ڈاکٹر رحیق احمد عباسی
صدر پاکستان عوامی تحریک
’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘۔ محترم قارئین! یہ وہ سلوگن ہے جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں ملک پاکستان میں رائج فرسودہ و کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے پاکستان عوامی تحریک نے بلند کیا۔ شیخ الاسلام اور پاکستان عوامی تحریک نے اس نظام کے خلاف علمِ بغاوت کیوں بلند کیا۔۔۔؟ دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے جارہی تھیں مگر PAT نے اس کرپٹ نظام کا حصہ بننے سے انکار کیوں کیا۔۔۔ ؟ لانگ مارچ اور پولنگ ڈے پر ملک بھر میں دھرنوں کا کیا جواز تھا۔۔۔؟ الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل پر شیخ الاسلام نے اعتراض کیوں کیا۔۔۔؟ مک مکا پر مبنی الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں نے کیا گل کھلائے۔۔۔؟ نام نہاد سکروٹنی کی حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب انتخابات کے نتائج کے بعد پوری قوم جان چکی اور شیخ الاسلام کے موقف کی سچائی اظہر من الشمس ہوچکی ہے۔ آیئے! شیخ الاسلام کی جدوجہد، حالیہ انتخابات کے پس منظر، انتخابات کے نتائج اور ملک کی آئندہ صورتحال پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
شیخ الاسلام کے مطالبات
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 23 دسمبر 2012ء مینار پاکستان پر لاکھوں لوگوں کے سامنے استحکام پاکستان کے لئے اپنا ایجنڈا دیتے ہوئے فرمایا:
’’میں جو ایجنڈا، تجویز اور منصوبہ دے رہا ہوں وہ آئین پاکستان کے مطابق ہے اور پاکستان کے آئین کی ایک شق بھی اس سے الگ نہیں۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ آئین پاکستان کس طرح کے انتخابات چاہتا ہے؟ میں پاکستان کے آئین کا پابند ہوں۔ نظام انتخاب کو اس آئین کے تابع کریں گے اور آئین کو حکمران بنائیں گے۔ میری غرض صرف اور صرف آئین پاکستان سے ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں اس آئین کے مطابق ہوں۔ آئین کی ساری شرائط پر عمل ہو، آئین پاکستان کے مطابق نمائندے منتخب کیے جائیں، آئین پاکستان کے مطابق انتخابی نظام کا ماحول دیا جائے اور آئین پاکستان کے مطابق دیانتدرانہ، genuine elections کی ضمانت مہیا کی جائے۔ اگلے انتخابات اگر نظام انتخاب کو بدلے بغیر اور electoral reforms کے بغیر کرا دئیے گئے تو وہ انتخابات آئین کے خلاف ہوں گے۔ اگر وہی خائن، جعلی ڈگریوں والے اور آئین کو پامال کرنے والے لوگ پھر الیکشن میں حصہ لینے کے اہل قرار دیئے گئے تو یہ قوم کے ساتھ ایک مذاق ہوگا۔ ہم ڈرائنگ رومز کے اندر دو پارٹیوں کا آپس کا مک مکا قبول نہیں کریں گے‘‘۔
23 دسمبر کے خطاب میں شیخ الاسلام نے اپنے ایجنڈے کی واضحیت کے بعد 13 جنوری تا 17 جنوری 2013ء لانگ مارچ کے دوران قوم و ملک کی رہنمائی کے لئے انتخابی اصلاحات کا درج ذیل آئینی پیکج دیا:
- انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 دن کا وقت ہو تاکہ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے لیے انتخابی اصلاحات کے نفاذ یا امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کے لیے مناسب وقت میسر آئے۔
- کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لیے سات دن کی بجائے ایک ما ہ کا وقت دیا جائے تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی اہلیت کا تعین کر سکے۔
- انتخابات سے پہلے آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 (3) پر عمل درآمد پر خصوصی توجہ دی جائے۔
- عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل 77 تا 82 اور سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات سے متعلق 8 جون 2012ء کو صادر ہونے والے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے (یہ آرٹیکلزانتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایمان دارانہ بنیادوں پر انعقاد اور ہر قسم کے بدعنوانی کے معمولات کے تدارک سے متعلق ہیں)۔
- الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے مطابق نہیں ہوا۔
اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن میں سابقہ حکومت نے ان تمام مطالبات کو تسلیم کیا، اس پر عملدرآمد کا یقین دلایا مگر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لئے راضی نہ ہوئے۔ شیخ الاسلام نے الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے نقصانات اور آئندہ انتخابات میں ان کے کردار کوجنوری 2013ء میں ہی قوم کے سامنے واضح کردیا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن غیر آئینی طور پر تشکیل پایا ہے۔ چاروں صوبوں سے 15 ناموں میں سے باقاعدہ سماعت کے بعد 5 افرادکا تقرر کرنا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ لہذا یہ کمیشن دو سیاسی جماعتوں کے آپس کے مک مکا کا نتیجہ ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ انتخابات کے لئے آئین و قانون میں موجود جملہ آرٹیکلز کا نفاذ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہوتا ہے اور وہ ادارہ جو خود غیر آئینی و غیر قانونی طریقہ سے سیاسی جماعتوںکا احسان مند ہوکر معرض وجود میں آیا ہو وہ کس طرح قانون و آئین کی بالادستی کو یقینی بناسکتا ہے بلکہ وہ تو فطرتی طور پر اپنے ’’محسنوں‘‘ کو ہر قدم پر ’’رعایت اور مدد‘‘ فراہم کرے گا۔
الیکشن سے قبل الیکشن کمیشن کا مکروہ کردار
محترم قارئین! شیخ الاسلام نے جس الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کے خلاف آواز بلند کی پوری قوم نے الیکشن سے پہلے سے لے کر انتخابات کے نتائج تک ہر قدم پر ان کے مکروہ کردار کو دیکھ لیا۔ ذیل میں اس کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
- تقریباً 27 ہزار کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی گئی لیکن ٹیکس چوری، قرض ڈیفالٹ، اثاثوں کے غلط اعلان یا جھوٹ کا کوئی ایک واقعہ بھی پکڑا گیا نہ منظر عام پر آیا۔ یہ خود بخود نہیں ہوا بلکہ واضح طور پر اس کی منصوبہ بندی کی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی غیر آئینی تشکیل کا مقصد ہی یہ تھا کہ اہم جماعتوں کے سیاسی طور پر تقرر کردہ یہ افراد اپنے سرپرستوں کے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ ضعیف العمر چیف الیکشن کمشنر، غیر آئینی الیکشن کمیشن اور ’’مک مکا‘‘ نگراں حکومت کے پاس وہ اختیارات یا حوصلہ ہی نہیں تھا کہ وہ اسٹیک ہولڈرز کو چیلنج کرسکے۔
- اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر کے غیر فعال کردار نے اسکروٹنی کے پورے عمل کی ساکھ تباہ کردی۔ کسی امیدوار کو بینک یا کسی یوٹیلٹی کمپنی کا ڈیفالٹر قرار نہیں دیا گیا۔
- الیکشن کمیشن کو امیدواروں کی مناسب جانچ پڑتال کے لئے ایک ماہ کا وقت دینے کی تجویز کو مسترد کرنے کی حکمت عملی سے بالآخر مقصد حاصل ہوگیا۔ لنگڑی لولی سکروٹنی کی گئی جو کہ ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانے کی بنیاد پر کسی بڑے سیاستدان کو نکال باہر کرنے میں ناکام رہی۔ ریٹرنگ افسران نے ٹیکس چوروں سے ٹیکس چوری اور قرضہ خوروں سے قرضہ واپس نہ کرنے کے متعلق سوالات ہی نہ کئے اور نہ ہی ان کے اربوں روپے کے اثاثہ جات پر کوئی سوال اٹھایا۔
- عدلیہ کا کردار بھی غیر جانبدار نہ تھا۔ قرض نادہندگی کے بڑے کیسز جو سالوں سے اعلیٰ عدلیہ کے پاس زیر التوا تھے ان کی سماعت نہ کی گئی اور نہ ہی ایسے کیسز کو جلد نمٹانے کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیا گیا۔
- سوال یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کی تیار کردہ ڈیفالٹرز لسٹیں کدھر گئیں جو بکسوں میں بھر کر کمیشن میں پہنچائی گئی تھیں۔۔۔؟ نیب کا تیار کردہ چوروں کا ڈیٹا کدھر گیا۔۔۔؟ FBR نے ٹیکس چوروں کی لسٹ تیار کی تھی وہ کہاں گئی۔۔۔؟ گذشتہ 3 سال کی Tax ریٹرن جمع نہ کروانے والا الیکشن نہ لڑسکے گا یہ بات کہاں گئی۔ جعلی ڈگریوں والے اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے یہ دعویٰ کہاں گیا۔۔۔؟ سب باتیں مٹی میں مل گئیں۔
- لوگ اربوں کھربوں کھاکر ہڑپ کرگئے، ان کی اہلیت کو آئین کی شق 62 اور 63 کے مطابق جانچنے کے بجائے کلمے، دعائیں سنی گئیں،، شادیوں کی تعداد اور بے مقصد سوالات پوچھے گئے اور اسی طرح شق 62 اور 63 کے غلط اطلاق سے آئین کا مذاق اڑایا گیا۔
- نگران حکومت کا انتظامیہ کے معاملے میں صوبوں میں بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کا ڈرامہ بھی ہوا تاکہ انتظامیہ کو غیر جانبدار کیا جاسکے لیکن اہم ترین عہدوں پر سابقہ حکومتوں کے ہی من پسند افراد براجمان رہے۔
- صاف شفاف انتخابات کی ایک پرامن ماحول میں انتہائی باکردار اور غیر متنازع شخصیات کی زیر نگرانی منعقد ہونے کی توقعات انتخابات سے قبل تحلیل ہوچکی تھیں۔ متنازع الیکشن کمیشن ہر روز بوکھلاہٹ میں دکھائی دیتا تھا۔ کبھی حد بندیاں، کبھی حلقہ بندیاں، کبھی جعلی ڈگریوں پر کاروائی اور پھر پسپائی، کبھی سیاستدانوں کے خلاف نادہندہ ہونے کا الزام لگاکر خود ہی معافیاں مانگنا۔۔۔ پہلے بیلٹ پیپر پر خالی خانہ کی تجویز دی اور پھر سیاسی رہنماؤں کے دباؤ میں آکر اس کا اطلاق بھی نہ کیا کیونکہ سیاسی رہنماؤں نے اسے اس کرپٹ نظام کے خلاف ریفرنڈم سمجھتے ہوئے اسے جمہوری اقدار کی ہی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ پس الیکشن کمیشن سکروٹنی کے عمل کے دوران سیاسی دباؤ برداشت نہ کر پایا۔
الغرض شیخ الاسلام کی طرف سے آئین کی حقیقی معنوں میں پاسداری کے قیام کے لئے اور حقیقی جمہوریت کے قیام لئے جو مطالبات پیش کئے گئے الیکشن کمیشن نے ان پر عملدرآمد نہ کیا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے الیکشن کو شفاف بنانے اور حقیقی جمہوریت کے نفاذ کے لئے آئین پر عملدرآمد کے لئے کوئی ٹھوس فیصلہ صادر کیا۔ حکومت و اپوزیشن دونوں نے محض اپنے سطحی مفادات اور آئندہ آنے والے دنوں میں ایوان اقتدار پر اپنی ہی وراثت و ملکیت کا سکہ جمانے کے لئے ان مطالبات کو مسترد کرنے کے لئے ہر منفی ہتھکنڈہ استعمال کیا۔
انتخابات سے قبل شیخ الاسلام کے مطالبات کی عوام الناس میں مقبولیت اور اثر پذیری کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر جعلی ڈگری، قرض خور، ٹیکس چور کا راستہ روکنے اور 30 دن پر مبنی سکروٹنی کے اطلاق پر الیکشن کمیشن نے زبردست بیان بازی کی، جسے عوام میں بھرپور پذیرائی ملی مگر آخری دنوں میں ان تمام کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اور کسی ایک بھی شخص کو آئین کے آرٹیکل 63,62 کے مطابق نااہل قرار نہ دیا گیا۔ ان کی بیان بازی کا مقصد محض شیخ الاسلام اور پاکستان عوامی تحریک کے مطالبات کی اثر پذیری اور مقبولیت کو عوام الناس میں ختم کرنا تھا کہ ہم تو ’’آزاد‘‘ ہیں ہم نے پہلے ہی سے ان اقدامات کے اطلاق کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف حیلے بہانوں سے ان مطالبات کے حقیقی اطلاق سے پیچھے ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ الیکشن سر پر آپہنچے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے مفادات کا محافظ اور ان جماعتوں کے ہی نمائندوں پر مشتمل تھا جو ہر صورت آئین و قوانین کے کماحقہ اطلاق کو روکنے کی قسم کھائے بیٹھا تھا۔
انتخابات کے نتائج
انتخابات سے قبل کی صورت حال کے پس منظر اور انتخابات کے دوران ہونے والی تاریخی دھاندلی کے پیش نظر پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور شہری ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ دھماکوں، جھگڑوں اور سرِ عام دھاندلیوں کے شرمناک اور افسوسناک مناظر کے درمیان منعقد ہونے والے انتخابات مشکوک ہی نہیں بلکہ ان انتخابات کی Creditability ہی ختم ہوچکی ہے۔ پورے ملک میں دھماکے، جھگڑے اور دھاندلیاں عام رہیں۔ بعض نام نہاد دانشور اور سیاسی جماعتوں کے کرائے پر حاصل کئے گئے تجزیہ نگار اور طفیلئے موجودہ انتخابات کے نتائج ہی کو تبدیلی سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان کرائے کے مسخروں کے نزدیک اگر یہ تبدیلی ہے، تو یہ ’’تبدیلی‘‘ پھر ان ہی کو مبارک ہو۔ کیا موجودہ انتخابات میں کسی ایک پارٹی نے بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کرلی ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رْخ درست کرسکے۔۔۔؟ ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلاسکے۔۔۔؟ روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، صحت، تعلیم سے پاکستانیوں کو بہرہ مند کرسکے۔۔۔؟ یا پاکستان کو حکومت سازی، فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں آزاد کرسکے؟ دراصل ایسا کچھ نہیں ہوا اور اس سسٹم میں رہتے ہوئے نہ ہوگا۔ انتخابات کے نتیجے میں اْبھر کر آنے والی تین بڑی جماعتوں کے پروگراموں، پالیسیوں اور حکمت عملی میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جس سے حکمران طبقوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچے یا طاقتور اداروں کے اختیارات میں کوئی کمی آئے۔
انتخابات کے نام پر جو کچھ پنجاب میں ہوا کیا وہ کسی سے پوشیدہ ہے۔۔۔جو سندھ اور کراچی میں ہوا کیا اس کو تبدیلی کہیں گے۔۔۔؟ سوال یہ ہے کہ اگر ہر جماعت کو یہ شکوہ ہے کہ صاف اور آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے تو پھر گڑبڑ کہاں سے ہوئی۔۔۔؟ کس نے کی۔۔۔؟ دراصل ان آزادانہ انتخابات کے معنی یہ تھے کہ جس کے بازو میں جتنا دم ہو وہ اتنی نشستیں لے لے۔
کوئی بھی ایک جماعت ایسی نہیں جو دھاندلی کے الزامات نہ لگارہی ہو۔ 1977ء کے بعد ہونے والے انتخابات میں سے حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دھاندلی کے ثبوتوں کے ساتھ چیخ و پکار کررہی ہیں اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور دوبارہ انتخابات تک کے مطالبات کئے گئے اور ان مطالبات کو منوانے کے لئے دھرنے بھی دیئے گئے۔ سندھ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) شور مچارہی ہیں۔۔۔ خیبر پختونخواہ میں مذہبی جماعتیں نتائج کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔۔۔ جبکہ بلوچستان میں علاقائی جماعتیں انتخابات کے نتائج کو اپنے مینڈیٹ پر ڈاکہ قرار دے رہی ہیں۔ گویا ہر طرف چیخ و پکار کا عالم ہے۔
آعندلیب مل بیٹھ کر کریں آہ و زاریاں
میں پکاروں ہائے دل تو پکارے ہائے گل
ان انتخابات کے نتیجہ میں یاد رکھ لیں! دودھ کے دریا ہرگز نہیں بہیں گے بلکہ کشت و خون کا ایک بازار گرم رہے گا۔ حسب سابق سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور اراکین اسمبلی اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔ اس فرسودہ سیاسی نظام کی ستم ظریفیوں کی بناء پر بالآخر مملکت پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوگی، معاشرتی و معاشی انحطاط جاری رہے گا۔ اس لئے کہ کوئی ایک بھی جماعت قومی جماعت کی حیثیت سے سامنے نہیں آئی جسے چاروں صوبوں کی نمائندہ جماعت کا ٹائیٹل دیا جاسکے جبکہ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ پورے پاکستان کی عوام کے اعتماد کی حامل جماعت برسر اقتدار آئے جو اس گھمبیر صورتحال سے ملک و قوم کو نجات دلائے مگر اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اسی طرح کے انتخابات ممکن ہوسکتے ہیں جس کے نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں۔
اس مرتبہ بھی حسب سابق ملک میں کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی بلکہ ہر جماعت مرکز اور چاروں صوبوں میں سے کسی نہ کسی جگہ برسراقتدار ہوگی۔ یہی وہ سازش تھی جس کی طرف شیخ الاسلام نے 23 دسمبر اور اس کے بعد متعدد مرتبہ توجہ دلوائی کہ اس نظام کے ذریعے انتخابات میں مرکز سے لے کر صوبوں تک ہر کوئی ’’مک مکا‘‘ کرکے آئے گا۔۔۔ حکومت بھی ’’مک مکا‘‘ کا نتیجہ ہوگی۔۔۔ نام نہاد اپوزیشن بھی مک مکا کے نتیجے میں ایک طرف اپوزیشن اور دوسری طرف حکومت کا حصہ ہوگی اور کسی جگہ پر بھی حقیقی اپوزیشن دیکھنے کو نہ ملے گی۔
ان انتخابات کے نتائج کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کو بالآخر NRO کا پھل 14 سال بعد وفاق و پنجاب میں اکثریت کی صورت میں ملا۔۔۔ پیپلز پارٹی کا سندھ پر غلبہ۔۔۔ MQM کی کراچی پر گرفت۔۔ تحریک انصاف کو پنجاب کے پہلوان کی ’’طاقت‘‘، ’’اثرو رسوخ‘‘ اور ’’تجربہ‘‘ کی وجہ سے پنجاب کے بجائے خیبر پختونخواہ دیا گیا۔۔۔ بلوچستان علاقائی، لسانی اور مذہبی قوتوں کے درمیان لٹکادیا گیا۔ الغرض کوئی پارٹی ملک گیر پارٹی نہیں رہی۔
دھن، دھونس، دھاندلی کے کمالات
ان انتخابات میں کلیتاً ہر سطح پر جھوٹ اور جعل سازی کا رواج عام رہا۔ جھوٹی سکروٹنی، جعلی ڈگریاں، جھوٹے گوشوارے، جھوٹے اثاثہ جات۔۔۔ سوال پھر قوم سے کہ کیا اس جھوٹ پر تشکیل پانے والی پارلیمنٹ کے اراکین کبھی قوم سے سچ بول سکیں گے۔۔۔؟ کیا ان کے اندر اخلاقی و سیاسی جرات ہوگی۔۔۔؟
قوم سے جھوٹ کا آغاز انتخابی اخراجات کے گوشواروں کے داخل کرانے سے ہوچکا۔ ہر قومی اسمبلی کا ممبر یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ اخراجات 15 لاکھ ہی کئے جبکہ صوبائی اسمبلی کا ممبر بھی 10 لاکھ اخراجات ہی کا دعویٰ کررہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پوری قوم نے انتخابی اخراجات کی مد میں جو اخراجات دیکھے ان کے سامنے تو 10، 15 لاکھ روپے کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اخراجات کی Limit پر کسی نے عمل نہیں کیا بلکہ ہر کوئی جھوٹے بیانات جمع کروارہا ہے جبکہ اس مد میں اربوں روپے کے اخراجات کئے گئے۔ اگر صرف اخبارات اور TV چینلز پر چلنے والے اشتہارات اور انتخابی مہم کا خرچ ہی دیکھ لیا جائے تو یہ 20 ارب روپے سے تجاوز کرجاتا ہے۔
یہ اخراجات کہاں سے ہوئے۔۔۔؟ کیا سیاسی جماعتوں کے پاس اتنی رقم موجود تھی۔۔۔؟ موجود تھی تو کیا اسے پارٹی گوشواروں میں انتخابات سے قبل ظاہر کیا گیا۔۔۔؟ اگر گوشواروں میں رقم موجود نہ تھی تو کہاں سے آئی۔۔۔؟ اگر امیدوار نے یہ رقم دی تو کیا اس نے اپنے گوشوارے میں اس کو ظاہر کیا تھا۔۔۔؟ اگر امیدوار نے یہ رقم خرچ کی ہے تو کیا اب اسے انتخابی اخراجات کے گوشواروں میں شامل کررہے ہیں۔۔۔؟
ان تمام سوالات کے صحیح جوابات اس کرپٹ، ظالمانہ مہنگے ترین نظام انتخابات اور اس میں حصہ لینے والے سرمایہ دار و جاگیردار اور ملک و قوم پر 65 سالوں سے مسلط طبقات کا اصل چہرہ ہیں۔ ذیل میں قارئین کی دلچسپی کے لئے الیکشن کمیشن میں انتخابات سے قبل جمع کروائے گئے سیاسی جماعتوں کے گوشواروں کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے:
- پاکستان پیپلز پارٹی 4 لاکھ 35ہزار 397 روپے
- پاکستان مسلم لیگ(ن) 7 کروڑ 70 لاکھ روپے
- پاکستان تحریک انصاف 94 لاکھ 60 ہزار روپے
- جمیعت علمائے اسلام 2 کروڑ 70 لاکھ روپے
- جماعت اسلامی 18 لاکھ 50 ہزار روپے
- متحدہ قومی موومنٹ 1 کروڑ 90 لاکھ روپے
کیاان جماعتوں کی طرف سے کئے گئے جملہ انتخابی اخراجات ان جماعتوں کے ظاہر کئے گئے اثاثہ جات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں؟ بالفرض ان جماعتوں کو عطیات کی مد میں بڑی رقوم موصول ہوئیں تو کیا ان پر ٹیکس ادا کیا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، نگران حکومت اور برسر اقتدار آنے والی جماعتوں کے باہمی ’’مک مکا‘‘ کو ظاہر کررہے ہیں۔
’’تبدیلی‘‘ کے خواہشمند اور مذہبی جماعتوں کا منطقی انجام
اس ظالمانہ نظام انتخاب میں تبدیلی کی خواہش لے کر حصہ لینے والوں نے نتائج دیکھ لئے۔ ان کی انتھک کاوشیں اور اربوں روپے کے اخراجات بھی اس ظالم انتخابی نظام کی نذر ہوگئے اور یہ نظام ان کی منزل کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ شیخ الاسلام نے انہیں لانگ مارچ میں شرکت کی خصوصی دعوت دی کہ آئیں تاکہ حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے مگر اپنے بڑے بڑے اجتماعات، مال و دولت کی کثرت اور روایتی سیاسی جماعتوں سے سرمایہ دار و جاگیرداروں کے ساتھ شامل ہونے کے زعم میں مبتلا ’’تبدیلی‘‘ کی خواہشمند قیادت خود بھی مایوس ہوئی اور اپنے ساتھ شامل افراد اور قوم کو بھی مایوسی سے دوچار کیا۔ اب دھاندلی کا شور مچانے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کیونکہ چڑیاں کھیت کو چُگ چکی ہیں۔ یہ نظام روایتی سیاستدانوں، جاگیرداروں و سرمایہ داروں کے علاوہ کسی اور کو آگے لانے کا ہرگز کوئی موقع اس لئے فراہم نہ کرے گا۔ حقیقی تبدیلی کے خواہش مند کو اس نظام کی تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی جو پاکستان کا حقیقی دشمن ہے اور تبدیلی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس نظام انتخابات نے جہاں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو مایوس کیا وہاں روایتی مذہبی جماعتوں کو بھی رسوائی و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک منہاج القرآن کے لانگ مارچ کے دوران جو مذہبی جماعتیں آئین کی پاسداری پر مشتمل شیخ الاسلام کی جدوجہد کے خلاف رائے ونڈ میں اکٹھی ہوئیں، ان انتخابات کے نتائج نے اُن کو بھی آئینہ دکھادیا اور ان کا کوئی بھی مرکزی قائد پارلیمنٹ پہنچنے سے محروم رہا۔ پورے ملک سے صرف چند ہزار ووٹ ان کی 65 سال سے زائد کی محنت کے ’’ثمر‘‘ کے طور پر سامنے آیا۔۔۔ صرف خیبر پختونخواہ سے قومی کی 3 اور صوبائی کی 7 نشستوں پر کامیاب رہے۔ کراچی میں انہوں نے دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ لاہور سے محترم حافظ سلمان بٹ صرف 952 ووٹ لے سکے۔۔۔ محترم فرید پراچہ کے حصے صرف 2ہزار 994 ووٹ آئے۔۔۔ جبکہ محترم لیاقت بلوچ 3 ہزار 226 ووٹ لے کر مرکزی قائدین میں ’’سر فہرست‘‘ رہے۔۔۔ یہی صورتحال جمعیت علمائے اسلام کی رہی۔ صرف خیبر پختونخواہ سے 10 نشستیں ’’اسلام‘‘ اور ’’کتاب‘‘ کے نام پر حاصل کیں بقیہ پورے ملک میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی ان کے بیلٹ بکس سے کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔۔۔ ملک کے نامور سائنسدان جو شیخ الاسلام کی بحالی آئین کی جدوجہد پر بڑا معترض تھے وہ بھی اپنی ’’سائنسی خدمات‘‘ کا قوم کو واسطہ دیتے رہے مگر ان کے تمام امیدوار ملک بھر سے اپنی ضمانتیں ہی ضبط کروابیٹھے۔
دھاندلی کے شرمناک مناظر
کیا آپ نے کبھی سنا کہ دنیا کے کسی ملک میں ابھی پولنگ جاری ہو اور انتخابات کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوجائیں۔۔۔؟ ابھی ووٹوں کی گنتی جاری ہو اور کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ملک بھر سے کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت بنانے کے لئے بقیہ جماعتوں کو دعوت بھی دے دے اور عالمی رہنماؤں سے مبارکبادیں بھی وصول کرے۔۔۔؟
محترم قارئین! یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے جس میں حالیہ انتخابات میں یہ سب ہوگیا جو دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں ابھی تک نہیں ہوا۔ ایک طرف پولنگ سٹیشن وائز نتائج کا اعلان جاری ہوگیا اور دوسری طرف پورے ملک میں پولنگ کے وقت میں 1 گھنٹے کا اضافہ کردیا گیا۔ یہ تمام کام ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ ابھی ووٹوں کی گنتی جاری تھی کہ حالیہ انتخابات کے نتائج کی صورت میں اکثریت ’’لینے والی‘‘ جماعت کے قائدین کامیابی کا اعلان بھی کرگئے۔
ان انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ویڈیو فوٹیج تک سامنے آگئیں۔ کسی جگہ پریزائیڈنگ آفیسرز۔۔۔ کسی جگہ پولنگ سٹیشن پر تعینات عملہ۔۔۔ کسی جگہ امیدوار اور کسی جگہ امیدواروں کے سپورٹرز۔۔۔ ٹھپے اور انگوٹھے لگاتے نظر آئے۔ لاکھوں کے حساب سے جعلی بیلٹ پیپر تک سامنے آگئے۔ الیکشن کمیشن کی بے حسی اور نااہلیت کے قصے زبان زد عام ہیں۔ درجنوں پولنگ سٹیشن پرنہ عملہ موجود اور نہ ہی پولنگ سے متعلقہ اشیاء۔ الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل اسی دن اور اسی مقصد ہی کے لئے تو عمل میں لائی گئی تھی۔ جب ان کی توجہ دھاندلی کی طرف ثبوتوں کے ذریعے کروائی گئی تو کہا گیا کہ کوئی شکایت آئی تو ضروری اقدام کریں گے۔ غیر آئینی تشکیل شدہ الیکشن کمیشن اپنی 84 سالہ قیادت کے زیر سایہ سب کچھ جاننے کے باوجود آنکھیں بند کئے بیٹھا رہا۔ سپریم کورٹ کے جج بھی اپنے ’’محسنوں‘‘ کو ان کے احسان کا بدلہ دینے کے لئے خاموشی اختیار کئے بیٹھے رہے اور کوئی بھی سوموٹو ایکشن دیکھنے سننے میں نہ آیا۔
کئی حلقوں میں ووٹروں کی تعداد سے بھی زائد ووٹ بیلٹ بکسز سے اس نظام انتخابات کو منہ چڑاتے ہوئے برآمد ہوئے۔۔۔ کسی جگہ قومی اسمبلی اور اس کے ماتحت صوبائی حلقوں کے کل ووٹوں کے واضح فرق نے دھن، دھونس اور دھاندلی کا منہ بولتا ثبوت فراہم کیا۔۔۔ اگر Forensic Test کے ذریعے نادرا کے ریکارڈ میں موجود انگوٹھوں کے نشانات کو شناخت کیا جائے تو اس دھاندلی کو کرنے والے، اس کے منصوبے ساز تمام منظر عام پر آسکتے ہیں مگر یہ نہیں ہوگا۔۔۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آئیں گے۔۔۔ کئی عدالت، امانت اور صداقت شعاری میں مشہور بے نقاب ہوں گے۔۔۔ لہذا اس دھاندلی کے الزامات کی گرد کو بھی کسی نہ کسی بہانے اور کوئی نیا ’’کٹا‘‘ کھول کر بٹھا دیا جائے گا۔ شیخ الاسلام کی پیشین گوئی کے عین مطابق ’’تبدیلی‘‘ والے ’’سٹیٹس‘‘ کو والوں کے ساتھ اتحاد و اتفاق کرچکے۔ خیبر پختونخواہ کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے اس شخصیت کا انتخاب عمل میں آیا جو پیپلز پارٹی، شیر پاؤ گروپ اور ANP میں رہا اور آخری وقت میں PTi کے ساتھ شامل ہوگیا۔ یہ سب اسی ظالمانہ، کرپٹ اور فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام ہی کے شاخسانے ہیں۔
پرانے چہرے
ان انتخابات میں پھر وہی افراد اور گھرانے ایک مرتبہ پھر اسمبلیوں میں پہنچے جن کو اقتدار، جاگیریں اور سرمایہ وراثت میں ملا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 146 اُن افراد کو الیکشن لڑایا جو دوسری پارٹیاں چھوڑ کر ان سے ملے۔ اس جماعت کے 123 میں سے 55 امیدوار دوبارہ انہی حلقوں سے کامیاب ہوکر اسمبلی پہنچے جن سے وہ 2008ء میں کامیاب ہوئے تھے۔
انتخابات ہو گئے کون جیتا کون ہارا، کس نے کتنے ووٹ لیے؟ یہ سب عارضی باتیں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا انتخابات سے جمہوریت کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔۔۔؟ کوئی ایسی راہ نکلے گی کہ ان انتخابات میں نہ سہی آنے والے وقتوں میں لوگوں کو اپنی مرضی سے نمائندے چننے کا اختیار مل جائے گا۔۔۔؟ کیا لوگوں کے دکھوں کا کوئی درمان ہوگا۔۔۔؟ پاکستان جس معاشی اور سیاسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کیا اس میں سے نکل سکے گا۔۔۔؟
محترم قارئین! جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات کا انعقاد نہیں بلکہ انتخابات جمہوریت تک پہنچنے کا ایک راستہ ہیں۔ افسوس ہم نے راستے کے لئے ہی اپنی تمام کاوشیں صرف کردیں اور ان ہی کو اصل منزل سمجھ لیا۔ نیز راستہ بھی وہ چنا جو ہمارے معاشرے کے لئے متقاضی جمہوریت کے لئے موزوں نہیں۔ لہذا حقیقی جمہوریت کی منزل کو پانے کے لئے نظام انتخابات میں تبدیلی کے ذریعے درست راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم دائروں میں سفر کرتے رہیں گے اور قوم کو لہو کے بیل کی مانند سفر تو کرے گی مگر منزل تک نہ پہنچ پائے گی۔
پاکستان عوامی تحریک کا جرات مندانہ کردار اورآئندہ لائحہ عمل
پاکستان عوامی تحریک نے الیکشن سے قبل متعدد بار قوم کو آگاہ کیا تھا کہ موجودہ نظام انتخاب کے تحت کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ الیکشن کمیشن غیر آئینی ہے اس لئے آزادانہ، شفاف اور Fair الیکشن نہیں کراسکے گا اور الیکشن کے فوراً بعد جماعتیں دھاندلی کا واویلا کریں گی۔ آج حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے ہر جماعت الیکشن کمیشن کی نااہلی، بے حسی اور جانبداری کا رونا روتے اور ان کے خلاف دھرنے دیتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ موجودہ نظام عوام کے حقیقی نمائندوں کو نہیں بلکہ Electables (جیتنے والے گھوڑوں) کو ہی جیتنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس میں دھن، دھونس اور دھاندلی جیتتے ہیں۔ منشور، اہلیت اور کردار کا اس نظام انتخاب میں کوئی حصہ نہیں۔ اس الیکشن میں دھن سب نے لگایا، دھونس کی بھی کمی نہیں رہی۔ اس کرپٹ نظام انتخاب نے اب تک قوم کو کچھ نہیں دیا اور آئندہ بھی عوام کے مسائل حل نہ ہوسکیں گے۔ یہ نظام ملک و قوم کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ ہمیشہ Electable کو ہی جتاتا رہے گا۔ جو پارٹیاں تبدیل کرکے کبھی ادھر کبھی ادھر جاتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے واضح طور پر کہا تھا کہ کوئی پارٹی لیڈر اس قوم کا دشمن نہیں بلکہ یہ ظالمانہ نظام انتخاب اس قوم کا دشمن ہے۔ شیخ الاسلام اور پاکستان عوامی تحریک کی جدوجہد کسی فرد، پارٹی یا خاندان کے خلاف نہیں ہے بلکہ کرپٹ نظام انتخاب کے خلاف ہے۔
اس فرسودہ اور عوام کش نظام انتخابات اور ملک پاکستان میں رائج سیاست کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے ہے۔ اگر صرف حالیہ انتخابات اور اس میں آزمائے گئے ’’ہنر‘‘ ہی کو موضوع بحث بنایا جائے تو ایک ضخیم کتاب منظر عام پرآسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب قوم فیصلہ کرے کہ اس نے اس نظام انتخابات کو بدلنا ہے یا اس سے مزید دھوکے کھانے ہیں۔ اس ملک میں کوئی حقیقی اپوزیشن نہیں، اب حقیقی اپوزیشن کا کردار پاکستان عوامی تحریک پارلیمنٹ سے باہر رہ کر ادا کرے گی۔ اس نظام کے خلاف PAT کی پُرامن انقلابی جدوجہد جاری رہے گی۔ لہذا ہر درد مند پاکستانی اور باشعور شہری جو اس نظام سے بیزار ہے اسے اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی اور حقیقی تبدیلی کے لئے شیخ الاسلام کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا تاکہ اس جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن مبارکباد کے مستحق ہیں جو اپنے قائد کے شانہ بشانہ جرات اور استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وقت نے شیخ الاسلام کی ایک ایک بات کو سچ ثابت کردکھایا۔ مخالفین زخم چاٹ رہے ہیں اور ہمارے ایجنڈے کو منفی انداز میں پیش کرنے والے، ہمارے قائد کی کردار کشی کرنے والے اور ان کی نیت پر شک کرنے والے اپنی بغلیں جھانک رہے ہیں۔
ان شاء اللہ العزیز کامیابی شیخ الاسلام، تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے موقف کا مقدر ہے۔ اس کرپٹ نظام کی تبدیلی تک ہماری پرامن عوامی جمہوری جدوجہد ہر سطح پر آئینی و قانونی حدود میں رہ کر جاری و ساری رہے گی۔ ہم اس کرپٹ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف بیداری شعور کے علم کو تھامے آگے بڑھتے رہیں گے۔ پاکستان کی بقا کی واحد امید صرف اور صرف جمہوری نظام میں بڑی تیزی سے بنیادی تبدیلیاں لانے میں ہی ہے۔ جب تک انتخابی اصلاحات مکمل طور پر درست طریقے سے لاگو نہیں ہوں گی تب تک وہی بدعنوان لوگ دوبارہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بنیں گے اور یہی لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں، آدھی جنگ تو لیڈروں کے صحیح انتخاب ہی سے کامیاب ہوجاتی ہے‘‘۔ قوم کو قائد کے اس فرمان کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ہمارے موجودہ سیاسی و انتخابی نظام و کلچر نے ایسے ’’قائدین‘‘ کو جنم دیا ہے جن سے کرپشن اور لوٹ مارکا کلچر وجود میں آیا۔ لہذا اس سسٹم کو بدلنا ہوگا تاکہ صحیح اور درست قیادت سامنے آسکے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسی کرپٹ نظام کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے اس نظام میں حصہ نہیں لیا تھا اور اب قوم نے بھی حالیہ انتخابات کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ آیئے شیخ الاسلام کے سنگ اس کرپٹ نظام کے خاتمہ اور ملک پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔