الحدیث: کسب حلال۔۔۔مغفرت و قرب الہٰی کا باعث

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت مقدام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مااکل احد طعاما قط خيرا من ان ياکل من عمل يده وان نبی اﷲ داؤد کان ياکل من عمل يده

’’کسی نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا۔ اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کما کر کھایا کرتے تھے‘‘۔

(صحيح بخاری،ج 2:ص 730)

شرح و تفصیل

اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی تھی۔ آپ ایک وسیع و عریض اور بہت بڑی سلطنت کے مالک تھے اور عد ل وانصاف کے ساتھ حکومت فرماتے تھے۔فرائض نبوت کی ادائیگی کے ساتھ ‘ آپ کے انصاف پر مبنی انداز حکمرانی ‘ کرم و سخاوت ‘ فہم و فراست اور جاہ وجلال کا ہر طرف شہرہ تھا۔ سب آپ کوایک جلیل القدر نبی اور عادل بادشاہ کی حیثیت سے پہچانتے تھے اور دل سے احترام کرتے تھے۔ اہل اللہ کی طرح بے حد تواضع پسند ‘ مسکین طبع اور منکسر المزاج تھے اور خامیاں نہ ہونے کے باوجود اپنی ذات میں خامیوں کی تلاش میں رہتے تھے تاکہ اگر کوئی خامی نظر آجائے تو اس کا ازالہ کر سکیں مگر نبی ہونے کی وجہ سے وہاں خامیوں کا نشان تک نہ تھا کیونکہ نبی ہر عیب اور خامی سے پاک ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے معصوم عن الخطاء بنا کر بھیجتا ہے۔آپ کا دستور یہ تھا کہ دور افتادہ علاقوں میں نکل جاتے اور اجنبی لوگوں سے اپنے بارے میں دریافت فرماتے۔ سب لوگ کھلے دل سے تعریف کرتے اور آپ کی ذات کو انمول ا ور بے مثل قرار دیتے۔بعض باتیں مقرب حضرات کی شان کے لائق نہیں ہوتیں۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ اپنے ان محبوب اور مقبول بندوں کو بڑے ہی پیار بھرے انداز میں‘ ان معاملات سے آگاہ فرمادیتا ہے تاکہ وہ ان کو ترک فرما دیں۔ یہتنبیہہ اور آگاہی ان کے قرب خاص اور اعلیٰ مقام و مرتبے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

داؤد علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے انسانی روپ میں فرشتہ بھیج دیا‘ جس سے آپ نے معمول کے مطابق اپنے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا:

داؤد بڑے ہی مقرب ا ور اچھے آدمی ہیں مگر ان کی ایک بات کھٹکتی ہے۔ وہ یہ کہ بیت المال سے وظیفہ لیتے ہیں، ہاتھوں سے کماکر نہیں کھاتے۔ اگر وہ محنت مزدوری کرکے کماکر کھائیں تو اور بھی اچھے ہوجائیں۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے اس تنقید اور آگاہی کو اپنے لئے اللہ کی طرف سے تنبیہہ سمجھا اور بیت المال سے وظیفہ اور گزارہ الاؤ نس لینا تر ک کر دیا اور محنت مزدوری کی طرف توجہ دی۔ زرہ سازی کا پیشہ اختیار فرمانے کا فیصلہ فرمایا۔ اس عمل میں لوہے کو آگ میں گرم کر کے کڑیاں بنانا پڑتی تھیں جو ایک دشوار ترین کام تھا۔ امور جہاں بانی اور فرائض نبوت کی ادائیگی کے ساتھ اس کام کے لئے وقت نکالنا بہت مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مشکل کو آسان کر دیا۔ وہ اس طرح کہ لوہے کو آپ کے لئے موم بنا دیا۔آپ جونہی لوہے کو ہاتھ میں پکڑتے وہ آگ میں ڈالے بغیر ہی موم کی طرح نرم ہوجاتا۔ آپ جس طرح چاہتے اسے مروڑ کرکڑیاںبنا لیتے اور ایک دوسرے میں پیوست کر کے فوراً زرہ تیار کر لیتے۔ اس صنعت خاص یعنی زرہ سازی اور اس کی ساخت کی حیرت انگیز کیفیت کا ذکر قرآن پاک میں اس طرح ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاودَ مِنَّا فَضْلًا يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَه وَالطَّيْرَ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ. اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِی السَّرْدِ.

’’اور بے شک ہم نے داؤد(ں) کو اپنی بارگاہ سے بڑا فضل عطا فرمایا، (اور حکم فرمایا) اے پہاڑو! تم اِن کے ساتھ مل کر خوش اِلحانی سے (تسبیح) پڑھا کرو، اور پرندوں کو بھی (مسخّر کرکے یہی حکم دیا)، اور ہم نے اُن کے لیے لوہا نرم کر دیا۔ (اور ارشاد فرمایا) کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور (ان کے) حلقے جوڑنے میں اندازے کو ملحوظ رکھو‘‘۔

(سبا:10.11)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْم بَاْسِکُمْ فَهَلْ اَنْتُمْ شَاکِرُوْنَ.

(الانبياء:80)

’’اور ہم نے داؤد (ں) کو تمہارے لیے زرہ بنانے کا فن سکھایا تھا تاکہ وہ تمہاری لڑائی میں تمہیں ضرر سے بچائے، تو کیا تم شکر گزار ہو؟‘‘۔

ہنرمند پیشہ ور لوگ

معیار شرافت اور سماجی قدریں بدل جانے کی وجہ سے آج کل معاشرے میں محنت مزدوری کرنے والے‘ اہل ہنر کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے اور ان کے مسائل واحوال سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ ان کی محنت و مشقت کے بل بوتے پر عیاشی کرنے والے دولت مند لوگ انہیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے ا ور مزدوری کے انتظار میں سٹرکوں پر بیٹھی ہوئی اس بے ضرر اور مسکین مخلوق کو دیکھ کر اس طرح منہ پھیر لیتے ہیں جیسے وہ انسان نہ ہوں اور گاڑی تیز کر کے ان کے ہجوم سے یوں نکل جاتے ہیں جیسے وہ انہیں چمٹ جائیں گے۔

یہ انداز خسروانہ اس لئے ہے کہ انہیں محنت کی عظمت اور اللہ کے ہاں اس کی قدرو قیمت کا پتہ نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یہ بھوک سے مرجھائے ہوئے چہرے‘ پسینے میں شرابور کالے بدن ‘ چلچلاتی دھوپ میں ہتھوڑا چلانے والے کھردرے ہاتھ اور زندگی کی آسائشوں اور بنیادی ضرورتوں سے محروم یہ لوگ کسی عزت و احترام کے مستحق نہیں کیونکہ ان کے پاس دولت کے انبار اور عیش و عشرت کے وہ لوازمات نہیں جوہمارے پاس فراوانی کے ساتھ ہیں۔

اللہ کے ہاں عزت و عظمت اور قدر و منزلت کا یہ بے معنی اور دنیا دارانہ معیار نہیں ہے۔ اس کے ہاں قابل احترام اور عزت وآبرو والا وہ شخص ہے جو غیر ت مند، باوقار، محنتی اور خود دار ہے اور کسی کے ہاتھوں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اور اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلا نا گوارا نہیں کرتا۔ دنیا کا ذہن یہ ہے کہ دوسروں کو بے وقوف بناؤ، ان کی مجبوری، بھولپن اورناتجربہ کاری سے بھرپور فائدہ اٹھاؤ اور ان کی جسمانی قوت و طاقت اور محنت و مشقت سے اپنے لئے لذت کشید کرو۔ جو شخص جتنا زیادہ مکار و عیاراور دوسروں سے کام نکالنے کا ماہر ہو، اسے اتنا ہی کامیاب اور ہوشیار تصور کیا جاتا ہے اور وہ بھی خود کو بڑا دانا سمجھتا ہے۔لیکن اللہ کے ہاں یہ طرز عمل دانائی نہیں بلکہ کمینگی ہے۔ دوسروں کی محنت پرگل چھرے اڑانا اور ان کے حقوق غصب کرکے ‘ اپنے محلات اور عشرت کدے تعمیر کرنااور انہیں محنت کا غیر منصفانہ معمولی معاوضہ دے کرٹرخادینا اور اپنی آسائشوں کی سیج سجانا بے غیرتی ہے۔

محنت کرنے والے پیشہ ور اور چھوٹے چھوٹے کاروبار سے منسلک لوگ عام طور پر اتنے خوش حال نہیں ہوتے کہ اپنی ہر ضرورت پوری کر سکیں اس لئے وہ دنیا داروں کی نظر میں نہیںجچتے۔ وہ انہیں کم نصیب اور بے حیثیت سمجھتے ہیں اورحقیر نظروں سے دیکھتے ہیں اور اپنی کوتاہ نظری یا کم ظرفی اور کمینگی کی وجہ سے کوئی سماجی مقام دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے مگر یہی لوگ اپنی محنت و مشقت اور ہنرمندی کے ساتھ حلال کمائی کرنے کی وجہ سے اتنے معزز ہوتے ہیں کہ اللہ ان سے محبت فرماتا ہے اور پسینے میں شرابور ‘ بد بو دار اور میل کچیل میںاٹا ہونے کے باوجود ان سے نفرت نہیں فرماتا بلکہ ان کے اس جذبہ عمل اور جوش و خروش کے ساتھ محنت کرنے کی وجہ سے انہیں اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔ وجہ یہ کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل میں حلال و طیب کمائی کے حصول کے لیے کوشاں ہوتے ہیں اور اپنی غیرت و خود داری کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

محنت و مزدوری کے فضائل

احادیث مبارکہ میں محنت مزدوری کے جو فوائد اور بندہ مزدور کے جو فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ آیئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں:

ان الله يحب العبد المحترف

(مسند احمد)

’’ بے شک اللہ ہنرمند بندے سے بڑی ہی محبت فرماتا ہے‘‘۔

ان الله يحب ان يری عبده تعبا فی طلب الحلال

(کنزالعمال ج 4، ص4)

’’ بے شک اللہ پسند فرماتا ہے کہ اپنے بندے کو حلال روزی کی تلاش میں تھکا ہوا دیکھے‘‘

3۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں ‘حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اس حال میںشام کی کہ وہ تھک کر چور ہوچکا تھا تو یوں سمجھو گویا اس نے اس حال میں شام کی کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں۔‘‘

(طبرانی)

من کد علی عياله کان کالمجاهد فی سبيل الله

(احمد)

’’جو اپنے اہل و عیال کے لئے محنت و مشقت کرتا ہے وہ گویا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ہے‘‘۔

من طلب الدنيا حلالاً استعفافا عن المسئالة وسعيا علی اهله ‘ و تعطفا علی جاره لقی اﷲ و و جه کالقمر ليلة البدر

’’ جس نے حلا ل راہ سے دنیا طلب کی تاکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ سکے اور اپنے اہل وعیال کو کما کر کھلا سکے اور اپنے پڑوسی کی بھی مدد کر سکے۔ وہ اللہ کے حضور اس شان سے آئے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوگا‘‘۔

(مصنف ابن ابی شيبة، ج4، ص467)

ان اطيب ما اکلتم من کسبکم.

’’ جو تم خود کما کر کھاتے ہو وہ پاکیزہ ترین رزق ہوتا ہے‘‘۔

(سنن ابن ماجة، ج2، ص768)

ان احادیث مبارکہ میں انسان کو واضح ارشادات کے ذریعے اس حقیقت سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ محنت و مزدوری کرنے والا ہنرمند شخص اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔ اس لئے وہ باعث تکریم ہے ‘ محنت و مشقت کے سبب جو اس کے چہرے اور بدن کی رنگت بد ل جاتی ہے اور وہ دھوپ سے جھلس جاتا ہے تو اس کی یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ قیامت کے روز اس کے بدلے میں اسے وہ حسن و جمال عطا کیا جائے گا کہ چودھویں کا چاند بھی شرمائے گا۔

اللہ کے ہاں محنت و مشقت کی حلال کمائی کو جو فضیلت حاصل ہے اس کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو بھی کسب کے ذریعے کھانے کا حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات ہنرمند بھی تھے اور فرائض نبوت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کر کے روزی بھی کماتے تھے۔جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کھیتوں میں ہل چلاتے تھے۔۔۔ جناب ادریس علیہ السلام درزی تھے۔۔۔ جناب نوح علیہ السلام اورحضرت زکریا علیہ السلام ترکھان تھے۔۔۔ جناب لوط علیہ السلام کاشتکار تھے۔۔۔ جناب شعیب علیہ السلام نے ریوڑ پالے ہوئے تھے۔۔۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اپنی بکریاں آپ چراتے رہے۔۔۔ جناب داؤد علیہ السلام زرہ ساز تھے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ابتدائی عمر میں بکریاں چرائیں اور پھر کافی عرصہ تجارت فرماتے رہے۔

ہنر مند اور دستکار ہونا کسی بھی اعتبار سے معیوب نہیں اور نہ ہی یہ دنیا داری ہے۔ چونکہ حلال کمائی کا حکم اللہ پاک نے دیا ہے اور ہنر مند محنتی انسان حلال کی کمائی کیلئے تگ و دو کرتا ہے اس لئے خلوص نیت سے محنت کرنے والے شخص کو چودھویں کے چاند کی طرح خوبصورت بنا دیا جائے گا۔

حضرت کعب روایت کرتے ہیں:

ہم اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ صبح سویرے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک صحت مند بڑے ہی خوبصورت نوجوان کو دیکھا جو نور کے تڑکے محنت و مشقت کیلئے آگیا تھا۔ ہم نے اس کی اس محنت و مشقت کو دنیا وی حرص اور لالچ پرمحمول کیااور کہا کہ اگر یہ شخص اللہ کے راستے میں نکلتا تو کتنا اچھا تھا! اب اس کی ساری تگ و دو کا محور صرف دنیا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایسانہ کہو! اگر یہ نوجوان اس لئے محنت کر رہا ہے تاکہ اسے دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلا نا پڑے تو بھی یہ اللہ کے راستے میں ہے اور اگر یہ ضعیف ماں باپ اور اہل و عیال کے لئے کوشش کر رہا ہے تو بھی یہ اللہ کے راستے میں ہے۔البتہ اگر یہ دوڑ دھوپ اس لئے ہے تاکہ دولت جمع کرے اور دوسروں پر بڑائی جتائے تو شیطان کے راستے میں ہے۔

حضرت کعب بن عجرہ سے مروی مندرجہ بالا واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اپنے ماں باپ اور اہل و عیال کیلئے محنت مزدوری کرنے والا شخص راہ ہدایت پر گامزن ہوتا ہے۔