ڈاکٹر علی اکبر قادری
وہ نیا پاکستان جس کی تیاریاں گذشتہ کئی سالوں سے جاری تھیں، 11 مئی کے انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آچکا ہے۔ مرکز اور صوبوں میں نئی حکومتیں تشکیل پارہی ہیں۔ اس نئے پاکستان کی دلچسپ تصویر یہ ہے کہ اس کے بیشتر ’’معمار‘‘ وہی ہیں جو گذشتہ آمرانہ اور کرپٹ ادوار میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ رہی بات ’’تبدیلی‘‘ کی توتبدیلی کے نعروں کا یہ اثر ضرور ہوا ہے کہ بعض قومی اور صوبائی سیاستدانوں نے وابستگیاں تبدیل کرلی ہیں اور کوشش کی ہے کہ مقتدر جماعتوں میں سے کوئی ایک بھی ان کے اثر و رسوخ سے باہر نہ رہے۔ یہاں تک کہ بعض سیاسی خانوادوں کی دو بہنیں، دو بھائی حتی کہ باپ اور بیٹا بھی دو مختلف جماعتوں میں شمولیت اختیار کرکے انتخابات میں شامل ہوئے اور جمہوریت کے ’’حسن‘‘ پر مہر تصدیق ثبت کی۔ یعنی ’’باغباں بھی خوش رہے راضی ہے صیاد بھی‘‘۔ مدعائے کلام یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جاری نظام سیاست و جمہوریت مفادات کے حصول کا گھناؤنا کھیل ہے جسے کھیلنے کے لئے بھاری سرمایہ، بڑی برادریاں اور بے رحم، دھونس دھاندلی جیسی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ جدید سیاسی زبان میں ایسے ’’باصلاحیت‘‘ افراد کو ریس جیتنے والے گھوڑے (Winning Horses) کہا جاتا ہے۔ علمی، فکری اور اخلاقی برتری اس ’’صلاحیت‘‘ میں کوئی قابل ذکر خوبی نہیں سمجھی جاتی۔ دور دراز علاقوں میں ایک آدھ شخص اگر ایسا آبھی جائے تو تین چار سو کے اکثریتی ایوان میں اس کی کیا قدرو منزلت ہوسکتی ہے؟
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ سے ایک ہی پارٹی برسرِ اقتدار رہتی ہے اور وہ ہے ’’حکومت کی پارٹی‘‘ جس میں ہمیشہ لوگ مخصوص دروازوں سے داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ملک کی داخلی خارجی پالیسیاں خطرات، مسائل اور چیلنجز ان کی بلا سے۔ انہیں تو اپنی تجوریوں کے سکڑنے اور پھیلنے کا علم ہوتا ہے اور مفادات کے تحفظ کی فکر ہوتی ہے۔
دریا کو ہے اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
اس ملک کے اقتدار میں ہر کسی کے لئے لوٹ مارکے امکانات موجود ہیں حتی کہ موجودہ نگران حکومت جو چند دنوں کے لئے آئی تھی اور اس کے مینڈیٹ میں انتخابات کا انعقاد تھا، اس نے بھی دن دگنی رات چوگنی ’’مہارت سے ترقی کا سفر‘‘ جاری رکھا ہوا ہے۔ قومی سطح پر نظر دوڑائیں تو کراچی سے خیبر تک ہر جماعت دھاندلی کا رونا رو رہی ہے اور سراپا احتجاج ہے۔ آج اینکر پرسن، سیاسی تجزیہ نگار اور خود پارٹیوں کے سربراہ حتی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی یہ اعتراف کررہے ہیں کہ ہمارا نظام انتخابات صاف و شفاف نہیں۔ اس میں غبن، کرپشن، اور دن دھاڑے حسب ضرورت نتائج تبدیل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ جو لوگ رات کو اپنے جیتنے کی خوشخبری سن کر سوتے ہیں انہیں صبح اعداد و شمار کے ساتھ شکست کا تفصیلی پرچہ تھمادیا جاتا ہے۔ مالی بددیانتی کی طرح حقِ رائے دہی میں بھی کرپشن اس ملک کا مستقل مسئلہ بلکہ معاشرتی قدر بن چکی ہے۔ ایسے ماحول میں حقیقی جمہوریت کی روح کس طرح پنپ سکتی ہے اور منتخب ہوکر آنے والے قائدین کس جذبے کے تحت ملک و ملت کی خدمت کرسکتے ہیں؟ جہاں رائے دہندگان سے لے کر قومی اور صوبائی نمائندوں تک جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی کا کلچر عام ہو وہاں کیا تبدیلی اور کونسی بہتری آسکتی ہے؟ انہیں اسباب کی نشاندہی قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دو سال قبل فرمائی اور پہلی مرتبہ پوری دنیا کے سامنے پاکستان کے انتخابی نظام کی خامیاں اور کمزوریاں طشت از بام کیں۔ انہوں نے بجا طور پر ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے ایک زور دار تحریک شروع کی جس کا پہلا مرحلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معیاری تشکیل تھی۔ مگر اقتدار کی باریوں کا انتظار کرنے والوں کی ملی بھگت سے اس اہم قانونی چارہ جوئی کو آگے نہ بڑھنے دیا گیا۔ اس کے برعکس اس قومی ادارے کے تمام بااختیار لوگوں کی غیر آئینی تعیناتی کو تحفظ دیا گیا تاکہ اپنی پسند کے نتائج حاصل کئے جاسکیں اور عین اسی منصوبہ بندی کے مطابق اب نتائج قوم کے سامنے ہیں۔ قائد تحریک منہاج القرآن نے پہلی مرتبہ 23 دسمبر کے تاریخی اجتماع عام میں آئین پاکستان میں درج 63,62 کی شرائط سے قوم کو آگاہ کیا اور اقتدار کے ایوانوں میں آنے والوں کے محاسبے کا مطالبہ کیا مگر ان کے اس مطالبے کو تضحیک آمیز تبصروں کا موضوع بنایا گیا۔ آج جب شرق و غرب سے انتخابات اور ان کے نتائج پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں تو انہیں احساس ہورہا ہے کہ ’’ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘ جن لوگوں کو کرپشن کی سزا دینا ضروری تھی وہ آج حکومت سازی کے عمل میں شامل ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک نے ان انتخابات سے اسی لئے حصہ نہیں لیا کہ ان سے مطلوبہ تبدیلی کے امکانات قطعاً ممکن نہیں۔ عشروں سے ایک نظام جڑیںپکڑ چکا ہے۔ جن خاندانوں کے مفادات اس سے وابستہ ہیں وہی اس کی آبیاری بھی کررہے ہیں۔ رہ گئی غریب عوام اور سفید پوش طبقات تو ان کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور بے بسی سے لوگ موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی صف میں کھڑا نظر آرہا ہے۔ یہاں اندھیرے راج کررہے ہیں۔ گرمی کے اس شدید موسم میں لوگوں کے پاس نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ روزگار۔ انتہاء پسندی اور دہشت گردی نے قوم کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ حتی کہ قرضوں کی معیشت بھی دم توڑ رہی ہے اور ہم معیشت کو سہارا دینے کے لئے مجبوراً پھر عالمی قوتوں سے خیرات لینے کے لئے مجبور ہیں۔
قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس نازک صورت حال میں بھی نجات دہندہ کے طور پر رہنمائی کا فریضہ ادا کیا ہے۔ انہوں نے نظام انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے قوم کو نئی راہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ایسی راہ جس کے دوسرے کنارے پر امید اور حقیقی تبدیلی کے امکانات روشن نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے قوم کو نظام انتخابات میں قابل عمل تبدیلیوں کی تجویز دی ہے تاکہ معاشرے سے اجارہ دار سیاستدانوں کی گرفت کم ہوسکے۔ حکمرانوں کو عوامی مسائل اور مشکلات کا علم بھی ہو اور ان مسائل کا حل بھی عدل و انصاف کی بنیاد پر ممکن ہو۔ ملک کے کلیدی عہدے وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور گورنر وغیرہ کو منتخب نمائندوں کی بجائے براہ راست قوم اپنے ووٹوں سے منتخب کرے جس طرح امریکہ، ایران اور کئی دوسرے ممالک میں ہورہا ہے۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی صرف اور صرف مخلص، اہل اور جرات مند قیادت ہی لے کر آسکتی ہے۔ بشرطیکہ باشعور طبقات اور خصوصاً نوجوان نظام کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دین اسلام کا نظریہ اجتہاد ہمیں روایت پرستی کی بجائے مسائل کے حل کے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر یہ نظام گذشتہ 65 سالوں سے یہاں مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام ہوچکا ہے تو ہمارے ہاتھ پاؤں کیا اسی کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں؟ ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے اس جمہوریت اور انتخابی نظام میں تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔ اقبال نے درست فرمایا تھا۔
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمو
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا