معجزۂ معراج نسل انسانی کی تاریخ کا وہ سنگ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخ بندگی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقلِ ناقص آج بھی حیران و ششدر ہے۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ سفر معراج کیونکر طے ہوا؟ عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے، مادی فلسفہ کی خوگر، اربعہ عناصر کی بے دام باندی عقلِ انسانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسان کامل حدود سماوی کو عبور کرکے آسمان کی بلندیاں طے کرتا ہوا لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پروز کرسکتا ہے اور وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں۔ اس لئے حدود و قیود کے پابند لوگ اس بے مثال سفر معراج کے عروج و ارتقاء پر انگشت بدنداں ہیں اور اسے من و عن اور مستند انداز سے مذکورہ تفصیلات کے ساتھ بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے ایسے شبہات وارد کرتے ہیں اور تشکیک کا ایسا غبار اڑاتے ہیں کہ دلائل سے غیر مسلح ذہن اور عام آدمی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور دیوار ایمان متزلزل سی ہونے لگتی ہے۔
نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں معجزہ معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ انبیاء کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی معجزات سے نوازا۔ ہر نبی کو اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے حوالے سے معجزات سے نوازا تاکہ ان کی حقانیت ہر فرد بشر پر آشکار ہو اور اسے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت چونکہ جادو میں کمال رکھتی تھی، ہزاروں جادو گر دربار شاہی سے وابستہ ہوتے، اس لئے خالق کائنات نے بھی اپنے نبی کو جادو کے ان کمالات کا توڑ کرنے کے لئے معجزات عطا کئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا بڑا چرچا تھا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کردینے اور کوڑھیوں کو تندرست کر دینے کی قدرت سے فیض یاب تھے۔ پس ہر نبی اپنے وقت کے ہر کمال سے آگے ہوتا ہے۔ امت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اس کمال پر بھی حاوی ہوتا ہے۔
اب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا۔ باب نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بند ہو رہا تھا۔ ختم نبوت کا تاج سر اقدس پر سجایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم المرسلین قرار پائے چنانچہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معجزات سے نوازا گیا جن کا مقابلہ تمام زمانوں کی قومیں مل کر بھی نہ کرسکتی تھیں۔ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ آئندہ آنے والی اقوام چاند پر قدم رکھیں گی اور ستاروں پر کمندیں ڈالیں گی لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں میں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آسکتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی تمام معجزات اور دیگر انبیاء و رسل کے تمام معجزات ایک طرف اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ معراج ایک طرف، تمام معجزات مل کر بھی معجزہ معراج کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کو نہیں پہنچ سکتے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی معجزہ ہے جس کی عظمت میں وقت کا سفر طے ہونے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا اور نئے نئے کائناتی انکشافات سامنے آ کر معجزہ معراج کی حقانیت کی گواہی دیتے رہیں گے۔ ارتقاء کے سفر میں اٹھنے والا ہر قدم سفر معراج میں نقوش کف پا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ سے اٹھا اور براق پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا، وہاں سے آسمانوں اور پھر وہاں سے عرش معلی تک گیا حتی کہ مکان و لامکاں کی وسعتیں طے کرتا ہوا مقام قاب و قوسین پر پہنچا اور پھر حسن مطلق کا بے نقاب جلوہ کیا۔
پیکر مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جامع صفات و کمالات
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تینوں شانوں بشریت، نورانیت اور حقیقت کو الگ الگ معراج نصیب ہوئی۔ اس پر ذہن میں ایک سوال آ سکتا ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک شان کو دوسری سے ممیز کیسے کیا جا سکتا ہے یعنی جب بشریت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج سے مستفیض ہو رہی تھی تو دوسری شانیں کہاں تھیں اور اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت و حقیقت کو معراج کرائی جا رہی تھی تو بشریت کہاں تھی؟
اس سوال کے جواب میں روز مرہ زندگی میں انسان کے فطری احوال کا حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا۔
مثال :۔ جب کوئی آدمی بات کر رہا ہوتا ہے تو اس سے تکلم بالفعل کی حالت ظاہر ہو رہی ہوتی ہے حالانکہ اس میں تکلم کے ساتھ ساتھ خموشی اور سکوت کی حالت بھی بالقوۃ موجود ہوتی ہے۔
مثال : جب ایک باپ غصے کی حالت میں اپنے بچے کو اس کی خطا پر سزا دے رہا ہوتا ہے، اسے زد و کوب کرر ہا ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں پیار و محبت اور شفقت کا مادہ موجود نہیں ہے بلکہ اس وقت غصہ کی حالت غالب اور پیار و محبت کی صفت مغلوب ہوتی ہے۔
روز مرہ کے ان دو واقعات کو مثال کے طور پر پیش کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بشریت کی معراج کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری کمالات غالب تھے جبکہ آپ کی نورانیت اور حقیقت کی شانیں ابھی مغلوب تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کو معراج نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اوصاف و کمالات غالب اور بشریت و حقیقت کی شانیں مغلوب تھیں۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت و مظہریت کو معراج سے سرفراز کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان حقیقت و محمدیت کا غلبہ تھا اور باقی دو شانیں مغلوب تھیں جبکہ تینوں شانیں اپنی اپنی جگہ موجود تھیں، کبھی ایک کا غلبہ ہو جاتا اور کبھی دوسری کا۔
حاصل کلام یہ کہ معراج کے توسط سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات کے ہر پہلو اور ہرشان کی تکمیل بدرجہ اتم کر دی گئی اور آپ اوصاف وکمالات ایزدی کا مظہر اتم بن کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے لیکن ان کا کماحقہ ادراک عقل انسانی کی گرفت سے باہر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر جلوہ گر ہوئے جس مقام کی عظمت کا تصور بھی تمام نورانی اور خاکی مخلوقات کے لئے ممکن نہیں۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO
(النجم، 53 : 8)
پھر یہ قریب ہوا پھر وہ اور قریب ہوا۔
دنی اور تدلی میں فرق
1۔ دنٰی کا معنی ’’قرب‘‘ ہے اور تدلّٰی کا معنی بھی ’’قریب ہونا‘‘ ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ’’دنی‘‘ میں تین حروف (د، ن، ی) ہیں جبکہ تدلی میں حروف (ت، د، ل، ی) کی تعداد چار ہے۔ عربی کا قاعدہ ہے کہ کثرت حروف کثرت معنی پر دلالت کرتے ہیں اور قلت حروف قلت معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ ’’دنی‘‘ فعل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور ’’تدلی‘‘ فعل خدا۔ ’’دنی‘‘ کے کم حروف سے پتہ چلتا ہے کہ محبوب چونکہ مخلوق میں سے تھا اور مخلوق محدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی محدود ہے اور رب چونکہ خالق اور لامحدود ہے اس لئے اس کا قرب بھی لامحدود تھا۔ اللہ اللہ ہے اور بندہ بندہ۔ اللہ خالق ہے اور بندہ اس کی مخلوق۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے لیکن اللہ تعالیٰ اتنا قریب ہوا کہ کوئی حد باقی نہ رہی۔ ’’دنی‘‘ کا جواب باری تعالیٰ نے ’’تدلی‘‘ کی صورت میں دیا اور ایسا کیوں نہ ہو۔ حدیث قدسی میں اللہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ
وان تقرب الی شبرا تقربت اليه ذراعا و ان تقرب الی ذراعا تقربت اليه باعا وان اتانی يمشی، اتيته هرولة.
(صحيح بخاری، کتاب التوحيد، 6 / 2694، الرقم : 6970)
’’اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازوؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں‘‘۔
جس طرح یہاں ’’شبراً‘‘ کا جواب ’’ذراعاً‘‘ سے دیا۔ اسی طرح زیر بحث آیہ کریمہ میں ’’دنی‘‘ کا جواب ’’تدلی‘‘ سے دیا۔
2۔ سورہ نجم میں ثم دنی فتدلی میں قرب کا ذکر دو دفعہ آیا ہے حالانکہ ایک دفعہ کہنا بھی کافی ہو سکتا تھا۔
شیخ بقلی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے دیگر عرفاء کاملین نے بحر عرفان میں غواصی کر کے بہت سارے گہر ہائے نایاب دریافت کئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ قرب کا ذکر یہاں دو مرتبہ اس لئے ہوا کہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو قرب نصیب ہوئے۔
- قرب صفات
- قرب ذات
یعنی اللہ رب العزت کی صفات اور ذات دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے حصار التفات میں لے لیا۔
1۔ قرب صفات
اس قرب میں ثم دنی کی صورت میں ذات باری تعالیٰ نے اپنی صفات تجلیات سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات سے اتنا قریب کر لیا کہ صفات محمدیہ پر صفات الہٰیہ کا رنگ چڑھ گیا یہاں تک کہ آپ صفات الہٰیہ کے مظہر اتم بن گئے۔ یہ صفات الہٰیہ کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تھی۔
2۔ قرب ذات
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صفاتی قرب سے مکمل طور پر بہرہ ور کر دیا گیا تو پھر تجلیات ذات آپ پر جلوہ فگن ہوئیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ ملکہ حاصل ہو گیا کہ آپ چشم سر اور چشم دل دونوں سے خدا کا دیدار کر سکیں۔ یہ قرب ’’تدلی‘‘ کی صورت میں عطا ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ رب العزت کی ذات کے سائبان کرم میں تھے۔ یہ مقام حاصل کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے اور آخری بندے اور رسول ہیں۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بن گئے تو آواز آئی کہ اے حبیب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھیئے۔ آپ آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ کم ہوتے ہوتے دو کمان یا اس سے بھی کم رہ گیا۔ مقام قاب قوسین پر قرب و وصال کی وہ منزل آ گئی جو معراج کا نقطہ کمال (Climax) تھا۔ اس سے زیادہ قرب ممکن ہی نہ تھا۔ بایں ہمہ عبد کامل اور معبود حقیقی کے مابین وہ فرق و امتیاز قائم و دائم رہا جو نکتہ توحید کی اساس ہے۔
قاب قوسین سے کیا مراد ہے؟
سفر معراج میں قاب قوسین کا ذکر جمیل اس تواتر سے ہوا ہے کہ ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قاب قوسین سے کیا مراد ہے؟ اس کا قرآنی مفہوم کیا ہے؟
قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی قرب و وصال کو قاب قوسین کی بلیغ و جمیل عام فہم تمثیل سے بیان فرمایا ہے تاکہ عرب اپنی روز مرہ زبان اور محاورے کے مطابق اس بات کا مفہوم پوری طرح سمجھ سکیں۔ قوسین سے مراد کمانیں یا ابرو یا بازو ہیں اور ’’قاب‘‘ فاصلے کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو دو کمانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ جب دو بچھڑے ہوئے دوست مدت بعد ملتے ہیں تو ان کے ملنے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ کمان کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور دوسرا دوست اسی طرح قریب آ کر اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے تو نصف دائرے کی شکل میں دوسری کمان بن جاتی ہے۔ جب دونوں کے مابین معانقے کا عمل تکمیل کو پہنچتا ہے تو ان میں دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خدا کی ذات معانقے اور ان لوازمات سے پاک ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب کی انتہائی صورت کو بیان کرنے کے لئے اس تمثیل کے ذریعے بات ذہن نشین کرائی گئی ہے ورنہ باری تعالیٰ تو ہر مثل سے پاک ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ.
(شوریٰ، 42 : 11)
’’اس کی مثل کوئی شئے نہیں‘‘۔
ہر شئے سے پاک ہونے کے باوجود پھر فرمایا۔
مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ.
(النور، 24 : 35)
’’اس کے نور کی مثال (جو نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغ (نبوت روشن) ہے‘‘۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ باری تعالیٰ ہمیں سمجھانے کے لئے مثال ارشاد فرماتا ہے۔ خود اسے مثال کی حاجت و ضرورت نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا.
(البقره، 2 : 26)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بڑھ کر ہو‘‘۔
قاب قوسین کا تہذیبی، ثقافتی اور مجلسی پس منظر
اسلام دین فطرت ہے۔ ہر مرحلہ پر انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتا ہے۔ قرآن کا اسلوب ہدایت بھی یہ ہے کہ جب وہ کوئی بات اپنے بندوں کو ذہن نشین کرانا چاہتا ہے تو ان کے سماجی پس منظر کو نظر انداز نہیں کرتا اور وہ ان کے ماحول کے مطابق انہیں مخاطب کر کے یا کسی تمثیل یا محاورے کے ذریعہ اپنی ہدایت کی ترسیل کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔ چونکہ اہل عرب قرآن کے اولین مخاطبین ہیں اس لئے عرب رسم و رواج کا ثقافتی پس منظر قرآن میں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔
اہل عرب کے قدیم دستور و رواج کا مطالعہ کرنے سے قاب قوسین کی معنویت کی ایک اور پرت کھلتی نظر آتی ہے۔ جب دو متحارب عرب قبیلے دشمنی کی راہ ترک کر کے ایک دوسرے سے شیر و شکر ہونا چاہتے تو ان کے سردار معاہدہ دوستی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے علامتی طور پر دو کمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر تیر چلاتے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا کہ آج کے بعد دونوں حلیف قبیلوں کا دوست اور دشمن ایک ہو گا۔ ایک کا دوست دوسرے کا دوست اور ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن متصور ہو گا اور صلح و جنگ کے معاملوں میں دونوں کا رویہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو گا۔
(معارج النبوۃ، 3 : 146)، (روح المعانی، 67 : 48)
عبد و معبود کا فرق قائم رہا
تاج عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر رکھا گیا۔ معراج کی شب فضیلتیں قدم قدم پر آپ کے ہمرکاب رہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مقام قاب قوسین پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے مزید قریب کر کے سریر آرائے ’’او ادنیٰ‘‘ پر متمکن ہونے کا شرف بخشا۔ قاب قوسین کے بعد ’’او ادنیٰ‘‘ کہہ کر قرآن خاموش ہو گیا کیونکہ اگر قاب قوسین تک بات ختم ہو جاتی تو قرب متعین ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ تو سب فاصلہ مٹانا چاہتا ہے اسی لئے فرمایا ’’او ادنیٰ‘‘ دو کمانوں کی مثال لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی حالانکہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محب کے درمیان فاصلہ تو اس سے بھی کم تر ہے۔ ’’ادنیٰ‘‘ کے بعد حتی یا الٰی نہیں لگایا اس لئے کہ یہ حد بھی مقرر نہ ہو جائے کہ کہاں تک فاصلہ کم ہوا۔ او ادنٰی کا لفظ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان فقط ایک فرق عبد و معبود کا قائم رہا، باقی سب فاصلے اور امتیازات ختم ہو گئے۔
احدیت اور احمدیت کی قوسین
سفر معراج میں اللہ رب العزت کے جلال و جمال کی رعنائیاں لامکاں کی وسعتوں میں ہر طرف بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ رب کائنات کی الوہیت کے پرچم ہر سمت لہرا رہے ہیں۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى سے اگلی آیت فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ہمیں الوہیت کا درس دے رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’پس اس (خدا) نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی‘‘ یعنی باوجود اس انتہائی قرب کے وہ عبد اور میں معبود۔ ۔ ۔ وہ مخلوق اور میں خالق۔ ۔ ۔ وہ مملوک اور میں مالک رہا۔ ۔ ۔ میں نے ہی اسے عالم انسانیت کی طرف مبعوث کیا تاکہ وہ انہیں ضلالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کے اجالوں کی طرف لے جائے لیکن یہ امر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ اب الوہیت و رسالت ایک دوسرے کے اتنا قریب ہیں کہ کفر و ایمان کے معاملوں میں ایک پر ایمان دوسرے پر ایمان اور ایک کا انکار دوسرے کے انکار کے متراف ہے۔ اب تم میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو کر میری اطاعت کا اقرار کر سکو گے۔ اگر تم نے اس کی غلامی سے انحراف کی راہ اختیار کی تو تم فی الواقعہ اپنے اس فعل سے میری توحید سے منحرف ہو جاؤ گے۔ توحید و رسالت پر ایمان میں کسی قسم کا فرق روا رکھا ہی نہیں جا سکتا۔ احدیت و احمدیت کی قوسین باہم ایک دوسرے سے اتنی متصل ہو گئیں کہ ان سے میرے قرب و وصال اور عشق و محبت ہی کا پتہ چل رہا ہے۔ تقرب الی اللہ کا دعویٰ بغیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے بنیاد ہے۔
مقام قاب قوسین پر جب حجابات اٹھا دیئے گئے اور مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى کے مصداق شان محبوبیت یہ تھی کہ نگاہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہٹی اور نہ ہی حد سے بڑھی بلکہ وصال و دید کا وہ عالم تھا کہ چشم نظارہ ایک لحظہ بھی جمال جہاں آراء سے نہ ہٹنے پائی اور احدیت و احمدیت کی قوسین اس طرح مل گئیں کہ باہمی قرب کی کیفیت ثم دنی فتدلی کی آئینہ دار بن گئی اور آخر میں قاب قوسین کے مقام پر دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئے کہ درمیانی فاصلہ برائے نام رہ گیا۔
یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قربت کا ذکر کرتے ہوئے درمیان میں فاصلہ رہنے کا ذکر لابدی اور ضروری سمجھا گیا اس لئے کہ خالق و مخلوق میں چاہے کتنا ہی قرب کیوں نہ ہو، ان کی ہستی جدا جدا ہے اور دونوں کا ایک وجود (Entity) نہیں مانا جا سکتا کہ محبوبیت کے اعلیٰ اور ارفع مقام پر پہنچ کر بھی عبدیت اور معبودیت کا فرق برقرار رہتا ہے۔ یہاں ایک بات خاص طور پر ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جو شخص عبد و معبود کے فرق کو مٹاتا ہے، کافر ہے۔ عقیدے میں، عقل میں یا ایمان میں، عشق میں یا محبت میں الغرض کسی درجے میں بھی یا کسی سطح پر بھی بندہ رب ہو سکتا ہے نہ رب بندہ ہو سکتا ہے جو عبد کو معبود بنائے یا معبود کو عبد، وہ کافر ہے اور جس طرح عبد اور معبود کا فرق مٹانا کفر ہے اسی طرح فرق عبد و معبود کے سوا کوئی اور فرق ڈالنا بھی کفر ہے۔ سو اعتقاد یہی رکھنا چاہئے کہ مقام ’’او ادنیٰ ‘‘ پر پہنچ کر بھی خدا خدا ہے اور نبی نبی ہے۔
مقام عبدیت
اللہ رب العزت کائنات ارض و سماوات کا خالق ہے۔ ہر چیز اس کے دائرہ قدرت میں ہے۔ اس نے معراج کی شب اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عنایات کی بارش کر دی اور اسے وہ عظمت عطا کی جو آج تک نہ کسی رسول کا مقدر بن سکی اور نہ قیامت تک بن سکے گی۔
اس مقام پر پہنچ کر جہاں تمام دوریاں ختم ہو گئی تھیں قرآن زبان حال سے یوں گویا ہوا۔
فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO
(النجم، 53 : 10)
پھر (اللہ رب العزت نے بلاواسطہ) اپنے بندہ کو جو وحی فرمانا تھا فرمائی (جو دینا تھا دیا جو بتانا تھا بتایا)
معلوم ہوا کہ مخلوق میں عبدیت سے بہتر کوئی مقام نہیں مگر افسوس کہ آج لوگ اسی پر جھگڑتے پھرتے ہیں۔ اے کاش! انہیں حقیقت عبدیت سمجھ آ جاتی۔
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
عقیدہ توحید اور واقعہ معراج
عقیدہ توحید مومن کے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ شرک کا سایہ بھی انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ سفر معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک معجزہ ہے اور معجزہ رب کائنات کی قدرت مطلقہ کا مظہر ہوتا ہے۔ سفر معراج میں بھی توحید ربانی کے پرچم ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ آدم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء جس آسمانی ہدایت کے ساتھ مبعوث ہوتے رہے اس کا مرکزی نقطہ بھی توحید ہی تھا کہ وہی ذات بندگی کے لائق ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ وحدہ لاشریک ہے، کوئی اس کا ہمسر ہے نہ ثانی، نہ اس کی کوئی انتہا ہے اور نہ ابتداء ہے۔ وہ ازل سے ہے اور ابد کے بعد بھی وہی ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا جب کچھ نہ ہو گا تو پھر بھی اس کی ذات یکتا و تنہا ہو گی۔ اس ذات کو نہ اونگھ ہے نہ زوال، وہ ہر حاجت سے پاک اور مبرا ہے اور وہ ہر کسی کا حاجت روا ہے۔
امم سابقہ نے اکثر و بیشتر مسئلہ توحید کے بارے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کے اکثر افراد (الا ماشاء اللہ) نے اپنے نبی کو اس کے کمالات و روحانی تصرفات دیکھ کر الوہیت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان میں سے کسی نے نبی کو خدا کا بیٹا کہا اور کوئی تمثلیث کا قائل ہو گیا۔ گویا نبی کو مقام نبوت سے ہٹا کر خدا کا شریک ٹھہرا لیا تاہم امت مصطفوی کو یہ شرف و افتخار حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ عقیدہ توحید کی تعلیم ان کے قلوب و اذہان میں اس درجہ راسخ ہو گئی کہ اس پر شرک کی گرد پڑنے کا بھی کوئی احتمال باقی نہ رہا۔
اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب کا انتہائی مقام تفویض کر کے ارشاد ہوتا ہے اوحی الی عبدہ ما اوحی ’’ہم نے اپنے بندے کی طرف وحی کی‘‘ اللہ اللہ! بندگی کا کیا مقام ہے کہ خدائی کا مختارِ کُل بنا دیا جائے پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بندہ ہی رہے۔ عقیدہ توحید میں کسی قسم کے خلجان اور التباس کی کوئی گنجائش نہیں کہ خالصیت اور عبدیت کے فاصلے کا پاٹنا ناممکنات میں سے ہے۔ اس فاصلے کو برقرار رکھنا بہرحال ناگزیر ہے۔