انسان اللہ تعالیٰ کی شانِ خالقیت کا عظیم شاہکار ہے جس کو مسجودِ ملائکہ بنایا گیا :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ.
(بنی اسرائيل : 70)
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ‘‘۔
دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا :
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.
(التين : 95)
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘۔
انسان کی تعریف اس طرح کی کہ اس پانچ چھ فٹ کے جسم میں لاتعداد ظاہری و باطنی قوتیں ودیعت فرمادی ہیں۔ ظاہری حواس میں قوت شامہ، لامسہ، سامعہ، باصرہ اور ذائقہ بہت معروف ہیں اور باطنی حواس میں قوت واہمہ، مشترک، خیال، حافظہ اور متصرفہ ہیں۔ یہ قواء ظاہریہ و باطنیہ بیش بہا قدر و منزلت کے حامل گردانے جاتے ہیں۔ انہی صفات عالیہ کی وجہ سے اس کو نیابت الٰہی اور پھر قیادت قوم و ملت کا فریضہ سونپ دیا گیا۔ یہ پیکر خاکی اور رشک ملائک اپنی خداداد قیادت و سیادت اور رہنمائی و ہدایت کی صلاحیت کو کام میں لاکر بحسن و خوبی یہ فریضہ انجام دیتا رہا اور اب تک دے رہا ہے۔ والدین اپنی اولاد۔ ۔ ۔ اساتذہ اپنے تلامذہ۔ ۔ ۔ اکابر اپنے اصاغر۔ ۔ ۔ راعی اپنی رعیت۔ ۔ ۔ اور سینئرز اپنے جونیئرز کی قیادت و رہنمائی کرکے ان کو راز ہائے حیات اور طریقہ ہائے زندگی سکھاتے رہے اور یہ فنون و علوم اس واسطہ سے نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔
اگر بنظرِ غائر سے جائزہ لیں تو حکمران اور امراء ملت بھی اعلیٰ درجے کے قائد ہوتے ہیں اور والدین، اساتذہ اور شیوخ بھی اپنی اپنی حیثیت سے منصب قیادت پر سرفراز ہوتے ہیں مگر ان دونوں کی قیادت کی تاثیر اور اثر آفرینی کے اعتبار سے تجزیہ کرلیں تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
- کثیف قیادت
- لطیف قیادت
دونوں کا اثر جدا جدا ہے اول الذکر قیادت بہت عارضی ہے گویا اس کی بنیادیں ریت پر ہیں۔ یہ زور اقتدار اور طاقت و قوت بازو ختم ہوجانے سے زوال پذیر ہوجاتی ہے اور اس کے اثرات بھی معدوم ہوجاتے ہیں جبکہ آخرالذکر جو قلوب کی دنیا میں بستی ہے اس کا تعلق طاقت، قوت اور اقتدار و اختیار سے نہیں ہوتا بلکہ وہ تو بے تاج گدڑی نشین ہوں گے مگر اقلیم قلوب پر ان کی حکمرانی ہوگی اور دلوں کی دنیا میں ان کا سکہ چلتا ہوگا۔ وہ اپنے اخلاق عالیہ اور خصائل حمیدہ کی وجہ سے اس قدر بلند ہوں گے کہ ایک بار ہی دیکھنے، سننے اور ملنے والوں کے دلوں میں گھر کر جائیں گے۔ ان کی عاجزی و انکساری، ملنساری، نرمی، گفتار اور رفتار کی ملائمت کی صداء بازگشت مدتوں کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ یہی وہ نابغہ روزگار ہوتے ہیں جن کو کوشش کے باوجود ذہن انسانی فراموش نہیں کرسکتا اور تاریخ ان کو صفحات میں نمایاں مقام دیتی ہے۔ ہنگامہ ہائے حیات میں ہمہ وقت مصروف رہنے کے باوجود ان کی ملاقات کا شوق فراواں من میں چٹکیاں بھرتا رہتا ہے۔ ایسے افراد جب کسی امر کا اشارہ کریں گے تو نہ صرف سر تسلیم خم ہوگا بلکہ انسانیت گردنیں نثار کردینے کو بھی باعث افتخار سمجھے گی۔
اعتمادِ قیادت کا قرآنی تصور
قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے صرف اس کی عظمت و جلالت کے پیش نظر ہی ہر حکم پر اندھا دھند عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اگر وہ پورا اترے تو قابل قبول اور واجب العمل ہوگا۔ بصورت دیگر قابل تردید ہوگا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ.
(النساء : 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی‘‘
اس آیت مبارکہ سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ اللہ کی اطاعت ایک مستقل اطاعت ہے اور اس کے محبوب و مطلوب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بھی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے لیکن اولوالامر (سربراہانِ مملکت، فقہا و علماء) کی اطاعت کی حیثیت مستقل اطاعت کی نہیں ہے بلکہ وہ قرآن و سنت کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے یعنی اولوالامر کی جانب سے جو حکم آئے گا اگر وہ قرآن کی نصوص قطعیہ میں سے کسی سے نہ ٹکرائے اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی متضاد نہ ہوگا تو وہ منشاء اسلام کے مطابق ہے اس پر عمل کرنا واجب اور اس کی اتباع لازم ہوگی۔ بصورت دیگر جب وہ قرآن مجید کی کسی آیت سے بھی متضاد ہو اور احادیث میں سے کسی کے ساتھ متصادم ہو تو وہ واجب العمل اور لائق اتباع نہ ہوگا۔ اس کا انکار نہ غلطی ہے نہ بغاوت ہے۔
گویا اسلام ایسی قیادت کا تصور پیش کرتا ہے جو مطلق العنان نہ ہو۔ ۔ ۔ ہر صورت میں من مانی کرنے والی نہ ہو۔ ۔ ۔ بلکہ مشاورت سے مخلوق خدا کی صحیح سمت رہنمائی کرنے والی ہو۔ ۔ ۔ فرائض و واجبات کی پابندی کرنے والی ہو۔ ۔ ۔ اور اسی کی روشنی میں حقوق و فرائض متوازن و متساوی انداز میں چلانے والی ہو۔ ۔ ۔ تو وہی قیادت صحیح معنوں میں قیادت کے نام سے موسوم کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بدو بھی اطاعت فاروقی سے انکار کر دیتا ہے بایں وجہ کہ قد کے لمبا ہونے کے باعث مال غنیمت میں ملنے والی چادر سے آ پکی قمیض نہیں بن سکتی اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے جواب پر وہ مطمئن ہوکر خطبہ سنتا ہے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے بعد حکام ہوں گے جو نیک بھی ہوں گے اور فاسق بھی، تم ان کے احکام سننا جو حق کے موافق ہوں، ان کی اطاعت کرنا اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اگر وہ نیک کام کریں تو اس میں ان کا بھی نفع ہے اور تمہارا بھی اور اگر وہ برے کام کریں توان کو ضرر اور تمہیں فائدہ ہوگا۔
عقابی نگاہ رکھنے والی اور دور اندیش قیادت کے اندر درج ذیل اوصاف ایک لازمی امر ہیں ان کے بغیر وہ امت اور اقوام عالم کی قیادت کا حق ادا نہیں کرسکتے۔
1۔ حسن اخلاق
لغوی اعتبار سے حسن اخلاق کو یوں سمجھا جاسکتا ہے۔ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
خلق کا لفظ ان قوتوں اور خصلتوں کے ساتھ مخصوص ہے جن کا بصیرت کے ساتھ ادراک کیا جاتا ہے۔ (المفردات ص 158)
علامہ ابن اثیر جذری لکھتے ہیں :
خُلُق اور خُلْق کا معنی ہے طبیعت اور خصلت، اور اس کی حقیقت انسان کی باطنی صورت ہے۔ یہ انسان کے وہ اوصاف اور معانی ہیں جو اس کے ساتھ اس کی صورت ظاہرہ کی طرح مختص ہوں۔ (نہایہ ج ص 70۔ بحوالہ شرح صحیح مسلم)
خلق کا اصطلاحی معنی
امام رازی لکھتے ہیں خلق ایک ملکہ نفسانیہ ہے جو شخص اس سے متصف ہو اس کیلئے افعال محمود کا اکتساب سہل اور آسان ہوجاتا ہے۔ بخل، غضب، معاملات میںتشدد کرنا، قول اور فعل میںلوگوںکے ساتھ تکبر کرنا، ترک تعلق کرنا، خریدوفروخت میں تساہل کرنا، رشتہ داروں کے حقوق سے تغافل کرنا وغیرہ ان تمام چیزوں سے احتراز کرنا حسن خلق میں داخل ہے۔ (تفسیر کبیر ض 8 ص 186)
اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ بصورت اتم واکمل انسان کامل ہادی عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تفویض فرمایا تھا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍO
(قلم، 68 : 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
حدیث پاک میں ہے حسن خلق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز وزنی نہیں ہے۔ اچھے اخلاق، عمدہ عادات اور نفیس اطوار نبوت کی اعلیٰ خصوصیات ہیں۔ یہ اوصاف اپنی اصلی شکل میں اعلان نبوت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھے جس کا اظہار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ابتدائے وحی کا واقعہ سننے کے بعد فرمایا اور تسلی اور تشفی آمیز کلمات میں ان خصوصیات کا ذکر کیا کہ آپ غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، یتیموں کا خیال رکھتے ہیں گویا انہوں نے شب و روز کے مشاہدات کا ذکر کیا جن کا تعلق حسن اخلاق کے ساتھ تھا۔ آپ کے انہی پیارے اور دل موہ لینے والے بولوں کے تو اہل عرب پہلے ہی گرویدہ تھے بلا تشبیہ ایک قائد کو زندگی کا ہر قدم اخلاقی اقدار کے خطوط پر رکھنا چاہئے کیونکہ حسن اخلاق ہی قیادت و سیادت کو مستحکم کرنے کا باعث بنتا ہے جو اوصاف حمیدہ سے خود کو متصف کرتے ہیں ان کے فوائد و ثمرات بھی اظہر من الشمس ہوکر سامنے آتے ہیں۔ حسن خلق سے ہی ٹوٹے ہوئے دلوں پر مرہم رکھی جاتی ہے۔ ۔ ۔ اپنے تو اپنے رہے باغی اور سرکش اذہان بھی اطاعت و فرمانبرداری کا قلادہ گلے کی زینت بنالیتے ہیں۔ معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو کسی مسیحا کی تلاش ہوتی ہے تاکہ ان کی مسیحائی ہوسکے بااخلاق قائد کی قیادت میں ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ ان کی عروق مردہ میں جان آجاتی ہے اور ہمت ہارے ہوئے لوگ بھی نئے عزم و ہمت کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں شریک ہوجاتے ہیں۔
2۔ اعتماد
قائد کیسا ہونا چاہئے؟ ایسا کہ جس کو خود پر اور قوم کو قائد پر کامل اعتماد ہو۔ جس طرح ستون کے بغیر عمارت یا تو کھڑی نہیں ہوسکتی اگر کھڑی ہوجائے تو ناپائیدار ہوگی جس کے بارے میں ہر وقت دھچکا رہے گا کہ کہیں گر کر یہ اپنے زیر سایہ بسنے والوں کو ابدی نیند نہ سلادے، اس کے برعکس ستونوں والی عمارت پختگی میں دو چند ہوتی ہے اور ایسے خطرات میں گھرے ہوئے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ اسی طرح اعتماد، خصوصیاتِ قیادت میں سے اعلیٰ، اساسی اور گراں قدر خصوصیت ہے۔ قائد کا جس قدر خود پر اعتماد مضبوط ہوگا اسی قدر وہ رائے میں صائب ہوگا، اس کے برعکس بداعتمادی اور عدم یقین کی کیفیت تو قیادت کا بہت بڑا نقص شمار کی جاتی ہے جس سے قائد کی جڑیں کھوکھلی تصورہوں گی اس گومگو کی کیفیت میں خود تو ڈوبے گا مگر قوم کو بھی لے ڈوبے گا اور عدم وثوق تو ایسی کمزوری ہے جو قوم کو کسی بھی ناگہانی خطرے سے بھی دوچار کرسکتی ہے۔
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
اسلامی قانون کا ایک عام قاری بھی یہ سمجھتا ہے کہ قائد و امام اور پیشوا و مقتدی کی خطا ہی مقتدی کی خطا سمجھی جاتی ہے۔
خطا الامام خطاء المقتدی.
’’امام کی غلطی مقتدی کی غلطی ہے‘‘۔
قائد کا اپنی کوششوں کے کامیاب ہونے پر اعتماد تو پہاڑوں سے بھی مضبوط تر اور صحراؤں سے بھی وسیع تر ہونا چاہئے۔ اسی کے اعتماد کے آفتاب سے جو کرنیں پھوٹیں گی وہ زیر قیادت افراد میں یقین و وثوق کی روشنی پیدا کریں گی اور کارکنوں میں مصیبتوں کے پہاڑ گرتے ہوئے دیکھ کر بھی مسکرانے کا حوصلہ بھردیں گی۔ جو بالآخر حصول مقاصد پر منتج ہوگا اور منزل ایسے جفاکشوں کی محنت شاقہ کی وجہ سے نزدیک ہوجاتی ہے۔ یقین اور اعتماد، وثوق اور بھروسہ اہل ایمان کی صفات میں سے بھی ہے۔ قیامت کے قائم ہونے کا معاملہ مستقبل کا ہے جس کو کسی عام بشری آنکھ نے ابھی تک نہیں دیکھا اور نہ وہ وقوع پذیر ہوا اور مسلمان اس پر کامل یقین رکھتا اور غیر متزلزل اعتماد کرتا ہے۔
وَبِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَO
(البقره : 4)
’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔
وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِO
(الحاقه : 51)
’’اور بے شک یہ یقینا حق ہے‘‘۔
اس قسم کا فولادی اعتماد ہی ایک عظیم جرات کو جنم دیتا ہے جو اگر گداؤں میں پیدا ہوجائے تو وہ شاہانہ جاہ و جلال کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، اگر غلاموں میں پیدا ہوجائے تو وہ آقاؤں کے کروخر کے سامنے سدِّ سکندری بن جاتے ہیں اور جب یہ جوہر ایک قائد میںپید ا ہوجائے تو وہ قوم کی ڈوبتی ہوئی نیا کو بھی ساحل آشنا کردیتا ہے۔
معاملاتِ حیات نوع بنوع ہیں، ان کو انجام دینے سے قبل قیادت کی طرف سے اس کے مثبت و منفی صحیح یا غلط اور فوائد و نقصانات جیسے جملہ پہلوؤں پر غور کرلینا ضروری ہے اور تبدیل شدہ حالات کے خطرات و نتائج پر قبل از وقت سوچنا قیادت کے اپنے اعتماد کو بحال رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے قائد کے ساتھ یقین محکم اور عمل پیہم کے ساتھ چلتے ہوئے سپاہی کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔ شعوری طور پر وہ سمجھتا ہے کہ اس کا ہر اٹھنے والا قدم سوئے منزل رواں دواں ہے۔ ایسے حالات میں جان کی بازی لگادینا بھی سپاہی فخر خیال کرتا ہے اور وہ ہمت نہیں ہارتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعتماد بھی کس قدر کوہ گراں تھا کہ آسمان سے باتیں کرنے والی آگ کے آلاؤ سامنے ہیں مگر پائے ثبات میں ذرہ بھر لغزش نہیں آئی اور ہر آنے والا لمحہ بلندی درجات اور قرب الٰہی کی نوید لے کر آرہا ہے اور اعلان احکم الحاکمین جاری ہوتا ہے۔
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَO
(الانبياء، 21 : 69)
’’ہم نے فرمایا : اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا‘‘۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاء لب بام ابھی
3۔ مقصد زندگی سے آگاہی
ایک منزل متعین کرکے اس تک پہنچنے کے لئے انسان جو مادی، روحانی، سمعی و بصری وسائل استعمال کرتا ہے اور اس کی ساری قوتیں اسی منزل تک رسائی کے لئے صرف ہورہی ہوں تو وہ نصب العین اور مقصد حیات قرار پاتا ہے۔ وہ اپنا دکھ، سکھ، آرام و سکون اس کے لئے تج کردیتا ہے تو پھر جب اس کی کاوشیں رنگ لاتی ہیں اور وہ ابدی نیند سونے سے قبل ہی اپنی محنتوں کا ثمر پک کر تیار اپنی نورانی آنکھوں سے دیکھ کر روحانی کیف و مسرت محسوس کرتا ہے۔ قائد کا نصب العین گویا اس کی قوم کا نصب العین ہوتا ہے وہ اپنی کاوشوں کی جہت قومی احتیاج و ضرورت کو دیکھ کر متعین کرتا ہے اور پھر اس کو اس صاف، شفاف، واضح اور غیر مبہم انداز میں پیش کرتا ہے کہ ہر ایک کو سمجھنے میںکسی منطقی کلیے کی ضرورت نہ محسوس ہو بلکہ ہر خاص و عام قائد کے خلوص بھرے، بامعنی کلمات سے یکساں استفادہ کرے اور کلمات کی تہہ تک بآسانی پہنچ جائے۔
اسلام قائد کو مقصد حیات اور نصب العین کے تقرر کے لئے جہاں خدمت کا فریضہ ان کلمات میں سونپتا ہے۔
سيدالقوم خادمهم.
’’سردار و قائد اپنی قوم کا خادم ہوتا ہے‘‘۔
وہاں وہ قائد کو خیرالناس من ینفع الناس (لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے وہ دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے) کے ہمہ گیر اصول کو فراموش کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیتا۔
بلکہ اسلام سے رہنمائی لیتے ہوئے لوگوں کو معاشی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی، سماجی، دینی، علمی اور فکری مسائل میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
4۔ عدل و انصاف
یہ لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے جس قدرعام ہے اپنی عملی ضرورت کے پہلو سے اسی قدر اہم اور خاص بھی ہے۔ اس کا عام معنی تو واقعی انصاف ہے جبکہ عدل دراصل اس وصف کا نام ہے جس کا اظہار زندگی کے ہر پہلو میں ہونا چاہئے۔ شب و روز کے معمولات۔ ۔ ۔ نشست و برخاست۔ ۔ ۔ کلام و سکوت۔ ۔ ۔ معاشرتی و معاشی مصروفیات۔ ۔ ۔ انفرادی و اجتماعی معاملات۔ ۔ ۔ عائلی و سیاسی حالات و واقعات۔ ۔ ۔ اعتدال کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں تاکہ کسی جگہ عدم توازن کی شکایت نہ ہو۔ ۔ ۔ زندگی کے ہر حصے کو اس کا پورا پورا حق مل رہا ہو تو وہ انصاف لائق تحسین اور ہر کسی کے لئے قابل تسلیم ہوتا ہے۔
حفظان صحت کے اصولوں کی روشنی میں معمولی سا غوروفکر بھی کریں تو اس کا مفہوم اپنی تمام تر تشریحات کے ساتھ ذہن نشین ہوجاتا ہے جب تک بدنی و جسمانی سلطنت میں خوراک، کام اور آرام اعتدال سے پورے ہورہے ہوں تو وہ جسم صحت و سلامتی اور تندرستی سے مزین رہتا ہے۔ جونہی اس میں ادنیٰ سا عدم توازن آئے اس کا ’’نزلہ برعضو ضعیف می ریزد‘‘ کی صورت میں بہت جلد ظاہر ہوتا ہے اور جسم علالت و نقاہت کا شکار ہوجاتا ہے جس سے بالآخر تمام اوقات و مشاغل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
عدالت صرف کرسی انصاف پر بیٹھ کر ہی انجام نہیں دی جاسکتی بلکہ یہ تصویر کا ایک رخ ضرور ہے جس سے معاشرے میں مظلوم و مقہور افراد کی داد رسی کی جاتی ہے اور ان کو اطمینان و سکون کا سانس نصیب ہوتا ہے جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ فریقین سے یکساں سلوک، یکساں رعایت، سوچ و بچار، دلائل صفائی اور صلح کا متوازی موقع ملنا چاہئے۔ قائد باہمی رنجشوں اور نزاعات کے تصفیہ کے لئے شواہدات کی روشنی میں حقائق تک پہنچنے کی سعی کرے۔ تحائف، رشوت اور اقربا پروری سے حق انصاف ادا نہیں کیا جاسکتا تو عدالت کے تقاضے پورے کرنے سے عوام الناس کی صفوں میں اتحاد و اتفاق رہے گا جو استحکام قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہوگا۔
5۔ اصول پسندی
قائد اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اصول و قواعد کا سختی سے پابند ہو کیونکہ اس کی پابندی کا عکس جمیل اس معاشرہ اور ماحول پر پڑے گا۔ جہاں وہ ایام حیات بسر کررہا ہے۔ اصولوں کو ترتیب بھی تو اس مقصد کے لئے دیا جاتا ہے کہ ہر کوئی ان تنظیمی ضوابط اور مجموعہ قوانین کی پاسداری کرے، کوئی مصلحت و منفعت اصولوں پر عملدرآمد سے رکاوٹ پیدا نہ کرسکے۔ تعلقات، قرابت داری اور اقربا پروری ان قواعد میں نرمی، جھکاؤ اور ڈھیل کا باعث نہ بن سکے۔ عہدہ اور منصب بھی تنظیم سے غداری کے مرتکب کو کیفر کردار تک پہنچانے میں حائل نہ ہوں۔ اصول پسند قائد کی قیادت کے زریں دور میں جب اصولوں کی بالادستی ہوگی تو ایسے قائد کی مقبولیت کو چار چاند لگ جائیں گے اور حقیقی رعب و دبدبہ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔
قانون کی اس حکمرانی کی جھلک سرکار دو عالم، احمد مختار اور عرب و عجم کے تاجدارحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ عرب کے ایک معزز خاندان کی ایک بااثر خاتون نے چوری کی۔ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ انصاف میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری فرمادیا۔ اہل قبیلہ نے ذلت و رسوائی سے بچنے کے لئے سفارش کروائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں، بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا‘‘ آپ نے فرمایا ’’اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔
اس واقعہ میں معمولی تفکر سے بھی ایک اہم نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ باپ بیٹی پر بہت ہی شفیق و مہربان ہوتا ہے اس کو جگر گوشہ اور جسم کا حصہ قرار دیتا ہے مگر جہاں اصولوں کی پاسداری کی بات آتی ہے تو وہاں تعلقات اور قرابت داری کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور حدود کے نفاذ میں کوئی پس و پیش نہیں کی جاتی۔ جب قائد اس قدر اصول پسندی کا ثبوت دے گا تو وہ تنظیم، معاشرہ یا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا اور ہر طرف سکون و چین سایہ فگن ہوگا۔ بایں طور امراء و روسا معاشرے کے غرباء و فقراء کی عزتوں کو شیر مادر سمجھ کر ہضم نہ کرسکیں گے۔
6۔ رواداری
ایک قائد کے زیر قیادت مختلف الخیال اور متعدد اذہان کے لوگ مصروف کار ہوتے ہیں۔ جن کے مابین مذہبی و اعتمادی اور نظری و فکری اختلاف کا ہونا بھی بین امر ہے جس طرح ایک مملکت میں اکثریت کے ساتھ ساتھ اقلیت بھی ایک عام شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرتی ہے اور ان کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو عام شہریوں کے تو ایسے میں ان کے مذہبی رجحانات کا خیال رکھنا اور اعتقادی لحاظ سے اسلوب عبادت میں ان کی آزادی کا پورا پورا پاس کرنا رواداری کا تقاضا ہے۔ قرآن میں مذہبی آزادی کا اور اسلامی رواداری کا قرآنی تصور اس قدر واضح اور غیر مبہم ہے کہ مسلمان باطل معبودوں کو بھی گالیاں نہ دیں کہیں کفار اس کی پاداش میں ان کے سچے خدا کو گالیاں نہ دیں۔
مدینہ منورہ میں عیسائیوں کا ایک وفد نجران سے آیا جو کسی سیاسی یا سماجی معاہدے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ آپ سے مناظرہ کرنے کی نیت سے آیا تھا۔ آمد کے مقاصد میں دشمنی کا عنصر غالب تھا جب اس وفد کے قیام کی بابت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا ان کو مسجد نبوی میں ٹھہراؤ اور جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو ایک بار پھر آپ کی طرف ہی رجوع کیا گیا تو آپ نے ان عیسائیوں کی عبادت کے لئے مسجد نبوی کو کھول دیا اور انہوں نے مسجد نبوی میںاپنے طریق عبادت کے مطابق عبادت کی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قائدانہ کردار اپنے ہم مذہبوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اغیار اور وہ بھی غیر ملکیوں سے اعلیٰ اور بہترین سلوک کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ قائد صرف فرمودات اور ارشادات ہی دینے والا نہ ہو بلکہ دور اندیش اور حسن سلوک میں اعلیٰ ترین عادات کا خوگر بھی ہو۔ رواداری میں اغیار کو قریب ہونے کا موقع ملتا ہے تو اچھائیاں اپنی جگہ خود تلاش کرلیتی ہیں جواوروں کے لئے قبولیت اسلام کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
7۔ اخلاص
ہر جدوجہد اور کوشش و کاوش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اخلاص کا ہونا از حد مفید ہے۔ مقصود عبادت عرفان الٰہی ہے لیکن یہ تب حاصل ہوتا ہے جب عبادت میں خلوص و للہیت ہو بصورت دیگر یہ سجود و قیام ایک فرض کی ادائیگی کی حد تک ادا ہورہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اسی طرح دعا میں جس قدر اخلاص کا غلبہ ہوگا اسی قدر اس کی قبولیت کے مواقع زیادہ ہوں گے۔ دعوت دین میں وقتی مصلحتوں اور تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ خلوص کی کثرت اس کی قبولیت دوچند کر دیتی ہے۔ باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے مخصوص بندوں کو مخلصین میں شمار فرمایا ہے۔
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ.
(البينه : 5)
’’حالاں کہ انہیں فقط یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے ‘‘۔
درحقیقت ابلیس انسان کا ازل سے ہی دشمن ہے وہ اس کو بہکانے پھسلانے کے لئے ہر طرح سے اور ہر طرف سے وار کرتا ہے اور اس کا وار ہر ایک پر کامیاب ہوتا مگر مخلص بندے اس کے حملے کے مضر اثرات سے مامون و محفوظ رہتے ہیں، اس کا اقرار شیطان نے خود کیا ہے۔
وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَO إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَO
(الحجر : 39 - 40)
’’اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں‘‘۔
بندے اور مولیٰ کے درمیان ہادی اور مہدی کا تعلق ہے کہ خالق کائنات ہادی محل ہے اور مخلوق اس کے سامنے عبادات، مناجات، ریاضات اور مجاہدات کے کشکول لئے حاضرہوتی ہے تاکہ وہ ہدایت کی خیرات و برکات سے ان طالبین کے کاسے لبریز کردے۔ بلاتشبیہ بندہ بھی امور حیات کی انجام دہی کے لئے دوسروں سے زندگی کے ہنر اور گر سیکھتا ہے خواہ وہ جزوی حیثیت سے ہوں یا کلی حیثیت سے، جس طرح فوج میں ایک سیکشن، پلاٹون، کمپنی، بیٹری، رجمنٹ، بریگیڈ، ڈویژن، کور یا کلی حیثیت سے پوری فوج یعنی اس کے بری، بحری اور فضائی شعبہ جات ان میں اکابر اپنے اصاغر کو تجربات منتقل کرتے ہیں تو لازمی بات ہے وہ اکابرین کسی نہ کسی سطح پر قیادت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور ان میں جس قدر خلوص کی کثرت ہوگی اسی قدر کامیابی اس قائد کے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔ اگر امیر مملکت میں خلوص ہوگا تو اس کی قیادت میں ملک سیاسی، سماجی، اخلاقی، مذہبی، علمی، عملی، سائنسی، تجارتی، معاشی اور معاشرتی گویا ہر اعتبار سے روبہ ارتقا رہے گا۔
سیرت مصطفوی پر نگاہ رکھنے والے کسی صاحب علم سے یہ امر مخفی نہیں کہ فاران کی چوٹی سے روشن ہونے والے آفتاب نبوت و رسالت سے اولین اہل عرب ہی منور ہوئے مگر ان ہزاروں بتوں کے پجاریوں نے اس پرچم توحید کو سرنگوں کرنے کے لئے کون کون سے لالچ نہ دیئے، قبائل کی سرداریاں، مال و دولت کے انبار اور نکاح کے لئے حسب منشاء عورتیں بھی مہیا کرنے کا وعدہ کیا مگر اللہ کے پُرخلوص، وفادار، جفاکش داعی الی اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر دعوت کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔ یہ تنہائی اور جانفشانی کا سفر چند سالوں کی مختصر مدت میں کٹ گیا اور 23 سالوں میں انقلاب برپا کردیا۔ اس نئی تاریخ کے رقم کرنے میں تائید ربی، جدوجہد رسالت اور آپ کی پُرخلوص کوششوں کو بے حد دخل ہے۔ وہ خلوص کا گوہ گراں قائدین قوم و ملت کے لئے مینارہ نور ہے۔
8۔ حلم و بردباری
اس کو آسان لفظوں میں متحمل مزاجی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قائد کو دفعتاً کسی ناگہانی واقعہ پر جذبات کی رو میں نہیں بہنا چاہیے بلکہ وہ ہر معاملہ کو نہایت حلم کے ساتھ غوروخوض اور دور اندیشی سے سوچے اگر معاملہ قومی و ملکی لیول کا ہو تو صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لئے قوم کے زعما سے مشاورت سے فیصلہ کیا جائے۔ قیادت کے نشے میں چور مشاورت سے قبل ہی اپنے رائے کو حتمی اور قطعی شکل نہیں دے لینی چاہئے بلکہ دیگر روشن خیال، دانش مند اور وسیع النظر احباب سے مشاورت بہت ہی مفید ثابت ہوتی ہے۔
اسلام جس حلم کو قابل تعریف شمار کرتا ہے اس کا تعلق اپنی ذات سے ہے کہ گالیاں دینے والوں کو دعائیں دی جائیں۔ جان کے دشمنوں کو قبائیں پہنائی جائیں۔ اپنی ذات سے زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں کو نہ صرف معاف کردیا جائے بلکہ ان سے مزید مروت اور حسن سلوک سے پیش آیا جائے۔ اہل اسلام کی تاریخ میں تو ذاتی دشمنوں اور قاتلوں تک کو معاف کرنا کتاب حلم کا ایک سنہری باب ہے۔ حلیم الطبع نبی محتشم حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراقہ بن جعشم کو بوقت ہجرت ارادہ قتل سے باز آنے اور تائب ہونے پر نہ صرف معاف فرمایا بلکہ قیصر و کسریٰ کے کنگن اس کے ہاتھوں میں پہنائے جانے کی بشارت سے نوازا۔ ۔ ۔ فتح مکہ کے وقت اسلام اور جان کے دشمنوں کو لاتثریب علیکم الیوم۔ (یوسف : 92) (نہیں کوئی گرفت تم پر آج کے دن) کا مژدہ سنایا۔ ۔ ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے قاتل سے حسن سلوک کا حکم ارشاد فرمایا۔ ۔ ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زہر دینے والے سے درگذرکرنے کا حکم دیا۔ الغرض ذاتی معاملات میں اور نظریات میں مخالف سے قوت برداشت اور حلم و بردباری کا اظہار کرنا قیادت کی مقبولیت و ہر دلعزیزی کو چار چاند لگادیتا ہے۔
9۔ امانت و دیانت
امانت ایک اعلی ترین وصف اور خوبی ہے اور یہ خوبی اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت کی حامل ہے جو بلاتفریق مسلک و مذہب جس شخص میں بھی پائی جائے وہ دادِ تحسین وصول کرتا ہے۔ اس کے معنی میں وسعت پائی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا :
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.
(النساء، 4 : 58)
’’بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کردو‘‘
انسان مال کے علاوہ اعمال، علم اور اسرارالہی کا بھی امین ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلان نبوت سے قبل بھی جس وصف سے موسوم کئے جاتے تھے وہ امانت ہی تھا۔ حجر اسود کی تنصیب کے وقت معاملہ متنازعہ فیہ ہو چکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال دانشمندی اور اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت سے ایسا فیصلہ کیا کہ بے نیام تلواریں نیاموں میں چلی گئیں، منتشر ہوجانے والے پھر سے متحد ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس نمایاں صفت کامزید اظہار لوگوں کے سامنے آیاجس کی بناء پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ سب نے منظور کیا۔ ہر دور کے قائدین کو اس صفت کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح ماضی میں تھی۔
10۔ مہارت فن
قیادت کسی چھوٹے سے چھوٹے گروہ کی بھی ہوسکتی ہے اور بڑی سے بڑی جماعت کی بھی۔ جس شعبہ کی قیادت بھی سپرد کی جائے اس میں قائد کو ماہر و تام ہونا چاہیے یا کم از کم اس کی مبادیات اور اساسیات سے واقفیت ہو، اسی صورت قیادت کا کسی حد تک حق ادا کیا جاسکتا ہے یعنی وہی شخص علم و دانش، فوج، معیشت، مالیات، سیاست، قانون، ثقافت اور ہر شعبہ زندگی میں اپنا ایک مقام رکھتا ہو اور پیروکاروں کو بوقت ضرورت ان کے بارے آگاہ بھی کرسکے۔ اسی صورت وہ ریاست کے اقتدار کا بوجھ اٹھانے کے لائق ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
قیادت کا فقدان
اگر قومی یا بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی صفات کی حامل قیادت کا فی زمانہ فقدان ہے۔
یہ نہیں کہ مذکورہ بالا صفات سے متصف شخصیت شاید موجود نہیں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں، بلکہ ایسی قیادت موجود تو ہے مگر قوم کو ابھی اسے پہچاننے کی توفیق نصیب نہیں ہورہی۔ قوم کو ایسی قیادت درکار ہے کہ جو حق گوئی و بے باکی کی صفات کی متحمل ہو۔ ۔ ۔ اعتماد کی دولت سے مالامال ہو۔ ۔ ۔ اغیار کے ایوانوں میں نعرہ حق بلند کرسکتی ہو۔ ۔ ۔ قرآنی نظریہ حیات کی صداقت پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہو۔ ۔ ۔ دشمن کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر نہ صرف بات کر سکے بلکہ اپنے دلائل، طہارت، نیت اور اخلاص کی کثرت کے ساتھ منوا بھی سکے۔ ۔ ۔ دلِ دردمند رکھنے والی ہو۔ ۔ ۔ اور امت مسلمہ کے عروج کے لئے راست عملی اقدام کرنے والی شخصیت ہو تو قیادت کا خلاء پر ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی پورا ہوجائے گا کہ
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌO
(المجادله 21 : 58)
’’اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرا رسول ضرور غالب آ کر رہیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ طاقت ور (اور)زبردست ہے۔‘‘
ایسی قیادت کون ہے؟
مذکورہ بالا تمام اوصاف کا مطالعہ ذہن کو حیران و پریشان کردیتا ہے کہ ایسا جامع الصفات پیکر تو اس وقت کرہ ارضی پر موجود نہیں اورصرف کتب تاریخ میں پڑھنے، پڑھانے اور سننے سنانے کے لئے موجود ہے۔
نہیں ایسا ہر گز نہیں۔ ۔ ۔ ابھی یہ زمین ایسی عبقری شخصیات سے تہی دامن نہیں ہوئی۔ تجدیددین، احیاء اسلام اور اصلاح احوال کے کام تو تا قیامت بندوں سے ہی لئے جانے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ایسی شخصیات ظاہر فرماتا رہتا ہے۔ اس دور میں ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایک ایسے انسان کے زمانہ میں زندگی گزارنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ جو پروقار بھی ہے اور بارعب بھی۔ ۔ ۔ علم وعمل میں یگانہ بھی ہے اور سیاسی و سماجی بصیرت میں نابغہ روزگار بھی۔ ۔ ۔ مذہبی و دینی اعتبار سے وسیع النظر بھی ہے اور معاشرتی اعتبار سے اسلامی معاشرے کا ترجمان بھی۔ ۔ ۔ نظری و فکری اعتبار سے فکرِ رسا کا مالک بھی ہے اور ملکی و غیر ملکی اور قومی و بین الاقوامی مسائل میں دور بینی اور ژرف نگاہی کا حامل بھی۔ ۔ ۔ مراد لاکھوں دلوں کی دھڑکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں جو اس وقت امت مسلمہ کی قیادت کے اہل ہیں اور مذکورہ بالا جملہ اوصاف اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔