تحریک منہاج القرآن کی پہچان پوری دنیا میں امن و محبت کا پیغام عام کرنا اور مادیت پرستی کے اس دور میں گھر گھر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمعیں روشن کرنا ہے تاکہ نوجوان نسل کے دلوں میں ایک طرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبات جنم لیں تو دوسری طرف وہ آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام امن و محبت کو اپنے سیرت و کردار میں پیدا کریں۔
تحریک منہاج القرآن کا طرہءِ امتیاز یہ ہے کہ گزشتہ 28 سالوں سے جشن آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانے کے ساتھ ساتھ ولادت کی مقصدیت و اہمیت کے تصور کو بھی اجاگر کیا۔ تحریک منہاج القرآن آج دہشت گردی اور جبرو بربریت کے اس دور میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیاء پاشیوں سے روشنی لیتے ہوئے آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر مسرت ساعتوں کو منانے کے ساتھ ساتھ اتحاد ویکجہتی، محبت و رواداری، امن و آشتی اور قوت و برداشت کی تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کررہی ہے۔ حسب روایت ماہ ربیع الاول میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ، اندرون و بیرون ملک قائم سینٹرز اور تنظیمات کے زیر اہتمام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی بھرپور انداز میں منائی گئی۔ مرکزی سیکرٹریٹ کو برقی قمقموں اور روشنیوں سے سجایا گیا، تلاوت کلام پاک، ذکر و نعت اور درود و سلام کی محافل سجائی گئیں اور مرکزی سیکرٹریٹ پر ضیافت میلاد کا اہتمام بھی کیا گیا۔
امسال بھی تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 24 جنوری 2013ء کو مینار پاکستان لاہور پر 29 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس عالمی میلاد کانفرنس سے اڑھائی ماہ قبل شیخ الاسلام کی 23 دسمبر کو وطن واپسی کے حوالے سے عوامی استقبال کے لئے کارکنان شب و روز مصروف عمل رہے اور 23 دسمبر کو 14 جنوری سے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد کارکنان ایک مرتبہ پھر تحریکی سرگرمیوں میں رات دن ایک کرتے نظر آئے۔ 17 جنوری اسلام آباد لانگ مارچ سے واپسی اور 4 ماہ کی مسلسل محنت و تگ و دو کے باوجود جونہی 12 ربیع الاول کا مقدس دن قریب آنے لگا، کارکنان و رفقاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت و عشق کے اظہار کے لئے پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ کر جذبات عشق لئے مینار پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں موجود تھے۔ ضلعی حکومت کی طرف سے آخری دن مینار پاکستان پر پروگرام کرنے کی اجازت ملنے پر عالمی میلاد کانفرنس کے انتظامات چوبیس گھنٹوں سے بھی کم وقت میں مکمل کیے گئے۔ شدید سردی کے باوجود مینار پاکستان کے سبزہ زار اور کھلے آسمان تلے لاکھوں عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت و عشق کے جذبات کے ساتھ بیرونی موسم کو شکست دے رہے تھے اور ہر شخص ادب و محبت کا پیکر بنے اس پروگرام میں شریک تھا۔
عالمی میلاد کانفرنس میں مقامی پولیس انتظامیہ، اسپیشل برانچ، ایلیٹ فورس سمیت پولیس کے جوانوں کے ساتھ ساتھ یوتھ لیگ اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے جوان بھی ذمہ داریاں نبھارہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح خواتین کی بہت بڑی اکثریت گذشتہ پروگرام سے بھی بڑھ کر آج کے پروگرام میں موجود تھی۔ عالمی میلاد کانفرنس میں حسب سابق اس سال بھی ضیافت میلاد کا وسیع اہتمام کیا گیا تھا۔ عالمی میلاد کانفرنس کی کارروائی دو حصوں پر مشتمل تھی:
- پہلے سیشن میں تلاوت و محفل نعت منعقد ہوئی جس میں ملک کے نامور قراء اور ثناخوانان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکت کی۔
- دوسرے سیشن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور دیگر مقررین نے اظہار خیال کیا۔
یہ پروگرام چینل 92 اور اے آر وائی نیوز سمیت دیگر ٹی وی چینلز کے ذریعے بھی براہ راست پیش کیا گیا۔
29 ویں عالمی میلاد کانفرنس کے دوسرے سیشن کا آغاز تلاوت کلام مجید سے زینت القراء قاری اللہ بخش نقشبندی نے کیا جبکہ صدارت محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کی۔ نائب امیر تحریک محترم علامہ محمد صادق قریشی، محترم علامہ رانا محمد ادریس قادری، محترم علامہ فرحت حسین شاہ، محترم انوارالمصطفی ہمدمی اور ہندو و سکھ رہنماؤں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے اپنے انداز میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہوئے اظہار خیال کیا۔
اس موقع پر محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے عالمی میلاد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اسلام پرامن دین ہے، اسلام کے اندر ظلم، جبر و بربریت اور دہشت گردی کا کوئی وجود نہیں۔ مومن وہ ہے جو خود امن والا ہو اور دوسروں کو امن فراہم کرے۔ اگر کوئی ہستی امن والی ہوگی تو اس کے وجود سے ہمیشہ امن و سلامتی اور سکون ہی نصیب ہوگا اگر کوئی ہستی بے امن ہوگی اس کے وجودسے انتشار اور فساد انگیزی جنم لے گی۔ آج اگر ہم سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا چاہتے ہیں تو اپنی ذات و صفات اور عادات میں پرامن ہونا ہوگا۔ یہ دین سراسر امن و محبت آشتی کا نام ہے۔ یہ ہی پیغام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور یہی پیغام منہاج القرآن کا ہے‘‘۔
محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے خطاب کے بعد ثنا خوانان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوبصورت انداز میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔ بعد ازاں محترم انوارالمصطفیٰ ہمدمی نے شیخ الاسلام کو خصوصی خطاب کی دعوت دی۔
خطاب شیخ الاسلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انک لعلی خلق عظیم کے فرمان خداوندی کو موضوع بناتے ہوئے ’’اخلاق حسنہ‘‘ پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ ساری دنیا کے لیے نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم ڈھائے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انتہائی بردباری کا مظاہرہ کیا اور کسی کو بد دعا تک نہ دی۔ آج اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر عمل کریں تو بہت ساری خرابیاں خود بخود دور ہو جائیں۔ آج ہم نے اپنے فکر و نظریے کی کمی کی وجہ سے خود کو تعلیمات نبوی سے دور کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے اندر وسعت قلبی و نظری پیدا نہیں ہو رہی۔ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رحجان فروغ پا رہا ہے۔ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولد کا ذکر تورات میں بھی آیا، جس میں آپ کے اخلاق حسنہ کی نشانیاں بیان کی گئیں۔ اس لیے آپ کی شخصیت اور آپ کے اخلاق ساری دنیا کے لیے نمونہ ہیں۔ سنت نبوی کی روشنی میں جو بھی قوت دین حق کا علم بلند کرے گی، تو اس کی راہ میں کانٹے ڈالے جائیں گے لیکن ہم نے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا، آج اگر کوئی ہماری کردار کشی کر رہا ہے تو اس کی گالی کا جواب گالی سے نہ دیں۔ ہم اسوہءِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اپنے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ ہم دلیل سے بات کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم شرافت اور عظمت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاشرے میں ایک طبقہ کے پاس ضروریات زندگی بھی موجود نہیںجبکہ دوسری جانب ایک ایسا طبقہ ہے جس کے پاس سب کچھ موجود ہے۔ اس طبقاتی تفریق نے ہمیں اخلاقی طور پر تباہ حال کر دیا ہے۔ مگر ہم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو دیکھیں تو ہجرت مدینہ میں آپ نے انسانی محرومیوں کے خاتمے کے لیے، ایک ایسا انسانی معاشرہ قائم کیا، جس میں آپ نے لوگوں کی کفالت کا بندوبست کیا۔ طبقاتی فریق کے خلاف آقا علیہ السلام نے حکم دیا کہ جن کے پاس مال ہے، وہ محروم لوگوں کو بھی اس میں سے دیں۔ آج ہمیں اس سنت نبوی کو معاشرے میں عام کرنا ہوگا۔ معاشرے میں استحصال اور ناانصافی کو ختم کرنا ہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام ہے۔
آج اگر ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی فکر میں عمل میں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اپنے اندر سے تنگ نظری کو ختم کرکے وسعت قلبی و نظری پیدا کرنا ہوگی ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا اگر ہم آقا علیہ السلام کی سیرت طیبہ کا عکس اپنی زندگیوں میں پیدا کرلیں تو ہماری زندگی میں انقلاب کا آغاز ہوجائے گا۔ انقلاب کی آرزو رکھنے والو! اپنی سوچ میں وسعت، اپنے دل میں رحمدلی، دوسروں کے لئے بھلائی اور خیر کا عنصر پیدا کرلیں یہاں تک کہ اپنے آرام و آسانی کو دوسروں کے دکھوں پر قربان کردیں تو ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ بن جائے۔ تمام انبیاء کرام نے اللہ رب العزت کی توحید کے پیغام کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ کی تعلیمات کا سلسلہ جاری رکھا اور آقا علیہ السلام کی ساری زندگی سراپا حسن اخلاق کا پیکر رہی۔ یہی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ بہار لے کر آئے اور یہ پیغام ربیع الاول میں اپنی امت کو دیا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں ربیعیت پیدا کریں۔