دورہ صحیح مسلم شریف (نشست اول۔ III)
جامع مسجد گھمگول شریف (برمنگھم UK)
ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم کے زیر اہتمام دورہ صحیح البخاری کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اکتوبر 2007ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل برمنگھم برطانیہ کے زیراہتمام جامع مسجد گھمگول شریف میں دورہ صحیح مسلم (کتاب الایمان تا کتاب الصلاۃ) کے عنوان سے تین روزہ خصوصی علمی، فکری اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حسب پروگرام پچیس گھنٹوں سے زائد دورانیہ پر مشتمل پانچ نشستوں میں سینکڑوں علماء و مشائخ، طلباء اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب سے اصول الحدیث، علم الحدیث، امام مسلم کے مقام و مرتبے اور صحیح مسلم کے حوالے سے عقائد، فقہ، تصوف اور دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی۔ دورہ کی پہلی نشست (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن مئی، جون 2008ء) میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے علمی کلچر کے احیاء کی ضرورت، تاریخِ اصولِ حدیث، علم الحدیث و اصول الحدیث میں امام اعظم کا مقام و مرتبہ، ائمہ حدیث کے ہاں احادیث کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار، بدعت کیا ہے؟ اہلِ بدعت کون ہیں؟ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی بدعتی، علمی روایات اور ائمہ کا طرزِ عمل اور دیگر موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
دورہ صحیح مسلم کی پہلی نشست کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)
اصول حدیث میں خطیب بغدادی کے بعد قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ (صاحب الشفاء) نے جامع کتاب ’’العلمآء‘‘ لکھی۔ یاد رکھ لیں کہ کوئی قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کو صرف عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کہہ کر اصول حدیث کے بارے میں ان کے نکتۂ نظر کو رد نہ کرے بلکہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ حدیث کے بہت بڑے امام ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج وہ زمانہ ہے کہ لوگ مطالعہ کئے بغیر، کتابوں کو کھنگالے بغیر بات کردیتے ہیں اور سننے والوں نے چونکہ اس حوالے سے بالکل پڑھا ہی نہیں ہوتا لہذا وہ انہی پر اعتماد کرتے ہیں۔ پس جن کو قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے نکتۂ نظر اور ان کے عقیدہ (جو کہ انہوں نے شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے ’’الشفآء شریف‘‘ میں بیان کیا) سے اختلاف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے صرف ضعیف اور موضوع احادیث جمع کردی ہیں اور ان کو علم حدیث، اصول حدیث میں عبور نہیں ہے۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ بات غلط ہے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے بعد کے جس محدث اور امام کو بھی لے لیں۔ ۔ ۔ امام نووی کی شرح مسلم کو لے لیں۔ ۔ ۔ امام عسقلانی کی فتح الباری کو لے لیں۔ ۔ ۔ امام قسطلانی کی ارشاد الساری کو لے لیں۔ ۔ ۔ امام عینی کی عمدۃ القاری کو لے لیں۔ ۔ ۔ الغرض ائمہ حدیث میں سے کسی محدث اور مفسرین میں سے کسی مفسر کو لے لیں، تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر جلالین کو لے لیں، آپ کو ہر ایک، دو صفحات کے بعد حجتاً اور استناداً قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ جات ملیں گے۔ کل ائمہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کو کسی بھی موضوع پر بحث کرتے ہوئے بطور سند اور حجت کوڈ کرتے ہیں۔ اس سے قاضی عیاض کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اصول الحدیث میں ’’العلماء فی ضبط الروایۃ و قوانین سماع‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ آپ کی وفات 540ھ میں ہوئی۔ آپ کا زمانہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی سے 30/25 سال پہلے کا زمانہ ہے۔
قاضی عیاض کے بعد امام ابو عمرو تقی الدین عثمان بن عبدالرحمن الشہرزوری نے ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کے نام سے اصول الحدیث پر کتاب لکھی۔ امام حاکم نے ’’معرفۃ فی علوم الحدیث‘‘ میں حدیث کی بحث کرتے ہوئے اس فن کو 52 انواع میں تقسیم کیا تھا۔ امام شہرزوری، ’’صاحب مقدمہ ابن الصلاح‘‘ نے اپنی کتاب میں اصول الحدیث پر بحث کرتے ہوئے 65، انواع کا ذکر کیا۔
ائمہ کرام اور شیوۂ علم
آپ اگر بنظرِ غائر اصول الحدیث کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ علم بھی اپنی حدود و قیود کے اندر ارتقاء پارہا ہے۔ ہر بعد میں آنے والا پہلے سے موجود علم کو آگے پھیلارہا ہے، Expand کررہا ہے اور اس کی کتاب پہلے سے زیادہ Comprehensive (جامع) بنتی جارہی ہے۔ ہر بعد والے نے کتاب لکھی اور پہلوں سے اچھا کام کیا۔ ۔ ۔ زیادہ انواع قائم کر دیں۔ ۔ ۔ زیادہ تقسیمات کردیں۔ ۔ ۔ زیادہ تعریفات کر دیں۔ ۔ ۔ زیادہ اصول وضع کر دیئے۔ ۔ ۔ فروع وضع کر دیں۔ ۔ ۔ زیادہ شروح لکھیں۔ ۔ ۔ کئی چیزوں پر پہلوں سے اختلاف کیا۔ ۔ ۔ اور کئی چیزوں پر اتفاق کیا۔ ۔ ۔ کئی نئے قوانین متعارف کروائے۔ ۔ ۔ لیکن چونکہ اہل علم کا زمانہ تھا، آج کا دور نہیں تھا، لہذا اس زمانہ کے کسی شخص نے ان کو بے ادب و گستاخ نہیں کہا کہ پہلے بزرگوں کے اوپر تم اپنے علم کو بڑھا رہے ہو۔ ۔ ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو وہ لکھ چکے ہیں اس سے نیچے رہو۔ ۔ ۔ کسی نے ’’صاحب مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کو یہ نہیں کہا کہ چونکہ امام حاکم نے 52 انواع بیان کی ہیں اس لئے آپ 52 سے کم رہو، زیادہ انواع متعارف نہ کرواؤ۔ گویا ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق، جو کچھ ملا اس کو لیا، اس دور کے علم کو سمیٹا اور Expand کیا۔
شیوہ علم یہ تھا کہ ہر دور میں ہر ایک کو کام کا ایک حصہ نصیب ہوتا تھا اور کسی کے کام پر گستاخی و بے ادبی کے فتوے نہیں لگتے تھے۔ یہ خرابی خاص طور پر صرف ہمارے ہاں ہے، دوسروں میں اتنی نہیں ہے، اسی وجہ سے علمی و فکری جمود آیا ہے، ارتقاء رک گیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ علم ہمیشہ صرف ارتقاء کے ساتھ باقی رہتا ہے، علم کی بقاء، ارتقاء اور توسیع میں ہے، بعد والے زمانے میں علم کی Access پہلے سے بڑھ جاتی ہے، کم نہیں ہوتی۔ بہت کتابیں ایسی تھیں جو پہلے شائع نہیں ہوئی تھیں، مخطوطات تھے۔ ذرائع ابلاغ کم تھے، کسی کو کچھ مخطوطات پہنچ گئے اور کچھ نہ پہنچے پس مخطوطات اور دستیاب علم کی بنیاد پر کوشش کرتے۔ جوں جوں یہ قلمی نسخے چھپتے گئے علم بڑھتا گیا، مزید مخطوطات تک رسائی ہوتی گئی، ذرائع ابلاغ بڑھتے گئے اور معلومات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہی کام محدثین کے زمانہ میں ہوا، کئی کئی ملکوں کا سفر کیا اور علم کو سمیٹا اور اس طرح وسعت آتی چلی گئی، اسی طرح جتنا علم پہلے والے لوگ دے گئے، اس کو سمیٹا، اس میں مزید رسائی ہوئی، تو نئی چیزیں وجود میں آئیں۔ لوگ اس ارتقاء اور توسیع کو مانتے تھے اور یہ علم کا طریقہ تھا، اس پر فتوے نہ لگاتے تھے۔ جب سے یہ شیوۂ علم ختم ہوا، علم کے ارتقاء کی سوچ ہی ختم ہوگئی کیونکہ جب سوچ جامد ہوجاتی ہے تو قوم علم سے کنارہ کش ہوجاتی ہے اور مزید دور ہوجاتی ہے۔ کسی قوم کی تباہی اور ہلاکت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ جب کوئی اور شخص وسیع اور نیا کام کرتا ہے، کام میں ارتقاء لاتا ہے اور اس کام کو آگے بڑھاتا ہے تو اس پر فتوے لگاتے ہیں، اس کو گستاخ کہتے ہیں اور اکابر کے خلاف ٹھہراتے ہیں، معاذاللہ اسے بزرگوں کا گستاخ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ یہ کون ہے؟ کیا یہ ان سے بڑا آگیا ہے۔ ۔ ۔ یاد رکھ لیں کہ اس طرح کا رویہ 12 سو سال کی تاریخ میں کسی اہل علم کا نہیں رہا۔ اگر یہ رکاوٹ پیدا کردی جاتی کہ بعد میں آنے والے پہلوں سے آگے کوئی نئی بات نہیں کرسکتے تو علم ارتقاء ہی نہ پاتا اور آج جو ہزارہا کتب معرض وجود میں آئی ہیں یہ کبھی وجود میں نہ آتیں۔
وہ تو صرف اس پر اکتفا کرتے اور وہیں جم کر بیٹھے رہتے۔ پس یہ جامد سوچ ہمارے ہاں اس وقت سے ہے جب سے علم سے تعلق ٹوٹ گیا ہے اور جب ہم نے علم سے کنارہ کشی کرلی تو جہالت، بے خبری، کم علمی کو تحفظ دینے کے لئے اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے ہم نے اس سوچ کو اختیار کرلیا کہ ’’کیا یہ پہلے بزرگوں اور اہل علم سے بڑھ کر ہے‘‘؟
علمی اختلاف، گستاخی نہیں
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ہزارہا مسائل میں اختلاف کیا۔ خود کبھی امام اعظم نے انہیں طعنہ نہ دیا کہ مجھ سے پڑھتے ہو۔ ۔ ۔ سیکھتے ہو۔ ۔ ۔ اور میرے ہی فتوے اور تحقیق سے اختلاف کرتے ہو۔ ۔ ۔ کیا مجھ سے بڑے آگئے ہو۔ ۔ ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہی گرفت کرلیتے اور یہ فتنہ پیدا نہ ہوتا۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھنے والے شاگرد، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ، امام ذفر رحمۃ اللہ علیہ آپ سے کئی مسائل میں اختلاف کرتے، مگر کبھی گستاخ نہیں بنے۔ اگر آپ فقہ حنفی کی کل کتب کا مطالعہ کریں تو جگہ جگہ ملتا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایا۔ ۔ ۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا۔ ۔ ۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کہا۔ ۔ ۔ کسی مسئلہ پر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک طرف ہوتے ہیں اور دونوں شاگرد ایک طرف ہوتے ہیں اور استاد سے اختلاف کرتے ہیں مگر کبھی گستاخ نہیں بنے۔ ۔ ۔ کسی مسئلہ پر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ایک ہے تو کہتے ہیں کہ شیخین ایک طرف ہیں، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی الگ رائے ہے، اس صورت حال میں استاد اور بڑے شاگرد کی رائے ایک طرف ہے اور چھوٹے شاگرد کی الگ رائے ہے مگر ان کو بھی کبھی گستاخ نہیں کہا۔ ۔ ۔ کبھی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ایک ہوجاتی تو کہتے ہیں کہ طرفین کی رائے یہ ہے اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے۔ ۔ ۔ مگر کسی کو گستاخ نہیں کہتے۔
اس سے بڑھ کر اختلاف کیا ہوسکتا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی اور لاڈلے شاگرد ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے مگر اپنی فقہ شافعی الگ بنالی، فقہ مالکی کو اختیار نہ کیا۔ اگر اختلاف کرنا درست اور جائز نہ ہوتا تو فقہ شافعی کیسے وجود میں آتی؟
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ائمہ کے بعد کے دور میں آنے والا ائمہ کی آراء سے اختلاف کرے اور یہ دعویٰ کرنا شروع کردے کہ وہ ائمہ اربعہ کی طرح ہے، معاذ اللہ، اس طرح اگرکوئی سوچے گا تو یہ ایک دجالی فتنہ ہے، گمراہ ہوگا اور گمراہ کرے گا، ان ائمہ اربعہ کے مقام تک اب کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس گفتگو کے کرنے کا مقصد طرز علم اور شیوۂ علم سمجھانا ہے، اب ان مذاہب کے بانیان کی طرح کوئی نہیں ہوسکتا۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ و امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا طرز عمل
علم کے باب میں اختلاف کرنا سنت ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بعد ازاں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھے مگر نہ حنفی رہے اور نہ مالکی رہے بلکہ مذہب شافعیہ بنا دیا۔ اس کے باوجود نہ استاد ناراض ہوئے اور نہ شاگرد گستاخ ٹھہرے۔ ۔ ۔ پھر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھے اور اتنا پڑھے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ گھوڑے پر سوار ہوکر سفر کرتے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ رکاب پکڑ کر ان کے گھوڑے کے ساتھ پیدل چلتے اور جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے اسے لکھتے چلے جاتے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد آتے تو اپنے شاگرد امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے گھر رہتے تو اس موقع پر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ شیخ کی تعظیم و تکریم کے لئے دن رات حاضر خدمت رہتے۔ اس دور کے فن جرح و تعدیل کے امام یحیٰی بن معین اور دیگر اصحاب امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو طعنے دیتے کہ ہمارا حلقہ چھوڑ کر ایک دیہاتی کے ساتھ وابستہ ہوگئے ہو حالانکہ بغداد، کوفہ وغیرہ مراکز علم تھے اور یہاں امام یحییٰ بن معین اور دیگر احباب کے بڑے بڑے حلقے موجود تھے اور یہ احباب ابھی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے ناواقف تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو جواب دیا کہ اگر تم پہچان لو کہ امام محمد بن ادریس شافعی کیا ہیں؟ تو تم بھی اپنے حلقے چھوڑ کر ادھر آجاؤ، ایک رکاب میں پکڑتا ہوں، دوسری رکاب خالی ہے تم تھام لو، تمہیں کیا خبر کہ میں نے امام محمد بن ادریس شافعی میں کیا پایا ہے۔
یہ ائمہ فقہ تھے جن کے پاس علم قرآن بھی تھا اور علم سنت و حدیث بھی تھا اور پھر درایت تھی گویا علوم کے جامع تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حلقہ محدثین کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ ادھر صرف روایت ہے ادھر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا جامعیت ہے پس ادھر آگئے۔
پس ادب، تعظیم و تکریم کا یہ عالم تھا کہ گھوڑے کی رکاب پکڑ کر ساتھ دوڑتے ہیں مگر شافعی نہیں ہوئے، اپنا الگ مذہب متعارف کروایا، اصول بنائے اور فقہ حنبلی وجود میں لائے۔ اتنا بڑا اختلاف کہ نیا مذہب ہی وجود میں لے آئے تو کوئی کہنے والا کہہ سکتا تھا کہ کل ان کی رکاب پکڑ کر دوڑتے تھے، ان کی تعظیم و تکریم کرتے تھے آج نیا مذہب ہی بنا ڈالا۔ ۔ ۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ۔ ۔ کیونکہ یہ شیوۂ علم ہی نہ تھا، تحقیق کی بات تھی۔ ادب اپنی جگہ پر مگر تحقیق اپنی جگہ۔ ۔ ۔ افسوس! ہم نے ادب و احترام اور تحقیق و رائے کو خلط ملط کردیا ہے۔ رائے اور تحقیق سو بار، لاکھ بار الگ ہوسکتی ہے، مگر ادب و احترام اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ اختلاف رائے و تحقیق کے بغیر بھی ادب ہوسکتا ہے، ائمہ و اکابر نے کرکے دکھایا ہے۔
میں طریقت میں قادری ہوں۔ مزاج میں تمام طرق میرے اندر ہیں، قادریت تو ہے ہی مگر چشتیت بھی ہے، نقشبندیت بھی ہے، سہروردیت بھی ہے، رفاعیت بھی ہے اور شاذلیت بھی ہے۔ مگر اپنے سلسلہ میں قادری ہوں، حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا سگ ہوں، سب ان کا فیض ہے، ان کی اتنی خیرات عطا ہے کہ آپ کو بتا نہیں سکتا۔ انہی کی خیرات پر پلتا ہوں اور چلتا پھرتا ہوں۔ میں حنفی ہوں مگر میرے شیخ حضور غوث الاعظم حنبلی ہیں، کیا یہ بے ادبی ہوگئی۔
اکابر، ائمہ، اولیاء کی اکثریت اسی طرح تھی، بڑے بڑے اولیاء میں سے اکثریت شافعی ہیں مگر یہ تحقیق، رائے، فقہی مذہب ہے، ترجیح دینے اور اپنانے کی بات ہے، اس کا کوئی ٹکراؤ ادب و احترام اور تعظیم و تکریم سے نہیں ہے۔ جہاں جاکر دونوں چیزیں یکجا ہوجاتی ہیں، رائے بھی سرجھکادیتی ہے اور ادب بھی سجدہ ریز ہوجاتا ہے وہ صرف بارگاہ رسالت مآب و بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ وہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اختلاف کیا تو ایمان سے خارج ہوگئے، وہاں کوئی اپنی تحقیق پیش نہیں کرسکتا۔ جو کرے گا بے ایمان ہوجائے گا۔ اگر بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک بات چلی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول، فرمان، حدیث اور سنت ثابت ہوجائے تو سب کا ذاتی اختیار، ترجیح، تحقیق، فہم سلب ہوجاتا ہے، سب چراغ بجھ جاتے ہیں جب چراغ علم نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چمکتا ہے۔ وہاں جو اپنی رائے اور تحقیق کی بات کرے گا وہ مرتد اور بے ایمان ہوجائے گا۔
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ اخذِ دلائل
امام ابن عبدالبر مالکی نے امام اعظم کی عظمت بیان کرتے ہوئے ’’جامع بیان العلم‘‘ میں لکھا ہے اور دیگر کتب میں بھی موجود ہے کہ کسی نے امام اعظم کو طعنہ دیا کہ یہ اہل الرائے میں سے ہیں، فقہ اپنی رائے سے بناتے ہیں، حدیث، آثار صحابہ کو نہیں مانتے، بلکہ اپنی رائے، تحقیق اور عقل و فہم و تدبر سے فقہ کو ترتیب دیتے ہیں؟
امام اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا آپ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آثار صحابہ کو حجت نہیں مانتے؟ آپ نے فرمایا : استغفراللہ العظیم، میں سب سے پہلے قرآن پر اپنی رائے کو قائم کرتا ہوں۔ ۔ ۔ اگر وہاں سے صریحاً رہنمائی نہ ملے تو حدیث پر اپنی رائے کو قائم کرتا ہوں اور جب سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز ثابت ہوجائے تو اس کے مقابلے میں کسی کا قول نہیں دیکھتا۔ (اس سے فقہ حنفی کے اصول کا بھی پتہ چلتا ہے کہ امام اعظم کی روش اور طریقہ کیا ہے)۔ ۔ ۔ اور اگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اس مسئلہ کے متعلق واضح نہ ہورہا ہو تو پھر اقوال و آثار صحابہ رضی اللہ عنھم سے رہنمائی لیتا ہوں۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی چیز صحابہ رضی اللہ عنھم سے ثابت ہوجائے تو کبھی اپنی رائے کو اس کے مقابل میں نہیں لاتا۔ ۔ ۔ اور اگر کسی مسئلہ پر کسی صحابی کا قول بھی نہ ملے اور تابعی کا قول ملے تو ’’ هُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ ‘‘ ’’وہ بھی رجال علم ہیں اور ہم بھی رجال علم ہیں‘‘۔ اگر تابعین کی رائے کا وزن ہے تو پھر اتنا وزن تو ہماری رائے کا بھی ہے۔ چنانچہ جب درجہ ایک جیسا آجائے اس موقع پر جس کی رائے کو چاہیں ترجیح دے دیں یا اپنی رائے دے دیں۔
پس امام اعظم کے لئے قرآن، سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آثار صحابہ کرام حجت ہیں اور وہ ان سے اختلاف نہیں کرتے۔ اگر ان تینوں مراتب سے صریحاً رہنمائی نہ ملے تب وہ اپنے قول اور تحقیق کو بیان کرتے ہیں۔
حقیقتِ اجماع
آج ہمارے لئے ان تین مراتب کے بعد چوتھا درجہ اجماع امت ہے۔ کسی مسئلہ پر اجماع امت ہوجائے تو اس کی حجیت ہے۔ اس موقع پر اجماع کی حقیقت کا سمجھنا ضروری ہے۔ پہلے زمانے میں جب ذرائع ابلاغ وسیع نہ تھے، Comunication مکمل نہ تھی، اس وقت جب کسی ایک شہر کے علماء کسی ایک مسئلہ پر متفق ہوجاتے تو اس کو اجماع قرار دے دیتے۔ آپ کتب فقہ کی ہر دوسری سطر میں علیہ الاجماع (اس پر اجماع ہے) کے الفاظ دیکھیں گے اور دوسرا طبقہ جو اس مسئلہ پر اختلاف کررہا ہے وہ بھی ’’علیہ الاجماع‘‘ کے الفاظ لکھ رہا ہے۔ گویا جس کا اس قول سے اتفاق ہے وہ اپنی بات بیان کرکے لکھتا ہے کہ ’’اس پر اجماع ہے‘‘ اور جو اس بات سے اختلاف رکھتا ہے وہ بھی اپنی بات لکھ کر کہتا ہے کہ ’’اس پر اجماع ہے‘‘۔ یہ تمام اپنے طور سچے تھے جو جس شہر سے تعلق رکھتا وہ اپنے علماء کے اجماع کے مطابق ہی مؤقف لکھتا اور اپناتا۔ جہاں تک معلومات تھیں، اس کی کثرت کو دیکھتے ہوئے لکھتے کہ اس پر ہمارے اہل بلد (شہر والوں) کا اجماع ہے۔ وہ اجماع بلدی (علاقائی) ہوتا تھا۔ یہاں سے ہمارے بہت سے احباب کو مغالطہ لگتا ہے کہ انہوں نے اس قسم کے علاقائی اجماع کو اجماع امت سمجھ لیا۔ اجماع امت اور شے ہے جبکہ پرانے فقہاء کی کتابوں میں موجود لفظ ’’اجماع‘‘ اصل میں بلدی (علاقائی) اجماع ہے۔
مثال کے طور پر بخارا کے علماء کی اپنے اور ثمر قند کے خطے تک معلومات تھیں، انہیں اس دور میں ذرائع ابلاغ نہ ہونے کی بناء پر نیشا پور کے علماء کا کسی مسئلہ پر مؤقف معلوم نہ تھا تآنکہ وہ نیشا پور نہ جائیں۔ نیشا پور والے اگر کسی مسئلہ پر علیہ الاجماع (اس پر اجماع ہے) کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اہل نیشا پور کا اس پر اجماع ہے۔ اسی طرح اہل بغداد کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل کوفہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل بصرہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل مکہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ اہل مدینہ کا اجماع اس پر ہے۔ ۔ ۔ پس یہ بلدی (علاقائی) اجماع ہوتے تھے۔ اس وقت وہ اس بات کو لکھتے نہ تھے کہ یہ اجماع اہل بخارا، اہل مکہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ یا اہل مدینہ کا ہے کیونکہ ہر ایک کو معلوم تھا کہ اس کا وطن، علاقہ کون سا ہے؟ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ ایک جگہ پر رہنے والے افراد کو دور دوسری جگہ کے افراد کے بارے میں بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ ۔ ۔ نہ کتابیں چھپتی تھیں۔ ۔ ۔ نہ پریس تھا۔ ۔ ۔ نہ انٹرنیٹ تھا اور نہ کمپیوٹر تھا۔ کسی کو کیا معلوم کہ کوفہ کے کسی عالم اور امام نے اس مسئلہ پر کیا کہا ہے۔ سوائے ذاتی رابطہ (Personal Comunication) کے۔
پس اس طرح کے اجماع کو قطعی طور پر امت کا اجماع نہیں کہا جاسکتا۔ بہت ہی قلیل مسائل میں امت کا اجماع ہے جو حقیقی اجماع قطعی ہے۔ اس لئے اکثر محتاط علماء نے کہا ہے کہ جب اجماع کا لفظ کسی جگہ لکھا ہوا ملتا ہے تو وہ ظنی ہوتا ہے اور وہ علاقائی ہوتا ہے۔ اگر اجماع امت ہوجائے تو اس میں قطعیت پائی جاتی ہے پھر اس سے انحراف کی کسی کو مجال نہیں ہے کیونکہ اس انحراف سے گمراہی پیدا ہوگی۔
پس اس تمام گفتگو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علم کا شیوہ اور طریق یہ رہا ہے کہ کسی کی تحقیق اور رائے پر اس کو اسلاف کا گستاخ و بے ادب نہ کہا جاتا بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی، اسی طرزِ عمل کی وجہ سے علم پھیلتا اور مسلسل ارتقاء میں رہتا تھا۔
ہر ایک کو اللہ کی طرف سے اس کے نصیب کا حصہ ملتا تھا اور وہ اپنے دور میں اس کو بیان کرتا چلا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے خزانے سے ہر دور میں لوگوں کو عطا کرتا ہے اور قیامت تک لوگوں کو عطا فرماتا چلا جائے گا۔ بہت ساری چیزیں ہیں جو آنے والے دور میں منکشف ہوں گی مگر افسوس کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایات اور کرم نوازیوں کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا مگر ہم نے مزید تحقیق اور حقائق کو منکشف کرنے پر پابندیاں لگا دیں۔ کسی نے کوئی علمی بات کردی، یا کوئی نیا علمی کام کردیا جو پہلے نہیں ہوا تو ہم نے فوراً اسے گستاخی سے تعبیر کرلیا۔ اس طرزِ عمل سے علم کا ارتقاء رک گیا ہے اور ایک خوفزدگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس طرح کے فتووں سے عامۃ الناس کے ذہن منتشر ہوجاتے ہیں، اس طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرز فکرو عمل میں وسعت چاہئے اپنے مذہب کی پیروی کریں، اس میں دین کی حفاظت ہے۔ اب اگر کوئی چاہے کہ وہ کوئی نیا مذہب بنالے تو اس سے وہ ایک فتنہ اور دجالیت پیدا کرے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا۔ اس لئے اہل سنت کا ایک زمانہ سے تواتر کے ساتھ ائمہ اربعہ اور مذہب پر اجماع ہے۔ مذہب ظاہری اور مذہب اوزاعی اس اجماع کی وجہ سے از خود ختم ہوگئے۔ تواتر، عمل اور زمانے نے ان کو ختم کردیا اور چار مذاہب (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) پر امت عملاً مجتمع ہوگئی اور صدیوں سے اس پر عملی اجماع بھی چلا آرہا ہے اور اس تعامل میں تواتر بھی چلا آرہا ہے، پس یہ قطعی اجماع امت ہوگیا۔ اب فتنہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ بجائے کوئی شخص الگ مذہب و فقہ وجود میں لائے بلکہ وہ مذاہب جس پر پوری امت کا صدیوں سے عمل اجماع تواتر کے ساتھ قائم ہے، اس پر کار بند رہے۔ ان مذاہب پر امت کے اہل علم کا 99 فیصد سے بھی زیادہ اجماع ہے۔ ایک یا دو فیصد افراد بمشکل آپ کو امت میں ملیں گے جو شاید اس تعامل، تقلید کے عمل میں شامل نہ ہوں۔
تقلید سے کیا مراد ہے؟
تقلید کے معنی میں بھی فرق ہے، کئی لوگوں کو سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے اور لوگوں نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔ مذاہب قائم ہوچکے اب دین کی عافیت اس میں ہے کہ کسی ایک فقہی مذہب کی پیروی کرے تاکہ فتنہ سے بچ جائیں، مذہب حنفی کی پیروی کریں، یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ ۔ ۔ مذہب مالکی کی پیروی کرنے والے مالکیہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کررہے ہیں۔ ۔ ۔ مذہب شافعیہ کی پیروی کرنے والے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و شریعت پر کار بند ہیں۔ ۔ ۔ مذہب حنبلی کی پیروی کرنے والے حنابلہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کررہے ہیں۔ ۔ ۔ اس طرح فقہ جعفریہ کو ماننے والے اپنی فقہ پر اپنی یکسوئی کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اہل سنت کا اجماع چار مذاہب پر قائم ہے۔ اب کوئی نیا مذہب نہیں بناسکتا، جتنا بھی صاحب عقل و فہم و تدبر ہوجائے، تحقیق کے سات آسمان بھی عبور کرلے اگر وہ نیا فقہی مذہب بنانے کا سوچے گا تو وہ گمراہ ہوگا اور امت کو بھی گمراہ کرے گا۔ پس عافیت اس میں ہے کہ ان مذاہب کی تقلید کرے اور ان میں سے کسی ایک سے وابستہ ہوجائے اور جب اس کے دائرہ میں آجائیں تو اس دائرہ کے اندر آکر گویا عافیت میں آگئے، اب آپ تحقیق کریں، محنت کریں، زمانے کے حالات کے مطابق ہزارہا مسائل پر کام کریں، ابھی لاکھوں مسائل ہیں جن پر کام ہونا باقی ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ ان مذاہب کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا، تحقیق کرنا تقلید کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔ پس یہی قانون و طریقہ اصول حدیث میں بھی ہے۔
اصول حدیث میں ’’مقدمہ ابن صلاح‘‘ کو ایک مستند ٹیکسٹ بک (متن) کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے پہلے اصول حدیث پر انسائیکلو پیڈیا آرہے تھے۔ اس کتاب کے بعد اصول حدیث کے جتنے اہل فن آئے ان کی اکثریت نے ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کے متن پر ہی آگے کام کو بڑھایا۔ میں اس کتاب کا تعارف اس لئے کروا رہا ہوں کہ ہر بعد میں آنے والے امام نے اس کو بنیاد بنا کر کام کو آگے ڈویلپ کیا۔ امام حاکم نے اصول حدیث میں 52، انواع قائم کی تھیں۔ انہوں نے مقدمہ لکھ کر اصول حدیث میں 65 انواع کا ذکر کیا اور اس سائنس کو اس قدر Expand کیا۔ اب یہ ٹیکسٹ بک اتھارٹی بن گئی۔
انکے بعد امام نووی آئے، آپ کا مقام یہ ہے کہ پورے عالم عرب میں جو امام اتھارٹی مانے جاتے ہیں ان میں امام نووی کا منفرد مقام ہے۔ ہمارے ہاں مدارس و مساجد میں مشکوٰۃ المصابیح چلتی ہے، جبکہ عرب دنیا میں امام نووی کی ریاض الصالحین کے درس ہوتے ہیں۔ آپ بہت بڑے محدث اور ولی اللہ تھے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہر امام و محدث، ولی بھی تھا اور صوفی بھی تھا۔ تصوف، طریقت، معرفت اور ولایت کے بغیر نہ کوئی امام بنا اور نہ بن سکتا ہے اور نہ بنے گا۔ جب تک مالائے اعلیٰ کے دروازے نہ کھلیں، شرح صدر اور انفتاح صدر نہ ہو، نیچے اور اوپر کے خزانے جب تک نہ ملیں اس وقت تک علم میں امامت کے درجے نہیں ملا کرتے۔ ۔ ۔ حجت کوئی نہیں بنتا۔ ۔ ۔ خالی کتابوں سے امام نہیں بنتے۔ ۔ ۔ ہر ایک امام، صاحب کرامت تھا۔ امام نووی بھی صاحب کرامت تھے۔
امام نبھانی نے جامع کرامات الاولیاء میں روایت کیا ہے کہ کسی نے بادشاہ کو ان سے خائف کردیا کہ ان کاحلقہ وسیع ہورہا ہے، مشہور ہورہے ہیں، یہ نہ ہو کہ کسی وقت آپ کا تختہ الٹ دیں، اس لئے ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی بہانہ بنا کر جیل میں ڈال دیں یا جان سے مروا دیں، بادشاہ نے امام نووی کو اپنے دربار میں طلب کیا اور چند الزامات لگائے، چاہتا تھا کہ کسی الزام میں پھنسا دوں اور سزا دوں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ارادے کو بھانپ لیا اور جان لیا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد وہ سزا کا اعلان کرنے والا ہے، آپ دربار میں جس قالین پر کھڑے تھے اس پر شیروں کی تصاویر بنی تھیں، آپ جلال میں آگئے اور زور سے اپنا قدم قالین پر مارا اور شیروں کی تصاویر اسی وقت زندہ شیر بن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دائیں اور بائیں کھڑے ہوگئے، بادشاہ خوفزدہ ہوکر گر پڑا۔
پس آپ محدث بھی تھے اور صاحب کرامت ولی بھی تھے۔ اس طرح امام جلال الدین سیوطی ہیں کہ جس حدیث کی سند پر تسلی نہیں ہوتی اور کتب و تحقیق سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تو عالم بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچہری میں 72مرتبہ حاضر ہوکر خود پوچھ لیا۔ ان چیزوں کو محدثین نے خود بیان کیا ہے۔ امام عبدالوہاب شعرانی سے لے کر ہندوستان کے علامہ انور شاہ کاشمیری تک نے اس واقعہ کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ حضوری اور کچہری والے بھی تھے، حضوری کے بغیر علم میں حضور نہیں آتا۔
تیری نماز بے حضور تیرا امام بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
یہ حضوری والے لوگ تھے، اہل کرامت و استقامت تھے اور علم و فن کے امام تھے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اصول حدیث‘‘ کے باب میں ’’ارشاد طلاب الحقائق الی معرفۃ سنن خیرالخلائق‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ جو ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کی وضاحت میں ہے۔ بعد ازاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کتاب ’’ارشاد طلاب الحقائق‘‘ کا خلاصہ ’’التکریم‘‘ کے نام سے لکھا۔ مقدمہ ابن الصلاح کے بعد اصول حدیث میں ’’التکریم‘‘ کا درجہ بھی Text Book کا بن گیا۔ ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ اپنے سے اوپر 18 بنیادی کتب (جن کو گذشتہ صفحات میں بیان کیا گیا) پر قائم ہوا۔
بعد ازاں ’’التکریم‘‘ کی شرح امام سیوطی نے لکھی جس کا نام ’’التدریب علی التکریم‘‘ رکھا گیا اور یہ بھی ایک عظیم Text Book بن گئی جس میں اوپر امام نووی کی ’’التکریم‘‘ کا متن ہے اور اس کے نیچے امام سیوطی کی ’’التدریب‘‘ کے نام سے شرح موجود ہے۔ اصول حدیث میں ان کتب کو (متن) Text کا درجہ حاصل ہے اور کوئی اہل علم اس سے اختلاف نہیں کرسکتا جو کہے کہ میں ان کتب کو نہیں مانتا تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے ویسے ہی نہیں مانا، نہ ماننے کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے، وہ جاننا ہی نہیں چاہتا تو ماننا کیا ہے، جانے گا تو مانے گا۔ جاننے کا نام علم ہے اور ماننے کا نام ایمان ہے۔ ہر شے جاننے کے بعد مانی جاتی ہے صرف اللہ اور اس کا امر جانے بغیر مانا جاتا ہے۔ اللہ کی بات ذاتی ذرائع سے جانے بغیر مانی جاتی ہے۔ پس اللہ نے جانے بغیر ماننے کا ایک رستہ نبی/ رسول کی صورت میں نکالا ہے فرمایا ذات نبوت وہ ذریعہ ہے اس کو جاننے کی کوشش کرو، جتنا جانو گے اتنا ہی مجھے مانو گے۔ جتنا نبی کو جانو گے اتنا مجھے مانو گے، مراد یہ کہ جتنی مقام نبوت کی معرفت ہوگی اتنا اللہ پر ایمان کامل ہوگا۔ یعنی توحید میں وہ پختہ ہوگا جو معرفت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پختہ ہوگا اور جو معرفت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کمزور ہے اس کی توحید کمزور ہے۔
بعد ازاں امام بدرالدین ابن جمعہ آئے، انہوں نے ’’المنحل الروی فی علوم الحدیث النبوی‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔
ان کے بعد امام علاء الدین الترکمانی آئے انہوں نے ’’مقدمہ ابن الصلاح‘‘ کا خلاصہ ’’مختصر ابن الصلاح‘‘ کے نام سے لکھا۔
بعد ازاں حافظ ابن کثیر آئے انہوں نے ’’اختصار علوم الحدیث‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور پھر اس کو مختصر کرکے ’’الباعث الحصیص‘‘ لکھی۔ ان تمام نے مقدمہ ابن الصلاح پر مدار کیا۔ ہر بعد میں آنے والے امام کا مدار اسی مقدمہ ابن الصلاح پر ہے۔
حافظ ابن کثیر کے بعد ائمہ، محدثین آتے رہے امام بدرالدین زرقشی آئے، انہوں نے ’’النکت علی ابن الصلاح‘‘ لکھی اور ابن الصلاح کے مختلف نکات کی تشریح کی۔
ابو حفص عمر بن ارسلان شافعی آئے، انہوں نے ’’محاسن الاصطلاح علی تضمین کتاب ابن الصلاح‘‘ کے نام سے لکھا۔ الغرض جو امام فن اصول حدیث آئے انہوں نے ابن الصلاح کے مقدمہ کی تلخیص اور تشریح کی۔
امام زین الدین العراقی (806ھ) آئے انہوں نے بھی ’’النکت علی ابن الصلاح‘‘ لکھی۔
اسی طرح امام حجر عسقلانی نے بھی ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ لکھی۔ مراد یہ کہ ہر ایک کے ہاں مقدمہ ابن الصلاح اتھارٹی ہے۔ اس کے بعد ’’النکت‘‘ کی تکمیل پر ’’الافصاح‘‘ لکھی۔ اس کے بعد شرح ’’نخبۃ الفکر‘‘ کے نام سے مختصر رسالہ لکھا، مگر زیادہ جامع کتابیں امام حجر عسقلانی کی اصول حدیث میں ’’النکت‘‘ اور ’’الافصاح‘‘ ہیں۔ بعد ازاں ’’نزہۃ النظر‘‘ کے نام سے ’’نخبۃ الفکر‘‘ کی شرح پر چھوٹا رسالہ لکھا۔
امام زین الدین العراقی نے اصول حدیث پر ’’الفیہ‘‘ لکھا، ہزار اشعار میں اصول حدیث پر منظوم لکھا۔
امام جلال الدین سیوطی نے منظوم الفیہ لکھی مگر مدار امام ابن الصلاح ہیں یا امام نووی ہیں۔
بعد ازاں امام عسقلانی کی کتب پر بھی اصول حدیث کے باب میں مدار کیا جانے لگا۔
امام جلال الدین سیوطی نے ’’نظم الدرر فی علم الاثر‘‘ کے نام سے بھی اصول الحدیث پر لکھا۔ آپ نے ’’التدریب علی التقریب‘‘ بھی لکھی، ’’الفیہ‘‘ بھی لکھی گویا آپ نے اصول حدیث پر بہت کام کیا۔
امام سخاوی نے ’’فتح المغیث‘‘ لکھی۔ یہ 36 ویں امام ہیں جو اصول حدیث کی تاریخ میں اتھارٹی اور مصادر مانے جاتے ہیں۔ ان ائمہ میں سے ہر ایک نے تبویب و تصنیف کا مختلف طریقہ اختیار کیا مگر بنیاد اصلی کتب ہی کو بنایا۔
امام ابوالحسن الجرجانی آئے آپ نے ’’مصطلح الحدیث‘‘ لکھی۔
عمر بن محمد الفتوح البیقونی آئے آپ نے ’’البیقونیہ‘‘ کے نام سے منظوم اصول حدیث مرتب کیا۔
امام ابو عبداللہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی (1122ھ) آئے آپ نے البیقونیہ کی شرح ’’الزرقانی‘‘ لکھی۔ الغرض اسی طرح اکابر، ائمہ ہمارے زمانے تک اصول الحدیث پر لکھتے گئے اور تقریباً 50 معتبر اور بااعتماد کتب ہیں جن پر اصول حدیث میں اعتماد کیا جاتا ہے۔
شیخ طاہر الجزائری کی ’’توجہیہ النظر الی علوم العصر‘‘ بھی نمایاں کتب میں شامل ہے۔ اسی طرح ایک اور معتبر، جامع و مانع اور نافع کتاب جو متن کے طور پڑھائی جائے تو مفید کتاب ہے اور وہ کتاب علامہ جمال الدین القاسمی کی (1322ھ) ہے اس کا نام ’’قواعد التحدیث‘‘ ہے۔ آپ مفسر بھی ہیں، تفسیرالقاسمی کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ آپ کے بارے میں مشہور یہ ہوچکا ہے کہ آپ سلفی ہیں، میرے اساتذہ نے بھی جب مجھے ان کا تعارف کروایا تو یہی بتایا کہ یہ سلفی ہیں، مگر میں نے جب ان کی تمام کتب کو کھنگالا اور مطالعہ کیا اور صاحبان کتب کے احوال کو جانا تو معلوم ہوا کہ ایک، دو کو چھوڑ کر تمام اکابر، ائمہ مقلد تھے، اہل طریقت تھے، اہل تصوف اور اہل سنت تھے۔ امام جمال الدین قاسمی کے سلفی ہونے کا مغالطہ زیادہ ہے حالانکہ آپ عقائد اہل سنت پر بڑے پختہ تھے، عقائد کے خاص موضوعات، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس، شفاعت، مقام محمود وغیرہ پر مدلل اور مفصل اور مستند بحث جتنی آپ نے کی شاید کسی اور نے کی ہو۔ گویا آپ اعلیٰ عقیدہ کے حامل اہل سنت میں سے تھے۔
اس وقت عالم عرب میں اصول حدیث پر سب سے بہتر لکھنے والے ’’نورالدین العطر‘‘ ہیں آپ حلب کے رہنے والے ہیں۔ میرے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں، میری کتب میرے دستخطوں کے ساتھ وصول کیں اور اپنی کتب اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے دیں۔
اسی طرح مصر میں شیخ احمد عمر ہاشم ہیں، آپ بھی آج کے زمانے میں اصول الحدیث پر بہتر کام کرنے والوں میں نمایاں ہیں۔
اصول حدیث کی مختصر تاریخ جو کہ تقریباً 50 قابل اعتماد و ثقہ کتب پر مشتمل تھی اس کا تذکرہ میں نے آپ کے سامنے کیا تاکہ معلوم ہو کہ اس فن اصول حدیث کا آغاز کہاں سے ہوا اور آج کہاں تک پہنچ چکا ہے؟ اور اس میں کون کون معتبر و مستند لوگ ہیں؟ اور کن کن کی کتب بطور متن ہیں؟ اور کن کن کی کتابیں انسائیکلوپیڈیا ہیں؟ اور کن کن کی کتب مصادر و مراجع ہیں؟ دورہ صحیح مسلم میں اگلی گفتگو انہی کتب کے حوالے سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حدیث مبارکہ کا صحیح فہم و ادراک عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم