عجیب و غریب لین دین
اس حدیث کے راوی حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ ہیں :
انسان کا نامہ اعمال تیار کرنے اور اس کی نیکیاں اور برائیاں لکھنے کے لئے دو فرشتے مقررہیں جو اس کے دائیں بائیں رہتے ہیں، داہنی طرف کا فرشتہ حاکم اور بائیں طرف کا محکوم ہے اور حاکم فرشتے کے احکام کا پابندہے۔ جب انسان ایک نیک کام کرتا ہے تو دائیں طرف کا فرشتہ جھٹ پٹ ایک کی بجائے دس نیکیاں لکھ لیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا حکم اور فیصلہ ہے :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه عَشْرُ اَمْثَالِهَا.
’’یعنی جو شخص ایک نیکی کرے، اس کے لئے ویسی ہی دس نیکیاں ہیں‘‘۔
اور اس صورت کے برعکس، جب انسان اچھائی کی بجائے برائی کرتا ہے تو بائیں طرف والا فرشتہ اپنے حاکم سے پوچھتا ہے : ایک برائی لکھ لوں؟ تو حاکم فرشتہ جواب دیتا ہے۔ ابھی ٹھہر جاؤ ممکن ہے یہ توبہ کرلے اور اللہ تعالیٰ اس کا یہ گناہ بخش دے۔ چنانچہ اگر بندہ توبہ استغفار کرلے تو اس کا وہ گناہ مٹ جاتا ہے لیکن اگر بندہ توبہ نہ کرے اور ایک گناہ اور کرلے تو حاکم فرشتہ پھر بھی اسے یہ گناہ نہیں لکھنے دیتا۔ تاآنکہ پانچ گناہ جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر انسان ایک نیکی کرلے تو حاکم فرشتے اپنے ساتھی سے کہتا ہے، آؤ ہم ایک سمجھوتہ کرلیں۔ اس شخص نے پانچ گناہ کئے ہیں اور اب ایک نیکی کی ہے، جس کے بدلے میں یہ دس نیکیوں کا مستحق ہوگیا ہے۔ میں دس کی بجائے اس کی پانچ نیکیاں لکھ لیتا ہوں، تم پانچ نیکیوں کے بدلے میں اس کے پانچ گناہ مٹادو۔
انسان کی بخشش کا یہ عالم اور اسے ملنے والی نیکیوں کی یہ بہتات دیکھ کر شیطان کف افسوس مل کر رہ جاتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ انسان کو رب کی رحمت سے دور کرنے کے لئے کون سے ہتھکنڈے استعمال کرے۔ یہ تو ایک ہی نیکی کرکے اس کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور رحمان کی رحمت کے سائے میں آکر پھر تازہ دم ہوجاتا ہے۔ شیطان پھر بھی ہمت نہیں ہارتا، اور انسان کو بھٹکانے اور تباہ کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے، تاہم بے پایاں رحمت بھی ہر مرحلے پر انسان کی دستگیری کرتی ہے اور مفت میں نیکیوں کے انبار دے کر اسے شیطان پر غالب و قوی رکھتی ہے۔ (الغنیۃ الطالبین)
گناہ گار کی پردہ پوشی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا :
يَدْنُوالْمُوْمِنَ حَتّٰی يَضَعَ عَلَيْهِ کَنَفَه فَيُقَرِّرُه بِذُنُوْبِه تَعْرِفُ ذَنْبٍ کَذا؟ يَقُوْلُ رَبِّ اَعْرِفُ، فَيَقُوْلُ : سَتَرْتُهَا فِی الدُّنْيَا وَاَغْفِرُهَا لَکَ الْيَوْمَ.
’’قیامت کے دن، خدا تعالیٰ، اپنے بندہ مومن کے قریب آئے گا (اپنی شان کے لائق) پھر اس پر اپنی رحمت کی چادر ڈال دے گا اور اس سے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ اے بندے! فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا؟ اقرار کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا؟ دنیا میں میں نے پردہ پوشی کی تھی، آج بھی تیرے گناہ بخشتا ہوں‘‘۔ (مسلم، 2 : 360)
اس طرح وہ بندہ عذاب کا مستحق ہونے کے باوجود، محض رحمت خداوندی کے باعث، رسوائی اور سزا سے بچ جائے گا اور اپنے رب کریم کی خصوصی رحمت و عنایت سے مغفرت حاصل کرے گا۔
پچاس نمازیں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
معراج کی شب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پچاس نمازیں عطا فرمائیں اورحکم دیا کہ اپنی امت سے کہیں، وہ دن رات میں یہ پانچ نمازیں ادا کیا کرے۔
یہ نعمت عظمیٰ، یہ روحانی تحفہ اور حکم خداوندی لے کر، جب چھٹے آسمان پر تشریف لائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا، کہ رب کریم نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائی ہیں، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا : آپ ان میں تخفیف کرا لیں کیونکہ میں نے آزمایا ہے، قومیں اس سلسلے میں سستی کرتی ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مشورہ قبول فرمایا اور بتدریج پینتالیس نمازیں معاف کرالیں اور پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم لے کر واپس آگئے۔
اللہ پاک نے اپنے محبوب کو خوش خبری دی :
يَا مُحَمَّدُ! اِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلوَاتٍ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لِکُلِّ صَلٰوةٍ عَشَرٌ فَذَالِکَ خَمْسُوْنَ صَلٰوةً.
’’بے شک یہ پانچ نمازیں ہیں، لیکن ہم ثواب پچاس ہی کا دیں گے، ہر نماز کے بدلے میں دس نمازوں کا ثواب عطا کریں گے‘‘۔ (مسلم، 1 : 91)
امت کے لئے دوہرا اجر
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
گذشتہ قوموں کے مقابلے میں تم پر جو اللہ تعالیٰ کی خاص نظر رحمت ہے اسے اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے : جیسے اہل تورات یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے نصف دن تک کام کیا پھر انہیں ان کا اجر دے کر فارغ کردیا گیا، اس کے بعد اہل انجیل آئے، انہوں نے عصر تک کام کیا، انہیں بھی ان کا مناسب اجر دے کر فارغ کردیا گیا، اس کے بعد ہم آئے، ہم نے عصر سے لے کر مغرب تک تھوڑے عرصے کے لئے کام کیا اور ہمیں دوہرے اجر سے نواز دیا گیا، اس پر اہل تورات اور اہل انجیل بولے : ہمیں اکہرا اجر دیا گیا ہے اور انہیں دوہرے اجر سے نوازا گیا ہے۔ اس میں کیا راز ہے؟ حالانکہ کام ہم نے زیادہ کیا ہے؟
اللہ پاک نے انہیں جواب دیا، تم صرف یہ بتاؤ۔
هَلْ ظَلَمْتُکُمْ مِنْ اَجْرِکُمْ شَيْئًا؟
’’کیا ہم نے تمہارے اجر میں کوئی کمی ہے؟ یا تم پر کسی قسم کا کوئی ظلم کیا ہے؟‘‘
انہوں نے جواب دیا : ’’نہیں‘‘ اللہ پاک نے فرمایا : جب تمہارا حق نہیں مارا گیا تو تمہیں اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟
وَهُوَ فَضْلِيْ اُوْتِيْهِ مَنْ اَشَاءُ.
(بخاری، 1 : 79)
’’وہ میرا فضل ہے، جسے چاہوں دوں‘‘۔
آخری جنتی
انسان خداوند کریم کے احکام بجا لائے اور اطاعت و فرمانبرداری کا مظاہرہ کرے تو اس کے بدلے میں جو اسے ثواب دیا جاتا ہے، اسے اجر کہتے ہیں۔ اگر انسان گناہ کرے اور برائیوں پر کمر باندھ لے لیکن اس کی برائیاں اور خطائیں معاف کردی جائیں تو اسے مغفرت کہتے ہیں۔ یہ دونوں بندے کو نوازنے کی صورتیں ہیں لیکن ان دونوں کرم بخش صورتوں کے علاوہ نوازش و عطا کی ایک حیرت انگیز صورت اور بھی ہے جسے رحمت کہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت انسان نے کوئی عمل نہ کیا ہو لیکن اسے اجرو ثواب سے لاد دیا جائے اور اس کے لئے نعمتوں کے انبار لگا دیئے جائیں، قیامت کے دن اس عظیم و عجیب رحمت کا مظاہرہ ہوگا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ایک خاص صورت یہ بیان فرمائی ہے جس کا تعلق ایک گناہ گار شخص سے ہے جو دوزخ میں ہوگا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اسے پہچانتا ہوں، اسے سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا۔ وہ نجات پاکر دوزخ کے کنارے پہ کھڑا ہوجائے گا اور رب کا شکر ادا کرے گا۔ جس نے اسے آگ کے اس بھڑکتے الاؤ سے نجات دی۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا، یا اللہ! دوزخ کے اس ہولناک اور ڈراؤنے منظر نے مجھے ہراساں کیا ہوا ہے۔ تو میرا رخ جنت کی طرف کردے تاکہ میں اس خوف و ہراس سے چھٹکارا حاصل کرلوں اور اس ذہنی عذاب سے نجات پاؤں۔
ارشاد خداوندی ہوگا : میرے بندے! اگر ہم نے تیرا یہ مطالبہ مان لیا تو پھر تو اور مطالبہ کرے گا؟ وہ بندہ عرض کرے گا۔ خداوندا! میں سچے دل اور پکی زبان کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ اور کچھ نہیں مانگوں گا، مجھے صرف دوزخ سے دور کردیا جائے۔
چنانچہ اس کا یہ مطالبہ مان کر اسے جنت سے کافی فاصلے پر کھڑا کردیا جائے گا۔
وہ عرصہ دراز تک دور سے جنت کے نظارے کرتا رہے گا۔ آخر ایک روز اس کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے گا اور وہ عرض کرے گا : خداوندا! مجھے درِ جنت کے قریب کردے یہ خوبصورت منظر مجھے بہت بھلا لگ رہا ہے، میں اسے قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں، حکم ہوگا : اے بندے! تو نے تو کہا تھا مزید کوئی مطالبہ نہیں کروں گا؟ بندہ کہے گا : اے مالک! یہ مطالبہ مان لے اور کچھ نہیں مانگوں گا، پکا وعدہ کرتا ہوں کہ اب قول سے نہیں پھروں گا اور وعدے پر قائم رہوں گا۔ چنانچہ اس کی فرمائش اور درخواست پر اسے بہشت بریں کے دروازے کے قریب کردیا جائے گا۔
اب وہ جنت کے اندرونی مناظر سے بھی لطف اندوز ہونے لگ جائے گا۔ جنت کی دل کش آرائش و زیبائش، روحانیت افروز عیش و عشرت، اور بیش بہا نعمتوں کی افزائش و فراوانی، اسے حیرت زدہ کردے گی وہ سوچنے لگ جائے گا کہ انہیں کس طرح حاصل کرے اور آخر ایک روز اس کے وعدوں کے بندھن ڈھیلے پڑجائیں گے اور وہ عرض کرے گا :
رب کریم! تو مجھے اس جنت میں داخل کردے۔ ٹھیک ہے تو مجھے عہد شکن اور وعدہ خلاف کہے گا، لیکن مالک کیا کروں، ان آسائشوں کو دیکھتے ہوئے صبر نہیں ہورہا، دل مچل رہا ہے، رحم کر اور اپنے اس گناہ گار بندے کو رحمت خاص سے نواز۔ اگرچہ وہ اس کے لائق نہیں ہے۔
اس کی عاجزی و سرفگندی، رب کی رحمت پر ناز اور اس کی ادائے دلبری، رب کی رحمت کو منالے گی۔ وہ فرمائے گا، اے میرے بندے! تو باز نہیں آئے گا۔ جنت میں چلا جا اور ایک ہی مرتبہ سب کچھ مانگ لے۔
وہ شاداں و فرحاں جنت میں داخل ہوجائے گا اور ہر طرف نعمتوں کی بہتات دیکھ کر بے حد خوش ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا! یہ سب کچھ اور اسی کی مثل دس گنا اور تیرے لئے ہے۔ بندہ اتنا کچھ پاکر بے ساختہ پکار اٹھے گا : خداوندا! تو نے مجھے اتنا دیا ہے جتنا شاید کسی اور کو نہیں دیا ہوگا۔ (مسلم، 105، 101)