ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اسلام کے نام پر اسلامیانِ ہند کی بے نظیر جدوجہد کے نتیجے میں بننے والی ریاست ’’پاکستان‘‘ کا وجود آج سوالیہ نشان بنایا جارہا ہے۔ سیکولر فکر کے نمائندہ خواتین و حضرات کچھ عرصہ سے نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا سرے سے انکار کررہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اقبال اور قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران یہ لفظ استعمال نہیں کیا تو بعد میں اس کی رٹ کیوں لگائی جارہی ہے؟ ذیل میں ہم اسی بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ثانیاً اس حقیقت کو واضح کرنا مقصود ہے کہ نظریہ پاکستان کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ پاکستان محض زمین کے ٹکڑے کے طور پر حاصل نہیں کیا گیا تھا بلکہ بانیانِ پاکستان نے اسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک نظریے کے تحت عمل میں آیا۔ نظریہ پاکستان کی سی حیثیت پاکستان کے وجود میں روح کی ہے جس کے بغیر پاکستان کے قیام کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلمانان ہند شعوری طور پر ایک نظریے کے تحت آزاد مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد کر رہے تھے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی نظام کی بے ثمریت، ریاستی و ادارتی بے مقصدیت اور قومی سطح کی بے شعوری کے باعث قیام پاکستان کے تقریباًپون صدی بعد نظریہ پاکستان پر تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور یہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کو تلاش کریں، اس کی تعریف متعین کریں اور یہ فیصلہ کریں کہ کیا نظریہ پاکستان کی کوئی حقیقت بھی ہے۔۔۔؟
علامہ اقبال اور نظریہ پاکستان
قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں فکر اقبال کی مرکزی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ہر بڑی تحریک کا ایک مفکر ہوتا ہے، ہماری تحریک کا مفکر اقبال ہے۔ اقبال نے زندگی کے ہر مرحلے پر عملی اور فکری دونوں لحاظ سے نہ صرف جاندار کردار ادا کیا بلکہ قوم کی واضح رہنمائی بھی کی۔ اقبال کا دسمبر 1930ء کاخطبہء الہ آباد ہماری تحریک آزادی کا میگناکارٹا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس خطبہ میں جہاں اقبال نے مسلمانانِ ہند کے مستقبل کے مقدر کے حوالے سے بصیرت افروز گفتگو کی وہاں اس نظریاتی اساس کو بھی متعین کر دیا جس پر آگے چل کر مسلمانانِ ہند کی جدوجہدِ آزادی استوار ہوئی اور سترہ سال کے عرصے میں انہوںنے پاکستان کی منزل کو پا لیا۔ خطبہ الہ آباد بیک وقت فکری و نظریاتی اور عملی و دستوری پہلووں کا احاطہ کرتا ہے۔ آیئے اس خطبہ میں موجود اہم نکات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1۔ سیاسی راہ عمل۔۔ اسلام
علامہ نے مسلمانان ہند کے مستقبل کے لیے راہ عمل متعین کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں زندگی بھر کے مطالعے کے بعد اسلام کو بطور ایک عالمگیر حقیقت کے دیکھنے کی استعداد حاصل کر چکا ہوں۔ لہذا جب بھی مسلمانانِ ہند کے لیے کوئی سیاسی راہ عمل متعین کروں گا تو وہ اسلام ہی کے اصولوں سے ماخوذ اور مستنبط ہو گی۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام، اس کے نظام سیاست و قانون، اس کی ثقافت، اس کی تاریخ اور اس کے ادب کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ روح اسلام کے ساتھ مسلسل تعلق کی بدولت جس کا اظہار وقت کے ساتھ ہورہا ہے، میرے اندر اسلام کو ایک اہم عالم گیر حقیقت کی حیثیت سے دیکھنے کی بصیرت پیدا ہوگئی ہے۔ چنانچہ یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہندوستان کے مسلمان اسلام کی روح سے اپنی وابستگی برقرار رکھیں گے، میں اپنی اس بصیرت کی روشنی میں، جس کی قدر و قیمت خواہ کچھ ہو، آپ کے فیصلوں میں آپ کی راہ نمائی کرنے کا دعویٰ تو نہیں کرتا تاہم آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کرنے کی ایک عاجزانہ کوشش کروں گا جس پر میرے خیال میں ان تمام فیصلوں کا عموماً انحصار ہونا چاہیے‘‘۔
2۔ اسلام ہی نظریہ پاکستان کی اساس کیوں؟
اسلام کو اساس بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ نے فرمایا:
’’وہ اسلام کو ایک ایسی زندہ قوت سمجھتے ہیں جس کے مستقبل سے وہ قطعاً مایوس نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی تقدیر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جس کا فیصلہ کوئی دوسری تقدیر نہیں کر سکتی۔ آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی صدارت کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو اس امر سے مایوس نہیں ہے کہ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو انسان کے تصور کو جغرافیائی حدود سے آزاد کرا سکتی ہے؟ جس کا یہ عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بے انتہا اہمیت حاصل ہے اور جس کا ایمان ہے کہ اسلام بجائے خود تقدیر ہے اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا شخص مجبور ہے کہ معاملات کو خود اپنے ہی نقطہ نگاہ سے دیکھے۔ یہ خیال نہ کریں کہ جس مسئلے کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں وہ محض ایک نظری مسئلہ ہے۔ یہ ایک زندہ اور عملی مسئلہ ہے جس سے اسلام کے دستور حیات اور نظام عمل کے تار و پود متاثر ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان میں ایک ممتاز ثقافت وحدت کی حیثیت سے صرف اس مسئلے کے صحیح حل پر آپ کے مستقبل کا انحصار ہے۔ ہماری تاریخ میں اسلام پر آزمایش کا ایسا سخت دور کبھی نہیں آیا تھا جیسا کہ آج درپیش ہے۔ ایک قوم کو یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بنیادی اُصولوں میں ترمیم کرے یا ان میں نئے معنی تلاش کرے یا انھیں بالکل مسترد کردے، لیکن نئے تجربات کرنے سے پہلے واضح طور پر یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ میں نہیں چاہتا کہ جس انداز سے میں اس اہم مسئلے کو دیکھ رہا ہوں، اس سے یہ خیال پیدا ہو کہ جن حضرات کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہے، میں ان سے جھگڑا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا اجتماع مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اسلام کے مقاصد اور اس کی روح سے وفادار رہنے کے خواہش مند ہیں۔ میرا واحد مقصد یہ ہے کہ موجودہ صورت حال کے بارے میں جو میری دیانت دارانہ رائے ہے اس کا صاف صاف اظہار کردوں۔ میرے خیال میں صرف یہی ایک صورت ہے کہ میں آپ کے سیاسی عمل کی راہوں کو اپنے عقائد کی روشنی سے منور کرسکوں‘‘۔
3۔ اسلام اور وحدتِ انسانیت
خطبہ الہ آباد اسلام کے تہذیبی، معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی پہلووں کو جس طرح بیان کرتا ہے وہ ہماری تاریخ میں اسلام کے تہذیبی جوہر کو منکشف کرنے کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ علامہ نے اسلام کے مزاج اور اسلام کی نگاہ میں انسانیت کی وحدت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اسلام انسان کی وحدت کو مادے اور روح کی متضاد دوئی میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک کل کے مختلف اجزاء ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں ہے جسے کسی ایسی دنیا کی خاطر ترک کرے جو کہیں اور واقع ہے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کی وہ شکل ہے جو زماں و مکاں میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یورپ نے غالباً مانویت کے زیر اثر روح اور مادے کی دوئی کو بلاغور و فکر قبول کرلیا ہے۔ اس کے بہترین مفکر اس ابتدائی غلطی کو آج محسوس کررہے ہیں، لیکن اس کے سیاست دان بالواسطہ دنیا کو مجبور کررہے ہیں کہ اسے ناقابل انکار عقیدے کے طور پر تسلیم کرلیں۔ دراصل روحانی اور دنیاوی زندگی میں امتیاز کرنے کا یہی غلط اصول ہے جس سے یورپ کا مذہبی اور سیاسی فکر زیادہ طور پر متاثر ہوا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یورپ کی ریاستوں سے عیسائیت عملی طور پر بالکل بے دخل ہوچکی ہے۔ اس سے مختلف بے ربط ریاستیں قائم ہوگئی ہیں جن میں انسانی جذبے کی بجائے قومی اغراض کی بالادستی ہے‘‘۔
4۔ اسلامی نظامِ سیاست
چونکہ علامہ مسلمانوں کے مستقبل کی سیاسی جدوجہد اور راہ عمل کا تعین اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں کی روشنی میں کر رہے تھے۔ سو انہوں نے اس بات کو واضح کیا کہ اسلام ایک ایسے نظامِ سیاست کا حامل ہے جس کی بنیاد وحی ہے۔ وحی سے تشکیل پانے والا نظامِ سیاست بیک وقت مذہبی اور معاشرتی نصب العین کی وحدت کا حامل ہے جس میں ایک کو اختیار اور دوسرے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک نصب العین کو مسترد یا نظر انداز کیا جائے گا تو دوسرا نصب العین خود بخود مسترد ہو جائے گا۔ علامہ نے فرمایا:
’’اس (وحی) کا فوری نتیجہ ایک ایسے نظامِ سیاست کے بنیادی اصولوں کی صورت میں ظاہر ہوا جس میں قانونی تصورات مضمر تھے اور جس کی معاشرتی اہمیت کو محض اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی بنیاد وحی و الہام پر ہے۔ اس لیے اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے مربوط و منسلک ہے جو خود اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ اگر ایک کو رد کیا گیا تو دوسرے خود بخود مسترد ہوجائے گا اس لیے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہوجائے‘‘۔
5۔ نظامِ سیاست و ریاست کے احیاء کی ضرورت
سو جب ملت اسلامیہ وحی سے حاصل ہونے والے عالمگیر نظامِ ریاست و سیاست کی امین ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس نظامِ سیاست و ریاست کی دور نو کے مطابق از سر نو تشکیل اور تدوین کرے۔ علامہ نے فرمایا:
’’دنیائے اسلام میں ایک عالم گیر نظام ریاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی و تنزیل کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں لیکن ہمارے فقہا جدید دنیا سے بے تعلق رہے ہیں، اس لیے موجودہ زمانے میں انھیں از سر نو مرتب کرکے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
یہ وہ اعلیٰ و ارفع مقاصد تھے جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے علامہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت میں مسلمانوں کے مستقبل کی راہ عمل متعین فرما رہے تھے۔ یہ علامہ کی بصیرت تھی کہ انہوں نے تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اگر ملت اسلامیہ نے اسلام کے دیئے گئے عالمگیر نظامِ ریاست و سیاست کی تشکیل نو کرنی ہے تو اس کے لیے سب سے مناسب ترین خطہ ہندوستان ہے۔ کیونکہ ہندوستان ہی وہ ملک ہے جہاں اسلام ایک بہترین انسانیت ساز قوت کی حیثیت سے ظہورپذیر ہوا ہے۔ حقیقت میں یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام ایک بہترین مردم ساز قوت کی حیثیت سے جلوہ گر ہوا ہے‘‘۔
علامہ نے برصغیر کی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مسلمانانِ ہند کی قومی زندگی میں اسلام بطور اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام کے ایک اہم جزو رہا ہے۔ لہذا جب بھی دورِ نو کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے نظامِ سیاست و ریاست کی تشکیل نو کرنی ہو گی تو ہندوستان کے خطے اور یہاں کے باسیوں کے کردار کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ علامہ فرماتے ہیں:
’’یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام بطور ایک اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام مسلمانانِ ہند کی تاریخ کا اہم ترین جزو ترکیبی رہا ہے۔ اس اصطلاح سے میری مراد ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ ہے جس کا نظم و ضبط ایک مخصوص اخلاقی نصب العین اور نظام قانون کے تحت عمل میں آتا ہے‘‘۔
6۔ نظریہ قومیت
وہ اعلیٰ مقاصد جن کا علامہ یہاں ذکر فرما رہے ہیں اگر اسلام واقعی ان مقاصد کے حصول کو اپنا ہدف قرار دیتا ہے اور ملت اسلامیہ اپنے مستقبل کو ان مقاصد کے حصول کے ساتھ منسلک اور ان کے لیے وقف کرتی ہے تو اس کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہو گی وہ نظریہ قومیت ہے جس کا اس وقت جس کا پرچار کیا جا رہا تھا۔علامہ نے فرمایا:
’’اس وقت قومیت کے نظریے نے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ کو نسل پرستی سے آلودہ کردیا ہے اور اس طرح (یہ نظریہ) اسلام کے انسانیت پرور مقاصد میں بری طرح حائل ہورہا ہے۔ ممکن ہے کہ نسل پرستی کے احساسات کی ترقی ایسے معیاروں کا محرک ہو جو اسلام کے معیار سے مختلف بلکہ متضاد ہو‘‘۔
اس مرحلے پر علامہ نے مسلمانانِ ہند کو اس بنیادی نکتے کی طرف متوجہ کیا کہ اگروہ دورِ جدید کے نظریہ قومیت کواختیار کریں گے تو اسلام کو بطور ایک اخلاقی نصب العین کے کبھی بھی جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ آپ نے فرمایا:
’’کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی نصب العین تو باقی رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کو رد کرکے نظریہ قومیت کی بنیاد پر سیاسی نظامات اختیار کرلیں جن میں مذہبی رجحان کو کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی؟ ہندوستان میں یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں‘‘۔
7۔ جداگانہ تشخص کا شعور
یہی وہ بنیادی اہداف تھے جن کی بنیاد پر علامہ نے برصغیر کے مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے ہندوستان کی تقسیم کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’مسلمانان ہند کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے برطانوی ہندوستان کی از سر نو تقسیم کی جائے‘‘۔
ماضی میں بر صغیر کی مسلمان قیادت نے ایسے وہ تمام فیصلے جو مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی قربانی دیتے ہوئے کیے علامہ نے ان کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ ان دونوں نمایاں فیصلوں یعنی میثاقِ لکھنو اور تجاویز دہلی کو ایسے سیاسی گڑھوں سے تعبیر کیا کہ اگر مسلمان ان میں گھِرے رہے تو مستقبل میں ان کے لیے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع باقی نہیں بچے گا۔ علامہ نے اس جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’مسلمان سیاسی لیڈر دو گڑھوں میں گر چکے ہیں۔
- پہلا گڑھا مسترد شدہ ’’میثاق لکھنو‘‘ تھا جو ہندوستان قومیت کے غلط تصور کی پیداوار تھا۔ اس سے مسلمان ہندوستان میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے تمام مواقع سے محروم ہو گئے۔
- دوسرا گڑھا پنجاب کی نام نہاد دیہاتی آبادی کی خاطر اسلامی اتحاد کی عاقبت نااندیشانہ قربانی تھی جس کا اظہار ایک ایسی تجویز میں ہوا جس سے پنجاب کے مسلمان اقلیت میں رہ جاتے ہیں۔ مسلم لیگ کا فرض ہے کہ وہ میثاق اور تجویز دونوں کی مذمت کرے‘‘۔
8۔ علیحدہ ریاست کی ضرورت کیوں؟
علامہ نے فرمایا:
’’ مسلمان اگر اسلام کو بطور ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو وہ کسی بھی وقتی یا محدود مفاد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے اجتماعی اہداف کی قربانی دینے کی بجائے ہندوستان کے کسی ایک مخصوص علاقے میں اپنی حکومت بنائیں۔
آپ نے فرمایا:
’’ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘۔
پھر اس بات کو مزید بڑھاتے ہوئے علامہ نے پیغمبرانہ آہنگ سے ہندوستان کے مستقبل کے حوالے سے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو 14 اگست 1947ء کو ایک حقیقت بن گئے:
’’میں ذاتی طور پر ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہتا ہوں جو اس قرارداد میں پیش کیے گئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط مسلم ریاست، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود اختیاری حاصل کرے یا اس کے باہر، ہندوستان کے شمالی مغربی مسلمانوں کا آخرکار مقدر ہے‘‘۔
علامہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے خود مختاری کا مطالبہ فرما رہے تھے تو ان کے پیش نظر ہندوستان اور اسلام دونوں کا مفاد تھا۔ ہندوستان کا مفاد بایں معنی کہ اس سے توازنِ طاقت پیدا ہو اور اسلام کا مفاد بایں معنی کہ صدیوں سے اسلام پر جو عرب شہنشاہیت کے اثرات مسلط ہو چکے تھے، جن کے باعث اسلام کی اصل روح منکشف ہونے سے عاری رہی تھی ہندوستان میں مسلمانوں کی آزاد اور خود اختیاری حکومتوں کے قیام سے اسلام کو اس عربی ملوکیت اور شہنشاہیت کے اثرات سے نکلنے کا موقع ملے گا۔ آپ نے فرمایا:
’’میں ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کررہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہوجائے گا اور اسلام کے لیے ایک مواقع فراہم کرے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوجائے جو عربی شہنشاہیت (Arabian Imperialism) نے اس پر ڈال دیے تھے اور اپنے قوانین، اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لاکر ان کی اصل روح اور عصر جدید کی روح سے رابطہ قائم کرسکے‘‘۔
9۔ اسلامی ریاست اور اقلیتوں کے حقوق
جب علامہ نے ایک الگ اور خود اختیار حکومت کے حامل خطے کا مطالبہ کیا تو لازمی تھا کہ دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں کے دلوں میں کچھ خطرات پیدا ہوتے۔
علامہ نے اس کا ازالہ کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ذکر فرمایا۔ اسلام ہمیں اقلیتوں کے تمام اصول، قوانین، شعائر، مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کے تحفظ کی تعلیم دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
’’جو فرقہ دوسرے فرقوں کی طرف بدخواہی کے جذبات رکھتا ہو وہ نیچ اور ذلیل ہے۔ میں دوسری قوموں کے رسوم، قوانین، معاشرتی اور مذہبی اداروں کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ یہی نہیں بلکہ قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق ضرورت پڑے تو ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی میرا فرض ہے۔ اس کے باوجود مجھے اس جماعت سے محبت ہے جو میری حیات اور میرے اوضاع و اطوار کا سرچشمہ ہے اور جس نے مجھے اپنا مذہب، اپنا ادب، اپنی فکر اور اپنی ثقافت دے کر میری تشکیل اس صورت میں کی ہے کہ جیسا میں ہوں اور اس پر میرے ماضی کو ازسر نو زندہ کرکے وہ میرے شعور کا ایک زندہ و فعال عنصر بن چکی ہے‘‘۔
بلکہ وہ اقلیتیں جنہیں قرآن مجید نے اہل کتاب کہا ہے ایسی ملت ہیں جن کے ساتھ نکتہ اشتراک پر اتحاد و یگانگت کی دعوت خود قرآن حکیم نے دی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
’’وہاں کی اقلیتیں قرآن کے الفاظ میں ’’اہل کتاب‘‘ میں سے ہیں۔ کسی یہودی، عیسائی یا زرتشتی کے چھونے سے مسلمان کا کھانا ناپاک نہیں ہوتا اور اسلامی قانون اہل کتاب کے ساتھ مناکحت کی اجازت دیتا ہے۔ حقیقت میں اسلام نے پہلا قدم انسانیت کے اتحاد کی طرف اٹھایا، وہ یہی تھا کہ جن لوگوں کو اخلاقی نصب العین ایک سا تھ انھیں اتحاد و اتفاق کی دعوت دی۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
ياَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ م بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ.
(آل عمران:64)
’’اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے‘‘۔
اسلام کی وہ تعلیم جو صدیوں سے یورپ اور مسلم دنیا اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والے تنازعوںکے باعث پس منظر میں جا چکی ہے اب موقع ہے کہ اس تعلیم کے لامحدود معنی کو عملی صورت دی جائے۔ اس حوالے سے علامہ نے فرمایا:
’’مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگوں اور اس کے بعد مختلف صورتوں سے یورپ کی جارحیت کے باعث دنیائے اسلام میں اس آیت کے لامحدود معنوں میں عمل نہ ہو سکا۔ آج بلاد اسلامیہ میں یہ مقصد مسلم قومیت کی شکل میں بتدریج پورا ہو رہا ہے‘‘۔
اسی طرح علامہ نے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ہندو یہ مت سمجھیں کہ اس طرح مذہبی حکومتیں قائم ہوجائیں گی جہاں کسی دوسرے مذہب کو کسی طرح کی آزادی، تحفظ کا تقدس حاصل نہ گا بلکہ یہ تو خود اسلام کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہے:
’’ہندوؤں کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ایک طرح کی مذہبی حکومتیں (Religious Rule) قائم ہوجائیں گی۔ اس سے پہلے میں بتا چکا ہوں کہ اسلام میں مذہب کا مفہوم کیا ہے۔ حقیقتاً اسلام میں کلیسیائی نظام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جس کا اظہار روسو سے بھی بہت پہلے معاہدہ عمرانی کی صورت میں ہوچکا تھا۔ اس کے پیچھے ایک اخلاقی نصب العین ہے جو انسان کو کسی خاص علاقے کی سرزمین سے وابستہ نہیں سمجھتا بلکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے جو ایک اجتماعی معاشرتی نظام کا زندہ و متحرک جزو اور چند حقوق و فرائض کا حامل ہے‘‘۔
10۔ منظم کاملیت اور اجتماعی خودی کی ناگزیریت
علامہ نے خطبے کا اختتام کرتے ہوئے جو آفاقی اور ابدی اہمیت کے حامل الفاظ ارشاد فرمائے وہ قرآن حکیم ہی کی ایک آیہ مبارکہ کی تفسیر ہیں اور وہ آج بھی ہمارے لیے ایک روشن راهِ عمل ہیں۔ علامہ نے فرمایا:
’’ موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے ہماری ملت کو مستقبل قریب میں ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنی پڑے گی اور آزادانہ سیاسی راہ عمل ایک مقصد پر مرکوز ہو۔ کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ متحدہ عزم کے لیے منظم کا ملیت حاصل کر لیں؟ بے شک یہ ممکن ہے۔ فرقہ بندی اور نفسانیت کی قیود سے آزاد ہو جائیے۔ اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کی قدر و قیمت کا اندازہ کیجیے خواہ وہ مادی اغراض ہی سے متعلق کیوں نہ ہوں۔ اس نصب العین کی روشنی میں، جس کی آپ نمایندگی کر رہے ہیں، مادہ سے گزر کر روحانیت کی طرف آئیے۔ مادہ کثرت ہے۔ روح نور ہے، حیات ہے، وحدت ہے، مسلمانوں کی تاریخ سے میں نے ایک سبق سیکھا ہے کہ آڑے وقتوں میں مسلمانوں کو اسلام نے بچایا ہے، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آج آپ اپنی نظریں اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ اپنی پراگندہ قوتوں کو از سر نو جمع کر لیں گے اور اپنی صلابت کردار کو دوبارہ حاصل کر لیں گے۔ اس طرح آپ اپنے آپ کو مکمل تباہی سے بچا لیں گے۔ قرآن مجید کی ایک نہایت معنی خیز آیت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی موت و حیات بھی فرد واحد کی موت و حیات کی طرح ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ آپ جو سب سے پہلے انسانیت کے اس بلند وارفع تصور پر عمل پیرا ہوئے، اسی اصول پر جئیں اور آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو ایک نفس واحد کی طرح رکھیں۔ میں جب یہ کہتا ہوں کہ ہندوستان کی حالت وہ نہیں جو بظاہر نظر آتی ہے تو میرا مقصد کسی کو حیرت میں ڈالنا نہیں ہے۔ بہرحال اس کے صحیح معنی آپ پر اس وقت آشکار ہو جائیں گے جب آپ ان کے مشاہدے کے لیے ایک صحیح اجتماعی خودی پیدا کر لیں گے۔ قرآن کے الفاظ میں:
عَلَيْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا يَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ.
’’تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو‘‘۔
(المائدة:105)
قائداعظم اور نظریہ پاکستان
تحریک پاکستان کے دوران تحریک آزادی کے قائدین اس امر سے آگاہ تھے کہ وہ جس وطن کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں اس کامقصد ا ورہدف کیا ہے، اور کس نظریے کی بنیاد پر وہ اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
علامہ اقبال کے نظریات و افکار سے آگاہی کے بعد قائداعظم کے افکار کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے حصول کے لئے تگ و دو کررہے تھے، آیئے اُنہی کی زبانی سنتے ہیں:
1۔ حقانیتِ اسلام
- قائد اعظم نے یکم فروری 1943ء کو اسماعیل کالج بمبئی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام صرف مذہب کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات (Complete Code of Life) ہے۔ انہوں نے فرمایا:
Islam means peace with God and peace with man
- یکم جنوری 1938ء کو گیا کے مسلمانوں کی طرف سے دیئے گئے استقبالیے کے جواب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
مسلم لیگ کا پرچم اسلام کا پرچم ہے۔ مسلم لیگ کو اسلام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں۔ بلکہ اسلام تو مکمل ضابطہ حیات (Complete Code of Life) ہے۔ یہ صرف مذہب نہیں بلکہ قانون، فلسفہ اور سیاست بھی ہے۔ اسلام ہر اس تفصیل پر مشتمل ہے جو ہماری شب و روز کی زندگی سے متعلق ہے۔ جب ہم اسلام کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہی کل اسلام ہے۔ اسلامی نظام حیات کی اساس آزادی (Liberty)، مساوات (Equality)، اور اخوت (Fraternity) ہے۔
Beverley Nicholsکے مسلم قوم کی تعریف کے سوال کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا:
’’اسلام صرف ایک مذہبی عقیدے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے حقیقی اور عملی ضابطہ حیات (realistic and practical Code of Conduct) کا نام ہے‘‘۔
2۔ اسلام اور پاکستان
قائد اعظم نے اسلام اور پاکستان کو کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا۔ آیئے اُن کے چند خطابات کے اقتباسات کا مطالعہ کرتے ہیں:
- اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ قیام پاکستان کے بغیر یہاں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔
- 4 فروری 1935ء کو مرکزی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ہندوستان میں اپنے مذہب، زبان اور کلچر کا تحفظ چاہیے۔
- 19 دسمبر 1946ء کو قاہرہ میں ایک تقریر میں فرمایا کہ اگر ہندوستان میں ہندو اقتدار قائم ہو گیا تو اس کا مطلب ہو گا ہندوستان میں اسلام کا خاتمہ بلکہ دوسرے مسلمان ممالک میں بھی۔
- 10 مارچ 1941ء کو مسلم یونیورسٹی یونین علی گڑھ سے خطاب میں فرمایا کہ پاکستان نہ صرف قابل حصول منزل ہے بلکہ اگر ہم ہندوستان میں اسلام کو مکمل فنائیت سے بچانا چاہتے ہیں تو ہماری یہی واحد منزل ہے۔
- 2 مارچ 1941ء کو پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے اجلاس سے خطاب میں فرمایا کہ مسلمانان ہند کے مسئلے کا واحد حل ہندوستان کی تقسیم ہے۔ تاکہ ہندو اورمسلم دونوں اپنے معاشی، معاشرتی و سماجی، ثقافتی اور سیاسی معیارات کے مطابق ترقی کر سکیں۔ ہماری جدوجہد کا مقصد صرف مادی ترقی نہیں بلکہ مسلم قوم کی روح کی بقا اور تحفظ ہے۔
قائد اعظم کے نزدیک اسلام اور پاکستان کے تعلق کی نوعیت کیا تھی، اس کی وضاحت بھی ان کے مختلف بیانات اور تقاریر سے ہوتی ہے۔ ان میں سے چند ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں:
- یکم فروری 1943ء کو ہی اسماعیل کالج بمبئی کے طلباء خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’اسلام مسلمانوں کی زندگی بشمول سماجی و معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی پہلووں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی صورت میں ہم ایک ایسی ریاست قائم کریں گے جو اسلام کے اصولوںکے مطابق چلائی جائے گی۔ اس کے ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی نظام کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس تصور سے غیرمسلموں کو خائف نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں وہ دور حاضر کے نام نہاد جمہوری پارلیمانی نظام حکومت کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوں گے۔ ہمیں مغربی طرز کی پارلیمانی یا کانگرس طرز کی حکومت نہیں چاہیے بلکہ ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جو اسلام کے مطابق ہو‘‘۔
یہاں قائد اعظم کے اس بیان میں اقبال کے روحانی جمہوریت کے تصور کی جھلک نظر آتی ہے۔
- اس سے بھی بہت پہلے 30 دسمبر 1916ء کو لکھنؤ میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ مسلمان دنیا کی ہر قوم سے زیادہ جمہوری قوم ہیں حتی کہ اپنے مذہبی معاملات میں بھی۔
3۔ قائداعظم اور لفظِ ’’نظریہ‘‘ کا استعمال
قائد اعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات میں آئیڈیالوجی کا لفظ کئی بار استعمال کیا۔
- 13 دسمبر 1946ء کو بی بی سی اور امریکی براڈکاسٹنگ کارپوریشن سے نشر ہونے والے پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا کہ ہندوستان کی تقسیم سے ہماری مراد دونوں قوموں کو اپنے اپنے کلچر اور آئیڈیالوجی کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
- 24 نومبر 1945ء کو مردان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کے قیام کا مطلب ایسی آزاد مسلم ریاست قائم کرنا ہے جہاں مسلمان مسلم آئیڈیالوجی کو نافذ کرسکیں۔
- 15 جون 1945ء کو فرنٹئیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام پیغام میں فرمایا کہ پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں بلکہ اس مطلب مسلم آئیڈیالوجی کا تحفظ ہے۔
- 26 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم پاکستان میں ہی انسانی ترقی کے عظیم آئیڈیلز، سماجی انصاف، مساوات اور اخوات کو عملی شکل دے سکتے ہیں۔ جو ایک طرف تو پاکستان کی تخلیق کے بنیادی مقاصد ہیں اور دوسری طرف ہماری نوزائیدہ ریاست کامثالی سماجی نظام تشکیل دینے کے لیے لامتناہی امکانات کے حامل بھی ہیں۔ پاکستان اس لیے قائم کیاگیا کہ ذات پات پر مبنی معاشرے میں انسانی روح کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے‘‘۔
قیام پاکستان کے مقاصد جو اس کی آئیڈیالوجی کے بنیادی عناصر ہیں، صرف تقاریر یا بیانات تک ہی محدود نہ تھے۔آل انڈیا مسلم لیگ نے جو Manifesto تیار کیا تھا وہ بھی ا سکا عملی مظھر تھا۔ آل انڈیامسلم لیگ کی کونسل اور منشور کمیٹی کے رکن راغب احسن نے 28 اگست 1945ء کو لیاقت علی خان کو منشور کا جو مسودہ ارسال کیا وہ 3 حصوں، 16 ابواب اور 118 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس کی تلخیص 38 صفحات میں کی گئی تھی۔ اس منشور کے حصہ اول کا عنوان تھا:
Basic Aims & Objectives: Ideals & Ideology
اس منشور کو تیار کرنے والے کس Visionاور بصیرت کے حامل تھے اس کا اندازہ اس کے چند عنوانات سے ہوتا ہے:
-
Third world war will end humanity-
-
Islam is the only escape for mankind
-
New world order
-
Islam and Muslims
-
Socio- Economic Ideals of the Millat & the Muslim League
-
Crash of Civilization & the Role of Pakistan
محترمہ فاطمہ جناح نے مارچ 1954ء میں ڈھاکہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ لوگ جرات اور ہمت سے کام لیں اور سراپا جدوجہد بن جائیں توا س ملک کو صحیح اسلامی آئیڈیالوجی پر استوار کر سکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی آئیڈیالوجی کیا ہے، اس کا مطلب ہے جمہوریت، اخوت، سچائی اور انصاف۔ یہ اسلام کے ستون ہیں۔
الغرض اسلامی آئیڈیالوجی جو نظریہ پاکستان ہی ہے تحریک پاکستان کے دوران تحریک آزادی کے قائدین کے لیے کبھی بھی کوئی اجنبی حقیقت نہیں رہا۔زندہ قومیں اپنی نظریاتی اساس کو مستحکم کرتی ہیں اور اس کے اہداف کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کرتی اور اپنی توانائیاں وقف کر تی ہیں۔جبکہ ہم ایک واضح نظریاتی اساس کے باوجود اسے متنازعہ بنا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نہ صرف اپنی نظریاتی اساس سے آگاہ ہوں بلکہ اس کے مقاصد کے حصول کو قومی زندگی کا مقصد قرار دیں جو قائد اعظم کے الفاظ میں حریت، مساوات اور اخوت ہیں۔یہی اقدار ہمارے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام کی اساس ہونی چاہئیں تا کہ ہم اس ملک میں ایسا نظام تشکیل دے سکیں جو اقبال اور قائد اعظم کے الفاظ میں ’’روح انسانی کی بقا کا ضامن ‘‘ہو۔