’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے بامقصد اور حقیقت پر مبنی نعرہ کے ساتھ 23 دسمبر کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وطن واپسی جہاں ایک طرف کارکنان تحریک کے لئے خوشی کا باعث تھی وہاں پاکستانی قوم کے لاکھوں افراد کے لئے بھی ہمت، حوصلہ اور جرات مندی کی نوید ثابت ہوئی۔ شیخ الاسلام کی وطن واپسی ان حالات میں ہوئی کہ کرپشن، بدعنوانی، بے روزگاری، مہنگائی، بیڈ گورننس، دہشت گردی، انتہا پسندی، معاشی زبوں حالی، سیاسی انتشار، اداروں کی باہم چپقلش اور دیگر عوامل نے 19کروڑ عوام کے امن و سکون کو تہہ و بالا کررکھا ہے۔ ہر ایک اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا ہوکر دوسرے کو پچھاڑنے کی فکر میں ہے۔ عوام الناس اور قوم و ملک کے مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیا جارہا ہے۔ ان حالات میں شیخ الاسلام کے انقلابی پیغام نے مایوس قوم کو صرف امید نہیں بلکہ یقین کی روشنی عطا کی۔
شیخ الاسلام کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی کارکنان تحریک اور ملک پاکستان کے درد مند افراد نے اپنی اپنی سطح پر اپنے عظیم قائد کی وطن واپسی کے لئے اپنی استطاعت سے بھی بڑھ کر استقبال کی تیاریاں شروع کردیں۔ شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق ملک پاکستان کی مجبور و مقہور عوام کی داد رسی کے لئے اور انہیں موجود سیاسی، انتخابی اور معاشی استحصال سے نجات دلانے کے لئے اس استقبال کو صرف استقبال تک ہی محدود نہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا بلکہ اسے 19 کروڑ عوام کے حقوق کی حفاظت اور انہیں سیاسی و معاشی استبداد سے نجات دلانے کے لئے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے بامقصد سلوگن کا عنوان دے دیا گیا۔
ملک پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کارکنان تحریک حقیقی تبدیلی کے آغاز کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ یونٹ، یونین کونسل، تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبوں کی سطح پر موجود ہر کارکن کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے آنے والے رفقاء و کارکنان تحریک اپنی اپنی علاقائی تنظیمات کے ساتھ اس عظیم پروگرام کی کامیابی کے لئے ہر لحاظ سے شامل رہے۔ ملک بھر میں موجود کارکنان کی محنت اور کاوشوں کے نتیجے کے طور پر 23 دسمبر کو چشم فلک نے وہ نظارا دیکھا جب اندرون و بیرون ملک موجود لاکھوں کارکنان تحریک اور ہر درد مند پاکستانی نے شب و روز ایسی ہمہ جہتی جدوجہد کی کہ 65 سالوں سے ملک و قوم کی تقدیر پر قابض افراد کی نیندیں حرام ہونے لگیں اور بالآخر 23 دسمبر کو ایک ایسا عظیم الشان عوامی اجتماع منعقد ہوا جس نے ایک طرف 23 مارچ 1940ء کے تاریخی اجتماع کی یاد تازہ کردی اور دوسری طرف ایوان اقتدار میں ایک زلزلہ بپا کردیا۔ یہ اجتماع نہ صرف منہاج القرآن کی تاریخ کا بلکہ ملک پاکستان کا سب سے عظیم اجتماع قرار پایا۔ اس اجتماع میں 20 لاکھ افراد نے شرکت کرکے موجودہ فرسودہ، سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف اعلان بغاوت کردیا۔اس عوامی اجتماع رپورٹ نذرِ قارئین ہے:
عوامی استقبال کے پروگرام کو ہر سطح پر کامیاب بنانے کے لئے انتظامی اعتبار سے محترم نائب امیر تحریک بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور سینئر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض کی سربراہی میں قائم درجنوں کمیٹیاں اور ان کے سربراہان، سیکرٹریز و ممبران اور سٹاف مرکزی سیکرٹریٹ ہر ایک اپنے ٹارگٹ کے حصول اور تفویض کردہ امور کو احسن انداز سے نبھانے میں 2 ماہ تک مسلسل مصروف عمل رہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے استقبال اور ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نعرہ پر لبیک کہتے ہوئے ملک پاکستان کے ہر علاقے سے ہزاروں شرکاء کی آمد 20 دسمبر کی رات سے ہی شروع ہوگئی تھی جو 23 دسمبر شیخ الاسلام کے خطاب کے دوران تک جاری و ساری رہی۔ منہاج القرآن کے ہزاروں مرد و خواتین رضا کار اس پروگرام کے لئے تفویض کردہ ذمہ داریاں نبھارہے تھے۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ وسیع و عریض پنڈال بنایا گیا تھا جسے تین مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ مینار پاکستان کے سائے تلے مرکزی اسٹیج بنایا گیا ہے، جبکہ معزز مہمانوں کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسٹیج تیار کیا گیا جہاں مہمانوں کے لئے ہزاروں کرسیاں لگائی گئی تھیں۔
عوامی اجتماع کے لیے مینار پاکستان آنے والے شرکاء کا جوش و خروش انتہائی دیدنی تھا۔ شرکاء میں نوجوانوں کی بڑی تعداد سمیت خواتین اور بڑی عمر کے لوگ بھی پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے، نعرے لگاتے ہوئے گروپس کی صورت میں پنڈال تک پہنچ رہے تھے۔ عوامی استقبال کے لئے آنے والے شرکاء میں ہر ایک کا جذبہ اپنی مثال آپ تھا مگر راولپنڈی، سیالکوٹ اور ملک کے دیگر حصوں سے پیدل کارواں کے ساتھ آنے والے بزرگ اور جوان دیگر شرکاء کے حوصلوں کو بلند رکھنے اور پروگرام سے پہلے ہی زبان حال سے کامیابی کی نوید سنارہے تھے۔
3 دن قبل آنے والے لاکھوں شرکاء کے لیے بادشاہی مسجد کے سامنے عتیق اسٹیڈیم میں رہائش اور کھانے کے انتظامات کیے گئے تھے۔ لاکھوں لوگوں کی رہائش اور کھانے کے انتظامات کے حوالے سے یہ پاکستان کی تاریخ کا منفرد پروگرام تھا جو اپنے تنظیمی اور انتظامی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوارہا تھا۔
عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، موسمی حالات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے محبوب قائد ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھا۔ ان شرکاء کے جذبات اور عقیدت و محبت کے پیش نظر 21 اور 22 دسمبر کو بھی مینار پاکستان پر تلاوت قرآن، نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، محفل سماع، خطابات اور ملی و تحریکی نغموں کا ایک سلسلہ جاری رہا۔ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے ہزاروں نوجوانوں نے پنڈال میں کھڑے ہو کر change کا لفظ لکھا۔ منہاج یوتھ لیگ کے نوجوانوں نے عظیم الشان محفل سماع کا اہتمام کیا جس میں نامور نعت خواں اور قوال حضرات نے نعتیں اور قوالیاں پیش کیں۔
23 دسمبر کے دن کے آغاز پر سورج نے مینار پاکستان اور اس کے گردو نواح ہر طرف انسانوں کا سمندر دیکھا جو عظیم اجتماع 23 مارچ 1940ء کی یاد دلا رہا تھا۔ پنڈال میں لاکھوں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے، اسٹیج پر ملی ترانوں کی گونج تھی۔ شاہدرہ، اسٹیشن، سیکرٹریٹ سمیت تمام مین سٹرکوں پر ساونڈ سسٹم نصب تھا۔ پروگرام میں دوسرے شہروں سے آنے والوں کی بسوں کی قطاریں راوی پار تک لگی ہوئی تھیں۔ مینار پاکستان گراؤنڈ کو جانے والے تمام راستوں پر کئی کئی میل تک بسوں اور گاڑیوں کی پارکنگ تھی۔
مرکزی سٹیج کے پیچھے آویزاں ’’تصور، تخلیق اور تعمیر‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ’’علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ، قائد اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور شیخ الاسلام‘‘ کی تصاویر ایک طرف شرکاء اجتماع کو قائدانہ اوصاف کی طرف متوجہ کررہے تھے تو دوسری طرف سٹیج کے دونوں جانب مہمانوں کے لئے موجود سٹیج پر تحریک پاکستان کے قائدین کی تصاویر تحریک پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والوں اور جدوجہد کرنے والوں کی یاد دلارہے تھے کہ تعمیر پاکستان کے لئے نئے سرے سے سفر شروع کرنا ہوگا۔
سٹیج پر محترم امیر تحریک، نائب امراء تحریک، ناظم اعلیٰ، سینئر نائب ناظم اعلیٰ، نائب ناظمین اعلیٰ، منہاج القرآن علماء کونسل، یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن ویمن لیگ اور جملہ مرکزی قائدین اور فورمز کے سربراہان بھی مہمانان گرامی کے ساتھ موجود تھے۔ علماء و مشائخ، مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان، سول سوسائٹی کے احباب، ڈاکٹرز، وکلاء، انجینئرز، صحافی، کاشتکار، صنعتکار، دیگر طبقات کے لئے درجہ بندی کے لحاظ سے بیٹھنے کے الگ الگ انتظامات کئے گئے تھے۔ جملہ TV چینلز کے نمائندگان، اخبارات کے سینئر رپورٹرز اور دیگر میڈیا شخصیات کے لئے باقاعدہ جگہ مخصوص تھی جہاں سے وہ اس پروگرام کو دنیا بھر میں براہ راست نشرکررہے تھے۔ منہاج TV، منہاج انٹرنیٹ بیورو اور منہاج میڈیا کے احباب بھی مکمل یکسوئی اور لگن کے ساتھ نہ صرف اپنی ذمہ داریاں نبھارہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ باہر سے آنے والے میڈیا پرسنز کو بھی مکمل معاونت فراہم کررہے تھے۔
اس عوامی اجتماع کا آغاز تلاوت و نعت سے کیا گیا، بعد ازاں ملی و تحریکی نغمے پیش کیے گئے۔ اس موقع پر پنجاب، خیبر پختوانخواہ، سندھ، بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان، سرائیکی خطے اور ہزارہ کے نمائندگان نے بھی اپنا پیغام شرکاء تک پہنچایا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے قومی پرچم کی نمائش بھی کی گئی۔ اس اجتماع میں استقبالیہ کلمات نائب امیر تحریک محترم علامہ صادق قریشی اور محترم ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ادا کئے جبکہ نقابت محترم انوار المصطفی ہمدمی، محترم محمد وقاص قادری اور یوتھ لیگ و MSM کے احباب نے کی۔ نامور علماء کرام اور پاکستان بھر سے تمام بڑی خانقاہوں کے سجادہ نشینان اور مشائخ عظام کی ایک بہت تعداد سٹیج پر موجود تھی۔ علاوہ ازیں تاجر، سیاستدان، وکلاء، ماہرین تعلیم، بیوروکریٹ، اسکالرز، مزدور رہنماء، ڈاکٹرز، انجینئرز، شوبز شخصیات اور کھلاڑیوں سمیت زندگی کے ہر طبقہ فکر سے معزز مہمان تاریخی اجتماع میں شامل تھے اور شیخ الاسلام کو اپنی حمایت کا یقین دلارہے تھے۔ یہ پروگرام اس حوالے سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد تھا کہ سکھ، مسیحی، ہندو اور دیگر مذاہب کے نمائندوں نے بھی پروگرام میں خصوصی شرکت کی اور پاکستان کو ہمہ جہتی استحکام دینے کے لئے شیخ الاسلام کے ایجنڈے اور موقف کی تائید کرتے ہوئے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جونہی مینار پاکستان پہنچے تو لاکھوں لوگوں نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا۔ فضا خیر مقدمی نعروں اور ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ شرکاء کے محبت و جذبات کے ان نعروں کا شیخ الاسلام نے ہاتھ ہلاکر اور وکٹری کا نشان بناکر جواب دیا۔ بعد ازاں آپ نے 2 گھنٹے کی تقریر میں پاکستان کے مسائل و بحرانوں کا آئینی حل پیش کیا۔
ذیل میں شیخ الاسلام کے اس تاریخی خطاب کے اہم نکات درج کئے جارہے ہیں:
اس خطاب میں شیخ الاسلام نے اس تاریخی اجتماع کا انعقاد کیوںاور کیسے منعقد ہوا؟ کے حوالے سے تفصیلی بریف کیا۔ سیاستدانوں اور بعض نام نہاد میڈیا اینکرز کی طرف سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور اعتراضات کا جواب دیا کہ میری جدوجہد کا مقصد ہرگز انتخابات کاالتواء نہیں بلکہ انتخابات کو آئین کے تحت کرانا ہے۔ ہمارا ایجنڈا آئین پاکستان اور قوانین پاکستان کے عین مطابق ہے آئین پاکستان جس طرح کے انتخابات کا تقاضاکرتا ہے اور جو شقیں اس حوالے سے آئین میں موجود ہیں ہم ان تمام شقوں کا کماحقہ نفاذ چاہتے ہیں اور ہم دھن، دھونس، دھاندلی کی سیاست کے قائل نہیں بلکہ سیاست محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قائل ہیں۔ شیخ الاسلام نے اس موقع پر اداروں کی باہم چپقلش اور حکمرانوں کی طرف سے عدلیہ کے احکامات کی حکم عدولی کی طرف بھی شرکاء کی توجہ دلوائی کہ کس طرح عدلیہ کے احکامات کی تضحیک کی جارہی ہے۔ ہمارا ایجنڈا عدلیہ کے فیصلوں کا نفاذ کراکے حقیقی معنوں میں عدلیہ کو بحال کرنا ہے۔ اس موقع پر آپ نے حقیقی جمہوریت کے تصور کو بھی واضح کرتے ہوئے اس ایجنڈے کو قابل عمل بنانے کا باقاعدہ حل بھی پیش کیا۔ شیخ الاسلام نے خطاب کے اختتام پر ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے 10 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی بصورت دیگر 14 جنوری کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا۔
(شیخ الاسلام کے اس خطاب کی مکمل تفصیلات کے لئے ماہنامہ منہاج القرآن جنوری2013ء، www.minhaj.org اور www.NizamBadlo.com ملاحظہ فرمائیں)
محترم قارئین! ملک کی موجودہ خوف زدگی، معاشی ابتری اور سیاسی اجارہ داری کے اس بھیانک ماحول میں اتنا بڑا اجتماع ایک طرف قوم کا شیخ الاسلام پر اعتماد کا اظہار تھا تو دوسری طرف فرسودہ انتخابی نظام کے خلاف ریفرنڈم۔ اس اجتماع میں پاکستان کے ہر خطے و زبان کے جملہ طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جوان، بوڑھے، خواتین اور چھوٹے بچے شریک تھے۔ مختلف علاقائی، لسانی، مسلکی، گروہی پہچان رکھنے کے باوجود ایک ہوکر پاکستان کے پرچم تلے مثالی نظم و ضبط کے ساتھ مینار پاکستان پر اکٹھے ہونا شیخ الاسلام سے ان کی عقیدت اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عوامی اجتماع میں تحریک کے کارکنوں نے اپنی جیب سے اخراجات کئے۔ ان اخراجات میں کسی ایجنسی، کسی حکومت یا کسی نادیدہ قوت کا ایک روپیہ بھی شامل نہیں تھا بلکہ یہ سب پاکستان اور شیخ الاسلام کی محبت میں لوگوں کی اپنی محبت اور جذبات کا اظہار تھا۔ اس عوامی اجتماع کے اخراجات کے حوالے سے عوام پر مسلط باریوں کے انتظار میں بیٹھے سیاسی جغادریوں کے الزامات دراصل ان کے خوف اور بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔ لوگوں کی شیخ الاسلام سے اس قدر محبت و عقیدت دیکھ کر تعصب سے پاک اور غیر جانبدار تجزیہ نگار، صحافی، کالم نگار اور ہر Opinion Maker اس بات کر برملا اظہار کرتا نظر آرہا ہے کہ شیخ الاسلام کی وطن واپسی اور لاکھوں کا یہ اجتماع پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہے۔ حکومتی وسائل نہ رکھنے کے باوجود اپنے کارکنان کی محبت اور جذبات کے بل بوتے پر اتنا بڑا تاریخی اجتماع کرنا اور اپنا پیغام پاکستان سمیت دنیا بھر میں دینا اس بات کا غماز ہے کہ شیخ الاسلام درحقیقت امن اور سیاسی و معاشی استحکام چاہتے ہیں اور کرپشن، بدعنوانی، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ شیخ الاسلام کا یہ پیغام ان شاء اللہ پاکستان کی قوم پر اپنے دور رس اثرات مترتب کرے گا۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ مینار پاکستان کے اردگرد لاکھوں افراد کا ہجوم کسی ذاتی منفعت اور لالچ کی وجہ سے نہ آیا تھا اور نہ یہ لوگ آئندہ انتخابات کے لئے ٹکٹ کے حصول کی تمنا لے کر آئے تھے، نیز نہ ہی یہ فیکٹریوں کے مزدور اور جاگیرداروں کے مزارع تھے۔ ان لوگوں کو نہ ہی سطحی لالچ دے کر یا ڈرا دھمکا کر ٹریکٹر اور ٹرالیوں پر لایا گیا اور نہ ہی یہ پٹواریوں، سرکاری سکول کے بچوں اور اپنے زمیندار کے خوف اور حکم سے مجبور ہوکر آنے والے مجبور کسانوں کا اجتماع تھا۔ We Want Chante کے نعرے لگانے والے ان نوجوانوں، بزرگوں، بچوں اور خواتین کو مراعات اور سہولتیں دینے کا لالچ دے کر ہر گز نہ لایا گیا تھا۔ تاریخ کا یہ سب سے بڑا، پرجوش اور تبدیلی کا خواہشمند اجتماع سخت سردی میں شیخ الاسلام کے استقبال اور ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نعرہ پر لبیک کہتے ہوئے 23 دسمبر سے بھی 2 دن پہلے اپنے محبوب قائد کو دیکھنے، ان کے خطاب کو سننے اور حقیقی تبدیلی کی آرزو لے کر مینار پاکستان پہنچ چکا تھا۔
اس عوامی اجتماع سے عوام کو ایسی قوت اور جرات ملی کہ ان کی آنکھیں پاکستان میں جس حقیقی تبدیلی کو ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں، شیخ الاسلام کی اس جدوجہد کے تناظر میں انہیں اپنی منزل بالکل قریب آتی محسوس ہونے لگی ہے۔ ریاست بچاؤ نعرے کو اس قدر عوامی پذیرائی نصیب ہوئی کہ شہروں سے لے کر دیہات تک ہر طبقہ اس کو اپنی آواز قرار دے رہا ہے اور یہ اجتماع حقیقی معنوں میں ہر طبقہ فکر کی نمائندگی کی علامت تھا۔
مخالفین کی طرف سے منفی پروپیگنڈوں کا آغاز ہوچکا، اقتدار پر قابض اور باریوں کے انتظار میں بیٹھے سیاسی باوے خوفزدہ اور پریشان دکھائی دے رہے ہیں، شیخ الاسلام کے حقیقت پر مبنی ایجنڈے کا دلائل کے ساتھ علمی و فکری جواب دینے کے بجائے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کردار کشی پر اتر آئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک پر مسلط نظام سے مایوس عوام گڈ گورننس، شفاف انتخابی عمل، قانون کی حکمرانی اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے شیخ الاسلام کے ساتھ ہے۔ ان شاء اللہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہوگی اور شیخ الاسلام کی قیادت میں اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو اس کے محافظوں سمیت سمندر غرق کردیا جائے گا۔