ماہ رمضان المبارک کی پر نور ساعتوں میں تجدید و احیائے اسلام کی عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کو حرمین شریفین کے بعد دنیا کے سب سے بڑے اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی سعادت حاصل ہے۔ یہ شہر اعتکاف حضور سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی قربت و معیت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی سرپرستی میں معتکفین کے لئے تعلیم و تربیت کا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف میں دس دن منظم انداز میں پرکیف تلاوت، ذکر و اذکار، نعت خوانی، درس و تدریس کے حلقہ جات، نوافل اور اجتماعی و انفرادی وظائف کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہر اعتکاف میں ہر سطح کے تحریکی کارکنان اور عوام الناس کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔ جن کی فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی اور تنظیمی و انتظامی تربیت کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ وہ مزید بہتر انداز میں دین اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کرسکیں۔ اگست 2012ء میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 22 واں سالانہ اجتماعی اعتکاف کا انعقاد کیا گیا جس میں اندرون و بیرون ملک سے ہزاروں خواتین و حضرات نے خصوصی شرکت کی۔
شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے لندن، برطانیہ سے لائیو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے براہ راست خطابات نشر کئے گئے۔ شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام کے صاحبزادگان محترم ڈاکٹر حسن محی الدین القادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے بھی خصوصی شرکت کی۔ منہاج انٹرنیٹ بیورو اور منہاج پروڈکشنز کے باہمی تعاون سے شیخ الاسلام اور صاحبزادگان کے خطابات سمیت شہر اعتکاف کی جملہ سرگرمیاں www.minhaj.tv پر براہ راست نشر کی گئیں۔
ایڈوانس رجسٹریشن نہ کروانے والے سینکڑوں لوگوں کو شہر اعتکاف کے متفرق حلقہ جات میں جگہ دی گئی، لیکن آخر میں جگہ کم پڑ جانے کی وجہ سے اعتکاف کرنے کے خواہش مند سینکڑوں احباب شہر اعتکاف میں جگہ نہ حاصل کر سکے اور انہیں واپس جانا پڑا۔
شہر اعتکاف میں مختلف مواقع پر زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیا ت، مشائخ عظام، علماء کرام، وکلاء، صحافی حضرات اور تحریک منہاج القرآن کی جملہ نظامتوں کے ناظمین اور مرکزی قائدین نے خصوصی شرکت کی۔
شہر اعتکاف میں شریک معتکفین کی علمی و روحانی تربیت اور اصلاح احوال کے لئے باقاعدہ ایک نظام کی شکل میں انفرادی معمولات کو بھی منظم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں معتکفین تہجد، انفرادی و اجتماعی وظائف و تسبیحات، نماز اشراق، نماز چاشت، نماز اوابین، دیگر نوافل اور حلقہ ہائے درود کے ذریعے اپنے باطن کو منور کرنے اور اعتکاف کی برکات کے حصول میں کمر بستہ نظر آئے۔
معتکفین شیخ الاسلام کے خطابات کے ذریعے اپنے علمی، روحانی، تربیتی، تنظیمی امور میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ امسال شیخ الاسلام نے معتکفین کی علمی و روحانی آبیاری کے لئے ’’اصلاحِ نیت‘‘ کے موضوع پر مبنی درج ذیل عنوانات اور دیگر اہم تربیتی موضوعات پر اظہار خیال فرمایا:
نیت: تعریف و تعارف، نیت کا معنی و مفہوم اور اس کی اقسام، اخلاص (لیلۃ القدر کے موقع پر خطاب)، فضیلت درود و سلام اور صدق نیت، روضہءِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی نیت
معتکفین کی علمی و فکری آبیاری اور فہم دین بھی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ اس اجتماعی اعتکاف کا اہم خاصہ ہے۔ امسال بھی معتکفین کی علمی و فکری اور ذہنی استعداد کو مزید اجاگر کرنے کے لئے شہر اعتکاف میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے درج ذیل موضوعات پر خصوصی خطابات فرمائے:
- شان سیدنا علی المرتضی علیہ السلام (ڈاکٹر حسین محی الدین قادری)
- فلسفہءِ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
- معارفِ سورۃ العصر اور پیغام انقلاب (ڈاکٹر حسین محی الدین قادری)
- فلسفہءِ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی۔ نشست دوم (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
- شیخ الاسلام کون ہے؟ (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
- تقویٰ اور صحبت صلحاء (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
نظامت تربیت نے معتکفین کے لئے قرآن مجید، منتخب احادیث، عبادات و عقائد، اخلاق حسنہ اور فقہی مسائل پر مشتمل باقاعدہ اسلامی تربیتی نصاب اور ’’آئیں دین سیکھیں‘‘ کورس مرتب کیا ہے۔ شہر اعتکاف میں باقاعدہ تربیتی حلقہ جات کا انعقاد کیا گیا۔ ان تربیتی حلقہ جات میں نظامت دعوت کے ناظمین، منہاجینز اور کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی کے طلبہ نے اس تربیتی نصاب کے مطابق معتکفین کی علمی و فکری تربیت کی۔
تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ اس شہر اعتکاف میں ہر روز باقاعدہ فقہی مسائل کی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے معتکفین کے فقہی سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کا خصوصی اہتمام بھی ایمان کے نور کو جِلا بخشتا ہے۔ ان راتوں میں منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ اور دیگر نظامتوں کے زیر اہتمام محافل قرات و نعت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ ان محافل میں ایرانی قراء، ملک کے نامور قراء اور ثناء خوانان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصی شرکت کی۔ یہ جملہ محافل www.minhaj.tv پر براہ راست نشر کی گئیں۔
{خطابات شیخ الاسلام}
تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 22ویں سالانہ اجتماعی اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اصلاح احوال کے لئے مختلف پہلوؤں سے ’’نیت‘‘ کے موضوع پر خطابات فرمائے۔ ان خطابات کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:
’’کوئی بھی عمل اس وقت تک درجہ اور ثواب والا نہیں بن سکتا، جب تک اس عمل صالحہ کی نیت نیک نہ کی جائے۔ عمل کی قبولیت کا سارا دارا مدار نیت پر ہے۔ نیت کی 3 قسمیںہیں:
- ایسی نیت جو خالص لوجہ اللہ ہو یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے کی جائے۔
- ایسی نیت جو دنیا کی غرض و غایت کے لئے کی جائے یعنی جس کا مقصد فقط دنیا کمانا ہو۔
- ایسی نیت جس میں دونوں کیفیتیں ہوں یعنی دنیا کی غرض و غایت بھی ہو اور نیت اللہ کے لئے بھی ہو۔
ہم عملی زندگی میں بہت سے اعمال کرتے ہیں، لیکن ارادے اور نیت کے بغیر کرتے ہیں، جو رائیگاں جاتے ہیں۔ جو عمل بغیر نیت اور ارادے کے کیے جائیں وہ ’’افعال‘‘ ہیں اور جو نیت کے ساتھ کیے جائیں وہ ’’اعمال‘‘ بن جاتے ہیں۔ عمل کا اجر ہے اس لئے کہ وہ نیت کی وجہ سے عبادت بن جاتا ہے جبکہ فعل کا اجر نہیں کیونکہ وہ نیت کے بغیر سرزد ہوتا ہے۔
اگر نیت کے مفہوم کو سمجھ لیں تو ہمارا لمحہ لمحہ عبادت بن جائے۔ اس لئے کہ نیت انسان کو لوجہ اللہ کر دیتی ہے۔ نیت کا حسن جہاں اعمال کو عبادت بنادتیا ہے وہاں نیت میں خرابی انسان کے تمام اعمال کو غارت کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔
نیت کو خراب کرنے والی دو چیزیں ہیں:
- ایک شے خارج میں ہے، جو شیطان ہے۔
- دوسری شے داخل میں ہے، جو نفس امارہ ہے۔
یہ دونوں انسان کے اندر وسوسہ اندازی کر کے ہمارے نیک اعمال کے خیالات اور نیتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ شیطان تین اعتبارات سے بندے کوگمراہ کرتا ہے:
- اعتقادی
- فکری
- یقین اور امید
اعتقادی طور پر گمراہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ شیطان نیک اور صالح آدمی کے عقائد صحیحہ کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ فکری گمراہی یہ ہے کہ شیطان انسان کے خیالات کو برائی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ اسی طرح بعض اوقات شیطان اللہ سے یقین اور امید کی کیفیتوں کو مایوسی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
’’انسان کی اصلاح، نیت سے شروع ہوتی ہے۔ آج جس تیز رفتاری سے معصیت، گناہ اور کفر بڑھ رہا ہے، اس سے تیز تر اور زیادہ جدوجہد سے آپ کو جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ ایمان محض عقیدت اور محبت سے نہیں بچتا۔ دنیا بھر میں میرے عقیدت مندوں کی کمی نہیں لیکن میں آپ کو محض عقیدت میں نہیں الجھانا چاہتا۔ آپ خواہ جتنے بھی اولیاء سے عقیدت رکھیں، محض خالی عقیدت اور محبت آپ کے عقیدے کی حفاظت نہیں کر سکتی، جب تک ان محبوب ہستیوں کے شب و روز کے معمولات کو اپنایا نہ جائے۔ آج بدقسمتی سے مسلک اہلسنت میں ایسے ’’رہنماؤں‘‘ کی کمی نہیں، جو محض اپنی عقیدت سے اپنے متوسلین کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں۔
عمل کے بغیر ایسی اندھی عقیدت کا ہمارے مسلک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آج نذرانے حاصل کرنے اور اپنی خدمت کروانے والے کے لئے ایسی نام نہاد تعلیمات کا پرچار کیا جارہا ہے۔ اولیاء صالحین میں سے کسی کی بھی ایسی تعلیمات نہیں۔ اولیاء طریقت کے خلاف یہ گمراہی پھیلائی جا رہی ہے۔ نئی نسل کو گمراہی کی طرف لایا جا رہا ہے، ایسا کرنے والوں کا مواخذہ اور گرفت ہوگی۔
نیتوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کی کسی گرد کا نہ رہنا، حقیقی تصوف ہے جو کتاب وسنت کی تعلیمات کے بغیر تصوف کی تعلیم دیتا ہے، وہ نہ پیر ہے اور نہ رہبر بلکہ شیطان ہے۔ آج کے رہبر اور پیران کرام (الا ماشاء اللہ) مریدوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ پیر وہ ہوتے ہیں جو خود منگتا بن کر نہیں پھرتے بلکہ مرید ان کی تلاش کرتے ہیں۔ آج کل تصوف کے نام پر میڈیا میں بھی ایک ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ یہ سب سفلی عملیات ہیں۔ یہ لوگوں کی جہالت اور پاگل پن کا تماشہ ہے۔ تصوف میں سفلی عملیات کا کوئی عمل دخل نہیں۔
دین ہمارے ظاہر و باطن کو اتنا اجلا کرنا چاہتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اس کی فکر ہی نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری نیتوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ آج کچھ لوگ دین کے نام پر منگتے بن گئے ہیں۔ دین کی خدمت کے نام پر علماء کا یہ حال ہے کہ ان سے ٹائم لیں تو وہ لاکھوں روپے لیتے ہیں۔۔۔ حضور کی سنت اور دین کا نام لینے والوں کو شرم نہیں آتی کہ وہ دین کوچند ٹکوں میں بیچ رہے ہیں۔۔۔ ٹکے ٹکے پر نماز جمعہ بیچنے والوں اور گانا بجانے والوں میں فرق کیا رہ گیا۔۔۔؟ یہ وباء ہمارے مسلک اہل سنت میں زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح نعت خوانوں کا حال بھی یہی ہے۔۔۔ قاری قرآن، قرات کا ریٹ مانگتے ہیں۔۔۔ کیا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہ تلقین کی تھی۔۔۔ کیا اولیاء، صلحاء دین کو بیچتے تھے۔۔۔؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں۔۔۔ پٹکے گلے میں ہیں، بڑی بڑی لمبی داڑھیاں ہیں مگر عمل یہ ہے کہ ڈالر لیے بغیر آپ دین کی خدمت نہیں کرتے۔ ان لوگوں نے مسلک اہلسنت کو برباد کردیا اور نوجوان نسل کو دین سے بیزار کردیا ہے۔
اللہ والوں سے محبت کی شرط نیکی، پاکیزگی، طہارت اور الحب لِلّٰہ ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ جب کسی سے دوستی کرنی ہوتو یہ پہلے یہ سوچو کہ اس کی دوستی قیامت کے دن بھی کام آئے گی یا نہیں۔ کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص نفسا نفسی میں ہوگا۔ کوئی کسی کا پرسان حال اور خیر خیریت پوچھنے والا نہیں ہوگا، سب خونی رشتے جواب دیجائیں گے۔ سوائے متقی لوگوں کے۔ اولیاء صالحین کو اپنی فکر نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کی سفارش کرتے اور انہیں جنت میں داخل کررہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بندے آپس میں میری وجہ سے محبت کرتے ہیں تو میں اس سے محبت کرنا اپنے اوپر لازم کر لیتا ہوں۔ اس لیے لوگو! اللہ سے بیوفائی چھوڑ دیں، وہ آپ کو شناسائی دے دے گا۔
’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کا ہر لمحہ گزشتہ لمحے سے بہتر ہوگا۔ کائنات میں جب اللہ تعالیٰ نے روح مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک لمحے کے لیے جسد اطہر سے نکالا تو روح نے عرض کی کہ مولا تو نے وعدہ کیا ہے کہ ہر لمحہ، گزشتہ لمحے سے بہتر ہوگا، اب میں تیرے پاس ہوں، اگر جسد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بہتر اور ارفع جگہ ہے تو مجھے وہاں رکھ، لیکن اگر نہیں تو پھر مجھے جسم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں واپس لوٹا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے روح مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھر واپس لوٹا دیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی حیات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف حیات ظاہری سے پردہ فرمایا ہے۔ جس کی نظر ابوبکر و صدیق رضی اللہ عنہما جیسی ہو تو وہ آج بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں، جن کی نظر ابوجہل جیسی ہے تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہیں آتے۔ اپنوں کو نظر آتے ہیں اور غیروں سے اوجھل ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی بات ہو تو نابینا لوگوں کی باتوں میں نہ آیا کریں، کیونکہ اس نے تو وہ سورج دیکھا ہی نہیں۔ بہرے کو آواز ہی نہیں سنائی دے گی تو وہ کیا سنے گا۔ جس کی حس ذائقہ نہیں، تو وہ کیا لذت اور حلاوت محسوس کرے گا۔ بس یہ لوگ بھی انوار و تجلیات سے محروم ہیں۔
’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے:
وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo
اس آیتِ کریمہ کو فقط سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کے لئے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضۂ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے۔
جو لوگ اپنے باطل عقیدے کی بناء پر حدیث ’’لا تشدّ الرّحال‘‘ سے غلط استدلال کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضری کی نیت سے جانے کے ساتھ ساتھ انبیاء و صالحین کے مزارات کی زیارت سے منع کرتے ہیں اور اسے (معاذ اللہ) سفر معصیت و گناہ اور شرک قرار دیتے ہیں وہ بلاشبہ صریح غلطی پر ہیں۔ صحابہ کرام ث کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہءِ اقدس کی حاضری بلند درجہ باعث ثواب اعمال میں سے ہے۔ نیز قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہلِ اسلام کا یہ معمول ہے کہ وہ ذوق و شوق سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے لئے جاتے ہیں اور اسے دنیاو ما فیہا سے بڑھ کر عظیم سعادت و خوش بختی سمجھتے ہیں۔
بعد اَز وِصال بھی صحابہءِ کرام سے لے کر لمحہءِ موجود تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہءِ اَطہر مرجعِ خلائق بنا ہوا ہے، درِ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر لمحہ صلِ علیٰ کے سرمدی پھولوں کی بہار دِلوں کے غنچے کھلاتی رہتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا در آج بھی کھلا ہے اور قیامت تک کُھلا رہے گا۔ اگر آج کا انسان امن، سکون اور عافیت کی تلاش میں ہے اور اُفقِ عالم پر دائمی امن کی بشارتیں تحریر کرنے کا داعی ہے تو اُسے دہلیزِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرجھک جانا ہو گا، اس لئے کہ گنبدِ خضرا کو اپنی سوچوں کا مرکز و محور بنائے بغیر باغِ طیبہ کے شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کو اپنے ویران آنگن کا مقدر نہیں بنایا جا سکتا، امن کی خیرات اسی در سے ملے گی، اس لئے کہ ذہنوں کی تہذیب و تطہیر کا شعور اُسی دَرِ پاک کی عطائے دلنواز ہے۔
سالانہ عالمی روحانی اجتماع (لیلۃ القدر) 2012ء
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 22 ویں سالانہ شہر اعتکاف میں ستائیسویں شب کا عالمی روحانی اجتماع 15 اگست 2012ء کی شب بغداد ٹاون میں جامع المنہاج سے متصل وسیع و عریض گراؤنڈ میں منعقد ہوا۔ عالمی روحانی اجتماع میں لاکھوں عاشقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرزندان اسلام نے شرکت کی، جس میں ہزاروں خواتین بھی شامل تھیں۔ عظیم الشان عالمی روحانی اجتماع کی صدارت صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کی جبکہ آستانہ عالیہ بھیرہ شریف کے محترم المقام صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ مہمان خصوصی تھے۔ امیر تحریک محترم مسکین فیض الرحمن درانی، محترم پیر سید خلیل الرحمن چشتی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ آباد شریف، کامونکی)، ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض اور جملہ مرکزی قائدین نے بھی عالمی روحانی اجتماع میں خصوصی شرکت کی۔
اس موقع پر محترم المقام صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کا یہ عالمی روحانی اجتماع دور حاضر میں روحانی اقدار کو زندہ کیے ہوئے ہے۔ ستائیسویں شب کے عالمی روحانی اجتماع میں ہر سال خوشی سے شرکت کرتا ہوں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں منہاج القرآن اور شیخ الاسلام سے انتہائی خوش ہوں۔ شیخ الاسلام اس دور کا سرمایہ ہیں۔ میں دعاگوہوں کہ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کے صاحبزادگان کو بھی ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا کرے۔
بعد ازاں صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو بندہ توبہ کے آنسوؤں سے اللہ تعالیٰ کو مناتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کی منتظر کھڑی ہوتی ہے۔ آج امت پر زوال کا وقت ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس امت کو دوبارہ عروج و بلندی کی طرف گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ہم گناہوں کی دلدل میں ہیں، ہمیں یقین ہے اس رات کی نسبت سے اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں گے۔
بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لیلۃ القدر کی مناسبت سے ’’اخلاص‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ. اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ.
(ص: ۸۲،۸۳)
’’اس (شیطان) نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔ سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں‘‘۔
آج کی رات اللہ کے بندوں کی رات ہے جس میں وہ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ اخلاص کی رات ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اخلاص یہ ہے کہ جب بندہ کہے کہ میرا رب اللہ ہے تو پھر اس کی ظاہری و باطنی زندگی میںاللہ کے ساتھ تابعداری کا تعلق قائم ہو جائے۔ اگر دل اخلاص کے نور سے منور نہیں ہوا، اس دل کے اندر طلب دنیا ہے، رغبت دنیا ہے اور ہر اس شے کی رغبت ہے جو اللہ سے دور کرنے والی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیز ایمان کا دھوکہ ہے۔
اخلاص کا معنی یہ ہے کہ دل کا چہرہ مولا کے سواء کسی اور کی طرف نہ رہے۔ ہر نیک کام میں نیت اخلاص کی ہو صرف مولا کے لئے کام کیا جائے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت فرمائی اپنے عمل کو اپنے دین کو صرف اللہ کے لئے خالص کرلو اس کے سواء تیرا کوئی مقصود و مطلوب نہ رہے۔ نیت میں جتنا خلوص ہوگا اتنا ہی درجہ بڑھتا جائے گا اور عمل مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں جب تم اللہ کے ساتھ معاملہ کرو تو مخلوق کو نکال دو جب مخلوق کے ساتھ معاملہ کرو تو نفس کو درمیان سے نکال دو۔ یہ ہی اصل اخلاص ہے۔