نتیجہ پوری دنیا پارلیمنٹ ہائوس کے باہر مسلسل 5 دن تک دیکھتی رہی۔
تحریک منہاج القرآن کے کارکنان، وابستگان اور اہل محبت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شیخ الاسلام کی صورت میں ملنے والی نعمت پر سجدہ ہائے شکر بجا لایا کریں کہ اس ذات نے ہمیں ایسی شخصیت کی سنگت عطا فرمائی ہے جو ’’یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم‘‘ کی عملی تصویر ہے۔ ان کی قیادت اور علمی و فکری فیضان کی سعادت کے حصول پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ اس عظیم قائد کی 62 ویں سالگرہ کے موقع پر ماہنامہ منہاج القرآن کی یہ خصوصی اشاعت مصطفوی انقلاب کی پرامن جدوجہد کے سفر میں گذشتہ سال کی کاوشوں پر مشتمل ہے۔