پہلا حصہ
گذشتہ ماہ 31 مئی آزاد کشمیر ضلع بھمبر کی ضلعی تنظیم ’’تحریک منہاج القرآن‘‘ کے زیر اہتمام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور داعی امن کے موضوع پر ایک عظیم الشان سیمینار منعقد ہوا جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ اس سیمینار کی صدارت آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم ریاض اختر چوھدری نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں آزاد کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر محترم پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن خان، تحریک منہاج القرآن کے مرکزی ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اور راقم الحروف کے نام شامل تھے۔ میزبان تقریب پروفیسر رشید احمد صدیقی سمیت سب حضرات نے اپنے گراں مایہ خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے اپنی معروضات پیش کیں مگر چونکہ وقت کم تھا اس لئے اختصار سے کام لینا پڑا۔ اس لئے حاضرین مجلس خصوصاً تحریکی دوستوں کے اصرار پر یہ مقالہ جملہ قارئین کے لئے پیش خدمت ہے : (مدیر اعلیٰ)
ایک بنیادی سوال
حضرات محترم! اسلام دنیا کا سب سے بڑا عملی مذہب ہے۔ اس کے ماننے والے سوا ارب لوگ دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہیں یعنی دنیا میں موجود ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔ اس کے آغاز سے اب تک ساڑھے 14 صدیاں گزر چکی ہیں۔ یہ 5 درجن ممالک کا سرکاری مذہب ہے اور دنیا کی بیشتر ریاستوں میں مسلمان بھاری اکثریت سے آباد ہیں۔ اس تجزیے سے میں آپ کے سامنے یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کوئی اجنبی تصور نہیں بلکہ مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی تعلیمات اس کی تاریخ اور اس کے پیغمبر محسنِ انسانیت ختم الرسل نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شخصی اور روحانی کمالات سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انفارمیشن کے انبار کی حامل اس دنیا میں ہمیں اس طرح کے سیمینار منعقد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیا ہم خود یا ہمارے مخالفین (غیر مسلم) اس حقیقت کو اب تک سمجھ نہیں پائے کہ دنیا کا واحد زندہ، محفوظ اور متحرک دین اپنی حقیقت و ماہیت میں کیا ہے؟ نیز آج ہم اس بات کی تشریح کے لئے کیوں جمع ہورہے ہیں کہ ہمارے آقا و مولا، ہمارے دلوں کی دھڑکن ہمارے ایمانوں کے محور اور ہمارے اعمال و افعال کے محرک، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعی ’’پیغمبر امن و سلامتی‘‘ ہیں۔ حالانکہ رحمۃ للعالمین کا تاج کسی اور نے نہیں خود خالقِ ارض و سماء نے انہیں عطا کر رکھا ہے۔ یہ مقامِ غور اور لمحۂ فکریہ ہے کہ اتنا طویل سفر طے کرنے کے بعد آج ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا وہ پہلو زیر بحث لانے پر مجبور ہیں جس سے کفار مکہ بعثت سے پہلے بھی متعارف تھے، یعنی صادق اور امین۔ جس شخصیت کی سچائی اور امن پسندی کی گواہی اس کے جانی دشمن بھی دیتے ہوں آج 14 صدیوں بعد اس کے کلمہ گو افراد آخر کس وجہ سے اس موضوع پر لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سننے پر مجبور ہوئے ہیں؟
دو وجوہات
اگر آپ غور کریں تو ہمیں اس کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔
- ہماری داخلی کیفیت
- درپیش خارجی صورت حال
داخلی کیفیت سے مراد اہل اسلام کی باہمی تفرقہ پروری، مار دھاڑ، قتل و غارت گری اور فساد انگیزی ہے جس میں کم و بیش پورا عالم اسلام ہی شامل ہے۔ بین الممالک افتراق ہیں، بین المسالک اختلاف ہیں اور پھر ہر ملک کے اندر رہنے والے لوگ معمولی معمولی مسائل پر درجنوں گروپوں میں نہ صرف تقسیم ہیں بلکہ باہم دست و گریبان بھی ہیں۔
خارجی صورت حال سے مراد اسلام مخالف قوتوں کی دشمنی، مخالفانہ سازشیں اور عالمگیر منفی پروپیگنڈہ ہے۔ آج جب مسلمان ہر طرف سے غیروںکے ظلم و ستم کا شکار بھی ہورہے ہیں اوران پر الزام بھی لگ رہاہے کہ ’’وہ دہشت گرد ہیں ان کی تاریخ وحشیانہ مظالم سے بھری پڑی ہے، مسلمان محبت، مروت اور رواداری کے مفہوم سے آشنا ہی نہیں۔ اسلام جہاں جہاں بھی پھیلا وہ تلوارکے زور پر پھیلا‘‘۔ یورپ اور امریکہ کے دانشور یکے بعد دیگرے کتابیں لکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ پاپائے روم ( بینی ڈکٹ)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتا ہے : ’’مسلمانوں نے دنیا میں ہمیشہ فتنے بپا کئے ہیں۔‘‘ امریکہ کے پادری اپنے چرچوں کے باہر یہ لکھ کر لگاتے ہیں کہ ’’قرآن مسلمانوں کو غیر مسلموں کے قتل پر اکساتا ہے اس لئے اسے تلف کردیا جائے‘‘۔ ۔ ۔ ان کی یہ ساری کاوشیں درحقیقت تاریخ کی سب سے بڑی سچائی کو جھٹلانے کے مترادف ہیں۔ بطور امت قومی اور ملی سطح پر۔ ۔ ۔ اور بطور مسلمان۔ ۔ ۔ انفرادی اور ذاتی سطح پر۔ ان دونوں محاذوں پر پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور سازشوں کا توڑ ہر فریق پر واجب ہے یہی وہ بڑا چیلنج ہے جو اس وقت اسلام کو ایک مرتبہ پھر درپیش ہے۔ ’’ایک مرتبہ پھر‘‘ کا لفظ میں نے عمداً اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہ نیا مسئلہ نہیں۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
اوپر بیان کی گئی دو وجوہات میں سے موخرالذکر وجہ (عالم کفر کی طرف سے پھیلائی جانے والی بدگمانیوں) پر ہم پہلے بات کرلیتے ہیں۔
اسلام اور پیغمبر اسلام کی امن دوستی عالمی حقیقت
جہاں تک سوال ہے قیام امن اور رواداری کے متعلق اسلام اور اسوۂ حسنہ کی تعلیمات و تفصیلات کا تو میں یہاں قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام سے دلائل کے انبار لگانے کی بجائے صرف یہ کہنا ہی مناسب سمجھوں گا کہ اسلام ہے ہی امن کا دین اور ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات از اول تا آخر انسانیت پرور، رواداری اور امن و تحفظ کا عملی دستور ہیں۔ اس سے بڑی دلیل اور کون سی ہوگی کہ لفظ اسلام سلامتی سے اور لفظ ایمان ’’امن‘‘ سے ماخوذ ہے۔
صرف ایک مثال ہی دیکھ لیں کہ ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو اور تمہارا بہترین تحفہ یہ ہے کہ ( افشو السّلام بينکم) ایک دوسرے پر سلامتی بھیجا کرو۔ جس قوم میں سلامتی کا پیغام عام کرنا وجوب کی حد تک ہو اس سے زیادتی، ترش روئی اور دہشت گردی منسوب کرنا وقت کا سب سے بڑاجھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟
پیغمبر انسانیت، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑا انقلاب یہ لائے کہ انہوں نے صدیوں سے متحارب قوم کوبھائی بھائی بنادیا۔ قرآن نے اس کا اعلان یوں کیا :
وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا.
(آل عمران، 3 : 103)
’’اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں (اپنا رسول بھیج کر) اس گڑھے سے بچا لیا۔ ‘‘
تباہی کا یہ گڑھا شرک بھی تھا، ظلم و زیادتی بھی تھی، انسانی تذلیل بھی تھی اور باہمی جنگیں اور خون خرابے بھی تھے مثلاً اوس اور خزرج دو معروف قبائل تھے جن کے درمیان 300 سالوں سے جنگ جاری تھی۔ عرب سماج میں مردوں کو صرف اس لئے عورتوں پر ترجیح دی جاتی تھی کہ وہ جنگوں میں شامل ہوکر مخالفین کا خون بہانے میں زیادہ اہل ثابت ہوسکتے تھے۔ وہ عرب جن کی شاعری میں سب سے بڑی خوبی یہی سمجھی جاتی تھی کہ اس میں مخالف فریق کی بزدلی اور اپنے لوگوں کی بہادری کے لئے مبالغے کی حد تک بیان ہو۔ چنانچہ قدیم عربی شاعری کے معروف شعری مجموعے کا نام ہی ’’دیوان حماسہ‘‘ پڑھ گیا۔ جسکا معنی ہے ’’جنگ و جدل میں بہادری پر اکسانے والا مجموعۂ کلام‘‘۔ حالی نے اسی منظر کو شعری قالب میں بیان کیا ہے۔
مفاسد کو زیر وزبر کرنے والا
قبائل کو شِیر و شکر کرنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
وہ اک نسخۂ کیمیاء ساتھ لایا
دوسری جنگ عظیم کے دن تھے، پوری دنیا بارود اور آتشیں اسلحہ کے نشانے پر تھی، ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ ایٹم بم برسانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا تھا۔ دنیا ایک مہیب اور ڈراؤنے خوف میں مبتلا تھی۔ امن کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی۔ انسانی لاشوں پر ابلیس کا رقص جاری تھا، آدمیت کی اس بے بسی اور انسان کی بے حسی کو دیکھتے ہوئے یورپ کے مشہور فلسفی اور ڈرامہ نگار برنارڈ شاہ نے کہا تھا :
’’آج اگر پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم مان لیا جائے اور ان کے پیغام امن کو اپنا لیا جائے تو امن قائم ہوسکتا ہے‘‘۔
آج دنیا پر خوف اور ہلاکت کے سائے پھر گہرے ہورہے ہیں۔ پوری دنیا کو فتح کرنے کے نشے میں جنونی مشیروں کی بدنام زمانہ ٹیم کے ہمراہ کروسیڈی بُش ہر سمت فساد برپا کئے بیٹھا ہے۔ مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک ہر جگہ اس کے گماشتے دندناتے پھرتے ہیں۔ اسے پوری دنیا میں اب صرف ایک رکاوٹ نظر آرہی ہے اور وہ ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا جذبہ ایمانی۔
ہاں وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو صرف مسلمانوں کے نہیں دنیا کے ہر مظلوم و مقہور شخص کی امید ہیں۔ ہر بیمار کے مسیحا اور ہر درد کی دوا ہیں۔ وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والے ہیں۔ ان کی بارشِ کرم سب پر برستی ہے۔ ان کی رحمت کا سائباں سب پر کشادہ ہے۔ اسی لئے غیر مسلم شاعر پنڈت رام پرتاب جالندھری نے کہا تھا :
مذہب کو زندگی کے عمل سے ملا دیا
ممنونِ التفات ہے امت جناب کی
میرے بھی حال زار پہ ہو، اک نگاہِ لطف
بگڑی بنانے والے! جہان خراب کی
ہم اس نبی رحمت رسولِ انسانیت، غمگسارِ بے کساں، شفیعِ مذنباں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور سنت کا کون کون سا گوشہ ملاحظہ کریں۔ وہ جب 12 سال کے تھے تو مکہ کی مظلوم عوام کے دکھوں میں شریک ہوئے، حلف الفضول سے لے کر تنصیبِ حجرِ اَسود کے واقعہ تک فساد اور خون خرابے کے امکانات کو کافور کرتے رہے۔ ۔ ۔ بعثت ہوئی تو کئی سال دارِ ارقم میں خاموش تبلیغ کو ترجیح دی۔ ۔ ۔ عرب عصبیت نے قبیلائی دشمنی کا رنگ اختیار کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے۔ ۔ ۔ پھر دعوت حق کے لئے طائف گئے تو خون آلود حالت میں بھی جبرئیل کی درخواست پر فرمایا : بعثت رحمۃ۔ ۔ ۔ قریش مکہ کی زیادتیاں بڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سمیت خاموشی سے ہجرت فرمالی۔ ۔ ۔ یثرب کو مدینہ بنایا تو وہاں جاتے ہی مواخات کے ذریعے مہاجر و انصار کو اخوت کے رشتے میں جوڑ دیا۔ ۔ ۔ ریاست مدینہ کے حاکم بنے تو یہود مدینہ کے ساتھ دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ فرمایا جس کی تمام شقیں امن و سلامتی سے متعلق تھیں۔ ۔ ۔ کفار مکہ حملہ آور ہوتے رہے تو آپ نے ہمیشہ دفاعی (Defenciv) پوزیشن میں جنگ لڑی۔ ان دفاعی جنگوں میں شمولیت بھی اتنی احتیاط اور اصولوں پر مبنی تھی کہ آپ دنیا کے پہلے حاکم اور سپہ سالار ہیں جنہوں نے جنگ کے اصول متعین فرمائے، ضابطے طے کئے اور بے قصور طبقات کے قتل عام سے منع فرمایا۔ ۔ ۔ صلح حدیبیہ میں بھی آپ نے بے مثال صبر و تحمل بردباری اور نظم و ضبط کا مظاہرہ فرماکر ہزاروں تلواریں گردنوں سے ہٹاکر نیام میں ڈال دیں اور۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب 10 سال قبل وطن مالوف سے تنگ کرکے نکالے گئے مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سربراہی میں 10 ہزار کے لشکر کے ساتھ دوبارہ مکہ لوٹ رہے تھے۔ ۔ ۔ مخالفین تھر تھر کانپ رہے تھے، کچھ اِدھر اُدھر بھاگ بھی گئے سب کو یقین تھا کہ ہر حاکم کی طرح عرب کا یہ فرماں روا بھی اپنے مخالفین سے قصاص لے گا۔ مکہ کے درودیوار مجرموں کے خون میں نہا جائیں گے۔ ۔ ۔ آج سب سے بڑے مخالف، تمام جنگوں میں سرپرستی کرنے والے، مکہ کی موثر ترین سیاسی شخصیت، ابوسفیان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکلی جارہی تھی۔ ۔ ۔ دوسرے معاند سردار ابوجہل کا بیٹا عکرمہ تو مکہ چھوڑ کر یمن چلا گیا۔ الغرض ہر شخص کو یقین تھا کہ روایتِ دنیا اور دستورِ عرب کے مطابق آج کئی گردنیں کٹیں گی مگر ان سب روایتوں اور انسان دشمن دستوروں کو پاؤں کے نیچے روندنے والا رسولِ رحمت سرجھکا کر اللہ کی حمد وثنا بیان کرتا ہوا جب مکہ میں داخل ہوا تو اس نے رحمت و شفقت کے دریا بہادیئے۔ آپ نے فاتحانہ استکبار کی جگہ پیغمبرانہ انکسار سے کام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن حکیم کی آیت پڑھی : لاتثریب علیکم الیوم۔ ’’آج تم میں سے کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال سیاسی حکمت اور تالیف قلب کا مظاہرہ فرمایا :
ایک دن پہلے تک اپنے سب سے بڑے جانی دشمن ابوسفیان کے گھر کو بھی دار الامن بنا دیا اور فرمایا : کعبۃ اللہ اور دار ابوسفیان میں پناہ لینے والا امان پائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ابوسفیان کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نہایت ہی محبوب دوست اور چچا سیدنا حمزہ ص کا کلیجہ چبانے والی ہندہ نقاب پہن کر آئی کہ مبادا مجھے پہچان کر غصے میں آجائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی نظر میں اسے پہچان لیا مگر اس تلخ واقعہ کا تذکرہ تک نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس اعلیٰ ظرفی اور تحمل سے متاثر ہوکر ہندہ خاتون نے کہا : ’’میرے نزدیک آج تک آپ کے خیمے سے بری جگہ دنیا میں کوئی نہیں تھی مگر بخدا آج کے بعد پوری دنیا میں سوائے آپ کی قیام گاہ کے کوئی جگہ مجھے اچھی محسوس نہیں ہورہی۔ ‘‘
عفو و درگزر کی یہ بارشیں برستی دیکھیں تو جملہ مخالفین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس امڈتے چلے آئے۔ جن میں عکرمہ بن ابوجہل بھی تھے۔ وہ آپ کی بارگاہ میں ایمان کے ارادے سے حاضر ہوئے تو انہیں دامن کرم میں سمیٹنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر بے قرار ہوئے کہ بدن مبارک سے چادر بھی گرگئی اور عکرمہ کو دلاسا دیتے ہوئے فرمایا : مرحبا یا راکب المسافر اے سفر کی تکلیف اٹھا کر اپنے گھر مکہ لوٹنے والے خوش آمدید! اس لمحے کی شفقتوں کو سمیٹ کر عکرمہ نے اسلام پر جانثاری کا حق ادا کردیا اور بقیہ زندگی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرح بہادر سپاہی کے طور پر جہاد میں وقف کردی اور اسلام کے نامور سپہ سالاروں میں نام لکھوایا۔
یہ تو مکہ کے ذی عقل لوگ تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عفو و کرم کی خیرات تو چرندوں پرندوں، اونٹنیوں اور ہرنیوں نے بھی سمیٹی، انسان تو انسان کائنات کے شجر و حجر آپ کے دامنِ لطف و کرم سے فیض حاصل کرتے رہے اور آج بھی پوری کائنات ان کے دستر خوانِ نعمت کی پروردہ ہے۔ ہم کون کون سی نعمت کو یاد کریں اور کس کس کرم نوازی کی بات کریں۔
خُلقِ عظیم کا الوہی خطاب
سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو خالق کائنات نے خود اسوۂ حسنہ کا ٹائٹل دیا ہے۔ پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے وَاِنَّکَ لَعَلی خُلِقٍ عَظِیم کے نہایت اعلیٰ کلمات سے نواز رکھا ہے جسکا معنی یہ ہے کہ محبوب! یہ کفار و مشرکین، معاندین و منافقین، حاسدین و ناقدین آپ کو جو چاہیں کہتے پھریں، یہ تو ان کے بد باطن کا اظہار ہوگا۔ ان کی کم بختی بدنصیبی اور کج نگاہی کی دلیل ہوگی۔ ہاں میں ترا رب ہوں تراخالق و مالک ہوں، جس طرح میری ذات ازلی اور ابدی ہے اسی طرح میری صفات بھی ازلی اور ابدی ہیں۔ محبوب! لوگ تجھے اپنے حسب حال اچھا برا کہہ بھی دیں تو اس سے تجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن جب میں تجھے اتنے خوبصورت، شایان شان ٹائیٹل دے کر آیات قرآنی کا حصہ بنا رہا ہوں تو یہ القابات بھی اَزلی اور اَبدی ہوگئے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر لکھی جانے والی ہزاروں انسانی کتب خواہ وہ کسی بھی زبان میں، کسی بھی عہد میں لکھی گئی ہوں، نظم میں ہوں یا نثر میں وہ کسی عاشقِ صادق، امام، محدث اور مفکر کا خراجِ عقیدت ہوں یا کسی غیر مسلم دانش وَر کا خراجِ تحسین۔ اس سارے مواد کو ایک پلڑے میں جمع کرلیں اور اللہ جل مجدہ کا یہ ایک جملہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیم دوسرے پلڑے میں رکھ لیں قسم بخدا! جتنی جامعیت، جتنا اعتماد، جتنا وقار، جتنی قربت، جتنی پاکیزگی، جتنی طہارت، جتنی عظمت، جتنی رفعت، جتنی ندرت، جتنی نفاست، جتنی شان اور جتنا وزن اس ایک کلمہ الٰہی میں رکھ دیا گیا ہے پوری کائناتِ جن و انس کی مدح سرائی میں وہ قوت و تاثیر نہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرتا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے بنانے کی مکروہ کوشش کرتا ہے تو وہ آسمان پر تھوکتا ہے۔ غضب الہٰی کے علاوہ دنیا بھر کے اہل ایمان کی حقارت اور ملائکہ کی لعنت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اسلام اور سیرت طیبہ کے پیغام کو ’’پرامن‘‘ ثابت کرنے کے لئے آیات و احادیث کا حوالہ زیادہ نہیں دوں گا اس لئے کہ پوری سیرت اور پورا قرآن از اول تا آخر ہے ہی امن عالم کا پیغام۔ کیوں نہ ہوتا کہ یہ تو اس قادر مطلق رب کائنات کا آخری پیغام عافیت ہے جو اس نے اپنے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے کر پوری دنیائے انسانیت کی طرف بھیجا۔ پورا قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینکڑوں مجموعے ہمارے دعویٰ امن و رواداری کے امین ہیں۔ علاوہ ازیں اہل اسلام ائمہ، مشائخ اور اکابر کا عملی سلوک ہے جس کی گواہی تاریخ دے رہی ہے۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ ہماری تعلیمات اور ہماری تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں جس سے امن عالم تباہی کے گھاٹ اترا ہو۔ البتہ اس کے خلاف جنگ و جدل کا وا ویلا کرنے والوں پر فرض ہے کہ وہ مثالیں پیش کریں۔ ویسے بھی الدلیل علی المدعی کے اصول کے تحت دلائل دینا ہماری ذمہ داری نہیں بلکہ باطل پروپیگنڈہ کرنے والوں کی ہے۔ اس لئے میں یہاں مخالفین اسلام کے اعتراضات کا محاسبہ قرآن و حدیث کی بجائے انہی کے ہم مذہب دانش وروں کی زبان سے کررہا ہوں۔
غیر مسلموں کے اعترافات
میں یہاں چندنمائندہ غیر مسلم اہل علم کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنے ہم مذہب متعصب لوگوں کی اس روش پر کھل کر تنقید کی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسانیت نواز خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
1۔ تھامس کارلائل
اس سلسلے میں سب سے پہلے انیسویں صدی کے شہرہ آفاق مصنف، سماجی نقاد ’’تھامس کارلائل‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ یہ شخص برطانوی ادیب اور فلسفی تھا، اس نے انقلاب فرانس اور دنیا کی بڑی شخصیات پر معرکۃ الآراء کتب لکھیں۔ اس کی ایک مشہور کتاب The Hero and Hero Worships ہے جس کی قائداعظم نے بھی تعریف کی ہے۔ یہ ان لیکچرز کا مجموعہ ہے جو اس نے 1840ء میں دیئے۔ انہی لیکچرز میں سے ایک کا عنوان The Hero as Prophet Mohammad & Islam ہے۔ ذیل میں کارلائل کے چند اقتباسات اسی لیکچر سے ماخوذ ہیں۔ اس نے اپنی بات ہی یہاں سے شروع کی :
’’یورپ کے شمالی علاقوں سویڈن، ڈنمارک اور ناروے وغیرہ میں (جنہیں ہم سکینڈے نیوین ممالک کہتے ہیں) جب جہالت، ناشائستگی، بت پرستی و شرک اور لامذہبیت کا دور دورہ تھا اور انسان، بے سمت و بے لگام زندگی بسر کر رہے تھے۔ عرب ممالک میں اسی دور میں مذہب کی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس سے میری مراد مسلمانوں کے پیغمبرِ برحق کی بعثت ہے۔ یورپ کی اس بے خدا تہذیب کے پس منظر میں دنیائے عرب میں ظہور اسلام کے زمانہ کے حالات پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایک بہت بڑی تبدیلی و تغیر کا احساس ہوگا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ ایک نئے دورکا آغاز تھا جس نے بنی نوع انسان کے حالات و خیالات میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا تھا اور جس کی بدولت انسان، سوچ کی نئی رفعتوں سے روشناس ہوگیا تھا۔ اس انقلاب کو برپا کرنے والی شخصیت (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے جو ایک مذہبی ہیرو کی حیثیت سے ظہورپذیر ہوئے۔ ان کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ وہ خدا ہیں اور نہ ہی ان کے پیروکاروں نے انہیں خدائی کا درجہ دیا تھا‘‘۔
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندگی کا روشن جلوہ
وہ عیسائیوں کے اس اعتراض کا خود ہی جواب دے رہا ہے کہ ’’اسلام بے بنیاد مذہب ہے اور یہ محض مفروضوں پر قائم ہے‘‘۔ اس نے اس اعتراض کے جواب میں بہت خوبصورت مثال دیتے ہوئے کہا :
’’آپ کہتے ہیں کہ اس مذہب (اسلام) کی عمارت جھوٹ پر کھڑی کی گئی ہے؟ میں کہتا ہوں کہ جھوٹا آدمی اینٹوں کی معمولی سی عمارت بھی تیار نہیں کرسکتا چہ جائیکہ وہ ایک مذہب کا بانی ہو اور جس نے ایک تہذیب کی بنیاد رکھی ہو۔ اگر ہم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔ ۔ ۔ سازشی اور حریص (نعوذ باللہ) قرار دیں اور ان کی تعلیمات کو بھی بے بصیرتی اور نادانی پر معمول کریں تو یہ ہماری سخت حماقت اور جہالت ہوگی۔ انہوں نے جو سادہ اور غیر مرصع پیغام دیا وہ برحق تھا۔ وہ پردۂ غیب (Unknow Deep) سے ابھرنے والی، حیران کن آواز تھی۔ ان کا نہ کوئی قول جھوٹ نکلا اور نہ کوئی فعل غلط ثابت ہوا۔ ان کی کوئی گفتگو نہ بے معنی تھی اور نہ ان جیسی کوئی مثال پہلے موجود تھی۔ وہ زندگی کا ایک روشن جلوہ تھا جو سینۂ فطرت سے اس لئے ظہور پذیر ہوا کہ دنیا کو منور کر ڈالے کیونکہ اس کائنات کا خالق، اسکے ذریعہ دنیا کو اندھیروں سے نجات دلانا چاہتا تھا۔ وہ جو پیغام سرمدی لے کر آئے تھے اس کی اہمیت و عظمت اپنی جگہ آج تک قائم ہے۔ اسے پہنچانے والوں کی لغزشیں اور کوتاہیاں اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتیں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا‘‘۔
اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا
اسی لیکچرر میں وہ اس الزام کا جائزہ بھی لیتا ہے کہ اسلام تعلیمات کی تاثیر سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلانے پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت کے پیروکاروں کے لئے یہ امر باعث فخر ہے کہ ان کا مذہب امن و سکون اور تعلیم و تلقین کے ذریعہ پھیلا تھا لیکن اگر ہم کسی مذہب کی صداقت یا عدم صداقت کا معیار اسی کو بنا لیں تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ اسلام کیلئے تلوار بے شک استعمال ہوئی تھی مگر سوال یہ ہے کہ یہ تلوار آئی کہاں سے تھی؟ ایک لحاظ سے تو ہمیں اپنے مذہب عیسوی کا دامن بھی خون کے دھبوں سے پاک نظر نہیں آتا۔ جب اس کے ہاتھ میں تلوار آئی تو استعمال بھی ہوئی۔ (شہنشاہ فرانس شارلیمان (Charlemangne) (742-814) کے دور میں سکسینیوں (Saxions) کے مذہب کی تبدیلی، تبلیغ کا نتیجہ نہیں تھی جہاں (جرمن باشندوں کا تین سال خون بہایا جاتا رہا تھا) اس لئے زور شمشیر والا اعتراض میری رائے میں وقعت نہیں رکھتا۔)
2۔ منٹگمری واٹ
اسی طرح ایک اور مشہور مستشرق منٹگمری واٹ (Motgomery Watt) ہے جس نے خود بھی اسلام کی تصویر کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوششیں کیں ہیں وہ اپنی کتاب Muhammad : Prophet and Statesman میں لکھتا ہے :
’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بدنام کرنے کی جتنی کوششیں کی گئی ہیں اتنی کوششیں تاریخ انسانی کی کسی دوسری عظیم شخصیت کو بدنام کرنے کے لئے نہیں کی گئیں۔ صدیوں اسلام کو عیسائیت کا سب سے بڑا دشمن تصور کیا جاتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کو اسلام کے علاوہ کسی منظم طاقت سے واسطہ نہ پڑا تھا جو اتنی ہی طاقتور ہو جتنے مسلمان تھے۔ عربوں کے ہاتھوں اپنے چند بہترین صوبوں سے ہاتھ دھونے کے بعد بیز نطینی حکومت کو ایشیائے کوچک، سپین اور سسلی میں اسلام کا چیلنج درپیش تھا۔ مسلمانوں کو ارض مقدس سے نکالنے کی صلیبی کوششوں سے پہلے ہی یورپ میں اسلام کے ’’دشمن اعظم‘‘ کا تصور جڑ پکڑ چکا تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب محمد کو ’’Mahound‘‘ کی شکل میں پیش کیا گیا جس کا مطلب تھا ’’برائی کا شہزادہ‘‘۔
بارہویں صدی عیسوی میں صلیبی فوجوں کے اذہان میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو تصورات تھے وہ بڑے مضحکہ خیز تھے اور انہوں نے اخلاق پر منفی اثرات مرتب کئے۔
3۔ فلپ کے۔ ہٹی
ایک اور مستشرق فلپ کے۔ ہٹی (Philip K. Hitt) اپنی کتاب Islam : a Way of Life میں لکھتا ہے :
’’قرون وسطیٰ کے عیسائیوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھنے میں غلطی کی اور انہیں (نعوذ باللہ) حقیر کردار کا مالک تصور کیا۔ اس منفی سوچ کے اسباب نظریاتی سے زیادہ معاشی اور سیاسی تھے۔ ۔ ۔ نویں صدی عیسوی کے ایک یونانی قصہ گونے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصویر کشی ایک جھوٹے مدعی نبوت اور دغا باز کے طور پر کی تھی۔ اس تصویر کو بعد میں بدچلنی، خون آشامی اور قزاقی کے رنگوں سے مزین کیا گیا۔ مذہبی حلقوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمن مسیح کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ تصور پیش کیا گیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعش زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہے۔ اس افسانے نے اتنی شہرت حاصل کی کہ جب 1503ء میں ایک اطالوی نو مسلم مدینہ گیا تو وہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعش کو مذکورہ مقام پر نہ پاکر متحیر ہوا۔ ۔ ۔ ڈانٹے نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دھڑ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ جسم جہنم کے نویں درجے میںپڑا ہے جو ایسی ملعون روحوں کے لئے مناسب مقام ہے جومذاہب میں فرقہ بندیوں کے ذمہ دار ہیں۔ ۔ ۔ مغربی قصہ گووؤں نے Maumet کو (جو لفظ محمد کی بگڑی ہوئی ان چالیس شکلوں میں سے ایک ہے جن کا ذکر آکسفورڈ ڈکشنری میں ہوا ہے) بت بنا کر پیش کیا۔ یہ لفظ پتلی اور گڑیا کا ہم معنی بن گیا۔ ۔ ۔ شیکسپئر نے Romeo and Jiliet میں اس لفظ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا۔ محمد کے نام کی ایک اور بگڑی ہوئی شکل Mahoun کو قرون وسطیٰ کے ایک ڈرامے میں ایک ایسی چیز کے طورپر پیش کیا گیا جس کی عبادت کی جاتی تھی۔ یہ حقیقت کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہے کہ ایک بت شکن اور تاریخ انسانی میں توحید خداوندی کے سب سے بڑے چیمپئین کو بت بنا کر پیش کیا گیا‘‘۔
پروفیسر فلپ۔ کے۔ ہٹی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر ان بے بنیاد الزامات کو اپنے پیشروؤں کی ’’غلط فہمی‘‘ کہہ کر ان کے جرم کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ تھے بلکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتے تھے کیونکہ اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی، ہر دور میں ان کی اکثریت مذہبی لوگوں پر مشتمل تھی اور اہل کتاب کے مذہبی راہنما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صدیوں پہلے اس حقیقت کا اعلان فرمادیا تھا :
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَO
(البقرہ : 146)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ پہچانتے ہیں انہیں جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور بے شک ایک گروہ ان میں سے چھپاتا ہے حق کو جان بوجھ کر‘‘۔(جاری ہے)