(ڈاکٹر علی اکبر قادری)
دورِ قحط الرجال میں جو لوگ قومی اور ملی سطح پر علمی تحقیقی اور تدریسی میدان میں مخلصانہ خدمات پیش کرکے نیک نامی کمارہے ہیں، وہ واقعتا عظیم لوگ ہیں۔ ایسے رجالِ کار اللہ تعالیٰ کی نعمت ہوتے ہیں اور اس کی شانِ رحمت کی خیرات بانٹنے پر مامور ہوتے ہیں۔ ہمارے ممدوح پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمدصدیقی یقینا ایسے ہی خوش نصیب افراد میں سے ایک تھے جو زندگی بھر چراغ کی مانند ماحول میں روشنیاں تقسیم کرتے رہے۔ وہ چونکہ ایک استاد تھے اور قدرت نے انہیں تعلیم و تدریس کا موقع پاکستان کے سب سے بڑے اور معروف ادارے پنجاب یونیورسٹی میں عطا کئے رکھا اس لئے ان کے طلباء نہ صرف پاکستان کے کونے کونے میں موجود ہیں بلکہ بیرون ملک بھی تعلیم و تدریس اور دعوت تبلیغ کے مقدس پیشوں سے منسلک ہیں۔
ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی نے شرقپور شریف کے روحانی ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی۔ علوم عصریہ کے ساتھ دینی علوم بھی حاصل کئے۔ انہوں نے آرام باغ کراچی اور سندھ مدرسۃ الاسلام سے درس نظامی اور عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی۔ 1961ء میں پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ اور عربی میں ایم اے کے امتحان پاس کئے اور یہیں شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ہی ’’Modern Trends in Tafsir Literature‘‘ کے عنوان سے گرانقدر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ تقابلِ ادیان آپ کی دلچسپی کا خصوصی میدان تھا۔ اس لئے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں انہوں نے لیکچرز دیئے اور تحقیقی مقالات پیش کئے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں 35 برس تک پڑھاتے رہے۔ جن 200 سے زائد سکالر حضرات نے آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا اعزاز حاصل کیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان میں سرِ فہرست ہیں۔
قائد تحریک منہاج القرآن نے ایم اے علوم اسلامیہ کے دوران جس طرح ڈاکٹر برہان احمد فاروقی سے شعور مقصدیت پایا اسی طرح ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی کی شخصیت سے تحمل اور پرامن بقائے باہمی جیسے خصوصی فیوضات سمیٹے۔ ڈاکٹر صاحب نے تعلیم و تدریس کا پورا دورانیہ ایک مخصوص مذہبی ماحول میں گزارا جہاں قدم قدم پر مذہبی امتیازات اور مسلکی تفریق کے مظاہر دیکھنے میں آتے تھے مگر حیران کن طریقے سے انہوں نے اپنی شخصیت کو متوازن اور سب کے لئے فیض رساں بنائے رکھا کبھی کسی کو آپ سے شکایت کا موقع نہیں ملا۔ یہ اتنی بڑی شخصی خوبی ہے جس کی مثال شاید ہی مل سکے۔
آپ نے شعبہ علوم اسلامیہ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی رئیس ادارہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور سیرت چیئر پر بھی فائز رہے۔ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں رئیس الجامعہ کے طور پر بھی ایک عرصہ خدمات سر انجام دیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آٹھ سال تک یونیورسٹی میں تحقیقی و تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ علاوہ ازیں وہ حکومتی اور جامعاتی سطح پر مختلف سائنسی علوم کی نصاب سازکمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔
آپ نے ملک بھر میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں بھرپور حصہ لیا۔ دینی و علمی مجالس اور قومی و صوبائی سیرت کانفرنسوں میں ماہر علم و حکمت کی حیثیت سے اپنے مقالات پیش کرتے رہے۔ آپ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں محکمہ تعلیم پنجاب میں سلیکشن و ترقی کے محکمانہ امتحانات میں ممتحن کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت میں مشاورت کے فرائض بھی انجام دیئے۔
آپ تقابل دیان اور فقہ میں مہارت کی بنا پر اندرون ملک اور بیرون ملک ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اسلامی وغیر اسلامی ممالک مثلاً ایران، سویڈن، ناروے، ڈنمارک میں علمی مجالس میں شرکت فرمائی اور وطن عزیز پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ اپنی زندگی کے آخری کئی سال مانچسٹر (انگلینڈ) میں معروف اسلامی تبلیغی اداروں میں دینی و علمی خدمات انجام دیں۔ آپ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری کے برادر اور خلیفہ مجاز قدوۃ السالکین حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری سے بیعت تھے۔ اپنے شیخ سے جذباتی محبت رکھتے تھے ان پر آپ نے کتاب بھی لکھی، اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آپ کی آخری آرام گاہ بھی آستانہ شیخ کی قربت میں بنی۔
حضر ت علامہ پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی کی مشہور تصانیف یہ ہیں:
- ورفعنالک ذکرک
- مثالی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
- تجلیاتِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی زندگی
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت مثالی شوہر
- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت معلم اخلاق
- اسلام اور ضرورت مرشد
- رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں غیر مسلموں کے تاثرات
- عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہود و نصاریٰ کا بیہودہ اعتراض
- سیدنا صدیق اکبر اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
- قرآن حکیم کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت
- مصطفوی انقلاب کیسے ممکن ہے؟
- فقہ حنفی کا اجمالی تعارف
- خودی قرآن حکیم کی روشنی میں
- حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے اجتہاد کا طریق کار
- روایات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور آداب زندگی
- مثالی جرنیل
-
Dignity of man in Islam
-
Comparative study of Religions
-
Quranic Concept of Miracles
عمر کے آخری حصے میں اگرچہ وہ جسمانی کمزوری کے باعث صاحب فراش ہوگئے تھے مگر ان کی ذہنی صلاحیتیں اور روحانی معمولات بدستور قائم رہے۔ ان کی صحبت ومجلس میں بیٹھنے والوں کو آج بھی ان کی حسِ مزاح اور کلماتِ حکمت و بصیرت یاد ہیں۔
گذشتہ ماہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے اپنے قیام لاہور کے دوران علماء اور اساتذہ شریعہ کالج کی ایک خصوصی مجلس میں ان کے ایصال ثواب کے لئے خصوصی دعا فرمائی اور ان کی سیرت و کردار کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔