قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیمات اسلام کا وہ منبع و مصدر ہیں جن کی تشریحات اور تعبیرات کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ ہر کسی نے اپنی علمی وسعت اور تحقیقی صلاحیت کے مطابق خدمت کی تاہم ہر دور میں بعض سطح بین اور سستی شہرت کے حامل لوگ اسلامی اعتقادات میں من پسند خیالات و نظریات داخل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جن سے خون آشام فتنوں کا ظہور بھی ہوتا رہا۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے جس اعتقادی فتنے نے سر اُٹھایا وہ گستاخِ رسول ذوی الخویصرہ تمیمی نامی انتہا پسند شخص کے ہاتھوں اُبھرا جس نے مال غنیمت کی تقسیم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عدل پر اعتراض کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس بے باکی کے بطن سے خوارج کا پورا طبقہ پیدا ہوگیا جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کے بارے میں کفر کا فتویٰ دے دیا۔ بعد ازاں اسی انتہا پسند فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک ملعون شخص ’’عبدالرحمن بن ملجم‘‘ نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پر چھپ کر قاتلانہ حملہ کیا اور آپ نے دو دن بعد جام شہادت نوش فرمایا۔ سیدنا علی اور اہل بیت اطہار کے بغض میں حد سے گزرنے والے ان سخت مزاج لوگوں کے ردعمل میں ایک دوسرا گروہ پیدا ہوا جنہوں نے ابتداً سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت اطہار کا دفاع کیا لیکن جب یہ بھی انتہا پسندی (غلو) کی حدوں کو عبور کرگیا تو اس گروہ نے ازواج مطہرات اور سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر جیسے اکابر صحابہ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ صاف ظاہر ہے دونوں طرف کی اس انتہا پسندی نے امت کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں اور ایک عرصہ تک یہ نفرت جنگ و جدل کا باعث بنی رہی جس کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
چنانچہ اسلامی تاریخ کے چمکتے دمکتے چہرے پر بادشاہت کی قباحتوں کے ساتھ ساتھ اگر کوئی بدنما داغ ہے تو وہ یہی خوارج اور روافض کی طویل اور خون آشام کشمکش ہے۔ اسی دور میں چونکہ تفسیر اور حدیث کی تدوین ہو رہی تھی۔ تاریخ اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ خصوصاً علم الکلام وجود میں آرہا تھا۔ اس لئے اس دور کے علماء کی طرف سے وجو د میں آنے والا قابل قدر علمی ذخیرہ بھی ایسی روایات سے محفوظ نہ رہ سکا جن میں فریقین نے ایک دوسرے کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ بہت کم لوگوں پر یہ حقیقت منکشف ہوسکی ہے کہ اس خطرے کے سبب روایت حدیث کے مقدس سلسلے کو فلٹر کرنے کے لیے ائمہ نے جتنی کڑی شرائط متعین کیں ان کی مثال انسانی تاریخ کے کسی شعبے میں موجود نہیں۔ قبولیت و اخذِ حدیث کے باب میں اس قدر کڑے معیارات مقرر کیے گئے کہ کذب و افتراء کے سرچشمے خاصی حد تک خود بخود خشک ہوگئے۔ اسی احتیاط کے باعث امام بخاری نے پوری زندگی لگا کر حاصل کیے گئے 3 لاکھ احادیث کے ذخیرے میں سے صرف چند ہزار احادیث مبارکہ صحیح بخاری میں درج کیں اور یہی حالت دوسرے ائمہ حدیث کی بھی ہے۔ اسی احتیاط کی بناء پر علم جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کی درجنوں ضخیم کتب معرض وجود میں آئیں۔ مدعائے کلام یہ ہے کہ اس اعتقادی تعصب نے علمی میدان اور تاریخی ادوار میں بھی مضر اثرات مرتب کیے اور باہمی قوت کو بھی منتشر کیے رکھا۔ یہ افتراق و انتشار مسلمانوں کی ایسی کمزوری رہا جس کے ذریعے عالم کفر کوجارحیت اور مداخلت کیلئے ہمیشہ آسانی اور سہولت میسر رہی۔
تیرھویں صدی عیسوی میں جب چین کے شمالی علاقوں سے خانہ بدوش تاتاری قبیلہ دنیا کی ہیبت ناک قوت کی شکل میں چین، روس، ہنگری پولینڈ اور جرمن قوم کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا مگر اسلامی سلطنت پر چڑھائی کی ہمت اسے بھی نہیں ہو رہی تھی لیکن یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ تاتاری سردار ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کرنے کی ترغیب اور ترکیب بھی ایک معروف مذہبی فرقہ کی طرف سے دی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 7 سو سالہ اسلامی سلطنت شاندار علمی تہذیبی اور انسانی امتیازات کے باوجود تاخت و تاراج ہو گئی۔ دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، گلیاں مسلمانوں کے خون سے نہا گئیں اور دجلہ و فرات کے دریا مایہ ناز علمی ذخائر کی سیاہی سے بھرگئے۔ سقوط غرناطہ کی طرح خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی اگرچہ سیاسی اور عسکری کمزوریوں کے باعث ممکن ہوا مگر اس سیاسی کمزوری کے پیچھے بھی مسلمانوں کا افتراق اصل سبب تھا جس سے دشمنان اسلام نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
گذشتہ دو اڑھائی سو سالہ دور زوال میں جہاں جہاں بھی اسلامی تحریکیں اور شخصیات ابھریں تمام تر قربانیوں اور صلاحیتوں کے باوجود مسلمانوں کا اتحاد و احیاء ایک خواب ہی رہا۔ کیونکہ ہر دور میں ان علمی فکری اور احیائی تحریکوں کو اندر سے ہی نقصانات پہنچتے رہے۔ اب جبکہ پوری دنیا دو بڑی عالمی قوتوں کی باہمی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک ’’سپر طاقت‘‘ کے زیر اثر آچکی ہے تو ان مذہبی کاوشوں اور اسلامی قوتوں کو ایک مرتبہ پھر نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔
تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نظریہ اور چرچا صرف اسلام کے خلاف عام کیا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت روئے زمین پر کوئی دوسری تہذیب ایسی نہیں جو اتنے مضبوط اور مربوط نظام الوہیت کے تحت مزاحمتوں اور مخالفتوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سالہ اختلافات کے باوجود دنیا کی بیشتر اقوام اور مذاہب اسلام کے مقابلے میں متحد اور یکجا دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس یہ کتنی عجیب اور حیران کن حقیقت ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے آگ اور خون کے بہتے دریا دیکھ کر بھی اسلامی دنیا سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ غور کریں تو اس گہری خاموشی اور تاریخی سرد مزاجی کے کئی اسباب ہیں۔ کچھ سیاسی و معاشی ہیں کچھ سماجی و ثقافتی ہیں کچھ فکری و علمی ہیں اور کچھ مذہبی مسلکی ہیں۔ یہ مسائل صرف مسلمانوں کا ورثہ نہیں بلکہ تقریباً ہر قوم کو ہر دور میں درپیش رہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے بعض کے اثرات ختم بھی ہوجاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے درمیان موجود مذہبی و مسلکی مسائل اس لیے مسلسل اور طویل تاریخ کے حامل ہیں کہ اسے اچھالنے والا طبقہ مذہبی پیشوائیت کے منصب پر فائز رہا۔ اس کو حاصل تقدس اور احترام ان کے نظریات کو تقویت دیتا رہا جس کی وجہ سے ان نظریات کو ماننے اور اپنانے والوں کا کوئی نہ کوئی حلقہ بھی موجود رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان گروہوں اور حلقہ ہائے اثر میں سے بعض دائرہ اسلام سے بھی خارج ہوگئے۔ اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دین و مذہب کی دعوت دینے والوں پر سب سے زیادہ نازک اور حساس ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ چاہیں توسادہ لوح عوام کو متحد رکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو پورا ماحول آپس میں دست و گریباں ہوسکتا ہے۔
علماء و مصلحین کے لئے یہ ذمہ داری اس دور میں اور زیادہ اہم اور حساس ہوگئی ہے کیونکہ اب ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانکس میڈیا نے زمان و مکاں کے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ بیسیوں ٹی وی چینلز پردن رات براہ راست افکار و خیالات کا اظہار ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے نازک موضوعات پر قرآن و حدیث کے حوالہ جات پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان سے جہاں لوگوں کو علم و عرفان میں وسعتیں حاصل ہو رہی ہیں وہاں بعض اوقات غلط فہمیاں اور انتشارات کا امکان بھی رہتا ہے۔ میڈیا پر گفتگو کرنے والے سب حضرات ایک جیسی علمی اور استدلالی قوت کے حامل نہیں اور نہ سب کو حکمتِ دعوت کا پیغمبرانہ وصف حاصل ہے۔
ہم کسی مبلغ، مصلح اور داعی کی نیت اور اس کے اخلاص پر شک نہیں کرتے البتہ بعض حضرات کی افتادِ طبع سے ضرور شکوہ ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک معروف دانشور اور عالم دین نے بڑی سادگی اور روا روی میں جمہور صحابہ کرام سمیت پروردئہ نبوت اور جانشین رسالت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو شراب نوشی کا رسیا قرار دے دیا۔ کچھ حلقوں کی طرف سے جب ان کی اس لغزش پر گرفت ہوئی تو موصوف نے ایک اور وضاحتی بیان جاری کیا مگر تعجب ہے کہ اس میں بھی انہوں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو نشے کی حالت سے مستثناء نہیں کیا بلکہ مزید حوالوں سے اپنی لغزش پر اصرار کیا حالانکہ انہوں نے حدیث کی جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ ایک مطعون راوی کی وجہ سے ضعیف اور متروک ہے خصوصاً تفسیر قرآن کے باب میں اکابر ائمہ نے اس سے احتراز برتا ہے۔ اسی طرح ایک اور بھارتی نژاد معروف نوجوان دینی سکالر نے گذشتہ دنوں یزید کو اس کی ’’شاندار خدمات‘‘ پر ’’خراج تحسین‘‘ پیش کیا۔
یہ دونوں حضرات متعدد مرتبہ تحریراً اور تقریراً ایک مخصوص اور ناپسندیدہ اعتقادی روش کا اظہار کر چکے ہیں۔ ہم انہیں دیانتدارانہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہ دور ایسے اضافی متنازعہ امور کو چھیڑنے کا ہرگز متحمل نہیں۔ جس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اہل ایمان میں نہایت قابل احترام ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو خود شہر علم کا دروازہ قراردیا۔ آپ صسلسلہ ہائے ولایت و روحانیت کے امام اور پیشوا ہیں، اسی طرح یزید اکابر ائمہ سمیت جملہ اہل اسلام کے نزدیک بدترین کاموں کے سبب ملعون اور مغضوب ہے۔ متفقہ امور کو چھیڑنا نہ حکمت و تدبر کا تقاضا ہے اور نہ معاصر حالات اس کی اجازت دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے امام مسلم نے ایک روایت صحت کے ساتھ نقل کی ہے جو ان حضرات کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما انتَ بمحّدِتٍ قوماً حَديثًا لا تبلغُه عقولهم الا کان لبعضهم فتنة.
یعنی اگر تم لوگوں کے سامنے ایسی بات بیان کروگے جس کا مطلب ان کے ہاں معروف نہ ہوگا تو یہ چیز ان میں سے بعض لوگوں کے لیے فتنے کا سبب بن جائے گی۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں دعوت دین کے لیے کماحقہ حکمت، بصیرت، محبت اور خلوص کی نعمتوں سے بہرہ یاب فرمائے۔