مجھے حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس خطہ پاک کے بارے میں کہ ابھی اس کے وجود کا تصور تک نہ تھا آٹھ سو سال پہلے کی دی ہوئی خوشخبری اور بشارت بہت حوصلہ دیتی رہتی ہے۔
برمومنان غربی شد فضل حق ھویدا
آید بدستِ ایشا مردانِ کاروانہ
’’کہ غربی (مغربی پاکستان) پر اللہ کا ایک خاص فضل ظاہر ہوگا اور اس کے ہاتھ کام چلانے والے آدمی آجائیں گے‘‘۔
اے اہل وطن! اٹھو اس خوشخبری کا حصہ بننے کے لئے تیار ہوجائو۔ ظلمتیں بار نے اور حق اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نزول فرمانے والا ہے۔ ایسا ہونا تو ہے، ہم نہ ہوئے تو اور سہی! تو کیوں نہ اس سعادت سے ہم ہی بہرہ مند ہوں۔ جو یہ سعادتیں سمیٹ لیں گے وہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ بدخواہی کرنے والوں کا انجام نہ پہلے اچھا ہوا ہے نہ بعد میں ہوگا۔ بقول اشفاق احمد مرحوم، یہ پاکستان حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی مثل ہے جو اس سے برا کرے گا قدرت کے انتقام اور گرفت سے بچ نہیں سکے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ آج اس حالت میں کیوں ہے؟ آیئے اس سوال کا جواب اور آٹھ سو سال پہلے بیان کردہ اس کے چیدہ چیدہ اسباب، حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اللہ کی فراست مومنانہ کے دریچوں میں جھانک کر جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
تقسیم ہند گردد در دو حصص ھویدا
آشوب و رنج پیدا از فکر و از بہانہ
کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا مکرو فریب سے آشوب اور رنج ظاہر ہوگا اور اس کے بعد
بہ تاج بادشاھا شاہی کنند نادا
اجراء کنند فرما فی الجملہ مہملانہ
کہ نادان بادشاہ بے تاج بادشاہی کریں گے اور نہ جانتے ہوئے اپنے فرمان جاری کریں گے جو فی الجملہ مہمل ہوں گے۔
از رشوت تساہل دانستہ از تغافل
تاویل یاب باشد احکام خسروانہ
رشوت لے کر سستی کریں گے، جان بوجھ کر غفلت کریں گے، شاہی احکام کو بدل دیا کریں گے۔
عالم زعلم نالا دانا زفہم گریا
نادا بہ رقص عریا مصروف والہانہ
عالم اپنے علم پر گریہ و زاری کریں گے، دانا لوگ اپنے فہم پر روئیں گے، نادان لوگ عریاں ناچ گانوں میں دیوانہ وار مصروف ہوں گے۔
آمفتیان گمراہ فتویٰ دھند بے جا
در حق بیان شرع سازند بسا بہانہ
گمراہ مفتی بے جا فتویٰ دیا کریں گے، بیان شریعت کے حق میں بہت بہانہ سازی کریں گے۔
فاسق کند بزرگی بر قوم از سترگی
پس خانہ اش بزرگی خواھد شود ویرانہ
فاسق لوگ اپنی قوم پر بڑی صفائی سے لیڈر بن جائیں گے پھر اس کے بزرگ گھر میں ویرانی ظاہر ہوگی۔
بینی تو پند معروف پنہا شود در عالم
سازند حیلہ افسو نامش نہند نظامہ
بھلے کام کرنے کی نصیحت دنیا میں چھپ جائے گی، فریب اور افسوں سازی کرکے اس کا نظام حکومت قرار دے دیں گے۔
از اھل حق نہ بینی در آزما کسہ را
دزدان و رھزن را بر سر نہند عمامہ
تو اس وقت کسی اہل حق کو نہیں دیکھے گا، لوگ چوروں اور ڈاکوؤں کے سر پر دستار رکھیں گے۔
اس طرح دیگر اشعار میں انفرادی اور اجتماعی خبائث کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ شفقت ، سرد مہری اور تعظیم دلیری میں تبدیل ہوجائے گی۔ امت سے مجرمانہ اور عاصیانہ افعال سرزد ہوں گے۔ فسق و فجور کی کثرت ہوگی۔ حلال و حرام کی تمیز ختم ہوجائے گی۔ نفرت کا ظہور ہوگا۔ قاضی لوگ جہالتوں کی مسند پر متمکن اور بڑے بڑے علم والے لوگ بہانہ سازی سے لوگوں سے رشوت لیں گے۔ ان بداعمالیوں کے نتیجے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پھر
قہر عظیم آید بہر سزا کہ شاید
آخر خدا بہ سازد یک حکم قاتلانہ
آخر ایک بہت بڑا قہر آئے گا جو سزا کے لئے سزاوار ہوگا اور پھر ذات باری تعالیٰ ایک قاتلانہ حکم جاری فرمائیں گے۔
محترم قارئین! بہت سا وقت انہی اندھیروں میں کٹ گیا ہے بلکہ بہت کچھ کاٹ گیا ہے۔ اب وقت ہے اٹھو اور وطن عزیز کی مٹی سے پھوٹنے والی اس روشنی اور مینارہ نور پہ نظریں جمالو جو حالات کی ضرورت بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی، جو زخموں کا مرہم بھی ہے اور دکھوں کا مداوا بھی، جو علم کا شہباز بھی ہے اور فکر کی پرواز بھی۔ احساس درد اور محبت کی سوندھی سوندھی مٹی سے گندھا ہوا وہ پیکر دلنواز جس سعادت مند کے من میں اتر جائے وہی اُسی کا گرویدہ ہوجائے۔
اینٹوں، بجریوں اور پتھروں کے پیچھے زندگیاں تیاگ دینے والو! اس گوہر انمول کی شعاعوں میں ڈوب کر تو دیکھو، زندگی کا کھویا ہوا سرا ہاتھ نہ آئے تو کہنا، جس کے اشک تمہارے دل اور گھر ہی نہیں تمہاری قبریں بھی منور کرنے کے لئے خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ وہ قائد، عظیم قائد
جو بولے تو اسرار کھلیں
یاقوتوں کے بازار کھلیں
پھر لفظوں کے دربار کھلیں
پھر معنوں کے انبار کھلیں
کئی بند در افکار کھلیں
ہاں جب یہ لب اظہار کھلیں
پھر جذبے موتی چنتے ہیں
پھر خار بھی ریشم بنتے ہیں
جس کے نعرہ مستانہ میں تاریک اور بہیمانہ طلسم کو پاش پاش کرنے کی جرات بھی ہے اور صلاحیت بھی۔ آیئے اس کا علم تھا میں جسے دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتی ہے۔ کب تک بے یقینی، ناامیدی اور گرد سے اٹے ہوئے دھواں دھواں راستوں میں لہراتے ہوئے تاریک اور موہوم سایوں کے پیچھے بھاگتے رہو گے۔ آزمائے ہوئوں کو آزما آزما کر کب تک اپنا اور اپنی نسلوں کی تمنائوں کا لہو کرتے رہو گے۔ کب تک بھٹکو گے ان راہوں پر کہ جن کی کوئی منزل ہی نہیں، کب تک محرومیوں کی فصلیں بونے والے ان ہاتھوں کو مضبوط کرو گے کہ جن کی لکیروں میں تمہارے مقدر کی درخشانی اور جمہور کی سلطانی نام کی کوئی لکیر نہیں۔ میرا احساس پاکستان کے کونے کونے سے اٹھتی ہوئی ایک ہی صدا اور ایک ہی گونج کو خوشبو بن کر بکھرتا، مہکتا، مہکاتا اور دھرتی کی مشام جاں کو معطر کرتا ہوا محسوس کررہا ہے کہ ’’جیوے جیوے طاہر جیوے‘‘۔ شالا تیری خیر ہو میرے قائد اور بقول ’’نوائے انقلاب‘‘ ان شاء اللہ۔
میرے قائد! تجھے تاریخ سلامی دے گی
آبرو خاک میں بدخواہ کی رل جائے گی
وہ حقیقت جو نگاہوں سے ابھی اوجھل ہے
وقت آیا تو ہر شخص پہ کھل جائے گی
مجھے امید واثق ہے کہ میرا قائد میرے سمیت پوری قوم کی روحوں سے مصطفوی انقلاب بپا کرکے کرب اور اذیت کا یہ کانٹا ضرور نکالے گا۔ اسی بے مثال قیادت کے سائے میں
یقیں ہے ظلمتوں کی اس روش نے ہار جانا ہے
جہاں صبحوں کا ڈیرا ہے ہمیں اس پار جانا ہے
بس اعتماد، یقین اور جذبے سے چلتے رہیں، بڑھتے رہیں آگے ہی آگے اور روح روح بیداریءِ شعور اور فکر انقلاب کی خوشبو سے معطر کرتے ہوئے اس پیغام کو دھڑکن دھڑکن تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے رہیں کہ آنے والا دور مصطفوی انقلاب کی جھلملاتی ہوئی روشنیوں سے وطن کے درو دیوار جگما دینے کا دور ہے۔
وہ دیکھ چراغوں کے شعلے منزل سے اشارہ کرتے ہیں
تو ہمت ہارے جاتا ہے، ہمت کہیں ہارا کرتے ہیں؟
(شعری مجموعہ ’’پرچم بلند رکھنا‘‘ کے پیش لفظ سے اقتباس)