کسی بھی تحریک سے وابستہ کارکنوں میں باہمی محبت کا وجود انتہائی ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ اسی میں قوت کا راز مضمر ہے۔ دنیا کے کامیاب ترین لوگ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ.
(الفتح، 48 : 29)
’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔‘‘
یہ اصحاب رسول علیہ السلام آپس میں تو الفت و محبت اور رحمت و شفقت کا پیکر نظر آتے ہیں لیکن کفار کے معاملہ میں شدید غیظ و غضب کے حامل ہیں۔
غیر سے نفرت، آپس میں محبت کا طبعی نتیجہ ہوتا ہے۔ سورہ صف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌO
(الصف، 61 : 4)
’’بے شک اللہ محبت رکھتا ہے انہیں جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں صف در صف گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’بُنيَانٌ مَّرْصُوص‘‘ اسی باہمی محبت و یگانگت نے بنایا تھا۔ سگے بھائیوں کو آپس میں ایک نوع کی طبعی محبت ہوتی ہے لہذا مسلمانوں کے بارے میں ارشاد فرمایا :
کل مسلم اخوة.
تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
گویا ایک دوسرے کے ساتھ سگے بھائیوں جیسی محبت ہونی چاہئے تاکہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کریں، کوئی مسلمان اپنے آپ کو بے سہارا اور تنہا محسوس نہ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے بھی پسند کرو‘‘۔
گویا اتنا قریبی تعلق ہوجائے کہ پسند و ناپسند بھی ایک جیسی ہوجائے۔
ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیتے ہوئے فرمایا :
تَرَی الْمُوْمِنِيْنَ فِی تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَا شْتَکٰی عُضْوٌ مِنْهُ تَدَاعٰی لَه سَائِرِ جَسَدِهِ بِالسَّهْرِ وَالْحُمٰی.
’’تم مومنین کو آپس میں رحمدلی میں اور باہمی محبت میں، آپس کی شفقت میں ایک جسم کی مانند دیکھو گے کہ جب جسم کا ایک عضو بھی دکھی ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور بیداری کے ساتھ تکلیف محسوس کرتا ہے بقول شاعر
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
مدینہ منورہ پہنچتے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواخات مدینہ کے ذریعے ایک ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ مواخات کے اس اقدام سے جہاں معاشی اور معاشرتی نوعیت کے فوائد مرتب ہوئے وہاں ایک بہت بڑا نفسیاتی فائدہ یہ بھی ہوا کہ مکانی بُعد کے باعث اجنبیت اور غربت کی کھڑی دیواریں فوری طور منہدم ہوگئیں اور سارا مدینہ مسلمان فیملی کا گھر بن گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بخش دیتا ہے جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں مگر ان کی محبت ہر غرض سے پاک ہوتی ہے، ان کی محبت فقط اللہ کے لئے ہوتی ہے‘‘۔
اس حدیث پاک میں اللہ کی راہ میں کام کرنے والوں کی باہمی محبت کے بارے میں بہت بڑی خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام تحریکی ساتھیوں کو اس خوشخبری کا مصداق بنائے۔ اسی باہمی محبت کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَO
(آل عمران، 3 : 103)
’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ‘‘۔
معلوم ہوا کہ کامیابی کا راز باہمی محبت میں ہے، محبت جس قدر گہری ہوگی اللہ کی رحمتوں کا نزول بھی اسی قدر زیادہ ہوتا جائے گا۔ اس کے برعکس صورت حال تباہی ہی تباہی ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قبل از اسلام دشمنیاں عروج پر تھیں اور تم تباہی کی طرف جارہے تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور تمہارے دلوں میں محبت پیدا فرما دی اور تم دشمنیوں کو مٹا کر بھائی بھائی بن گئے اور عرب و عجم پر تمہاری شہرت و ناموری کے ڈنکے بجنے لگے۔ پس محبت تقاضائے ایمان ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ.
(البقرہ، 2 : 165)
’’جو لوگ اللہ پر ایمان لے آئے وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں‘‘۔
اسی طرح محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کامل قرار دیا حدیث پاک میں ارشاد ہوا :
لا يومن احدکم حتی اکون احب اليه من والده وولده والناس اجمعين.
’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔
ایک دفعہ فرمایا کہ ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور محبت کا طریقہ یہ ہے کہ کثرت سے سلام کیا کرو‘‘
گویا اللہ سے محبت، اللہ کے رسول سے محبت اور اللہ کی مخلوق سے محبت ایک ہی محبت کے مختلف روپ ہیں اور سب مطلوب ہیں۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ان لوگوں کے نام لکھ رہا ہے جو اللہ کو محبوب ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا اس فہرست میں میرا نام ہے؟ تو فرشتے نے بتایا کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرا نام ان لوگوں کی فہرست میں لکھ لو جو اللہ کی مخلوق سے پیار کرتے ہیں۔ دوسری رات دوبارہ وہی منظر خواب میں دیکھا، فرشتے نے ان کو بتایا کہ آج ان کا نام اللہ کے محبوب بندوں کی فہرست میں سرفہرست ہے۔
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کو اپنے بندوں سے پیار اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ایک ماں کو اپنی اولاد سے ہوتا ہے، اس طرح اللہ کے محبوب بندوں سے جو محبت کرتا ہے اللہ اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
(آل عمران، 3 : 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
اللہ کے محبوب بندوں کی محبت درجہ مقربیت میں داخل کردیتی ہے۔ یہاں تک کہ صرف اللہ کے محبوب بندوں کی سنگت اور نسبت اختیار کرلینے سے بھی مقام قرب الٰہی نصیب ہوجاتا ہے مثلاً اصحاب کہف کا کتا ان کی محبت میں ان کے پیچھے پیچھے آیا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر اپنی مقدس کتاب میں ایک بار نہیں بلکہ بار بار کرتاہے فرمایا :
وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ.
(الکهف، 18 : 18)
’’اور ان کا کتا اپنے ہاتھ پھیلائے بیٹھا رہا‘‘۔
اگر اس محبت و عقیدت کا مظاہرہ انسان کرے تو اس کے مرتبہ و مقام کا اندازہ کیا ہوسکتا ہے۔
عمل کی قوتِ محرکہ. ۔ محبت
باہمی محبت اسلئے بھی ضروری ہے کہ محبت میں بات ماننا آسان ہوجاتا ہے ورنہ کون کسی کی پرواہ کرتا ہے۔ عمل کی قوت محرکہ میں تین باتیں کار فرما ہوتی ہیں۔
- جزا کا لالچ
- سزا کا خوف
- جذبہ محبت کی تسکین
جذبہ محبت اگر عمل کی قوت محرکہ بن جائے تو عمل میں حسن پیدا ہوجاتا ہے اور یک گو نہ لذت بھی محسوس ہوتی ہے پھر مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے، بوجھ محسوس نہیں ہوتا، احکامات کی بجا آوری خوش دلی سے ہوتی ہے، باہمی لحاظ کو فروغ ملتا ہے، محبت کے باعث محبوب کی پسند اور ناپسند کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے اس کی نسبت سے کئی اور چیزیں بھی اچھی لگتی ہیں۔
ہائے وہ شخص کہ جس شخص کی نسبت سے مجھے
ایسے ویسے بھی کئی لوگ ہیں پیارے لگتے
اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک پتھر پر کھڑے ہوکر کعبہ تعمیر کرنے کی ادا پسند آگئی تو لوگوں کو حکم دے دیا کہ میرے محبوب بندے ابراہیم کے تلوے لگنے والی جگہ کو اپنی جائے نماز بنالو۔ ارشاد فرمایا :
وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى.
(البقره، 2 : 125)
’’اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالو‘‘۔
حضرت ہاجرہ اللہ کی محبوب بندی کی حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے لئے پانی کی تلاش میں دوڑنے کی ادا اللہ تعالیٰ کو پسند آگئی تو صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے طواف کو حج میں فرض قرار دے دیا۔ فرمایا :
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ.
(البقره، 2 : 158)
’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کی شعائر دینی میں سے ہیں‘‘۔
تو ذرا سوچئے ہمیں مدینہ شہر دل و جان سے عزیز تر کیوں ہے؟ کیا اس کے سوا اور کوئی وجہ ہوسکتی ہے کہ اس جگہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک لگے ہیں؟ معلوم ہوا محبت کی مختلف نسبتیں اور حوالے دلوں کو جوڑنے کا کام دیتے ہیں۔ ذروں کا اتصال اور ستاروں کا انجذاب بھی اسی محبت کے باعث ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ مصطفوی انقلاب کے سپاہیوں میں دلی محبت کا جذبہ مفقود ہو اور وہ اپنی منزل کو بھی پالیں۔ پس ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوکر عملی محبت کے مظاہرے سامنے لانے ہوں گے تاکہ ایک ساتھی دوسرے کا سہارا بنے، اس طرح ایک بہت بڑی قوت تیار ہو جو انقلاب کا ہراول دستہ بنے۔ غفلت، سستی اور لاپرواہی کا طرز عمل مایوسیوں کو جنم دیتا ہے لہذا اپنائیت کا ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ حدیث قدسی ہے :
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِيًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرِفَ.
’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ مجھے کوئی پہچانے‘‘۔
اسی لئے مخلوق معرض وجود میں آئی اور اس کی تخلیق کا حسین شاہکار انسان ہے۔ خود قرآن اس پر ناطق ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍO
(التين، 95 : 4)
’’بے شک ہم نے انسان کو اچھی صورت میں پیدا فرمایا ہے‘‘۔
محبت کسی خوبی یا حسن و جمال کے باعث ہوتی ہے۔ اللہ جمیل ویحب الجمال اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ اس نے سیدالانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کو پیکر جمال بناکر بھیجا اور ایسا محبوب بنایا کہ وہ مرجع عقیدت و محبت بن گئے، ان کی چاہت نے عرب کے باہم متصادم اور متحارب گروپوں کو رشتہ اخوت و محبت میں باندھ دیا۔
لفظ انسان پر غور کریں تو یہ ’’انس‘‘ سے ماخوذ ہے یا ’’نسیان‘‘ سے۔ بظاہر مفہوم متضاد نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی تضاد نہیں۔ انس اور محبت جب عالم شباب پر ہوتے ہیں تو پھر محبوب کے سوا ہر چیز بھول جاتی ہے گویا محبت انسان کے خمیر میں داخل ہے، نفرت اور عداوت خارجی چیزیں ہیں۔ محبت کے دو رخ ہیں، ایک یہ کہ جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے دوسرا یہ کہ جس ماحول میں اسے رکھ دیا گیا ہے۔ اگر یہ محبتیں اللہ کی محبت سے متصادم ہونے کے بجائے اس کی اطاعت کے اندر آجائیں تو پھر زندگی میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔
شہد کی مکھیوں میں باہمی تعاون نقطہ عروج پر ہوتا ہے جس کی بدولت تقسیم کار کے باوجود ہمیں باہمی ربط اور نظم و ضبط کی عمدہ مثال ملتی ہے بلکہ کارکنان کے مکھیوں کی طرح اس ربط کا نتیجہ شہد کی صورت میں نکلتا ہے۔
چیونٹیوں کی مثال کو لیجئے وہ آپس میں مل کر اپنے سے کئی گنا وزن اٹھا کر لے جاتی ہیں اور سٹاک کر لیتی ہیں، چلتے ہوئے دیکھیں تو قطار بنالیتی ہیں۔
ایٹم سے مالیکیول، مالیکیول سے کمپاؤنڈ اور پھر مختلف شکلیں سب ایٹموں کے اتصال کا نتیجہ ہیں۔
پانی کی ترکیب پر غور کریں ہائیڈروجن اور آکسیجن دو مختلف خصائص رکھنے والی گیسوں کا مجموعہ ہے، ایک جلتی ہے دوسری جلنے میں مدد دیتی ہے لیکن ان کے اتصال کے نتیجے میں پانی معرض وجود میں آتا ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے۔
جسم کے مختلف اعضاء ہوتے ہیں ہر ایک کا الگ الگ کام اور شکل ہوتی ہے لیکن باہمی تعاون اور توازن سے انسانی تشخص ابھرتا ہے۔
درخت کے مختلف حصے اگر ایک دوسرے کے لئے کام کرنا چھوڑ دیں تو چند دن کے اندر درخت سوکھ کر گر جاتا ہے۔ جڑیں پانی مہیا کرتی ہیں، تنا سہارا بنتا ہے، پتے خوراک بناتے ہیں تب پھول اور پھل آتے ہیں، جن سے دہن کے سارے چٹخارے وابستہ ہیں۔
جماعت اور کارکنوں کی مثال ایک دیوار کی طرح ہوتی ہے اینٹیں اگر پکی ہوں اور ایک خاص ترتیب مصالحے سے لگی ہوں تو دیواریں مضبوط ہوتی ہیں جو سردی اور گرمی سے بچاتی ہیں ورنہ اینٹوں کا ڈھیر کس کام کا۔ بعینہ کارکنوں کی باہمی محبت سیمنٹ کا کام کرتی ہے جس سے جماعت میں قوت آتی ہے۔
نظام شمسی کے سیارے باہمی جذب کے باعث سورج کے گرد چکر لگارہے ہیں یہی حال کائنات کے دیگر ستاروں کا ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
کائنات کی ابتداء بھی محبت سے ہوئی اور اس کی بقا کا راز بھی محبت میں ہے پھر اس کے دائرے تنگ ہوتے جاتے ہیں۔ جو جتنا قریبی ہے اس سے محبت بھی اسی قدر زیادہ ہوگی، ایک ہی طرح کی سوچ رکھنے والوں کے لئے بُعد مکانی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔
پہلی وحی :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO
(العلق، 96 : 1، 2)
’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا‘‘۔
درج بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف ربوبیت کے حوالے سے کرایا اور ربوبیت کو خلاقیت سے ظاہر کرکے انسان کو اس کا حسین مظہر بنادیا۔ یہاں لفظ ’’علق‘‘ غور طلب ہے۔ عام طور پر اس کا ترجمہ جما خون کردیا جاتا ہے جو کہ اس کا مجازی معنی ہے اصل میں علق کا مطلب ہے تعلق ہونا، علاقہ وابستگی، محبت وغیرہ۔ جما ہوا خون دراصل نتیجہ ہے ماں اور باپ کے تعلقِ محبت کا۔
معلوم ہوا انسان کا خمیر محبت سے بنایا گیا نفرت و عداوت خارجی عوارض ہیں۔ انسان کی حقیقت محبت ہے حدیث مذکور کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف کے حوالے سے ظہور باری تعالیٰ کے پس پردہ بھی جذبہ محبت، کارفرما تھا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے شدید محبت کا تقاضا کیا، تخلیق انسانیت کا مقصد عبادت بتایا گیا اور حضرت ابن عباس نے عبادت کا ایک مفہوم معرفت بھی بتایا ہے اور معرفت بغیر رغبت کے نہیں ہوتی۔
محبت ایثار اور قربانی سکھاتی ہے۔ یہاں پر صحابہ کرام کے دو واقعات کا ذکر خالی از فائدہ نہ ہوگا۔
- ایک صحابی نے بکرے کی سری دوسرے صحابی کے گھر ہدیہ بھیجی انہوں نے خود کھانے کی بجائے دوسرے صحابی کے گھر بھجوادی اس خیال سے کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔ انہوں نے آگے تیسرے کے گھر بھجوادی اس طرح وہ سات گھروں کے چکر لگاتی ہوئی آخر وہیں پہنچ گئی جہاں سے چلی تھی۔
- ایک غزوہ کے دوران ایک زخمی صحابی جان بلب تھا، پانی لے کر دوسرے صحابی آگے بڑھے، دوسری طرف سے پانی کے لئے آواز آئی، انہوں نے پانی نہ پیا اور دوسرے ساتھی کو پلانے کے لئے کہا اس طرح وہ صحابی پانی لے کر سات زخمیوں کے پاس گئے ہر ایک نے دوسرے کے لئے ایثار کیا حتی کہ وہ پھر پہلے کے پاس پانی لئے حاضر ہوئے دیکھا تو وہ دنیائے فانی سے رخصت ہوچکے تھے۔ صحابہ کی زندگیوں میں ایسے واقعات کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔
تحریکی ساتھیو! جب تک ہم اس سطح تک بلند نہ ہوجائیں ممکن نہیں کہ کوئی بڑا معرکہ سر کیا جاسکے۔ محبت گلاب کی پنکھڑیوں سے بڑھ کر نازک، قطرہ شبنم سے زیادہ لطیف، شہد سے زیادہ میٹھی اور سمندر سے زیادہ گہری ہوتی ہے، جب نقطہ کمال کو پہنچتی ہے تو ساری بے قراریاں ختم ہوکر تسکین روح کا سامان بن جاتی ہیں۔
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
انسانی تزئین و آرائش میں محبت کا بہت بڑا دخل ہوتاہے، تعلقات کے ضمن میں محبت ہی انسانی اور حیوانی معاشرے کو ممیز کرتی ہے۔
مرض کہتے ہیں سب اس کو یہ ہے لیکن مرض ایسا
چھپا جس میں علاج گردش چرخ کہن بھی ہے
یہ جان لینا چاہئے کہ حقیقی اور مجازی محبت میں کافی فرق پایا جاتا ہے، محبت مجازی ہو تو محبوب سے محبت کرنے والا رقیب بن جاتا ہے جبکہ حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے بھی اس کے محبوب کو پسند کریں، اس لئے صالحین ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کررہا ہوتا ہے۔ محبت اور نفرت کا یہ اصول پلے باندھ لینا چاہئے کہ
اَلْحُبَّ فِی اللّٰهِ وَالْبُغْضُ فِی اللّٰه.
’’محبت اللہ کی خاطر ہونی چاہئے اور بغض اور نفرت بھی اللہ کے لئے ہونی چاہئے‘‘۔
اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ زندگی کی جملہ رعنائیاں اور دلربائیاں جذبہ محبت سے وابستہ ہیں۔ جنت مقام رضائے الٰہی ہے جو تلواروں کے سائے تلے واقع ہے۔ نصرت دین حق اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ مصطفوی انقلاب کے سپاہیوں میں باہمی محبت تقاضائے طبیعت نہ بن جائے۔