سوال : صلوٰۃ التسبیح، صلوٰۃ اللیل، نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، نماز اوابین اور نوافل تحیۃ الوضو کے عنوانات کے تحت ادا کئے جانے والے نوافل کی شرعی حیثیت کیا ہے واضح فرمائیں؟
جواب : صلوٰۃ التسبیح
صلوٰۃ التسبیح ایک نفل نماز ہے، اس کی جماعت بالکل اسی طرح جائز ہے جیسے نماز تراویح کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نفل نماز کی جماعت ثابت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
قال قوموا فاصلی بکم قال فی غير وقت الصلوة قال فصلی بنا.
(سنن نسائی ج 1 ص 129)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی فرض نماز کا وقت نہ تھا۔ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی۔
صلوٰۃ التسبیح باجماعت ادا کی جاسکتی ہے چونکہ نفل نماز کا باجماعت ادا کرنا درست ہے اور صلوٰۃ التسبیح بھی نفل ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عتبان رضی اللہ عنہ، حضور علیہ السلام کو اپنے گھر لے گئے اور حضور علیہ السلام نے برکت کے لئے دو رکعت نماز نفل باجماعت ادا فرمائے۔ (بخاری ج اول ص 40)
شرح بخاری عمدۃ القاری میں علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وفيه صلوة النافله فی جماعة بالنهار.
’’اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ نفل نماز دن کو باجماعت ادا کرنا درست ہے‘‘۔
پس باجماعت صلوٰۃ التسبیح درست ہے۔ تسبیحات مکمل طور پر بلند آواز سے پڑھنا درست نہیں بلکہ عوام کی سہولت کے لئے صرف ایک دفعہ ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھے تو کافی ہے۔
فقہاء نے صلوٰۃ التسبیح کی جماعت کے لئے اعلان سے منع کیا ہے۔ مگر اس دور فتن میں کہ جب فسق و فجور چہار دانگ عالم سے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کو تیار ہے۔ صبح سے شام تک انسان جس معاشرہ میں دجل اور فریب کے درمیان رہتا ہے، گھر ہو یا دکان، کاروبار ہر جگہ عصیان کی دعوت عام ہے ایسے وقت میں تو اہل ایمان کو زیادہ سے زیادہ دعوت کی ضرورت ہے تاکہ نظام کفر و فسق کے بلاوے پر اہل ایمان کا بلاوا غالب آئے اور بندہ مومن نیک کاموں کی طرف راغب ہو کیونکہ سب سے اچھی دعوت اللہ کی طرف بلاوا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمََّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰهِ.
’’اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے‘‘۔ (حم السجدہ، 41 : 33)
سو فی زمانہ اعلان کرکے لوگوں کو صلٰوۃ التسبیح کی طرف بلانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔
صلاۃ اللیل
رات میں بعد از نماز عشاء جو نوافل پڑھے جائیں ان کو صلاۃ اللیل کہتے ہیں۔ رات کے نوافل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور کائنات نے ارشاد فرمایا کہ رمضان المبارک کے ماہ کے بعد روزے رکھنے کے لئے افضل ترین مہینہ محرم الحرام کا ہے اور فرض نمازوں کے بعد رات کی نماز سب سے زیادہ افضل ہے۔ اس میں رکعات کی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا۔ حسب منشاء پڑھی جاسکتی ہیں۔
نماز تہجد
صلوٰۃ اللیل کی ایک قسم نماز تہجد ہے۔ عشاء کے بعد سوکر اٹھنا اور نوافل پڑھنا تہجد کہلاتا ہے۔ اس نماز کی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا کہ
- ’’یہ نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے۔ نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اس کا ثواب ہے اور فرمایا تہجد کی نماز اپنے اوپر لازم کرلو۔ اس لئے کہ یہ نیکوں کی عادت ہے جو تم سے پہلے تھے اور یہ نماز اللہ تعالیٰ کے نزدیک کرنے والی ہے۔ گناہوں کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ گناہوں کو مٹاتی ہے اور مرض ہٹانے والی ہے‘‘۔
- حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ کو تمام روزوں سے حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ زیادہ پسند ہے، آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے اور اللہ تعالیٰ کو سب نمازوں میں سے زیادہ پسند جناب داؤد علیہ السلام کی نماز ہے۔ آپ آدھی رات کو آرام فرماتے بعد ازاں تہائی رات نماز پڑھتے پھر چھٹے حصے میں سوتے۔ (سنن نسائی جلد اول)
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر خود بھی نماز پڑھے اور اپنی زوجہ کو بھی جگائے اور وہ بھی نماز پڑھے اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی ڈال دے اور اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اپنے خاوند کو جگائے وہ بھی نماز پڑھے اور اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی چھڑک دے۔ (سنن ابن ماجہ)
جو شخص بھی نماز تہجد پڑھے گا اس کا چہرہ پرنور اور گفتگو میں تاثیر ہوگی اور یہ نماز نفس کشی میں اور تزکیہ نفس میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
تعداد رکعات : کم سے کم تہجد کی دو رکعتیں ہیں۔ آٹھ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں اور بارہ رکعتیں بھی ثابت ہیں۔
نماز اشراق
نماز اشراق سے مراد ایسی نماز ہے جو طلوع آفتاب کے بعد ادا کی جاتی ہے۔ جب سورج کچھ بلند ہوجائے اس وقت اس کو ادا کیا جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص فجر کی نماز پڑھ کر ذکر خدا میں مشغول رہا یہاں تک کہ آفتاب بلند ہوگیا تو دو رکعت نمازِ اشراق پڑھنے والا غافلوں میں نہیں لکھا جاتا اور چھ رکعتیں پڑھنے والے سے دن بھر کے تفکرات دور کردیئے جاتے ہیں اور جو آٹھ رکعت پڑھے وہ پرہیزگاروں میں لکھا جاتا ہے اور بارہ رکعتیں پڑھنے والے کا گھر جنت میں بنادیا جاتا ہے‘‘۔ (ترمذی شریف جلد اول)
نماز چاشت
اس نماز کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے چاشت کی دو رکعت پر مداومت کی اس کے گناہ چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف کردیئے جاتے ہیں۔
(سنن ابن ماجہ، چاشت کی نماز کا بیان)
ایک دوسری حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا کہ جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔ (ترمذی شریف جلد اول)
نماز چاشت کا وقت : اس کا وقت آفتاب بلند ہونے سے زوال تک رہتا ہے۔
تعداد رکعات : اس کی کم سے کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔
صلاۃ اوابین
اوابین سے مراد وہ نوافل ہیں جو نماز مغرب کے بعد ادا کئے جاتے ہیں۔ ارشاد فرمایا گیا :
’’جو کوئی مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھے اس کے سب گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔ (طبرانی)
جو شخص بیس رکعت پڑھتا ہے اس کے لئے اللہ پاک جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔ اوابین کے نوافل مغرب کی نماز کے علاوہ نوافل ہیں۔ مغرب کے نوافل اس میں شامل نہیں ہیں۔
تحیۃ الوضو
وضو کے بعد اعضاء خشک ہونے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا مستحب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے نماز فجر کے وقت پوچھا ’’بلال مجھے اپنا وہ عمل بتا جو تو نے اسلام میں کیا ہو اور جس کی قبولیت کی سب سے زیادہ امید ہو کیونکہ میں نے تیرے جوتوں کی آواز جنت میں اپنے آگے آگے سنی ہے۔ انہوں نے عرض کی : میرے نزدیک سب سے زیادہ مقبول عمل جس کی قبولیت کی مجھے امید کامل ہے کہ میں نے رات دن میں کسی بھی وقت جب وضو کیا تو اس کے بدلے جو نماز میری قسمت میں لکھی ہے وہ ضرور پڑھی ہے‘‘۔ (متفق علیہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو بلاکر فرمایا تو کس عمل کے ذریعے مجھ سے پہلے جنت میں پہنچ گیا؟ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تیری آہٹ کو اپنے آگے سنا۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے جب بھی اذان دی پھر دو نفل پڑھے اور جب بھی میرا وضو ٹوٹا میں نے تازہ وضو کرلیا اور اپنے اوپر اللہ کے لئے دو رکعات نفل ادا کرنا لازم کرلیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بس انہی دو کی وجہ سے (تونے یہ مقام پایا) (ترمذی)