درِ حضور کی شامِ بہار دے سورج
ہوائے زر کو زرِ انکسار دے سورج
طلوع ہوتا ہے آقا کی چوم کر چوکھٹ
تمام عمر ادب سے گذار دے سورج
یقیں دلائے مدینے کی صبحِ روشن کا
ہزار بار شبِ انتظار دے سورج
بیاضِ نعت کے ریشم گلے میں ڈالوں گا
کروڑہا مجھے کرنوں کے ہار دے سورج
میں اس برس بھی لکھوں نعتِ مرسلِ آخر
ورق ورق پہ ادب کے اتار دے سورج
مرے خدا، بڑی ہی مختصر طلب ہے مری
مرے قلم کو سخن کے ہزار دے سورج
مرے خدا، مجھے لکھنا ہے نعت کا مطلع
لُغت کا اور بھی چہرہ نکھار دے سورج
یہ میرے آئینہ خانے کے عکس کہتے ہیں
غبارِ شہر نبی بار بار دے سورج
شعاعِ زرد کے سکّے تمام کھوٹے ہیں
شعاعِ سبز کو بھی اقتدار دے سورج
ضمیر جن کا ہے روشن غبارِ طیبہ سے
مرے قلم کو وہ، پروردگار، دے سورج
عَلَم درود کا لے کر جو نکلی ہیں کلیاں
ہر ایک کو سندِ افتخار دے سورج
طفیلِ سیدِ سادات ہر زمانے کو
شعورِ ندرتِ مدحت نگار دے سورج
ریاض تشنہ لبی کا یہی مداوا ہے
حروفِ نعت کا اک آبشار دے سورج