ماہرین روحانیات کے نزدیک ہر حرف کا ایک خاص رنگ اور اس میں ایک خاص طاقت ہوتی ہے۔ غیب بینوں (Clair Voyants) نے حروف کو لکھ کر ’’تیسری آنکھ‘‘ سے دیکھا تو انہیں ’’الف‘‘ کا رنگ سرخ۔ ۔ ۔ ’’ب‘‘ کا نیلا۔ ۔ ۔ ’’د‘‘ کا سبز۔ ۔ ۔ اور ’’س‘‘ کا رنگ زرد نظر آیا۔ پھر ان کے اثرات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ الفاظ کی ترکیب و ترتیب اور بولنے والے کی شخصیت کے اعتبار سے الفاظ کی طاقت مختلف ہوا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک گناہ گار آدمی کی نسبت ایک نیک آدمی کے ادا کردہ کلمات زیادہ طاقت رکھتے ہیں جبکہ ایک عام نیک آدمی کی نسبت ولی اللہ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ زیادہ پرتاثیر ہوتے ہیں، اسی طرح انبیاء کے کلمات کی روحانی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے، جبکہ الہامی الفاظ جیسے قرآن پاک کے الفاظ انتہائی قوت و طاقت کا خزانہ (Highly Energised) ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الہامی الفاظ کی تکرار تمام روحانی وجسمانی بیماریوں سے شفایابی کا باعث ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اس حوالے سے روشنی عطا کی گئی۔ ارشاد فرمایا :
وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَO وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ.
(التوبه : 14 - 15)
’’اور ایمان والوں کو جی ٹھنڈا کرے گا اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا‘‘۔
٭ ایک اور مقام پر دلوں کی صحت کا راز قرآن کو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَO
(يونس : 57)
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لئے‘‘۔
٭ اسی حوالے سے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَارًاO
(بنی اسرائيل : 82)
’’اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں، وہ چیز جو ایمان والوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور اس سے ظالموں کا نقصان بڑھتا ہی ہے‘‘۔
٭ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ.
(حم السجده : 44)
’’تم فرماؤ وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے‘‘۔
حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک ارشاد بائبل میں یوں نقل کیا گیا ہے :
"My Words are life to them that find them health to all their flesh."
’’میرا کلام ماننے والوں کے لئے زندگی اور ان کے اجسام کے لئے صحت ہے‘‘۔
پادری لیڈ بیٹر اپنی کتاب ’’The Master & The Earth‘‘ کے صفحہ نمبر 136 پر لکھتے ہیں کہ :
"Each word as it is uttered makes a little form in etheric matter. The word "hate", for instance, produces a horrible form, so much so, that having seen its shape i never use the word. When i saw the form it gave me a feeling of acute discomfort."
’’ہر لفظ ایتھر میں ایک خاص شکل اختیار کرلیتا ہے، مثلاً ’’نفرت‘‘ اس قدر بھیانک صورت میں بدل جاتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے یہ صورت دیکھ لی اور اس کے بعد مجھے یہ الفاظ استعمال کرنے کی کبھی جرات نہیں ہوئی۔ اس منظر سے مجھے انتہائی ذہنی کوفت ہوئی‘‘۔
اسی کتاب میں درج دو اور واقعات بھی ہمیں الفاظ کے اندر موجود تاثیر کے حوالے سے آگاہ کرتے ہیں :
- ایک محفل میں چند احباب گفتگو میں مصروف تھے اور میں ذرا دور بیٹھ کر ان کے اجسام لطیفہ کا مشاہدہ کررہا تھا، ایک نے کسی بات پر زور دار قہقہہ لگایا، ساتھ ہی کوئی پھبتی کس دی، اچانک اس کے جسم لطیف پر گہرے نسواری رنگ کا جالا تن گیا جسے دیکھ کر انتہائی کراہت ہوئی۔
- میں نے ایک آدمی کے جسم لطیف پر بے شمار پھوڑے اور ناسور دیکھے، جن سے پیپ کے چشمے رواں تھے، میں اس شخص کو اپنے ہاں لے گیا، زبور کی چند آیات اسے پڑھنے کو دیں اور تقریباً دو ماہ کے بعد اس کا جسم لطیف بالکل صاف ہوگیا۔
ان تمام باتوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری تمام تر پریشانیاں، مشکلات اور امراض کا حل اللہ کو یاد کرنے اور کثرت سے اس کا ذکر کرنے میں ہے۔ اس لئے کہ اس کے ذکر، کلام اور نام میں برکت ہی برکت اور تاثیر ہی تاثیر ہے۔
مسائل و امراض کی وجہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان مسائل اور امراض میں کیونکر مبتلا ہوتے ہیں، تو قرآن پاک سے ہمیں جواب ملتا ہے کہ :
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ.
(الشوریٰ : 30)
’’تم پر مصائب تمہارے گناہوں کے سبب مسلط کئے جاتے ہیں‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌO
(الشوریٰ : 48)
’’اور انسان کو جب ہم اپنے فضل سے نوازتے ہیں تو وہ اس پر مغرور ہو جاتا ہے اور اگر اس کے اعمال کے بدلے میں اس پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو وہ ناشکری کرنے لگتا ہے‘‘۔
اس موضوع پر امریکن ڈاکٹر آر ڈبلیو ٹرائن R.N.Trine اپنی کتاب In Tune With The Infinit کے صفحہ 39 پر لکھتا ہے کہ :
"The mind is the natural protector of the body. Vice of all sorts produces leprosy & other diseases in the astral body, Soul which reproduces them in the physical body".
’’دماغ جسم کا فطری محافظ ہے، ہر قسم کا گناہ جسم لطیف میں برص اور دیگر امراض پیدا کرتا ہے اور پھر یہی امراض جسم خاکی میں منتقل ہوجاتے ہیں‘‘۔
معلوم ہوا کہ جس حقیقت کا انکشاف قرآن حکیم نے چودہ سو سال پہلے کردیا تھا، مغرب کے ماہرین روحانیات سالہا سال کی سائنسی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق کے بعد اب اس کی تصدیق و توثیق کرنے جارہے ہیں۔ ہم اگر اپنے عقائد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذیل میں دی گئی مغرب ان کی تحقیقات کے نچوڑ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم میں سے ہر مسلمان کے عقیدے میں کم و بیش یہ سب مبادیات کے طور پر شامل ہیں، مثلاً
جسم لطیف ایک سانچہ ہے جس میں جسم خاکی ڈھلتا ہے، اگر سانچہ ٹیڑھا یا بدنما ہو تو ڈھلی ہوئی چیز کا بدنما ہونا یقینی ہے۔ گناہ سے جسم لطیف بدنما اورطاعت و عبادت سے حسین و دلکش بن جاتا ہے۔ بدکاروں کے اجسام لطیفہ مرجھا جاتے ہیں اور ان کے چہروں پر خشکی، یبوست اور نحوست عیاں ہونے لگتی ہے، جبکہ ذکر الٰہی سے جہانِ مخفی کی طاقتیں خوش ہوتی ہیں کہ حسین و وجیہہ آدمی کی کون قدر نہیں کرتا، ذکر و تقویٰ سے وہ داخلی انسان جو اس جسم خاکی کے غلاف میں لپٹا ہوا ہے، جمیل و لطیف بن جاتا ہے۔ روحانی مخلوق (فرشتے) اس سے پیار کرنے لگتے ہیں کیونکہ ملائکہ بھی اجسام لطیفہ ہیں اور ان کا رشتہ ہمارے اجسام لطیف سے ہوتا ہے۔
قرآن پاک میں رب ذوالجلال فرماتا ہے کہ :
الَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَـئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَO
(الانعام : 82)
’’وہ اہل ایمان جو اپنے ایمان میں گناہ کو داخل نہیں ہونے دیتے، وہ امن و سکون اور ہدایت کی نعمت سے بہرہ ور ہوں گے‘‘۔
اسی طرح اگر جسم لطیف مسخ اور غلیظ ہوچکا ہو اس سے تعفن کی لپیٹیں اٹھ رہی ہوں تو اجسام لطیفہ ان کے قریب کیسے آئیں گے جبکہ اس کے برعکس نیک لوگوں کے بہت سے معاملات اسی روحانی مخلوق (فرشتوں) کی معاونت سے انجام پاتے ہیں مثلاً حوادث سے بچاتے ہیں، کامرانی و مسرت کی نئی نئی تجاویز ان کے دماغ میں ڈالتے ہیں۔ اسباب کی کڑیاں باہم ملاتے ہیں اور ہر دل میں ان کے لئے جذبہ و احترام پیدا کرتے ہیں۔
المختصر یہ سب وہی تعلیمات ہیں جن کی تبلیغ ہمارا مذہب ہمیشہ سے کررہا ہے کیونکہ ذکر الٰہی کی کثرت انسان پر وہ کیفیت طاری کردیتی ہے کہ جس کا رنگ ہی جداگانہ ہے۔ انسانی دماغ پر مختلف حالات و واقعات جن کیفیات کا باعث بنتے ہیں ذکر الٰہی کی کثرت ان سب سے عمیق اور دیرپا کیفیت کا باعث بنتی ہے۔ ذکر الٰہی بظاہر اسمائے الٰہی کی تکرار ہے لیکن در حقیقت یہ منبع نور و قوت کی طرف روح کا سفر ہے، یعنی یہ وہی سفر ہے جو روح میں بالیدگی اور وسعت پیدا کرتا ہے۔
یقین و ایمان کی حرارت پیدا ہوتی ہے اورکائنات کے جسم میں ایک روحِ عظیم رواں دواں نظر آنے لگتی ہے، اس کے بعد پہاڑوں کے بلند و پست سلسلوں اور ستاروں کی بکھری ہوئی محفل میں چشم وجدان ایک ایسا رشتہ وحدت دیکھ لیتی ہے جو زمان و مکان کی تمام تفریقات کو مٹادیتا ہے اور انسان کو نتیجتاً کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت نظر آتی ہے۔ یہ وہی صاحبان ذکر و فکر ہیں جو نالۂ نیم شب کے نیاز اور خلوت کے گداز سے آشنا ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں اللہ رب العزت قرآن میں فرماتا ہے :
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ.
(آل عمران : 191)
وہی صاحبان عقل و خرد ہیں جو اللہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر بھی کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق میں غورو فکر کرتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اَکْثِرُوْا ذِکْرَاللّٰهِ حَتّٰی يَقُوْلُوْا مَجْنُوْن.
’’اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگیں‘‘
(مسند احمد بن حنبل، 3 / 68، الرقم : 11671)
ان اہل ذکر کے لئے اس سے بڑھ کر سعادت کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ ذکر کی بدولت نہ صرف خود فیوض و برکات سمیٹتے ہیں بلکہ ان کے پاس آنے والا اگرچہ ذکر کے ارادے سے نہ بھی آئے پھر بھی محروم نہیں رہتا بلکہ ضرور فیض یاب ہوتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث پاک میں مذکور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے تمام ذاکرین کو ان کے احوال سننے کے بعد بخش دیتا ہے تو ایک فرشتہ کہتا ہے کہ یااللہ! ان میں ایک ایسا بھی تھا جو اللہ کے ذکر کے لئے نہیں آیا تھا، بلکہ کسی کام سے آیا تھا، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایسے ساتھی ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہ سکتا‘‘۔ (الجامع ترمذی، 5 : 579، رقم : 3600)
دراصل جب انسانِ حقیر، رب عظیم و کریم کے تصور میں کھو جاتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قطرہ قلزم آشنا ہوکہ بے کراں ہورہا ہے۔ اور ہر لمحہ ذکر قلب و روح میں وسعت و رفعت پیدا کررہا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس گداز کو پالیں کہ ابن آدم کا جمال حقیقی دراصل یہی ہے۔
اگر ہو ذوق تو فرصت میں پڑھ زبورِ عجم
فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں
(مضمون کی ابتدائی دو قسطیں اپریل، مئی 08 کے شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں)