مِرا سہارا وہی میرا آسرا بھی وہی
کہ ابتدا بھی وہی اور انتہا بھی وہی
بدلتا رہتا ہے عسرت کو وہ فراخی میں
کرے جو مشکلیں آساں مِرا خدا بھی وہی
گرے ہوؤں کا وہی دستگیر و مولا ہے
سُجھا رہا ہے اندھیرے میں راستا بھی وہی
رہِ طلب میں وہ سب کا ہے آخری مطلوب
وہی ہے منزلِ مقصود، رہنما بھی وہی
حریمِ ناز میں وہ آشنا و محرم راز
وہی دعا ہے مِری اور التجا بھی وہی
کبھی جو سایہ بھی ہوتا ہے تیرگی میں جدا
تو اس گھڑی مِرے ہمراہ دوسرا بھی وہی
وہ بے ٹھکانوں کا نیّر ہے ملجا و ماویٰ
گدائے بے نوا کی آخری نوا بھی وہی