مقاماتِ سلوک و تصوف (آخری حصہ)

میر سید علی ہمدانی

مؤلف : میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ
مترجم : علی محمد نور بخشی منہاجین

حضرت سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ (م786ھ) کی حیات و خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ خصوصاً کشمیر، ہزارہ، گلگت، بلتستان، لداخ، اسکردو، تبت اور شمال مشرقی مسلمان ریاستوں میں آپ کی دعوت و تبلیغ سے ہی اسلام آٹھویں صدی ہجری میں پھیل گیا تھا۔ آپ کو امیر کبیر اور سیدالسادات جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی سفیر اسلام کے طور پر گزاری اور جگہ جگہ اسلام کے نظام دعوت و تربیت کے عظیم الشان مراکز قائم فرماکر عہد صحابہ و تابعین کی یاد تازہ کردی۔ اقبال نے آپ کی انہی بے پایاں خدمات پر آپ کو ’’سالارِ عجم‘‘ اور ’’معمارِ تقدیر امم‘‘ جیسے خوبصورت ٹائٹل دیئے۔ سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ متبحر عالم، اعلیٰ پائے کے مصنف اور ثقہ ادیب بھی تھے۔ انہوں نے 70 سے زائد چھوٹی بڑی کتب لکھیں جن میں ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہے، اس کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ چھپ چکا ہے۔ آپ کی بہت سی کتب چھپ چکی ہیں اور بہت سی ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔ انہی غیر مطبوعہ عربی کتب میں سے ایک رسالہ ’’الطالقانیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جو آپ نے دوران سفر ختلان کے جنوب میں واقع قصبہ ’’طالقان‘‘ میں کسی سالک کی فرمائش پر تحریر فرمایا جس میں مقامات سلوک و تصوف کو نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اس مختصر مگر بنیادی نوعیت کی خصوصی تحریر کو ہمارے فاضل علامہ علی محمد نور بخشی منہاجین نے اردو میں ڈھالا ہے اور شاید پہلی مرتبہ ماہنامہ منہاج القرآن کو اشاعت کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ (مضمون کی ابتدائی دو قسطیں ماہ اپریل، مئی08 کے شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں) یہ کتابچہ بعد ازاں مکمل عربی عبارات اور حوالہ جات کے ساتھ زیورِ طبع سے آراستہ ہوجائے گا۔ (مدیر اعلیٰ)

22۔ بائیسواں مقام۔ ۔ ۔ ذکر

مقامات سلوک و تصوف میں سے بائیسواں مقام ’’ذکر‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

لان اجلس مع قوم يذکرون الله بعدالصلوة الصبح الی ان تطلع الشمس احب الی مما طلعت عليه الشمس.

(بيهقی السنن الکبریٰ 8 : 38)

’’میں ضرور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں جو صبح کی نماز کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں یہ لوگ مجھے اُن سے زیادہ محبوب ہیں جن جن پر سورج طلوع ہوتا ہے‘‘۔

٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مامن ذکر افضل من لااله الا الله.

’’کوئی بھی ذکر لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) سے بہتر نہیں ہے‘‘۔

٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اذا رايتم عبدی يکثر ذکری فانا اذنت له فی ذالک وانا احبه واذا رائيتم عبدی لايذکرنی فاحجبته عن ذالک وانا ابغضه.

(ديلمی الفردوس بما ثورالخطاب 10 : 84)

’’اے لوگوا جب تم میرے بندے کو دیکھو جو کثرت کے ساتھ میرا ذکر کرتا رہتا ہے تو میں اس کو اس کا اذن دیتا ہوں سو میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب تم میرے بندے کو دیکھو جو میرا ذکر نہیں کرتا تو میں اس سے پردہ کرتا ہوں اور میں اسے ناپسند کرتا ہوں‘‘۔

٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’اللہ کا ذکر اتنی کثرت کے ساتھ کیا کرو کہ منافق تمہیں ریاکار کہیں‘‘۔

(بیہقی شعب الایمان 1 : 397 رقم 527)

٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’میرے صحابیو! کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتادوں جو اللہ کے نزدیک سب سے بہتر، پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب سے بلند اور اللہ کی راہ میں سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ نیز وہ اللہ کی راہ میں تمہارا کفار کی گردنیں مارنے اور ان کا تمہاری گردنیں مارنے سے بھی بہتر ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو‘‘۔ (ترمذی السنن 5 : 459 رقم 3377)

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من احب ان يرتع فی رياض الجنة فليکثرو ذکرالله.

(حسينی البيان والتعريف 1 : 45)

’’جو جنت کے باغیچوں میں سے خوب کھانا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرے‘‘۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا :

ای لاعمال افضل فقال ان تموت ولسانک رطب فی ذکرالله.

(هيثمی مجمع الزوائد 10 : 75)

’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والا عمل کونسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تجھے موت آئے تو تیری زباں اللہ کے ذکر سے تر ہو‘‘۔

٭ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اکثرالناس ايمانا يوم القيامة اکثرهم ذکرا فی الدنيا.

’’قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ ایمان والا وہ ہوگا جو دنیا میں سب سے زیادہ ذکر کرنے والا ہوگا‘‘۔

٭ حضرت داؤد علیہ السلام کا فرمان ہے :

’’اے میرے معبود جب تو مجھے ذاکرین کی مجلس سے غافل لوگوں کی مجلس کی طرف جاتے ہوئے دیکھے تو میری ٹانگ توڑ دے کیونکہ وہ ذاکرین کی مجلس نعمت دینے والے اللہ کی ایک نعمت ہے‘‘۔

٭ رسالہ قشیریہ میں احمد نوری رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہے کہ حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

لکل شئی عقوبه وعقوبه العارف عن ذکر الله.

’’ہر چیز کے لئے ایک سزا ہوتی ہے اور عارف کی سزا اللہ کے ذکر سے دوری ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوبکر الجرجانی کا فرمان ہے :

الذکر منشور الولاية فمن وفق للذکر فقد اعطی منشور الولاية ومن سلب منه الذکر فقد عزل.

(الرسالة قشيريه)

’’ذکر ولایت کا دستور ہے جس کسی کو ذکر کی توفیق ہوئی تو یقیناً اسے ولایت کامنشور مل گیا اور جس سے ذکر کی توفیق سلب ہو تو وہ ولایت سے معزول ہوا‘‘۔

٭ حضرت ذوالنون کا ارشاد ہے :

من ذکرالله ذکرا علی الحقيقه نسی فی جنب ذکره کل شئی وحفظ الله عليه کل شئی وکان له عوضا من کل شئی.

’’جو حقیقی معنوں میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کے ذکر کے بعد وہ ہر چیز بھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے اس کی حفاظت کرتاہے اور اس کے لئے ہر چیز سے عوض مقرر ہے‘‘۔

23۔ تئیسواں مقام۔ ۔ ۔ توحید

مقامات سلوک و تصوف میں سے تیسواں مقام ’’توحید‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اتانی جبرئيل وبشرنی ان من مات من امتک لايشرک بالله شئيا دخل الجنة.

’’میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور مجھے اس بات کی خوشخبری دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں جس کسی کو اس حالت میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہے‘‘۔

٭ حضرت سخی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :

ان للتوحيد نورا وان لشرک نارا وان نورالتوحيد احرق لسيات المقربين و النار الشرک حسنات المشرکين.

’’یقینا توحید کا ایک نور ہوتا ہے اور شرک کے لئے نار یعنی آگ مخصوص ہے اور بے شک توحید کا نورمقربین کے گناہوں کو بھسم کردیتا ہے اور شرک کی آگ مشرکین کی نیکیوں کو جلادیتی ہے‘‘۔

٭ حضرت محمد بن رویم رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

التوحيد محو اثار البشرية وتجرد الالهيه.

’’انسانی آثار کو ختم کرکے اخلاق الٰہی سے مزین ہونا توحید ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

التوحيد نسيان ماسوی التوحيد.

’’توحید کے سوا ہر چیز کو بھول جانا توحید ہے‘‘۔

٭ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک آدمی سے پوچھا :

هل تدری لم تصح توحيدک قال لا قال لانه تطلبه بک.

’’کیا آپ جانتے ہیں آپ کی توحید کب صحیح ہوگی؟ اس نے عرض کیا نہیں آپ نے ارشاد فرمایا کیونکہ وہ اس کا تم سے تقاضا کرتا ہے‘‘۔

٭ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :

’’وہ توحید جو صوفیہ کا طرہ امتیاز ہے وہ یہ ہے کہ تمام فنا ہونے والی چیزوں کو چھوڑ کر بقا والی ذات سے وابستہ ہونا، نفس کے وطن سے نکلنا یعنی رزائل اخلاق کو چھوڑ کر تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے ذریعے مکارم اخلاق اختیار کرنا، نفس کی محبوب چیزوں سے منقطع ہونا اور معلوم و مجہول چیز کا ترک کردینا اور حق تعالیٰ کو ان تمام کی جگہ دینا‘‘۔ (الرسالہ القشیریہ ص 300)

24۔ چوبیسواں مقام۔ ۔ ۔ معرفت

مقامات سلوک و تصوف میں سے چوبیسواں مقام ’’معرفت‘‘ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان رعامة البيت اساسة ودعامة الدين المعرفة بالله.

’’گھر کا تمام دارومدار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے اور دین کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے‘‘۔

٭ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا :

مااری ان ادخل الجنة ولم اکن عرفت الله فی الدنيا.

’’میرا نہیں خیال کہ میں جنت میں اس حالت میں داخل ہوں گا کہ میں نے دنیا میں اللہ کو نہ پہچانا‘‘۔

٭ حضرت ابوسلیمان نے فرمایا :

يفتح الله المعارف للفقير علی فراشه مالا يفتح لغيره وهو قائم يصلی.

(رساله قشيريه 316)

’’اللہ فقیر کے لئے معارف (کا دروازہ) اس کے بستر پر کھول دیتا ہے جو اس کے غیر پر نہیں کھولتا (اگرچہ) وہ نماز کی حالت میں قیام کرے‘‘۔

٭ حضرت نصربن احمد کا فرمان ہے :

المعرفت طلوع الانوار من مشاهدات الاسرار.

’’اسرار الٰہی کے مشاہدے کی وجہ سے بندہ مومن کے دل میں انوار کا طلوع ہونا معرفت ہے‘‘۔

٭ حضرت حسین بن منصور فرماتے ہیں :

علامة العارف ان يکون عارفا فی الدنيا والاخرة.

’’عارف کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں معرفت کا حامل ہوتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوالحسن نوری فرماتے ہیں :

العارف مادام فی الدنيا يکون الفقر والفخر اذا نظر الی الله افتخر واذا نظر الی نفسه افتقر. فبالله فخره وبنفسه فقره.

’’عارف جب تک دنیا میں رہے وہ فقر اور فخر کے درمیان ہوتا ہے جب وہ اللہ کے فضل و رحمت کی طرف دیکھتا ہے تو وہ فخر کرتا ہے۔ جب وہ اپنے آپ کی طرف دیکھتا ہے تو خود کو حاجت مند پاتا ہے‘‘۔

اس کا فخر اللہ کی نسبت سے ہے اور اس کا فقر اپنی طرف نسبت سے ہے۔

25۔ پچیسواں مقام۔ ۔ ۔ محبت

مقامات سلوک و تصوف میں سے پچیسواں مقام ’’محبت‘‘ ہے۔ آثار میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی۔

’’بے شک جب میرے بندے کا دل مجھ پر خوش ہو اور میں اس میں دنیا و آخرت کی محبت نہ پاؤں تو اس کا دل زندگی سے بھر دیتا ہوں‘‘۔

٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

مثقال ذرة من الحب احب الی من عبادة سبعين سنة بلاحب.

’’محبت کا ایک ذرہ مجھے ستر سال محبت کے بغیر عبادت سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔

٭ حضرت الذنون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ذهب المحبون الله شرفه الدنيا والاخرة لان النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال المرء مع من احب فهم مع الله.

’’اللہ سے محبت کرنے والے ہی اللہ کے پاس دنیا و آخرت کے شرف کے ساتھ گئے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آدمی اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے سو وہ اللہ کے ساتھ ہیں‘‘۔

٭ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

سمی المحبة محبة لانها تمحومن القلب ماسوی الله.

(القشيريه 321)

’’محبت کا نام محبت اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ وہ انسان کے دل سے اللہ کے سوا ہر چیز کو مٹادیتا ہے‘‘۔

٭ حضرت جنید بغدادی سے محب کے اوصاف کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

’’محب لوگوں سے میل جول کم رکھتا ہے ہمیشہ غورو فکر کرتاہے۔ زیادہ خلوت نشین رہتا ہے۔ ظاہراً خاموش رہتا ہے۔ جب کسی نامحرم پر نظر پڑتی ہے تو اصرار نہیں کرتا ہے۔ جب پڑھا جائے تو وہ نہیں سنتے، جب بات کی جائے تو نہیں سمجھتے۔ جب اسے کوئی مصیبت آتی ہے تو غمگین نہیں ہوتا۔ دوسرے کی تکلیف پر وہ خوش نہیں ہوتا۔ نہ وہ چاہتے ہیں اور نہ وہ متوجہ ہوتے ہیں اور نہ اسے شعور ہوتا ہے۔ بیمار ہوتا ہے تو محسوس نہیں کرتا۔ وہ اپنی خلوت میں اللہ کو دیکھتا ہے، اس سے محبت کرتاہے، اسے کھل کر اور چھپ چھپ کر مناجات کرتا ہے۔ وہ دنیا والوں سے ان کے دنیوی معاملات میں جھگڑتا نہیں ہے۔ وہ امید کی محرومی سے ڈرتا رہتاہے اور مطلوب کے گم ہونے سے خوف کھاتا ہے۔ اس کی عقل اللہ قدرت کا مطالعہ کرکے متحیر ہوتی ہے۔ وہ کسی مرض کے بغیر پگھلتا ہے اور درد کے بغیر ٹوٹتا ہے۔ وہ کم سوتا ہے، کم کھاتا ہے اور غمگین رہتاہے۔ لوگوں کی الگ حالت ہوتی ہے، اس کی اپنی ایک شان ہے جب وہ خلوت میں ہوتا ہے تو اللہ سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے اور جب تنہا ہوتا ہے تو روتا ہے۔ سو ٹوٹ کر محبت کر نا اس کا مشغلہ اور رونا اس کا اثر ہے۔ اس کے لئے شراب محبت کے ایسے پیالے پینے کے لئے ہیں جس کی وجہ سے وہ تمام بندوں سے وحشت محسوس کرتا ہے‘‘۔

26۔ چھبیسواں مقام۔ ۔ ۔ شوق

مقامات سلوک و تصوف میں سے چھبیسواں مقام ’’شوق‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دعا میں فرماتے تھے :

اللهم انی اسئلک شوقا الی لقائک والنظر الی وجهک الکريم.

’’اے میرے معبود میں تجھ سے تیری ملاقات کے شوق کا اور تیرے عظمت والے چہرے کے دیدار کا سوال کرتا ہوں‘‘۔

٭ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

من اشتاق الی لقاء الله اشتاق اليه کل شئی.

’’جو اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے تو ہر چیز اس سے ملاقات کا شوق رکھتی ہے‘‘۔

٭ حضرت ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

الشوق نارالله اشتعلها فی قلوب اوليائه وتحرق مافی قلوبهم من الخواطر.

’’شوق، اللہ کی وہ آگ ہے جو اس کے اولیاء کے دلوں میں بھڑک اٹھتی ہے اور تمام شیطانی وسوسوں کو جلادیتی ہے‘‘۔

٭ آثار میں آیا ہے اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی :

’’اے داؤد علیہ الاسلام اگر میری یاد اور محبت سے پیٹھ پھیرنے والوں کو معلوم ہوتا کہ میں ان کا کیسے انتظار کرتا ہوں اور میرا کتنا شوق ہے کہ وہ نافرمانیاں چھوڑ دیں تو وہ میری طرف شوق کے غلبے سے مرجائیں اور میری محبت کی وجہ سے اپنے قرابت داروں کو چھوڑ جائیں اے داؤد یہ تو پیٹھ پھیرنے والوں کے لئے میرا انتظار ہے، تو میری طرف دوڑنے والوں کے لئے میرے انتظار کا عالم کیا ہوگا؟‘‘۔ (قشیرہ ص332)

٭ حضرت الفارسی فرماتے ہیں :

قلوب المشتاقين منور بنورالله تعالیٰ فاذا تحرکت اشتياقا اضاء النور بين المشرق والمغرب.

(رساله قشيريه بين الماء والارض ص 331)

’’اللہ کے دیدار کا شوق رکھنے والوں کے دل اللہ کے نور سے ایسے روشن ہیں کہ جب وہ مشتاق ہوکر حرکت کرنے لگے تو وہ نور مشرق اور مغرب کے درمیان تمام موجودات کو روشن کرتا ہے‘‘۔

٭ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ شوق کی شدت میں بارگاہ الٰہی میں یوں مناجات کرتے :

’’اے میرے معبود اگر تجھ سے محبت کرنے والے کسی ایک بندے کو تو نے نعمت دی ہے جو اس کے تیرے فراق میں بے چین دل کو سکون دے تو وہ مجھے بھی دے کیونکہ جدائی نے مجھے بہت تکلیف دی ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم فرماتے ہیں۔ میں نے خواب میں دیکھا مجھے سامنے بٹھا دیا گیا ہے اور کہا اے ابراہیم کیا تم مجھ سے حیاء نہیں کرتے؟ تو مجھ سے وہ چیز مانگ رہا ہے جو تیرے دل کو سکون دے کیا کسی دوست سے ملاقات کا شوق رکھنے والے کو اپنے دوست سے ملاقات سے پہلے چین ملتا ہے؟ پس میں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا اے میرے پروردگار میں دم بخود ہوں مجھے ادراک نہ تھا، تومجھے بخش دے، مجھے سکھا دے کہ میں کیا کہوں۔ اللہ نے فرمایا تو کہہ اے میرے معبود تو مجھے اپنے فیصلے پر خوش رکھ، تیری طرف سے ملنے والی آزمائش پر مجھے صبر کی توفیق دے اور اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق دے‘‘۔

اختتامیہ

’’یہ محبت اور عرفان کے اچھے اچھے اقوال، احوال مروت اور یقین والوں کے درجات پر مشتمل وہ اشارے ہیں جو طالقان کے رہنے والے ان احباب کے لئے ہیں جو ان احوال و مقامات کے طلبگار اور رغبت رکھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمانے کے حوادث سے بچائے اور میں انہیں طاعات و عبادات کو اپنے اوپر لازم کرنے، احکام شریعت محمدیہ کی مخالفت سے اجتناب کرنے، نفسانی شہوات اور پسندیدہ چیزوں سے منقطع ہونے، اپنے دستیاب اوقات کو مختلف قسم کی عبادات میں تقسیم کرنے، تکلیف اور سختی پر صبر کرنے، مباح اور جائز چیزوں سے متعلق تعلق کی ڈوری کو روکنے، شبہات والی جگہ پر جانے سے رکنے، عبادت و بندگی میں استقامت اختیار کرنے، رب العالمین کے فضل و کرم کے دروازے پر ہمیشہ دستک دینے، خدمت کی بساط پر محنت کے قدم کو جمائے رکھنے، اپنی بندگی کی طرف کمی کی نظر سے دیکھنے، آرام طلبی چھوڑنے، شوق کے ظہور کے بدلنے، حسبی تعلقات کو توڑنے اور نفسانی خواہشات کی نفی، مخلوق کے سامنے موجود چیزوں سے ناامید ہونے، بشری صفات سے تزکیہ نفس کرنے، بہیمی اوصاف کی ظلمتوں سے تصفیہ قلب کرنے، ملکوتی انوار سے روح کو روشن کرنے، اخلاق الٰہی کے رنگ میں رنگنے، باطن کے برابر اخلاص کی ترقی کرنے، اللہ کی رضا کے لئے دوسروں کو نصیحت کرنے، اللہ کی رضا کے لئے لوگوں سے محبت کرنے، اللہ ہی کی رضا کے لئے بغض رکھنے، احکام الٰہی کی تعظیم کرنے، مخلوق پر شفقت اورمہربانی کرنے، اللہ کی تقدیر یقین کرنے، خود کو امر الٰہی کے سپرد کرنے، اپنے تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کرنے، اللہ پر حسن توکل کرنے، اللہ کے فیصلے پر خوش ہونے، سچائی اختیار کرنے، اپنے دل کو جاہ و منصب اور مال و دولت کی محبت سے پاک کرنے، دنیا کی طرف کمی اور فنا ہونے کی نظر سے دیکھنے اور حال میں دستیاب نعمت پر قناعت کرنے کی وصیت کرتاہوں۔

پس میری وصیت ان لوگوں کے لئے ہے جو نجات کے راستے پر چلنے کے خواہش مند ہیں۔ صبح وشام اللہ کے ذکر کے لئے اپنا دل فارغ رکھتا ہے اور سرمدی سعادت کے حصول کے لئے بھی اپنے دل کو فارغ رکھتا ہے اور آخرت کی نعمتوں کے حصول کے لئے محنت کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ حق فرماتا ہے اور سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے‘‘۔

(تمت بالخیر)