نہیں حسن عمل مجھ میں خطاؤں کے سوا کیا ہے
عطائے رحمت عالم نہ ہو تو پھر عطا کیا ہے
جہاں میں رحمت للعالمینی کے سوا کیا ہے
نہ ہو ان سے وفا تو معنی حرفِ وفا کیا ہے
بڑی سب سے بڑی نعمت خدا کی آپ کی بعثت
نہ اس کو فضل مانا جائے تو فضلِ خدا کیا ہے
بلاوا ہو تو ہو جاتا ہے یاور خود مقدر بھی
مقدر میں کسے معلوم تیرے اے گدا کیا ہے
اگر ہوتے نہ وہ جانِ بہاراں صحنِ ہستی میں
’’یہ کلیاں پھول، غنچے رنگ و بو موجِ صباکیا ہے‘‘
کی خود خلاقِ عالم نے عطا وہ شانِ محبوبی
کہ خود محبوب سے پوچھے خدا تیری رضا کیا ہے
کہاں فردِ بشر کے بس میں ہے اندازہ کر پائے
کہ شان و عظمتِ فخرِ رسل کی انتہا کیا ہے
بس ان کا آسرا ہی دوجہاں میں کام آئے گا
جو ان سے کر دے بیگانہ ہمیں وہ آسرا کیا ہے
میسر ہو بقیعِ پاک میں مدفن مجھے نیّر
یہی اک آرزہ ہے دل میں اس کے ماسوا کیا ہے